ہفتہ، 21 جون، 2025

اسرائیل کے دوست




اسرائیل کے دوست

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

دنیا میں قوموں کے تعلقات صرف معاہدات، مفادات یا وقتی ضروریات پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ بعض رشتے فطری ہوتے ہیں — نظریاتی ہم آہنگی، تاریخی تجربات، تہذیبی مماثلت، اور اسٹریٹجک ضروریات کے باعث بعض ممالک ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی بن جاتے ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ اس کی جغرافیائی حدود مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں، لیکن اس کے قدرتی اتحادی عموماً مغربی یا غیر عرب دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں کا مفصل تجزیہ کریں گے۔
 امریکہ: اسٹریٹجک رفیق یا روحانی بھائی؟
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اور دیرینہ اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس، اقتصادی اور سائنسی تعلقات نہایت مضبوط ہیں۔ اس تعلق کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
یہودی لابی کا اثر: امریکہ میں یہودی برادری کا اثرورسوخ بہت گہرا ہے۔
 AIPAC
 جیسی تنظیمیں امریکی پالیسی پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔
مسیحی صہیونی تحریک: ایک بڑی امریکی عیسائی آبادی عقیدے کی بنیاد پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی طاقت مسیحا کی آمد کے لیے لازمی ہے۔
اسٹریٹجک ضرورت: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے اسرائیل ایک مستقل عسکری اڈہ ہے، جہاں سے وہ علاقائی طاقتوں ایران، شام، اور حتیٰ کہ ترکی پر بھی نظر رکھتا ہے۔
بھارت: نظریاتی ہم آہنگی اور اسلام دشمنی کا اشتراک
اگرچہ بھارت نے 1992 میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے، مگر گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تعلقات حیرت انگیز حد تک گہرے ہو چکے ہیں۔
اسلام مخالف بیانیہ: بھارت اور اسرائیل دونوں نے مذہبی اقلیتوں — خصوصاً مسلمانوں — کے خلاف سخت گیر رویہ اپنایا ہے۔ نریندر مودی اور بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں یہ رشتہ مزید مستحکم ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف اتحاد: دونوں ممالک خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انسداد دہشت گردی کی ٹیکنالوجی اور تجربات شیئر کرتے ہیں۔
دفاعی تجارت: اسرائیل، بھارت کو جدید ہتھیار، ڈرون، سائبر ٹیکنالوجی، اور انٹیلیجنس سسٹمز فراہم کرتا ہے۔
 یونان اور قبرص: اسرائیل کے یورپی پڑوسی
مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی قرب میں واقع یونان اور قبرص اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
ترکی مخالف اتحاد: ترکی کے ساتھ ان تینوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں، جس کا فائدہ باہمی اشتراک میں ہو رہا ہے۔
توانائی کے منصوبے: اسرائیل، یونان اور قبرص نے مشرقی بحیرہ روم سے گیس نکالنے اور یورپ تک پہنچانے کے لیے مشترکہ پائپ لائن منصوبے بنائے ہیں۔
بحری تحفظ: یہ ممالک مل کر سمندری تحفظ، انٹیلیجنس شیئرنگ اور نیول مشقیں کرتے ہیں۔
 افریقی ممالک: نظریاتی نہیں، لیکن فائدے مند اتحادی
متعدد افریقی ممالک جیسے کینیا، یوگنڈا، ایتھوپیا، اور روانڈا اسرائیل کے ساتھ دفاعی، زرعی اور تکنیکی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ بنیادی وجوہات شامل ہیں:
ترقیاتی منصوبے: اسرائیل ان ممالک کو ٹیکنالوجی، زراعت، اور پانی کی صفائی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں ووٹنگ سپورٹ: یہ ممالک اسرائیل کو عالمی فورمز پر ووٹ کے ذریعے فائدہ دیتے ہیں۔
 خلیجی ممالک (نئے اتحادی)
ابراہام معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔
ایران مخالف بیانیہ: ان ممالک کے لیے اسرائیل ایک طاقتور حلیف ہے جو ایران کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ بنا سکتا ہے۔
معاشی مفادات: ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، اور سیاحت کے شعبوں میں اسرائیل کی مہارت ان ممالک کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
امریکی دباو: امریکہ نے ان ممالک پر سفارتی دباؤ ڈال کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرائے۔

اسرائیل کے " اتحادی" صرف وہ ممالک نہیں جو اس سے سفارتی یا عسکری تعلقات رکھتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو
نظریاتی طور پر اسلام دشمنی میں شریک ہیں،
ایران مخالف بیانیے کے حامل ہیں،
امریکہ کی عالمی حکمت عملی کا حصہ ہیں،
یا پھر اسرائیلی ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اسرائیل آج ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو اپنے فطری اتحادیوں کے ساتھ مل کر نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ عالمی جغرافیہ پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔

اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ



اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ

اتحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

اردن ایک منفرد عرب ریاست ہے۔ اس کی تاریخ خلافت عثمانیہ کے خاتمے، عرب بغاوت، اور برطانیہ کی مہربانیوں سے شروع ہوتی ہے۔ حکومت ہاشمی خاندان کے پاس ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے، مگر حرمین کا اختیار ان کے مخالف آلِ سعود کے پاس ہے۔ اردن ایک طرف امریکہ کی مالی چھتری تلے سانس لیتا ہے، دوسری طرف اسرائیل سے امن معاہدہ رکھتا ہے، اور تیسری طرف فلسطینی عوام کے ساتھ دلی ہمدردی بھی جتاتا ہے۔ یہ سب کچھ بیک وقت ممکن کیسے ہے؟ اس کا جواب صرف "مشرقِ وسطیٰ کی سیاست" میں پوشیدہ ہے، جو اصولوں سے نہیں، مجبوریوں سے لکھی جاتی ہے۔
ہاشمیوں کی بادشاہت: برطانوی تحفہ
اردن کا قیام 1921 میں ہوا جب برطانیہ نے شریف حسین کے بیٹے عبداللہ اول کو "امیرِ شرقِ اردن" مقرر کیا۔ شریف حسین وہی شخص تھا جس نے عربوں کو خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت پر اکسایا، اس وعدے پر کہ برطانیہ انہیں آزاد عرب ریاست دے گا۔ مگر برطانیہ نے اس وعدے کو پورا نہ کیا اور صرف ایک چھوٹا سا صحرا — موجودہ اردن — انعام میں دیا۔ باقی عرب سرزمین، فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لی۔ یوں ہاشمی قیادت خلافت تو نہ پا سکی، مگر ایک چھوٹی بادشاہت ضرور مل گئی۔
آلِ سعود اور ہاشمی کشمکش
     انیس سو چوبیس 
 میں آلِ سعود نے شریف حسین کو مکہ سے بے دخل کیا، اور یوں حرمین پر ہاشمیوں کی تاریخی نگرانی ختم ہو گئی۔ یہ واقعہ آج تک ہاشمی خاندان کی سیاسی اور روحانی نفسیات پر اثرانداز ہے۔ آج اگرچہ اردن اور سعودی عرب بظاہر اتحادی ہیں، مگر دلوں میں تاریخی چبھن باقی ہے۔ اردن اپنے آپ کو مسجد اقصیٰ کا محافظ سمجھتا ہے، اور آل سعود کو خادمینِ حرمین کا دعویدار۔ دونوں کی مذہبی حیثیت کا ٹکراؤ ہمیشہ ایک خاموش کشمکش کی صورت میں موجود ہے۔
امریکہ کی چھتری
اردن کی معیشت، دفاع اور سفارت کاری کی ڈوریں امریکہ سے بندھی ہوئی ہیں۔ ہر سال اردن کو امریکہ سے اربوں ڈالرز کی امداد ملتی ہے۔ امریکہ اردن کو ایک "معتدل، پرو-ویسٹ، اور قابلِ اعتماد" عرب اتحادی سمجھتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف کسی سخت رویے میں شریک نہیں ہوتا۔ اردن میں کئی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جو شام، عراق اور ایران پر نظر رکھنے کے کام آتے ہیں۔
اسرائیل سے امن، مگر کس قیمت پر؟
این سو چورانوے
 میں اردن نے اسرائیل سے امن معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بدلے اردن کو پانی، تجارتی مواقع، اور امریکی حمایت ملی۔ اسرائیل نے اردن کو مسجد اقصیٰ کے اسلامی انتظام کا غیر رسمی حق بھی تسلیم کیا۔ مگر یہ معاہدہ اردنی عوام کو کبھی ہضم نہ ہوا۔ اردن کی اکثریت فلسطینی نژاد ہے، جن کے دل میں اسرائیل کے لیے شدید نفرت ہے۔ ہر بار جب اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہے، اردن کی سڑکوں پر عوام سُلگ اٹھتی ہے، مگر حکومت صرف "اظہارِ تشویش" تک محدود رہتی ہے۔
گیس اور پانی: خاموش مجبوریاں
اردن اسرائیل سے پانی خریدتا ہے۔ ساتھ ہی 2016 میں اردن نے اسرائیل سے گیس خریدنے کا اربوں ڈالر کا معاہدہ بھی کیا، جس پر عوام نے شدید احتجاج کیا۔ مگر اردن جیسی خشک اور مالی لحاظ سے کمزور ریاست کے لیے ان معاہدوں سے نکلنا آسان نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی بقا اور اخلاقی موقف آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔
اسرائیل کی سخت گیر حکومت اور اردن کا اضطراب
نیتن یاہو کی موجودہ شدت پسند حکومت نے مسجد اقصیٰ پر مسلسل دھاوے بولے، بستیوں کی تعمیر تیز کی، اور فلسطینیوں پر ظلم بڑھایا۔ اردن نے ہر موقع پر سخت بیانات دیے، مگر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔ وجہ واضح ہے — امن معاہدہ ختم کرنے کا مطلب امریکی امداد کا خاتمہ، اندرونی استحکام کا خطرہ، اور اسرائیل سے براہِ راست محاذ آرائی۔
عوام اور حکومت: دو الگ دنیائیں
اردنی حکومت اسرائیل سے امن چاہتی ہے، مگر عوام کے لیے اسرائیل ایک ظالم، غاصب اور مذہب دشمن ریاست ہے۔ اردن کا یہ تضاد — جہاں حکومت اور عوام دو الگ بیانیوں پر زندہ ہیں — مشرق وسطیٰ کی سیاست کی سب سے تلخ حقیقت ہے۔

اردن کا اسرائیل سے رشتہ دو جہتوں پر مبنی ہے — مجبوری اور مفاد۔ حکومت کے لیے امن، پانی، گیس، اور امریکی حمایت ضروری ہے۔ عوام کے لیے فلسطین، مسجد اقصیٰ، اور اخلاقی انصاف اہم ہے۔ ہاشمی بادشاہت کو اپنے وجود کے لیے مغرب سے جڑنا پڑا، مگر اپنی عوام سے جڑے رہنے کے لیے فلسطینیوں کے درد کو بھی محسوس کرنا پڑتا ہے۔ یوں اردن ایک ایسی کشتی میں سوار ہے جو دونوں کناروں کو چھونے کی کوشش کر رہی ہے، مگر کسی ایک کنارے پر اترنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔
یہ وہ ریاست ہے جہاں سیاست مجبوری ہے، مذہب شناخت ہے، اور امن معاہدہ ایک ناپسندیدہ ضرورت۔


اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟






عنوان: اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

مصر، جو فراعنہ کی سرزمین بھی ہے، اسلام کا قلعہ بھی اور عرب دنیا کی عسکری قوت بھی، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہمیشہ مرکزیت رکھتا رہا ہے۔ مگر اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات عرب دنیا میں سب سے پہلے "امن" پر منتج ہوئے — ایک ایسا امن جو کاغذ پر لکھا گیا، مگر دلوں میں کبھی اُترا نہیں۔
اسرائیل اور مصر کی کہانی صرف دو ریاستوں کی سفارتی تاریخ نہیں، بلکہ یہ عرب قومی جذبات، فلسطینی کاز، امریکی اثر، اور عوامی نفرت کے درمیان پھنسی ہوئی ایک ایسی داستان ہے جسے سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کئی دریچوں میں جھانکنا ہوگا۔
 مصر کی تاریخ: عظمت، نوآبادیات اور قوم پرستی
 قدیم عظمت
مصر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہے۔ فراعنہ، اہرام، نیل، اور علم و حکمت کی تاریخ اسے منفرد بناتی ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد مصر نے خلافتوں اور سلطنتوں کا دور دیکھا، یہاں تک کہ عثمانی خلافت کے زیراثر آ گیا۔
برطانوی قبضہ اور آزادی
1882
 میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا، اور 1922
 میں جزوی آزادی ملی۔ مگر اصل خودمختاری
 1952
 میں "فری آفیسرز موومنٹ" کے بعد حاصل ہوئی، جب بادشاہ فاروق کو معزول کر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت سنبھالی۔ ناصر عرب قوم پرستی اور اسرائیل مخالفت کا سب سے بڑا علمبردار بنا۔
 اسرائیل کے ساتھ جنگیں: 
عرب خون، شکست اور امن
1948
 میں مصر نے عرب اتحاد کے تحت اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی، مگر کامیابی نہ ملی۔
1956
 میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر نہر سویز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جسے ناصر نے عوامی جذبات سے شکست دی۔
1967
 کی "شش روزہ جنگ" میں اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نما سینا چھین لیا — ایک ایسی شکست جو ناصر کی زندگی پر بوجھ بن گئی۔
1973
 کی  جنگ میں مصر نے شام کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنا غصب شدہ علاقہ واگزار کرانے کی کوشش کی، کچھ کامیابی ملی، مگر مکمل فتح حاصل نہ ہو سکی۔
. انور السادات اور امن معاہدہ
صدر انور السادات نے
 1978
 میں امریکہ کے شہر کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر کے ساتھ "کیمپ ڈیوڈ معاہدہ" پر دستخط کیے۔
1979
 میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عرب دنیا کی پہلی مسلم ریاست ہونے کا اعزاز حاصل کیا — اور شدید تنقید کا سامنا کیا۔
  تعلقات بحال مگر فاصلے باقی
مصر اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کے سفارت خانے فعال ہیں، وزرائے خارجہ ملاقاتیں کرتے ہیں، انٹیلیجنس افسران تعاون کرتے ہیں، اور فوجی سطح پر بھی رابطے ہوتے ہیں، خصوصاً غزہ کی سرحد پر۔
 انٹیلیجنس شراکت داری
مصر اور اسرائیل، غزہ میں حماس کے خلاف خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
مصر سینا میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اسرائیلی انٹیلیجنس کا سہارا لیتا ہے۔
 امریکی اثر
امریکہ، مصر کو ہر سال 1.3 ارب ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے، جس کی شرط ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ امن رکھے۔
امریکہ مصر کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کے لیے سب سے اہم خارجی طاقت ہے، اور وہ اسرائیل سے دشمنی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔
 مصری عوام کا احساس 
عام مصری، اسرائیل کو ایک غاصب اور ظالم ریاست سمجھتے ہیں۔
غزہ کے محاصرے میں مصر کا کردار عوام کو تکلیف دیتا ہے — کیونکہ رفح بارڈر اکثر بند رکھا جاتا ہے، اور فلسطینیوں کو امداد یا علاج کے لیے مصر داخلے پرسختیاں ہوتی ہیں۔
 انور سادات کا قتل اور اس کے اثرات
سادات کو 1981 میں انہی کی فوج کے ایک رکن نے قتل کیا — اسرائیل سے امن معاہدے پر ناراضی اس کی بڑی وجہ تھی۔
آج بھی سادات کو بعض حلقے "قومی خائن" اور بعض "دور اندیش قائد" مانتے ہیں، مگر اختلاف قائم ہے۔
 عوامی سطح پر بائیکاٹ
مصر میں اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔
فنکار، ادیب، اور دانشور اسرائیل سے کسی بھی قسم کے ثقافتی یا تجارتی تعلقات کے مخالف ہیں۔
 مفادات کی سیاست
مصر کی فوج، جو ملکی اقتدار کی اصل وارث ہے، اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتی۔
صدر السیسی کا طرزِ حکمرانی سیکیورٹی، اسٹیبلشمنٹ اور معیشت پر مبنی ہے، اور ان تینوں کو اسرائیل سے تعلق میں فائدہ ہے، نقصان نہیں۔سادگی سے کہا جا سکتا ہے: "امن معاہدہ زندہ ہے، مگر امن مردہ ہے۔"
  مجبوری کا امن
مصر اور اسرائیل کے تعلقات ایک ایسے معاہدے پر قائم ہیں جو دنیا کے سامنے امن کی مثال ہے، مگر عوامی دلوں میں شکست اور غصے کی یاد بھی ہے۔ حکومت کو امن، استحکام اور امریکی امداد کی فکر ہے، اور عوام کو فلسطینی خون، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اور اسرائیلی جبر کا غصہ۔
مصر نے اسرائیل کو تسلیم تو کر لیا، مگر دلوں نے کبھی معاف نہیں کیا۔
یہی وہ تضاد ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا خاصہ ہے —  امن معاہدے زندہ ہوتے ہیں، مگر امن کی روح مر چکی ہوتی ہے۔


جمعہ، 20 جون، 2025

بھارت کی پراکسی جنگ



 پاکستان میں چینی شہریوں پر بڑھتے حملے

پاکستان اور چین کی دوستی کو دنیا بھر میں "آہنی برادری" کے طور پر جانا جاتا ہے۔ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) جیسے منصوبے اس تعلق کو مزید مضبوط بنا رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں پاکستان میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے پیچھے بھارت کی مبینہ پراکسی سرگرمیوں کا ہاتھ ہونے کے شواہد سامنے آ رہے ہیں۔

حالیہ حملے اور ان کے پس منظر

اکتوبر 2024 میں کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک خودکش حملے میں دو چینی انجینئرز ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (BLA) نے قبول کی، جو ایک علیحدگی پسند تنظیم ہے اور پاکستان میں چینی منصوبوں کو نشانہ بناتی رہی ہے۔

اسی طرح، مارچ 2025 میں خیبر پختونخوا کے بشام علاقے میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کے قافلے پر حملہ ہوا، جس میں پانچ چینی شہری اور ایک پاکستانی ہلاک ہوئے۔ اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی، تاہم تحقیقات میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے ملوث ہونے کے شواہد ملے۔

بھارت کی مبینہ پراکسی سرگرمیاں

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی "را" (RAW) BLA اور TTP جیسے گروپوں کو مالی اور عسکری مدد فراہم کر رہی ہے تاکہ پاکستان میں چینی مفادات کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ 2018 میں کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی تحقیقات میں بھی بھارت کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے تھے، تاہم عدالت میں ان شواہد کو ثابت نہیں کیا جا سکا۔

علاوہ ازیں، اپریل 2025 میں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان میں افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ 

TTP

کے ارکان تھے اور انہیں بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ 

چینی ردعمل اور پاکستان کی ذمہ داری

چین نے پاکستان میں اپنے شہریوں پر ہونے والے حملوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چینی شہریوں اور منصوبوں کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ چینی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی جانب سے چین-پاکستان تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ 

پاکستانی حکومت نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے اور چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم، ان حملوں کا تسلسل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مزید مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں چینی شہریوں پر ہونے والے حملے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کو متاثر کر رہے ہیں بلکہ CPEC جیسے اہم منصوبوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ بھارت کی مبینہ پراکسی سرگرمیوں کے ذریعے ان حملوں کی پشت پناہی خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کی ان سرگرمیوں کو بے نقاب کرے تاکہ خطے میں امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔


A Spy Game Gone Wrong in Middle East

The arrest of alleged Indian spies in Iran has triggered quiet ripples across West Asia’s diplomatic landscape. While governments are yet to respond formally, the implications of these events could be significant — not just for New Delhi’s relations with Tehran, but for the millions of Indian workers spread across the Middle East.

At the heart of the matter is a sensitive accusation: India, potentially in coordination with Israeli intelligence services, is using its presence in the region to gather intelligence against Iranian assets. Iran, locked in a silent war of attrition with Israel, views such activity as a threat to its sovereignty — and when such activity is traced to Indian nationals, alarm bells ring.

Kulbhushan Jadhav Revisited?

This isn’t the first time India’s intelligence activities have drawn controversy in the region. In 2016, Pakistan arrested Kulbhushan Jadhav, a former Indian Navy officer, claiming he was a RAW operative using Iranian soil to infiltrate Balochistan. Though India denied these claims, Iran privately confirmed to Pakistan that Jadhav had entered from its territory — an admission that damaged bilateral trust.

In the years since, Iran has arrested multiple foreign-linked operatives, often tied to Mossad. Regional security sources claim that some of these networks had indirect or logistical links to Indian nationals, particularly in cyber, telecom, or port-based operations.

A Vulnerable Labor Force

What does this mean for Indian workers in the Gulf?

With over 8 million Indian expatriates working across the Middle East — including in Saudi Arabia, the UAE, Oman, Qatar, and even Iran — any diplomatic crisis has real-world consequences. If espionage allegations gain traction, Indian nationals working in sensitive sectors like energy, ports, infrastructure, or IT could be subject to new scrutiny.

Iran itself hosts Indian engineers, port staff (notably at Chabahar), and oil sector workers. If Tehran sees New Delhi as compromising its national security, visa restrictions, project delays, or even deportations are possible — especially if domestic pressures mount.

Gulf States May Watch Closely

While Iran may be directly impacted, the wider Gulf region won’t remain unaffected. Many Gulf countries host large Shia populations, maintain careful balances with Tehran, and increasingly question India's alignment with Israel.

In a region where sectarian politics shape foreign policy, any indication that India is working against Shia interests or collaborating with Israel against Iran could spark religious and political backlash. While governments may not act overtly, pressure from clerics, activists, or the public could lead to increased vetting of Indian workers, especially in high-trust sectors.

We've seen parallels before. After Saudi Arabia labeled Hezbollah a terrorist group in 2016, Shia workers from Lebanon and Iraq faced quiet blacklisting across the Gulf. In Turkey, post-2016 coup crackdowns led to Turkish nationals being detained or expelled in several Arab states on suspicion of Gulenist ties.

Could Indian workers face similar pressures in a worst-case scenario?

Strategic Overreach?

India’s increasing intimacy with Israel, particularly in the intelligence domain, is well-documented. Cyber cooperation, facial recognition systems, drone technologies, and even counter-terror training are being exchanged — and operational reach is expanding.

But every expansion brings exposure. In a region as volatile and politically fragmented as West Asia, perceived overreach can backfire. India has long enjoyed goodwill in the Muslim world, seen as a balanced, secular democracy with strong historical and cultural ties. That image is slowly shifting.

If New Delhi is seen as a silent partner in covert operations targeting Iran or its allies, the impact could go beyond diplomacy — it could affect trade, investments, pilgrimages, and most critically, the security of Indian nationals abroad.

Final Thought

Intelligence operations are built on stealth. But when they go public, consequences are swift and far-reaching. If India is indeed stretching its strategic ambitions into Iran through covert means, it must prepare for the blowback — and not just at the diplomatic level.

For the millions of Indians living and working in the Gulf, the cost of a spy scandal could be more than embarrassment — it could be existential.