جمعرات، 5 جون، 2025

Open Letter



 Why Pakistan Must Appoint Permanent Peace Envoys and Build a Diplomatic Front Against State Terrorism

By: Dilpazir Janjua

Pakistan has long stood on the frontlines of the global war on terror—sacrificing tens of thousands of lives in its struggle to root out extremist violence. Soldiers, schoolchildren, journalists, religious scholars, and ordinary citizens have all suffered in this battle. Yet despite these sacrifices, Pakistan remains under scrutiny, while states like India—actively involved in funding and facilitating terrorism—continue to enjoy diplomatic immunity and soft global narratives.

Now is the time for Pakistan to step out of the shadows of reactionary diplomacy and adopt a proactive, institutional, and strategic foreign policy stance that places peace, truth, and justice at its center.

Establishing a Permanent Counter-Terror and Peace Diplomacy Desk

To combat both the perception and reality of asymmetric warfare waged by hostile neighbors, Pakistan's Ministry of Foreign Affairs must establish a Permanent Desk for Counter-Terrorism and Peace Diplomacy. This desk, led by a senior diplomat or ambassador with deep international experience, must focus on:

  • Documenting the human toll of terrorism within Pakistan

  • Investigating and showcasing India’s state-sponsored terrorism through RAW and other proxies

  • Giving a global platform to victims and survivors of terrorism

  • Engaging the Pakistani diaspora and civil society in peace representation

  • Appointing and training Permanent Peace Envoys who can represent Pakistan at global forums, summits, and academic institutions

This initiative must be deeply rooted in the stories of those who’ve lived the pain of terrorism—not just officials and bureaucrats, but real victims, survivors, and their families.

India: A Rising Hub of State-Sponsored Terrorism

The global community must be reminded that India is not just a regional rival — it is fast becoming a nucleus of state-sponsored terrorism. From RAW’s financing of separatist groups in Balochistan to assassination plots in Canada, the UK, and the US, India’s use of covert warfare is no longer a secret.

India labels Kashmiris, Sikhs, and Assamese freedom fighters as "terrorists" while crushing their democratic rights. These acts mirror its ideological alignment with Israel’s violent suppression of Palestinians in Gaza—another bleeding region under occupation.

Such double standards cannot go unchallenged. Pakistan must lead a campaign of global awareness — not through hostility, but with diplomacy anchored in truth, morality, and the testimonies of victims.

From Tragedy to Diplomacy: The Way Forward

Pakistan needs to transition from reactive condemnation to institutionalized peace diplomacy. Establishing a permanent counter-terrorism desk and empowering peace envoys will allow the country to project its truth and challenge dangerous narratives.

“We do not ask for sympathy.
We demand acknowledgment.
Our martyrs deserve more than silence — they deserve the world’s ear.”

It is time the world sees Pakistan not as a problem but as a witness, a victim, and a voice for peace.

Include Voices of Individual effecties of Terrorism.

Pakistan must appoint individuals of international credibility, moral authority, and personal sacrifice. Suggested peace envoys include:

 Malala Yousafzai

Nobel Peace Prize laureate and survivor of a Taliban assassination attempt, Malala is a global voice for education, peace, and women’s rights. More than 2 million copies of her Book have been sold.She can be the voice against terrorism in EU and USA

 Bilawal Bhutto Zardari

As the son of martyred Prime Minister Benazir Bhutto, and a foreign policy leader himself, Bilawal embodies the cost of political terror and the potential for diplomatic reform.

 Hamid Mir

A renowned journalist and frequent target of extremist violence, Mir brings global credibility and firsthand experience of the threats journalists face in Kahmir..

 Shahnaz Anwar

Mother of a child martyred in the APS Peshawar attack, Shahnaz's grief turned into advocacy. She symbolizes the voice of every mother in Pakistan who has lost a child to terror .

 Mujahid Ali Bangash

Father of Aitzaz Hassan—the brave student who gave his life to stop a suicide bomber. His son’s legacy is a story the world needs to hear.

 Family of Shahbaz Bhatti

He stood for tolerance and religious freedom. His family continue his mission and deserve global platforms for peace advocacy.

These individuals not only embody Pakistan’s sacrifice but also provide a human face to the country’s long battle against terrorism.



انڈس واٹرز ٹریٹی کا دوطرفہ معاہدہ بننا: بھارت کے لیے ایک قدم آگے؟

 



 انڈس واٹرز 

ٹریٹی 

بین الاقوامی معائدہ سے دو طرفہ  

انڈس واٹرز ٹریٹی، جو 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا، برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف پانی کے منصفانہ تقسیم کا ضامن ہے بلکہ خطے کی سیاسی کشیدگی میں بھی ایک نہ ختم ہونے والا موضوع رہا ہے۔ آج بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو ایک بین الاقوامی دستاویز سے ہٹا کر دوطرفہ سمجھوتے میں تبدیل کرنے کی خواہش سامنے آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کو اس تبدیلی سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟

سب سے پہلے بات کریں تو، بھارت کو اس تبدیلی سے اپنی پانی کی پالیسیوں پر زیادہ خودمختاری حاصل ہو گی۔ فی الوقت، انڈس واٹرز ٹریٹی کے تحت عالمی بینک اور دیگر ثالث فریق پانی کے منصوبوں پر نظر رکھتے ہیں، جس سے بھارت کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو اس بوجھ سے آزاد کرے گا اور وہ اپنی زمینی حدود میں پانی کے وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکے گا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو پانی کے منصوبوں کی منظوری اور عملدرآمد میں تاخیر کا سامنا کم ہوگا۔ بین الاقوامی ثالثی کے بغیر بھارت تیزی سے فیصلہ سازی کر سکے گا، جو کہ زرعی، صنعتی اور توانائی کے شعبوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ خاص طور پر، بھارت ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹس اور نئے ڈیم بنانے میں زیادہ آزاد ہو گا، جس سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے۔

اسی کے ساتھ، بھارت کی سلامتی کے حوالے سے خدشات بھی اس اقدام کے پیچھے کارفرما ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دیرینہ کشیدگی اور دہشت گردی کے الزامات نے بھارت کو محتاط بنا دیا ہے کہ وہ پانی جیسے حساس موضوع پر عالمی ثالثوں کے ذریعے مذاکرات کرے۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ براہِ راست اور مضبوط مذاکرات کا موقع دے گا اور اسے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے زیادہ اختیار دے گا۔

آخر میں، یہ تبدیلی بھارت کو خطے میں اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع بھی دے سکتی ہے۔ عالمی ثالثوں کے بغیر بات چیت کا مطلب ہے کہ بھارت اپنے مفادات کو بہتر طریقے سے منوا سکے گا اور پاکستان پر دباؤ بڑھا سکے گا۔

یقیناً، اس تبدیلی کے اپنے خطرات بھی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل اور خطے میں پانی کی تقسیم کے مسئلے پر کشیدگی بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔ مگر بھارت کے لیے یہ قدم اپنی پانی کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو مقدم رکھنے کی واضح ترجیح ہے۔

لہٰذا، انڈس واٹرز ٹریٹی کو دوطرفہ معاہدے میں تبدیل کرنا بھارت کے لیے ایک ایسا سیاسی اور اقتصادی حربہ ہو سکتا ہے جو اسے مستقبل کے پانی کے انتظام اور علاقائی سیاست میں ایک مضبوط پوزیشن دلائے۔

دوسری بار




دوسری بار

 10 

مئی 

2025

 کا دن تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ میں درج ہو چکا ہے۔ سیالکوٹ اور کشمیر کے محاذ پر جب بھارت نے ایک بار پھر بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم پاکستانی بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا، تو پاکستانی قوم نے جو ردِ عمل دیا، وہ کسی فوجی حکمتِ عملی سے بڑھ کر تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قوم اور فوج ایک ہو گئے — اور تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ عوام نے مسلح افواج کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کیا ہو۔ جدید دنیا کی تاریخ میں ایے واقعات شاز ہی مگر جنم لیتے رہے ہین جب عوام نے صرف نعرے نہیں لگائے، بلکہ ہتھیار اٹھا کر افواج کا بازو بنے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو فتح صرف وقت کی بات بن جاتی ہے۔

1775

 سے 1783 تک امریکہ کی جنگِ آزادی ہو، یا دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی مزاحمتی تحریک، وارسا کی بغاوت ہو یا ویتنام کی گوریلا جنگ، اسٹالن گراڈ کی خونریز لڑائی ہو یا 1965 میں لاہور کی سڑکوں پر عوام کا جذبہ — ان سب میں ایک قدر مشترک تھی: قوم نے اپنی افواج کو تنہا نہیں چھوڑا۔

1965 

کی جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کے شہریوں نے جو جذبہ دکھایا تھا، وہی جذبہ اب ایک نئی نسل نے 10 مئی 2025 کو دہرا دیا۔ جب بھارتی میزائل شہری آبادی پر گرے، تو ردعمل میں صرف فوجی توپیں نہیں بولیں، عام نوجوان بھی توپوں میں گولے بھرنے لگے، خواتین نے کھانا پکا کر فوجیوں کو پیش کیے، اور شہریوں نے اپنی نقل و حمل کے ذرائع فوج کے سپرد کیے۔ یہ وہی جذبہ تھا جو قوموں کو ناقابلِ تسخیر بناتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں یہ ساتواں بڑا واقعہ ہے جب عوام نے براہِ راست عسکری میدان میں قدم رکھا۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے — اور اس بار جس طرح کی یکجہتی اور قومی غیرت کا مظاہرہ ہوا، اُس نے دشمن کو نہ صرف پسپا کیا بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ قوم پاکستان کے دفاؑع کے لیے متحد ہے۔

ہمیں اس اتحاد کو لمحاتی جوش کی بجائے مستقل قومی پالیسی بنانا ہوگا۔ عوام اور افواج کا یہ رشتہ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہ رہے، بلکہ ہر میدان میں ایسا ہی ساتھ ہو۔ دفاع ہو یا معیشت، تعلیم ہو یا ٹیکنالوجی، ہم سب ایک قوم بن کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

تاریخ کی گواہی ہے کہ جب عوام اور فوج ایک ہو جاتے ہیں، تو دشمن کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔


راجہ کون

 





 1965

کی پاک بھارت جنگ کے دوران  شام کے اخبار میں اہک سرخی تھی  "پاکستانی کرشمہ ساز لوگ ہیں۔" یہ جملہ مجھےاس لیے یاد  ہے کہ میرے اردو کے استاد نے  کہا تھا، " کرشمہ ساز نہیں ہوتا، کرشمہ گر ہوتا ہے۔"

پرانی  باتیں کسی نہ کسی موقع پر  یاد آ ہی جآتی ہیں، خاص طور پر جب میں اپنی زندگی کے سفر پر نظر ڈالتا ہوں۔ 1976 میں روزگار کی تلاش نے مجھے وطن سے دور کر دیا۔ مختلف ممالک میں وقت گزرا، مختلف تہذیبوں سے واسطہ پڑا۔ بہت کچھ دیکھا، سیکھا، مگر جو کمال، جو صبر، جو ہنر، اور جو حوصلہ پاکستانیوں میں دیکھا، وہ کہیں اور نہ پایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مٹی سے سونا کشید کرتے ہیں۔ سچ کہوں تو

، یہی ہیں اصل کرشمہ گر۔

ایسا ہی ایک کرشمہ میرے دوست کی زندگی میں بھی بسا ہوا ہے — جو آج کل امریکہ میں ایک کامیاب اور باوقار مقام پر فائز ہے۔ راولپنڈی کے مضافات میں پیدا ہوا۔ باپ کا سایہ بچپن ہی میں چھن گیا۔ ماں غیر ملکی تھی، مگر دل سے پاکستانی، اور حوصلے کا پہاڑ۔ جیسے جیسے حالات نے اسے جھنجھوڑا، ویسے ویسے وہ فولاد بنتی گئی۔

شوہر کی موت کے بعد رستے داروں نے وراثتی جائیداد پر قبضہ کر لیا ۔زمین کے لالچ  میں اپنے ہی رشتے داری دشمن بن گئے۔ حتیٰ کہ ایک دن بڑے بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ وہ بیوہ ماں، ایک بیٹے اور خاوند کے بنائے  کرہوئے گھر کے ساتھ تنہا رہ گئی۔ زمین جا چکی  تھی، مگر حوصلہ باقی تھا۔  بیٹے سے کہا کرتی تھئ:
" عمران زمین  راجہ نہیں ہوتی، علم راجہ ہوتا ہے۔"

بیٹے کے دل میں یہ الفاظ جیسے پتھر پر لکیر ہو گئے۔ اس نے ماں کی آنکھوں کا خواب اور دل کا درد دونوں سمجھ لیا۔ وہ خاموشی سے سب سہتا رہا — رشتے داروں کی گالیاں، طعنے، دھتکار — مگر میٹرک کے امتحان میں وہ پورے بورڈ کے ٹاپ 10 طالب علموں میں شامل ہوا۔

ماں نے گھر کرائے پر دے دیا، خود ایک چھوٹے سے مکان میں منتقل ہوئی، مگر بیٹے کو کالج میں داخل کرا دیا۔ بیٹے نے ماسٹرز مکمل کیا، پھر جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے اسکالرشپ پر پی ایچ ڈی کی۔ ماں کی خواہش تھی کہ وہ "پوسٹ ڈاکٹریٹ" بھی کرے۔ امریکہ سے اس نے اعلیٰ ترین ڈپلومہ کیا، تو گویا کامیابیوں کی بارش ہونے لگی۔ ملازمتیں، پیشکشیں، مشورے، شراکت دار — سب کچھ اُس کے قدموں میں آنے لگا۔

مگر وہ اب بھی اُسی راولپنڈی کی مٹی کو یاد رکھتا تھا، جہاں سے اس کا سفر شروع ہوا تھا۔ اس نے اپنے خاندانی گھر کو اپنی این جی او کے دفتر میں تبدیل کر دیا،  ماں کی ہدایت پر ان ہی رشتہ داروں کو اپنی تنظیم میں جگہ دی، جنہوں نے اس پر ظلم کیے تھے — کیونکہ ماں نے سکھایا تھا کہ معافی، انتقام سے بڑی فتح ہے۔

آج اس کے پاس امریکہ میں اپنا گھر اور اسائش بھری اندگی ہے اور پاکستان میں اس کا خاندان اور عزت ہے۔پاکستان میں اس کی تنظیم کو چلانے والے سارے ہی اس کے "شریک" ہیں

اسے اور اس کے خاندان کو ائرپورٹ چھوڑنے گیا ۔ راستے میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اس کی بیوئ نے کہا "عمران  کے سارے رشتے دار ڈفر ہیں ، ہر کوئی امریکہ جانا چاہتا ہے مگر تعلیم حاصل کرتے ہوئے انھیں موت پڑتی ہے 

میں نے بیک مرر میں دیکھا ۔عمران کا چہرے پر ملال تھا بولا میرے خاندان میں علم کو راجہ کہنے والی  

جورجیا کے قبرستان میں سو سوئی ہوئی ہے 

اسے الوداع کر کے واپس آ رہا  تھا تو میرے زہن میں چل رہا تھا صیح لفط "کرشہ ساز" ہوتا ہے یا "کرشمہ گر"  ، ذہن الجھ سا گیا ، یکایک خیال ایا "ساز" ہو یا "گر"۔ اصل  تو "کرشمہ" ہے ، پھر جیال آیا کرشمہ اسی گھر میں جنم لیتا ہے جس گھر میں عمران کی مان جیسی ماں ہو ۔اس کے خاندان میں تو سب زمین والے راجے ہیں

سعودی شہزادہ


 

عنوان: سعودی ولی عہد، ٹرمپ اور پاکستان: تعلقات کی وہ سچائی جو اکثر چھپائی جاتی ہے

تحریر: دلپزیر

سیاست میں تعلقات اکثر بیانات سے زیادہ اثر رکھتے ہیں، اور بین الاقوامی تعلقات میں تو یہ اصول اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں حالیہ برسوں میں جو ایک سب سے نظرانداز لیکن فیصلہ کن حقیقت رہی، وہ یہ ہے کہ امریکہ میں ہمارے حق میں جو چند نرم فیصلے یا مواقع پیدا ہوئے، وہ کسی پاکستانی لابنگ یا سفارتی حکمتِ عملی کا نتیجہ نہیں تھے—بلکہ سعودی ولی عہد۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے خودرائے اور بےباک رہنما کو جو دنیا کی مخالفت کے باوجود فیصلے کرنے سے گریز نہیں کرتا، محمد بن سلمان کے ذاتی اثر و رسوخ کے سامنے بارہا جھکنا پڑا۔ اس اثر کی نوعیت رسمی یا سفارتی نہیں، بلکہ ذاتی اعتماد، باہمی مفادات اور خاندانی سطح کے روابط پر مبنی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس نے بعض مواقع پر پاکستان کو ایسی جگہ پر سفارتی تنفس دیا، جہاں معمول کے ذرائع ناکام ہو چکے تھے۔

پاکستان کی امریکہ میں موجودہ حیثیت یا اثر رسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ آخر امریکہ کو آج پاکستان میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ ہم نہ معاشی طاقت ہیں، نہ عسکری لحاظ سے وہ حیثیت رکھتے ہیں جو افغان جہاد کے دور میں تھی، اور نہ ہی جغرافیائی محلِ وقوع کا وہ کردار اب باقی رہا ہے۔

اگر کوئی وجہ باقی ہے، تو وہ ہے سعودی تعلقات — اور خاص طور پر محمد بن سلمان کا وہ اثر جو ٹرمپ پر قائم ہوا۔ ایک حالیہ مثال رچرڈ گرنیل کی سرگرمی ہے، جو ٹرمپ کے مشیر رہے اور پاکستان کے خلاف سخت بیانیے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب وہ پاکستان پر تنقید کر رہے تھے، تو نہ کسی سفارتکار کی تقریر مؤثر ہوئی، نہ یوتھیاؤں کی امریکہ میں لابنگ کامیاب ہوئی۔
لیکن پھر ایک کال — سعودی وزیرِ دفاع کی طرف سے — اور رچرڈ گرنیل کی آواز بند ہو گئی۔

یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ طاقت کے عالمی کھیل میں اصل بات تعلقات کی ہوتی ہے، اور ان تعلقات کو نبھانے کی ثقافتی سمجھ بھی ہونی چاہیے۔

یہاں ایک اور پہلو بھی غور طلب ہے — اور وہ ہے عمران خان اور محمد بن سلمان کے درمیان سرد مہری۔
سعودی ولی عہد کو عمران خان کی شخصیت سے خاصی ناپسندیدگی ہے، جس کی دو بڑی وجوہات سامنے آ چکی ہیں:
اول، وہ قیمتی گھڑی جو
 MBS
 کی جانب سے تحفے میں دی گئی تھی، بازار میں بیچ دی گئی۔
دوم، عمران خان کی کابینہ یا قریبی حلقے سے 
MBS
 کے خلاف نازیبا کلمات سعودی سفارتی ذرائع تک پہنچے، جسے ولی عہد نے ذاتی توہین کے مترادف سمجھا۔

نتیجہ یہ ہوا کہ سعودی چینل — جو ماضی میں پاکستان کو عالمی سطح پر تنفس دیتا رہا — غیر فعال ہو گیا۔ اور جہاں سے پاکستان کو مدد مل سکتی تھی، وہاں فاصلے پیدا ہو گئے۔

ڈونلڈ ٹرمپ جیسے رہنما اگر کبھی پاکستان کے لیے کسی نرم گوشے کا اظہار کرتے ہیں تو اس کی وجہ نہ اسلام آباد ہے، نہ واشنگٹن کی کوئی پالیسی۔
وہ صرف اور صرف
 MBS
 کی ذاتی خواہش کا احترام کرتے ہیں۔
یہی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی ہو گی۔

پاکستان کو مستقبل میں اگر دنیا میں کوئی حیثیت درکار ہے، تو اسے اپنے خارجی تعلقات کو انا، ضد اور ذاتی رویوں سے الگ رکھنا ہو گا۔
سفارت صرف بیانات اور تصویروں سے نہیں چلتی — یہ رشتوں، عزت داری، اور بھروسے سے چلتی ہے۔

یہی سبق ہے جو وقت بار بار ہمیں یاد دلاتا ہے — مگر شاید ہم ہر بار اسے نظرانداز کر دیتے ہیں۔