پیر، 4 مارچ، 2019

پنجاب پولیس

                  
پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارتی ابینندن نامی ہوا باز جس کے جہاز کو پاکستان نے گرایا اور اسے گرفتار کرنے کے بعدامن اور جذبہ خیر سگالی کے اظہارکے طور پر آزاد کر کے واپس بھارت کے حوالے کر دیا ہے۔ اس کی رہائی پر پاکستانی سوشل میڈیا میں ہلکے پھلکے اندازمیں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ ایک منچلے نے لکھا 
ْ شکر ہے ابینندن پنجاب پولیس کے ہاتھ نہیں چڑہا ورنہ اب تک ۔۔۔آگے پنجاب پولیس کی نااہلی، قانون شکنی اور منہ زوری پر پھبتی کسی گئی تھی۔
پاکستان میں جب میاں نواز شریف کی پہلی بار حکومت ختم ہوئی تو میاں صاحب نے راولپنڈی سے لاہور کا سفر ٹرین میں کیا۔ ایک ریلوے سٹیشن پر پنجاب پولیس کے عوام کو ڈنڈے مارنے پر میاں صاحب نے آئی جی پنجاب سے سوال کیا ْ یہ کیا ہو رہا ہے ْ پولیس افسر کا جواب تھا ْ سر وہی کچھ ہو رہا ہے جس کی طرف میں نے اپ کی توجہ دلائی تھی ْ 
واقعہ یہ ہوا تھاکہ فوجی دور میں ایک ٹریفک پولیس کا اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران ایک وزیر نے سڑک سے گذرتے گذرتے ڈیوٹی سے معطل کردیاتھا۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا کہ پولیس اہلکار کو کسی بھی محکمے کا وزیر معطل کر دے بلکہ ہم نے تو دوسرے اداروں کے افسران کو بھی پولیس والوں کو ڈیوٹی کے دوران معطل ہوتے دیکھا۔۔۔
کیا پنجاب پولیس ہے ہی اسی لائق کہ اس کو سوشل میڈیا پر طنز کا نشانہ بنایا جائے یا پنجاب پولیس کے ہاتھ باندھ کر اس سے معجزوں کی امید کی جاتی ہے۔میں ایک واقعے کا شاہد ہوں ۔ جس میں راولپنڈی پولیس کے دو اہلکاروں نے اپنے ذاتی موٹر سائیکل پر مجرموں کا پیچھا کیا جو گاڑی میں سوار تھے۔ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو جا لیا۔ اور چلتے موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھے اہلکار نے قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آئی رائفل تان کر انھیں گاڑی روکنے کا کہا۔ گاڑی نے موٹر سائیکل کو گرانے کی کوشش کی توپولیس اہلکار نے گاڑی کے دو ٹائروں کو برسٹ کر کے گاڑی کو رکنے پر مجبور کر دیا۔ میرا خیال تھا ان جوانوں کی فرض شناسی، قانون کی حرمت کی رکھوالی اور بہادری پر انھیں سراہا جائے گا مگر ہوا یہ کہ دو چلی ہو گولیوں کے خالی خول پیش نہ کر سکنے پر دونوں کے خلاف انکوائری بٹھا دی گئی۔
ایک دوسرا واقعہ بھی میرے سامنے کا ہے ۔ جس میں ایک ضعیف العمر غریب خاتون اپنے معصوم اور یتیم پوتوں کے ساتھ اپنی چادر کی جھولی پھیلا کراور جذبات میں ڈوب کر پولیس والوں کو دعائیں دے رہی تھی ۔ کرائے پر رہنے والی اس خاتون کے مرحوم بیٹے کے پلاٹ پر قبضہ مافیا کے ایک بڑے نے قبضہ کر لیا تھا اوراس کے آدمیوں نے بوڑہی خاتون اور اس کی بہو کو دہمکایا بھی تھا۔ پولیس کی مداخلت پر پلاٹ سے قبضہ ختم ہوا، قبضہ مافیا کے سرغنہ نے خاتون کے گھر آکر اپنے آدمیوں کے رویے کی معافی مانگی اور خود اس خاندان کو تحفظ کا یقین دلایا۔
مقصدواقعات سنانا نہیں ہے بلکہ حقیقت کا احساس دلانا ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پنجاب پولیس نہ ہوتو پنجاب کے بد معاش، شر پسند، چور ، ڈکیت اور قبضہ مافیاچند دنوں میں ہی ظلم و بربریت کی داستان مکمل کر لیں۔ 
مال روڈ پر پولیس کے شہداء کی یادگارہمیں پنجاب پولیس کے ان جوانوں کی یاد دلاتی ہے جنھوں نے پنجاب میں امن لانے کے لیے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادت پائی ہے۔ جب لاہور میں کھڑے ہو کر ایک شہری اونچی آواز میں کہتا ہے ْ ہمیں پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں پر فخر ہے، پنجاب پولیس وہ ادارہ ہے جس کے جوان جان کی بازی لگا کر اپنے شہریوں کی حفاظت کرتے ہیںْ تو وہ گیارہ کروڑ سے زیادہ پنجاب کے باسیوں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ 
دہشت گردی کے خلاف اس ادارے کے ڈیڑھ ہزار جوانوں نے اپنے گرم خون سے بندباندہا ہے۔اور سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔
حالات جن میں پنجاب پولیس اپنا فرض نبھا رہی ہے یہ ہیں کہ پولیس اہلکار کے پاس ذرائع نقل و حرکت مفقود ہیں، ڈیوٹی کے اوقات محدودنہیں ہیں، رہائش یا تو نایاب ہیں یا تھانوں کے عقب میں کھنڈر نما بارک ہے جس کی مرمت کرائے عشرے بیت چکے ہیں۔واش روم نایاب ہیں۔کھانے کے لیے میس کا تصور سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ تھانے کے بازو میں کسی نے ڈھابہ بنا لیا تووہ جو کچھ لاکر رکھے گا اس کو خوراک کہا جاتا ہے۔ ملازمت کے لوازمات میں چلائی گئی گولی کے خالی خول واپس لا کر ان کا حساب دینا ہوتاہے۔ 
سڑک پر چلتے موٹر سائیکل سوار اور گاڑیوں والے رک کر پولیس اہلکاروں کو لفٹ دے رہے ہوتے ہیں تو یہ اظہار نفرت یا پنجاب پولیس کا خوف نہیں ہے بلکہ اپنے پن کا احساس ہے۔سابقہ دور میں پولیس کے ایک حصے کو جدیدہیوی بائیک،جدید ترین اسلحہ، اور قانوں ن سے آگاہی د ی گئی تو وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار نے چوہنگ ٹرینگ سینٹر میں کھڑے ہو کر اس کی تعریف کی۔
حقیقت یہ ہے کہ معاشرے میں جان بوجھ کر پنجاب پولیس کے خلاف ْ کنٹینرْ والی زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاری ہے ۔ یہ یاد نہیں رکھا جاتا یہ انڈین پنجاب کی پولیس نہیں بلکہ پاکستان کی پولیس ہے ۔ جو معزز لیڈران اور وی آئی پی شخصیات کی چوبیس گھنٹے حفاطت کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔یہ کھلے بازار، سکول جاتے بچے، اپنے فرائض ادا کرتی خواتین اور محفوظ شاہرائیں، بین الاقوامی مسافروں سے بھرے ائرپورٹ اور سب سے بڑھ کر وہ بیرونی سرمایہ کاری جس کی آج کل پاکستان کو بہت ضرورت ہے اس امن کی مرہون منت ہے جو پولیس قائم کرتی ہے۔
عشرے گذر گئے رہنماء اداروں کا دورے کرتے ہیں ۔ وعدے کرتے ہیں۔ حالات کی بہتری کی امید دلاتے ہیں ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نے بھی لاہور کے ایک پولیس تربیتی ادارے میں کھڑے ہو کر بڑے دلپذیر وعدے کیے تھے مگر ان میں سے ایک وعدہ بھی وفا نہیں ہوا ۔ اس کے باوجود نہ پنجاب پولیس اپنے فرائض سے کوتائی کی مرتکب ہو رہی ہے نہ عوام پنجاب پولیس سے مایوس ہیں ۔ 
اگر موجودہ حکومت اپنے دعوے کے مطابق پنجاب پولیس میں تبدیلی لانے کے لیے صدیوں پرانا قانونی ڈھانچا تبدیل کرنے کے وعدے سے یو ٹرن لے چکی ہے ۔ تو عوام کے پاس خاموشی کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔ عوام کو بتا دیا گیا ہے کہ بڑا لیڈر بننے کی سیڑہی یو ٹرن ہے ۔ البتہ عوام کواپنے اداروں پر پھبتیاں پریشان کرتی ہیں۔ اگر عدالتوں کو پھبتیاں کسنا قابل مذمت ہے تو پنجاب پولیس پر پھبتیاں کسنا بھی قابل مذمت ہی قرار پائے گا 


اتوار، 3 مارچ، 2019

تلوار سےایٹمی میزائل تک


یہ تصویرابو دھابی میں منعقد ہونے والے، او آئی سی کے وزراء خارجہ کے 46 واں اجلاس کے اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد رسمی طور پر میڈیا کو جاری کی گئی ۔ تصویر کے کیپشن میں بتایا گیا ہے کہ شیخ عبداللہ بن زاید، ڈاکٹر یوسف العثمان اور ششما سواراج اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شامل ہیں۔

اس اجلاس میں 56ممالک بطور ممبر اور 6 ممالک بطور مبصر شریک ہوئے۔ بھارت نہ ممبر ہے نہ ی مبصر مگر اس کو متحدہ عر ب امارات کے وزیر اعظم کی خصوصی دعوت پر بطور
 مہمان خصوصی 

مدعو کیا گیا تھا۔

اجلاس میں شیخ عبداللہ بن زایدنے کہا کہ ایران ہمسائیوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے علاقے میں بد امنی اور فرقہ واریت پھیلانا بند کرے اور کہا کہ وہ ان گروہوں کی مدد بند کرے جو علاقے میں اختلافات کو بڑہاوا دیتے ہیں۔

جناب عادل الجبیر کا کہنا تھا ایران دہشت گردی کا کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے، دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور امارات کے تین جزائر پر قابض ہے۔

ششما سواراج نے کہا کہ اگر ہم نے انسانیت کو بچانا ہے تو ہمیں ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ملک پر 
واضح کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ہاں سے دہشت گردی کے انفراسٹرکچر کو ختم کرے اور دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کرنا اور اپنے ہاں پناہ دینا بند کرے۔

جس وقت ششما سواراج خطاب کر رہی تھیں اس وقت کیمرہ پاکستان کے وزیر خارجہ کی خالی کرسی دکھا رہا تھا اور بتایا جا رہا تھا کہ پاکستان نے ، بھارت کی وزیر خارجہ کو بطور مہمان خصوصی اس کانفرس میں بلائے جانے پر، کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے ، بائیکاٹ کی وجہ یہ ہے کہ

ْ پلوامہ کے واقعہ کے بعد دونوں ایٹمی ، ہمسائیہ ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں ْ 

ٓیہ ایک سطر کا بیانیہ ہے جس پر انسانیت کے دوستوں، مظلومیت کے ہمدردوں، انصاف کے طلبگاروں اور 
ریاستی جبر کے شکار کمزور اور بے بس انسانوں کو مایوسی ہوتی ہے۔ مایوسی انسان کو بند گلی میں دھکیلتی ہے ۔ حالیہ مایوس کا نام عادل احمد ڈار تھا۔ جو ظلم ، بربریت، دہشت اور ریاستی جبر سے مایوس ہو کر پلوامہ میں خود اپنی جان قربان کرگیا ۔ 

پاکستانیوں اور کشمیریوں کو ادراک کرنا ہو گا۔ کہ ان کو ایک سطری ایسے بیانیے کی ضرورت ہے جو موجودہ عالمی طور پر مقبول بیانیے کی جگہ لے سکے۔ 

تلوار سے لے کر ایٹمی میزائل تک ، انسان کو تبدیل نہیں کر سکتے ، صرف بیانئے کی تبدیلی میں مدد گار ہو سکتے ہیں

منگل، 26 فروری، 2019

کج وی نہی ہویا


بارش برستی ہے تو زمین سراب اور جاندار فرحان ہوتے ہیں۔ مگر جب بادل بپھر جائیں تو باران رحمت زمین کے باسیوں کے لیے زحمت بن جایا کرتی ہے۔ پرامن خیر خواہ سفید بادل اگر انسان کو امید دلاتے ہیں تو گمبھیر اور سیاہ بادل انسان کو خوف زدہ کرتے ہیں۔ اس وقت آسمان پاک وبھارت پر اختلافات کے گہرے بادل ہیں۔جنگ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں اطراف سے بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی ابتدا مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ کے علاقے ہونے والا وہ خود کش حملہ ہے جس میں بھارت کے چالیس پیراملٹری فورس کے جوان مارے گئے۔ یہ حملہ مقبوضہ کشمیر کے رہائشی ایک نوجوان نے کیا تھا۔ بھارت نے اس کا ذمہ دار پاکستانی خفیہ ایجنسی اور اس کی حمائت یافتہ ایک مجاہد تنظیم جیش محمد کو بتایا۔ پاکستانیوں کی طرف سے سب سے پہلا ردعمل ایک ٹویٹ کے ذریعے پاکستان کے سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی طرف سے آیا۔ جس میں انھوں نے بتایا کہ یہ جیش محمد کا کام ہے ، ان لوگوں نے ریٹائرڈ جنرل کی جان لینے کی کوشش کی تھی اور اس کی مذمت کی۔ بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کو ْ سنجیدہ سبق ْ سکھانے کی بات کی اور سوموار والے دن بھارت نے دس ہزار کلو گرام بارود سے لیس ایک درجن معراج ۲۰۰۰ طیارے اڑائے ۔ جومقبوضہ کشمیر کے رستے آزاد کشمیر میں داخل ہوئے۔ آزاد کشمیر کی سرحد کے تین سے چار کلومیٹر کے علاقے میں بم گرکر واپس چلے گئے۔ بھارت کے ایک وزیر مملکت جو ہیں تو بھارتی ْ محکمہ زراعت ْ کے مگر انھوں نے دعویٰ کیا کہ بھارتی طیاروں نے ْ مکملْ طور پر تباہ کر دیا ہے۔ افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ بھارتی طیارے تین چار کلومیٹر سرحد کے اندر گھس آئے تھے ۔ چوکس پاک فضائیہ کی کاروائی سے بچ نکلے اور اپنا گولہ بارود ایک ویران علاقے میں گر کر واپس چلے گئے۔میں نے اپنے دوست ندیم ڈار کو بارڈر پر فون کر کے حقیقت معلوم کرنا چائی ۔ وہ سو رہا تھا ۔ ْ کج وی نہی ہویا ْ سونے دو۔ میں نے عالمی میڈیا کو کھنگال ڈالا مگر ْ وزیر زراعتْ کا بیان مٹی میں دفن ہو چکا تھا۔اس سے قبل ایک بار بھارت نے ْ سرجیکل سٹرائیک ْ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ بعد میں پاکستانیوں کو معلوم ہوا کہ وہ تو ہو بھی چکا ۔ 
پاکستان عشروں سے حالت جنگ میں ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ گولے بارود کا خوف مدہم پڑگیا ہے ۔ مجموعی طور پر پاکستانی واناو گلگت میں ہوں یا کراچی میں موت سے بے خوف ہو چکا ہے ۔ رہ گئے کشمیری تو ان پر بھارت نے ایسا ایسا ظلم ڈہایا ہے کہ شیطان بھی ان ہتھکنڈوں پر شرمندہ نظر آتا ہے۔ کشمیری دنیا بھر میں سب سے زیادہ امن پسند تھے اور ہیں مگر ظلم کی ایک حد ہوتی ہے ۔ کشمیر میں بھارتی مظالم اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب امن پسند کشمیری نہتے ہونے کے باوجود اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ بھارت کا ْ اٹوٹ انگ ْ کا نعرہ بکھر چکا ہے۔تاریخ بتاتی ہے جب کوئی قوم بکھرنے پر آتی ہے تو پہلے اس کے نعرے بکھرا کرتے ہیں ۔ ہر ابتداء کی ایک انتہا بھی ہوا کرتی ہے۔ ابتداء ہو چکی انتہاء زیادہ دور نہیں ہے

ہفتہ، 2 فروری، 2019

نوازشریف کی ہار اور مسلم لیگ ن


حذیفہ رحمٰن

کھلا راز


سابق وزیراعظم نوازشریف گرمجوشی سے جنوبی افریقہ کے عظیم رہنما نیلسن منڈیلا کا استقبال کررہے تھے،جبکہ چیئرمین نیب چوہدری قمر الزمان ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔پی اے ایس آفیسر چوہدری قمر الزمان کے ڈرائیونگ روم میں لگی یہ تصویر تقریباََ بیس سال پرانی معلوم ہورہی تھی۔یہ شاید اس وقت کی تصویر تھی جب چوہدری قمرالزمان چیف کمشنر اسلام آباد تھے اور سابق وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ عظیم نیلسن منڈیلا کو اسلام آباد آمد پر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ابھی تصویر کا بغور مشاہدہ کرہی رہا تھا کہ پیچھے سے ایک جانی پہچانی آواز نے مڑنے پر مجبور کردیا ۔دیکھا تو نوازشریف کے داماد کیپٹن(ر) صفدر ،سعید مہدی،پرویز راٹھور ،میاں ناصر جنجوعہ اور چوہدری مشاہد رضا کے ہمراہ ڈرائیونگ روم میں داخل ہوچکے تھے۔یہ سب دوست سابق چیئر مین نیب چوہدری قمر الزمان کے بھائی کے انتقال پر تعزیت کے لئے جمع ہوئے تھے ۔مجھے تصویر میں محو دیکھ کر مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما چوہدری مشاہد رضا چیلانوالہ کہنے لگے کہ نوازشریف بھی نیلسن منڈیلا کی طرح اقتدار کے ایوانوں میں لوٹیں گے۔چوہدری مشاہد رضا کی بات سن کر ڈرائنگ روم میں سیاسی بحث شروع ہوگئی۔نوازشریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری سعید مہدی سے استفسار کیا کہ آپکی کتاب کہاں تک پہنچی؟ وہ روایتی انداز میں کہنے لگے کہ کتاب تو مکمل ہوگئی ہے مگر ابھی اسے چھاپنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔کیونکہ ابھی سابق وزیراعظم نوازشریف آزمائش میں ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کتاب میں بیان کئے گئے کسی واقعے سے تاثر جائے کہ مشکل وقت میں دوستوں پر تنقید کی ہے۔بہر حال بیوروکریسی اور سیاست کے بڑے بڑے نام چوہدری قمر الزمان کے آنگن میں موجود تھے اور سب اس بات سے متفق تھے کہ نوازشریف کی سیاست ختم نہیں ہوئی بلکہ نوازشریف کی اصل سیاست شروع ہی جولائی 2018کے بعد ہوئی ہے۔
آج سابق وزیراعظم نوازشریف جیل میں قید ہیں اور انتہائی علیل ہیں۔اللہ ان کو صحت دے۔شاید آئندہ ہفتے کے دوران ان کی ضمانت ہوجائے ۔مگر سول سروس اور سیاست کے زرخیز دماغ سمجھتے ہیںکہ رائیونڈ میں بیٹھا ہوا نوازشریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھے ہوئے نوازشریف سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوگا۔پنجاب کی سیاست کے ماہر سمجھے جانے والے نوازشریف رائیونڈ میں بیٹھ کر جب چاہے پنجاب میں اقتدار کا مرکز تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔نوازشریف بہت مضبوط اعصاب کا مالک انسان ہے۔سابق ایڈیشنل آئی جی پرویز راٹھور واقعہ سناتے ہیں کہ 2009میں جب پنجاب میں گورنر راج لگااور پوری مسلم لیگ ن پریشان تھی۔نوازشریف کی اگلے روزشہباز شریف سے رائیونڈ میں ملاقات ہوئی تو نوازشریف انتہائی اطمینان سے کہنے لگے کہ "شہباز فکر نی کرنی ،بس تسی ٹیک اوور کرن دی تیاری کرو"۔مگر کچھ غلطیاں اور چند ناعاقبت اندیش مشیران کے غلط مشورے نوازشریف کے لئے آزمائشی حالات پیدا کرتے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں جن لوگوں نے نوازشریف اور راولپنڈی کے درمیان معاملات کو ڈیل کیا ،وہ سب سے بڑے قصور وار ہیں۔ایسے لوگ غلط فہمیاں پیدا کرتے ہیں اور معاملات کو بند گلی کی طرف لے جاتے ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ شریف خاندان کے درمیان دراڑ پیدا کردی جائے۔شہباز شریف کے خلاف غلط پروپیگنڈا کرکے دونوں بھائیوں کے درمیان فاصلے پیدا کئے جائیں۔جان بوجھ کر خود کو راولپنڈی کے قریب ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور ایسی معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں ،جس سے یہ تاثر شدت اختیار کرجائے کہ شاید شہباز شریف اور ان کے بچے اپنے تایا جان کی سوچ کے خلاف چل رہے ہیں۔نوازشریف کے ساتھ شہباز شریف سے زیادہ مخلص کوئی نہیں ہوسکتا۔اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن میں صرف ایک ہی لیڈر ہے ،جس کا نام نوازشریف ہے اور نوازشریف کا متبادل بھی نوازشریف ہی ہے۔کیونکہ لیڈر کا متبادل ہمیشہ اس کا نظریہ ہوتا ہے۔نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔اگر نوازشریف ہارا تو مسلم لیگ ن کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔نوازشریف کی بقا میں ہی مسلم لیگ ن کی بقاہے۔اکثر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اقتدار کے آخری سال میں نوازشریف نے بعض اداروں سے متعلق اہم معاملات شہباز شریف کے بجائے ایک وفاقی وزیر،ایک مشیر اور ایک عزیز بزنس مین کے سپرد کئے۔یہی لوگ معاملات میں گارینٹر تھے اور سب کچھ ٹھیک ہونے کی اطلاع دیتے تھے۔ٹوئٹ کی واپسی،ڈرافٹ کیا ہونا چاہئے،حساس ادارے کے سربراہ کی تعیناتی اور پھر ڈان لیکس تک ۔سب کچھ یہی لوگ ڈیل کرتے رہے اور جب معاملات خراب ہوئے تو ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ یہی تنقید کی جاتی ہے کہ میاں صاحب کے انہی فیصلوں کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں۔مگر میری رائے ہے کہ پارٹی نوازشریف کی ہے،سب سے بڑا اسٹیک ہولڈر نوازشریف ہے۔اگر کچھ غلط فیصلے ہوئے بھی ہیں تو ان کے ردعمل کا سامنا بھی تو نوازشریف ہی کررہا ہے۔مگر نوازشریف کو تصویر کا دوسرا رخ بھی ضرو ر دیکھنا چاہئےاور یہ سوچنا چائیے کہ کچھ معاملات بہت حساس ہوتے ہیں۔اس کو ڈیل کرنے کے لئے ایسا شخص ہونا چاہئے،جو نہ صرف میاں نوازشریف سے مخلص ہو بلکہ اچھے برے وقت میں کرائے گئے فیصلوں پر پہرہ دے سکے۔دونوں فریقین کے درمیان برف کو پگھلائے ،کیونکہ قدر ت کا اصول ہے کہ بڑا آدمی کبھی بھی معاملات کو براہ راست خود ڈیل نہیں کرسکتا۔اسے درمیان میں negotiatorکی ضرورت ہوتی ہے۔تاکہ معاملات میں کسی بھی موڑ پر ڈیڈ لاک پیدا نہ ہو۔سابق وزیراعظم نوازشریف کو یہ ضرور سوچنا ہوگا کہ دانشمندی اور حکمت کا مظاہرہ کرکے آزمائشوں کو کم کیا جاسکتا ہے ،وگرنہ نوازشریف کی ہار مسلم لیگ ن کی ہار ہوگی۔

تماشا جاری ہے ۔ ۔۔




پروڈا 
( Public Representation Office Disqualification Act )
نامی قانوں تو16 جنوری 1949 کو متعارف کرایا گیاتھا مگر اسے لاگو اگست 1947 سے کیا گیا تھا۔اس قانون کی زد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ اور ان کے وکیل حسین شہید سہروردی آئے۔قائد اعظم کی وفات کے بعد ان کے بنگالی ساتھی حسین شہید سہروردی ہی ایسی شخصیت تھے جو اس ملک کے حقیقی سویلین خیر خواہ تھے مگر ان کا بنگالی ہونا ریاست کے کچھ مقتدر لوگوں کو کھٹکتا تھا۔ البتہ 1949میں اس ایکٹ کے ذریعے ان سے نجات حاصل کر لی گئی۔ سندھ میں وزیر اعلیٰ پیر الہی بخش کو کرپٹ نا اہل کر دیا گیا۔1956 میں مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ابو القاسم فضل الحق کر ہٹا دیا گیا۔ یہ وہی فضل الحق تھے جنھوں نے لاہور کے منٹو پارک میں قرارداد لاہور پیش کی تھی جو بعد میں قرارداد لاہور کے نام سے مشہور ہوئی۔1959 میں جنرل ایوب غداروں کو روکنے کا اپنا قانون لائے جس کو پوڈو 
Public Office Disqualification Order 
کہا گیا۔ اس آرڈر میں جنرل ایوب صاحب نے مزید ترمیم کر کے اسے ایبڈو 
Effective Bodies Disqualification Order 
کا نام دے دیا۔ اس قانون کے تحت قریب 70 اور 80 کے عدد کے درمیان سیاستدانوں پرغداری اور کرپشن کا الزام لگایا گیا۔ مغربی پاکستان سے قیوم خان بھی اس کی زد میں آئے ۔ایوب خان کے خلاف راولپنڈی پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کے ایک طالب علم عبد الحمید نے لیاقت باغ کے گیٹ کے سامنے ایوب کتا کا نعرہ لگایا تو پولیس نے اس گولی مار کر خاموش کر دیا تو غداری کے الزامات اپنی موت آپ ہی مر گئے۔ لفظ ْ غدار ْ زہریلے سانپ جیسی گالی ہوا کرتا تھا۔ یہ گالی سیاستدانوں کو پڑنا شروع ہوئی تو اس لفظ کی تلخی کم ہونا شروع ہوئی اور جب پاکستان کے ایک سابقہ وزیر اعظم حسین شہید سہروردی کو غدار اور بھونکنے والا کتا کہا گیا تو جیسے سانپ کے دانت نگل گئے ہوں لفظ غدار کے خلاف پائی جانے والی نفرت کم ہو گئی۔ 

ذولفقار علی بھٹو کو ْ انڈیا کا ایجنٹ اور غدارنامی سانپْ نے ڈسنے ہی سے انکار کر دیا ۔معاشروں کو ایسے الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے جو حریف کا کلیچہ چیر کے رکھ دے۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں مخالفین کے لیے سیاست کی پٹاری سے سانپ کی بجائے ْ کافرْ نام کا نیا و تازہ خنجر نما فتویٰ برآمد کیا گیا۔اور ذولفقار علی بھٹو کے عقائدکے گلے پر پھرنے کی کوشش کی گئی۔ ملک کے ایک معروف صحافی نے لکھا کہ یہ شخص ہندو ہے اور اس کا نام و نسب بھی لکھ ڈالا مگر چھری نے گلا کاٹنے سے انکار کردیا۔ْ کافرْ نامی خنجرکارزار سیاست میں نامراد ہوا۔

موجودہ دور میں ْ کرپٹ ْ ایسی گالی ہے جو ہر حریف کے سینے پر ٹھاہ کر کے لگتی ہے۔ مگر ہماری عدالتوں میں ہوئی بحثوں اور میڈیا پر چلائی مہموں کے بعد عوام میں اس گالی کی سختی بھی معدوم ہوتی جارہی ہے ۔ چند سال پہلے کسی کو کرپٹ کہا جائے تو اس کا چہرہ غصے سے لال اور رویہ پیلا ہو جاتا تھا۔ اب یہ الزام سن کر لوگ ہنس دیتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ لفظ کرپٹ کا بھی استعمال سیاسی ہو گیا ہے۔

ملک میں کرپشن کا احساس1949 میں ہی ہو گیا تھا بلکہ کہا گیا کہ پاکستان کی پیدائش کے دن ہی کرپشن کے شیطان نے بھی جنم لے لیا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے خلاف پہلا قانون 1949 میں بنا مگر اسے نافذ 14 اگست 1947 سے کیا گیا۔

جنرل ایوب نے مارشل لاء لگانے کے بعد اپنے عزیز ہم وطنوں کو بتایا کہ ملک میں کرپشن کے برگد کا درخت بہت تناور ہو گیا ہے اور وہ اس کو جڑوں سے اکھاڑ دیں گے ۔ البتہ اقتدار پر قبضہ کر لینے کے بعد عوام کو نہ درخت نظر آیا نہ اس کی جڑیں نکال کر عوام کو دکھائی گئیں البتہ 1990 میں بے نظیر بھٹو کو کرپشن کے الزامات پر نکال باہر کیا تو کرپشن کو پکڑنے کے لیے پہلی بار 20 لوگون کو پرائیویٹ طور پر بی بی کی کرپشن کا سراغ لگانے کے کیے تعینات کیا گیا۔ 1992 میں صدر نے نواز شریف کو نکالا تو ان پر بھی کرپشن ہی کے الزامات لگے۔ 

1993
میں بی بی دوبارہ وزیر اعظم بنیں تو نواز شریف کے خلاف موٹر وے اور یلو کیب سکیم میں کرپشن کے الزامات سامنے آئے۔ قومی بنکوں سے قرض معاف کرانے اور پنجاب میں کواپریٹو سوسائیٹیزکے ذریعے بڑی رقوم کے غبن کے الزامات سامنے آئے۔ نواز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف مجموعی طور پر150 مقدمات قائم ہوئے۔

1996
میں صدر نے وزیر اعظم بی بی کو بر طرف کیا تو ان پر بھی کرپشن ہی کے الزامت لگائے گئے۔ اس بار کرپشن کا سراغ لگانے کے لیے احتساب آرڈیننس لایا گیا اور عوام کو بتایا گیا کہ احتساب 1985 سے شروع کیا جائے گا۔ 

1997
میں نوازشریف کی د وبارہ حکومت بنی تو نیا احتساب بل لایا گیا۔ اور سیف الرحمن کو احتساب کا کام سونپا گیا۔ 1998 میں احتساب سیل کانام احتساب بیورو رکھ دیا گیا۔ اس بار نشانہ بے نظیر، ان کے خاوند آصف علی زرداری اور دوسرے سیاسی مخالفین بنے ۔ اس بار احتساب کی زد میں کراچی کے تاجر بھی آئے۔1999 میں بے نظیر کی ملک سے غیر موجودگی کے دوران بی بی اور زرداری پر کرپشن ثابت ہو گئی اور دونوں کو پانچ پانچ سال جیل اور 86 لاکھ ڈالر جرمانہ کی سزا سنا دی گئی۔ زرداری صاحب کو جیل بھیج دیا گیا ۔

1999 
میں جنرل مشرف نے نیب
 National Accountabilty Bureo 
متعارف کرایا۔ نیب کے پاس اختیار ہے کہ وہ بغیر عدالتی مقدمے کے کسی بھی فرد کو 90 دن تک زیر حراست رکھ سکتا ہے۔ 90 دن کے بعد بھی ملزم کو اپیل کا حق نہیں ہے۔ جنرل مشرف نے اپنے ساتھی جنرل سید امجد حسین کو نیب کا چیرمین مقرر کیاتو عوام نے دیکھا کہ جنرل امجد کے کہنے پر کسی تاجر کو ہتھکڑی لگتی تھی تووزیر اعظم شوکت عزیز کے کہنے پر وہ ہتھکڑی کھل جاتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد نے اپنے ملک میں امیر شہزادوں اور تاجروں سے پیسے نکلوانے کے لیے ہمارے نیب کے ماڈل کو استعمال کیا تھا۔ 

اکتوبر 2007 میں جنرل مشرف نے این آر او جاری کیا۔ جس کے تحت سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریسی کے خلاف مقدمات ختم کردے گئے۔ البتہ 16 دسمبر 2009 کو سپریم کورٹ نے این ٓر او کے قانون ہی کو منسوخ کر دیا۔

اس بار نیب کی زد میں آ کر نواز شریف لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے سیل نمبر 1 میں ان کے بھائی شہباز شریف اسی جیل کے سیل نمبر 3 میں بند ہیں۔ پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں وفاقی وزراء بتاتے ہیں کہ وہ بھی جلد راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہوں گے ۔ اس بار نیب کی سعی کے پیچھے سیاسی قوت تحریک انصاف کی ہے۔ تحریک انصاف کے چیرمین کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین کی سند عطا کر کے ملک میں موجود چوروں اور ڈاکووں کا احتساب کرنے کا حق دے دیا ہوا ہے۔

احتساب ایسی پٹاری ہے جس کو سامنے رکھ کر مجمع لگایا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے پٹاری میں شیش ناگ ہے ۔ یہ تماشا پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی شروع کر دیا گیا تھا ۔ نئی نسل اس تماشے کو امید بھرے اشتیاق سے دیکھتی ہے ۔مگر اسے حقیقت کا احساس ہوتا ہے تو اس کی جوانی بیت چکی ہوتی ہے ۔ وہ مجمع چھوڑ کر چل پڑتی ہے تو نئی نسل نئی امیدوں سے تماشے کا حصہ بنتی ہے ۔ تماشا جاری ہے ۔۔۔