جمعرات، 12 جون، 2025

بھارتی حملہ ، پاکستانی جواب



مئی 2025، کو بھارت نے جنگ نہیں، ایک سیاسی تماشہ بنایا۔ مقصد سرحد پر کامیابی حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانا، میڈیا کی سرخیاں لینا اور اپنی عوام کو دکھانا تھا کہ وہ کچھ کر رہے ہیں۔
یہ سب ایک طے شدہ کھیل تھا — غصے اور تکبر کا مصنوعی مظاہرہ۔
بھارت کی حکمتِ عملی:
میڈیا میں سبقت حاصل کرنا
اندرونی خلفشار پر پردہ ڈالنا
پچھلی ناکامیوں کے بعد طاقت دکھانا
بھارت نے 70 سے زائد طیارے اڑا کر طاقت دکھانے کی کوشش کی۔ ڈرونز کی بڑی تعداد استعمال کی۔ لیکن یہ سب محض شور ثابت ہوا۔ کوئی بڑا ہدف حاصل نہ کیا جا سکا۔
نہ انہیں فضائی برتری ملی، نہ حیرت کا عنصر، نہ ہی واضح کامیابی۔

پاکستان نے نہ جذبات دکھائے، نہ بڑھ چڑھ کر باتیں کیں۔ ہم نے سوچ سمجھ کر، اپنے وقت پر، درست انداز میں جواب دیا۔ دشمن کی مہم کو اپنی شرائط پر سامنے لایا، تجزیہ کیا، اور خاموشی سے مؤثر حکمتِ عملی اپنائی۔

 ہماری خاموشی کمزوری نہیں تھی، بلکہ نفسیاتی برتری تھی۔ اور جب پہلی ضرب لگی، بھارت فوراً جنگ بندی کے لیے بھاگا۔

جنگ صرف میدان میں نہیں، اس بار سوشل میڈیا پر بھی لڑی گئی۔ بھارت نے جھوٹی تصاویر، فرضی کامیابیاں، اور مبالغہ آمیز دعوے پھیلائے۔
مگر دنیا نے ان کا جھوٹ پہچان لیا:
لاہور کی بندرگاہ تباہ کرنے کے دعوے مذاق بنے
"زیرو نقصان" کی باتوں پر کسی نے یقین نہ کیا
غیر ملکی ماہرین نے بھارتی بیانیہ مسترد کر دیا

اس کے برعکس پاکستان نے حقیقت پر مبنی بات کی۔ نقصان تسلیم کیا، حقائق دنیا کے سامنے رکھے، اور تمام ادارے ایک ہی مؤقف پر قائم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا نے پاکستان کی بات کو سنجیدگی سے لیا۔

ہم نے ثابت کیا 
دفاع صرف ہتھیار سے نہیں، سچائی اور حکمت سے ہوتا ہے
بھارت نے ہمیں کمزور سمجھا، مگر ہمارا صبر، حکمت اور سچائی غالب آئی۔
انہوں نے شور کیا، ہم نے جواب دیا۔
انہوں نے دکھاوا کیا، ہم نے عمل کیا۔
انہوں نے جنگ چھیڑی، ہم نے اسے ختم کیا — اپنی شرائط پر۔

تین دروازے






 تین دروازے

رومی فرمایا کرتے تھے کہ گفتگو سے پہلے اپنے الفاظ کو تین دروازوں سے گزارو۔
پہلا دروازہ سچائی کا ہے — اپنے دل سے پوچھو: کیا جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں وہ سچ ہے؟
اگر جواب ہاں میں ہو، تب بھی زبان کو مت کھولو، بلکہ دوسرا دروازہ تلاش کرو۔

دوسرا دروازہ اہمیت کا ہے — خود سے سوال کرو: کیا یہ بات کہنا ضروری ہے؟
اگر یہ بات نہایت اہم اور مقصدی ہے، تب بھی ٹھہر جاؤ، اور تیسرے دروازے کی طرف قدم بڑھاؤ۔

تیسرا دروازہ نرمی اور مہربانی کا ہے — پھر خود سے پوچھو: کیا میرے الفاظ نرم ہیں؟ کیا میرا لہجہ مہربان ہے؟
اگر ان میں نرمی نہیں، تو خاموشی بہتر ہے — خواہ تمہاری بات سچ ہو، خواہ وہ بات جتنی بھی ضروری کیوں نہ ہو۔

کہا جاتا ہے کہ مولانا رومی کی زندگی میں یہ تینوں دروازے حضرت شمس تبریز نے کھولے تھے۔
اسی لیے، شمس سے ملاقات کے بعد رومی کی زبان سے کوئی ایسا جملہ نہ نکلا جو سچ نہ ہو، جو غیر ضروری ہو، یا جس میں نرمی کی کمی ہو۔

تبھی تو وہ مولوی روم سے مولانا روم بنے۔

روس، بھارت اور پاکستان کے تناظر میں

 

عنوان: بدلتے عالمی تعلقات: روس، بھارت اور پاکستان کے تناظر میں

تحریر: D A Janjua

ایک وقت تھا جب روس اور بھارت کے تعلقات کو "آہنی دوستی" کا نام دیا جاتا تھا۔ سرد جنگ کے دوران، بھارت نے روسی اسلحہ اور دفاعی ٹیکنالوجی پر انحصار کیا، اور روس نے ہر عالمی فورم پر بھارت کا ساتھ دیا۔ مگر وقت کے ساتھ یہ تعلقات محض رسمی رہ گئے ہیں۔

حالیہ دنوں میں بھارت نے روسی دفاعی سازوسامان کو ترک کر کے فرانس سے 26 رافیل جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، جس کی مالیت 7.4 ارب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت نے روسی میزائل سسٹمز کے بجائے امریکی ٹیکنالوجی کو ترجیح دی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت اب روس کا وہ پرانا دوست نہیں رہا۔

دوسری جانب، روس نے بھی اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ جعفر ایکسپریس حملے کے بعد، روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس حملے کی مذمت کی اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

جعفر ایکسپریس حملہ، جو مارچ 2025 میں بلوچستان میں پیش آیا، ایک سنگین دہشت گردی کا واقعہ تھا۔ اس حملے میں 64 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار اور 33 حملہ آور شامل تھے۔ پاکستان نے اس حملے کے پیچھے بلوچ لبریشن آرمی (BLA) کو ذمہ دار ٹھہرایا، اور تحقیقات کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ حملہ آور افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز اور بھارت میں موجود ماسٹر مائنڈ سے رابطے میں تھے۔

پاکستانی حکام نے اقوام متحدہ میں بھی اس معاملے کو اٹھایا اور بھارت پر الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ بھارت نے ان الزامات کی تردید کی، لیکن پاکستان کے پاس موجود شواہد اس کے دعووں کی تائید کرتے ہیں۔

یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ روس اور بھارت کے درمیان پرانے تعلقات میں دراڑ آ چکی ہے، اور روس اب خطے میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دے رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط کرے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مشترکہ کوششیں کرے۔

آہ ۔۔۔ سائیں لیاقت




اسلام آباد کے پمز اسپتال کے مردہ خانے میں پڑی ایک لاش، آج مری سے لے کر مظفرآباد تک ایک غیر معمولی تنازعے کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ یہ لاش ہے سائیں لیاقت نامی ایک مجذوب کی، جو برسوں تک مظفرآباد کی سڑکوں پر "پتیلا باندھ کر" گھومتا رہا، کبھی خاموش، کبھی کچھ بڑبڑاتے ہوئے۔ وہ زندہ تھا تو شاید کسی کے لیے کچھ معنی نہ رکھتا ہو، مگر آج وہ مر چکا ہے تو دو برادریاں اس کے جنازے پر قابض ہونے کو تیار بیٹھی ہیں۔

مری کی عباسی برادری دعویٰ کرتی ہے کہ سائیں لیاقت ان کا گمشدہ فرد ہے، جو 30 سال پہلے گھر سے نکلا تھا۔ دوسری جانب، مظفرآباد کے کچھ لوگ سائیں کو اپنا "فقیر" مانتے ہیں، اس کے چچا اور بھتیجے بن کر پمز پہنچتے ہیں، اور یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ سائیں کے لیے وہ پہلے ہی مزار کے مقام کا تعین کر چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر ایک مجذوب فقیر کی میت پر ایسا ہنگامہ کیوں؟ کیا یہ جھگڑا خونی رشتے کا ہے؟ نہیں۔ کیا یہ عقیدت کی جنگ ہے؟ شاید۔ لیکن اصل وجہ ایک ہی ہے: دولت۔

سائیں لیاقت کی لاش اب "روحانی برانڈ" بن چکی ہے، ایک ایسا برانڈ جو آنے والے دنوں میں مزار، چندہ، دکانوں کے کرائے، نذریں، اور مذہبی رسومات کی شکل میں لاکھوں روپے کما سکتا ہے۔ دونوں فریقین یہ بخوبی جانتے ہیں، اسی لیے سائیں کا جنازہ اب روحانیت سے زیادہ تجارتی کشمکش کا شکار ہے۔

پاکستان میں درباروں اور مزاروں سے جڑی معیشت کا حجم کروڑوں میں ہے۔ صرف چند مثالیں لیں:
داتا دربار لاہور کی سالانہ آمدنی تقریباً پانچ سو کروڑ روپے تک پہنچتی ہے۔
سیہون شریف کا مزار، لعل شہباز قلندر، ہر ماہ کروڑوں روپے کی نذریں سمیٹتا ہے۔
کراچی کا عبداللہ شاہ غازی مزار، پاکپتن کے بابا فرید، اور اسلام آباد کا بری امام — سبھی مزار سالانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔
یہ دربار عقیدت کا مرکز ضرور ہیں، لیکن ان کے اردگرد ایک باقاعدہ معاشی نظام پنپ رہا ہے۔ مجاوروں سے لے کر نذر لینے والوں تک، ہوٹل مالکان سے لے کر عقیدت مندوں کی نیتوں پر کمائی کرنے والوں تک، سب اس نظام کا حصہ ہیں۔

سائیں لیاقت کا متوقع مزار بھی اسی ماڈل کے تحت کام کرے گا۔ نذریں، لنگر، زمینوں کی خرید و فروخت، دوکانوں کے کرائے، مذہبی تقریبات — سب کچھ ممکنہ ذرائع آمدن ہیں۔ یہ وہی "سونے کی کان" ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے اب دونوں برادریاں میدان میں ہیں۔

لیکن شاید ہم نے یہ بھلا دیا ہے کہ سائیں لیاقت نے اپنی زندگی درویشی، بےنیازی اور خاموشی میں گزاری۔ جس نے دنیا کی چمک دمک کو لات مار کر سڑک کو بستر بنایا، کیا اس کے بعد ہم اس کی قبر سے نوٹ برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ کیا روحانیت کا مطلب یہی رہ گیا ہے کہ کسی فقیر کی قبر کو دکان بنا دیا جائے؟

سوال صرف سائیں لیاقت کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں عقیدت، احترام اور روحانیت کے نام پر ہونے والی تمام سرگرمیاں واقعی مقدس ہیں؟ یا یہ صرف ایک نیا کاروباری ماڈل ہے، جسے عوام کی سادہ دلی اور روحانی وابستگی کے کندھوں پر سوار کر کے چلا جا رہا ہے؟

سائیں لیاقت کی لاش آج کسی قبر کا انتظار نہیں کر رہی، وہ ہمیں ایک آئینہ دکھا رہی ہے۔ اور اس آئینے میں جو عکس نظر آ رہا ہے، وہ روحانیت نہیں، بلکہ روحانیت فروشی ہے۔

بدھ، 11 جون، 2025

نئی پہچان کی بازیافت





11
 جون 2025 کو صدرِ چین نے ایک غیرمعمولی ٹویٹ کی جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ ان کے الفاظ کچھ یوں تھے:

"اس صدی میں چین قیادت کرے گا،
اور ہم سب مل کر ایک نئی دنیا تعمیر کریں گے۔
امن جنگ پر غالب آئے گا،
خوشحالی غلامی کی جگہ لے گی۔
نسل کی بنیاد پر امتیاز ختم ہوگا،
قدرتی وسائل تمہارے ہوں گے، اور تمہارے ہی رہیں گے۔
تمہارے آبا و اجداد کے فلسفے اب پسماندہ نہیں کہلائیں گے، بلکہ تمہارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
آخرکار، یہ صدی ہم سب کی ہے۔"

یہ الفاظ محض ایک خواب نہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کے بدلتے منظرنامے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صدرِ چین کا پیغام نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اعلان ہے بلکہ ایک نئے عالمی نظام کی خواہش بھی ہے — ایسا نظام جو امن، برابری اور خودمختاری پر مبنی ہو۔

چین کا عروج اب صرف ایک معاشی حقیقت نہیں رہا بلکہ وہ خود کو ایک متبادل تہذیبی ماڈل کے طور پر بھی پیش کر رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں چینی سرمایہ کاری، اور مغربی طاقتوں سے مختلف سفارتی زبان — یہ سب اشارہ دیتے ہیں کہ عالمی قیادت کا مرکز مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔

صدر چین نے کہا "امن جنگ پر غالب آئے گا"۔ یہ جملہ ایک ایسے عالمی نظام پر تنقید ہے جس نے کئی دہائیوں سے دنیا کو جنگوں، مداخلتوں اور قبضوں کا شکار بنائے رکھا۔ چین اپنی خارجہ پالیسی میں "عدم مداخلت" کو اہمیت دیتا ہے،

"خوشحالی غلامی کی جگہ لے گی" — اس جملے میں نوآبادیاتی اور معاشی استحصال کے خلاف ایک واضح پیغام ہے۔ چین ترقی پذیر ممالک کو قرضوں اور منصوبوں کی پیشکش کرتا ہے،

بعض ممالک نے چین کے ساتھ معاہدوں کے بعد قرضوں کے بوجھ کی شکایت کی ہے، لہٰذا یہ نعرہ تبھی حقیقت بن سکتا ہے جب چینی شراکت داری شفاف، منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر ہو۔

"نسل کی بنیاد پر تمہیں عزت دی جائے گی" — یہ جملہ تاریخ کے اس سیاہ باب کو چیلنج کرتا ہے جس میں رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کی تذلیل کی گئی۔ لیکن خود چین کو بھی اپنے ہاں اقلیتوں بالخصوص ایغور مسلمانوں سے سلوک پر تنقید کا سامنا ہے۔ اگر چین واقعی عزت اور مساوات کا علمبردار بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے اندرونی رویے میں بھی بہتری لانی ہوگی۔

"تمہارے قدرتی وسائل تمہارے ہوں گے" — یہ نوآبادیاتی ماڈل کے خلاف ایک اعلانِ بغاوت ہے۔ اگر واقعی چین ترقی پذیر دنیا کو اس کے وسائل پر خودمختاری دیتا ہے، تو یہ ایک بڑا مثبت قدم ہوگا۔

اسی طرح، "تمہارے آبا و اجداد کے فلسفے اب پسماندہ نہیں کہلائیں گے" — یہ مغربی علمی غرور پر تنقید ہے۔ دنیا کے قدیم علم، روحانی روایات اور مقامی دانش کو عزت دینے کا وقت آ چکا ہے — بشرطیکہ یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہ ہو بلکہ عملی رویہ بن جائے۔

صدر چین کا پیغام امید، نجات اور شراکت کی بات کرتا ہے۔ مگر یہ خواب تبھی سچ ہوگا جب:
چین ترقی میں دوسروں کو برابر شریک کرے
عالمی ادارے نئی حقیقتوں کو تسلیم کریں
شفافیت، انصاف اور عزت کو عملی بنیادوں پر اپنایا جائے
اور سب سے بڑھ کر، دنیا خود بھی اپنی آزادی، خودمختاری اور ثقافت کے لیے کھڑی ہو
یہ ٹویٹ محض سفارتی بیان نہیں، بلکہ ایک نیا بیانیہ ہے — ایسا بیانیہ جو مغربی بالادستی کے بعد ایک زیادہ منصفانہ دنیا کی نوید دیتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے اور موقع بھی:
کیا ہم ایک بہتر، مساوی اور پرامن دنیا کے لیے تیار ہیں؟

اگر ہم سب نے چاہا… تو واقعی یہ صدی ہم سب کی ہو سکتی ہے۔