جمعرات، 12 جون، 2025

آہ ۔۔۔ سائیں لیاقت




اسلام آباد کے پمز اسپتال کے مردہ خانے میں پڑی ایک لاش، آج مری سے لے کر مظفرآباد تک ایک غیر معمولی تنازعے کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ یہ لاش ہے سائیں لیاقت نامی ایک مجذوب کی، جو برسوں تک مظفرآباد کی سڑکوں پر "پتیلا باندھ کر" گھومتا رہا، کبھی خاموش، کبھی کچھ بڑبڑاتے ہوئے۔ وہ زندہ تھا تو شاید کسی کے لیے کچھ معنی نہ رکھتا ہو، مگر آج وہ مر چکا ہے تو دو برادریاں اس کے جنازے پر قابض ہونے کو تیار بیٹھی ہیں۔

مری کی عباسی برادری دعویٰ کرتی ہے کہ سائیں لیاقت ان کا گمشدہ فرد ہے، جو 30 سال پہلے گھر سے نکلا تھا۔ دوسری جانب، مظفرآباد کے کچھ لوگ سائیں کو اپنا "فقیر" مانتے ہیں، اس کے چچا اور بھتیجے بن کر پمز پہنچتے ہیں، اور یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ سائیں کے لیے وہ پہلے ہی مزار کے مقام کا تعین کر چکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ آخر ایک مجذوب فقیر کی میت پر ایسا ہنگامہ کیوں؟ کیا یہ جھگڑا خونی رشتے کا ہے؟ نہیں۔ کیا یہ عقیدت کی جنگ ہے؟ شاید۔ لیکن اصل وجہ ایک ہی ہے: دولت۔

سائیں لیاقت کی لاش اب "روحانی برانڈ" بن چکی ہے، ایک ایسا برانڈ جو آنے والے دنوں میں مزار، چندہ، دکانوں کے کرائے، نذریں، اور مذہبی رسومات کی شکل میں لاکھوں روپے کما سکتا ہے۔ دونوں فریقین یہ بخوبی جانتے ہیں، اسی لیے سائیں کا جنازہ اب روحانیت سے زیادہ تجارتی کشمکش کا شکار ہے۔

پاکستان میں درباروں اور مزاروں سے جڑی معیشت کا حجم کروڑوں میں ہے۔ صرف چند مثالیں لیں:
داتا دربار لاہور کی سالانہ آمدنی تقریباً پانچ سو کروڑ روپے تک پہنچتی ہے۔
سیہون شریف کا مزار، لعل شہباز قلندر، ہر ماہ کروڑوں روپے کی نذریں سمیٹتا ہے۔
کراچی کا عبداللہ شاہ غازی مزار، پاکپتن کے بابا فرید، اور اسلام آباد کا بری امام — سبھی مزار سالانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔
یہ دربار عقیدت کا مرکز ضرور ہیں، لیکن ان کے اردگرد ایک باقاعدہ معاشی نظام پنپ رہا ہے۔ مجاوروں سے لے کر نذر لینے والوں تک، ہوٹل مالکان سے لے کر عقیدت مندوں کی نیتوں پر کمائی کرنے والوں تک، سب اس نظام کا حصہ ہیں۔

سائیں لیاقت کا متوقع مزار بھی اسی ماڈل کے تحت کام کرے گا۔ نذریں، لنگر، زمینوں کی خرید و فروخت، دوکانوں کے کرائے، مذہبی تقریبات — سب کچھ ممکنہ ذرائع آمدن ہیں۔ یہ وہی "سونے کی کان" ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے اب دونوں برادریاں میدان میں ہیں۔

لیکن شاید ہم نے یہ بھلا دیا ہے کہ سائیں لیاقت نے اپنی زندگی درویشی، بےنیازی اور خاموشی میں گزاری۔ جس نے دنیا کی چمک دمک کو لات مار کر سڑک کو بستر بنایا، کیا اس کے بعد ہم اس کی قبر سے نوٹ برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ کیا روحانیت کا مطلب یہی رہ گیا ہے کہ کسی فقیر کی قبر کو دکان بنا دیا جائے؟

سوال صرف سائیں لیاقت کا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں عقیدت، احترام اور روحانیت کے نام پر ہونے والی تمام سرگرمیاں واقعی مقدس ہیں؟ یا یہ صرف ایک نیا کاروباری ماڈل ہے، جسے عوام کی سادہ دلی اور روحانی وابستگی کے کندھوں پر سوار کر کے چلا جا رہا ہے؟

سائیں لیاقت کی لاش آج کسی قبر کا انتظار نہیں کر رہی، وہ ہمیں ایک آئینہ دکھا رہی ہے۔ اور اس آئینے میں جو عکس نظر آ رہا ہے، وہ روحانیت نہیں، بلکہ روحانیت فروشی ہے۔

بدھ، 11 جون، 2025

نئی پہچان کی بازیافت





11
 جون 2025 کو صدرِ چین نے ایک غیرمعمولی ٹویٹ کی جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ ان کے الفاظ کچھ یوں تھے:

"اس صدی میں چین قیادت کرے گا،
اور ہم سب مل کر ایک نئی دنیا تعمیر کریں گے۔
امن جنگ پر غالب آئے گا،
خوشحالی غلامی کی جگہ لے گی۔
نسل کی بنیاد پر امتیاز ختم ہوگا،
قدرتی وسائل تمہارے ہوں گے، اور تمہارے ہی رہیں گے۔
تمہارے آبا و اجداد کے فلسفے اب پسماندہ نہیں کہلائیں گے، بلکہ تمہارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
آخرکار، یہ صدی ہم سب کی ہے۔"

یہ الفاظ محض ایک خواب نہیں، بلکہ عالمی طاقتوں کے بدلتے منظرنامے کی نشاندہی کرتے ہیں۔ صدرِ چین کا پیغام نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا اعلان ہے بلکہ ایک نئے عالمی نظام کی خواہش بھی ہے — ایسا نظام جو امن، برابری اور خودمختاری پر مبنی ہو۔

چین کا عروج اب صرف ایک معاشی حقیقت نہیں رہا بلکہ وہ خود کو ایک متبادل تہذیبی ماڈل کے طور پر بھی پیش کر رہا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے، افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں چینی سرمایہ کاری، اور مغربی طاقتوں سے مختلف سفارتی زبان — یہ سب اشارہ دیتے ہیں کہ عالمی قیادت کا مرکز مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔

صدر چین نے کہا "امن جنگ پر غالب آئے گا"۔ یہ جملہ ایک ایسے عالمی نظام پر تنقید ہے جس نے کئی دہائیوں سے دنیا کو جنگوں، مداخلتوں اور قبضوں کا شکار بنائے رکھا۔ چین اپنی خارجہ پالیسی میں "عدم مداخلت" کو اہمیت دیتا ہے،

"خوشحالی غلامی کی جگہ لے گی" — اس جملے میں نوآبادیاتی اور معاشی استحصال کے خلاف ایک واضح پیغام ہے۔ چین ترقی پذیر ممالک کو قرضوں اور منصوبوں کی پیشکش کرتا ہے،

بعض ممالک نے چین کے ساتھ معاہدوں کے بعد قرضوں کے بوجھ کی شکایت کی ہے، لہٰذا یہ نعرہ تبھی حقیقت بن سکتا ہے جب چینی شراکت داری شفاف، منصفانہ اور برابری کی بنیاد پر ہو۔

"نسل کی بنیاد پر تمہیں عزت دی جائے گی" — یہ جملہ تاریخ کے اس سیاہ باب کو چیلنج کرتا ہے جس میں رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں کی تذلیل کی گئی۔ لیکن خود چین کو بھی اپنے ہاں اقلیتوں بالخصوص ایغور مسلمانوں سے سلوک پر تنقید کا سامنا ہے۔ اگر چین واقعی عزت اور مساوات کا علمبردار بننا چاہتا ہے تو اسے اپنے اندرونی رویے میں بھی بہتری لانی ہوگی۔

"تمہارے قدرتی وسائل تمہارے ہوں گے" — یہ نوآبادیاتی ماڈل کے خلاف ایک اعلانِ بغاوت ہے۔ اگر واقعی چین ترقی پذیر دنیا کو اس کے وسائل پر خودمختاری دیتا ہے، تو یہ ایک بڑا مثبت قدم ہوگا۔

اسی طرح، "تمہارے آبا و اجداد کے فلسفے اب پسماندہ نہیں کہلائیں گے" — یہ مغربی علمی غرور پر تنقید ہے۔ دنیا کے قدیم علم، روحانی روایات اور مقامی دانش کو عزت دینے کا وقت آ چکا ہے — بشرطیکہ یہ صرف ایک سیاسی نعرہ نہ ہو بلکہ عملی رویہ بن جائے۔

صدر چین کا پیغام امید، نجات اور شراکت کی بات کرتا ہے۔ مگر یہ خواب تبھی سچ ہوگا جب:
چین ترقی میں دوسروں کو برابر شریک کرے
عالمی ادارے نئی حقیقتوں کو تسلیم کریں
شفافیت، انصاف اور عزت کو عملی بنیادوں پر اپنایا جائے
اور سب سے بڑھ کر، دنیا خود بھی اپنی آزادی، خودمختاری اور ثقافت کے لیے کھڑی ہو
یہ ٹویٹ محض سفارتی بیان نہیں، بلکہ ایک نیا بیانیہ ہے — ایسا بیانیہ جو مغربی بالادستی کے بعد ایک زیادہ منصفانہ دنیا کی نوید دیتا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے اور موقع بھی:
کیا ہم ایک بہتر، مساوی اور پرامن دنیا کے لیے تیار ہیں؟

اگر ہم سب نے چاہا… تو واقعی یہ صدی ہم سب کی ہو سکتی ہے۔



ایمان کو ہائیڈریٹ کرنے والی تحریر


 پانی میں چھپی قدرت — ذائقوں سے سجی کاک ٹیل


جب وقت میں ذرا سا ٹھہراؤ ہو، نگاہ میں شکر کا رنگ ہو، اور سوچ پر کائناتی نظم کی جھلک اترے — تب انسان 
بے اختیار پکار اٹھتا ہے:
"پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟"



ایک لمحہ کو رُک کر سوچیں: وہ پانی جو نہ رنگ رکھتا ہے، نہ خوشبو، نہ ذائقہ — وہی پانی تربوز کی مٹھاس بن کر بہتا ہے، کھیرا بن کر ٹھنڈک دیتا ہے، سنترہ بن کر چھلکے میں خوشبو سمیٹ لیتا ہے، اور ناریل بن کر فطری الیکٹرولائٹ بن جاتا ہے۔ یہ محض قدرتی عمل نہیں، بلکہ رب کی حکمت ہے، مہربانی ہے، محبت ہے۔
ربّ العالمین نے ہماری غذاؤں میں ایسا نظام رکھا ہے کہ ہم بےخبری میں بھی پی رہے ہوتے ہیں، مگر اصل میں اُس کی عطا کو جذب کر رہے ہوتے ہیں۔ آج کی سطر میں ہم اُن پھلوں اور سبزیوں کا ذکر کریں گے جو 80٪ یا اس سے بھی زیادہ پانی پر مشتمل ہیں، مگر ساتھ ہی روح کو تازہ کرنے والا ذائقہ، رنگ، تاثیر اور شفا اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔
کھیرا – 96٪ پانی، جسم و دل کی ٹھنڈک
سلاد کے پتے – 95٪ پانی، سادگی میں غذائیت
لوکی – 92٪ پانی، گرمی کا قرآنی علاج
ٹماٹر – 94٪ پانی، مٹی کا رس بھرا پھول
مولی – 95٪ پانی، زمین کی گواہی
گوبھی، شلجم، توری، شملہ مرچ — سب قدرت کے خوش ذائقہ معجزے
تربوز – 92٪ پانی، گرمیوں کا سایہ
خربوزہ، کینو، پپیتا، آڑو – سب میں رنگ، خوشبو اور مٹھاس کی جھلک
ناریل کا پانی – فطرت کا شفاف تحفہ
گریپ فروٹ، آلوچہ، اسٹرابیری – ترشی اور مٹھاس میں توازن کا شاہکار
جب ہم اِن سب نعمتوں کو دیکھتے ہیں، چکھتے ہیں، اور فائدہ اُٹھاتے ہیں — تو کیا یہ ہمیں رب کی طرف متوجہ نہیں کرتے؟ کیا یہ سب چیزیں ہمیں یہ نہیں کہتیں:
"اے ابنِ آدم! دیکھ، میں نے پانی کو بھی تیرے لئے ذائقہ بنا دیا!"
ہم ان نعمتوں کے درمیان رہتے ہوئے اکثر مشینی انداز میں جیتے ہیں، مگر روحانی انداز میں جینا بھول جاتے ہیں۔ ہمارا خالق ہمیں ہر نوالے، ہر گھونٹ، ہر پھل اور ہر سبزی میں یاد دلاتا ہے کہ:
وہی ہے جو بنجر زمین کو سیراب کرتا ہے؛
وہی ہے جو پانی کو رنگ دیتا ہے؛
اور وہی ہے جو بے ذائقہ شے کو مٹھاس بخشتا ہے۔
کیا ہم نے کبھی تربوز کھاتے ہوئے "الحمدللہ" دل سے کہا؟
کیا کبھی کھیرا چباتے وقت رب کی کاریگری پر حیرت کی؟
آئیے! اس موسمِ گرما میں صرف جسم کو ہی نہیں، ایمان کو بھی ہائیڈریٹ کریں — شکر، ذکر اور شعور کے پانی سے!

تحریر: دلپزیر

پنجاب بمقابلہ۔۔۔



پنجاب بمقابلہ۔۔۔ 

چند تازہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک کے مختلف صوبوں میں آبادی کے تناسب سے جو بجٹ رکھا گیا ہے، اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے:
ایک سال کیلئے ہر پنجابی پر 42,680 روپے خرچ کرنے کا تخمینہ ہے؛
ہر سندھی کیلئے یہی رقم 54,964 روپے ہے؛
بلوچستان کے ہر شہری کیلئے 84,199 روپے؛
اور خیبرپختونخوا کے شہری کیلئے 48,120 روپے؛
اب بندہ سوال کرے کہ جن صوبوں کو فی کس زیادہ رقم دی جا رہی ہے، وہ ترقی کے میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ اور جن کو نسبتاً کم ملا، وہ کس حد تک آگے نکلے؟
پنجاب میں ترقی نظر آتی ہے۔ سڑکیں، میٹروز، اسپتال، تعلیمی ادارے، اور عوامی خدمت کی سکیمیں چلتی دکھائی دیتی ہیں۔
سندھ میں وہی پرانی بدبو دار سیاست — لوٹ مار، نعرے، بیانات، اور شہر کھنڈرات میں تبدیل؛
بلوچستان میں اربوں روپے جانے کہاں گم ہو جاتے ہیں، نہ سڑک نظر آتی ہے، نہ اسپتال، نہ سکول۔
خیبرپختونخوا میں کچھ کام ضرور ہوا، مگر یا تو سست رفتاری نے کھا لیا یا پھر تجربات کی سیاست نے؛
پنجاب کی قیادت  خلوص، وژن اور نیت سے کام کرتی آئی ہے۔ جبکہ دیگر صوبوں کی قیادت عوامی خدمت کو ہمیشہ سیاست کی نذر کرتی رہی۔
سندھ میں برسوں سے حکمرانی اُن ہاتھوں میں ہے جو صرف باتیں کرتے ہیں، کام نہیں۔
بلوچستان میں سرداری نظام اور مرکز سے شکوے، بس یہی سیاست ہے۔
خیبرپختونخوا میں کبھی ایک نعرہ، کبھی دوسرا، لیکن عمل کم، بیان بازی زیادہ۔
بات پیسے کی نہیں، نیت کی ہے۔
جہاں خلوص ہو، وہاں کم وسائل سے بھی معجزے ہو سکتے ہیں۔
اور جہاں کرپشن، اقرباپروری، اور زبانی سیاست ہو، وہاں خزانے بھی ڈوب جاتے ہیں، اور عوام بھی۔

سورہ البلد ایت 13


سورہ البلد ایت 13

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
انسانی تاریخ کے ماتھے پر غلامی وہ بدنما داغ ہے، جو ہزاروں سال بعد بھی پوری طرح مٹا نہیں۔ مصر کی تہذیب ہو یا روم کی سلطنت، یونان کی دانش گاہیں ہوں یا عرب کی ریتلی بستیوں کا معاشرہ — ہر جگہ انسان نے انسان کو زنجیروں میں جکڑا، بازاروں میں بیچا، اور طاقتور کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

ایسے تاریک دور میں قرآن مجید نے وہ جملہ اتارا، جس نے غلامی کو ختم کرنے کی بنیاد رکھی۔
"فَكُّ رَقَبَةٍ"
(گردن چھڑانا، غلام کو آزاد کرنا)
یہ محض نیکی کا بیان نہیں تھا، بلکہ سماجی انقلاب کا آغاز تھا۔ نبی کریم ﷺ نے نہ صرف غلاموں کو آزادی کی تلقین کی، بلکہ ان کے ساتھ برابری اور عزت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ اسلام کی تدریجی حکمت عملی نے آہستہ آہستہ غلامی کی بنیادیں ہلا دیں۔
اسلام کے صدیوں بعد مغرب نے بھی غلامی کی تباہ کاریوں کو تسلیم کیا:
اٹھارہ سو سات: برطانیہ نے غلاموں کی تجارت پر پابندی لگائی
اٹھارہ سو تینتیس: برطانیہ میں غلامی کا قانونی خاتمہ
اٹھارہ سو تریسٹھ: امریکہ میں Emancipation Proclamation
اٹھارہ سو پینسٹھ: تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے امریکہ میں غلامی کا اختتام
انیس سو اکیاسی: موریتانیہ، دنیا کا آخری ملک، جہاں غلامی کے خلاف قانون بنا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ قانون بدلتے رہے، غلامی کی شکلیں بدلتی رہیں — اب یہ سیاسی جبر، معاشی استحصال اور جنگی قبضوں کی صورت میں دنیا میں موجود ہے۔

اگر آج کوئی پوچھے کہ غلامی کی سب سے خوفناک شکل کہاں ہے؟ تو جواب ہے: فلسطین کا علاقہ غزہ۔
یہاں کے بائیس لاکھ انسان اپنی زمین پر قید ہیں۔ دو ہزار سات سے جاری اسرائیلی محاصرہ، جس میں:
پانی، خوراک، ادویات اور بجلی بند
اسکول، اسپتال اور رہائشی علاقے جنگی ہتھیاروں کی زد میں
روزگار کے مواقع ناپید
ہر نیا دن موت، معذوری اور بربادی کا پیغام لے کر آتا ہے
غزہ میں پیدا ہونے والا بچہ محاصرے میں سانس لیتا ہے، جوان بھوک، بے بسی اور خوف میں پلتا ہے، اور بوڑھا قبر میں اترتا ہے — یہ سب جدید غلامی کی وہ شکل ہے جس نے پوری دنیا کے ضمیر کو چیلنج دے رکھا ہے۔

دو ہزار تئیس کے اواخر اور دو ہزار چوبیس کے آغاز میں اسرائیلی حملوں میں اڑتیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید، جن میں اکثریت بچے اور خواتین شامل
پچاسی فیصد عمارتیں ملبے کا ڈھیر
اسپتال بند، امدادی قافلے روکے گئے
دس لاکھ سے زائد افراد شدید غذائی قلت کا شکار

اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، سب کاغذی بیانات اور مذمتوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ فلسطینیوں کی قبریں کھودتے وقت، ان کے معصوم بچوں کے جنازے اٹھاتے وقت، دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیمیں صرف رپورٹس مرتب کرتی ہیں، عملی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتیں۔

"فَكُّ رَقَبَةٍ" صرف غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم نہیں، بلکہ ہر اس انسان کی رہائی کی دعوت ہے جو جبر، خوف، بھوک اور قید میں جکڑا ہوا ہے۔
غزہ کے قیدی انسان پوری دنیا کے ضمیر کا امتحان ہیں۔ ان کے لیے خاموشی جرم ہے، حمایت فرض ہے، اور آزادی انسانیت کا تقاضا ہے۔