جمعرات، 12 جون، 2025

گہرے زخم






اکتوبر 2023 سے جون 2025 تک مشرقِ وسطیٰ کی فضا مسلسل بارود کی بُو سے مہکتی رہی۔ ایک طرف فلسطین کے جلتے گھر، دوسری طرف ایران کے سائے میں پلتے خواب – اور ان کے بیچ اسرائیل کا وہ ہاتھ جو دور سے حملہ کرتا رہا، مگر اثرات تہران، دمشق، بیروت، اور نطنز تک محسوس کیے گئے۔

یہ دورانیہ محض حملوں کی تاریخ نہیں، بلکہ ایک منظم حکمت عملی کی عکاسی ہے – وہ حکمت عملی جو ایران کو نہ صرف جوہری میدان میں پیچھے دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے، بلکہ اس کی عسکری اور سائنسی قیادت کو بھی مفلوج کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔

یکم اپریل 2024 کو شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا۔ اسرائیلی فضائی حملے میں سات پاسدارانِ انقلاب (IRGC) افسر، ایک ایرانی مشیر، اور دو شہری مارے گئے۔ اس حملے نے ایران کی "سفارتی حدود" کو بھی غیر محفوظ کر دیا۔ یہ پیغام صرف شام کو نہیں، بلکہ تہران کو تھا۔

19 اپریل 2024 کو اسرائیل نے ایران کے اسفہان علاقے کے قریب فضائی حملہ کر کے نطنز جوہری تنصیب کے دفاعی ریڈارز اور S-300 بیٹریوں کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ علامتی نہیں تھا، بلکہ جوہری صلاحیتوں کی کمر توڑنے کی سنجیدہ کوشش تھی۔

ستمبر اور اکتوبر 2024 کے درمیان اسرائیل نے بیروت، بغداد، اور ایران کے اندر کئی حملے کیے۔ ان حملوں میں ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر، بریگیڈیئر جنرل عباس نیلفروشان، اور دیگر افسران کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کے لیے یہ صرف ہلاکتیں نہیں تھیں بلکہ نظریاتی و دفاعی بنیادوں پر ایک ضرب تھی۔

12 
اور 13 جون کو اسرائیل نے جو کچھ کیا، وہ صرف ایک فوجی آپریشن نہیں تھا بلکہ ایک "خاموش اعلانِ جنگ" تھا۔ آپریشن رائزنگ لائن 
(Rising Lion) 
کے تحت ایران کی جوہری، میزائل، اور عسکری تنصیبات پر شدید حملے کیے گئے۔
اس حملے میں ایران کی فوجی اور سائنسی قیادت کا دل چیر کر رکھ دیا گیا:
میجر جنرل حسین سلیمی – پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ، مارے گئے۔
میجر جنرل غلام علی راشد – IRGC کمانڈر، ہلاک ہوئے۔
میجر جنرل محمد باقری – مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف، بعض ذرائع کے مطابق ہلاک، بعض کے مطابق زخمی۔
علی شمخانی – خامنہ‌ای کے سینیئر مشیر، شدید زخمی۔
فریدون عباسی داوانی – ایٹمی سائنسدان، مارے گئے۔
محمد مهدی طهرانچی – جوہری طبیعات کے پروفیسر، جان سے گئے۔
عبدالحمید منوشہر اور احمدرضا زلفغہری – شاہد بہشتی یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدان، ہلاک۔

ایرانی میڈیا کے مطابق تہران اور دیگر شہروں کے شہری علاقوں پر بھی حملے ہوئے جن میں بچوں سمیت کئی عام شہری زخمی یا ہلاک ہوئے۔ اس جنگ میں فوجی مارے جاتے ہیں، مگر اصل قیمت ہمیشہ عوام ادا کرتے ہیں۔
سوال جو باقی رہ گیا

ان حملوں کے بعد دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ امریکہ نے کسی واضح شمولیت سے انکار کیا، جبکہ 
IAEA
 صرف جوہری نقصانات کا جائزہ لے رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ؟ اس کا کردار ایک رسمی بیان تک محدود رہا۔

ایران نے "شدید ردعمل" کا عندیہ دیا ہے، لیکن کیا اس کی قیادت باقی بچی ہے جو جواب دے سکے؟ یا کیا اسرائیل نے اپنی حکمتِ عملی سے واقعی ایران کو جوہری طور پر پیچھے دھکیل دیا ہے؟
 اسرائیل نے ایران کی پسلیوں میں گہرے زخم دیے ہیں – کچھ جسمانی، کچھ نظریاتی۔ اب ایران کا اگلا قدم مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل طے کرے گا۔ سوال یہ نہیں کہ کون جیتا، بلکہ یہ ہے کہ کتنے مرے، اور کتنے اب بھی مرنے کو تیار ہیں۔


ایران پر اسرائیلی حملہ




13
 جون 2025 کا دن مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب بن کر ابھرا۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے گئے بھرپور حملوں نے نہ صرف خطے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی، بلکہ عالمی طاقتوں کو بھی ایک نئے بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

ان حملوں کا کوڈ نام 
"Rising Lion"
 رکھا گیا۔ اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات، خصوصاً نطنز، کے ساتھ ساتھ عسکری اور میزائل مراکز پر فضائی حملے کیے۔ ایران کی طرف سے اس کارروائی کو "بقیہ حسرت" کا نام دیا گیا، جو اس کے شدید ردعمل کا مظہر ہے۔
اسرائیل نے صرف عمارات کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ ایران کی فوجی اور سائنسی قیادت کو بھی چن چن کر نشانہ بنایا۔

ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلیمی، میجر جنرل غلام علی راشد اور ممکنہ طور پر چیف آف اسٹاف محمد باقری شائد زخمی ہیں ۔ یہ وہ نام ہیں جو ایران کی عسکری حکمت عملی کا دماغ سمجھے جاتے تھے۔ خامنہ‌ای کے سینیئر مشیر علی شمخانی شدید زخمی ہو کر ہسپتال منتقل کیے گئے۔

جوہری پروگرام میں ایران کے چند بڑے دماغ بھی اس حملے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ فریدون عباسی-داوانی جیسے معروف سائنسدان کی ہلاکت کی ریاستی میڈیا نے تصدیق کی ہے۔ شاہد بہشتی یونیورسٹی سے وابستہ محمد مهدی طهرانچی، عبدالحمید منوشہر اور احمدرضا زلفغہری جیسے پروفیسر بھی مارے گئے۔ ان کی موت ایران کے سائنسی منظرنامے میں ایک بڑا خلا چھوڑ گئی ہے۔

یہ حملے صرف فوجی نوعیت کے نہیں تھے۔ تہران جیسے شہری علاقوں میں بھی بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں خواتین، بچے اور عام شہری زخمی یا ہلاک ہوئے۔ زیرِ زمین جوہری مرکز نطنز میں دھماکوں نے بنیادی انفراسٹرکچر کو تہس نہس کر دیا، اور اب IAEA اس کی نگرانی کر رہی ہے۔

رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ‌ای نے اعلان کیا ہے کہ ایران اس حملے کا "شدید جواب" دے گا۔ دوسری طرف امریکہ نے اسرائیلی کارروائی میں براہِ راست ملوث ہونے سے انکار کیا ہے، مگر اس دعوے پر دنیا بھر میں شکوک پائے جاتے ہیں۔

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات پہلے ہی نازک موڑ پر تھے۔ اب یہ کارروائی ان مذاکرات کو مکمل طور پر دفن کر سکتی ہے۔ اسرائیل نے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہیں اور تمام تر فوجی یونٹس کو الرٹ پر رکھ دیا گیا ہے۔ گویا وہ ایران کے ممکنہ جوابی حملے کے لیے تیار ہے۔

اسرائیل اور ایران کی یہ سرد جنگ اب کھلے میدان میں آ چکی ہے۔ یہ صرف دو ممالک کی جنگ نہیں، بلکہ مشرق وسطیٰ کی مجموعی سیاست اور دنیا کے ایندھن کے ذخائر پر حملہ ہے۔ جو کچھ بھی ہو، اس کے اثرات نہ صرف تہران اور تل ابیب میں بلکہ دنیا بھر میں محسوس کیے جائیں گے۔

بھارتی حملہ ، پاکستانی جواب



مئی 2025، کو بھارت نے جنگ نہیں، ایک سیاسی تماشہ بنایا۔ مقصد سرحد پر کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانا، میڈیا کی سرخیاں لینا اور اپنی عوام کو دکھانا تھا کہ وہ کچھ کر رہے ہیں۔
یہ سب ایک طے شدہ کھیل تھا — غصے اور تکبر کا مصنوعی مظاہرہ۔
بھارت کی حکمتِ عملی:
میڈیا میں سبقت حاصل کرنا
اندرونی خلفشار پر پردہ ڈالنا
پچھلی ناکامیوں کے بعد طاقت دکھانا
بھارت نے 70 سے زائد طیارے اڑا کر طاقت دکھانے کی کوشش کی۔ ڈرونز کی بڑی تعداد استعمال کی۔ لیکن یہ سب محض شور ثابت ہوا۔ کوئی بڑا ہدف حاصل نہ کیا جا سکا۔
نہ انہیں فضائی برتری ملی، نہ حیرت کا عنصر، نہ ہی واضح کامیابی۔

پاکستان نے نہ جذبات دکھائے، نہ بڑھ چڑھ کر باتیں کیں۔ ہم نے سوچ سمجھ کر، اپنے وقت پر، درست انداز میں جواب دیا۔ دشمن کی مہم کو اپنی شرائط پر سامنے لایا، تجزیہ کیا، اور خاموشی سے مؤثر حکمتِ عملی اپنائی۔

 ہماری خاموشی کمزوری نہیں تھی، بلکہ نفسیاتی برتری تھی۔ اور جب پہلی ضرب لگی، بھارت فوراً جنگ بندی کے لیے بھاگا۔

جنگ صرف میدان میں نہیں، اس بار سوشل میڈیا پر بھی لڑی گئی۔ بھارت نے جھوٹی تصاویر، فرضی کامیابیاں، اور مبالغہ آمیز دعوے پھیلائے۔
مگر دنیا نے ان کا جھوٹ پہچان لیا:
لاہور کی بندرگاہ تباہ کرنے کے دعوے مذاق بنے
"زیرو نقصان" کی باتوں پر کسی نے یقین نہ کیا
غیر ملکی ماہرین نے بھارتی بیانیہ مسترد کر دیا

اس کے برعکس پاکستان نے حقیقت پر مبنی بات کی۔ نقصان تسلیم کیا، حقائق دنیا کے سامنے رکھے، اور تمام ادارے ایک ہی مؤقف پر قائم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا نے پاکستان کی بات کو سنجیدگی سے لیا۔

ہم نے ثابت کیا 
دفاع صرف ہتھیار سے نہیں، سچائی اور حکمت سے ہوتا ہے
بھارت نے ہمیں کمزور سمجھا، مگر ہمارا صبر، حکمت اور سچائی غالب آئی۔
انہوں نے شور کیا، ہم نے جواب دیا۔
انہوں نے دکھاوا کیا، ہم نے عمل کیا۔
انہوں نے جنگ چھیڑی، ہم نے اسے ختم کیا — اپنی شرائط پر۔

تین دروازے






 تین دروازے

رومی فرمایا کرتے تھے کہ گفتگو سے پہلے اپنے الفاظ کو تین دروازوں سے گزارو۔
پہلا دروازہ سچائی کا ہے — اپنے دل سے پوچھو: کیا جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں وہ سچ ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہو، تب بھی زبان کو مت کھولو، بلکہ دوسرا دروازہ تلاش کرو۔

دوسرا دروازہ اہمیت کا ہے — خود سے سوال کرو: کیا یہ بات کہنا ضروری ہے؟
اگر یہ بات نہایت اہم اور مقصدی ہے، تب بھی ٹھہر جاؤ، اور تیسرے دروازے کی طرف قدم بڑھاؤ۔

تیسرا دروازہ نرمی اور مہربانی کا ہے — پھر خود سے پوچھو: کیا میرے الفاظ نرم ہیں؟ کیا میرا لہجہ مہربان ہے؟
اگر ان میں نرمی نہیں، تو خاموشی بہتر ہے — خواہ تمہاری بات سچ ہو، خواہ وہ بات جتنی بھی ضروری کیوں نہ ہو۔

کہا جاتا ہے کہ مولانا رومی کی زندگی میں یہ تینوں دروازے حضرت شمس تبریز نے کھولے تھے۔
اسی لیے، شمس سے ملاقات کے بعد رومی کی زبان سے کوئی ایسا جملہ نہ نکلا جو سچ نہ ہو، جو غیر ضروری ہو، یا جس میں نرمی کی کمی ہو۔

تبھی تو وہ مولوی روم سے مولانا روم بنے۔

روس، بھارت اور پاکستان کے تناظر میں

 

عنوان: بدلتے عالمی تعلقات: روس، بھارت اور پاکستان کے تناظر میں

تحریر: D A Janjua

ایک وقت تھا جب روس اور بھارت کے تعلقات کو "آہنی دوستی" کا نام دیا جاتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران، بھارت نے روسی اسلحہ اور دفاعی ٹیکنالوجی پر انحصار کیا، اور روس نے ہر عالمی فورم پر بھارت کا ساتھ دیا۔ مگر وقت کے ساتھ یہ تعلقات محض رسمی رہ گئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں بھارت نے روسی دفاعی سازوسامان کو ترک کر کے فرانس سے 26 رافیل جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، جس کی مالیت 7.4 ارب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت نے روسی میزائل سسٹمز کے بجائے امریکی ٹیکنالوجی کو ترجیح دی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اب روس کا وہ پرانا دوست نہیں رہا۔

دوسری جانب، روس نے بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس حملے کی مذمت کی اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

جعفر ایکسپریس حملہ، جو مارچ 2025 میں بلوچستان میں پیش آیا، ایک سنگین دہشت گردی کا واقعہ تھا۔ اس حملے میں 64 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار اور 33 حملہ آور شامل تھے۔ پاکستان نے اس حملے کے پیچھے بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کو ذمہ دار ٹھہرایا، اور تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ حملہ آور افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز اور بھارت میں موجود ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں تھے۔

پاکستانی حکام نے اقوام متحدہ میں بھی اس معاملے کو اٹھایا اور بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارت نے ان الزامات کی تردید کی، لیکن پاکستان کے پاس موجود شواہد اس کے دعووں کی تائید کرتے ہیں۔

یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ روس اور بھارت کے درمیان پرانے تعلقات میں دراڑ آ چکی ہے، اور روس اب خطے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دے رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کرے۔