جمعہ، 26 اپریل، 2019

سمیع و علیم


زیادہ پرانی بات نہیں، 1992 کا سال تھا، کپمیوٹر میں ونڈو انسٹال کی، اس مشین میں حیرت انگیز انقلاب آیا۔ محنت کم اور نتیجہ رنگین۔ وہ کمپیوٹر جو میرے بچوں کے لیے معمہ تھا اب گھر میں ان کی پسندیدہ شے تھی۔ انٹر نیٹ نایاب نہیں مگر مہنگی  تھی۔ اس کے باوجود بچوں کو کچھ دیر اس انٹرنیٹ نامی نئے کھلونے سے کھیلنے کی اجازت تھی۔ البتہ میرا ایک بیٹا اس پر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا  ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے 
 لاہور سے  ایک صاحب راولپنڈی تشریف لائے، ایک پروفیسرصاحب سے انھوں نے ملاقات کی۔ لاہور واپس جا کر انھوں نے اپنا طبی معائنہ کرایا۔ ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ پروفیسر صاحب جن کا طب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اوروہ بیماری جو مجھ سے بھی پوشیدہ تھی کیسے جان گئے۔ 
وہ لوگ جو حکمرانی کے خواہش مندوں کو خوش خبریاں سناتے ہیں یا وزیر اعظم ہاوس مین بیٹھ کر وقت کے وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب اونٹوں کی قربانی کا وقت آں پہنچا ہے، یا وہ لوگ جو کسی میڈیا ہاوس میں بیٹھ کر دور کے ملک کے بارے میں پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کر دیتے ہیں یہ لوگ کوئی غیب دان نہیں ہوتے البتہ وہ علم کے بڑے درخت کی ایک شاخ کے ماہر ضرور ہوتے ہیں، امام محمد بن سیرین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کو خوابوں کی تعبیر بتانے میں ید طولی ٰ حاصل تھا۔ ان کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ ابن سیرین نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تمھارا ہاتھ کاٹا جائے گا، مذکورہ شخص کی موجودگی میں ایک اور شخص اسی محفل میں داخل ہوااور اس نے بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ امام نے اسے تعبیر بتائی کہ وہ حج کو جائے گا۔ پہلا شخص حیران ہوا مگر وقت نے ثابت کیا کہ پہلے شخص کا ہاتھ کاٹا گیا اور دوسرے شخص نے حج کیا۔ 

علم کیا ہے، کسے حاصل ہوتا ہے، کیسے حاصل ہوتا ہے، انسان کتنا علم حاصل کر سکتا ہے تشنہ بحث ہے مگر ایک بات پر سب صاحبان علم متفق ہیں کہ انسان کا علم ناقص اور ادہورا ہے۔ تمام علوم کی کی مکمل اجارہ داری خدا ہی کے پاس ہے کہ وہ تمام مخلوقات کا موجد اول ہے۔

انسان کو دیکھنے کے لیے بینا آنکھ کے ساتھ ساتھ روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دن کو سورج آنکھ کی یہ ضرورت پوری کرتا ہے اور حد نگاہ تک مناطر روشن ہو جاتے ہیں۔ رات کے اندہیرے میں آنکھ کی حد نگاہ مصنوعی روشنی کی لو تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔صاحب شمس الفقراء نے لکھاہے کہ انسان کو اندر سے دیکھنے کے لیے قلبی آنکھ کے ساتھ ساتھ اس ضیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو نور اسم ذات سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اسم ذات کے نور سے مستفید ہونے والا انسان دوسرے انسان کے اندر تک جھانک سکتا ہے۔ یہ تو صاحبان علم کی باتیں ہیں۔کچھ لوگ ان اقوال کی حقیقت تک پہنچتے ہیں اور بعض کا کم علم انھیں ان باتوں کے انکار پر پر اکساتا ہے۔ البتہ خالق کائنات ایسی ہستی ہے جس کے ہاں علوم کلی ازل سے سجدہ ریز ہیں اور تا ابد اس کی اجارہ داری مستحکم ہے۔ 
   جب ابراہیم نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں تو رجوع کیا اور دعا کی  اے ہمارے رب، ہم سے قبول فرما بے شک آپ سنتے اور جانتے ہیں  (البقرۃ:127) ۔ علمائے دین کا کہنا ہے کہ نبیوں کا ہر عمل امر ربی کا مظہر ہوتا ہے اور انسانیت کے لیے اس میں اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس دعا میں پوشیدہ اسباق قابل غور ہیں 

۔     ا س دعا کے لیے رفع ید سے قبل خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک بامقصد نیک عمل کو پورا کیا  
   ۔    اپنے اللہ کی طرف رجوع ہو کر اپنے ایمان کی سچائی کو ثابت کیا
۔    عمل کرتے وقت دل میں اخلاص تھا۔ غافل دل کے ساتھ نہیں بلکہ دل کو مائل کر کے اپنے قلب کی کیفیت کو اللہ کے سامنے رکھ کر ہی دعا کا سلیقہ پورا ہوتا ہے 
۔    دعا کے لیے مقام کی اہمیت بھی ظاہر کر دی گئی ہ
۔    اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ واسطہ بھی اسی قادر مطلق اور بے پرواہ کی صفات کا کارآمد ہے۔

   نیکی پر نیکی کرنے والوں کے دل حساب دینے کے لیے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور ہی سے خوف کھاتے ہیں  (المومنوں: 60,61) ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کا دل خیالات کاایسا بھنور ہے جس میں سیاہ و بے رنگ لہروں کا جنم لینا اورعدم ہو جاتا جبلت انسان ہے۔ البتہ انسان کی حوصلہ افزائی یہ کہہ کر کی گئی ہے    مجھے پکارو، مین تمھاری دعا قبول کروں گا    (الغافر:60)
دنیا میں بسنے والا انسان بھی سنتا ہے  لیکن وہ دوسروں کے دل کے حالات سے بے خبر ہوتا ہے۔سمیع تو ضرور ہے مگر علیم نہیں ہے۔   اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں، جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انھیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں بڑہا دیتا ہے  (البقرہ:15,16)۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ منافقین اس بہکاوے میں ہیں کہ شائد اللہ صرف سنتا ہے۔اہل ایمان اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والوں کو بصارت عطا کی جاتی ہے    تمھیں وہ کچھ سکھایا گیا جو تم اور تمھارے آبا بھی نہیں جانتے تھے  (الانعام:19)
حدیث قدسی ہے    میرے بندو،  تم سب کے سب گمراہ ہو، سواے اس شخص کے جسے میں ہدائت دوں، اس لیے مجھ سے ہدائت مانگو میں تمھیں ہدائت دوں گا۔ میرے بندو تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں کھلاوں، اس لئے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمھیں کھلاوں گا۔ میرے بندو، تم سب کے سب بے لباس ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں لباس پہناوں، اس لیے مجھ سے لباس مانگو، میں تمھیں لباس پہناوں گا۔ میرے بندو،  تم دن رات گناہ کرتے ہواور مین تمھارے گناہ معاف کر سکتا ہوں، اس لیے تم مجھ سے بخشش مانگو، میں تمھیں معاف کر دوں گا    البتہ رسول اکرم  ﷺ  کی یہ ہدائت پیش نظر رہے    اللہ کسی ایسے دل سے دعا قبول نہیں کرتاجو سہو و لہو مین مبتلاء  ہو 
وہ سنتا اور جانتا ہے۔ 
    ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے    اور علیم تو جمیع علوم کا اجارہ دار ہے۔ دعا گو کے ذہن میں یہ بچپنا نہیں ہونا چاہیے
    ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے 

جمعرات، 25 اپریل، 2019

اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور

 
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ میں یہ دعا مانگی تھی   اے ہمارے رب، اور ان میں ان ہی سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کو سنوارے، بے شک آپ غالب اور حکمت والے ہیں    اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی اس دعا کو شرف قبولیت بخشا اور فرمایا   جس طرح ہم نے آپ میں آپ ہی سے ایک رسول بھیجاجو آپ کو ہماری آیات سناتے اور آپ کو سنوارتے ہیں، اور آپ کو کتاب اور حکمت سکھاتے ہیں اور وہ سکھاتے ہیں جو آپ نہیں جانتے تھے ۔صرف اس سوال اور عطا میں ہی حکمت کا ذکر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے بار بار اس نعمت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ انسان کا حق ہے کہ وہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ حکمت ہے کیا۔
لغت میں درج ہے     حکمت بہتریں چیز کو بہتریں علم کے ذریعے جاننے کو کہتے ہیں  
 علامہ سید سلیمان ندوی(۴۸۸۱ ۔  ۳۵۹۱) نے لکھا ہے  حکمت عقل و فہم کی اس کامل ترین حقیقت کا نام ہے جس سے صیح و غلط، صواب و خطا،حق و باطل اور خیر و شر کے درمیان تمیزوفیصلہ بذریعہ غور وفکر، دلیل و برہان اور تجربہ و استقراء کے نہیں بلکہ منکشفانہ طور پر ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق صاحب حکمت کا عمل بھی ہوتا ہے۔ بعض لوگوں میں اشیاء کے حق وباطل اور افعال کے خیر وشر کی تمیزکا صیح وجدان اور صیح ذوق ہوتا ہے، وہ ان امور کے دقیق سے دقیق مسئلہ کے متعلق اپنے ربانی ذوق و وجدان سے ایسی صیح رائے دیتے ہیں جو دوسرے لوگ وسیع مطالعہ اور غور وفکر کے بعد بھی نہیں دے سکتے۔ یہی وہ معرفت اور نور الہی ہے جو جدوجہد اورسعی و محنت سے نہیں بلکہ عطا و بخشش سے حاصل ہوتی ہے۔اور اسی کانام حکمت ہے۔اس کے مختلف درجے اور رتبے عام انسانوں کو ملتے ہیں لیکن اس کا اعلیٰ ترین اور کامل ترین درجہ اور رتبہ حضرات انبیاء کو حاصل ہوتا ہے
حکمت کو عام طور پر کتاب اورعلم کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے   بے شک ہم نے ابراہیم کو کتاب اور حکمت دی    (النساء:۴۵)۔    اور جب میں نے آپ کو کتاب اور حکمت اور توراۃ اور انجیل دی   (المائدہ:۰۱۱)۔    اور جب اللہ نے انبیاء سے وعدہ لیا کہ جب میں آپ کوکوئی کتاب اور کوئی حکمت دوں    (آل عمران:۱۸) ۔    بے شک ہم نے ایمان والوں پر احسان کیاکہ ان ہی میں سے ایک رسول بھیجاجو ان کواس کی آیات پڑھ کر سناتاہے اور ان کو سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے    (آل عمران: ۴۶۱)۔    وہی اللہ جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کو اس کی آیات سناتے ہیں اور ان کو پاک و صاف کرتے ہیں اور کتاب وحکمت سکھاتے ہیں اور وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے    (الجمعہ:۲)۔    اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری    (النساء:۳۱۱) ۔    اور اللہ کا جوآپ پر احسان ہے اور اس نے آپ پر جو کتاب اور حکمت اتاری ہے ان کو یاد کرو۔ اللہ آپ کو اس سے سمجھاتا ہے    (البقرہ: ۱۳۲) ۔
 علم اگر جاننے کا نام ہے تو حکمت اس دانشمندی کانام ہے جو علم کو عمل میں ڈہالتی ہے۔ایک بار اللہ کے آخری نبی  ﷺ اپنے اصحاب کے ساتھ لطیف پیرائے میں تبادلہ خیالات فرما رہے تھے،اصحاب اپنی اپنی پسند بتا رہے تھے۔ حضرت جبریل اترے اور انھوں نے بھی اس تبادلہ خیالات میں شامل ہو کر اپنی پسند بتائی،پھر آسمان کی طرف گئے اور واپس آ کر اللہ تعالیٰ کی پسند بیان فرمائی۔ اس محفل میں رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی پسند بتائی ان میں خوشبو، عورت اور نماز کا ذکر تھا۔ نماز کو نبی اکرم ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھندک بتایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے انبیاء کو علم کے ساتھ جو حکمت عطا کی جاتی ہے وہ اعمال کی حقیقت منکشف کر دیتی ہے۔عام مسلمانوں کے لیے نماز پڑہنا مشکل عمل ہے مگراصحاب حکمت پر جب حقیقت منکشف ہو جاتی ہے تو وہ مرغوب عمل بن جاتا ہے۔حکمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ  کی ازدواج مطہرات کو مخاطب کرکے فرمایا ہے      اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جو آیات اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو    (الاحزاب:۴۳) ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیات تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر حکمت کی باتیں وہ ہیں جو زبان مبارک رحمت العالمین سے عطا ہوتی ہیں۔امام شافعیؒ کا قول ہے    حکمت آنحضرت  ﷺ کی سنت کا نام ہے اور آپ کی سنت وہ حکمت ہے جوآپ  ﷺ  کے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالی جاتی ہے   ۔سورۃ جمعہ میں آنحضرت  ﷺ  کے بارے میں فرمان ہے    مسلمانوں کو کتاب اور حکمت کی تعلیم فرماتے ہیں    یعنی کتاب اور حکمت دو مختلف چیزیں ہیں۔جب  اللہ کے رسول دوسروں کو حکمت کی تعلیم دیتے ہیں تو دراصل وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ منکشفانہ علم تقسیم کرتے ہیں۔اس منکشفانہ علم کا اعجاز ہے کہ یہ صاحب علم کو صاحب عمل بنادیتا ہے۔مقاتلؒ کا قول ہے    حکمت علم اور اس کے مطابق عمل کو کہتے ہیں   ۔اور ابو جعفر محمدبن یعقوب کا قول ہے   ہر وہ صیح با ت جو صیح عمل پیدا کرے حکمت ہے  ۔ہم کہہ سکتے ہیں حکمت وہ جوہر ہے جس کو عطا کیا جاتا ہے وہ سراپا عمل بن جاتا ہے۔
آپ کو کتابوں میں ایسے اصحاب علم کا نام ضرور ملے گا جن کے علم ہی نے ان کو دھوکا دیا مگرآپ کوشش کریں تو بھی کسی کو ڈہونڈ نہ پائیں گے کہ جس کو حکمت عطا کی گئی ہو اور وہ ناکام ہوا ہو۔سورۃ النساء کی آیت:۳۱۱ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جس کو حکمت عطا کردی جائے وہ گمراہ ہو ہی نہیں سکتا، پوری آیت یوں ہے    اگر اللہ کا فضل و کرم آپ پر نہ ہوتاتو ان میں سے ایک گروہ نے چاہا تھاکہ آپ کو گمراہ کرے،اور وہ گمراہ نہیں کرتے مگر اپنے آپ کو،اور آپ کو ذرا سابھی نقصان نہیں پہنچائیں گے، اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت اتاری اور آپ کو سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے،اور اللہ کا آپ پر بڑا فضل ہے   ، اور فضل یہ ہے کہ کتاب کے ساتھ  آپ  ﷺ  کو حکمت عطا کی گئی ہے۔ اس آیت میں کھل کر بتا دیا گیا ہے   جس کو حکمت عطا کی گئی اس کو خیر کثیر عطا ہوئی    (البقرہ: ۹۶۲)۔ حکمت کی مزید وضاحت اس فرمان  رسول  ﷺ میں ہے   رشک و حسداگر جائز ہے تو صرف دو اشخاص پر، ایک اس پر جس کو مال کی دولت ملی تو وہ اس کو صیح صرف کرتا ہے، دوسرے اس شخص پرجس کو حکمت ملی ہے تو وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہے۔اور دوسروں کو سکھاتا ہے اور اس میں معلم ہونے کی شان پیدا ہوتی ہے
امام مالک کا قول ہے    حکمت دین میں سمجھ اور اس فہم کو کہتے ہیں جو ایک فطری ملکہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور ہے

بدھ، 24 اپریل، 2019

حاکم یا محافظ




مرد عورتوں پر محافظ ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر بزرگی دی ہے اور اس لیے کہ مرد اپنا مال ان پر خرچ کرتے ہیں۔ ( سورۃ النساء :۳۴) اور مال خرچ کرنے کی ذمہ داری مردپر اسطرح ہے کہ جو خود کھاٗے وہی بیوی کو مہیا کرے۔ جب خود پہنے تو بیوی کو بھی پہنائے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بچہ کی پیدائش کے بعد اگر بچے کی ماں کسی وجہ سے بچے کو دودھ نہ پلا سکے تو یہ ذمہ داری بچے کے باپ پر ہے کہ وہ بچے کی رضاعت کا انتظام کرے۔ اور اس رضاعت کی اجرت ادا کرے جس کی مدت دو سال ہے۔ خدا کا فرمان ہے ْ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دوسال دودھ پلائیں۔ جو چاہے کہ رضاعت کی مدت پوری کرے اور باپ پر ان دودھ پلانے والی ماوں کا کھانا کپڑا دستور کے مطابق واجب ہےْ (البقرہ:۲۳۳)۔ صرف دودھ پلانے والی ہی کے نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر نہیں ہے بلکہ بچے کے کھانے اور لباس کی ذمہ داری بھی باپ ( باپ کی عدم موجودگی میں دادا )پر ہے۔مرد کو ْ رب البیت ْ یعنی گھر کی ضروریات پوری کرنے والا بھی کہا جاتا ہے۔اسی پر بچے کی تربیت اور تعلیم کا فرض بھی عائد کیا گیا ہے۔ان مالی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ باپ کے لیے لازمی ہے کہ وہ تمام اولاد کے ساتھ مساوی سلوک یقینی بنائے ۔ اصحاب رسول میں سے ایک نے اپنے بیٹوں میں سے ایک کو اپنا غلام تحفے کو طور پردیا اور چاہا کہ ان کے اس عمل پر اللہ کے رسول ﷺ بھی شاہد ہوں تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا سب بیٹوں کو ایک ایک غلام دے دیا گیا ہے تو عرض کیا نہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ْ میں ایسے ظالمانہ تحفہ پر گواہ نہ بنوں گا ْ 
اسلام کی ، مسلمان خاندان کی عورت کو عطا کردہ اس معاشی آزادی کے نتائج یہ نکلے کہ حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تو اس نے بھی برابر کا جواب دیا۔ حالانکہ اسلام سے پہلے ہم عورتوں کو کسی گنتی اور شمار میں نہیں لاتے تھے۔اسلام آیا تو اس نے عورتوں کے بارے میں احکام اتارے اور ان کے حقوق مقرر کیے۔اسلام نے قدر و منزلت میں عورت کو اس حد تک بڑہایا کہ رسمی طور پر عورت کو مرد کے برابر کر دیا۔ مگر اخلاقی طور پر مردوں کی برتری قائم رکھی اور اس برتری کے بدلے مرد پر سماجی اور معاشی ذمہ داریاں عائد کر دیں۔البتہ ان مالی ذمہ داریوں نے مرد کو کچھ حقوق بھی عطا کیے۔ ان حقوق میں اولیں مرد کے ساتھ عورت کی وفا کا تقاضا ہے۔مذکورہ آیت کے اگلے حصے میں ہے کہ نیک بیویاں فرمان بردار ہوتی ہیں۔ اور غائبانہ نگرانی کرتی ہیں کہ خدا نے ان کی حفاطت کی ہے ْ یعنی اپنے خاودند کی عزت و آبرو اور مال کی محافظ ہوتی ہے ۔اب کسی مرد کا فعل ان ہدایات کے منافی ہے یا عورت کا عمل اس میزان پر پورا نہیں اترتا تو ذمہ داری ادا کرنے سے حقوق بھی سلب ہو جاتے ہیں۔ ایسے مرد جو عورت کے مال پر تکیہ کرتے ہیں یا بچوں کے کپڑے اور تعلیم کے اخراجات کے لیے بچوں کی ماں کے مالی طور پر محتاج ہوتے ہیں ان کا گھر پر حکمرانی کا حق سلب ہو جاتا ہے۔ 
اسلام نے والدین کے رشتے کے بعد سب سے اہم رشتہ بیوی خاوند کے رشتے کو قرار دیا ہے۔ قران پاک نے ان لوگوں کی سر عام مذمت کی ہے جو اس رشتے میں رخنہ اندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے بیوی خاوند کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے والے جادو گروں کی قبیل کے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر اس مذمت میں مرد اور عورت کے وہ قریبی رشتے دار بھی شامل ہیں جو بستے گھر کو اجاڑنے کی سازشیں کرتے ہیں۔
بیوی خاوند کا رشتہ خاندان کی بنا ہے۔اس رشتے کی توصیف کرتے ہوئے بیوی خاوند کو ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کا پردہ پوش بتایا ہے۔دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی زینت بتائے گئے ہیں۔اکثر رشتوں اور ناتوں کی جڑ یہی ایک رشتہ ہے اسی لیے اس رشتے کو پاک دامنی کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ آنے والا بچہ جس گود میں آنکھ کھولتا ہے اسلام نے اس گود اور اس گھر کو مہر محبت کا مرکز بنانے کے لیے بیوی خاوند کے رشتے پر تکریم کی چادر تان دی ہے۔ اور اس رشتے کو قائم رکھنے کے لیے بدخواہوں کی مذمت کے بعد مناقشے کی صورت میں فریقین کو تاکید کی ہے کہ ْ میاں بیوی اللہ کی حدود کو قائم رکھیں ْ (البقرہَ:۲۳۰)

منگل، 23 اپریل، 2019

قصہ جسے تحریر کیا جاتا ہے



اللہ کے نبی موسی علیہ السلام کے وقت کی ایک حکائت ہے کہ قوم بنی اسرائیل میں ایک بہت ہی شریر شخص تھا جو اپنی بد اعمالیوں سے باز نہ آتا، اہل شہر اس کی بد اعمالیوں سے عاجزتھے اورخدا سے دعا کرتے تھے کہ اس کے شر سے عافیت دے۔ خدا نے اپنے نبی کو وحی بھیجی کہ اس شریر کو شہر بدر کر دو۔ وہ ایک غار میں جا بسا، جب اس کا آخری وقت قریب آیا اور بیمار و لاچار ہو کر زمین پر گرپڑا تو اس نے کہا آج میری ماں میرے پاس ہوتی تو میری تیمارداری کرتی اور میرا باپ میرے پاس ہوتا تو مجھ پر مہربانی کرتا۔
والدین اولاد کے لیے مجسم مہربانی ہوتے ہیں۔اس کا سبب یہ ہے کہ خدا نے والدین کے دل اولاد کی محبت سے لبریز کر دیے ہیں مگر اولاد کے دل میں یہ مادہ نہیں رکھا بلکہ اولاد کو حکم دیا ہے ْ اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکید کی ، اس کی مان نے اس کو تکلیف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو برس تک اس کو دودھ پلایا ْ ( سورۃ لقمان:۱۴) ۔ 
اللہ کے رسول ﷺ نے جہاد پر جانے کے متمنی سے فرمایا تم والدہ کی خدمت سے چمٹے رہو کہ جنت اس کے پاوں کے پاس ہے۔ اور والد کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی بتایا۔ خدا نے اولاد کو والدین کے سامنے ادب سے جھکے رہنے اور اف تک نہ کہنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ اور ان کی خدمت، اطاعت ، دلجوئی اور مدد کو فرض قرار دیا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا مانگی تھی ْ اے مرے رب مجھے اور میرے والدین کو بخش دے ْ (سورۃ ابراہیم: ۴۱ ) ایسی ہی دعا حضرت نوح علیہ السلام نے بھی مانگی تھی ( سورۃ نوح:۲۸) ۔ والدین کی خدمت وہ آب مصفا ہے جو انفرادی گناہوں کی فرد کو مٹا دیتا ہے۔ تعلیمات نبوی ﷺ ہے کہ سب سے بڑا گناہ شرک اور اس کے بعد والدین کی نا فرمانی ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عمر بن خطاب کی ایک بیوی تھی، جس سے وہ راضی تھے مگر ان کے والد کو بہو پسند نہ تھی، اس اختلاف نے خانگی جھگڑے کی صورت اختیار کر لی۔ اللہ کے رسول ﷺ نے عبداللہ کو مشورہ دیا کہ اپنے باپ کی اطاعت کرو۔
عبداللہ بن عمر نے نہ صرف مشورہ مانا بلکہ ان سے مروی ہے کہ میں کبھی اس مکان کی چھت پر نہیں چڑہا جس میں میرے والد صاحب ہوں۔
ایک شخص نے خراسان سے اپنی ضعیف ماں کو کندہوں پر اٹھایا ، اسے بیت اللہ میں لایا، حج کے مناسک ادا کیے اور پوچھا کیا میں نے والدہ کا حق ادا کر دیا تو ابن عمر نے کہا ْ نہیں ۔ ہر گز نہیں ، یہ سب تو مان کے اس ایک چکر کے برابر بھی نہیں جو اس نے تجھے پیٹ میں رکھ کر لگایا تھا ْ امام حسن بن علیؓ سے پوچھنے والے نے پوچھاوالدین کے ساتھ حسن سلوک کس طرح کیا جائے ، فرمایا ْ تو ان پر اپنا مال خرچ کر اور جو حکم دین اس کی تعمیل کر ْ عبدللہ بن عباس کا قول ہے ْ تم ان کے سامنے اپنے کپڑے بھی نہ جھاڑو، کہیں کپڑوں کا غبار اور دھول انھیں نہ لگ جائے ْ امیر المومنین علی مرتضی کا حکیمانی قول ہے ْ اگر والدین کی بے ادبی میں اف سے کم درجہ ہوتا تو بھی اللہ تعالیٰ اسے حرام قرار دیتے ْ ۔ مجاہد ؒ کا قول ہے کہ بوڑہے والدین کا پیشاب دھونا پڑے تو اف مت کہنا کہ وہ تمھارا پیشاب دہوتے تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ایک شخص خدمت اقدس نبوی ﷺ میں حاضر ہوا ، اس کے ساتھ ایک بوڑہ�آدمی تھا۔ پوچھا یہ کون ہے کہا میرا والد ہے آپ ﷺ نے نصیحت فرمائی اس کے آگے نہ چلنا ، مجلس میں اس سے پہلے نہ بیٹھنا ، ان کا نام لے کر مت پکارنا ، ان کو گالی مت دینا۔
خدا کا فرمان ہےْ و قل لہا قول کریم ْ ان سے خوب ادب سے بات کرنا ، حضرت سعید بن مسیب نے خدا کے اس فرمان کی تشریح میں کہا ہے خطا کار اور زر خرید غلام ، سخت مزاج اور ترش رو آقا سے جس طرح بات کرتا ہے یہ قول کریم ہے۔ 
حضرت عروہ ؒ کا کہنا ہے کہ تو ان کو ترچھی نگاہ سے بھی مت دیکھ کہ آدمی کی ناگواری اول اس کی آنکھوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا جو شخص یہ چاہے کہ اس کی عمر دراز کر دی جائے اور رزق میں اضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ والدین کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے۔امام محمد بن سیرین نے لکھا ہے کہ حضرت عثمان کے دور میں کھجور کے ایک درخت کی قیمت ایک ہزاردرہم تک پہنچ گئی تھی۔حضرت اسامہ نے یہ درخت بیچنے کی بجائے اندر سے کھود کر رخت کو کھوکھلا کر دیااور اس کا گودا نکال کر اپنی ماں کو کھلا دیا۔لوگوں نے پوچھا آاپ نے ایسا کیوں کیا، انھوں نے کہا میری والدہ نے کھجور کا گودا مجھ سے مانگا تھا اور میری عادت یہ ہے کہ جب میری ماں مجھ سے کچھ مانگتی ہے اور اس کا دینا میرے بس میں ہو تو میں وہ چیز ضرور ان کو دیتا ہوں۔حضرت ابو امامہ سے روائت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ والدین کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ دونوں تیری جنت یا جہنم ہیں۔اور یہ بھی فرمان ہے کہ تین دعائیں مقبول ہیں والدین کی اولاد کے لیے دعا، مسافر کی دعا اور مظلوم کی دعا۔
حضرت اویس قرنی کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اویس کی والدہ ہے، اس کے ساتھ انھوں نے حسن سلوک کیا ہے اگر اویس کسی بات میں اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالی ضرور ان کی قسم پوری فرمائے۔مزید اویس کو خیر التابعین بتایا اور عمر و علی نے ان سے امت کے لیے دعا کرائی تھی۔
عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے ایسے جان نثار صحابی تھے کہ ایک بار انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتا ب اتاری اگر آپ چائیں تو میں اس کا سر لا کر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ، ایسا نہ کرو بلکہ والد کے ساتھ نیکی کرواور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو ۔
میرے ایک دوست نے لکھا تھا ْ والدین کی خدمت گزاری اور اطاعت ایک قصہ ہے جسے بچوں نے آپ کو پڑھ کر سنانا ہے، جتنا اچھا تم یہ قصہ تحریر کرو گے اتنا ہی اچھا تمھیں سنتے ہوئے لگے گا ْ 

اتوار، 21 اپریل، 2019

پہلے مرغی آئی تھی یا انڈہ

                                  

دنیا ، ملک، معاشرے اور گھر کا امن اخلاق سے وابستہ ہے۔ مہذب ممالک میں انفرادی اخلاق کی کمی کو حکومت قوت اور جبری قوانین سے پور اکرتی ہے۔ اگر افراد اپنے اخلاق کو از خود پوری طرح استعمال کریں تو حکومت کو جبری قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔جو افراد حکومت کے جبری قوانین کی مخالفت کرتے ہیں مجرم کہلاتے ہیں۔مثالی معاشرے میں فرد پر جرم کے خلاف اس قدر دباو ہوتا ہیکہ وہ جرم کے ارتکاب کے بعد بے چین ہو جاتا ہے۔ ریاست مدینہ میں ماعز اسلمی نامی ایک فرد سے غیر اخلاقی جرم سرزد ہو گیا۔ اس جرم کا عینی شائد تھا نہ کسی نے اس جرم کا شکوہ کیا تھا۔مگر ان کے اعلیٰ اخلاق نے مجبور کیا کہ وہ عدالت میں حاضر ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کریں۔ ان کے اس عمل خود احتسابی کی رسول اللہ ﷺ نے تعریف فرمائی اور بتایا کہ اعتراف کا یہ عمل اس قدر پسندیدہ ہے کہ اگر اعتراف کے اس عمل کے اجر کو اہل مدینہ پر تقسیم کیا جائے تو سب کی نجات کے لیے کافی ہو جائے۔اخلاقی لحاظ سے رسول اللہ ﷺ کے دور سے لے کر عمر بن خطاب کی شہادت تک دور مثالی تھا۔ معاشرے کا مجموعی اخلاق اس قدر اعلیٰ تھا کہ انسان اپنی زبان سے نکالے ہوئے کلمے کی پاسداری کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لیا کرتا تھا۔ محمد دباب الاتلیدی ( متوفی ۰۰۱۱ ہجری) نے اپنی کتاب میں شرف الدین بن ریان سے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ عمر بن خطاب کی عدالت میں دو نوجوانوں نے اپنے باپ کے قتل کا مقدمہ پیش کیا۔ قاتل نے اعتراف جرم کیا مگر التجاء کی 
ْ اے امیر المومنین ، اس کے نام سے جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں، مجھے صحرا میں اپنے بیوی اور بچوں کے پاس جانے کی اجازت دی جائے تاکہ میں انھیں بتا آوں کہ میں قتل کر دیا جاوں گا ، ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ، میں پھر واپس آ جاوں گا ْ 
واسطہ زمین و آسمان کو قائم رکھنے والے کا تھا مگر عدالت کو ضمانت درکار تھی کہ یہ شخص صحرا سے واپس بھی آئے گا ۔ عمر نے کہا ْ اے لوگو ، کوئی ہے جو اس کی ضمانت دےْ ابو ذر غفاری نے اس کی ضمانت دی ۔ عمر نے ابوذر کو مخاطب کر کے کہا ْ ابو ذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمھاری جدائی کا صدمہ سہنا پڑے گا ْ جواب آیا ْ اے امیر المومنین اللہ مالک ہے ْ تین دن کے بعد اہل مدینہ نے مسجد سے بلاوے کی آواز سنی ، سب کو معلوم تھاآج قتل کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے ، لوگ یہ بھی جانتے تھے بدو صحرا سے واپس نہ آیا تو اس کے ضامن کی گردن اڑا دی جائے گی ۔ مسجد میں ابو ذر بھی حاضر ہیں ، مقتول کے وارثین بھی موجود ہیں۔ عمر کی آواز سے اہل مدینہ کے دل کی دھڑکنیں گویا رک ہی گئیں ، سوال ابو ذر سے تھا ْ کدھر ہے وہ آدمی ْ جس کا نام معلوم ہے نہ گھر اور ٹھکانہ ْ مجھے کچھ معلوم نہیں امیر المومنینْ ۔ اتنے میں لوگوں نے دیکھا وہ بدو ہانپتا ہوا آ پہنچا۔ اب عمر کا سوال بد وسے تھا ْ اے شخص ، اگر تو لوٹ کے نہ بھی آتا تو ہم تیرا کیا بگاڑ لیتے ، یہاں کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو تیرا گھر اور ٹھکانہ جانتا ہو ْ بدو نے جواب دیا ْ امیر المومنین، اللہ کی قسم ، بات آپ کی نہیں ہے بلکہ اس ذات کی ہے جو ظاہر و باطن کو جانتا ہے ، دیکھ لی جئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کرجہاں نہ درخت کا سایہ ہے نہ پانی کا نام و نشان، میں قتل کیے جانے کے لیے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفا ہی اٹھ گیا ہے ْ 
پاکستان کے سپریم کورٹ کے چہف جسٹس کی عدالت میں ایک مقدمے کے دوران ایک گواہ کو خود چیف جسٹس نے جھوٹا بتایا اور اس خواہش کا اطہار بھی کیا کہ اس جرم کی سزا عمر قید ہونی چاہیے ۔ مگر سزا دے نہیں پائے ۔ اسی عدالت میں ان سے پہلے چیف جسٹس کی عدالت میں ان کی موجودگی میں ایک شہری نے ان پر رشوت لینے کا الزام لگایا تھا۔ چند لمحوں تک عدالت میں سناٹا رہا مگر پھر معمولات معمول پر آ گئے۔ 
بحث یہ نہیں ہے کہ پہلے حاکم ٹھیک ہو یا محکوم ۔ یہ بحث ایسے ہی ہے جیسے یہ بحث کہ پہلے مرغی آئی تھی یا انڈہ۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے داعی کو اپنے ضمیر سے یہ بحث کرنا ہے کہ اس نے اپنے معاملات اللہ کے سپرد کیے ہیں یا نہیں