جمعرات، 29 مئی، 2025

India’s Nuclear Insecurity – A Ticking Time Bomb the World Must Not Ignore



 For a nation that proudly presents itself as a responsible nuclear power, India has shown a disturbing inability to safeguard its most dangerous materials. Time and again, radioactive substances—especially uranium—have fallen into civilian and criminal hands, exposing the country’s fragile nuclear security framework.

And now, with a recent explosion at a depot in Punjab storing BrahMos missiles, India’s strategic weapons safety has come under direct and urgent scrutiny.

This isn’t fear-mongering. It’s a wake-up call. Let’s look at the facts.

A Pattern of Negligence

The list of uranium smuggling incidents in India is long, consistent, and alarming:

  • 1994 (Meghalaya): 2.5 kg of uranium was seized from smugglers.

  • 1998 (West Bengal): 100 kg of uranium was intercepted—reportedly linked to political figures.

  • 2000 (Kolkata): 60 kg of uranium surfaced on the black market.

  • 2008 (Bihar): 4 kg of uranium, en route to Nepal, was intercepted.

  • 2016 (Maharashtra): Two individuals caught with 9 kg of depleted uranium.

  • 2021 (Maharashtra): 7 kg of natural uranium, valued over ₹21 crore, recovered in a police sting.

  • 2021 (Jharkhand): 6.4 kg of uranium seized; multiple arrests revealed a smuggling ring.

These are not isolated lapses. They represent a systemic failure of security and oversight. Radioactive material—essential for nuclear energy and weapons—is being accessed and traded by civilians, criminals, and potentially, terror groups.

BrahMos Depot Blast: A Chilling Reminder

In May 2024, a blast at a military ammunition depot in Bathinda, Punjab, where BrahMos missiles were reportedly stored, shook not just the walls of the facility but also confidence in India’s strategic control. The BrahMos, a supersonic cruise missile co-developed with Russia, is among the world’s fastest and most lethal.

While authorities issued vague statements, local media reported a security alert issued to other installations in the region—a silent admission of how close the country came to a much larger disaster.

This incident was more than an accident. It was a demonstration of poor storage protocols, questionable maintenance, and a dangerous tendency to underplay risk.

The Global Double Standard

If these incidents had occurred in any other part of the world—especially a rival nuclear state—the international community would have reacted with fury. There would be headlines, emergency sessions, calls for sanctions, and demands for inspections. Yet, when it comes to India, the silence is deafening.

Why is the world turning a blind eye?

India is not immune to internal threats. Insurgencies, political unrest, and corruption pose real risks to the custody of strategic assets. If uranium can make it into local markets, what’s stopping it from making its way to extremists?

A Call for Accountability

India’s nuclear safety record is now a matter of global concern. The International Atomic Energy Agency (IAEA) and allied powers must act. Words of trust and diplomatic courtesies are not enough anymore. Action is needed.

India must:

  • Implement real-time tracking and biometric inventory of all nuclear material.

  • Open its nuclear sites to international nuclear safety audits.

  • Improve the training and vetting of personnel handling radioactive material.

  • Modernize and secure all missile and strategic weapon depots.

Conclusion

India's growing strategic power comes with an even greater responsibility. Repeated uranium smuggling incidents and depot mishaps do not reflect the image of a secure nuclear power. Instead, they signal negligence that could end in catastrophe—not only for India but for the entire region and beyond.

The time to act is now, before a smuggled vial of uranium becomes a dirty bomb—or a depot explosion becomes a national tragedy.


بدھ، 28 مئی، 2025

نریندرمودئ سے سرینڈرمودی تک کا سفر



مئی 2025 میں جب بھارت نے پہلگام حملے کے بعد "آپریشن سندور" کا اعلان کیا، تو نریندر مودی کا انداز، زبان اور لب و لہجہ مین روایتی "چوکیدار" مودی تھا جو پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کرتا، گولی کا جواب گولی سے دینے کے نعرے لگواتا اور اپنے ووٹر کو ایک جارحانہ طاقت کا خواب دکھاتا تھا۔

آپریشن سندور بھی اسی بیانیے کا تسلسل تھا۔  بھارتی میڈیا پر جنگی ترانے، ٹاک شوز میں فتح کے نعرے، اور مودی کے چہرے پر روایتی اکڑ نمایاں تھی۔

مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ بیانیے صرف بولنے سے نہیں، نبھانے سے بنتے ہیں — اور یہی وہ مقام تھا جہاں "نریندر" کا بیانیہ "سریندر" میں بدلنے لگا۔

پاکستان کی طرف سے روایتی شور شرابے کے بجائے ایک غیر متوقع خاموشی دیکھنے کو ملی — لیکن یہ خاموشی طوفان سے کم نہ تھی۔ ایک طرف سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھرپور موجودگی دکھائی، اقوام متحدہ، چین، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کو صورتحال سے آگاہ کیا؛ دوسری طرف عسکری سطح پر بھارت کو سمجھا دیا گیا کہ "حقیقی طاقت وہ نہیں جو کیمرے دکھائیں، بلکہ وہ ہے جو دشمن کی زبان میں جواب دے۔"

بھارت کو اندرون خانہ دفاعی پوزیشن لینی پڑی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مودی حکومت کو اندازہ ہوا کہ بیانیہ اب نہیں چلے گا۔

مودی حکومت نے آہستہ آہستہ اپنی زبان بدلنی شروع کی۔ گولی، بدلہ، جنگ، دشمن، اور فتح جیسے الفاظ کی جگہ ترقی، خودانحصاری، آتم نربھر بھارت، نوجوانوں کی تربیت، اور میک ان انڈیا جیسے نرم مگر بھاری الفاظ نے لے لی۔

وزیر اعظم مودی نے ایک تقریر میں کہا:

"آپریشن سندور اب صرف فوجی کارروائی نہیں، ایک قومی مہم ہے۔ یہ ہماری اندرونی ترقی، قومی یکجہتی اور خودانحصاری کی علامت ہے۔"
یہ وہی مودی تھے جنہوں نے دو ہفتے قبل کہا تھا:

"ہم گھر میں گھس کر ماریں گے، اور دشمن کو نیست و نابود کر دیں گے۔"

 

نریندر مودی اب اپنے بیانیے میں دفاعی ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے تحمل، تیاری اور بروقت ردعمل نے انہیں مجبور کیا کہ وہ عسکری رنگ کو دھندلا کر ترقیاتی رنگ چڑھائیں۔ ایک ایسا لیڈر جس کی پوری سیاست پاکستان مخالف جذبات پر کھڑی تھی، آج "ہر شہری آپریشن سندور کا سپاہی ہے" جیسے نعرے لگا رہا ہے۔

یعنی بندوقوں کی جگہ بازو، ٹینکوں کی جگہ تربیتی ادارے، اور "سرجیکل اسٹرائیک" کی جگہ "اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام"۔

یہی وہ لمحہ تھا جہاں نریندر، سریندر بنے۔

مودی کو یقین تھا کہ وہ جارحانہ فوجی کارروائی سے پاکستان کو دباؤ میں لے آئیں گے، جیسا کہ وہ اپنے ووٹروں کو باور کراتے تھے۔ مگر اس بار، ان کی غلط فہمی دور ہو گئی — اور وہ بھی اسی زبان میں جو وہ سمجھتے ہیں۔

پاکستان نے مودی کو پیغام دے دیا کہ نہ صرف وہ تیار ہے، بلکہ اب دنیا کو بھی اپنا مؤقف منوانا جانتا ہے۔ اور یہی وہ سبق ہے جو نریندر کو شاید سیاست کے میدان میں پہلی بار اتنے خاموش انداز میں پڑھایا گیا ہے۔

آج آپریشن سندور کا ذکر "ترقی" اور "یکجہتی" کی روشنی میں کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ روشنی اصل میں بیانیے کے اس دھوئیں سے نکلی ہے جو میزائل کی زبان میں بولا گیا اور خاموشی سے دفن ہوا۔

مودی کے لیے اب یہ بیانیہ نہ صرف شکست کی علامت ہے، بلکہ سیاسی چالاکی کی آخری پناہ بھی۔ مگر تاریخ یہ  ضرور لکھے گی کہ مئی 2025 میں مودی نے جو جنگ 
بیانیے کےٹھندے کمرے میں بیٹھ کر شروع کی تھی اسے پاکستان نے جنگ کے گرم محاذ پر دفن کر دیا ہے 


قرآن – ایک بند دروازہ یا کھلا راستہ؟

 قرآن – ایک بند دروازہ یا کھلا راستہ؟

کبھی آپ نے سوچا کہ ہم قرآن سے کیسا رشتہ رکھتے ہیں؟

کیا وہ صرف الماریوں میں لپٹا ہوا ایک مقدس کاغذی صحیفہ ہے؟
یا وہ واقعی ہماری زندگی کی کتاب ہے؟

قرآن ہمارے گھروں میں موجود ہے، مگر ہماری زندگیوں سے دور۔ رمضان میں اسے چوم کر پڑھ لیا جاتا ہے، مگر دلوں میں اس کی روشنی کم ہی اترتی ہے۔ ہم اسے حفظ تو کر لیتے ہیں، مگر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا ارادہ شاذ و نادر ہی رکھتے ہیں۔

کیا قرآن صرف ثواب کی نیت سے پڑھنے کے لیے نازل ہوا تھا؟
نہیں!
یہ کتاب آئی تھی سوئے ہوئے انسان کو جگانے کے لیے، گرتی ہوئی انسانیت کو سنبھالنے کے لیے، اندھیروں میں چراغ جلانے کے لیے۔

یہ وہ کتاب ہے جس نے بکریاں چرانے والوں کو دنیا کے امام بنا دیا۔ جس نے غلاموں کو سردار، اور جاہلوں کو استاد بنا دیا۔ جس نے عورت کو عزت، مظلوم کو حق، اور انسانیت کو وقار دیا۔

قرآن کی آیات زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں پکارتی ہیں:

"اے انسان! تجھے تیرے ربِ کریم نے کس چیز نے دھوکے میں ڈالا؟" (سورہ الانفطار)

لیکن افسوس، ہم جواب دینے کے بجائے نظریں چُرا لیتے ہیں۔

قرآن صرف نماز کی تلاوت نہیں، یہ فیصلہ ہے!
یہ کتاب صرف قبر کے لیے نہیں، زندگی کے لیے بھی ہے!
یہ صرف مرنے کے بعد نہیں، جیتے جی بھی رہنمائی کرتی ہے۔

ہم نے اپنی زندگی کے فیصلے میڈیا، معاشرے، اور مادیت پرستی کے حوالے کر دیے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ سچ بولو، ہم کہتے ہیں "چالاکی کرو"۔
قرآن تو کہتا ہے عدل کرو، ہم کہتے ہیں "کام نکالو"۔

یقین کریں، اگر ہم قرآن کو سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیں تو ہر آیت ہمیں خود سے مخاطب لگے گی۔
ہمیں لگے گا جیسے اللہ ہم سے بات کر رہا ہے۔

آج بھی دیر نہیں ہوئی۔
قرآن کا دروازہ آج بھی کھلا ہے۔
بس ہم نے دل کے بند دروازے کھولنے ہیں۔

آئیے، قرآن کو زندگی میں اتاریں۔ صرف آنکھوں سے نہیں، دل سے پڑھیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن قرآن ہم سے کہے:

"اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا!"
(سورہ الفرقان: 30)


شق القمر

 واقعہ شق القمر (چاند کا دو ٹکڑے ہونا) ایک معجزہ ہے جو نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کے دستِ مبارک سے پیش آیا۔ یہ واقعہ اسلامی روایات میں اہم مقام رکھتا ہے اور اسے قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، اور سیرت کی کتب میں ذکر کیا گیا ہے۔:

مکہ مکرمہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے دورِ نبوت میں کفارِ قریش نے آپ سے کوئی معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تاکہ آپ کی نبوت پر یقین کرسکیں۔ ان کے اس مطالبے پر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر یہ عظیم معجزہ ظاہر فرمایا۔

روایات کے مطابق، نبی کریم ﷺ نے اللہ سے دعا کی اور پھر آپ ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کیا، تو چاند دو واضح حصوں میں تقسیم ہو گیا، یہاں تک کہ لوگوں نے حراء پہاڑ کو ان دونوں کے درمیان دیکھا۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ دوبارہ جُڑ گیا۔

یہ واقعہ سورۃ القمر کی آیت نمبر 1 میں مذکور ہے:

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ
’’قیامت قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔‘‘ (سورۃ القمر، 54:1)

یہ واقعہ کئی معتبر احادیث میں بھی بیان ہوا ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  • حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

    ’’چاند نبی ﷺ کے زمانے میں دو حصوں میں پھٹ گیا، ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا اور دوسرا اس کے پیچھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: گواہ رہو۔‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

کفارِ قریش نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا، لیکن ایمان لانے کے بجائے انہوں نے اسے "جادو" کہا اور یہ دعویٰ کیا کہ اگر یہ واقعی سچ ہے تو باہر سے آنے والے قافلے بھی اس کی تصدیق کریں گے۔ بعد میں جب دوسرے مقامات سے آنے والے لوگوں نے بھی اس منظر کو دیکھا ہونے کی تصدیق کی، تب بھی کفار نے انکار ہی کیا۔

واقعہ شق القمر صرف ایک معجزہ نہیں، بلکہ ایک انتباہ بھی تھا کہ قیامت قریب ہے اور انسان کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یہ واقعہ حضور ﷺ کی صداقت کی دلیل ہے اور اسلام کے معجزاتی پہلوؤں میں سے ایک روشن مثال۔


مفاد کا سراب

 مفاد کا سراب

پاکستان میں صحافت کبھی سچ کی روشنی تھی، آج وہ کئی حوالوں سے دھندلا سا عکس بن چکی ہے۔ جس قلم کو صداقت کا آئینہ ہونا چاہیے تھا، وہ اب مفاد کا آئینہ خانہ بنتا جا رہا ہے۔ چند صحافی حضرات نے صحافت کو محض ایک "ٹرانزٹ ویزہ" بنا لیا ہے—ایک ایسا راستہ جو انہیں مغربی اداروں کی رکنیت، کانفرنسوں کی چمک، یا فیلوشپ کے نام پر ملنے والی داد و دہش تک پہنچا دے۔

بات تلخ ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ آج ہمارے کچھ نامور صحافی اپنی تحریروں، تجزیوں اور ویڈیوز میں ایسا بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں جو مغرب کے پالیسی سازوں کو بہت مرغوب ہوتا ہے، مگر ہمارے قومی مفادات کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کی "منزلِ مقصود" اب خبر دینا نہیں، بلکہ ایسی رائے ترتیب دینا ہے جو مغرب کے پالیسی تھنک ٹینکس کو "قابلِ حوالہ مواد" مہیا کر سکے۔

ذرا نظر ڈالیں،
حامد میر صاحب جیسے جید صحافی، جن کی پیشہ ورانہ خدمات سے انکار ممکن نہیں، اب اکثر اوقات ایسے بیانات دے بیٹھتے ہیں جو نہ صرف قومی اداروں کی ساکھ کو مجروح کرتے ہیں بلکہ دشمن ریاستوں کے پروپیگنڈے سے مشابہت رکھتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف ان کا لہجہ اور عالمی پلیٹ فارمز پر پاکستان کو "آزادیٔ اظہار کا قاتل" قرار دینا محض ایک اظہار نہیں بلکہ ایک رجحان بن چکا ہے۔

پھر آتے ہیں اعزاز سید صاحب، جن کی رپورٹنگ میں تحقیق کم اور تاثر زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کئی حساس نوعیت کی رپورٹس میں واقعات کو اس انداز سے پیش کیا کہ ان کی سچائی پس منظر میں چلی گئی اور مغرب پسند بیانیہ نمایاں ہو گیا۔ یوٹیوب پر ان کا اندازِ گفتگو، ویڈیوز کا انتخاب، اور اصطلاحات کا استعمال بھی اکثر ایسا ہوتا ہے جو بآسانی مغربی تھنک ٹینکوں کے فریم میں فِٹ آتا ہے۔

مبشر زیدی جیسے سینئر صحافی کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ ان کی تنقید اکثر ریاستی اداروں اور مذہبی و تہذیبی اقدار کے گرد گھومتی ہے، اور ان کی تحریریں بیرونی اداروں کے لیے ایک سازگار حوالہ بن جاتی ہیں۔

سیرل المیڈا کی ڈان لیکس رپورٹ نے تو گویا ریاست کے اندر موجود فاصلوں کو سرخیوں میں بدل دیا۔ ایک رپورٹ نے قومی سلامتی کو عالمی تماشہ بنا دیا، اور نتیجہ؟ مغرب میں آزادیٔ صحافت کے ایوارڈز اور اندرونِ ملک اداروں پر انگلیاں۔

یہ سب مثالیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ پاکستان کی صحافت کے کچھ کردار اپنی "منزلِ مقصود" سے بھٹک چکے ہیں۔ جب خبر کا مقصد سچ بتانا نہیں بلکہ کسی ایوارڈ کے لیے بیانیہ تراشنا ہو، تو صحافت نہیں رہتی، لابنگ بن جاتی ہے۔

یہ درست ہے کہ صحافی کو آزاد ہونا چاہیے، مگر آزادی کے نام پر مفاد پرستی کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ سچ کی تلاش ضرور کیجیے، مگر اپنی شناخت، اپنے وطن، اور اپنے اداروں کو بے بنیاد الزامات کی بھینٹ نہ چڑھائیے۔

قلم جب امانت ہو تو معاشرے کو راستہ دیتا ہے،
اور جب تجارت بن جائے تو صرف راستے بیچتا ہے۔