پیر، 18 اگست، 2025

ٹوٹا پھوٹا مسلمان

ٹوٹا پھوٹا مسلمان
دنیا کے تقریباً دو ارب مسلمان ایک ہی اللہ، ایک ہی رسول ﷺ اور ایک ہی قرآن کو ماننے والے ہیں۔ لیکن عملی زندگی اور سماجی شناخت میں امتِ مسلمہ مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ یہ تقسیم کبھی سیاسی اسباب کے باعث ہوئی اور کبھی فقہی و نظریاتی اختلافات کی وجہ سے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایمان میں اتحاد رکھنے کے باوجود امت کا عملی چہرہ تقسیم در تقسیم دکھائی دیتا ہے۔
قرآنِ کریم نے امتِ مسلمہ کو بارہا یاد دلایا ہے کہ اصل پہچان صرف "مسلمان" ہونا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:ترجمہ: "اللہ نے تمہارا نام پہلے بھی مسلمان رکھا اور اس (قرآن) میں بھی یہی نام رکھا ہے۔"(الحج: 78)
مزید فرمایا:ترجمہ: "اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔"(آل عمران: 103)
یہ ہدایات بالکل واضح کرتی ہیں کہ فرقہ واریت اللہ کو پسند نہیں، بلکہ اتحاد اور "مسلمان" کی یکساں شناخت ہی اصل ہے۔
امت کی تقسیم ایک حقیقت ہے ، اس وقت تحقیقات کے مطابق
اہلِ سنت: 85 تا 90 فیصد
اہلِ تشیع: 10 تا 15 فیصد
اباضیہ: ایک فیصد سے بھی کم
دیگر چھوٹے گروہ (اسماعیلی، بوهری، وغیرہ): 1 فیصد
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی واضح اکثریت دو بڑے فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔
آج ایک نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، خصوصاً تعلیم یافتہ طبقے اور مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کے درمیان۔ ان میں سے بہت سے لوگ کہتے ہیں: "ہم نہ سنی ہیں، نہ شیعہ، نہ کسی اور فرقے کے پیروکار، ہم صرف مسلمان ہیں۔"
Pew Research Center کی رپورٹس کے مطابق تقریباً 20 تا 25 فیصد مسلمان خود کو صرف "مسلمان" کہتے ہیں، جبکہ 70 تا 75 فیصد کسی خاص فرقے سے وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرقہ واریت کے بارے میں واضح خبردار کیا تھا:
"میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے ایک جنت میں ہوگا اور باقی دوزخ میں۔"(سنن ابوداؤد، ترمذی)
یہ حدیث ہمیں یاد دلاتی ہے کہ محض فرقوں کی کثرت کامیابی کی ضمانت نہیں، بلکہ اصل کامیابی اس جماعت کے ساتھ جڑنے میں ہے جو فرقہ پرست نہ ہو،
سوال یہ ہے کہ کیا یہ نئی سوچ امت کو دوبارہ "ایک" کر پائے گی؟ کیا واقعی مسلمان فرقہ واریت کو پیچھے چھوڑ کر صرف قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھ سکیں گے؟یہ فیصلہ وقت کرے گا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ قرآن کا حکم، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور امت کی بقا اسی میں ہے کہ ہم "مسلمان" کہلائیں اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم نہ ہوں۔

بدھ، 13 اگست، 2025

پاکستان ہمیشہ زندہ باد



پاکستان ہمیشہ زندہ باد 

2025 کا سال پاکستان کے لیے ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز بن چکا ہے۔ وہ دور جس کا خواب کئی دہائیوں سے ہر پاکستانی کے دل میں تھا — سیاسی شفافیت، مذہبی ہم آہنگی، معاشی ترقی اور عالمی سطح پر وقار کی بحالی۔ حالات و واقعات اور صاحبانِ علم کی پیشن گوئیوں سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اب کی بار سمت درست ہے اور رفتار بھی حوصلہ افزا۔

حکومت کی Vision 2025 اور Uraan Pakistan جیسے منصوبے اس نئے دور کی بنیاد ہیں۔ شرح خواندگی بڑھانے سے لے کر خواتین کو بااختیار بنانے تک، توانائی کے شعبے کی بہتری سے برآمدات میں اضافے تک، یہ خاکے محض کاغذی نہیں بلکہ عملی اقدامات میں ڈھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسی دوران، مذہبی قیادت نے بھی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ عالمی کانفرنس میں مسلم علماء نے اتفاق کیا کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم ایک شرعی و سماجی ضرورت ہے۔ یہ پیش رفت پاکستان میں مذہب اور ترقی کو ہم آہنگ کرنے کی علامت ہے۔

سماجی میدان میں ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کی تنظیم "اخوات" جیسے لوگ غریب اور نادار طبقے کو مالی خودمختاری دے کر ایک باوقار زندگی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جو نہ صرف انفرادی بلکہ قومی وقار میں اضافہ کرتا ہے۔

علم نجوم کی دنیا بھی اس بار پاکستان کے لیے اچھی خبریں سناتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مارچ 2025 کے بعد ترقی کا ایک سلسلہ شروع ہوگا، بیرونی سرمایہ کاری بڑھے گی، روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، اور سیاسی قیادت میں بھی تصادم کے بجائے مصالحت کا امکان بڑھ جائے گا۔

سب سے اہم تبدیلی ہماری نوجوان نسل میں دکھائی دے رہی ہے۔ وہ نسل جو کبھی مایوسی اور منفی تنقید میں گم تھی، اب آہستہ آہستہ ذاتی محاسبے، تعلیم، اور مہارت کی طرف رجوع کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل معیشت، فری لانسنگ، اور اسکل ڈویلپمنٹ کے مواقع کو وہ کھلے دل سے اپنا رہی ہے۔

یہ سب اشارے بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی، مذہبی، عسکری اور عدالتی قیادت میں بہتری کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ قانون کی حکمرانی مضبوط ہوگی، پاکستان کا عالمی امیج نکھرے گا، اور پاکستانی پاسپورٹ کو وہ عزت ملے گی جس کا یہ حقدار ہے۔

یوں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ایک روشن دور کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کا سفر شاید آسان نہ ہو، لیکن سمت درست ہے۔ اور جب سمت درست ہو تو وقت ہی سب سے بڑا دوست بن جاتا ہے۔

دلپزیر احمد جنجوعہ

بدھ، 6 اگست، 2025

طاہر القادری کا خواب: مدینہ کی "ٹکٹ" اور روحانی تعبیر

 طاہر القادری کا خواب: مدینہ کی "ٹکٹ" اور روحانی تعبیر

تحقیقی و تنقیدی جائزہ

پاکستانی مذہبی و سیاسی منظرنامے میں ڈاکٹر طاہر القادری ایک معروف شخصیت ہیں، جنہوں نے تحریک منہاج القرآن کے ذریعے دین و سیاست کے امتزاج کا بیانیہ پیش کیا۔ ان کی علمی، سیاسی اور روحانی گفتگو میں اکثر ایسے خواب شامل ہوتے ہیں جو وہ خود کو بارگاہِ نبوی ﷺ یا روحانی دنیا سے منسوب کرتے ہیں۔ انہی میں ایک خواب کا تذکرہ انہوں نے کئی مواقع پر کیا، جس میں مدینہ منورہ جانے والی "ٹکٹ" کی ادائیگی کا ذکر کیا گیا ہے۔

خواب کا خلاصہ

ڈاکٹر طاہر القادری کا بیان کردہ خواب کچھ یوں ہے:

"میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک روحانی پرواز مدینہ منورہ کی جانب جا رہی ہے، اور اس پرواز کے تمام مسافروں کا کرایہ کسی کو ادا کرنا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں سب کا کرایہ ادا کرتا ہوں۔"

یہ خواب ڈاکٹر طاہر القادری کی تقاریر اور بیانات میں مختلف انداز سے ذکر ہوا ہے اور ان کے ماننے والوں میں اسے ان کی "روحانی حیثیت" کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔


تعبیر، تاویل یا تاثر؟

اس خواب کو ان کے حامی ایک "روحانی فیضان" اور دینِ اسلام کی خدمت کی علامت سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر قادری نے نہ صرف علمی و تبلیغی خدمات سرانجام دیں، بلکہ امت کو "مدینہ کی طرف لے جانے والی" ایک فکری و روحانی راہ دکھائی۔

تاہم، ناقدین اس خواب کو محض خودساختہ روحانی برتری کے دعوے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواب ایک ذاتی تجربہ ہوتا ہے، اسے عوامی سطح پر دلیلِ عظمت یا حقانیت کے طور پر پیش کرنا علمی و دینی اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے۔


خوابوں کی شرعی حیثیت

اسلامی فقہ اور حدیث کی روشنی میں خواب تین قسموں کے ہوتے ہیں:

  1. رحمانی خواب: جو اللہ کی طرف سے خوش خبری یا ہدایت کے طور پر آئے۔

  2. نفسیاتی خواب: جو انسان کے خیالات، اضطراب یا روزمرہ کے معمولات پر مبنی ہوں۔

  3. شیطانی خواب: جو فتنہ، خوف یا گمراہی پیدا کریں۔

جیسا کہ حدیثِ نبوی ﷺ ہے:

"الرُّؤْيَا ثَلَاثَةٌ: فَرُؤْيَا صَالِحَةٌ بُشْرَى مِنَ اللَّهِ، وَرُؤْيَا تَحْزِينٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، وَرُؤْيَا مِمَّا يُحَدِّثُ الْمَرْءَ نَفْسَهُ"
(صحیح مسلم)

یعنی خواب تین طرح کے ہوتے ہیں: نیک خواب جو اللہ کی طرف سے بشارت ہوتے ہیں، غمناک خواب جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں، اور وہ خواب جو انسان اپنے خیالات سے بناتا ہے۔


تاریخی تناظر میں "روحانی خوابوں" کا سیاسی استعمال

ہمارے معاشرے میں "خواب" کو بعض اوقات سیاسی یا نظریاتی بیانیے کو تقویت دینے کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ جیسے:

  • مولانا غلام محمد سیالویؒ سے منسوب "شہنشاہ جارج کا تاج" والا خواب

  • اوریا مقبول جان کا خواب کہ "جنرل باجوہ کی تقرری بارگاہِ رسالت سے ہوئی"

  • یا بعض سیاستدانوں کے دعوے کہ انہیں خواب میں "حکم" ملا کہ وہ قیادت کریں

ان تمام خوابوں کا ایک مشترکہ پہلو یہ ہے کہ یہ خواب سنانے والے اپنی رائے، فیصلے یا عمل کو ایک روحانی جواز عطا کرتے ہیں۔ لیکن یہ روش معاشرتی و فکری سطح پر ایک خطرناک رجحان کو جنم دیتی ہے: غیبی دعوے کو دنیوی اختیار کا جواز بنانا۔


نتیجہ

ڈاکٹر طاہر القادری کا خواب ایک ذاتی روحانی تجربہ ہو سکتا ہے، مگر اسے کسی نظریے، تحریک یا شخصیت کی حقانیت کا معیار نہیں بنایا جا سکتا۔ خواب شریعت نہیں، نہ ہی ان سے حتمی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ یہ دین میں ایمان، علم اور عمل کی جگہ نہیں لے سکتے۔

روحانیت کا اصل مطلب ہے دل کی اصلاح، عمل کی سچائی، اور باطن کی پاکیزگی۔ خواب اگر اس راہ پر استقامت دیں، تو خیر؛ لیکن اگر خواب، اقتدار، شہرت یا اختیار کا وسیلہ بنیں تو پھر ان کی حقیقت کی جانچ ضروری ہو جاتی ہے۔


اگر آپ چاہیں تو میں اس موضوع پر مزید حوالہ جات یا تقابلی جائزہ بھی شامل کر سکتا ہوں، یا اسے ایک کتابی مضمون یا کالم کی شکل میں ترتیب دے سکتا ہوں۔

اتوار، 3 اگست، 2025

بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے





 بڑھاپا — وقت نہیں، محبت مانگتا ہے

بڑھاپا زندگی کی سب سے سچی حقیقت ہے۔ یہ وہ موڑ ہے جہاں جسم کی توانائی، آنکھوں کی چمک، آواز کی روانی اور ذہن کی چستی پیچھے رہ جاتی ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان کا دل، بڑھاپے میں بھی، ویسا ہی حساس اور محبت کا طلبگار رہتا ہے جیسا بچپن میں ہوتا ہے۔
اس عمر میں سب سے بڑی ضرورت ہوتی ہے — وقت۔
نہ پیسہ، نہ دوائی، نہ آرام دہ بستر — فقط تھوڑا سا وقت، محبت بھرا لمس، اور چند لمحوں کی دلجوئی۔
مگر المیہ یہ ہے کہ آج کی اولاد والدین کی اس محبت کی بھیک دینے پر بھی تیار نہیں۔ وہ ماں جس نے راتیں جاگ کر بچے پالے، وہ باپ جس نے اپنی خواہشیں مار کر بچوں کو سہولت دی — وہی ماں باپ آج ضعیفی کی دہلیز پر تنہا کر دیے جاتے ہیں۔
ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ باپ، ماں کے برعکس، سوال کا عادی نہیں ہوتا۔ وہ خاموشی سے اپنی ضروریات کو دباتا ہے، دکھ کو چھپاتا ہے، اور اولاد کی مصروفیت کا عذر خود بنا لیتا ہے۔ لیکن یہ اولاد کا فرض ہے کہ وہ اپنے والد کی ذاتی ضروریات پر نظر رکھے، ان میں کسی کمی کو محسوس کرے اور اس کی تلافی کرے۔
بڑھاپے میں والدین کی خدمت صرف خدمت نہیں، ان کی روح کی غذا ہے۔
ان کا ہاتھ تھامنا، ان کے چہرے کو چھونا، ان سے محبت سے بات کرنا — یہ سب انہیں توانائی دیتا ہے۔ یہ سادہ سے عمل انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ اب بھی اپنے بچوں کی دنیا کا حصہ ہیں۔
ایک سروے کے مطابق پاکستان میں بڑھاپے میں نظر انداز کیے گئے والدین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں میں اکثر ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جہاں والدین کو صرف اس لیے گھر سے نکال دیا جاتا ہے کہ وہ "خرچ" یا "پرائیویسی" کے لیے "غیر موزوں" ہو گئے۔
ایک 78 سالہ شخص لاہور کی سڑک پر روتا ہوا ملا جسے بیٹے نے نکال دیا۔ کراچی کی ایک ماں، الزائمر کی مریضہ، ایدھی ہوم میں پڑی رہتی ہے اور دن رات بیٹوں کو یاد کرتی ہے۔ راولپنڈی کا ایک استاد، جو سینکڑوں بچوں کا استاد رہا، بڑھاپے میں فٹ پاتھ پر آ بیٹھا۔
ان مناظر کو صرف پڑھ لینا کافی نہیں، انہیں محسوس کرنا ضروری ہے۔
اسلام نے والدین کی خدمت کو جنت کا راستہ قرار دیا ہے۔
قرآن کہتا ہے:
"اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔"
اور نبی ﷺ نے فرمایا:
"وہ شخص برباد ہو جائے جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور پھر بھی جنت حاصل نہ کی۔"
اسلام صرف عبادات کا دین نہیں، یہ تعلقات کا بھی دین ہے۔ اور سب سے پہلا تعلق — والدین کے ساتھ ہوتا ہے۔
روزانہ اگر صرف پانچ منٹ بھی والدین کے ساتھ گزار لیے جائیں، ان کی آنکھوں میں دیکھا جائے، ان کی بات سنی جائے — تو وہ دن کا سب سے قیمتی لمحہ بن جاتا ہے۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے:
کیا ہماری مصروفیات، ہمارے والدین سے زیادہ قیمتی ہیں؟
کیا آج جو وقت بچا رہے ہیں، وہی کل ہمارے بچے ہمیں واپس دیں گے؟
یاد رکھیں، بڑھاپا وقت نہیں مانگتا — محبت مانگتا ہے، موجودگی مانگتا ہے، توجہ مانگتا ہے۔
اگر ہم نے آج اپنے والدین کو وقت نہ دیا، تو کل ہم وقت کے سب سے بڑے قیدی ہوں گے — اور شاید ہمارے بچے بھی ہماری ہی مثال کو دہرا رہے ہوں گے۔

(یہ کالم "بڑھاپے" پر ایک اجتماعی اور ذاتی شعور بیدار کرنے کی کوشش ہے۔ اسے ضرور اپنے والدین کے ساتھ وقت گزارنے کی ایک یاد دہانی سمجھا جائے، نہ کہ فقط ایک تحریر۔)

ہفتہ، 2 اگست، 2025

دولت کو راستہ دو




دولت کو راستہ دو

یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے کہ "پاکستان ایک غریب ملک ہے"، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں نہ صرف قدرتی وسائل کی بہتات ہے بلکہ ایسے باصلاحیت، جفاکش، اور ذہین لوگ موجود ہیں جو دنیا بھر میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اصل مسئلہ غربت نہیں، بلکہ دولت کی منصفانہ تقسیم، اس کا درست بہاؤ، اور امیروں سے نفرت کی وہ فضا ہے جس نے معاشرتی ترقی کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔
پاکستان کے  ایک تحقیقی ادارے نے حال ہی میں ایک دلچسپ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اس وقت پاکستان میں  35 خاندان ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔  ایوب دور کے 22 سرمایہ دار گھرانوں کے خلاف ایک بیان اس وقت کے ایک ماہر معیشت نے دیا اور امارت کے غلاف نفرت کا پہلا بیج بویا جو اب تناور درخت بن چکا ہے  ہر امیر آدمی، بڑے گھر اور قیمتی گاڑی کو دیکھ کر ناظر کے زہن میں ایک ہی لفظ آتا ہے "چور"۔
اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ دولت کو کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کے خدام کی تعداد ہزاروں میں تھی اور ان کے جانوروں کے ریوڑ اتنے تھے کہ ان کے چرواہوں کی جماعتیں تشکیل دی گئی تھیں۔ حضرت یوسفؑ، جو مصر کے وزیر خزانہ بنے، نے نہ صرف سلطنت کی معیشت کو بچایا بلکہ خود بھی حکومتی دولت کے نگران بنے۔ حضرت سلیمانؑ کے بارے میں قرآن گواہی دیتا ہے کہ ان کے پاس ہواؤں، جنات، پرندوں اور بے پناہ خزانوں کا کنٹرول تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ اور حضرت طلحہؓ جیسے صحابہ شامل تھے جنہوں نے اپنی دولت سے اسلام کو مستحکم کیا۔ حضرت عثمانؓ نے ایک موقع پر پورا لشکر تیار کر کے دیا، اور ان کے باغات مدینہ میں آج بھی موجود ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں دولت مند ہونے کو فخر یا جرم نہیں بلکہ ذمہ داری سمجھا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار کہا گیا ہے 
"وَأَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم"
یعنی "اس میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہیں دیا۔"
اس کا مطلب ہے کہ دولت ہو تو خرچ کرنے کا حکم ہے، رکھی نہ جائے۔
یورپ، امریکہ اور چین میں امیر افراد کو قدر و منزلت حاصل ہے۔ وہاں کے امیر لوگ سادگی سے رہتے ہیں، مگر اپنی دولت کو کاروبار اور فلاح میں لگاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور بزنس میں سرمایہ کاری کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو روزگار دیا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سرمایہ داروں کو نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں قومی اثاثہ تصور کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی سرمایہ کاروں کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ البتہ، یہاں 300، 700 یا 1200 کنال کے محلات میں صرف دو انسانوں اور تین کتوں کا قیام معاشرتی توازن بگاڑتا ہے، جس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔
پاکستان میں وہ دماغ، وہ صلاحیت، وہ وژن موجود ہے جو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے منصفانہ سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھول سکتا ہے۔ یہاں اتنا سرمایہ موجود ہے کہ اگر اعتماد کی فضا پیدا کی جائے تو یہی مقامی سرمایہ غیر ملکی سرمایہ کو مقناطیس کی طرح کھینچ سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کو ہنر اور مواقع دیے جائیں، تاکہ وہ  اپنی بلکہ اپنے خاندان کی حالت بدل سکیں۔ غریبوں کو نفرت کے بجائے امید دی جائے، محنت کے ذریعے خوشحال ہونے کا خواب دکھایا جائے، اور دولت مندوں کو تجوریوں میں سونے ڈالنے کے بجائے سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی جائے۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے ہر سال نئی پالیسیوں اور قوانین سے گریز کیا جائے۔ ایک طویل المدتی معاشی روڈ میپ تشکیل دیا جائے جو کم از کم 10 سال پر محیط ہو۔ یقین کریں، اگر ہم نے مستقل مزاجی اور نیک نیتی سے عمل کیا، تو پاکستان نہ صرف خطے بلکہ دنیا میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت بن سکتا ہے۔ کیونکہ یہاں جذبے کی کمی نہیں، ہنر کی قلت نہیں، اور خواب دیکھنے والے آج بھی بے شمار ہیں۔
دولت برائی نہیں، اس کا غلط استعمال اور دکھاوا مسئلہ ہے۔ امیروں سے نفرت کرنے کی بجائے انہیں معاشرے کے محرک کے طور پر قبول کریں، اور غریبوں کو عزت دے کر آگے بڑھنے کے لیے راستہ دکھائیں۔ یہی 
ترقی  کا فارمولا ہے۔
جہاں تک خواب دیکھنے کا تعلق ہے 
  ذولفقار علی بھٹو نے تیل سے لبریز ایک
ایک بوتل اپنے دفتر کے میز پر سجائی تھی، میاں نواز شریف کی تصاویر بھی موجود ہیں جس میں وہ دھات کا ایک راڈ اٹھائے ہوئے چنیوٹ کا ذکر کر رہے تھے ، عمران خان فرماتے تھے  کے پی کے میں پانی کے لیے  کنواں کھودا جائے تو پانی کی بجائے تیل نکل آتا ہے ۔ 
پاکستانی معجزے برپا کرنے والے لوگ ہیں ۔ ان کو صرف سرپرستی اور میدان عمل مہیا ہو جائے تو نتیجہ وہ خود نکال لیں گے ۔