اتوار، 11 فروری، 2018

ابابیلوں کا ذکر


                                                                      

حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ


حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ
جب ابرہ کی افواج مکہ مکرمہ کے قربب پہنچ گئی اور مالک کعبہ، جو طاقت و قوت ، قدرت و استعداد میں لاثانی ہے ، کی فوج نمودار ہوئی ۔ یہ ابابیل نام کا پرندہ تہا ۔جو ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں اٹہائے، کنکریوں سے لیس تہا ۔ یہ کمزور چڑیاں ،طاقتور ہاتہیوں کے خالق کے حکم سے اپنے رب کی طاقت کا مظہر بنیں ۔ چڑیوں کو کون کیسے روکے ۔ کنکر نے ہاتہی ، گہوڑے یا سوار کو کہایا ہوا بہس بنانے میں کچہ تمیز نہ کی ۔ مالک کی چاہت یہ تہی کہ وہ ابن آدم کو یاد دہانی کرا دے کہ قوت ، طاقت ، سدا غلبہ اور حکم اسی واحد و احد اور اکیلے کا ہے ۔ بے شک قہر و جبر اورانتقام اس کی صفات ہیں مگر اس نے خود ہی رحمت ، درگذر ،معافی اور کرامت کو اپنی دوسری صفات پر غالب کر لیا ہے ۔اللہ کو پسند نہیں کہ کوئی دشمن مکہ میں داخل ہو، کوئی ابرہ ہو کہ مشرک ہو کہ کافر ہو ،اللہ کے گہر کو تباہ کرنے کی نیت سے آنے والوں کی باقیات عجائب گہر میں داستان عبرت ہیں اور بیت اللہ بصورت کعبہ آج بہی صیح و سالم موجود ہے ۔ اے راہیا، تیرا نفس ہی تیرا دشمن ہے اور تیرا قلب تیرا کعبہ ہے تیرا کعبہ ضرور دشمن کے حملہ کی زد میں آئے گا اور تیرا بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے اس مالک کی طرف متوجہ ہوں جو کعبہ کی حفاظت کے لیے ابابیلیں بہیجتا ہے اور التجا کرتا ہوں کہ میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک ابابیل بہیج دے۔جیسے بییت اللہ مکہ شہر میں ہے اور اسکی حفاظت کے لیے اللہ نے دشمن کی فوج کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا، میری التجا یہ ہے کہ میرے کعبہ قلب کی حفاظت کے لیے ابابیلوں کا لشکر بہیج تاکہ میرا دشمن ، ابلیس، شہر سے باہر ہی روک لیا جائے ، اس بظاہر طاقتور دشمن سے بچنا محال ہے الا یہ کہ تیری رحمت کی ایک ابابیل میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے آئے ۔ اللہ نے اپنےگہر کی حفاظت کے لیے لشکر بہجوایا مگر میرے دل کے کعبہ کی حفاظت کے لیے رحمت کی ایک ابابیل ہی کافی ہے۔تیری بہجوائی ہوئی رحمت کی اکلوتی ابابیل بطور حفاظت میرے شہر پر پرواز کرتی رہے اور میرے شہر سے باہر جب ‘تو ہی تو’ کی آنے والی آواز مدہم ہونے لگے تو یہی میرے خوف اور مدد کے لیے پکار ہو گی ۔میرا شہر کچی خاک سے بنا ہوا جسم ہے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں ، لیکن اس کی حفاظت صرف تیرے ذکر طیب ہی سے ممکن ہے ۔اس دنیا میں میرے پاس ٹہکانہ بس ایک کچی مٹی کا جسم ہے اور میرا نفس [ابرہ] اسے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کی حفاظت تب ہی ممکن ہے کہ تیری ابابیل رحمت مدد گار رہے ورنہ یہ کچا ٹہکانہ بہی نہ رہے گا ۔میں بہت گناہ گار اور نکما ہوں ، میرے پاس کوئی اچہا عمل بہی نہیں ۔ تیرے سامنے آنے کے لیے شکستہ اعمال باعث شرمساری ہیں مگر تیری رحمت ہی کا سہارا اور امید ہے ۔میں تیری رحمت کے نور میں رہوں اور تیرے معزز و مکرم محبوب نبی کے صدقے ان کی راہ میرے لیے منور رہے ۔ کہ تاریکی میں گمراہی سے محفوظ رہوں ۔میرے سامنے طویل سفر ہے ، راہ کی طوالت اور صعوبتوں کا احساس ہی نہ کیا ، سواری بہی نہ خریدی ،میں نے تو اور ہی خریداریوں میں زیادہ وقت گزار دیا ہے ۔میرے طویل سفر کی راہ مشکل، تاریک اور انجانی ہے، تیری رحمت کے نور میں ایسا رہنماء ساتہی ہو کہ راہ سہل ، منزل روشن تر ہو۔
محمد افسر راہیا [1922 -2014 راولپنڈی] راہ سلوک کے مسافر ، اور نعت گو شاعر تہے ۔ان کی تین مطبوعہ کتب پنجابی پوٹہواری میں ہيں ۔

ہفتہ، 10 فروری، 2018

جھوٹ کے سوداگر

کراچی میں نقیب اللہ محسود کو راو انور نامی ایک پویس افسر نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا ۔ نقیب کے دوستوں نے کراچی میں اس پراحتجاج شروع کیاتو سول سوسائٹی اور پولیس گردی کے شکار لوگوں نے ہی نہیں پورے ملک سے اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھی۔ پاکستان میں عوام کی قسمت کی ٹوکری نا انصافیوں کے وزن سے اس قدر بھاری ہو چکی ہے کہ عوام اس وزن سے ہانپ رہی ہے، وہ ہر نا انصافی پر چیخ اٹھتی ہے ۔ پاکستانی عوام کی مثال اس بوڑہی کی طرح ہے جس کو ہر ماتم پر اپنا جوان مرا ہو بیٹا یاد آجاتا ہے اور وہ دوسروں کے ماتم پر حقیقی آنسووں سے روتی ہے۔
نقیب اللہ محسود کے والد اور اس کے عزیزو اقارب ابھی کراچی پہنچے ہی تھے کہ جرگے کو برخاست کر دیا گیا۔ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو معلوم ہوا کہ اسلا�آباد میں دھرنا دیا جا رہا ہے جس کامقصد نقیب محسود کے قاتل راو انور کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑوان شہر کے باسیوں نے اپنے دور سے آئے مہمانوں کی ، جو اپنے بے گناہ مقتول بیٹے کے لئے انصاف مانگنے آئے ہیں، کے لئے اپنے دل و در واکر دیے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ریلی نکالی گئی ،بتایا گیا ، اس ریلی کا مقصد اسلام آباد میں موجود پر امن قبائلی جرگے کے ساتھ یک جہتی ہے ۔ مگر جب ریلی ختم ہوئی تواس کی باقیات میں ایک جلتی گاڑی، سلگتے دفتر اور خوفزدہ انسا نوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر ابھریں۔ لوگ ابھی ان حالات پر انگشت بدندان ہی تھے کہ سوموار والے دن سوشل میڈیا پر پختوں لانگ مارچ کی ہمدردی میں ٹویٹس میں ایک نیا رنگ پیدا ہوا ، اس میں سب سے چکمدار رنگ افغانستان کے صدر کا تھا۔اس سال کا افتتاح امریکہ کے صدر نے اپنے ایک پاکستان مخالف ٹویٹ سے کیا تھا۔ اس سے دو ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ نے کوریا میں بیان دیا تھاکہ اگر پاکستان نے ڈو مور کے امریکی مطالبے پر عمل نہ کیاتو اپنے کچھ علاقوں پر حکمرانی سے محروم ہو سکتا ہے۔
قوالی گائیکی کا ایک انداز ہے جو بر صغیرمیں پایا جاتا ہے، علاقوں پر قبضے کی جنگ کے درمیان ٹویٹس کی قوالی کا پہلا مصرعہ کوریا ایک امریکی نے گایا ہے، واشنگٹن نے ساز کو چھیڑا ہے اور کابل نے سر میں سر ملا کر اپنا کھایا پیا حلال کیا ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں ، موٹی توند والے، بہت لوگ بھارت اور خود پاکستان کے اندر سے اس قوالی کا حصہ بنیں گے۔مگر تاریخ سے بے بہرہ اور چمک کے شیدائی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قبائل وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے والی بہادر ماوں کا دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں اور محنت مزدوری کو پرائے ڈالروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اپنی آزادی چمک اور مفروضوں پر قربان نہیں کرتے بلکہ آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستان کے دفاع میں اس علاقے میں یہ اسلام اور پاکستان کا پہلا دفاعی حصار ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جب یہ کہتے ہیں ْ وہ مسلم جن کا نشانہ کابل ہے ، ایک دن یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد ، کابل کی نسبت آسان ہدف ہے ْ تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن کو وہ مسلم کہتے ہیں وہ مسلمان ہیں ان کا ہدف کابل نہیں بلکہ غیر ملکی طاقتوں کا افغانستان سے انخلاء ہے۔اور غیر ملکی فوجوں کو ایک دن افغانستان سے جانا ہی ہوگا۔ ایک زمانہ تھا جب امریکہ کی دھمکی پر حکمرانوں کی پتلون ڈھیلی ہو جاتا کرتی تھی۔امریکہ اس بات پر متعجب ہے کہ اس کی ایک فون کال پرڈھیر ہو جانے والوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ کسی دھمکی پر خوفزدہ ہی نہیں ہوتے۔ امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ لیٹ جانے والے فرد تھے وہ قوم کے نمائندے نہیں تھے ۔ اب امریکہ کا پالا عوام کے منتخب کردہ رہنماوں سے ہے۔ فاٹا سے جو لوگ الیکشن جیت کراسمبلی میں پہنچے ہیں وہ عوام کی حقیقی منتخب آواز ہیں۔
اگر دشمن یہ سوچتے ہیں کہ وہ نقیب اللہ محسود کے خون پر ٖفاٹا کے لوگوں کی غیرت کا سودا کر لیں گے تو وہ جان لیں ان کی سوچ احمقوں والی ہے۔ پاکستان میں ہماری جوجدوجہد ایک محسود قبیلے کے نقیب اللہ کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام بے گناہ نقیبوں کے لئے ہے ، ہم نے اس دھرنے کے بہانے چھ درجن سے زائد لاپتہ افراد کو ان کی ماوں تک پہنچا دیا ہے ، ہم نقیب کے قاتلوں کو بھی ڈہونڈ لیں گے مگر ۔۔۔ اے امن کے دشمنو! ہمیں تو خود تم پر شک ہے کہ تم نے ہی معصوم نقیب اللہ محسود کے قاتل راو انور کو چھپا کے رکھا ہوا ہے تاکہ تم غلط فہمیوں ، جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے زور پر اس جنگ کو فاٹا کے اندر تک لا سکو۔ 


جمعہ، 9 فروری، 2018

جواب درکار ہے

                               
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کا پل ہے جو مختلف شہروں سے آنے والے رستوں کو ملاتا ہے ۔مگر اس کی وجہ شہرت نومبرکا تحریک لبیک والوں کا دھرنا ہے جس نے اس چورستے کو پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے باہر بھی مشہور کر دیا۔ اس مشق میں شامل لوگوں سے ہم نے ملاقات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کے یہاں آنے کے مقاصد کیا ہیں اور اس دھرنے سے انھیں کیا حاصل ہو گا۔ مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر نے کہا تھا ْ بچپن سے دیکھ رہا ہوں خدا امیروں کے ساتھ ہے ْ 
The Guardian 2016 may
گارڈین اخبار میں گایلز فریسر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان کامیابی کے رستوں سے پھسل جاتا ہے تو وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے ۔ تیسری دنیا جو عام طور پر مسلمان ہیں ۔۔ کیا ترقی اور کامیابی کی شارع سے پھسلے ہوئے لوگ نہیں ہیں ؟ اگرگاڑی کو ایک سو چالیس کلو میٹر کی رفتار سے دوڑنے کے لیے ہموار موٹر وے دستیاب ہے تو چنگ چی میں چار کلومیٹر کا سفر سوار اور سواری دونوں کا پنجر ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ اور مورال آف سٹوری یہ ہے کہ گاڑی میں سفر کرنا ہے تو گلیوں سے نکلو اور کسی کالونی کے باسی بن جاو۔
کالونی کا تصور سوویٹزرلینڈ سے درآمد شدہ ہے تو کالونی کے گردا گرد اونچی دیوار سے کالونی کے اندر باسیوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ اسرائیل کی پیداوار ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اس سوچ کو معاونت فراہم کرتا ہے ۔پاکستان میں کالونیوں کے باسیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر اجتماعی وسائل اور خدمات کی دستیابی اور معیار کیسا ہے آپ خود اندازہ کرلیں۔ زیادہ دماغ کھپانے کی زحمت سے بچتے ہوئے صرف اصول عرض ہے کہ خدا قوی اور صاحب استعداد ہستی ہے مگر وہ دنیا میں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اپنی مخلوق کو ذریعہ بناتا ہے۔ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں صرف سرمایہ ہی حکمرانی کا حقدار ہے تو پھر مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کا کہا ہوا سچ ہے کہ خدا امیروں کے ساتھ ہے ۔ اگرآپ سکول کے ٹیچر سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی آپ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا غریبوں کے ساتھ ہے ۔
1940
کے بعد دنیا میں ایک ایسا خاموش انقلاب برپا ہوا ہے ، ہوا یوں کہ ایک شخص نے بیانیہ جاری کیا، چند معروف اور معاشرے کے مانوس لوگوں نے اس بیانیے کو دانشوری کے کوہ طور کا سنگ قرار دیا، مزید لوگوں نے اس پتھر کو مقدس اور مبارک مشہور کیا ، اسی گروہ کے لوگوں نے اس کی تقدیس کے بیانئے اور ترانے لکھے اور معاشرے نے اس تقدیس سے تبرک حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں جادو یہ ہے کہ عوام کو جاہل رکھ کر سحر زدہ رکھو۔ سرمایہ داری نظام کی یہ حکمت عملی کامیابی سے جاری و ساری تھی کہ اس نظام کی کوکھ سے گلوبل ولیج میں سوشل میڈیا نے جنم لیا۔ اور ایک دہائی بعد ہی ْ جاہل ْ بہت سے مفروضوں سے انکاری ہو گیا۔ پروپیگنڈہ کے بعد جعلی خبروں نے اس گروہ اور اس کے کاسہ لیسوں کو بے نقاب کر دیا۔
تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے ہر تبدیلی طاقت کی مرہون منت ہوتی ہے ، جب مدینہ المنورہ سے انسانیت کا ایک قاٖفلہ مکہ کی طرف بڑہا تھا تو اس کے پاس ایک سوچ یا ذہنیت یا عقیدے کی ْ متاع ْ تھی ۔ جوقافلے کے افراد کے قلوب میں گہری رسوخیت رکھتی تھی اور وزن میں بہت بھاری تھی۔ابو سفیان نے صاف کہہ دیا تھا یہ بھاری پتھر اٹھانا مکہ والوں کے بس میں نہیں ہے۔
مرور زمانہ میں یہ متاع لٹتی گئی ، ڈاکووں نے پلاننگ بیسویں صدی کی ابتداء میں ہی شروع کر دی تھی اور آخری ڈاکہ ترکی کے ایک شہر میں دن دیہاڑے پڑا تھا ۔انسانیت کا سر ننگا ہو گیا۔
آج کا انسان فیض آباد کے پل تک پہنچ گیا ہے ، اس کے پاس متاع میں وہی کچھ ہے جو مدینہ المنورہ سے مکہ کی طرف بڑہتے قافلے کے پاس تھی ، نام اس متاع کا ْ حب النبی ْ ہے ۔ یہ آزمودہ کارگر ہے، اگر مکہ والوں جیسے بہادر اس وقت اپنے گھروں میں دبک گئے تھے تو اب تو ایسے بہادر خود مکہ میں بھی ناپید ہو چکے۔ اس وقت اگر یہ متاع سنگ گراں تھی تو اج بھی اتنی ہی بھاری ہے ۔ مگر مسٗلہ یہ ہے کہ اس وقت کے ْ رہنماء ْ کا فخر فقر تھا مگر اج کے رہنماوں کا فقر ان کا فخر نہیں بلکہ کمزوری ہے ۔
مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کے پاس ایک کتاب تھی ۔ جس میں لکھا ہوا اس نے پڑھ کے سنایا تھا ۔ ترجمہ اس کا یوں ہے ْ اسلام غریبوں کا دین ہے ْ 
اگر یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہْ کیا مسلمان ہونے کے لیے غریب ہونا لازمی ہے ْ تو عرض ہے کہ خود مجھے اس سوال کا جواب درکار ہے

جمعرات، 8 فروری، 2018

میں خوف زدہ ہوں

میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان 
ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔

جنگوں اور کھیلوں میں کچھ نعرے ہوتے ہیں ، اور کچھ نشان ہوتے ہیں، ملکوں اور قوموں کے بھی کچھ نعرے ہوتے ہیں اور کچھ نشانات ہوتے ہیں۔ایسا ہی ایک نشان ْ مسجد اقصیٰ ْ ہے ۔ د و نشان اور بھی ہیں جو محمد ﷺ کے پیروکاروں کے نشان ہیں ان کو ہم حرمین شریفین کے نام سے جانتے ہیں اور ایک قابل عزت اور محترم ہستی جناب ملک سلمان بن عبدالعزیز السعود بطور خادمین شریفین ، دنیا بھر کے ایک عرب ستر کروڑ لوگوں کے ایمان و ایقان سے قوت کشید کر کے خود کو صاحب جلال کی مسند پر براجمان فرماتے ہیں۔

مجھے رسول اللہ ﷺ کی نصیحت پہنچی  ہے اورتین مساجد میری عقیدتوں کا محور ہیں، ایک مکہ میں مسجد الحرام جہاں میرے رسول ﷺ کی بعثت ہوئی تھی، دوسری مدینہ المنورہ  میں جہاں میرے نبی ﷺ ے زندگی گزاری او آسودہ استراحت ہیں اور تیسری مسجد اقصی جو القدس میں مرکز عقیدت ہے۔

مکہ اور القدس میں جہاں اور کئی اشتراک ہیں ایک مشترک میرے نبی الامی ﷺ کا سفر اسرہ و معراج ہے ، مکہ سے اسرہ کاسفر شروع ہوتا ہے تو القدس الشریف سے معراج مبارک کی ابتدا ہوتی ہے۔ القدس شریف کی مسجد الاقصیٰ میں وہ مبارک محراب آج بھی اس مقام کی نشاندہی کے لیے موجود ہے جہاں نبی ختم المرسلین ﷺ نے تمام انبیاء و رسل کی امامت فرمائی۔وہ چٹان بھی موجود ہے جس پر میرے ہادی و رہنماء ﷺ کے قدموں کے نشان ہیں ۔اس کھونٹے کا نشان بھی موجود ہے جس کے ساتھ انبیاء اپنی سواری باندہا 
کرتے تھے اور میرے نبی ﷺ نے اپنا براق بھی اسی کھونٹے سے باندہا تھا۔

مجھے اسلام اور مسلمانوں کے ان دشمنوں سے گلہ نہیں بلکہ عداوت ہے جو مسلمانوں کے ایک ایسے دینی نشان کو چھین لینا چاہتے ہیں جس کی دوسرے مذاہب کی عقیدتوں کا مسلمانوں نے ہر دور میں احترام کیا ہے۔ مجھے ان سے بھی گلہ نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام ایک کینسر ہے جو ایک ارب ستر کروڑ لوگوں کو متاثر کر رہی ہے۔ مجھے گلہ اپنے ان مسلمان صاحبان علم و اقتدار کی اس نصیحت پر ہے کہ یہ مسلمانوں پر حملہ نہیں بلکہ براہ راست اسلام پر حملہ ہے اور اسلام کی حفاظت خود اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے ۔ اور یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسا مکہ میں موجود بیت اللہ کو ابرہہ نامی بد بخت نے نابود کرنا چاہا تو خود اللہ نے آگے بڑھ کر اپنے لشکروں سے اسے نابود کر دیا۔ہمیں تو اپنے اونٹوں سے دلچسپی ہونی چائیے۔ 
انیس نسلیں پہلے میرے جس راجپوت ہندوپڑ دادا نے یہ دین قبول کیا تھا وہ مرنے سے قبل اس دین کے بارے میں موٹی موٹی باتیں ہمیں بتا گیا تھا۔ پھر اگلی نسلوں نے چھوٹی چھوٹی باتیں بھی سیکھ لیں۔ ان موٹی اور چھوٹی باتوں میں بطور یاد ہانی ایک بات عرض ہے اور یہ بات پتہ نہیں چھوٹی ہے کہ بڑی مگر اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایک قوم کی جگہ دوسری قوم کو لے آئے۔ اللہ کے اس حکم کے بعد میرے دل کی گہرائیوں سے ْ مسلمانوں کے حکمرانوں ْ (حکمران ضرور بہ ضرور
مسلمانوں سے مختلف ہیں )کے لئے دعا نکلتی ہے ، صرف میں ہی نہیں ، میرے محلے کی مسجد کا امام ہی نہیں ،اسلام آباد کی فیصل مسجد کے محترم امام ہی نہیں، مسجد الحرام کے امام بھی اس دعا کے ساتھ ہاتھ پھیلاتے ہیں کہ اے اللہْ مسلمانوں حکمرانوں ْ کواپنی حفظ و ایمان میں رکھ۔ مدینہ المنورہ میں تو میں نے اپنے کانوں سے لوگوں کا گریہ سنا اور اپنی آنکھوں سے امام سمیت نمازیوں کی آنکھوں سے وہ موتے گرتے دیکھے جن کی شہادت کو قبولت بتایا جاتا ہے ۔ شائد ہم گناہ گار بے سہارا عوام نے ہی ْ مسلمان حکمرانوں ْ کو بچایا ہوا ہے مگر ذاتی طور پربخدا میں اپنے ْ ملک کے حکمرانوںْ کے بارے میں فکر مند رہتا ہوں، میں ْ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں ْ کے متعلق فکر مند رہتا ہوں،
 میں ْ خادم الحرمین الشریفین ْ کی ذات کے بارے میں کسی متوقع یا غیر متوقع امرربی کے نزول کے بارے میں فکرمند رہتا ہوں کہ اللہ کا ایک واضح حکم ہے، تاریخ کی کتابوں کی شہادت ہے اور میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اللہ تعالی جس کا کلام پڑہنے سے پہلے ہم اس کے تین با برکت ناموں اللہ ،الرحمن اور الرحیم پر مشتمل کلمے کو یاد کرتے ہیں اس کی پکڑ بڑی سخت ہے، وہ خوشحال لمحات میں پاوں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتا ہے، میں نے زندگی میں کروڑ پتی کو اسلام آباد میں پیرودہائی کے بسوں کے اڈے پر ْ لہور اے لہوراے ْ کی آوازیں لگاتے سنا ہے ۔ میں ملک کے باعزت ترین شخص کو بے آبرو ہونے پر اشک بہاتے دیکھ چکا ہوں، میں ایک باعزت خود دار کو چار سو کلومیٹر کے پیدل سفر پر مجبور ہوتا دیکھ چکا ہوں،میں نے ایک خوشحال اور صاحب عزت شخص کو پرائے دیس میں اس حالت میں دیکھا کہ اس کا پاسپوٹ اور ویزے کی میعاد ختم ہو چکی ہے ، رات گزارنے کے لیے چھت کا انتظام ہے نہ جیب ہی کچھ باقی ہے ۔ میں ایسے واقعات کا شائد ہوں جن کو عقل اور منطق تسلیم ہی نہیں کرتی۔ میں نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ پھٹے جوتے والا اور اس دور میں پیوند لگی صاف اور اجلی قمیض میں ملبوس ایک قلاش جرگے میں داخل ہوتا ہے تو تینوں گاوں کے سارے بچے نوجوان، جوان اور بزرگ اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور علاقے کا امیر ترین شخص اپنے سر سے شملے والی پگڑی اتار کر اس کے لیے بچھاتا ہے ۔ میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے قرآن میں پڑہتا ہوں ،اپنی کھلی آنکھوں سے اس کی تفسیر کا زمین پر شاہد ہوں۔



میں نے اپنی نوجوانی میں ابن خلدون کو پڑہا تھا مگر اب میں اسکے کلام کی حقیقت پا چکا ہوں کہ ْ اسلام غریبوں کا مذہب ہے ْ بلکہ حقیقت یہ کہ غریب ہی در اصل موجودہ دور کے مسلمان ہیں اور جو مالدار لوگ اسلام پر عمل پیرا ہیں ان کا مقام اولیاء سے بڑھ کر ہے ۔ البتہ میں قرآن پا ک میں اللہ کے احکام پڑھ کر ، کتابوں میں انسانوں کی تاریخ یاد کر کے اور اپنی آنکھوں سے ان ہونی کو ہوتا دیکھ کر خوف زدہ ہوں۔




لیلا کا مجنوں



 مجنوں کا نام ، قیس بن الملوح بن مزاحم بن عدس بن ربیعہ بن جعدہ بن کعب بن ربیعہ بن عامر تھا۔ حضرت پیر علاء الدین صدیقی مرحوم (چانسلر محی الدین اسلامی یونیورسٹی نیاریاں شریف کشمیر)نے ایک بار اپنے درس میں فرمایا تھا کہ مجنوں ، حضرت امام حسن بن علی بن ابو طالب کا رضاعی بھائی تھا۔اور انھوں نے ہی قیس کو مجنوں کہا تھا۔ راویوں اور تاریخ دانوں نے اس کا سال پیدائش اور وفات 
645 - 688
شمار کیا ہے۔
جامع الازہر کے پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے لکھا ہے کہ لیلا بنت مہدی بن سعد ، قیس کی رشتے دار تھی۔ وہ انتہائی خوبصورت اور حسین ہونے کے ساتھ ایک شاعرہ بھی تھی ، قیس کی محبت کا دم بھرتی تھی ، اور قیس کے قصیدیوں پر شعروں میں جواب دیتی تھی۔ قیس نے لیلا کے لیے کہا 
ْ وہ ایک چاند ہے جو سرد رات میں آسمان کے وسط میں چمک رہا ہے۔وہ نہائت حسین ہے ، اس کی آنکھیں اس قدر سیاہ ہیں کہ انھیں سرمے کی ضرورت ہی نہیں ْ تو لیلا نے اپنی ایک سہیلی سے پوچھا کیا میں واقعی ایسی ہوں ؟ تو اس کی سہیلی نے کہا ْ وہ جھوٹی تعریف نہیں کرتا، تم ایسی ہی صاحب جمال ہو جیسا کہ قیس کہتا ہےْ 
دونوں کی اس محبت نے قبیلہ میں شہرت پائی تو سب سے پہلے قیس کے والد نے اس رشتے سے انکار کیا کیونکہ قیس کے والد کا اپنے عزیزسے میراث پر جھگڑا تھا۔ قیس نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف اپنے چچا سے لیلا کا رشتہ مانگا ، اس نے مہر کے لیے پچاس سرخ اونٹ اور ایک بڑی رقم بھی جمع کر لی تھی مگر لیلہ کے والد نے قبیلہ میں اپنی بدنامی کے ڈر سے اس رشتے سے انکار کر دیا اور لیلا کی شادی طائف کے علاقے کے قبیلہ الثقیف میں ایک نوجوان ورد سے کر کے اسے طائف بجھوا دیا،تو قیس اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور صحرا میں دشت نوردی شروع کر دی وہ شام، نجد اور حجاز کے علاقے میں ویرانوں کی خاک چھانتے چھانتے لیلا کے گھر شہر طائف جا پہنچا اور لیلا کے خاوند کے سامنے شعر پڑہے۔ جن کا مطلب یوں ہے
ْ تجھے رب کا واسطہ کیا تو نے صبح ہونے سے پہلے لیلا کو آغوش میں لیایا اس کا منہ چومایا اس کی شبنمی زلفیں تجھ پر نازک پھولوں کی طرح لہراہیں ۔ جیسے کہ خوشبو ہوْ 
ورد نے کہا جب تم نے رب کا واسطہ دے ہی دیا ہے تو میرا جواب ہاں میں ہے ۔ یہ سن کر قیس بے ہوش ہو گیا۔
 قبیلے کے لوگوں نے قیس کے والد کو مشورہ دیا کہ وہ قیس کو مکہ بیت اللہ کی زیارت کے لئے لے جائے اور قیس کو کہے کہ وہ کعبے کے پردے کو پکڑ کر لیلا کو بھول جانے کی دعا کرے۔ قیس کا والد اسے مکہ لے گیا قیس نے کعبے کے پردے کو پکڑ کر دعا کی 
ْ اے اللہ مجھے لیلا اور اس کی قربت عطا فرما ْ قیس کا باپ الملوح اسے واپس لے آیا۔
ادہر لیلا کو قیس کی حالت معلوم ہوئی تو اس کو بخار ہونا شروع ہو گیا۔اور بیماری ہی کی حالت میں فوت ہو گئی۔ کہا جاتا ہے قیس لیلا کی قبر کے گردا گرد ہی رہتا ۔ اس نے قبر کے نزدیک ایک چٹان پر کچھ شعر کنندہ کر دیے تھے۔اس کی موت بھی لیلا کی قبر کے پاس ہی ہوئی تھی کہ اس کے گھر والوں نے اس کی میت لیلا کی قبر کے پاس پتھروں سے اٹھائی تھی۔
Yemen Times 16 October 2014
نے سعودی عرب کی ایک بائیس سالہ ھدیٰ نامی لڑکی کی داستان چھاپی تھی جو ایک یمنی نوجوان عرفات ،جو سعودیہ میں ملازمت کرتا تھا ،کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی ، عرفات کی درخواست پر ھدی ٰ کے والد نے یہ رشتہ نامنظور کر دیاتو محبت کی ماری ھدیٰ سعودیہ سے بھاگ کر یمن جا پہنچی تھی۔ یمن کی سرحدی انتطامیہ نے اسے غیر قانونی طور پر ملک میں داخلے پر جیل میں ڈال دیا تو عرفات نام کے مجنوں نے جیل سے جانے سے انکار کردیا۔
  لیلہ کے والد نے بھی ھدی کے والد کی طرح , اپنی بیٹی کی شادی اس کی مرضی سے کرنے سے انکار کر دیا  تھا ۔ اور یہ واقعہ ساتویں صدی عیسوی کا ہے جو پدری برتری کا تھا مگر اکیسویں صدی میں بھی یہ برتری قائم و دائم ہے ۔ صرف چودہ صدیاں ہی بدلی ہیں