پیر، 16 جون، 2025

گائے کو پوجنے کی وجوہات



ہندو مذہب میں گائے کو "گاؤ ماتا" (ماں گائے) کہا جاتا ہے کیونکہ:
وہ دودھ دیتی ہے، جو بچوں، بزرگوں اور بیماروں کے لیے غذا ہے۔
دودھ سے دہی، مکھن، گھی، پنیر، وغیرہ بنتے ہیں، جو ہندو رسوم میں استعمال ہوتے ہیں۔
ویدوں
 (Rigveda، Yajurveda 
وغیرہ)
 میں گائے کا ذکر "آہمسہ" (عدم تشدد) اور "دھرم" (واجبی ذمہ داری) کے طور پر کیا گیا ہے۔
گائے کو "کام دھینو" (ایک ایسی مقدس گائے جو سب کچھ عطا کرتی ہے) کہا گیا ہے۔
گائے کے گھی سے یجن (ہندو مذہبی آگ میں قربانی) ہوتا ہے۔
گائے کے گوبر اور پیشاب کو بھی کچھ ہندو "پاک" سمجھتے ہیں اور ان کا استعمال صفائی اور روحانی تطہیر کے لیے کرتے ہیں۔
ہندو دیوتا بھگوان کرشن کو "گوپال" (گایوں کا پالنے والا) اور "گووند" کہا جاتا ہے۔ وہ گائے چراتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے۔
کرشن کی زندگی گایوں سے جڑی ہوئی ہے، اس لیے گائے کو ان کی یاد میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔
ہندو فلسفہ میں زندہ مخلوق کو تکلیف دینا گناہ سمجھا جاتا ہے۔
گائے کو مارنے یا کھانے سے پرہیز کرنے کو نیکی سمجھا جاتا ہے۔
قدیم ہندوستان ایک زرعی ملک تھا۔ گائے سے ہل چلاتے تھے، گوبر کھاد کے طور پر استعمال ہوتا تھا، اور گائے ایک "کام کی چیز" تھی۔
اس لیے اسے "دھرتی ماں" کے برابر درجہ دیا گیا۔
 تمام ہندو گائے کو "پوجا" نہیں کرتے، لیکن زیادہ تر اسے مقدس اور قابلِ احترام ضرور سمجھتے ہیں۔ کچھ ہندو فرقے اسے دیوی مانتے ہیں، کچھ صرف ماں جیسا درجہ دیتے ہیں۔
اسلام میں تمام جانور اللہ کی مخلوق ہیں، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم ہے۔ لیکن:
صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت جائز ہے۔
کسی بھی مخلوق، چاہے وہ گائے ہو یا سورج، کو پوجنا شرک میں آتا ہے۔
گائے کو بطور غذا استعمال کرنا اسلام میں جائز ہے، بشرطیکہ اسلامی طریقے سے ذبح کی جائے۔

نقبہ

 



نقبہ: ایک دن نہیں، ایک مسلسل سانحہ

15 مئی دنیا بھر میں "نقبہ ڈے" کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1948 میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکالا گیا، ان کے دیہات زمین بوس کیے گئے اور ایک پوری قوم کو بےوطن بنا دیا گیا۔ فلسطینی اس دن کو "نقبہ" یعنی "تباہی" کا دن کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نقبہ صرف ایک دن یا سال کا واقعہ نہیں بلکہ ایک مسلسل اور جاری المیہ ہے۔

1948

 میں اسرائیل کے قیام کے وقت تقریباً 8 لاکھ فلسطینیوں کو بےدخل کیا گیا۔ ان میں سے کئی آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں مہاجر کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس دوران تقریباً 500 فلسطینی دیہات تباہ کیے گئے، اجتماعی قبریں کھودی گئیں، اور ایک مربوط قتل و غارت کا آغاز ہوا۔ یہ سب صرف زمین ہتھیانے کے لیے نہیں بلکہ ایک پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش تھی۔

پھر آیا 1967 کا سال، جسے فلسطینی "نقبہ ثانیہ" کہتے ہیں۔ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقبہ بستیوں کی توسیع، مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی، غزہ پر محاصرہ، اور حالیہ 2023–24 کی جنگ تک پھیل چکا ہے۔ آج فلسطینی بچے اس دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں جنہوں نے کبھی آزادی، شناخت اور سلامتی نہیں دیکھی۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا ظلم روکنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کہاں ہیں؟

دسمبر 1948 کو اقوامِ متحدہ نے "جینوسائیڈ کنونشن" منظور کیا، جس کا مقصد نسل کشی کو روکنا اور اس کے مجرموں کو سزا دینا تھا۔ اس کنونشن کی رو سے کسی بھی گروہ کو ان کی نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا "جینوسائیڈ" کہلاتا ہے یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل خود اس کنونشن کا دستخط کنندہ ہے۔ لیکن  وہ فلسطینیوں کے خلاف ایسے اقدامات کر رہا ہے جو اس کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی افریقہ نے حالیہ دنوں میں اسرائیل کے خلاف 

ICJ

 میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں غزہ میں ہونے والی حالیہ بمباری کو نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔

اس تمام صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ عالمی ضمیر، انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں سب بےبس نظر آتی ہیں۔

فلسطینیوں کے لیے نقبہ محض ایک یاد نہیں، بلکہ ان کی روزمرہ زندگی ہے۔ ان کے بچوں کے لیے اسکول جانا، غزہ میں پانی یا دوا کا ملنا، یا یروشلم میں نماز پڑھنا – سب کچھ ایک سیاسی جرم بن چکا ہے۔ اور اس جرم کے مجرم کو نہ صرف عالمی حمایت حاصل ہے بلکہ وہ عالمی قوانین کا محافظ بھی بنا بیٹھا ہے۔

اتوار، 15 جون، 2025

دو مہرے





تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ




دنیا میں بعض رشتے نظر آتے ہیں، بعض چھپے ہوتے ہیں۔ بھارت، قبرص اور اسرائیل کا تعلق بظاہر تین الگ ممالک کا ہے مگر حقیقت میں یہ انسدادِ دہشت گردی کے ایک خاموش اتحاد میں جُڑے ہوئے ہیں۔

اسرائیل، جسے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے ماہر ریاست مانا جاتا ہے، اب اپنی حربہ جاتی ذہانت اور ٹیکنالوجی کو پھیلانے کے مشن پر ہے۔ بھارت اور قبرص اس مہم کے اہم اتحادی بن چکے ہیں۔

قبرص اسرائیل کے لیے ایک خاموش مگر نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں اسرائیلی نگرانی کے نظام، انٹیلیجنس سنٹرز اور فوجی مشقوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شام، لبنان اور ایران پر نظر رکھنے کے لیے قبرص ایک اسٹریٹجک آؤٹ پوسٹ بن چکا ہے۔

بھارت کے ساتھ اسرائیل کا رشتہ زیادہ واضح اور فعال ہے۔ ڈرون، سمارٹ باڑ، سائبر سیکیورٹی، اور کمانڈو تربیت — سب اسرائیل سے بھارت کو منتقل ہو رہا ہے۔ موساد اور 
RAW
کے درمیان خفیہ تعاون، بالاکوٹ جیسی پیشگی کارروائیاں اور فلسطین و کشمیر پر سفارتی یکجہتی اس تعلق کی گہرائی ظاہر کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں ممالک کے مشترکہ "دشمن" بھی ہے —
پاکستان اور ترکی۔
ترک حکومت اور پاکستان  کی فلسطین اور کشمیر پر بڑھتی مداخلت، اور قبرص میں ترکی کا عسکری قبضہ، ان تینوں کو ایک خفیہ اتحاد کی طرف دھکیل رہا ہے۔

یہ اتحاد صرف دفاعی نہیں، نظریاتی بھی ہے — ریاستی خودمختاری، پیشگی حملہ، مذہبی قوم پرستی اور دہشت گردوں سے عدم مفاہمت ان سب کی مشترکہ سوچ ہے۔

سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ اشتراک آئندہ برسوں میں کسی نئے جیوپولیٹیکل بلاک میں تبدیل ہوگا؟
یا پھر یہ خاموشی سے دنیا میں انسدادِ دہشت گردی کا اسرائیلی ماڈل نافذ کرتا رہے گا؟

انسانیت معترض ہے




اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی اب محض دو ریاستوں کا تنازعہ نہیں رہا۔ یہ ایک عالمی اقتصادی، عسکری اور سیاسی نظام کی بقا کی جنگ بنتی جا رہی ہے۔ اس کشمکش میں اسرائیل صرف ایک فریق نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے، جو ہر قیمت پر اپنے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹنے پر تُلا ہوا ہے۔ معاملہ صرف غزہ، شام یا نطنز کے حملوں تک محدود نہیں بلکہ اصل ہدف واشنگٹن کو اس تنازعے میں براہِ راست شامل کرنا ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی ہے۔

امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کا قومی قرضہ 36 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس قرضے کا بوجھ کم کرنے کے لیے امریکہ عالمی منڈی میں ٹریژری بانڈز فروخت کرتا ہے، جنہیں اب بڑی معاشی طاقتیں جیسے چین، سعودی عرب اور جاپان ہاتھ لگانے سے بھی کترا رہی ہیں۔ بانڈز کی یہ گرتی ساکھ امریکی معیشت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ اس صورتحال میں اگر ایک بڑی جنگ چھڑ جائے تو عالمی سرمایہ ایک بار پھر خوف کے تحت "محفوظ سرمایہ کاری" کی طرف دوڑے گا، اور یہ محفوظ سرمایہ کاری امریکی بانڈز اور ڈالر سمجھے جائیں گے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں اسرائیل ایران پر حملے کر رہا ہے۔ تل ابیب چاہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال اس قدر کشیدہ ہو جائے کہ امریکہ اپنی معاشی بقا کی خاطر اس جنگ میں براہِ راست کودنے پر مجبور ہو جائے۔ کیونکہ جب جنگ ہوگی تو نہ صرف بانڈز کی مانگ بڑھے گی بلکہ امریکی اسلحہ ساز ادارے بھی منافع کی نئی بلندیاں چھوئیں گے۔ اسرائیل کا یہی دوہرا مفاد ہے، ایک طرف امریکہ کو اپنے دفاعی وعدوں کے تحت  جنگ میں گھسیٹنا، دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی مالی سانسیں بحال کرنا۔

اسرائیل کو معلوم ہے کہ امریکہ صرف سیاسی اخلاقیات پر نہیں بلکہ معاشی مجبوریوں پر عمل کرتا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس، امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے جڑے ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان ایک ناقابل انکار مفاہمت ہے۔ اسرائیلی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اگر امریکی مارکیٹ میں خوف کی فضا پیدا ہو جائے تو امریکی حکومت پر اندرونی دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ عالمی سرمایہ کو اعتماد دلانے کے لیے خود میدانِ جنگ میں اترے۔

یہ کوئی خفیہ بات نہیں کہ امریکہ کی موجودہ معیشت ٹیکس سے نہیں بلکہ قرض اور بانڈ فروشی سے چلتی ہے۔ جب عالمی سرمایہ بانڈ خریدنے سے گریز کرتا ہے تو امریکہ کے پاس اپنی بقا کا صرف ایک ہتھیار بچتا ہے: جنگ۔ ایسی جنگ جو امریکہ کو نہ صرف عالمی سیاسی رہنما کے طور پر دکھائے بلکہ اسے معاشی طور پر بھی فائدہ دے۔ اسرائیل یہی جنگ امریکہ پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ میں اسرائیل ایک بار پھر خود کو "مظلوم ہد ف" بنا کر پیش کر رہا ہے تاکہ عالمی ہمدردی حاصل کرے اور امریکہ کو عسکری طور پر مداخلت پر مجبور کرے۔ مگر دراصل یہ ایک بڑی معاشی اسکرپٹ کا حصہ ہے، جس میں میدانِ جنگ مشرقِ وسطیٰ ہے، مگر اصل لڑائی وال اسٹریٹ اور امریکی خزانے میں لڑی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ اس جنگ میں داخل ہوتا ہے تو یہ ایران کی شکست نہیں بلکہ سرمایہ داری کی وقتی فتح ہو گی، جو اپنی ساکھ بچانے کے لیے لاکھوں جانیں قربان کرنے کو تیار ہے۔

اسرائیل اس وقت ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک نظام کا آخری سپاہی ہے۔ اس نظام کا نام ہے سرمایہ داری، اور اس کے سب سے بڑے محافظ کا نام ہے جنگ۔ اور اب وہ اپنے سب سے بڑے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں دھکیلنے کے لیے ہر چال کھیل رہا ہے۔ یہ ایک بارودی سازش ہے، جس میں گولی، میزائل اور حملہ محض ظاہری ہتھیار ہیں، اصل جنگ تو قرض، سود اور ڈالر کی ہے۔

ہفتہ، 14 جون، 2025

جان اور جہان کی کہانی

ہم ایک ایسی مڈل کلاس تہذیب کے پروردہ ہیں جہاں جسم کی نہیں، صرف نمبر، نوکری اور نیک نامی کی پرورش ہوتی ہے۔ صحت، آرام، متوازن خوراک یا نیند جیسے تصورات کبھی زندگی کا حصہ نہیں رہے۔

ناشتہ چھوڑ دینا مصروفیت کہلاتا ہے، ورزش فالتو کام، اور آرام سستی کی علامت۔ تھکن ہو تو بام لگا کر لیٹنے کا مشورہ ملتا ہے، اور کمزوری ہو تو چھٹی کر لینے کا۔ ڈاکٹر صرف تب یاد آتا ہے جب جسم چیخنے لگتا ہے۔

ہمیں چہل قدمی بوجھ لگتی ہے، لیکن مرغ کڑاہی کھانے میلوں کا سفر آسان۔ کولڈ ڈرنک پر سینکڑوں روپے خرچ کرنا معمول، مگر جم کی فیس دینا فضول خرچی۔

ہم تھکن کو فخر، بدہضمی کو روایت اور نیند کی کمی کو جوانی سمجھ بیٹھے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب لاپروائی نہیں، خود سے بےوفائی ہے۔

وقت رہتے اگر صحت پر توجہ نہ دی، تو ایک دن سب کچھ سلامت رہ جائے گا — بس جسم نہیں۔

جان ہے تو جہان ہے۔