اتوار، 8 جون، 2025

صیہونت اور ہندوتو




دنیا کے نقشے پر دو خطے ایسے ہیں جہاں ریاستی بیانیہ کے مطابق دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، مگر متاثرہ عوام اسے اپنی بقا کی جنگ کہتے ہیں۔ ایک طرف ہے مقبوضہ کشمیر، دوسری جانب غزہ کا محصور علاقہ۔ دونوں جگہوں پر مظلوموں کے خلاف طاقت کا استعمال ہو رہا ہے، اور ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کارروائیوں میں بھارت اور اسرائیل کے کردار میں حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے۔

1992 میں بھارت اور اسرائیل نے باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ بھارت جو کہ ایک عرصے تک فلسطینیوں کا حامی رہا، بدلتے عالمی حالات میں اسرائیل کی طرف جھکنے لگا۔ آج دونوں ممالک نہ صرف دفاعی بلکہ تکنیکی، زرعی اور انٹیلیجنس معاملات میں قریبی شراکت دار بن چکے ہیں۔

کارگل جنگ (1999) ہو یا حالیہ سرحدی کشیدگیاں، اسرائیلی ہتھیار، ڈرونز اور نگرانی کے نظام بھارت کی افواج کے لیے ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ بھارتی فورسز کو اسرائیلی ماہرین سے انسداد دہشت گردی کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ بارڈر مینجمنٹ، سیٹلائٹ سسٹمز، اور مصنوعی ذہانت پر مبنی نگرانی کا سامان، سب اسرائیل سے حاصل کیا جاتا ہے۔

دونوں ممالک اپنے آپ کو اسلامی شدت پسندی کا نشانہ قرار دیتے ہیں اور "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے بیانیے کو عالمی سطح پر فروغ دیتے ہیں۔ بھارت کشمیر میں پاکستان پر الزام لگاتا ہے، جبکہ اسرائیل حماس کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ دونوں جگہ ریاستی بیانیہ ایک جیسا ہے: "ہم صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں۔"

غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں، جن میں اسکول، اسپتال اور رہائشی عمارتیں نشانہ بنتی ہیں، عالمی برادری میں بارہا زیرِ بحث آ چکی ہیں۔ اسی طرح کشمیر میں بھی گھروں کی تلاشی، انٹرنیٹ کی بندش، اور عام شہریوں کی ہلاکتیں معمول بن چکی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک پر مغرب خاموشی اختیار کرتا ہے، دوسرے پر کبھی کبھی بیانات جاری ہو جاتے ہیں۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل جدید ٹیکنالوجی کے پردے میں انسانیت سوز مظالم چھپاتے ہیں۔ جہاں ایک طرف اسرائیل خود کو واحد جمہوری ملک کہتا ہے، وہیں بھارت سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار ہے۔ مگر دونوں جگہ جمہوریت صرف اکثریت کے لیے ہے، اقلیت کے لیے کریک ڈاؤن۔

نریندر مودی کے دور میں بھارت نے اسرائیل سے تعلقات مزید مضبوط کیے، حتیٰ کہ فلسطین کے حق میں بیان دینا بھی کم کر دیا۔ دوسری جانب اسرائیل نے کبھی کشمیر پر تنقید نہیں کی، بلکہ بھارت کے اقدامات کو "دہشت گردی کے خلاف دفاعی ردِعمل" قرار دیا۔

یہ سوال اب زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ کیا بھارت اور اسرائیل کا یہ اشتراک صرف دفاعی اور تکنیکی ہے؟ یا یہ ایک نیا عالمی بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش ہے جس میں ریاستی طاقت کو ہر صورت میں جائز قرار دیا جائے؟

غزہ اور کشمیر کے مظلوموں کے لیے یہ تعاون "دہشت گردی کے خلاف جنگ" نہیں بلکہ ایک مشترکہ جبر کی علامت بن چکا ہے۔


دودھ سے گولی تک




کبھی گائے دودھ دیتی تھی، آج گولیاں دیتی ہے۔ کبھی گائے کا تقدس ماں کے رتبے تک محدود تھا، آج وہ مسلمانوں پر موت کا پروانہ بن چکی ہے — کہیں دادری میں اخلاق مارا جاتا ہے، کہیں فلسطین میں مسجد اقصیٰ کے گرد سرخ گائیں گردش کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے: یہ تقدس کب زہر بن گیا؟ اور کیسے ہنود و یہود نے اس "مقدس جانور" کو مسلمانوں کے خلاف اتحاد کی بنیاد بنا دیا؟
بھارت میں گائے کو "گاؤ ماتا" کہا جاتا ہے۔ رگ وید سے لے کر منوسمرتی تک ہندو مت کی کتب گائے کو دھرتی کی ماں، رزق کی دیوی، اور امن کی علامت قرار دیتی ہیں۔ مگر جب بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تو یہی گائے امن کی جگہ نفرت کی علامت بن گئی۔ اخلاق احمد ہو، پہلو خان ہو، یا جنید — سب کے قاتل یہی گائے کے رکھوالے تھے۔
کشمیر میں تو حد ہی ہو گئی: عید پر قربانی کرنے کی کوشش پر گھروں پر چھاپے، مسجدوں کے سامنے گاؤ رکشکوں کی پہرہ داری، اور گوشت کھانے پر دہشت گردی کے الزامات۔
اب آ جائیے فلسطین کی طرف۔ وہاں بھی ایک گائے کا ذکر ہو رہا ہے — سرخ گائے، یعنی "Red Heifer"۔ یہ وہی گائے ہے جسے یہودی عقیدے میں پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ کتابِ گنتی کے مطابق اس گائے کی راکھ سے طہارت حاصل کی جاتی تھی۔
مگر بات یہیں نہیں رکی۔ صہیونی گروہوں نے اعلان کیا کہ مسجد اقصیٰ کے مقام پر تیسرا ہیکل بنانے سے پہلے سرخ گائے کی قربانی ضروری ہے۔ چنانچہ امریکہ سے پانچ سرخ گائیں منگوائی گئیں، اور انہیں اسرائیل لا کر خاص مقام پر رکھا گیا۔
یہ ایک مذہبی حربہ نہیں، ایک سیاسی تلوار ہے — جس کا ہدف صرف مسجد اقصیٰ نہیں، بلکہ پورا فلسطین ہے۔
 افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل ان معاملات میں ایک دوسرے کے اتنے قریب آ چکے ہیں کہ ان کا اتحاد صرف دفاعی نہیں، نظریاتی ہو چکا ہے۔ دونوں ریاستوں کا ہدف مسلم اکثریتی علاقے — کشمیر اور فلسطین — اور دونوں نے اپنے اپنے مقدس بیانیے — گائے اور ہیکل — کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ہتھیار میں بدل دیا ہے۔
گزشتہ برس ایک کشمیری نوجوان نے کہا:
"بھارت کہتا ہے کہ یہ گائے مقدس ہے، ہم کہتے ہیں کہ ہماری جان بھی مقدس ہے، مگر گائے بچ جاتی ہے اور ہم مر جاتے ہیں۔"
یہی آواز فلسطین کے ایک بچے کی زبانی بھی سنی جا سکتی ہے:
"یہ سرخ گائے جب بھی شہر میں آتی ہے، ہمیں لگتا ہے ہماری مسجد کی چھت ہٹائی جائے گی۔"
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ہندو قوم پرستی اور صہیونی تحریک دونوں نے اپنے مذہب کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا؟ یا یہ سوچی سمجھی حکمت عملی ہے؟ اگر ہم تاریخ پڑھیں، سیاست سمجھیں، اور آج کے عالمی اتحاد و معاہدات کا تجزیہ کریں، تو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ گائے اب صرف جانور نہیں — یہ ایک نظریاتی بارود ہے جس کے ایک سرے پر بھارت، دوسرے پر اسرائیل، اور درمیان میں صرف مسلمان۔
وقت آ چکا ہے کہ ہم "مقدس" اور "مسلح" کے فرق کو سمجھیں۔ گائے کو مذہب کا تقدس تو مل سکتا ہے، مگکسی انسان کا خون بہانے کا جواز نہیں۔۔۔ 
کشمیر میں نہ فلسطین میں

جمعہ، 6 جون، 2025

سورہ سجدہ ایت 5




سورۃ السجدہ (آیت 5) کی سائنسی اور روحانی تشریح

آیت:
"يُدَبِّرُ ٱلۡأَمۡرَ مِنَ ٱلسَّمَآءِ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ ثُمَّ يَعۡرُجُ إِلَيۡهِ فِي يَوۡمٖ كَانَ مِقۡدَارُهُۥٓ أَلۡفَ سَنَةٖ مِّمَّا تَعُدُّونَ"
(سورۃ السجدہ، آیت 5)

ترجمہ:
"وہ آسمان سے زمین تک تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، پھر وہ امور ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھتے ہیں جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے۔"

یہ آیت قرآن کے ان مقامات میں سے ایک ہے جہاں "وقت" کے نسبی 
(Relative)
 تصور کی جھلک نمایاں ہے۔ مفسرین اور سائنسی ماہرین، دونوں اس آیت کو ایک ایسی نشانی کے طور پر دیکھتے ہیں جو کائناتی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
1. سائنسی پس منظر: وقت اور کششِ ثقل

آج کی جدید طبیعیات، خاص طور پر آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت 
(Theory of Relativity)
 کی رو سے، وقت کوئی مطلق حقیقت نہیں بلکہ ایک لچکدار 
(flexible)
تصور ہے، جو کششِ ثقل اور رفتار کے ساتھ بدل جاتا ہے۔
جہاں کششِ ثقل شدید ہو (جیسے بلیک ہولز کے قریب)، وقت آہستہ گزرنے لگتا ہے۔
اسی طرح، اگر کوئی چیز روشنی کی رفتار کے قریب حرکت کرے تو اس پر وقت سست ہوجاتا ہے۔
یہ بات قرآن کی اس آیت کے بالکل مطابق ہے، جہاں ایک "یوم" (دن) کی مقدار انسانی حساب سے "ایک ہزار سال" بتائی گئی ہے۔
سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی سیارہ یا ستارہ انتہائی طاقتور کششِ ثقل رکھتا ہو، تو اس پر گزرا ہوا وقت، زمین پر موجود وقت سے یکسر مختلف ہو سکتا ہے۔
2.
 فلکیاتی حقائق اور "دن" کا مفہوم
ر سیارے پر دن کی لمبائی اس کی اپنے محور کے گرد گردش کی رفتار پر منحصر ہوتی ہے۔ چند مثالیں:


زمین: 24 گھنٹے


مریخ (Mars): 24 گھنٹے 37 منٹ


عطارد (Mercury): 58.6 زمین کے دن


زہرہ (Venus): 243 زمین کے دن


UY Scuti:
ایک دیوہیکل ستارہ جس کی گردش انتہائی سست ہے، اندازہ ہے کہ اس کا ایک "دن" ہزاروں زمینی سالوں پر محیط ہو سکتا ہے۔
یہ مظاہر قرآن کی مذکورہ آیت کو مزید واضح کرتے ہیں:
جس "دن" کا ذکر کیا جا رہا ہے، وہ زمینی پیمانوں کے مطابق نہیں بلکہ ایک کائناتی وقت کے پیمانے پر ہے، جو ہماری فہم سے بالاتر اور اللہ کے علم و قدرت کا حصہ ہے۔
3.
 دیگر قرآنی آیات میں وقت کا ذکر
سورۃ المعارج، آیت 4:
"تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ"
"فرشتے اور روح (یعنی جبرائیل) اس کی طرف چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔"
یہاں ایک اور "یوم" کا ذکر ہے، جس کی مقدار انسانی حساب سے پچاس ہزار سال ہے۔ مفسرین کے مطابق یہ یومِ قیامت کے تناظر میں بیان ہوا ہے، لیکن اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں وقت کا پیمانہ انسانی پیمانوں سے مکمل طور پر مختلف ہے۔
4.
تفاسیر کی روشنی میں
امام رازی، ابنِ کثیر، علامہ طبری اور دیگر مفسرین نے اس آیت کو مختلف انداز میں سمجھایا ہے:
بعض نے کہا کہ "ہزار سال" کا مطلب ایک انتہائی طویل دورانیہ ہے، تاکہ انسان کو اللہ کی تدبیر کی وسعت کا اندازہ ہو۔
بعض نے اسے فرشتوں کے سفر کے تناظر میں لیا: کہ وہ ایک دن میں ایسی مسافت طے کرتے ہیں جو انسانی حساب سے ہزار سال کی ہو۔
جدید مفسرین اور اسلامی سائنسی مفکرین (جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک، مہدی گلشنی، اور دیگر) اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ آیات وقت کی اضافیت 
Time Dilation)
 کی طرف واضح اشارہ ہیں، جو سائنس نے اب جا کر دریافت کی ہے۔
5.
 ایمان اور علم کی ہم آہنگی
قرآن کی یہ زبان اس بات کا ثبوت ہے کہ وحی کا کلام صرف ماضی کے لوگوں کے لیے نہیں، بلکہ ہر دور کے انسان کے ذہنی افق کو چیلنج کرتا ہے اور اسے شعور کی بلند سطحوں پر لے جاتا ہے۔ قرآن کا انداز بیانیہ ایسا ہے جو سائنس کی ترقی کے ساتھ مزید واضح ہوتا جاتا ہے — جیسے جیسے انسان کائنات کو جانتا ہے، ویسے ویسے وہ اللہ کی آیات کو بہتر سمجھنے لگتا ہے:
سورۃ السجدہ کی یہ آیت ہمیں ایک ایسی حقیقت سے روشناس کرواتی ہے جو وقت اور کائناتی نظم کے بارے میں ہے۔ سائنس، فلکیات، نظریۂ اضافیت، اور قرآنی تفسیرات سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ وقت ایک مطلق نہیں، بلکہ ربِ کائنات کی تخلیق کردہ ایک لچکدار جہت ہے۔ اور قرآن نے چودہ صدیاں قبل اسے نہایت خوبصورتی اور حکمت سے بیان کیا — جو آج بھی انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

ایک سادہ سوال







فلسطین کی سرزمین مسلسل خون سے رنگین ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر بار جب اسرائیل غزہ پر حملہ کرتا ہے، ایک طاقتور ریاست اس کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے — امریکہ۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں سوال صرف اسرائیل اور فلسطین تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ پوری عالمی سیاست، طاقت، انصاف اور اقوام متحدہ کے کردار پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات صرف سفارتی نہیں، بلکہ گہرے عسکری مفادات پر مبنی ہیں۔ امریکہ، اسرائیل کو ہر سال اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔ کانگریس ریسرچ سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2023 تک امریکہ، اسرائیل کو 150 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے چکا ہے، جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
یہ امداد صرف ہتھیاروں یا ٹیکنالوجی کی حد تک محدود نہیں، بلکہ اس میں انٹیلی جنس، میزائل ڈیفنس سسٹمز، اور مشترکہ عسکری مشقیں بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کی "آئرن ڈوم" سسٹم کی بڑی فنڈنگ بھی امریکی بجٹ سے آتی ہے۔
جب بھی اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد پیش کی جاتی ہے، تو امریکہ سلامتی کونسل میں ویٹو کا استعمال کر کے اسے روک دیتا ہے۔ 1972 سے لے کر اب تک امریکہ نے 45 سے زائد بار اسرائیل کے حق میں ویٹو استعمال کیا ہے۔ 2023 میں جب 14 ممالک نے غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، تو امریکہ نے اکیلے اسے ویٹو کر کے مسترد کر دیا۔
اب 2025 میں بھی اسئ عمل کو دہرایا گیا ہے
یہ ویٹو دراصل بین الاقوامی انصاف کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ عالمی امن کی علمبردار کہلاتی ہے، اور دوسری طرف وہ طاقتور ممالک کے مفادات کی بندی بن کر رہ گئی ہے۔
مغربی میڈیا کی اکثریت اسرائیل کے بیانیے کو تقویت دیتی ہے۔ وہ حملہ آور کو مظلوم بنا کر پیش کرتی ہے اور حقیقی متاثرین کی آوازوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عام عوام تک حقائق بہت محدود اور مسخ شدہ 
صورت میں پہنچتے ہیں۔
سیکورٹی کونسل میں ویٹو کے نام پر جو بے انصافی کی جاتی ہے ۔اس نے سیکورٹی کونسل کے وجود پر بالخصوص اور اقوام متحدہ پر بالعموم سوال اٹھا دیے ہیں ۔ سیکورٹی کونسل کے منافقانہ کردار نے عملی طور پر دنیا بھر کی عقل اجتماعی اور امن کی کوششوں کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے
 اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے
کیا ہم ہمیشہ ویٹو پاور کے سامنے لاشیں گنتے رہیں گے؟
یہ کالم کسی مخصوص نظریے کی تائید نہیں کرتا، بلکہ
ایک  ساہ سدوال اٹھاتا ہے
جب موجودہ عالمی نظام مسلسل ناکام ہو رہا ہو، تو کیا وقت نہیں آ گیا کہ ہم کسی متبادل کی تلاش شروع کریں؟
اگر دنیا کی طاقتور اقوام واقعی انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہیں، تو انہیں سب کے لیے ایک جیسے اصول اپنانے ہوں گے۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں، تو پھر دنیا کو یہ مان لینا چاہیے کہ انصاف کا نظام صرف طاقت کی چھتری کے نیچے زندہ ہے۔

قربانی کا بنیادی فلسفہ




آج عرب دنیا میں عیدالاضحی ہے۔ مسلمان دنیا بھر میں حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، جانور قربان کیے جا رہے ہیں، ایسے میں جب "عید مبارک" کہنے کے لیے لب کھلتے ہیں، تو دل پر ایک بوجھ سا اتر آتا ہے۔ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں، اور ذہن بار بار ایک ہی سمت دوڑتا ہے… غزہ!

وہ غزہ، جہاں آج بھی خون بہہ رہا ہے۔ جہاں نہ عید ہے، نہ خوشی، نہ مسکراہٹ۔ جہاں بچے قربانی کے جانور نہیں دیکھ رہے بلکہ بھوک اور پیاس اور دوائیوں کے نہ ہونے سے خود قربان ہو رہے  ہیں۔ جہاں ماؤں کے آنچل خون سے تر ہیں، اور باپ لاشیں ڈھونے پر مجبور ہیں۔

اسرائیل کئی ماہ سے غزہ میں آگ اور بارود برسا رہا ہے۔ اور دنیا، خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ جنگ صرف اسرائیل کی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے وہ طاقت کھڑی ہے جو دنیا کی بڑی طاقت کہلاتی ہے — امریکہ۔ وہی امریکہ جو مسلسل اسرائیل کو مالی، عسکری اور سفارتی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔

دنیا کے متعدد ممالک نے اس جنگ پر احتجاج کیا، جنگ بندی کا مطالبہ کیا، مگر جب یہ معاملہ اقوام متحدہ کی میز پر پہنچا تو ایک ویٹو نے پوری دنیا کی آواز کو دفن کر دیا۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ یہ کیسا عالمی نظام ہے، جہاں ایک ملک کی مرضی پوری انسانیت کی رائے پر غالب آ جاتی ہے؟

کیا دنیا واقعی اتنی بے حس ہو چکی ہے کہ اسے بچوں کی لاشیں بھی ہلا نہیں سکتیں؟ کیا عورتوں کی چیخیں، اور معصوموں کی آہیں بھی عالمی ضمیر کو نہیں جگا سکتیں؟

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف ایک علاقے کا المیہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کی تذلیل ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہم مہذب دنیا میں زندہ ہیں، یا پھر اب بھی طاقت کا قانون ہی سب کچھ ہے؟

المیہ یہ ہے کہ جو قومیں کبھی ظلم کا شکار رہی ہیں، آج وہ خود ظلم کی علامت بن چکی ہیں۔ جو اپنے مظالم کی تاریخ سے سبق سیکھ سکتی تھیں، وہی آج بے گناہوں پر آگ برسا رہی ہیں۔

ادھر مغربی دنیا کے شہری بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے، اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی۔ مگر مسلم دنیا؟ وہ یا تو خاموش ہے یا صرف بیانات سے آگے نہیں بڑھتی۔ عرب دنیا عید منا رہی ہے، مگر اس خوشی میں غزہ کے لہو کی تلخی ضرور گھلی ہوئی ہے۔

اور ایسے میں جب ہم حضرت ابراہیمؑ کی سنت ادا کر رہے ہیں، ہمیں ایک لمحہ رک کر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ قربانی کا اصل فلسفہ کیا ہے؟ کیا صرف جانور ذبح کرنا کافی ہے، یا ہمیں اپنی بے حسی، اپنے خوف، اپنی خاموشی کو بھی قربان کرنا ہوگا؟

حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔

مگر آج… انسان کو جانور سمجھا جا رہا ہے۔ اسے مٹی میں دفنایا جا رہا ہے، اور اس کے وجود کو بے وقعت کر دیا گیا ہے۔ افسوس، کہ جس انسان کے لیے آسمان سے دنبہ اتارا گیا تھا، آج وہی انسان بمباری سے مٹایا جا رہا ہے۔

یہ عید نہیں، ایک سوال ہے —
کیا ہم واقعی انسانیت کے پیغام کو سمجھ پائے ہیں؟
حضرت ابراہیمؑ اپنے بیٹے کو اللہ کی رضا کے لیے قربان کرنے چلے تھے، اور خدا نے انسان کی جان بچانے کے لیے دنبہ بھیج دیا۔ اس واقعے کا اصل پیغام یہی تھا — انسان کی جان خدا کے نزدیک سب سے قیمتی ہے۔