بدھ، 18 جون، 2025

ایران — تہذیب، تاریخ اور طاقت کا استعارہ


جب دنیا ایران کا نام لیتی ہے تو اکثر کے ذہن میں ایٹمی تنازع، عالمی پابندیاں یا "مرگ بر امریکہ" جیسے نعرے آتے ہیں۔ مگر ایران صرف حال کا سیاسی کردار نہیں بلکہ ہزاروں برسوں کی تہذیب، فکری ورثے، اور مزاحمتی تاریخ کا نمائندہ ہے۔
یہ وہی سرزمین ہے جسے دنیا قدیم دور میں "فارس" کے نام سے جانتی تھی — ایک عظیم سلطنت، ایک گہری ثقافت، اور ایک ایسا تمدن جس نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ ایشیا اور یورپ کی تاریخ پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔
جغرافیہ اور آبادی کی جھلک

ایران مغربی ایشیا کے قلب میں واقع ہے اور سات ممالک سے جڑا ہوا ہے: عراق، ترکی، پاکستان، افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان اور ترکمانستان۔ اس کی زمینی وسعت 16 لاکھ مربع کلومیٹر سے زائد ہے، جہاں البرز اور زاگروس جیسے پہاڑی سلسلے، دشتِ لوط اور دشتِ کویر جیسے تپتے صحرا، اور کارون جیسے دریا موجود ہیں۔
ایران کی آبادی تقریباً 88 ملین ہے۔ اکثریت فارسی النسل ہے، لیکن آذری ترک، کرد، بلوچ، لور، ترکمان، عرب اور دیگر قومیں بھی یہاں رہتی ہیں۔ مذہبی لحاظ سے شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے، جبکہ سنی، زرتشتی، یہودی، عیسائی اور بہائی اقلیتیں بھی موجود ہیں۔
ایران بطور تہذیب

ایران کو صرف ایک ملک کہنا زیادتی ہوگی۔ یہ ایک تہذیب ہے — زرتشت کی روشنی، فارسی کی نرمی، شعر و ادب کی بلندی، اور مزاحمت کی شدت، سب اس میں رچی بسی ہیں۔ ایرانی قوم پرستی اسلام سے پہلے کی سلطنتوں، زبان و ادب، اور فکری برتری پر بھی فخر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران خود کو عرب دنیا سے ایک الگ اور برتر شناخت کے ساتھ دیکھتا ہے۔
تاریخ کے اوراق

تاریخ ایران میں چار بڑے ادوار واضح ہیں:
قبل از اسلام سلطنتیں — ہخامنشیوں نے کثیرالقومی حکومت قائم کی، ساسانیوں نے زرتشتی مذہب کو سرکاری مذہب بنایا، اور رومیوں، بازنطینیوں و عربوں سے طویل جنگیں لڑیں۔
اسلامی عہد — 651ء میں عربوں نے ایران فتح کیا، لیکن ایران نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسے علم، ادب اور حکومت کے میدان میں نئی روح دی۔
صفوی عہد — ایران پہلی بار بطور "شیعہ ریاست" سامنے آیا، جو آج تک اس کی مذہبی و سیاسی شناخت کا مرکز ہے۔
پہلوی اور انقلابی دور — مغربی اثرات، شاہی جبر، اور پھر
1979
 کا اسلامی انقلاب۔ امام خمینی نے نہ صرف بادشاہت کا خاتمہ کیا بلکہ ایران کو "ولایت فقیہ" کی فقہی قیادت میں بدل دیا۔
موجودہ ایران
ایران آج پابندیوں، معاشی دباؤ اور عالمی تنہائی کا شکار ضرور ہے، لیکن اس کے اندر ایک ایسی ریاستی مضبوطی ہے جو اسے مسلسل عالمی سیاست میں سرگرم رکھتی ہے۔
سپاہِ پاسداران (IRGC)
 بیلسٹک میزائل، ڈرون ٹیکنالوجی، اور خطے بھر میں اس کا اثر و رسوخ — خاص طور پر شام، لبنان، یمن اور عراق میں — ایران کو ایک مزاحمتی طاقت بنا دیتے ہیں۔
جوہری مسئلہ

ایران نے جوہری عدم پھیلاؤ
(NPT)
معاہدے پر دستخط کیے، لیکن امریکہ و مغرب کا شک اسے مسلسل تنازع کی شکل میں رکھتا ہے۔ 2015 کا JCPOA
معاہدہ امید کی کرن تھا، مگر ٹرمپ حکومت نے اسے توڑ کر حالات پھر بگاڑ دیے۔
عالمی اثر و نفوذ
ایران آج شیعہ دنیا کا نظریاتی و عسکری مرکز بن چکا ہے۔ بحرین سے لے کر یمن تک، اور افغانستان و پاکستان میں بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔ روس و چین سے اس کے تعلقات گہرے ہو رہے ہیں، اور یہ بلاک امریکہ و اسرائیل مخالف سوچ کو مضبوط کرتا جا رہا ہے۔
آخری بات
ایران کو کمزور کہا جا سکتا ہے، معاشی لحاظ سے تنہا بھی، لیکن اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ایک ایسی تہذیب ہے جو زخم کھا کر بھی زندہ ہے، اور دنیا کو بتا رہی ہے کہ مزاحمت صرف فوج سے نہیں بلکہ فکر، ثقافت اور نظریے سے بھی کی جاتی ہے۔
ایران کا وجود آج کی دنیا میں ایک یاد دہانی ہے — کہ قومیں صرف جنگوں سے نہیں، تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں۔

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ایران بمقابلہ اسرائیل: مزاحمتی نظریے کا تقابلی جائزہ




مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں اگر کوئی دو ریاستیں سب سے زیادہ ایک دوسرے کے مخالف دھارے پر کھڑی ہیں، تو وہ ایران اور اسرائیل ہیں۔ یہ دشمنی صرف سفارتی یا عسکری سطح تک محدود نہیں بلکہ ایک گہری نظریاتی، مذہبی اور تہذیبی تقسیم کی نمائندہ ہے۔
ایک طرف ایک ایسی یہودی ریاست ہے جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد ظلم و ستم کی کوکھ سے جنم لیا، تو دوسری طرف ایک قدیم تہذیب کا وارث ایران، جو 1979 کے انقلاب کے بعد مغربی سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔

ایران کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے۔ کوروش اعظم کی ہخامنشی سلطنت سے لے کر صفوی حکمرانوں تک، ایران نے ایک تہذیب، ایک قوم، اور ایک شناخت کے طور پر دنیا پر گہرا اثر ڈالا۔
اسرائیل جدید ریاست ہے، مگر اس کی بنیادیں یہودی عقیدے اور دیاسپورا کی صدیوں پرانی امید پر رکھی گئیں — ایک ایسی سرزمین جہاں یہودی اپنے مذہب، قوم اور شناخت کے ساتھ محفوظ رہ سکیں۔

مگر یہاں اصل بات صرف تاریخی تسلسل کی نہیں، بلکہ نظریاتی ترجیح کی ہے۔ ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد اپنے بیانیے کو سامراج مخالف مزاحمت میں ڈھال لیا — اسرائیل اس بیانیے میں "غاصب ریاست" کی علامت ہے۔
دوسری طرف، اسرائیل کا بیانیہ "بقا ہر قیمت پر" ہے — چاہے وہ جنگ ہو، نیوکلیئر تیاری ہو یا پراکسی خطرات کا سدِ باب۔

اسرائیل کا رقبہ چھوٹا سہی، مگر عسکری اعتبار سے وہ خطے کی سب سے جدید اور منظم فوجی طاقت ہے۔ 
F-35
 جیسے جنگی طیارے، آئرن ڈوم دفاعی نظام، اور نیوکلیئر ہتھیار — یہ سب اس کی حفاظت کی چھتری بن چکے ہیں۔
ایران کے پاس نیوکلیئر بم نہیں، مگر اس کا بیلسٹک میزائل پروگرام، سپاہِ پاسداران، اور پراکسی نیٹ ورک (جیسے حزب اللہ، حماس، حوثی) اسے ایک "زمینی طاقت" بناتا ہے۔
اگر اسرائیل "فضائی اور ٹیکنالوجی کی برتری" کا ترجمان ہے تو ایران "نظریاتی اور زمینی اثر" کا حامل ہے۔
ایران کا نعرہ ہے: "مرگ بر اسرائیل"
اسرائیل کا نعرہ ہے: "Never Again"
ایک مزاحمت کو فرض سمجھتا ہے، دوسرا اپنی بقا کو مقدس مانتا ہے۔
ایران فلسطینی کاز کو ایک مذہبی فریضہ اور شیعہ–سنی اتحاد کی بنیاد سمجھتا ہے۔
اسرائیل اسے دہشت گردی کی پشت پناہی تصور کرتا ہے۔
یہ اختلاف جغرافیہ یا حکمتِ عملی کا نہیں، بلکہ اخلاقی اور مذہبی برتری کے دعوے کا ہے۔
اسرائیل مغرب کی آنکھ کا تارا ہے۔ امریکہ، یورپ، برطانیہ، خلیجی عرب ریاستیں — سب کے سب یا تو اس کے 
حلیف ہیں یا اس کی  دشمنی سے پرہیز کرتے ہیں۔
ایران چین، روس، بھارت شام اور عراق میں اثر رکھتا ہے، مگر
موجودہ کشیدہ حالات میں بھارت نے اسے زبردست دھوکہ دیا ہے تو عراق اور شام بھی اس کا ساتھ دینے سے 
 ۔  عاجز پائے گئے ہیں
البتہ پاکستان دل و وسائل کے ساتھ ایران کےساتھ کھڑا ہے
 اسے عالمی پابندیوں، معاشی مشکلات، اور داخلی احتجاجات کا سامنا ہے۔
پھر بھی ایران عالمی منظرنامے سے غائب نہیں — وہ خطے کی ہر جنگ میں موجود ہے، چاہے پردے کے پیچھے۔
 یہ صرف دشمنی نہیں، دو الگ دنیاؤں کا تصادم ہے
اسرائیل اور ایران کا تنازع دراصل ایک تہذیبی جنگ ہے۔
ایک طرف ایک سیکولر، یہودی قوم پرست ریاست ہے جس کی بنیاد بقا پر ہے۔
دوسری طرف ایک مذہبی انقلابی ریاست ہے جس کی بنیاد مزاحمت پر ہے۔
کیا یہ تصادم کبھی ختم ہو گا؟
کیا کبھی ایسا دن آئے گا جب تل ابیب اور تہران ایک دوسرے کو صرف دشمن کے طور پر نہیں، ایک انسانی وجود کے طور پر دیکھیں گے؟
شاید نہیں — کیونکہ جب دشمنی نظریاتی ہو، تو جنگ میدان میں نہیں، ذہنوں میں ہوتی ہے… اور وہ طویل ہوتی ہے۔

"یہ لڑائی زمین کی نہیں، نظریے کی ہے۔
اور نظریہ کبھی میزائلوں سے نہیں مرتا… صرف فہم سے بدلتا ہے۔"




اسرائیل: خواب، حقیقت یا عالمی سیاست کا المیہ






چند ریاستیں اپنے وجود سے زیادہ اپنی تخلیق کے عمل میں چھپی کہانیوں سے جانی جاتی ہیں، اور اسرائیل ان میں سرِفہرست ہے۔ یہ ریاست نقشے پر تو 1948 میں ابھری، مگر اس کا نظریہ، منصوبہ، اور مالی و عسکری بنیادیں کئی دہائیوں بلکہ صدیوں پہلے رکھی جا چکی تھیں۔ آج اسرائیل ایک ایٹمی طاقت، ٹیکنالوجی کا مرکز، اور مغربی دنیا کا اسٹریٹیجک حلیف ہے، مگر اسی وقت فلسطینیوں کے لیے یہ ایک خونچکاں المیہ بھی ہے۔
خواب سے ریاست تک کا سفر

صہیونیت محض ایک تحریک نہیں تھی، یہودی بقا کا منصوبہ بھی تھی۔ جب یورپ میں یہودیوں پر مظالم بڑھے، خاص طور پر نازی جرمنی کے ہاتھوں ہولوکاسٹ کی تباہی کے بعد، تو عالمی رائے عامہ ایک "یہودی وطن" کے حق میں ہموار ہوئی۔ برطانیہ نے بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے اس خواب کو عملی شکل دینے کی راہ ہموار کی، اور بالآخر 1948 میں اقوامِ متحدہ کے فیصلے سے اسرائیل کی ریاست وجود میں آ گئی۔

اسی دن فلسطین کے لیے تباہی کا آغاز ہوا — لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، اور ان کا وطن اجنبی ہاتھوں میں چلا گیا۔
اسرائیل کا مقدمہ
اسرائیل تین بنیادوں پر اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھتا ہے:
 مذہبی بنیاد — کہ یہ زمین خدا کی عطا ہے،
 تاریخی بنیاد — کہ یہاں کبھی داؤد و سلیمان کی سلطنتیں تھیں،
 سیاسی بنیاد — کہ ایک جمہوری، جدید، اور خودمختار قوم کو بقا کا حق ہے۔

دنیا کے بڑے طاقتور ممالک، خصوصاً امریکہ اور یورپی ممالک، ان دعووں کو قانونی و اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا تین ہزار سال پرانی تاریخ یا مذہبی دعوے آج کی دنیا میں زمین کا قانونی قبضہ ثابت کرتے ہیں؟

دولت اور طاقت کا گٹھ جوڑ
اسرائیل کی بقا میں دولت نے اہم کردار ادا کیا۔ یورپ اور امریکہ میں موجود سرمایہ دار یہودی خاندان، خصوصاً روتھ شیلڈز اور دیگر صہیونی ادارے، ریاست اسرائیل کے قیام سے بہت پہلے مالیاتی بنیادیں رکھ چکے تھے۔ آج بھی امریکہ ہر سال اسرائیل کو 4 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔
اسرائیل نے ٹیکنالوجی، اسلحہ سازی، سائبر سیکیورٹی، اور زراعت میں حیران کن ترقی کی ہے — یہاں دولت اور سائنس ایک نظریاتی مشن کا ایندھن بن چکے ہیں۔

اسرائیل کے اتحادی: ایک مضبوط نیٹ ورک
دنیا کے کئی ممالک اسرائیل کے خفیہ یا اعلانیہ اتحادی ہیں:
 امریکہ: سب سے بڑا عسکری و سفارتی محافظ
 یورپی ممالک: اسلحہ و ٹیکنالوجی میں شریک
 بھارت: دفاعی خرید و فروخت اور سفارتی قربت
 خلیجی عرب ریاستیں: یو اے ای، بحرین، مراکش، سوڈان نے ابراہیمی معاہدے کے ذریعے تعلقات قائم کر لیے
 سعودی عرب: خاموش حمایت، مگر سیاسی مفادات کا توازن برقرار
اور فلسطین؟
فلسطینی اس تمام سیاسی گیم میں ایک زخم زدہ قوم ہیں۔ ان کے پاس نہ وہ دولت ہے، نہ وہ اسلحہ، نہ وہ سفارتکاری جو اسرائیل کے پاس ہے۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اور وہاں آج بھی فوجی، آبادیاتی اور معاشی دباؤ قائم ہے۔
عالمی برادری خاموش ہے، اور امتِ مسلمہ اختلافات میں الجھی ہوئی ہے۔

 ریاست یا نظریہ؟
اسرائیل ایک ریاست ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر ایک نظریہ ہے — ایک ایسا بیانیہ جو مذہب، تاریخ، جدیدیت، اور بقا کے جواز کو یکجا کرتا ہے۔ یہی بیانیہ اسے طاقت دیتا ہے، اور یہی بیانیہ اسے اخلاقی کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔

یہ کہانی صرف زمین کی نہیں، شناخت کی ہے
یہ صرف سفارت کی نہیں، تاریخ، عقیدے اور مستقبل کے خواب کی بھی ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا تنازع آج بھی جاری ہے  اور شاید کل بھی جاری رہے۔

"بعض ریاستیں سرحدوں سے پہچانی جاتی ہیں،
بعض نظریات سے
اسرائیل دونوں میں شمار ہوتا ہے۔"


منگل، 17 جون، 2025

"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"




دنیا کی دو بڑی طاقتیں — چین اور امریکہ — مشرقِ وسطیٰ کے ایک ممکنہ نئے محاذ کی جانب دیکھ رہی ہیں، جہاں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک طرف چین نے ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، تو دوسری طرف امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا حلیف اور مالیاتی معاون ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ان کے معاشی مفادات انہیں اس جنگ میں براہِ راست گھسیٹ سکتے ہیں؟
چین کی ایران میں سرمایہ کاری

چین اور ایران نے 2021 میں ایک پچیس سالہ معاشی اور تزویراتی معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت چین ایران میں توانائی، مواصلات، بندرگاہوں، ریلویز، اور دیگر انفراسٹرکچر پر مبینہ طور پر 400 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کرے گا۔ ایران عالمی پابندیوں کے باعث چین کو رعایتی نرخوں پر تیل بیچتا ہے، اور چین ایران کا سب سے بڑا تیل خریدار بن چکا ہے۔
مزید برآں، ایران چین کے "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" میں ایک مرکزی سنگ میل ہے، جو ایشیا کو یورپ اور افریقہ سے جوڑنے کی چینی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔ تاہم امریکی پابندیوں کے باعث چینی کمپنیوں کی اکثریت ایران میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے، اور بیشتر منصوبے صرف کاغذوں کی حد تک محدود ہیں۔
امریکہ کی اسرائیل میں سرمایہ کاری

امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 ارب ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدے کا حصہ ہے۔ جدید میزائل سسٹمز جیسے آئرن ڈوم، ڈیویڈز سلِنگ اور ایرو میزائل چین کی مدد سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، سائبر سیکیورٹی، بایوٹیک اور ڈیفنس انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی کا ایک اہم مرکز بھی ہے، جہاں مشترکہ فوجی مشقیں اور نگرانی کے نظام موجود ہیں۔
کیا مالی مفادات ان کو جنگ میں کھینچ لائیں گے؟
امریکہ

امریکہ کا اسرائیل سے عسکری و سفارتی تعلق اتنا گہرا ہے کہ کسی بڑی جنگ کی صورت میں امریکہ کا میدان میں اترنا بعید از قیاس نہیں۔ اندرونی سیاسی دباؤ، اسرائیل نواز لابی، اور دفاعی صنعت کے مفادات اس امکان کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
تاہم امریکہ کے معاشی مفادات بھی دائو پر لگ سکتے ہیں، کیونکہ اگر جنگ مشرق وسطیٰ سے آگے بڑھ گئی تو عالمی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو سکتی ہے۔ اس کے باوجود، امریکہ کے لیے اسرائیل کا تحفظ اس کے علاقائی تسلط کی علامت ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی خطرے میں مداخلت سے گریز نہیں کرے گا۔
چین

اس کے برعکس چین نے اب تک خود کو مشرقِ وسطیٰ کی جنگی سیاست سے دور رکھا ہے۔ وہ ایران میں سرمایہ کاری ضرور کر رہا ہے، لیکن وہ ایران کا فوجی حلیف نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چین نے گزشتہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات مضبوط کیے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔
چین کی کوشش ہو گی کہ وہ اس تنازعہ کو سفارتی طریقے سے سلجھائے، تاکہ نہ صرف اس کے اقتصادی منصوبے محفوظ رہیں بلکہ وہ دنیا کے سامنے ایک امن پسند طاقت کے طور پر بھی ابھرے۔
نتیجہ

امریکہ اور چین دونوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرمایہ کاری موجود ہے، مگر ان کا رویہ مختلف ہے۔ امریکہ کا جھکاؤ اسرائیل کی عسکری حمایت کی طرف ہے، جبکہ چین کا مفاد اقتصادی استحکام اور سفارتی بیلنس میں ہے۔
اگر جنگ بھڑکتی ہے تو امریکہ براہ راست میدان میں آ سکتا ہے، لیکن چین پسِ پردہ رہ کر مفادات کا تحفظ کرے گا۔
"امریکہ لڑے گا، چین تجارت کرے گا!"

قاہرہ سے امن کی کوشش



عنوان: قاہرہ سے امن کی کوشش — ایک مشترکہ مؤقف کی فتح

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

مشترکہ مفادات اور عالمی امن کے تقاضے کب ایک ساتھ یکجا ہوتے ہیں؟ شاذ و نادر۔ مگر جون 2025 میں دنیا نے ایک ایسی مثال دیکھی، جہاں خطے کی سیاست، تاریخی تلخیاں اور باہمی اختلافات کو پیچھے چھوڑ کر 21 ممالک نے ایک زبان ہو کر جنگ کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ آواز قاہرہ سے اٹھی، اور اس کے معمار تھے مصر کے وزیر خارجہ، سمیح شکری۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے بڑھتی ہوئی کشیدگی، فضائی حملوں اور جوابی میزائل حملوں نے عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ ایسے میں جب اقوام عالم خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں، مصر نے سفارت کاری کا علم بلند کیا اور عرب، اسلامی اور افریقی دنیا کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔

قاہرہ میں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں کے بعد، سمیح شکری کی قیادت میں ایک متوازن، اصولی اور بین الاقوامی قوانین سے ہم آہنگ مشترکہ قرارداد تیار کی گئی جس پر درج ذیل 21 ممالک نے دستخط کیے:


مصر


سعودی عرب


ترکی


قطر


اردن


متحدہ عرب امارات


پاکستان


بحرین


الجزائر


موریطانیہ


لیبیا


عراق


کویت


عمان


سوڈان


صومالیہ


جبوتی


کوموروس


برونائی


چاڈ


گیمبیا

یہ قرارداد نہ صرف اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ سب سے اہم بات، اس میں فوری جنگ بندی، علاقائی خودمختاری کا احترام، اور مشرق وسطیٰ کو ایٹمی و تباہ کن ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی اپیل شامل ہے۔

ایران اور اسرائیل کے درمیان اس تنازعے میں اب تک جو زبانی جمع خرچ ہو رہا تھا، اس قرارداد نے اسے ایک عملی سفارتی رخ دے دیا ہے۔ یہ ایک غیرجانبدارانہ، اصولی اور انسان دوست مؤقف کی نمائندگی ہے۔ مصر کی قیادت میں یہ 21 ممالک صرف مسلم دنیا کی نمائندگی نہیں کر رہے تھے، بلکہ وہ ایک ایسے وژن کا اظہار کر رہے تھے جس میں جنگ کی نہیں، امن کی جیت ہو۔

اس قرارداد کا عالمی سطح پر خیرمقدم کیا گیا ہے، خصوصاً چین اور دیگر نیوٹرل ریاستوں نے اس اقدام کو مثبت پیشرفت قرار دیا ہے۔ سمیح شکری کی سفارتی چابکدستی نے ثابت کر دیا کہ اگر نیت صاف ہو اور قیادت مضبوط، تو بات چیت، سفارت کاری اور اصولی مؤقف سے وہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں جو بندوق کبھی نہیں لا سکتی۔

دنیا ایک اور تباہ کن جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ قاہرہ سے اٹھنے والی یہ صدا شاید اُس نئے مشرق وسطیٰ کی نوید ہو، جہاں بات امن کی ہو، اور فیصلے قوموں کی اجتماعی دانش سے ہوں۔