اتوار، 29 جون، 2025

بھائی کا رشتہ


اسلام اور پاکستانی معاشرت میں بھائیوں کا رشتہ بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔ بھائی نہ صرف خون کا رشتہ ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے سچے ساتھی، محافظ اور دوست ہوتے ہیں۔ اسلام میں بھائیوں کے رشتہ کو بہت بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کی کہانی میں ہمیں بھائیوں کے درمیان محبت، معافی اور درگزر کا ایک اہم پیغام ملتا ہے۔

اسلامی تعلیمات میں بھائیوں کے درمیان تعاون اور محبت کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے:
“تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔”

پاکستانی معاشرت میں بھی بھائیوں کے رشتہ کو بڑی عزت دی جاتی ہے۔ یہاں بھائیوں کے درمیان محبت، اعتماد،
اور مدد کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔ یہ رشتہ خاندان کی بنیاد اور یکجہتی کا ضامن ہوتا ہے۔

میاں محمد بخش نے کہا تھا :
ھائی بھائیاں دے درد ونڈاندے، بھائی بھائیاں دیاں بانہواں
باپ سِراں دے تاج، مُحمّد ! ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
بیویوں کا بھائیوں کے رشتہ میں مداخلت: ایک سنگین مسئلہ
لیکن آج کل ایک مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے، جب شوہر اپنی بیویوں کی باتوں میں آ کر بھائیوں کے رشتہ میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ وہ چھوٹی باتوں کو بڑھا کر پیش کرتی ہیں، جس سے خاندان میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ پاکستانی معاشرتی روایات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
ایسی بیویاں جو اپنے شوہر کو بہکاتی ہیں اور بھائیوں کے درمیان اختلافات بڑھاتی ہیں، وہ دراصل خاندان کی محبت اور سالمیت کو تباہ کرتی ہیں۔ یہ رویہ حسد، کینہ، اور بدگمانی پر مبنی ہوتا ہے جو کسی بھی خاندان کے لیے زہر ثابت ہوتا ہے۔
بھائیوں کے رشتہ کی اہمیت کا شعور
بھائیوں کا رشتہ اسلام اور پاکستانی معاشرت میں بہت قیمتی ہے۔ بیویوں کو سمجھنا چاہیے کہ انہیں اپنے شوہر کو بھائیوں کے درمیان تفریق ڈالنے کی ترغیب نہیں دینی چاہیے۔ اس کے بجائے، انہیں بھائیوں کے رشتہ کو مضبوط کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔
یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے خاندان کی محبت کو کبھی نہ ٹوٹنے دیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ بھائیوں کے رشتہ کو ہمیشہ عزت اور احترام دینا چاہیے تاکہ ا خاندان مضبوط اور خوشحال رہ سکے۔

ہفتہ، 28 جون، 2025

حسنِ ظن

حسن ظن
- ایک اعرا بی کو کہا گیا کہ تم مر جاؤ گے -
اس نے کہاں پھر کہاں جائیں گے ؟
کہا گیا کہ اللہ کے پاس -

عربی کہنے لگا آج تک جو خیر بھی پائی ھے اللہ کے یہاں سے پائی ھے پھر اس سے ملاقات سے کیا ڈرنا ،،




ابن عباسؓ سے ایک بدو نے پوچھا کہ حساب کون لے گا ؟
آپ نے فرمایا کہ " اللہ "
رب کعبہ کی قسم پھر تو ھم نجات پا گئے ،بدو نے خوشی سے کہا -


ایک نوجوان کا آخری وقت آیا تو اس کی ماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی -
نوجوان نے ماں کا ہاتھ پکڑ کر سوال کیا کہ امی جان اگر میرا حساب آپ کے حوالے کر دیا جائے تو آپ میرے ساتھ کیا کریں گی ؟
ماں نے کہا کہ میں تجھ پر رحم کرتے ھوئے معاف کردونگی -
اماں جان اللہ پاک آپ سے بڑھ کر رحیم ھے پھر اس کے پاس بھیجتے ھوئے یہ رونا کیسا ؟


اللہ پاک نے حشر کی منظر کشی کرتے ھوئے فرمایا ھے ،

{ وخشعت الأصوات للرّحمٰن } اور اس دن آوازیں دب جائیں گی رحمان کے سامنے -
اس حشر کی گھڑی میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ " جبار " کے سامنے بلکہ اپنی صفتِ رحمت کا ھی آسرا دیا ھے

تقابل

 






تقابل

تاریخ گواہ ہے کہ بعض شخصیات اپنی تنقید، تلخی اور تیزطراری کی بدولت منظرِ عام پر آتی ہیں۔  ان کا ہنر یہی ہے کہ وہ لفظوں کو نیزے کی طرح برتتے ہیں، جملوں کو تیر کی مانند چھوڑتے ہیں، اور طنز کو ایسی تلوار میں ڈھال دیتے ہیں جس کا زخم مدتوں تازہ رہتا ہے۔

ایسی ہی دو شخصیات کا تقابل سامنے آتا ہے—ایک وہ جو سیاست کے نام پر جیل میں بند ہے، دوسرا جو مزہب کی چمکتی تلوار سونت کر روایات کے خلاف نعرہ زن ہے ۔ دونوں ہی تنقید کر کے مشہور ہوئے۔ ایک نے کسی کو نہ بخشا، اور دوسرے نے کسی کو نہ چھوڑا۔

وہ خود پسند تھا، یہ بھی اپنی ذات کا اسیر ہے۔ وہ زبان کا دھنی تھا، فنِ تقریر کا ماہر، الفاظ کا جادوگر۔ یہ بھی خطابت میں کسی سے پیچھے نہیں، مگر دونوں کی زبان میں شیرینی کی جگہ کڑواہٹ ہے۔ نہ وہ مروّت کا قائل تھا، نہ یہ لحاظ برتنے کا عادی ہے۔

وہ پگڑیاں اچھالتا تھا، یہ روایات کو روندتا  ہے۔ اس کی زبان تیز تھی، اس کی بھی تلخ ہے۔ وہ باہر نکلتا تو اپنے جانثاروں کی معیت میں، نعرے بلند کرتا، ہجوم کو گرما دیتا۔ یہ البتہ مصلحت کی چادر اوڑھے، ایک فاصلے سے بولتا ہے، مگر وار اس کا بھی کم نہیں ہوتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں وہ سیاست دان ہوتے ہوئے مذہب کی چاشنی شامل کرتا تھا، وہیں یہ مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے سیاست کا تڑکا لگانا ضروری سمجھتا ہے۔ ایک نے مذہب کو سیاست میں برتا، دوسرے نے سیاست کو مذہب میں گوندھا۔ فرق صرف زاویے کا ہے، 

دونوں ہی خود کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ وہ دانا کہلاتا تھا، یہ دانا بن بیٹھا ہے۔ مگر ایک فرق نمایاں ہے: وہ بات کر کے بھول جاتا، یہ بات کر کے یاد رکھتا ہے۔ وہ دل کا صاف تھا، چوٹ لگاتا اور آگے بڑھ جاتا؛ یہ دل میں گرہ باندھتا ہے، اور موقع پا کر گرہ کھول کر دکھاتا ہے۔

وہ نئی نسل کا  سوشل میڈیا پر ہیرو تھا، یہ بھی نوجوانوں کے دل کی دھڑکن ہے۔ وہ  اونٹ کی طرح کینہ  پرور تھا،یہ لومڑی کی طرح مکار 


آذربائیجان




آذربائیجان

دنیا کے سیاسی نقشے پر آذربائیجان ایک نسبتاً چھوٹا مگر تزویراتی اہمیت کا حامل ملک ہے، جو قفقاز کے پہاڑوں، بحیرہ کیسپین، ایران، روس، ترکی اور آرمینیا کے درمیان واقع ہے۔ اس جغرافیائی محلِ وقوع نے اسے کئی طاقتوں کے درمیان پل اور میدانِ عمل بنا دیا ہے۔
اگرچہ آذربائیجان ایک مسلم اکثریتی شیعہ ملک ہے، لیکن اس کے اسرائیل سے تعلقات حیرت انگیز طور پر گہرے، پائیدار اور اسٹریٹجک ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آذربائیجان ایران کے ساتھ نرم رویہ اور مذہبی وابستگی بھی رکھتا ہے۔ یہ دوہری پالیسی — ایک طرف اسرائیل کا قریبی دفاعی اتحادی، اور دوسری طرف ایران کا مذہبی و تہذیبی بھائی — خود ایک سیاسی معمّا بن چکی ہے۔
اس مضمون میں ہم اس گہرے تضاد، اس کے اسباب اور اس کے پس پردہ چلنے والے نظریات، مفادات اور تاریخی عوامل پر روشنی ڈالیں گے۔
آذربائیجان اسرائیل کا بھارت کے بعد دوسرا بڑا اسلحہ خریدار ملک ہے۔
دو ہزار سولہ سے دو ہزار تیئیس کے درمیان آذربائیجان نے اسرائیل سے دس ارب ڈالر سے زائد مالیت کے ہتھیار، ڈرونز، سائبر ٹیکنالوجی اور میزائل سسٹم خریدے۔
اسرائیلی ہتھیاروں کی بدولت آذربائیجان نے دو ہزار بیس کی نگورنو-کاراباخ جنگ میں آرمینیا کو شکست دی۔
ایران کی سرحد پر واقع آذربائیجان اسرائیل کے لیے ایک انٹیلیجنس ہب ہے۔ اسرائیلی خفیہ ادارے "موساد" یہاں سے ایران پر نظر رکھتے ہیں۔
کچھ رپورٹس کے مطابق اسرائیل کو آذربائیجان کی سرزمین سے ایران کے خلاف ڈرونز اور خفیہ آپریشن کی سہولت بھی ملی ہے۔
آذربائیجان اسرائیل کو خام تیل کا ایک اہم سپلائر ہے، جو اسرائیل کی مجموعی تیل ضرورت کا چالیس فیصد تک پورا کرتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان زرعی، طبی اور تکنیکی تعاون بھی موجود ہے۔
یہ بات بظاہر متضاد محسوس ہوتی ہے کہ ایک شیعہ اکثریتی ملک اسرائیل جیسے یہودی ریاست کے ساتھ اتنا قریبی تعاون رکھے۔ مگر آذربائیجان کی حکومت مذہبی کے بجائے سیکولر اور قوم پرست پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
حکومت کی پالیسی واضح طور پر ایرانی طرز کے مذہبی نظام سے فاصلہ اختیار کرتی ہے۔
آذری قیادت "اسلامی انقلاب" کے پھیلاؤ کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتی ہے، خاص طور پر ایران کی مذہبی اثر انگیزی کو۔
عوام مذہب سے جڑے ہوئے ہیں، مگر ریاست کا مزاج عملی مفاد پرستانہ ہے۔
ایران میں دو کروڑ سے تین کروڑ آذری نژاد لوگ بستے ہیں، جو ایرانی فوج، معیشت اور سیاست میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
ایران کے مذہبی مراکز، جیسے قم و مشہد، آذری عوام کی عقیدت کا مرکز ہیں۔
عاشورا، عزاداری، امام علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت دونوں قوموں میں مشترک ہے۔
ایران، آذربائیجان کو "صہیونی اتحادی" اور ترکی کے ایجنڈے کا حصہ سمجھتا ہے۔
آذربائیجان، ایران پر الزام لگاتا ہے کہ وہ آرمینیا کا خفیہ حمایتی ہے۔
ایرانی رہنماؤں نے آذربائیجان کو کئی بار "غیراسلامی" پالیسیوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایران اگرچہ آذربائیجان کی اسرائیل نواز پالیسی سے ناخوش ہے، مگر اس پر کھل کر حملہ نہیں کرتا کیونکہ ایران کے اندر آذری برادری بغاوت کا شکار ہو سکتی ہے۔
مذہبی جذبات کو سیاسی تنازعات سے الگ رکھنے کی مجبوری ہے۔
تو پھر آذربائیجان ایران کی حمایت کیوں کرتا ہے؟
یہ ایک انتہائی نازک توازن ہے۔ آذربائیجان ایران کے خلاف واضح جنگی پوزیشن نہیں لیتا تاکہ اپنی مذہبی شناخت اور اندرونی استحکام کو بچا سکے۔
شیعہ دنیا میں تنہا ہونے سے بچنے کے لیے ایران سے نرم لہجہ اختیار کرتا ہے۔
اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس میں ایران کے خلاف ووٹ سے گریز کرتا ہے تاکہ مسلمان دنیا میں امیج متوازن رہے۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو فوجی و معاشی دائرہ میں محدود رکھتا ہے تاکہ مذہبی مخالفت نہ ابھرے۔
کیا مذہب مالی مفادات پر حاوی ہو سکتا ہے؟
یہ سوال ہر ملک کے اپنے قومی مفاد، عوامی مزاج، اور ریاستی نظریے پر منحصر ہوتا ہے۔
اگر حکومت سیکولر ہو اور ریاست کا مفاد مذہب سے بالا ہو تو مالی مفادات مقدم ٹھہرتے ہیں۔
اگر ریاست مذہبی نظریات پر قائم ہو، جیسے ایران، تو وہاں مذہب معاشی تعلقات کو روک بھی دیتا ہے (مثال کے طور پر ایران اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، چاہے اسے نقصان ہی کیوں نہ ہو)۔
آذربائیجان کی مثال بتاتی ہے کہ مذہب عوام کا جذبہ ہو سکتا ہے، مگر فیصلہ کن قوت ریاستی مفاد ہوتا ہے۔
آذربائیجان اور اسرائیل کا رشتہ ایک خالص اسٹریٹجک شراکت داری ہے، جو دفاع، معیشت اور انٹیلیجنس پر قائم ہے۔ دوسری طرف، ایران کے ساتھ آذربائیجان کا رشتہ مذہبی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر نرم اور محتاط ہے۔
یہ تضاد ہمیں بتاتا ہے کہ آج کی دنیا میں دوستی کا پیمانہ نہ عقیدہ ہے، نہ دشمنی کا معیار مذہب — بلکہ اصل مرکز 'قومی مفاد' ہے۔
اسرائیل آذربائیجان کو ایک اتحادی سمجھتا ہے، مگر آذربائیجان ایران کو ایک مذہبی بھائی کے طور پر ناراض نہیں کرنا چاہتا۔ یہی توازن اس کی سفارتی حکمت عملی کی جھلک ہے۔

اسرائیل کی نئی دھمکی

اسراہیل کی نئی دھمکی

دنیا میں جب جنگ چھڑتی ہے تو اصول، اخلاقیات اور عالمی قوانین سب خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ اس وقت اسی صورتحال کا شکار ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ خطے میں جاری کشیدگی نئے سنگین حقائق کو جنم دے رہی ہے۔ تازہ ترین اور حیران کن انکشاف اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے کیا ہے، جنہوں نے اعتراف کیا کہ حالیہ ایران اسرائیل کشیدگی کے دوران اسرائیل نے ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

اسرائیلی وزیرِ دفاع کے مطابق، 13 جون سے 25 جون 2025 کے دوران جاری بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کی اولین ترجیح ایرانی قیادت کو کمزور کرنا اور فیصلہ کن وار کرنا تھا۔ کاتز نے کھلے الفاظ میں کہا کہ "اگر خامنہ ای ہمارے نشانے پر آ جاتے، تو ہم انہیں ختم کر دیتے۔" لیکن اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوج اس وقت حیران رہ گئی جب خامنہ ای زیرِ زمین چلے گئے اور اپنے تمام اہم کمانڈرز اور مشیروں سے رابطے مکمل طور پر منقطع کر دیے۔

یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کی اعلیٰ قیادت نے کھلے عام تسلیم کیا کہ جنگ کے دوران ایران کے سپریم لیڈر کو قتل کرنا ان کے ایجنڈے کا حصہ تھا۔ مغربی دنیا اور اسرائیل بظاہر "ریاستی قتل" کو مسترد کرتے ہیں، لیکن جب ان کے اپنے مفادات خطرے میں پڑتے ہیں تو تمام عالمی اصول اور اخلاقیات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

کاتز نے واضح طور پر کہا کہ اسرائیل کو ایسی کارروائیوں کے لیے امریکہ یا کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام میں پیش رفت کرتا ہے تو اسرائیل کو "گرین سگنل" حاصل ہے کہ وہ دوبارہ کارروائی کرے۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں کہا جا رہا ہے جب امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کو محض چند دن گزرے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل خود کو مظلوم ظاہر کرتا ہے، دوسری جانب اس کے وزیرِ دفاع کھلے عام دوسرے ملک کے سربراہ کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہیں۔

کاتز نے طنزیہ انداز میں خبردار کیا کہ خامنہ ای کو زیرِ زمین رہنے میں ہی بہتری ہے، جیسا کہ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ برسوں سے چھپ کر زندگی گزار رہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ محض میزائلوں اور ڈرونز تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب قیادت کی سطح تک جا پہنچی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آئندہ ایسی کوئی کارروائی کامیاب ہو جاتی ہے تو خطے میں طاقت کا توازن مکمل طور پر بگڑ جائے گا اور دنیا کو اس کے خوفناک نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

ایران نے اس اعتراف پر باضابطہ ردِعمل نہیں دیا، لیکن بظاہر تہران خاموش رہ کر اس سازش کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر مشرقِ وسطیٰ کے دن مزید خطرناک اور غیر یقینی دکھائی دے رہے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ، امریکہ اور یورپی طاقتیں اس کھلے اعتراف پر کیا ردِعمل دیتی ہیں یا ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔ لیکن اتنا طے ہے کہ جب ایک ریاست خود دوسرے ملک کی اعلیٰ قیادت کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرے اور اس کا کھلے عام اعتراف بھی کرے تو عالمی امن صرف ایک دکھاوا بن کر رہ جاتا ہے