بدھ، 9 اپریل، 2025

داتا صاحب کی کرامات

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی کرامات آپ کی بلند روحانی مقام اور اللہ کی طرف سے ملنے والی بے شمار خصوصی برکتوں کی نشانی ہیں۔ آپ کی کرامات نے آپ کو عوام میں ایک عظیم ولی اور رہنما کے طور پر متعارف کرایا، اور آپ کی زندگی کی بہت سی عجیب و غریب واقعات اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ آپ کا تعلق اللہ کی قربت سے تھا۔

1. مسلمانوں کو اللہ کے ساتھ محبت کی طرف رہنمائی

حضرت داتا گنج بخشؒ کی سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ آپ نے لوگوں کو اللہ کی محبت اور معرفت کی جانب رہنمائی کی۔ آپ کی روحانی کرامتوں کی بدولت بہت سے لوگ آپ کی تعلیمات کو اپنانے کے بعد اپنی زندگیوں میں تبدیلی لائے، ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اور تصوف کا حقیقی علم بیدار ہوا۔

2. دعاوں کی قبولیت

حضرت داتا گنج بخشؒ کی دعاوں کی قبولیت بھی آپ کی کرامتوں میں شامل تھی۔ آپ کی دعا میں وہ تاثیر تھی کہ جو بھی شخص آپ سے دعا کے لیے آتا، اس کی حاجت پوری ہو جاتی تھی۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لیے درخواست کی، اور حضرت داتا گنج بخشؒ نے دعا کی، جس کے نتیجے میں اس کی مشکلات حل ہو گئیں۔

3. کھانے کی کمی کو پورا کرنا

حضرت داتا گنج بخشؒ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دن آپ کی خانقاہ میں کھانے کی کمی ہو گئی تھی۔ آپ نے اللہ کی طرف توکل کیا اور دعا کی، پھر آپ کی دعا کے بعد ایسا ہوا کہ خانقاہ میں اتنی مقدار میں کھانا آ گیا کہ تمام لوگوں کی ضرورت پوری ہو گئی اور کوئی کمی نہ رہی۔ یہ واقعہ اللہ کی کرم سے آپ کی دعا کی تاثیر کو ظاہر کرتا ہے۔

4. بیماریوں کا شفا بخشنا

حضرت داتا گنج بخشؒ کی روحانی کرامتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ آپ کی دعاؤں سے بہت سے لوگ بیماریوں سے شفا پاتے تھے۔ ایک شخص جو شدید بیماری میں مبتلا تھا، حضرت داتا گنج بخشؒ کے پاس آیا اور آپ نے اس کے لیے دعا کی، اور وہ شفا یاب ہو گیا۔ اس طرح کے کئی واقعات آپ کی زندگی میں رونما ہوئے جہاں آپ کی دعا اور روحانی اثر سے لوگوں کی بیماریوں کا خاتمہ ہو گیا۔

5. گمشدہ چیزوں کا ملنا

حضرت داتا گنج بخشؒ سے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ آپ نے کئی بار گمشدہ چیزوں کو لوٹانے کی کرامت دکھائی۔ ایک مرتبہ ایک شخص اپنی قیمتی چیز گم کر بیٹھا تھا اور حضرت داتا گنج بخشؒ کے دربار پر آیا۔ آپ نے اس شخص کی پریشانی کو محسوس کیا اور اللہ کے حکم سے اس کی گمشدہ چیز واپس کر دی۔

6. غیب کی معلومات

حضرت داتا گنج بخشؒ کو اللہ کی طرف سے غیب کی معلومات بھی حاصل تھیں۔ آپ اپنی کرامات کے ذریعے لوگوں کی پوشیدہ حالتوں کو جانتے اور ان کی رہنمائی کرتے۔ آپ نے اپنی زندگی میں کئی بار لوگوں کے دلوں کی حالت اور ان کے مسائل کو بغیر کسی اطلاع کے جانا، اور اس کے مطابق ان کی رہنمائی کی۔

7. دشمنوں سے حفاظت

حضرت داتا گنج بخشؒ کے مخالفین اور دشمن بھی آپ کی کرامات سے متاثر ہوئے۔ ایک واقعہ ہے کہ آپ کے مخالفین آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن حضرت داتا گنج بخشؒ نے اللہ کی مدد سے ان کی سازشوں کو ناکام بنا دیا اور آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔


یہ کرامات حضرت داتا گنج بخشؒ کی روحانیت اور اللہ کے قریب ہونے کی علامت ہیں۔ آپ کی کرامات نے آپ کو عوام میں ایک عظیم ولی اور روحانی پیشوا کے طور پر متعارف کرایا، اور آپ کی زندگی آج بھی ایک روشن مثال ہے کہ اللہ کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے ایک انسان کو کمالِ صبر، علم، اور اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔

داتا صاحب نے گمراہی کے خلاف بند باندھا

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ نے اسلام کی خدمت کی ہے اور ان کی زندگی، تعلیمات اور عمل اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ کی روحانیت، علم، اور خدمتِ انسانیت نے اسلامی معاشرت میں ایک بڑا مثبت اثر ڈالا۔ داتا صاحب کی تعلیمات اور عمل نے اسلام کے اصل اصولوں کو لوگوں تک پہنچایا اور ان کے ذریعے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی۔

داتا صاحب کی اسلام کی خدمت میں کردار:

1. تصوف کا درست تصور پیش کرنا

حضرت داتا گنج بخشؒ نے تصوف کو اس کی اصل روح کے مطابق پیش کیا۔ آپ نے تصوف کو شریعت کے تابع رکھا اور لوگوں کو اللہ کی عبادت، اس کے ساتھ تعلق، اور نفس کی پاکیزگی کی اہمیت بتائی۔ آپ نے تصوف کو نہ تو کسی بدعت کا ذریعہ بنایا اور نہ ہی اس کے ذریعے شرک کی طرف لوگوں کو مائل کیا۔ بلکہ آپ نے اس کی حقیقت اور روحانیت کو اس طرح پیش کیا کہ لوگ اللہ کی رضا کی طرف مائل ہو جائیں۔

2. دین کی ترویج اور اصلاح

آپ کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ آپ نے لوگوں کو اسلامی تعلیمات کے بارے میں آگاہ کیا اور ان کی اصلاح کی۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنے پیغام کو نہ صرف مسلمانوں تک پہنچایا بلکہ غیر مسلموں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔ آپ نے اپنے علم اور روحانیت کی مدد سے اسلام کو ایک روشن اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا۔

3. فقر اور توحید کا پرچار

آپ نے فقر (روحانی غربت) اور توحید (اللہ کی واحدیت) کے اصولوں کو عام کیا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے لوگوں کو سمجھایا کہ حقیقی فقر وہ ہے جو اللہ کی رضا کے لیے ہو اور اس میں کوئی شرک یا غیراللہ کی عبادت نہ ہو۔ آپ نے اپنی تعلیمات میں ہمیشہ اللہ کی وحدانیت کو اجاگر کیا اور لوگوں کو اللہ کے قریب جانے کی ترغیب دی۔

4. دینی رواداری اور اخلاقی تعلیمات

حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنے پیغام میں دینی رواداری اور اخلاقی تعلیمات پر زور دیا۔ آپ نے اپنے پیروکاروں کو اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی ترغیب دی، اور سماجی انصاف، اخوت، اور انسانیت کے پیغامات کو عام کیا۔ آپ کی تعلیمات نے معاشرت میں امن و سکون اور محبت کا ماحول پیدا کیا۔

گمراہی کے پھیلاؤ کے الزامات کا رد:

کچھ مخالفین نے حضرت داتا گنج بخشؒ پر یہ الزام لگایا کہ آپ کی تعلیمات سے گمراہی پھیل رہی ہے، لیکن یہ الزامات غلط اور بے بنیاد تھے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کا مقصد کسی بھی صورت میں گمراہی پھیلانا نہیں تھا۔ آپ نے اپنی تمام تر زندگی میں اللہ کی رضا اور اسلام کی خدمت کی۔ آپ کا پیغام ہمیشہ شریعت کی پابندی اور اسلامی اصولوں کے مطابق تھا، اور آپ نے کبھی بھی اسلام کے کسی بنیادی اصول سے انحراف نہیں کیا۔

آپ کی روحانی کرامات اور تعلیمات کے پیچھے مقصد لوگوں کو اللہ کے قریب کرنا تھا، نہ کہ کسی طور پر اسلام کے دائرے سے باہر نکالنا یا گمراہی کی طرف مائل کرنا۔

نتیجہ:

حضرت داتا گنج بخشؒ کی زندگی اور تعلیمات نے اسلام کی خدمت کی۔ آپ نے اپنے کردار، عمل اور پیغام کے ذریعے دینِ اسلام کو فروغ دیا اور اس کے اصل پیغامات کو عوام تک پہنچایا۔ آپ نے تصوف کو شریعت کے دائرے میں رکھا اور لوگوں کو توحید، فقر، اور اخلاقی حسن سکھایا۔ آپ کی زندگی کا مقصد صرف اللہ کی رضا اور انسانوں کی رہنمائی تھا، اور آپ نے کبھی بھی گمراہی یا بدعت کی طرف لوگوں کو مائل نہیں کیا۔

داتا صاحب کی ایک اصطلاح

داتا صاحب نے کشف المجوب میں  "جاہل عالم" کی آصطلاح استعمال کی ہے ۔ کیا عالم بھی جاہل ہو سکتا ہے کے بارے میں: 

"جاہل عالم" ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو ظاہری طور پر علم رکھتا ہو، یعنی قرآن، حدیث، فقہ یا دوسرے دینی علوم کا مطالعہ یا تعلیم حاصل کر چکا ہو، لیکن اس کے علم میں تقویٰ، اخلاص، فہم، اور عمل کی روح نہ ہو۔ وہ علم کا دعویدار تو ہو، مگر اس علم پر عمل نہ کرتا ہو یا اسے غلط استعمال کرتا ہو۔

ایسا شخص دوسروں کو گمراہ کر سکتا ہے کیونکہ لوگ اس کے ظاہر کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔


🔹 قرآن و حدیث کی روشنی میں "جاہل عالم"

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"مثل الذین حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا"
(سورہ الجمعہ، آیت 5)
ترجمہ: "ان لوگوں کی مثال جنہیں تورات دی گئی مگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا، اس گدھے کی مانند ہے جو کتابیں اٹھائے ہوئے ہو۔"

یہ آیت ان لوگوں کے لیے ہے جن کے پاس علم تو ہے، مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتے۔


🔹 حدیث کی روشنی میں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب قول ہے:

"دو طرح کے لوگ دین کو تباہ کرتے ہیں: جاہل عابد اور فاسق عالم۔"

یعنی:

  • جاہل عبادت گزار: جسے علم نہیں لیکن شدت سے عمل کرتا ہے، مگر غلطی پر ہوتا ہے۔

  • فاسق عالم: جس کے پاس علم ہے، مگر وہ گناہ کرتا ہے، غلط فتویٰ دیتا ہے، یا دنیا کے فائدے کے لیے دین بیچتا ہے۔


🔹 حقیقی مثال: بلعام بن باعوراء

بلعام بن باعوراء کا ذکر قرآن میں آتا ہے۔ وہ ایک عالم تھا، اللہ کا مقرب بندہ تھا، دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ لیکن وہ دنیا کے مال و دولت کے پیچھے لگ گیا، اور اللہ کی نافرمانی کی۔

قرآن نے اس کے بارے میں فرمایا:

"فانسلخ منها فاتبعه الشيطان فكان من الغاوين"
(سورہ الأعراف، آیت 175)

ترجمہ: "پھر وہ اس (اللہ کی آیات) سے باہر نکل گیا، شیطان اس کے پیچھے لگ گیا، اور وہ گمراہوں میں شامل ہو گیا۔"

یہ جاہل عالم کی سب سے واضح اور تاریخی مثال ہے۔


🔹 آج کے دور میں جاہل عالم کی شکل:

  • وہ جو دینی علم کو دنیا کمانے کے لیے استعمال کرے۔

  • وہ جو سچ چھپا لے، یا فتوے بیچ دے۔

  • جو فرقہ پرستی کو ہوا دے، امت کو تقسیم کرے۔

  • جو شہرت یا پیسے کے لیے جھوٹ بولے یا دین کو آسان/سخت بنا کر پیش کرے، جیسے عوام چاہے۔


🔸 نتیجہ:

"جاہل عالم" ایک خطرناک شخصیت ہے جو لوگوں کو دین کے نام پر گمراہ کر سکتی ہے۔ اس لیے دین کے سچے عالم کی پہچان صرف علم سے نہیں، بلکہ اس کے کردار، تقویٰ، اخلاص، اور عاجزی سے ہوتی ہے۔

داتا صاحب پر شرک کے الزامات

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ پر شرک کے الزامات کچھ مخالفین کی جانب سے لگائے گئے تھے، تاہم یہ الزامات نہ صرف بے بنیاد تھے بلکہ حضرت کی روحانی عظمت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف تھے۔ اس وقت کے بعض متعصب علماء اور مخالفین جو تصوف اور صوفیاء کے طریقے کو نہیں سمجھتے تھے، نے حضرت داتا گنج بخشؒ پر ایسی باتیں کہی تھیں۔ تاہم، یہ الزامات حضرت داتا گنج بخشؒ کے علمی و روحانی مقام اور کردار کو متاثر نہیں کر سکے۔

1. تصوف پر اعتراضات

کچھ علماء نے اس وقت تصوف کے بعض رسومات پر اعتراض کیا تھا، جیسے کہ قبر پر حاضری، اولیاء اللہ کی زیارت، اور ان سے برکت کی توقع رکھنا۔ ان علماء کا خیال تھا کہ یہ چیزیں شرک کی جانب لے جا سکتی ہیں، حالانکہ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہمیشہ ان الزامات کو رد کیا اور تصوف کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے پیش کیا۔ آپ کا ہمیشہ یہ موقف تھا کہ تصوف کا اصل مقصد اللہ کے قریب ہونا اور اس کے نور سے اپنے دل کو روشن کرنا ہے۔

2. حضرت کی کرامات

حضرت داتا گنج بخشؒ کی کرامات بھی مخالفین کے نشانے پر رہیں۔ ان کرامات کو بعض افراد نے مبالغہ یا شرک کا ذریعہ قرار دیا، حالانکہ ان کرامات کا مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف راغب کرنا اور ان کی زندگیوں میں تبدیلی لانا تھا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ نے ہمیشہ ان کرامات کو اللہ کی مدد اور توفیق کا نتیجہ قرار دیا، اور خود کو اللہ کا معترف اور اس کے سوا کسی کو نہیں مانا۔

3. عوام کا عقیدہ

آپ کی مقبولیت کے باوجود بعض مخالفین نے عوام کے درمیان حضرت کی شخصیت اور کرامات کی طرف بڑھتے ہوئے عقیدے پر بھی اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ حضرت داتا گنج بخشؒ کو اللہ کے مقام پر سمجھنے لگے ہیں اور ان سے غیر ضروری عقیدت ظاہر کرتے ہیں۔ تاہم، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی تعلیمات میں ہمیشہ اللہ کی عبادت اور توحید کو نمایاں کیا، اور کبھی بھی اپنی ذات کو کسی قسم کی عبادت یا پرستش کا لائق نہیں سمجھا۔

4. مسجد و خانقاہ کی زیارت پر اعتراضات

حضرت داتا گنج بخشؒ کی خانقاہ اور دربار کی زیارت بھی کچھ لوگوں کے لیے شرک کا باعث سمجھی جاتی تھی۔ تاہم، حضرت داتا گنج بخشؒ نے اپنی زندگی میں یہ واضح کیا کہ لوگوں کو آپ کی زیارت اور دعا کی ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ آپ کو اللہ کا شریک سمجھا جائے، بلکہ یہ اس لیے تھی کہ آپ کی دعا اور تعلق اللہ سے تھا، اور آپ کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا تھا۔

5. دینی و فقہی جوابات

حضرت داتا گنج بخشؒ نے ان تمام الزامات کا فکری اور دینی جوابات دیے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو یہ سمجھایا کہ تصوف اور اولیاء اللہ کا احترام صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جانا چاہیے، اور ان کی زیارت اور ان سے برکت کا مقصد اللہ کی مدد کی طلب ہوتا ہے، نہ کہ کسی طور پر ان کے مقام کو اللہ کے برابر سمجھنا۔

نتیجہ

حضرت داتا گنج بخشؒ کی شخصیت، علم، اور کرامات نے ان الزامات کا بھرپور جواب دیا۔ آپ کا پورا پیغام اللہ کی وحدانیت اور اس کی رضا کے حصول کے لیے تھا، اور آپ کی زندگی میں کوئی بھی ایسا عمل نہیں تھا جو شرک کی طرف اشارہ کرتا ہو۔ آپ کی تصوف کی تعلیمات اور عمل اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ آپ کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی عبادت اور اس کے قریب جانا تھا، اور آپ نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں کو اس ہی راستے کی طرف رہنمائی کی۔داتا 

داتا صاحب کی تصنیبات

 حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ کی تصنیفات نے تصوف، علمِ حدیث، فقہ، اور روحانیت میں بے شمار لوگوں کی رہنمائی کی۔ آپ کی سب سے مشہور تصنیف "کشف المحجوب" ہے، جو تصوف کے حوالے سے ایک انتہائی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ تاہم آپ کی دیگر بھی کچھ تصنیفات ہیں جو اسلامی علوم اور تصوف کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ آئیے، ان کی تصنیفات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

1. کشف المحجوب

"کشف المحجوب" حضرت داتا گنج بخشؒ کی سب سے معروف اور اہم تصنیف ہے۔ یہ کتاب تصوف کے بنیادی مسائل کو بیان کرتی ہے اور صوفیانہ علوم کی وضاحت کرتی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے تصوف کی حقیقت، اس کے مختلف مراحل، اور صوفیاء کی زندگی کے اصولوں پر روشنی ڈالی ہے۔ آپ نے تصوف کو شریعت کے دائرے میں رکھتے ہوئے اس کی تعلیمات کو بیان کیا۔
کشف المحجوب آج بھی تصوف کے حوالے سے ایک اہم کتاب سمجھی جاتی ہے اور دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہے۔

2. مقالات

حضرت داتا گنج بخشؒ کی "مقالات" بھی ایک اہم تصنیف ہے، جس میں آپ نے اپنے روحانی تجربات، تعلیمات، اور مکتبۂ فکر کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں آپ کے اقوال و نصائح، اور مسلمانوں کے لیے عملی زندگی کے بارے میں راہنمائی ملتی ہے۔

3. فتوح الغیب

"فتوح الغیب" ایک دوسری اہم کتاب ہے جس میں آپ نے غیب کے علوم اور روحانی کمالات پر گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب تصوف کے اندرونی اور غیبی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہے اور روحانیت کی گہری حقیقتوں کو بیان کرتی ہے۔

4. رسالہ فقر

حضرت داتا گنج بخشؒ کا "رسالہ فقر" بھی ایک اہم تصنیف ہے جس میں فقر (یعنی روحانی غربت) کی حقیقت اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب میں فقر کی روحانیت سے متعلق آپ کی تعلیمات بیان کی گئی ہیں۔

5. تفسیر القرآن

حضرت داتا گنج بخشؒ کی ایک اور تصنیف "تفسیر القرآن" بھی ہے، جس میں آپ نے قرآن کی بعض آیات کی تفسیر کی ہے۔ اس کتاب میں آپ نے قرآن کے روحانی، فلسفیانہ، اور اخلاقی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے اور مسلمانوں کو قرآن کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی ترغیب دی ہے۔


یہ تھیں حضرت داتا گنج بخشؒ کی کچھ اہم تصنیفات، جنہوں نے اسلامی تصوف، علمِ دین، اور روحانیت میں اہم مقام حاصل کیا۔ ان کی تعلیمات آج بھی روحانیت کے طالب علموں کے لیے رہنمائی کا باعث ہیں۔