جمعرات، 18 اپریل، 2019

کالی ٹوپی

                           
 
ملک بھر میں دہشت گردی کے سبب سناٹا تھا۔  ایک شادی کے ولیمے کی دعوت تھی ۔ اس خوشی کے موقع پر بھی شرکاء کے چہروں پر خوشی کی بجائے انجانا خوف صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ شادی ہال میں میرے ساتھ بیٹھے دوستوں میں سے ایک نے چند ہفتےقبل ہونے والی سکول کی ایک تقریب کا ذکر چھیڑ دیا ۔یہ سکول راولپنڈی میں واقع ہے مگر تقریب اسلام آباد کے ْ محفوظْ مقام کنونشن سنٹر میں ہو رہی تھی۔ میں زندگی میں پہلی بار کسی ایسی تقریب میں شریک تھا جو ان بچوں کے لیے منعقد کی گئی تھی جو چند سال سکول میں گزار کر اس قابل ہو گئے تھے کہ پہلی جماعت میں داخلہ لے سکیں۔ اس تقریب کو سکول نے بچوں کی ْ
Graduation Ceremony
 کا نام دے رکھا تھا۔ بچوں نے باقاعدہ گاون پہنے ہوئے تھے اور سروں پر وہ ٹوپی سجا رکھی تھی۔ جس کے پہننے کی آرزو پوری کرنے کے لیے ہم نے سالوں کالج جانے والے رستے کو صبح و شام ناپا تھا۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ یہ کالی ٹوپی صرف نوجوانوں ہی کا نہیں بلکہ پہلی جماعت تک پہنچ جانے والے بچوں کا سر بھی فخر سے بلند کر دیتی ہے۔تقریب کے بعد بچے بھی اپنی ٹوپیاں اچھال رہے تھے۔ ایک بچے نے خوشی کے اظہار میں ٹوپی اچھالی۔ قبل اس کہ وہ واپس بچے تک پہنچتی میں نے اسے ہوا میں ہی پکڑ کر بچے کے سر پر پہنا دیا۔ بچہ میری طرف متوجہ ہوا تو میں نے پوچھا
 ْ مسٹر گریجویٹ یہ کیا ہےْ
 اس نے کہا ْ انکل یہ میری گریجویشن کی ری ہرسل ہے ۔ْ
 اپ کیا بننا چاہتے ہوْ
 جواب بے ساختہ تھا ْ اچھا مسلمان اچھا پاکستانی اور اچھا آئی ٹی گریجویٹ ْ 
ایک پھول کی طرح مسرت و شادمانی سے سرشار خاتون نے مسکراتے ہو ئے کہا ْ مسٹر گریجویٹْ ذیشان میرا بیٹا ہے۔ میں نے کہا ْ ذیشان کے
concepts
 اس عمر ہی کافی
clear
 ہیں۔ یہ آپ کی تربیت کا چمتکار ہے یا سکول نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ میری تربیت کا اثر بھی ہو سکتا ہے مگر میں اس کا کریڈٹ ذیشان کے اسکول ہی کو دوں گی ۔ تقریب کے اختتام پر میری اسلام آباد سے راولپنڈی واپسی پرنسپل صاحبہ کے ساتھ بات چیت کا موضوع کلیر اور ان کلیر کونسیپٹ ہی رہا ۔ پرنسپل نے ایک واقعہ سنایا جس کا خلاصہ ہے کہ بچہ والدین اور اساتذہ دونوں کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے ،بچہ کامیاب ہو کر اپنی کامیابی کا ہار والدین اور اساتذہ کے گلے میں ڈالتا ہے اور ناکام رہ جانے والا نوجوان اپنی ناکامیوں کا بار والدین اور اساتذہ پر ہی ڈالتا ہے۔ کالی ٹوپی کے بارے میں ان کا کہنا تھاہم بچوں کو گاون اور ٹوپی پہنا کر ان کے ذہن میں ایک تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ اصلی گریجویشن کی اہمیت جان سکیں۔
ایک واقعہ میں آپ کو سناتا ہوں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ان سے زیادہ تعلیم حاصل کرے۔ ایک بی اے والد اور ایف اے والدہ کی بیٹی نے ایک دن راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں ایم اے کی ڈگری پانے کی خوشی میں منعقدہ تقریب کے بعد یونیورسٹی کے لان میں ٹوپی اچھالی تو اس کی ماں نے لپک پر اسے ہوا ہی میں اچک لیا۔اور بیٹی کے سر پر پہنایا، لڑکی نے دوبارہ اس ٹوپی کو اچھالا تو میں نے ہوا میں اچھل کر اسے اچک لیااور اپنے دوست کے سر پر پہنانا چاہا تو اس نے ٹوپی بیٹی کے سر پر پہنا کر کہا۔ یہ ٹوپی میرے قد سے اونچی ہے۔ خوشی سے میرے دوست کا چہرہ گلاب کی طرح کھل رہا تھا۔
 ڈہائی سال کے بعد میں ایک باراسی خاندان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مگر اس بار چہرے اترے ہوئے تھے۔ بات ڈھکی چھپی بھی نہ تھی ۔ والدین اپنی بیٹی کی شادی اپنے خاندان میں اپنی پسند کے لڑکے سے کرنا چاہتے تھے ۔ جب کہ لڑکی نے اس شادی سے ماں کے سامنے انکار کر دیا تھا۔ لڑکی کے باپ نے لڑکی کی نانی کو بھلا بھیجا تھا۔ اس کا خیال تھا لڑکی کو نانی راضی کر لے گی۔ مگر نانی سے آتے ہی اپنی بیٹی کو مخاطب کیا۔زیب النساء میں نے تجھے کہا تھا لڑکی نے ایف اے کر لیا ہے اب اس کی شادی کردو۔ اس وقت اس کے باپ کو شوق چڑہا ہوا تھا ماسٹر کرانے کا ۔ میں نے کہا نہیں تھا جب لڑکی کا قد والد ین سے اونچا ہو جائے تو خود سر ہو جایا کرتی ہے ۔ اس کا باپ تو کہا کرتا تھا میں اپنی بیٹی کو خود اعتمادی دے رہا ہوں اب اس میں خود اعتمادی آ گئی ہے تو اس خود اعتمادی کا بوجھ اس سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ اس سے پوچھو تو سہی کیااللہ اور اس کے رسول کا دیا ہوا حق اس لیے چھین لینا چاہتا ہے کہ اس کی اکلوتی بیٹی ہے۔ لوگ تو اولاد کو خوشیاں خرید کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی ہی بیٹی کی زندگی اجیرن کرنا چاہتا ہے۔ بلاو لڑکی کو کہاں ہے۔ لڑکی کا چہرہ بھی اترا ہوا تھااور نظریں جھکی ہوئی تھیں۔ نانی بولتی ہی گئی بس کرو یہ ٹسوے اور باپ کا سر چومو جس نے تمھیں کالی ٹوپی پہناتے پہناتے گنجا کر لیا ہے ۔ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی کہ والدین کو رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہے۔
ٓجس شادی ہال میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں وہاں قائد اعظم کی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں انھوں نے سیاہ جناح کیپ پہن رکھی ہے۔ شادی کی اس تقریب میں دلہن میرے دوست کی بیٹی ہے، اس دلہن کی نانی کے الفاظ  میرے ذہن میں گویا چپک ہی گئے ہیں
 ْ کالی ٹوپی پہن کر بھی اتنی عقل نہیں آئی ۔۔۔رولایا نہیں قائل کیا جاتا ہےْ 

پاکستان استعفوں سے چلے گا


دھوکہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتا ہے ۔ دھوکہ باز شاطر ہیں یا ہمیں دھوکہ کھا کر سکون ملتا ہے ۔ جس شخص کو 8 سال تک لائق ترین ، معاشیات کا ماہر ، مانا پہچانا سی آی آو، بلکہ جس کے بارے میں خود عمران خان نے کہا کہ اس سے زیادہ لائق پوری پی ٹی آئی میں کوئی نہیں ہے ۔ سب کو پتہ تھا کہ اس نے وزیر خزانہ بننا ہے ۔ اس کے بارے میں جب ایک صحافی نے لکھا " کہہ دیا گیا ہے کہ یہ آدمی خزانے کا وزیر نہیں رہ سکتا " کہ خزانہ ہی نہیں رہا ۔ تو سب سے پہلے اسد عمر نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام داغا ۔ نشانہ سابقہ وزیر خزانہ تھا مگر امرت عوام کے کانوں میں گھولا جا رہا تھا کہ یہ "لفافےلینے والوں " کا جھوٹا پروپیگنڈہ ہے .15 اپریل کو دبنگ فواد چوہدری نے ان خبروں کو " جھوٹ " بتایا .صرف دو دن بعد 17 اپریل کو کہہ دیا گیا " ملک ان سے نہیں چلے گا ان کے استعفوں سے چلے گا " . "ان" میں تو پانچ لوگ شامل ہیں باقی چار کب جائیں گے ۔ یا اپریشن رد و بدل کر کے "فیس سیونگ " کی جائے گی . کیا فیس سیونگ ممکن بھی ہے ۔ جو شخص کروڑ نوکریاں کے لالی پاپ ٹوکری میں لے کر ایا تھا۔ اس کی ٹوکری ہی کا پتہ نہیں ہے ۔ اسی قابل ترین نے کہا تھا میٹرو 8 ارب میں بنا سکتا ہوں ۔ اس وقت عمران خان کے اس قابل تریں کو ماہرین نے نظریں اتھا کر دیکھا تو خود عمران خان اس کے دفاع کے لیے آگے بڑہے ۔ BRT کے نام سے میٹرو پر اب بھی کام جاری ہے اور شائد جاری ہی رہے ۔ ریحام خان کے دل میں عمران خان بارے بغض کا الزام مان بھی لیا جائے تو کیا اس کا یہ کہنا غلط ہے کہ جب کاروبار تباہ ہوتا ہے توCEO اس کی ذمہ داری لیتا ہے ۔ یہ گمان کہ عمراں خان اچھا ہے ان کی کابینہ ، چیف منسٹر اور ارد پھیلے لوگ کرپٹ اور نا اہل ہیں ۔ غیر منطقی ہے ۔ ان نااہلوں کو لگانے والا کون ہے ۔ اسد عمر کی لوگوں کے گھروں باورچی خانے چولہے اور موٹر سائیکلوں کی پترول؛ والی ٹنکی تک پہنچائی گئی مہنگائی کا ذمہ دار تو سابقہ وزراء خزانہ بتائے جاتے رہے ہیں ۔ کیا نیا آنے والا اس معااشی تباہی کا ذمہ دار اسد عمر کو ٹھرائے گا ۔ اس کے جان نشیشوں کی فہرست میں شامل شوکت ترین نے تو معذرت کر لی ہے ۔ اب دو ڈاکٹروں میں سے کون آگے بڑھ کر مہنگائی کے اس منہ کھولے اژدہے کو واپس پٹاری میں بند کرے گا ۔ کیا یہ ممکن بھی ہے ؟ یا آنے والا بھی اپنی ساکھ اور قابلیت داو پر لگا کر چلتا بنے گا ۔
بیڑا غرق “ ہونے “ اور “ کرنے “ کا فرق اب سب کی سمجھ میں آ گیا ہے ۔ آگر مقصد “ کرنے “ ہی کا ہے تو پھر لگو رہو منا بھائی ۔ لیکن ایک بات یاد رہے اپ تبدیلی لائےیا نہیں مگر لوگوں کا ذہن تبدیل ہو رہا ہے ۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر بھاشن دینے والا عمران خان اور مہاتما بن کر “گھبرانا نہیں “ کی تلقین کرنے والے وزیر اعظم کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ ہر وہ کام جس کی کنٹینر پر کھڑے ہو کر مذمت کی جاتی تھی ۔ باری باری وہ سارے کام کیے گئے ۔ اب تو پچھلی حکومتوں کی مزمت کرتے کرتے بات یہاں تک آ پہنچی ہے کہ “ نہ سابقہ حکومت جعلی طور پر معیشت مضبوط رکھتی ، نہ مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول کرتی، نہ مہنگائی کنٹرول کرنے کا ڈرامہ کرتی نہ ہمیں یہ دن دیکھنے پڑتے “ ۔
ملک چلانے کی بجائے عدل ، احتساب اور ابلاغ کے ذرائع پر کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش سب سے پہلے معیشت کو ڈبوتی ہے ۔ معاشی مسائل بھاشنوں سے نہیں عملی اقدامات سے ٹھیک ہوا کرتے ہیں ۔ ذاتی دشمنیوں کو گھر کے طاق میں چھوڑنا ہوتا ہے ۔ ایک یا پانچ وزیر ہٹانے سے مسائل حل ہونے والے نہیں ہیں ۔ معیشت نزع کے عالم میں ہے ، کاروبار ٹھپ پڑے ہیں ، لاکھوں لوگوں کی نوکریوں ختم ہونے کی خبریں گرم ہیں ۔ معاشی ماہرین آنے والے بجٹ سے ڈرا رہے ہیں ۔ وزراء جو بیان دیتے ہیں 48 گھنٹوں میں اس کی عملی تردید آ جاتی ہے۔ تازہ ترین کارنامہ یہ ہے کہ پنجاب میں ضلعی حکومتوں کو اجازت کے بغیر ترقیاتی کاموں سے روک دیا گیا ہے ۔ نیا پاکستان کیا بننا ہے حالت پرانے سے بھی بدتر کر دی گئی ہے ۔ خدا را قائد اعظم کے پاکستان کو اس راہ پر نہ چلائیں ۔ ہر سیاسی مخالف کو چور، حق گو کو لفافہ بردار اور عدلیہ کو لوہار کورٹ کے طعنے دینا وہ راہ ہے جس کے آخر میں کھائی آتی ہے ۔ وہ عوام جس کو میرٹ، انصاف، تعلیم ، عزت نفس اور برابری کا لولی پاپ دیا گیا تھا ۔ وہ تو کسی دوسرے لالی پاپ سے وقتی طور پر بہل جائے گی مگر اس ملک میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو نہ قانوں کی مانتا ہے، نہ آئین کو مقدس رکھتا ہے ، نہ خدمات کا صلہ عطا کرتا ہے، نہ رحم دل ہے مگر اس قابل ہے کہ اپنی مرضی کے اخبار میں کسی دن یہ سرخٰی لگوا دے “ پاکستان استعفوں سے چلے گا “ 

اتوار، 14 اپریل، 2019

فساد اور تبدیلی


ملک میں تبدیلی آرہی تھی ۔ عام لوگ تبدیلی کے حق میں جبکہ ایک طبقہ تبدیلی کے بالکل ہی مخالف تھا۔ بازار میں تبدیلی کے اثرات مہنگائی کو صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔چینی کی قیمت ایک دم ایک روپے سیر سے بڑھ کر سوا روپے سیر ہو جانے نے ملازم پیشہ افراد کے ذہن کے کئی طبق روشن کر دیے تھے۔ راولپنڈی میں بجلی ریپکو نام کی ایک نجی کمپنی پیدا ور تقسیم کرتی تھی۔اس لیے عوام کے اذہان کے کئی طبق روشن ہو جانے کے بعد بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوا۔میرے بچپن کا دور تھا۔ اس دور میں بچے سنتے زیادہ اور بولتے کم تھے۔ میری دادی مرحومہ کے پاس محلے کے ایک دوسرے گھر کی دادی گپ شپ لگانے آیا کرتی تھیں۔ موضوع مہنگائی ہی تھا۔ دوسرے گھر کی دادی نے کہا ْ میں عرصہ سے چار ٹوپے گیہوں دے کر پورے ہفتے کا سودا لاتی ہوں۔ کل بھی چار ٹوپے ہی میں پورے ہفتے کا سودا لے کر آئی ہوںْ 
بات پچپن سال پرانی ہے۔ میری یاد میں خریدو فروخت بارٹر سسٹم کے تحت ہوا کرتی تھی۔ ہر جنس کی ایک ْ ویلیوْ مقرر تھی۔ کسان کو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سال اس کے لیے معاشی طور پر کیسا ہو گا۔ ملازم پیشہ کو یقین تھااس کی تنخواہ کہاں خرچ ہو گی۔ تاجر کا منافع معروف ہوا کرتا تھا۔اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا کرتا تھا۔
چند دن قبل ایک اخبار میں ایک دوست نے لکھا تھا ْ فرعون کے دور میں مرغی دو درہم کی تھی، آج بھی مرغی کی اصل قیمت دو درہم ہی ہے ْ جب میں یہ کالم پڑھ رہا تھاا میرے ذہن میں چار ٹوپے والی دادی کی تصویر ابھر رہی تھی۔
غور کیا جائے تو انسان کی کچھ جبلی ضروریات ہیں۔ جن میں روٹی، کپڑا، مکان اور سواری شامل ہیں۔ زندگی میں امن بھی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے۔ جس معاشرے میں انسان کی یہ ضرورتیں پوری نہ ہو رہی ہوں وہ معاشرہ فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔
فساد یا فساد فی الارض ایسا گھناونا جرم ہے جس کی ہرعاقل انسان مذمت کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ فساد کہتے کس کو ہیں؟کسی بھی چیز کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا دینے کا نام فساد ہے۔مثال کے طور پر زمین سے پیدا ہونے والا آلو بیس روپے کا ایک کلو آتا ہے۔ ایک تاجر بیس روپے میں ایک ہزار گرام کی بجائے نو سو گرام آلو دے کربازار میں قیمتوں کا فساد پھیلا رہا ہے۔ یا ایک خاندان کا سربراہ اپنی میراث کو معروف قانون وراثت کی بجائے اپنی مرضی سے تقسیم کر کے بعض لواحقین کو بعض پر ترجیج دے کر نا انصافی کا مرتکب ہوتا ہے اور خاندان میں منافرت کے بیج بو کر ایسے اختلافات کا بیج بوتا ہے جو خاندان میں بغاوت اور سرکشی کا سبب بنتے ہیں ۔ خاندان کے اس سربراہ کے عمل کو فساد ہی کا نام دیا جائے گا۔ ایک حکمران اپنے عوام کو امن کی بجائے خوف اور دہشت پھیلا کر فساد کی بنیاد رکھتا ہے۔ 
ہم تیسری (غریب ) دنیا کے ممالک میں ماہرین معاشیات کے لیکچر سنتے ہیں۔ جس میں کاغذی کرنسی کو معاشیات میں فساد کی جڑ بتایا جاتا ہے ۔ ہم جمعے کے خطبے میں علماء دین کو ْ اعتدالْ سے گریز کو معاشرتی فساد کا سبب بتاتے سنتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماء ْ تبدیلیْ کو فساد کا منبع قرار دیتے ہیں۔ہمارے اسکالرزکا کہنا ہے کہ ہم لوگ علم کی بجائے ظن پر اعتقاد کرتے ہیں جو اصل فساد ہے۔ میڈیا کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ حق کو باطل اور باطل کو حق بتا کر معاشرے میں فساد پھیلایا جا رہا ہے۔
کیا معاشرے میں اصل اور نقل، حق و باطل ، سچ اور جھوٹ، روشنی اور اندہیرے ، ہیرو اور غدار ، اپنا اور پرایا ، محسن اور ڈاکو کی پہچان ختم ہو چکی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور معاشرے میں اس ظن کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی تبدیلی کی زیادہ ضرورت ہے۔
ایک ذاتی تجربہ کی روداد۔ میرا پوتا جس کی عمرپانچ سال ہے بازار سے ایک ایسا کھلونا لے کر آیا جو بیٹری پر چلتا ہے۔ بیٹری ختم ہو جائے تو اس کو ْ ری چارج ْ کرنے کی سہولت بھی اس کھلونے کے اندر ہی موجود ہے اور ری چارج کرنے کا طریقہ بھی ایک صفحہ کے چھپے ہوئے کاغذ کی شکل میں موجود ہے۔ میرے پوتے نے میرے سامنے میز پر ہدایات کا کاغذ پھیلایا ۔ ہدائت نمبر ایک کے مطابق چارجر کی پن کو کھلونے کے نیچے دیے گئے سوراخ نمبر ایک میں گھسایا۔ ہدایت نمبر دو کے مطابق چاجر کے شو کو بجلی والی ساکٹ میں گھسایا، ہدایت نمبر تین کے مطابق بجلی مہیا کرنے والے ساکٹ کے بٹن کو دبا کر آن کیا۔ ہدائت نمبر چار کے مطابق عمل کرتے ہوے اس چھوٹی سی بتی کو چیک کیا جو بٹن آن ہونے کے بعد جل اٹھی تھی۔جب بت جل اٹھی اور اس کے کھلونے کی بیٹری چارج ہونا شروع ہو گئی تو اس نے وقت دیکھا ۔ اس کو یقین تھا ۔ چھپے ہوئے کاکاغذ پر دی گئی ساری ہدایت درست ثابت ہوئی ہیں اس لیے تیس منٹ بعد اس کا کھلونا دوبارہ ری چارج ہونے کے بعد اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اس سے مستفید ہو سکے۔
ہر انسان اشرف ہی نہیں زمین پر خالق کائنات کا خلیفہ یا نائب بھی ہے۔جب معاملات گڈ مڈ ہو جائیں ۔ ہمارے ذہن کی بیٹری ری چارجنگ مانگے تو ہمیں وہ ہدائت نامہ کھول کر سامنے رکھنا چاہیے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدائت اور شفا ہے۔ میرے پوتے نے اپنے ْ عملْ کے بعد یقین پایا کہ ہدائت نامہ پر نمبر شمار کے مطابق عمل کرنے سے ری چارج والی بتی جل اٹھتی ہے۔ 
اصل فسا د خود فریبی ہے۔ اور سب سے بڑی خود فریبی بے عملی ہے۔ اور بے عملی سے بڑا فساد اس کام کی تبلیغ کرنا ہے جس کام پر خود عمل پیرا نہ ہوا جائے۔

منگل، 26 مارچ، 2019

جے سنڈا آرڈرن اوراکبر لون

                                   
رابرٹ حارس نے کہا تھا آپ پہاڑ کو دیکھیں آپ کو ایک منظر دکھائی دے گا، وقت کی تبدیلی ، روشینیوں کے زاویے کی تبدیلی یا دیکھنے کے مقام کی تبدیلی پر پورا منظر ہی تبدیل ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ پہاڑ وہی ہوتا ہے۔ 
واقعات بھی پہاڑ کی طرح ہوتے ہیں۔ان کے دیکھنے کے مقام اور حالات واقعات کے منظر کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ 
۱۵ جنوری ۲۰۱۹ کو نیوزی لینڈ میں دو مساجد میں پیش آنے والے واقعات نے واقعات کے اس پہاڑ کا منظر بدل کر رکھ دیا ہے ۔ جس پہاڑ کا نام ْ امن ْ ہے، حالیہ تاریخ میں اسلام کے پیروکاروں کی یہ خوبی با شعور لوگوں کو پہلی بار دکھائی دی ہے کہ وہ دوسرے انسان سے ملتے وقت اس پر ْ امن ْ کی دعا پڑہتے ہیں ۔ ایک ٹی وی چینل کی نمائندہ محترمہ کانوا للوڈیہ سن کر ششدر رہ گی ۔ جب ایک مسلمان خاتون ، اپنے خاوند اور ۲۲ سالہ جوان بیٹے کی میت پر قاتل کے لیے اپنے دل میں رحم کا جذبہ پاتی ہے۔اس کی یہ بات سننے والوں کو نئی لگی کہ اس کا دین ایسے لمحات میں اس کو سہارا دیتا ہے۔محترمہ امبریں نعیم نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں قاتل پر اس لیے رحم آرہا ہے کہ اس کے دل میں نفرت تھی۔ 
۱۹۷۹ میں جنم لینے والی جنگ کو مختلف اوقات اور مختلف ممالک میں مختلف نام دیے گئے۔پہلے یہ نظریات کی جنگ تھی، پھر اس کا عنوان تہذیبوں کی جنگ رکھا گیا، بعد میں یہ مذہبی جنگ کہلائی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ نفرت اور محبت کی جنگ ہے۔ نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی اس جنگ کے مقامات بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ جب یہ نظریات کی جنگ تھی اس وقت جرمنی اور روس میں لڑی گئی۔ مذہبی جنگ افغانستان سے لے کر مشرق وسطیٰ تک لڑی گئی۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعات لبنان کے صابرہ اور شتیلا کے مقام پر ہونے والے واقعات کا تسلسل ہیں ۔اس وقت بھی بنیاد انسانوں سے نفرت تھی اس وقت بھی منشور انسانوں سے نفرت پر مبنی ہے۔
نیوزی لینڈمیں ہونے والے واقعات پر نیوزی لینڈ کے اندر سے جو رد عمل اٹھا ہے اسے دنیا کے مختلف مقامات سے مختلف نظر سے دیکھا گیا ہے۔امریکہ والے یہ دیکھ کرحیران ہوئے کہ ۳۸ سالہ کیوی وزیر اعظم نے اپنے شہریوں سے خودکار مہلک ہتھیار واپس لینے کے لیے اس واقعہ کو کس خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے شہریوں نے اس حکمت عملی کی داد دی جس کے تحت ملک کے اندر نفرت پر مبنی ۷۲ صفحات کے منشورکے غبارے سے ہوا نکالی گئی۔ جو عشروں میں نہائت نفرت سے تیار کیا گیا تھا۔ مسلمان ممالک میں بسنے والے لوگوں نے پہاڑ کے نامانوس منظر کو مانوس بیانیے میں ڈہلتے منظر میں بدلتے دیکھا۔ دنیا کے حکمرانوں کو ْ کسی بھی وقت پھٹ جانے کو تیارْ بارود کا بتایا گیا پہاڑ، جس کی وادیوں میں مقیم سارے کے سارے لوگ دہشت گرد اور انتہا پسند بنا کر پیش کیے جاتے تھے۔ ان لوگوں کو دنیا نے دیکھا کہ ۵۰ لاشے اٹھا کر بھی یہ لوگ انسانیت کو امن کی دعا دے رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے واقعات کو دیکھنے کا نیا انداز دنیا کے سامنے رکھا ہے، امریکی صدر کے انداز کے برعکس، دنیا نے اس انداز کی تعریف ہی نہیں کی بلکہ اس انداز پر اطمینان کا سانس لیا ہے۔ دنیا کے بیشتر حصوں میں ان چشموں کی فروخت رک گئی ہے جن کو پہن کرکالا کوا سفید دکھائی دیتا تھا۔ البتہ کشمیر میں نفرت کے ان چشموں کی لوٹ سیل لگ چکی ہے۔اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ جنت نظیر کشمیر کے پہاڑ خوبصورت نہیں ہیںیا ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے انسان کسی ایسے نظریے کے پیروکار ہیں جو انسانیت کے لیے خظرناک ہیں بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ ان خوبصورت پہاڑوں اور ان کی وادیوں میں بسنے والے مظلوم لوگوں کی جو تصویر کشی کی جارہی ہے وہ حقیقی نہیں ہے ۔ پہاڑ کی منظر کشی کے لیے کیمرہ مین کو جس مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے۔اس مقام سے خوبصورتی کا منظر دحندلاجاتا ہے۔ عکاس کیمروں کے عدسوں پر جو فلٹر لگایا جاتا ہے ناقص ہے۔یہ سارا عمل جھوٹ اور بد نیتی پر مبنی ہے ۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ نیوزی لینڈ سے محترمہ جے سنڈا آرڈرن صاحبہ محبت اور رواداری کا پرچار کریں تو ان کی تعریف کی جائے ۔ مگر کشمیر میں کھڑے ہو کر جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس پارٹی کے رکن جناب اکبر لون صاحب سرحد کے پار بسنے مسلمان ملک کو ہمیشہ آباد اور کامیاب ہونے کی دعا دیں تو ان کے اس عمل کی مذمت کی جائے۔ نیوزی لینڈ کے کریسنٹ چرچ اور جموں کے درمیاں ۱۳ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ دونوں شہر دنیا کی دو انتہاوں پر واقع ہیں ۔ مواصلاتی رابطوں نے آج ذہنی فاصلوں کو مگرسمیٹ دیا ہے۔ نیوزی لینڈ میں بیٹھ کر قاتل کے لیے دل میں رحم محسوس کرنا محبت کا عنوان بنتا ہے تو ہمسائے ملک کو دعا دینا تو اس سے بڑھ کر کلمہ خیر اور امن آور ہے۔ جناب اکبر لون کا بیان قابل مذمت نہیں ہے ۔قابل مذمت وہ رویہ ہے جو نفرتوں کو جنم دیتا ہے ، انسان کو انسان کا دشمن بناتا ہے، مظلوموں کو ظالم اور ریاستی جبر کے شکار معصوم انسانوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کرتا ہے۔
جنگ کا عنوان ہی نہیں مقام بھی بدل رہا ہے۔ ۱۹۷۹ میں شروع ہونے والی جنگ اب نفرت اور محبت میں بدل چکی ہے۔نفرت پھیلانے والے دہشت گرد اور انسانیت کے دشمن ہیں۔انسانیت کے دشمنوں کا نام اگر ایک انسان دوست شخصیت لینا پسند نہیں کرتی تو ہم اس عمل کیتقلید میں اپنے خطے کے انسان دشمنوں کے نام بھی نہیں لیتے ۔ انسانیت کے دوستوں کا نام البتہ کہیں جے سنڈا آرڈرن اورکہیں اکبر لون ہے۔ 

اتوار، 17 مارچ، 2019

سادہ مگر سوال یہ ہے

‪broken scale of justice‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                          

مشہور قول ہے کہ سچ تین مرحلوں سے گذرتا ہے، پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں سچائی کویوں تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی۔ امریکہ میں برپا ہوئے۹/۱۱ کے بعد دنیا بھر میں سچائی کو جعلی خبروں کی کند چھری سے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ افغانستان میں القاعدہ کے نام پر باقاعدہ جعلی خبروں کے ذریعے پہلے عوام کا ذہن بنایا گیاپھرطالبان کی حکومت کو ڈیزی کٹر بمبوں کے ذریعے تورا بورا بنایا گیا۔ عراق میں انسانیت کش اسلحہ اور ایٹمی بمبوں کا فسانہ اس ماہرانہ طریقے سے تراشا گیا کہ یورپ اور امریکہ میں محفوظ گھروں میں رہائش پذیر شہریوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ وہاں تو جعلی خبروں نے بھونچال برپا کیا تو فلسطین اور کشمیر میں حقیقی، انسانیت کش اور تاریخ کے بد ترین ریاستی جبر کے شکار نہتے عوام کو دہشت گرد ، امن کے دشمن اور امن عالم کے لیے خطرناک ترین لوگ بنا کر پیش کیا گیا۔ بھارت نے تو پلوامہ کے نوجوان، مظلوم اور بھارتی ظلم اور بربریت کے شکار عادل ڈار کا دنیا کے سامنے ایسا نقشہ پیش کیا ۔ جیسے وہ امن عالم کا دشمن ہو، دہشت گرد تنظیموں کا اہلکار ہو، اس کے تانے بانے پاکستانیوں سے اور دہشت گردی سے اس خوبصورتی سے ملائے گئے کہ دنیا انگشت بدندان ہو گئی۔ عادل کے خود کش حملے کو جواز بنا کر بھارت پاکستان پر چڑھ دوڑا۔جھوٹ کی مٹی پر لغو پروپیگنڈے کا پانی ڈال کر کچی مٹی کی اینٹوں سے اپنے بیانیے کا لال قلعہ تعمیر کیا۔ اپنے تئیں عالمی طاقتوں کی حمائت کا پلستر بھی چڑہا لیا ۔ جب بھارت روسی مگ طیاروں کے ذریعے ْ اندر گھس کر مارنے ْ کے بیانیے کو عملی جامہ پہنا رہاتھا۔ چین میں اس کی وزیر خارجہ علاقائی اثرورسوخ والے ممالک کو دہشت گردوں کی تعریف بتا رہیں تھیں تو امریکہ میں اس کی سفارت کاری کا یہ کہہ کر ڈہول پیٹا جا رہا تھا کہ اس نے پاکستان کا امریکی ساختہ ایف سولہ طیارہ مار گرایا ہے۔ جس دہشت گردی کے مرکز کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا ۔کسی غیر جانب دار ادارے یا سرکار نے اس لغو دعوے کی تائید نہ کی۔ ایف سولہ مار گرانا بھی خود ساختہ بیانیے کا حصہ ثابت ہوا۔ مگر اصل ثبوت دنیا کو پاکستان کی اہلیت اور بردباری کا حاصل ہوا۔ راتوں رات تھاڈ نامی میزائلوں کا تین سو اہلکاروں سمیت نصب ہوجانا، امریکی صدر کا غیر ملکی دورے کے دوران بیان آجانا ، امریکہ وزیر خارجہ اور دوسرے ممالک کا فون کانوں سے نہ ہٹانامنت سماجت اور پروپیگنڈے کے بغیر ممکن ہو گیا۔ افغانیوں کا بھارتی کٹھ پتلی ہونے کا غبارہ افغانستان میں عسکری مرکز پر پھٹا۔ 
اس واقعے کے بعد پاکستان کے نمائندہ ایوان کے اجتماع میں سیاسی جماعتوں کا جو فوری اور مثبت رد عمل آیااس کے بعد حکومت نے ایک بھارتی ہواباز کی رہائی کا اعلان کر کے پاکستان کے بیانیے کو مضبوط کیا۔
بالا کوٹ حملہ کو بھارت کا ملک کے اندر ْ اندر گھس کر مارنےْ کا بیانیہ بن سکا نہ ملک کے باہر اسے اپنا حق دفاع منوا سکا۔چین نے بھارت کے ایماء پر پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹوکرکے بھارت کے علاقائی تھانیداری کے غبارے سے نیویارک میں ہوا نکال دی۔ 
ان واقعات نے اذہان میں کئی سنگین سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ جن کے جوابات بالکل سادہ ہیں ۔
پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ادارے، حکومت اور عوام جنگ سے خوفزدہ ہیں اور ان کا یہ خوف انھیں امن کی بھیک مانگنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس سوال کا پاکستان کے اندر جواب جاننے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ہم عملی طور پر گھاس کھا کر اور ْ بلین ڈالرز کی بے غیرتی کی امداد ْ کو جوتے کی نوک سے ٹھکرا کر اس کا جواب دے چکے ہیں۔ ہماری امن کی خواہش کے پس منظر میں ہمارا وہ تجربہ ہے جو گذشتہ دو دہائیوں سے جنگ لڑ کر ہم نے حاصل کیا ہے۔حالت جنگ میں پیدا ہونے والی ہماری نسل جوانی کی حدود کراس کر چکی ہے۔بارود کی بوہمارے لیے نامانوس نہیں رہی۔ بموں کے دہماکے ہماری زندگی کا حصہ رہ چکا ہے۔جہاں تک موت سے خوف کا تعلق ہے تو ْ شہادت ہے مطلوب و مقصود ْ نے موت کو زندگی سے مرغوب تر بنا دیا ہوا ہے۔ ہم شہیدوں کی میتوں پر گریہ ضرور کرتے ہیں مگر ہم ان کی قبروں پر ْ نشان عزم ْ لہرانا نہیں بھولتے ، اور شہید کا معصوم بیٹا جوان ہوتا ہی باپ کی راہ پر چلنے کے لیے ہے۔ اس کے باوجود ہمیں ادراک ہے کہ مسائل بات چیت سے حل ہوتے ہیں نہ کہ قوت سے۔ دنیا کی اکیلی سپر پاور نے نہتے افغانیوں سے ہمارے دالانوں میں جنگ لڑی مگر افغانیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا سکا نہ طاقت کا رعب منوا سکا۔بھارت ستر ہزار کشمیروں کو ذبح کر کے اگر ان کی آزادی کی تڑپ کو ختم نہ کر سکا تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ ْ اٹوٹ انگْ کا راگ بھی چھیڑے رکھے ۔ 
بھارت نے بہت محنت سے اپنا یہ بیانیہ بیچنے کی کوشش کی ہے کہ کشمیری اس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں ۔یہ پاکستان ہے جو انھیں ْ دہشت گردی ْ پر اکساتا ہے ۔ عادل ڈار نے موت کو گلے لگا کر بھارت کے اس بیانیے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ پاکستانی حدود میں بھارت کی جارحیت اس کے ایک ہواباز کی حراست اور رہائی نے پاکستان کی اہلیت، امن کی خواہش اور نیک نیتی کو عالم اقوام میں منوایا ہے۔اس موقع پر ایسے ناقابل تردید ثبوت بھی ہمارے ہاتھ لگ چکے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بغض، حسد اور سازشوں کے جزیرے دنیا میں کہاں کہاں واقع ہیں۔ 
جہاں تک ملک کے اندر اتحاداور یکجہتی پیدا کرنیوالے ہمارا بیانیہ کا تعلق ہے وہ کمزور ہے نہ مشکل وقت میں بے کار ثابت ہوا ہے۔ بلکہ وقت اور امتحانات نے ہمارے اس بیانیے کو مضبوط ہی کیا ہے۔ 
البتہ ہمیں اپنے گھر کے اندر چونا اور گیری کو اپنے اپنے مقام پر رکھنا ہوگا ۔ نسلوں سے سرقداجسام کی پہچان سفیدی ہی رہی ہے۔ ہمیں ان روائتوں پر عمل پیرا ہونے میں ہچکچائٹ کے اظہار سے بچنا چاہیے۔
ملک اوراداروں کا افراد پر حاوی رہنا ہی عدل ہے۔ اور عدل کے بارے میں غلط نہیں کہا گیا کہ اسے معاشرے میں نظر بھی آنا چاہیے۔ عدل اور انصاف کا ہمارا میزان زنگ آلود ہے اور منصف اس مقام سے کوسوں دور ہیں۔ جس مقام پر فائز منصفوں سے اللہ کے محبت کرنے کا عندیہ قران کریم دیتا ہے۔ 
ہمیں پیچیدہ سوالات میں الجھانے کا بیڑہ جن لوگوں کے سپرد ہے۔ وہ صاحبان علم ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبان وسائل بھی ہیں۔ جھوٹ کو سچ بتانا اور اس کا دفاع کرنا پروفیشنل ازم بتایا جاتا ہے۔مگر سالوں کا گھٖڑا بیانیہ اس وقت عوام کو حکمرانوں سے بد دل کر دیتا ہے جب ْ اندر گھس کر مارنےْ کے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونکس میڈیا کے ذریعے کیے گئے دعوے ہوا میں تحلیل ہو کر زمین بوس ہو جائیں۔ 
سادہ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے دوسروں کے اعمال سے کچھ عبرت بھی حاصل کی ؟