منگل، 10 جون، 2025

طریقِ ہجرت

 

طریقِ ہجرت – نبی کریم ﷺ کے مقدس سفر کی یادگار

اسلامی تاریخ کا وہ لمحہ جس نے دنیا کے نقشے پر ایک انقلابی تبدیلی کی بنیاد رکھی، ہجرتِ نبوی ﷺ ہے۔ یہ صرف ایک سفر نہ تھا بلکہ صبر، ایمان، قربانی، اور اللہ پر مکمل بھروسے کی علامت تھا۔ جب مکہ مکرمہ میں اسلام دشمن قوتیں نبی اکرم ﷺ اور آپ کے جانثار صحابہؓ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگیں، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی ﷺ نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی۔ یہی مقدس راستہ آج "طریقِ ہجرت" کے نام سے تاریخ کے اوراق سے نکل کر ایک زندہ و جاوید حقیقت بن رہا ہے۔

حالیہ دنوں میں گورنر مدینہ، سلمان بن سلطان، نے طریقِ ہجرت کے عظیم منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کر دیا ہے۔ یہ جدید سڑک 470 کلو میٹر طویل ہو گی اور دو رویہ ہوگی تاکہ زائرین اور سیاحوں کو آسانی سے اس روحانی سفر کا تجربہ حاصل ہو سکے۔

یہ سڑک محض ایک سفری سہولت نہیں بلکہ ایک مکمل تاریخی اور روحانی تجربہ ہے۔ اس منصوبے کا سب سے اہم پہلو وہ 41 مقامات ہیں جہاں سیرت سینٹرز قائم کیے جائیں گے۔ یہ سینٹر نبی کریم ﷺ کی ہجرت کے مختلف مراحل، پیش آنے والے واقعات، اور صحابہ کرامؓ کی قربانیوں کو جدید ذرائع کے ذریعے زائرین کے سامنے پیش کریں گے۔ ان سینٹرز میں تصویری گیلریاں، مجسمے، دستاویزی فلمیں، اور سمعی و بصری ذرائع سے سیرتِ نبوی ﷺ کو اجاگر کیا جائے گا۔

نبی کریم ﷺ کی ہجرت کا راستہ پہاڑوں، وادیوں اور صحراؤں سے گزرتا ہے۔ غارِ ثور کی رات، حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ہمراہی، دشمنوں کی تلاش، اور اللہ کی غیبی مدد—یہ سب واقعات آج بھی مسلمانوں کے دلوں کو روشنی عطا کرتے ہیں۔ اب یہی مقامات زائرین کو نہ صرف تاریخی آگاہی دیں گے بلکہ ان کے ایمان کو تازگی بھی بخشیں گے۔

طریقِ ہجرت کے قیام سے نہ صرف مسلمانوں کو سیرتِ نبوی ﷺ کو قریب سے جاننے کا موقع ملے گا بلکہ یہ منصوبہ بین الاقوامی سطح پر اسلامی تہذیب اور تاریخ کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔ مدینہ اور مکہ کے درمیان یہ راستہ اب عقیدت، تاریخ اور جدید ترقی کا حسین امتزاج ہوگا۔

War Hysteria: How Modi Is Using Fear to Mask Failure

War Hysteria: Modi Government’s Tactic to Distract from Its Failures



India today finds itself trapped in a deep economic, social, and political quagmire. To escape it, the country needs serious reforms, national unity, and a leadership focused on public welfare. But instead, the path chosen by Narendra Modi’s government is not only misguided—it is dangerously deceptive.

Unemployment is at record highs. Millions of citizens struggle for basic sustenance. Educational institutions are crumbling, and healthcare is woefully inadequate. The youth are slipping into frustration, despair, and sometimes violence. Yet instead of addressing these urgent challenges, the government has chosen to promote a narrative rooted in war, hostility, and fear.

The Modi regime persistently pushes the idea that India’s poverty and deprivation will end only when it defeats its neighboring countries—Pakistan, Bangladesh, and Nepal. By portraying these nations as enemies, it sells the illusion that regional dominance is the key to national prosperity. It’s an emotional, but deeply unrealistic message being drilled into the public consciousness.

The reality is stark: no military pressure on neighbors can cure India’s internal decay. War cries will not turn slums into homes, nor fill the stomachs of the hungry. They will not improve schools, nor stock empty hospitals with medicine.

This narrative is an old political ploy: when a government fails to deliver, it invents external enemies to divert attention from domestic problems. Modi’s government is doing precisely this—keeping the public occupied with manufactured threats while real issues go unaddressed.

The critical question is:
Will defeating Pakistan fix India’s economy?
Will pressuring Bangladesh generate jobs for India’s unemployed millions?

The answer is obvious—no.

The Indian public must come to terms with this truth: the real war is not against its neighbors, but against poverty, ignorance, injustice, and corruption. And if India invests its resources in social welfare instead of military bravado, it might actually rise as a prosperous and respected nation.

Otherwise, the current path leads only to destruction, not only for india but for her neighbourers.


پیر، 9 جون، 2025

صاف ستھرا پنجاب



یقین کیجیے، عید الاضحیٰ 2025 کے موقع پر پنجاب میں صفائی کے انتظامات نے ہر دل کو خوش کر دیا۔ اس بار صورتحال مختلف تھی کیونکہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ذاتی دلچسپی لیکر صفائی مہم کو اپنی اولین ترجیح بنا لیا تھا۔ ان کا وژن تھا کہ عید کی خوشیاں شہر و دیہات میں صفائی کی خوبصورتی کے ساتھ منائی جائیں تاکہ شہریوں کو نہ صرف سکون ملے بلکہ ماحول بھی صاف ستھرا ہو۔

وزیر اعلیٰ کی نگرانی میں پنجاب بھر میں صفائی کے ایک منظم اور وسیع منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ 180,000 سے زائد صفائی کارکنوں کو متحرک کیا گیا اور 36,000 سے زائد گاڑیاں، ہزاروں بیلچے اور ہینڈ کارٹس ہر شہر کے کونے کونے تک پہنچائے گئے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک نظم و ضبط اور سنجیدگی کی علامت تھی جو وزیر اعلیٰ کی قیادت میں ممکن ہو سکی۔

لاہور ڈویژن میں خصوصی توجہ دی گئی جہاں 754 کیمپ قائم کیے گئے تاکہ شہری آسانی سے قربانی کی آلائشیں جمع کرا سکیں۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر صفائی کے عمل کی نگرانی کے لیے سیف سٹی اتھارٹی اور ڈرون کیمرے بھی استعمال کیے گئے، تاکہ کوئی کمی بیشی نہ رہے۔ بدبو کو ختم کرنے کے لیے لاکھوں لیٹر گلاب کے پانی اور فینائل کا استعمال ہوا، جو اس مہم کی باریکیوں کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ صفائی مہم محض ایک انتظامیہ کی کوشش نہیں بلکہ ایک وژن تھی جس نے پنجاب کو صاف ستھرا اور خوشبودار بنایا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی نے ثابت کیا کہ اگر قیادت سنجیدگی سے کام کرے تو معمولی مسائل بھی عظیم کامیابیوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اس عید پر، پنجاب نے نہ صرف قربانی دی بلکہ صفائی کے جذبے کی بھی قربانی دی، جس کا سہرا بلا شبہ وزیر اعلیٰ کی قیادت کو جاتا ہے۔

یہی جذبہ ہے جو ہمارے معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا، اور یہی مثال باقی صوبوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔

فریڈم فلوٹیلا 2025 کیا ہے





فریڈم فلوٹیلا کولیشن 
(Freedom Flotilla Coalition - FFC)
 ایک بین الاقوامی اتحاد ہے جو 2008 سے ایسے بحری مشن ترتیب دے رہا ہے جن کا مقصد اسرائیل کی غزہ پر عائد بحری ناکہ بندی کو توڑنا اور انسانی امداد براہِ راست فلسطینی عوام تک پہنچانا ہے۔ جون 2025 کا مشن انہی کوششوں کا تازہ تسلسل ہے۔
اس مشن میں شامل کشتی کا نام "مدلین" 
(Madleen)
 رکھا گیا، جو کہ ایک فلسطینی ماہی گیر خاتون مدلین کلاب کے نام سے منسوب ہے۔ کشتی نے 1 جون 2025 کو اٹلی کے شہر کاتانیا سے روانگی اختیار کی۔
کشتی میں بنیادی امدادی اشیاء موجود ہے ۔ اس  میں 
بچوں کا دودھ (فارمولا)
آٹا، چاول، دالیں
ڈائپرز
ابتدائی طبی امداد کی کٹس
بچوں کے مصنوعی اعضاء
پانی صاف کرنے والے یونٹس
 کشتی میں شامل نمایاں افراد
گریٹا تھنبرگ (ماحولیاتی کارکن)
ریما حسن (فرانسیسی-فلسطینی MEP)
عمر فیاض (صحافی)
تھیگو ایویلا (برازیلی کارکن)
سرجیو توریبیو (ہسپانوی کارکن)
یہ عملہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً درجن بھر کارکنوں پر مشتمل تھا۔
 مئی 2025 کا حملہ
اس سے قبل 2 مئی 2025 کو فلوٹیلا کی پہلی کشتی
 "Conscience"
 پر مالٹا کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ڈرون حملہ ہوا تھا۔ اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا گیا، کیونکہ ایک اسرائیلی C-130
 طیارہ اس علاقے میں موجود تھا۔
8
 جون کو مدلین کشتی پر ڈرونز کے ذریعے سفید رنگ جیسا مادہ چھڑکا گیا جو سانس اور آنکھوں میں جلن پیدا کر رہا تھا۔ اسی دن اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں کشتی پر دھاوا بول کر اسے قبضے میں لے لیا اور اسے اشدود بندرگاہ منتقل کر دیا گیا۔ عملے کو حراست میں لے کر بعد ازاں ملک بدر کرنے کی تیاریاں کی گئیں
اسرائیلی حکام نے کہا کہ یہ کارروائی بحری ناکہ بندی کے تحت "قانونی" ہے اور فلوٹیلا کے شرکاء دراصل "حماس کے حامی" ہیں۔ وزیر دفاع اسرائیل کاتز نے فوج کو "تمام ضروری اقدامات" کی ہدایت جاری کی۔
فریڈم فلوٹیلا کولیشن نے اسے اسرائیل کی جانب سے "قزاقی" قرار دیا اور کہا کہ کشتی بین الاقوامی پانیوں میں تھی۔ ان کا مؤقف تھا کہ وہ انسانی امداد لے کر جا رہے تھے اور ان کا مشن پرامن اور قانونی ہے۔
اسرائیل کی اس کارروائی پر دنیا بھر میں تنقید کی گئی۔ فرانس، اسپین، اور دیگر یورپی ممالک نے احتجاج کیا۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔
 مشن کے بنیادی مقاصد
فلسطینی عوام کے لیے علامتی و حقیقی امداد پہنچانا
غزہ کی ناکہ بندی کو قانونی و اخلاقی سطح پر چیلنج کرنا
عالمی میڈیا اور عوام کی توجہ غزہ کے انسانی بحران کی طرف مبذول کرانا
یہ مشن مکمل طور پر علامتی نوعیت رکھتا ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی مقصد دنیا کو جگانا، اسرائیلی پالیسیوں کو بے نقاب کرنا، اور غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی ظاہر کرنا تھا۔ اس سے قبل 2010 میں ماروی مرمرہ فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے میں 10 کارکن شہید ہوئے تھے، جس سے عالمی سطح پر سخت ردعمل پیدا ہوا تھا۔


حقیقی آزادی



کہتے ہیں انسان نے آگ جلانا سیکھا، شکار کرنا سیکھا، زبان بنائی، شہر آباد کیے —
مگر وہ خوف سے کبھی آزاد نہ ہو سکا۔
وہ غار کے دور میں بھی ڈرتا تھا — اندھیری راتوں، درندوں اور گرجدار بادلوں سے۔
اور آج… وہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی ڈرتا ہے — افلاس سے، عذاب سے، بیماری سے، دوزخ سے، موت سے۔
یہ خوف — کبھی مذہب کے لبادے میں آتا ہے، کبھی دنیاوی محرومیوں کے روپ میں، اور کبھی انسان کے اپنے نفس سے۔
تاریخ میں مارٹن لوتھر کے زمانے کا واقعہ درج ہے کہ
ایک کسان نے انڈ لجنس
indulgence
خریدنے کے بعد وہ سوال کر لیا جو خوف کی بنیاد ہلا گیا:
"اگر میں قتل کر دوں، تو کیا بچ جاؤں گا؟"
"ہاں!" پادری نے اطمینان سے جواب دیا۔
اور کسان نے اُسے قتل کر دیا — کیونکہ معافی نامہ وہ پہلے ہی خرید چکا تھا۔
یہاں ہر محلے میں ایک پیر، ہر چینل پر ایک مبلغ، ہر فیس بک پیج پر ایک مجازی شیخ موجود ہے۔
وہی خوف بیچا جا رہا ہے — صرف انداز بدلا ہے۔
چندہ نہ دیا؟ خدائی عذاب!
کسی فقیر کو انکار کیا؟ رزق بند ہو جائے گا!
فلاں بزرگ کے مزار پر حاضری نہ دی؟ سانحہ ہو جائے گا!
سوال کر لیا؟ ایمان خطرے میں ہے!
اس کے عالوہ
غربت کا خوف، بے روزگاری کا خوف، کاروبار کے تباہ ہونے کا خوف، فصل نہ اُگنے کا خوف، بچوں کے بچھڑنے کا خوف…
ان سب خوفوں کے بیچ انسان جیتا نہیں، بس زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔
لیکن ان سب خوفوں سے بڑا ایک ہی ہے: موت کا خوف۔
موت — جو کسی وقت، کسی شکل میں آ سکتی ہے۔
اور اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے: موت کے بعد کا انجام۔
کیا ہم نجات پائیں گے؟
کیا بخشش ممکن ہے؟
یا ہم ہمیشہ کی آگ میں جھونک دیے جائیں گے؟
یہ سوالات صرف مذہب سے وابستہ نہیں، یہ انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔
خوف… کیا ہمیشہ برا ہے؟
نہیں۔
خوف کبھی کبھی تحفظ دیتا ہے۔
دوزخ کا خوف ہی ہے جو ہمیں جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔
غربت کا اندیشہ ہی ہمیں محنت پر اکساتا ہے۔
اپنوں کے بچھڑنے کا ڈر ہمیں ان کی قدر سکھاتا ہے۔
لیکن…
جب خوف انسان کی آزادی، رائے، ضمیر اور سوال کو کچلنے لگے —
تو وہ صرف ایک شکنجہ ہوتا ہے، ایک اندھی تقلید کا بوجھ، جس کے نیچے انسان سانس لینا بھول جاتا ہے۔
نجات کا واحد دروازہ: سچائی اور شعور
قرآن کہتا ہے:
"فَلا تَخافُوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ"
(ان سے نہ ڈرو، مجھ سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو)