منگل، 14 نومبر، 2017

فیصلہ اور وقت کا چناو




میں نے 1976 میں کالج کی تعلیم کے بعداپنی عملی زندگی کا آغاز مشرق وسطیٰ سے کیا تھا۔  سادہ، مہمان 
نواز عربوں کے معاشرہ اور انفرادی تبدیلوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، بہت سی تبدیلیاں مثبت ہیں اور مگر کچھ حقائق سدا بہار ہوتے ہیں ، جیسے صدیوں پرانا یہ قول  ْ دولت اپنا سر اونچا کیے بغیر نہیں رہتی ْ  دولت نے شاہراہوں پہ بھاگتی گاڑیوں کو جس قدر تیز رفتاری عطا کی ہے ، عوامی مشکلات کو حل کرنے والے ادارں کی کارکردگی کو اتنا ہی سست بھی کیا ہے، رویات سے جڑی انسان دوستی کو وطنیت کے افتخار نے پچھاڑ دیا ہے، دین سے جڑی انکساری کوآسائش نے مات دے دی ہوئی ہے۔ اور سوچ کا یہ انداز غالب ہے کہ  ْ زر سے سب کام ممکن ہیں ْ اور جب زر ہی کار گر ہے تو پھر کا ر (محنت )کیوں کیا جائے۔ ترقی کا معیار عمارت کا جاذب نظر اور بلند تر ہونا ہے ، فرد اور معاشرہ مغرب  سے متاثر ہو چکا ہے ، مشاورت امریکہ کی مقبول ہے ، اور بن سلیمان کی آنکھوں کوخیرہ کیا ہے متحدہ امارات میں جاری کاروباری سرگرمیوں ، تفریحی مراکز ، چکاچوند کر دینے والے نظاروں، اور اڑان بھرتے مسافر طیاروں کی کثرت نے۔ 


اگر امارات میں یہ ہو سکتا ہے تو سعودیہ میں کیوں نہیں ، عرب کلچر ، قبائلی روایات تو ایک جیسی ہی ہیں۔



سعودی شہزادے کے مددگار اماراتی حکمران ہیں، مشیر کمپنی بھی امارات والوں کی
Recomended 
ہے ۔

2015
  میں محسوس کیا گیا کہ ْ عمر رسیدہ ْ مذہبی عنصر ترقی کی راہ روکے ہوئے ہے ، ایسی رکاوٹوں کو برطرف ہی نہیں کیا گیا بلکہ نوجوان علماء کو سامنے لایا گیا ۔ جن کا بات کرنے کا انداز بدلا ہوا ہے 
بن سلیمان نے اپنے معاشرے کو دوبئی سے بھی آگے دیکھنے کا خواب دیکھا ہے۔
Vision 2030 & Dream city NEOM
اسی سوچ کے مظہر ہیں۔اور اس کا عربی میں نام روئیت سعودی 2030 ہے۔جون 2018 سے عورتو ں کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا اسی تبدیلی کا ابتدائی حصہ ہے۔


NOEM
کا شہر بسانے کا ارادہ ، جس میں سارا کام ہائی ٹیک کمپیوٹر اور روبوٹ کریں گے، خوش لباس مرد اور خوبصورت عورتیں کام کریں گے۔ تفریحی مراکز ایسے ہوں گے جہاں خواتین بکنی پہن کر گھوم سکیں گی، کاروبار کے لئے یہ شہر تین براعظموں کے تاجروں کا گڑھ ہو گا ، ہر قسم کی آسائش�آرام اور تفریح موجود ہو گئی۔ مستقبل کے شہر کی ایک خیالی ویڈیو سعودیہ سے باہر کسی دوسرے شہر میں بنائی گئی ہے اور اس ویڈیو کو بنانے والی مشیر کمپنی نے اس کو دکھانے کا انتظام اسی 
Ritz Carlton Riyadh

ہوٹل میں کیا گیا تھا، اس میں بن سلیمان کے وزیر خزانہ ابراہیم العساف، شہزادہ ترکی بن ناصر، شہزادہ فہد بن عبدللہ، شاہی محل کے نگران خالد التویجری ہی نہیں ، متعب بن عبداللہ اور دوسرے شہزداے بھی شامل تھے ، جن کو ۴ نومبر کی شام کو اسی ہوٹل میں گرفتار کر کے لایا گیا تھا، کچھ لوگ گاڑیوں میں بھر کر لائے گئے، ولید بن طلال اپنے سپر بوئنگ پر بدیس سے بن سلیمان کی ذاتی دعوت پر آئے تھے، متعب بن عبدللہ کو بتایا گیا تھا کہ اہم اجلاس میں شامل ہونا ہے وہ اپنے فارم ہاوس سے خود اجلاس میں شرکت کے لئے پہنچے تھے، گرفتاریوں کا سارا عمل زبردست تیاری اور کمال رازداری سے کیا گیا ، اس کاروائی کو قریب سے دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے اس وقت پانچ ہزار سے زیادہ افراد نہ صرف نظر یا قید ہیں بلکہ ان کے اکاونٹ بھی منجمد ہیں۔آل سعود کے علاوہ دوسرے کرپٹ لوگ جو حراست میں لیے گئے ہیں اور مسلسل لئے جارہے ہیں ان کی تعداد کبھی بھی معلوم نہ ہو پائے گی۔
چار
 نومبر کی تحریک میں بن سلیمان کو اپنے دوست کشنیر ( امریکی صدر کے یہودی داماد اور مشیر ) کی مشاورت اورخود امریکی صدر کی اشیر باد حاصل ہے۔ امریکی طاقت کی دنیا معترف ہے اور سعودی بھی دنیا ہی کے باسی ہیں۔

ایک معاشی ماہر نے بتایا کہ روس میں
2003
 ولادمیر پیوٹن نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ کیا تو روس کے سب سے دولت مند شخص میخائیل خوردورکووسکی کو گرفتار کیا ، اور اس کوسائبیریا کے ایک لیبر کیمپ میں بجھوایا تو راتوں رات روس سے سارے سرمایہ کار بھاگ گئے۔اور ہوا یہ کہ پیوٹن اپنی ہی طاقت ور بیوروکریسی کے یرغمال بن گئے ۔ لیکن مغربی مبصرین یہ بھول جاتے ہیں کہ بادشاہت کا انجن تو چلتا ہی بیورو کریسی کی پٹڑی پر ہے۔ اور سعودیہ میں شاہی بیوروکریسی اس قدر طاقت ور ہے کہ وہ بادشاہت کے ادارے کا تو ہرسطح پر بھرم قائم رکھ سکتی ہے مگر بن سلیمان کی تبدیلی کے لئے وہ ساتھ دے پائے گی یا نہیں

بن سلیمان کے سعودی نوجوان کے سامنے آل سعود کی کرپشن کھول کر رکھ دینے کے بعد اپنی ذات کو ملک کے اندر مستحکم کر لیا ہے ، اس کرپشن کہانی سے جڑے دولت کے انبار کس کو کس کا دشمن بنائے گی یہ وقت بتائے گا کیونکہ دولت کی اوصاف میں یہ بھی ہے کہ وہ ْ دشمن پیدا کرتی ہے ْ ۔ اور ایسے دشمن بنانے میں یہی مشیر ، سعودیوں ہی کے خرچے پر مددگار ہوں گے۔

سعودی معاشرہ پرکرپشن ان کی دولت ہی کے سبب اثر انداز نہ ہو سکی مگر سعودی میں بہنے والا خون ْ ثارْ کا طلب گار رہے گا۔
Vision 2030 
کا پہلا پڑاو
2020
 ہے، اس سال معلوم ہو جائے گا کہ اس بس سے کتنی مطمن سواریاں اتری ہیں اور بس میں کتنے نئے مسافر چڑہانے کی گنجائش ہے۔
یہ بیان کر دینا بھی مناسب ہے کہ میڈیا کا ایک حصہ داعی ہے کہ سعودی خواب ( روئت السعودی 2030) بیرونی دباو کا شاخسانہ ہے۔


ٓاصل بات یہ ہے کہ
بن سلیما ن کے دو اقدام اپنی ٹائمنگ کی وجہ سے گڈ مڈ ہو گئے ہیں ، کرپشن کے خلاف اقدامت کی خبریں اولیت پر آ گئی ہیں جب کہ ترقی کے خوابکی خوش کن خبریں دب گئی ہیں۔ 

پیر، 13 نومبر، 2017

مثبت پیش رفت


مثبت پیش رفت
کیا آل سعود اپنے اختلافات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے ، اس کا فیصلہ آئندہ چند ہفتوں میں سامنے آ جائے گا مگر شاہ سلیمان کا مدینہ المنورہ سے ریاض واپس پہنچ کر شہزادہ خالد بن عائف المقرن سے وزارت الحرس الوطنی کا حلف لینا ایک مثبت پیش رفت کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے ، برطانیہ میں مقیم شاہی خاندن سے منسلک ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ ملزمان کے مقدمات کا فیصلہ ایک غیر جانب دار اور آزاد عدلیہ کرے گی ، ریاض میں خبروں کا مکمل بلیک آوٹ ہے ۔
یہ امید بھی اچھی ہے کہ لبنان کو جنگ سے بچا لیا جائے گا مگر اسلحہ کے ڈیلر انگاروں پر تیل ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہیں،البتہ وہ میزائل جو یمنی حوثیوں نے ریاض ائر پورٹ پر داغا تھا اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ امریکہ ساختہ ہے۔

اتوار، 12 نومبر، 2017

سعودیہ اور لبنان


مشرق وسطیٰ انسانیت کا قبرستان ہونے کا منطر پیش کر رہاہے، بیماری، بھوک، بے انصافی اور طرح طرح کی مظلومیت اکیسویں صدی کے اس عشرے میں انسان کو شرمندہ کرنے کا لیے کافی ہے مگر اب تو شرمندگی بھی منہ چھاتی ہے، حالانکہ یہ وسائل سے مالا مال ہی نہیں بلکہ اہل کتاب کے مذہبی عقیدتوں کے مراکزکا بھی خطہ ہے۔اور حیران کن طور پر اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں مذاہب امن اور در گذر کا سبق دیتے ہیں۔ 
لبنان میں فریق سنی، شیعہ، عیسائی اور دروز ہیں۔ اور اصل حریف سنی اور شیعہ ہیں۔میدان لبنان میں سجایا جارہا ہے مگر اصل مقابلہ ایران ور سعودیہ میں ہے اور اسرائیل منڈھیر پر بیٹھ کر فیصلہ کرے گا کہ کون سا فریق کمزور پڑھ رہا ہے تاکہ وہ میزان کے اوپر اٹھ جانے پلڑے میں اتنا وزن ڈال دے تاکہ مقابلہ جاری و ساری رہے اور شیعہ ایران یا سنی سعودیہ میں سے ایک مجبور ہوجائے کہ اس کے ساتھ اسی کی شرائظ پر دوستی کی بھیک کا طالب ہو۔ اورامریکہ اس سارے عمل کا ضمانتی ہے۔ہماری بحث کا محورچونکہ سعودیہ کے بن سلیمان ہیں اور

                                    

لبنانی سنی وزیر اعظم کا ریاض میں بیٹھ کر استعفیٰ کا اعلان کرنا ، بن سلیمان کا یمن پر حملہ کرنے جیسا ہی ایڈونچر مانا جاتا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حزب اللہ ملیشیا کو ایران سمجھتا ہے اور لبنانی حکومت کو حزب اللہ، اب حریری نے استعفیٰ دے کر اسرائیل کو موقع میسر کر دیا ہے کہ وہ چاہے تو حزب اللہ سے نمٹ سکتا ہے ،
                            

مگر مسئلہ یہ ہے کہ حزب اللہ کے زخمی ہونے کی صورت میں اس پر مرہم ،یمن سے ریاض پر میزائل داغ کر ، رکھی جائے گی، اور ریاض کے ہوائی اڈے کے قریب ایک میزائل داغ کر وارننگ دے دی گئی ہے۔ ریاض کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میزائل گرا تو 
vision 2030 
کی تباہی نوشتہ دیوار ہے جس کے مطابق بن سلیمان ریاض میں بیرونی سرمایہ کار لانا چاہتے ہیں۔
سعودیہ کا لبنان میں کردار نئی بات نہیں ہے مگر یہ بات نئی ہے کہ سعودیہ آل سعود کی خاندانی گرفت سے نکل کر مطلق العنان بادشاہ کے ہاتھ میں آیا ہی چاہتا ہے ۔
بن سلیمان کی حکمرانی کے لیے یمن کا کمبل ریچھ کا روپ دھار چکا ہے، اندرونی خاندانی خلفشار پریشانی کا موجب بن رہا ہے، لبنانی محاذ گرم ہونے کے لیے تیار ہے ۔ 
ان تما م چیلنج اور رکاوٹوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سعودیہ کے اندر نوجوان اس قوم پرست شہزادے کو اپنے مستقبل کا محافظ اور خواتین تبدیلی کا علمبردار مانتی ہیں۔

 بن سلیمان اس حمائت کو کیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں اس کا جواب بھی جلد مل جائے گا ۔
کیونکہ
امریکہ کے اسرائیل میں سابق سفیر 

                                           

Mr Dan Shapiro                                                    
کا کہنا ہے ْ محمد بن سلیمان بے صبرا شخص ہے ْ

ہفتہ، 11 نومبر، 2017

اسرائیل کا ذکر

اسرائیل کا ذکر


اسرائیل کے نقشے کو دوبارہ دیکھیں ۔ پھیلتا سفید اور سکڑتا سبز رنگ اس حیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل پاوں پسار رہا ہے۔عرب اسرائیل کو وہ اونٹ گردانتے ہیں جس کے مالک نے بارش سے بچنے کے لیے اونٹ کو اپنا منہ خیمے کے اندر کر لینے کی اجازت دی تھی مگر ہوا یہ کہ تھوڑی دیر بعد ہی اونٹ اندر اور بدو خیمے کے باہر کھڑا تھا۔
اسرائیل کی دفاعی حکمت عملی، معاشی ترقی، فنی مہارت کا سبب وہ تین درجن یو نیورسٹیاں ہیں جو ماہرانہ تحقیق کا مرکز ہیں (اسرائیل کی آبادی ملین سے بھی کم ہے )۔
اسرائیل مسلمانوں کا غیر جذباتی حریف ہے اس کے عزائم ہیں، عوام اور حکومت میں اعتماد کا رشتہ قائم ہے۔ اس کے ہمسائیوں میں جو اس کو کچل دینے کے نعرے لگاتے تھے مگر اپنوں ہی کے ہاتھوں کچلے گئے۔ لے دے کے خطے میں دو ہی مسلمان ممالک ہیں ایک شیعہ ہونے کا دعوے دار ہے دوسرا سنی ہونے کی پہچان کراتا ہے مگر اسرائیل دونوں کو مسلمان مانتا ہے ، اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ اپنا شہری مروائے بغیر دونوں میں ے ایک کو ختم کر دے تاکہ اس کے دشمنوں میں سے ایک تو کم ہو۔
3
 نومبر 2017 کو اسرائیلی وزیراعظم کا بیان تھا ْ اسرائیل کوشش کر رہا ہے، بہت کوشش کر رہا ہے کہ خطے کی کسی سنی ریاست کا اسے ساتھ حاصل ہو جائے تاکہ وہ ایران کے خطرے سے نمٹ سکے ْ 5 نومبر کو پھر کہا  ْ جب عرب اور اسرائیل ، تمام عرب اور اسرائیل ، ایک سوچ پر متفق ہیں تو پھر عوام کو بھی اس سوچ کا ساتھ دینا چاہیے ْ 
اسرائیل سالوں سے کوشش کر رہا ہے کہ اسے سعودیہ کا ساتھ حاصل ہو جائے۔لیکن سعودیہ کے لیے یہ 
ممکن نہیں ہے 

جواب آں غزل


ؑ عمل اور رد عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں ، بن سلمان کی تحریک کے رد عمل میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بھی دلچسپ ہے ۔اور بات کرنے کا انداز بھی نیا ہے۔
بن سلیمان کے بارے میں کہا گیا ہے ان کے دل میں بھی خواہشیں جنم لیتی ہیں، اور وہ ان خواہشوں کی تکمیل میں دنیا بھر کے ملکوں کی سیر کرتے ہیں، ان کے دل کی دھڑکن بھی 
Serene 
(ایک کشتی کا نام ہے) کو دیکھ کر تیز ہو گئی تھی ، دل کی دھڑکن کو معمول پر لانے کے لیے پانچ سو ملین ادا کردیے گئے۔مزید یہ کہ کسی کو باپ کی وفات کے بعد ترکے میں دولت ملی ہے تو خود بن سلمان کے باپ کے اٹھارہ بلین ڈالر تو تقسیم بھی نہیں ہوئے ، ان کے پاس تین بلین ہیں ، یہ شکوہ آل سعود کے معتوب شہزادے کے ہمدرد کزن کا ہے جو خاندانی رقابت سے تنگ آ کریورپ میں جا بسے ہیں۔اور یہ بیان 
autoblog 

کے بلاگر کا ہے۔جو 1980 سے ان معاملات کے خود کو قریب سے دیکھنے کے دعویدار ہیں۔
Serene. 439.30ft Yacht , 8231 Tonnes, 25 knots speed
----------------------------------------------------------------------------

ولید بن طلال کے ایک کاروباری دوست کی دلیل ہے کہ ولیدکی گرفتاری کی خبر پر صرف منگل تک ولید کے اثاثوں کی قیمت گرنے سے ولید کو 
$ 855 Mn
کا نقصان ہوا ہے جو آل سعود اور سعودیہ ہی کا نقصان ہے۔

------------------------------------------------------------------------------



سابقہ مرحومیں بادشاہوں کی کرپشن کی کہانیوں کے جواب میں کہا گیا ہے کہ بن سلمان کے باپ کے پاس فٹ بال گراونڈ کی لمبائی کے برابر کشتی سپین میں لنگر انداز ہے جس پر بیس افراد کا مستعد عملہ ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔اور اس مین 30 آدمیوں کے اسانی سے راتیں گذارنے کے انتظامات ہیں۔ شاہ سلیمان کے اس محل کا ذکر بھی آیا ہے، جس محل میں سابقہ امریکی صدر اوباما کو خوش امدید کہا گیا تھا۔ اس محل میں رشتہ داروں کا داخلہ اس لیے بند ہے کہ اس کی آرائش کی نقل نہ کی جائے۔شاہ سلیمان جب مالدیپ میں چھٹیاں گزارنے  گئے تھے ان کے سو افراد کے محافظ دستے اور دوسرے
لوازمات کے ساتھ تیس ملین ڈالر کے اخراجات کی کہانی ابھی تازہ ہے۔ سوئیٹزر لینڈ میں ان کے محل کا نام بھی لیا گیا ہے۔


-------------------------------------------------------------------------------



بن سلیمان پر آل سعود کے اندر سے تیر اندازوں کا کہنا ہے کہ بن سلیمان کے الزام اس سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کی کامیابی کی صورت میں وہ خود بادشاہ بننے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں، آل سعود میں روائت رہی ہے کہ وہ پچھلی عمر میں بادشاہ بنتے ہیں ، عزت کی زندگی گزارتے ہیں اور با عزت دفن ہوتے ہیں ، سارا خاندان مرحوم کے لواحقین سے تعزیت کرتا ہے۔ 
بن سلیمان کے امریکیوں اور اسرائیلیوں سے ذاتی تعلقات ہیں، اس کا ثبوت لبنان کے حالات اور بن سلیمان کی اس میں دلچسپی ہے۔


-------------------------------------------------------------------------------



جب النہار اخبار نے یہ خبر چھاپی کہ ولید بن طلال اور ان کی بیٹی ریم کو رہا کرنے کی بجائے شاہ سلیمان کے محل میں منتقل کر دیا گیا ہے تو شاہی خاندان کے یورپ میں مقیم ایک شہزادے کی یہ بات چیت منظر پر آئی کہ وہ دعا گو ہیں کہ ریم بلین ڈالر کے ازالہ عرفی کا دعویٰ نہ کر دے جس کا بن سلیمان کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا۔کیونکہ باپ بیٹی کو بغیر ثبوت گرفتار کیا گیااور بغیر فرد جرم کے رہا کر دیا گیا۔
باعزت لوگوں کو یرغمال بنا کر تشدد کا نشانہ بنانا قانون کے مطابق نہیں ہے ۔ یہ صریح اعلان ہے اور بن سلیمان یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شاہی خاندان کا بے قصور فرد ہو جیسے ولید بن طلال یا ایک با عزت تاجر جیسے الطیار ٹریول ایجنسی والا یا ایک باعزت روائتی خاندان کا فرد جیسے بکر بن لادن ، بکر کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ بن لادن ہے حالانکہ 
1931
میں اس کا باپ آل سعود کو پانی کے لیے ٹنکر بلا معاوضہ مہیا کیا کرتا تھا جب ان کے پاس پاس کرپشن کی زر نہیں ہواکرتی تھی۔اس کا قصور البتہ یہ ہے کہ وہ بن لادن ہے اور یہ نام کسی کو پسند نہیں ہے، کیا کسی کے پاس اس کا جواب ہے کہ مسجد میں توسیع کا کام ہو، ائر پورٹ کی تعمیر ہو یا کنگ عبدللہ اکنامک سٹی کی تعمیر ہو ، بکر نے اپنے پاس سے ادائیگیاں کر کے کام کو جاری رکھا اور جب وہ کئے گئے معائدہ کے مطابق بل کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے تو اس کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ رشوت دے کر کرپشن کا مرتکب ہو، یہ کرپشن کے خلاف کاروائی نظر نہیں ٓتی۔ 


--------------------------------------------------------------------------------




thenewkhalij.org
کی ایک رپورٹ کے مطابق خالد بن فرحان السعود جو جو جرمنی مین رہتے ہیں کا کہنا ہے بن سلیمان اپنے والد کے مرنے سے پہلے بادشاہ بننے کی جلدی میں ہیں،ان کی اس خواہش کی تکمیل میں چند شرطیں رکھی گئی ہیں ، مصر اور اردن کی سرحد
کے قریب نیا شہر بسانا اچھا کام ہے البتہ غزہ سے فلسطینوں کو لا کر یہاں بسانا اور سوئس کنال کے متبادل 
اسرائیلی منصوبے میں مدد کا وعدہ پورا کرنا ایسے محرکات ہیں جس پراختلافات ہیں 

2015 

میں شاہ عبدللہ بن عبد العزیز کی وفات سے قبل آل سعود اس مسئلہ پر تقسیم کا شکار ہو چکے ہیں۔
---------------------------------------------------------------------------------


بوری کی مالیت کیا ہے


آل سعود میں شہزادوں کی تعداد نامعلوم ہے ۔البتہ ایک بلاگ کا عنوان ہے
What happening in the land of ten thousand princes
ایک دوسرے بلاگر 
Dorian de Wind
Retired U.S. Air Force Officer and Writer
کا دعویٰ ہے کہ شہزادوں کی تعداد پندرہ ہزار ہے، 
شہزادوں کی تعداد جو بھی ہوتمام شہزدے ماہانہ وظیفے سےنوازے جاتے ہیں ، ذاتی جہازوں میں سفر کرتے ہیں، اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں اور کوئی بھی ایسا نہیں جس کے اثاثے اور ملین مین نہ ہو۔ ان کی کارکردگی کا اندازہ اس خبر سے ہوتا ہے کہ ایک شہزادے کو کہا گیا کہ وہ ایسی تعمیر کریں جو عوام کے لیے فائدہ مند ہوتو انھون نے اپنے لیے ایک اور محل کھڑا کر لیا۔

Huffpost 

کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کرپشن کی مالیت
1.4 Trillion American Dollars
ہے 
بن سلیمان کے متحرک ہونے کے بعد الزام اور جوابی الزامات کے بعد دو کام ہوئے ہیں ایک آل سعود کے اندرونی اختلافات کھل کر دنیا کے سامنے آ گئے ہیں دوسرا اس بوری کا منہ کھل گیا ہے جس میں زر کی مالیت ٹریلین میں ہے، یہ کرپشن کی ایسی بوری ہے جس کا منہ کھل جائے تو ارد گرد کی ہوا بد بودار ہو جاتی ہے۔
--------------------------------------------------------------------------------


آل سعود
شاہ عبدلعزیز جو آل سعود کے بانی ہیں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی 17 بیویاں تھے اور ان کی اولاد کی تعداد 100 کے قریب بیان کی جاتی ہے ، ان میں 45 شہزادے تھے۔ شاہ سعود، شاہ فیصل ، شاہ خالد کی مجموعی اولاد کی تعداد 115 ہے۔
                                  --------------------------------------------------------------------------------

امریکہ اور سعودیہ

امریکہ کی اس خطے میں بہت بڑی سرمایہ کاری بصورت دفاع، معاشیات، سفارت اور سراغ رسانی پائی جاتی ہے۔ عشروں میں اس نے بااعتماد افراد ، ادارے اور ملکوں کے سربراہ دوست بنا لیے ہوئے ہیں۔امریکیوں کے بارے میں یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی ذات کے دوست ہیں ، اس کے بعد وہ امریکہ کی ریاست کی دوستی کو خیالات اور نظریات پر ترجیح دیتے ہیں۔جیسے عرب علاقوں کو فتح کرنے والے غیر مسلم انجام کار مسلمان ہو جاتے رہے ہیں ایسے ہی امریکہ معاشرہ باہر سے آ کر وہاں بس جانے والوں کی اگلی نسل کو مکمل طور پر خود میں سمو لیتا ہے۔ امریکہ کا نظام اور قانون اپنے شہریوں کو جو شخصی آزادی اور انفرادی تحفظ مہا کرتا ہے وہ فرد کو سلطنت کا ممنون بنا دیتا ہے ۔ یوں حاکم و محکوم باہمی اعتماد کے رشتے میں جڑ جاتے ہیں، مشرق وسطیٰ میں ذاتی تحفط ناپید ہے، یہ وہ مجبوری ہے جو فرد کو دوسروں کا آلہ کار بننے پر مجبور کرتی ہے، مشرق وسطی میں اسرائیل اور ایران کے سوا ہر جگہ ہر قسم کے آلہ کار دستیاب ہیں۔

امریکہ کو اس خطے میں اسرائیل کا تحفظ بہت پیارا ہے اور جو فرد یا ادارہ یا ملک اس کے پیار میں معاون ہو گا ہووہ امریکہ کو خود کا دوست پائے گا ۔فلسطین ، اردن، مصر، شام ، عراق اور لبنان میں امریکہ اپنا یہ پیار نبھاتا رہا اور نبھاتا رہے گا۔

سعودی عرب میں گو بادشاہت ہے مگر دراصل مطلق العنان بادشاہت کی بجائے آل سعود کی حکمرانی ہے، بادشاہ آل سعود کے مفادات کا محافظ بن کر اپنی طاقت شہزادوں کے ذریعے عوام سے حاصل کرتا ہے۔ دوسرا عنصر مذہبی رہنماوں کا ہے جو ایک معاہدے کے تحت حکومت میں شامل ہو کر بادشاہ کو اپنی حمائت سے 
نوازتے ہیں اور بدلے میں اپنے نظریات کی ترویج کا حق پاتے ہیں۔
سعودیہ کے بادشاہ کو اپنے مذہبی ساتھیوں کے تحفظ میں 1979 سے مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث بادشاہ کے مذہبی حلیفوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ سعودیہ اس بے چینی کا سبب 1979 کے ایرانی اسلامی انقلاب کر گردانتا ہے ۔ یوں ایران کے خلاف سعودی اور امریکی مفادات ایک دوسرے کو جوڑے ہوئے ہیں، امریکہ بڑی طاقت ہونے کے سبب سعودیہ سے بعض اوقات اپنے ْ پیارے ْ اسرائیل کے لئے نا جائز مفادات بھی حاصل کرتا رہا ہے، مگر اب وہ حد فاصل آ چکی ہوئی ہے کہ سعودی بادشاہ کے لئے اس حد کو عبور کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ اس حقیقت کا امریکہ کو بھی ادراک ہے ۔ ممالک گھی نکالنے کے لیے انگلی ٹیڑہی نہیں کرتے مگر اپنے خفیہ اداروں اور سازشوں کے ذریعے گھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں

to be continued