اتوار، 27 جنوری، 2019

حکومتوں کا زوال ۔۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان

سحر ہونے تک






حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علم کا خزینہ تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کے اقوالِ زرّیں ہر موضوع اور ہر صورتحال کیلئے موجود ہیں۔ آپؓ نے فرمایا تھا ’’اقتدار کفر کے ساتھ قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ ’’الحکم بیقی مع الکفر ولا بیقی مع الظلم‘‘۔
ابھی جو ساہیوال کا دردناک واقعہ پیش آیا ہے اور اس سے پیشتر ماڈل ٹائون کا قتل عام، اس سے پیشتر بلوچستان میں بیگناہ وسط ایشیا کے باشندوں کا قتل عام، ایسے واقعات ہیں کہ ظالم لوگ اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عتاب سے بچ نہیں سکیں گے۔ماڈل ٹائون کا حساب لیا گیا مگر براہ حجت کچھ مہلت دیدی گئی تھی۔ آج ذمہ داروں کی حالت زار دیکھ کر اللہ رب العزّت سے توبہ استغفار کیا جاتا ہے۔ ساہیوال کا واقعہ بھی اُسی طرح ظلم و قتل و غارت گری کا جیتا جاگتا نمونہ ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ یہ ظلم کرنے والے اللہ کے عتاب سے محفوظ رہ سکیں۔
مجھے اس واقعہ سے بھوپال کا ایک واقعہ یاد آیا۔ ہمارے پڑوس میں صوبیدار (ر) حیدر پاشا رہتے تھے، یہ جاگیردار تھے اور انکے بارے میں مشہور تھا کہ یہ اپنے گائوں والوں پر بہت ظلم کرتے ہیں اور ان کی زمینیں بزور قوت ہتھیا لیتے ہیں۔ انکا بیٹا کاظم پاشا بھی کچھ کم نہ تھا۔ ایک روز حیدر پاشا کسی گائوں والے کو اُلٹا لٹکا کر زدو کوب کر رہے تھے کہ ایک رحمدل مسلمان ملازم سے یہ دیکھا نہ گیا، اسکے ہاتھ میں نیزہ تھا۔ دیہاتی وہاں جنگلی جانوروں سے حفاظت کیلئے نیزے رکھتے تھے۔ اس شخص نے نیزہ اُٹھایا اور حیدر پاشا کی کمر میں اس زور سے مارا کہ وہ اس کے سینہ سے نکل گیا اور وہ وہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ کاظم پاشا نے اسکے خاندان پر بہت ظلم ڈھائے۔ ایک روز کاظم پاشا کا بیٹا اسکوٹر پر جا رہا تھا کہ ایک شخص نے قریب آکر اسکے سر میں گولی مار دی اور وہ وہیں مر گیا۔ گویا کاظم پاشا نے باپ اور بیٹے کے قتل کا صدمہ اُٹھایا اور اپنے غلط کاموں کی سزا بھگتی۔
تاریخ ایسے ہزاروں واقعات سے بھری پڑی ہے۔ خود ہمارے اپنے ملک میں ظلم کرنے والے جاگیرداروں اور وڈیروں کا انجام دیکھ لیجئے۔ انسان اگر پھر بھی سبق حاصل نہ کرے تو اس سے بدقسمت و بدبخت کون ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ظلم و زیادتی کرنیوالوں (یعنی اس کی نافرمانی کرنیوالوں) کو سختی سے انتباہ کیا ہے کہ ان کیلئے سخت عذاب اور جہنم ہے۔ مثلاً (1)سورۃ آل عمران، آیت 32میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر وہ اللہ کی نافرمانی کرینگے تو سمجھ رکھیں کہ اللہ کافروں سے ذرا بھی محبت نہیں رکھتا‘‘۔ (2)سورۃ النساء، آیت 14میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور جو کوئی اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کریگا اور اسکے احکامات کی حدود سے باہر نکل جائیگا، اللہ اُسے دوزخ کی آگ میں داخل کر دیگا۔ اس میں وہ ہمیشہ پڑا رہیگا اور اُسے ذلّت دینے والا عذاب ملے گا‘‘۔ (4)سورۃ الفتح، آیت 16میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور اگر تم روگردانی کرو گے جیسا کہ اس سے پہلے تم روگردانی کر چکے ہو تو اللہ تمھیں دردناک عذاب کی سزا دے گا‘‘۔ (4)سورۃ الجن، آیت 23میں اللہ تعالیٰ انتباہ کرتا ہے ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقیناً ایسے لوگوں کیلئے دوزخ کی آگ ہے، جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے‘‘۔ (5)سورۃ التوبہ، آیت 72میں اللہ تعالیٰ سخت انتباہ کرتا ہے ’’اگر یہ منافق لوگ روگردانی کریں گے تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک سزا دے گا اور ان کا روئے زمین پر نہ کوئی دوست و یار ہو گا اور نہ ہی مددگار‘‘۔ (6)سورۃ النساء، آیت 94 میں اللہ رب العزّت فرماتا ہے کہ ’’تم تو دنیا کی زندگی کا سر و سامان چاہتے ہو، سو یقین رکھو کہ اللہ کے ہاں بہت انعامات ہیں‘‘۔ (7)سورۃ الانعام میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں بجز کھیل کے اور تماشے کے اور یقیناً آخرت کا گھر پرہیزگاروں کیلئے بہت بہتر ہے تو کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔ (8)سورۃ الانفال، آیت 28میں رب العزّت فرماتا ہے ’’اور خوب جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد سراسر آزمائش کی چیزیں ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے‘‘۔ (9)سورۃ آل عمران، آیت 10میں فرمانِ الٰہی ہے کہ ’’بلاشبہ جن لوگوں نے کفر کیا (گناہ کئے) ان کو ان کے اموال اور ان کی اولاد اللہ کے مقابلہ میں ہرگز کام نہ آئینگے اور یہ لوگ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہیں‘‘۔ (10)سورۃ الرعد، آیت 26میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور کافروں (گنہگاروں) کیلئے تباہی ہے سخت عذاب کی وجہ سے جو دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کرتے ہیں‘‘۔
دیکھئے! کلام مجید میں سخت انتباہ کیا گیا ہے کہ منافق، مشرک اور وہ مسلمان جنھوں نے بلاکسی جائز وجوہ کے کسی مسلمان کو قتل کیا ان کی ہرگز بخشش نہیں ہوگی اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں جلتے رہیں گے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے یہاں عام تقاریر میں، وعظوں میں، خطبوں میں زیادہ تر دنیاوی باتوں میں وقت لگا دیتے ہیں اور لوگوں کو یہ نہیں بتلاتے کہ وہ جو یہ قتل بلا جواز کرتے ہیں اس کیلئے ان کو نہایت سخت درد دینے والا عذاب جہنم ملے گا۔ اگر قاتلوں کو یہ بات سمجھا دی جائے تو وہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے کہ اسکا انجام ان کیلئے بہت ہی دردناک مستقل عذاب ہو گا۔ وہ دوزخ میں جلتے رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کی کھال بار بار بدلتا رہیگا کہ وہ اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتیں۔ اور انسان کے بدن میں اس کی کھال سب سے زیادہ حساس ہوتی ہے، آپ کی انگلی کبھی ماچس کی تیلی سے جل گئی ہو تو آپ کو اسکا احساس ہوگا۔پچھلے دنوں (23 جنوری) کو وزیر خزانہ جناب اسد عمر نے ایک اور منی بجٹ پیش کر دیا۔ عوام اور تاجروں کے ملے جلے تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پچھلی حکومت میں اکثر لوگ تجربہ کار مگر بے ایمان تھے اور جان بوجھ کر کرپشن میں مبتلا رہتے تھے۔ اس حکومت میں لوگ ناتجربہ کار ہیں اور جو کچھ وہ سمجھتے ہیں یا کوئی اُن سے کچھ کہہ دیتا ہے اس پر عمل شروع کر دیتے ہیں۔ نئے بجٹ میں کافی اچھی باتیں ہیں اور اُمید ہے کہ اس سے معیشت کو سہارا ملے گا۔بہت پہلے میں نے امریکی پروفیسروں (MIT)کی تحریر کردہ کتاب ’’Why Nations Fail‘‘ پر تبصرہ کیا تھا، اس کتاب یا تحقیق کا لب لباب یہ تھا کہ حکمران خود کم ہی ماہر ہوتے ہیں لیکن وہ اگر سمجھداری سے کام لیں تو کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں حضرت عمرؓ، حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز، خلیفہ ہارون الرشید وغیرہ بہت کامیاب حکمراں گزرے ہیں، اُن کی کامیابی کا راز اُن کی مردم شناسی اور اچھی ٹیم کا چنائو تھا۔ ہر شخص ہر کام میں ماہر نہیں ہوتا۔ مگر سمجھدار حکمراں اچھے، تجربہ کار، مخلص اور ایماندار رفقائے کار کا چنائو کرتے ہیں اور کامیاب رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ خود ساختہ، خودکار ماہرین کے بجائے تجربہ کار بزنس مینوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور معاشی پالیسیاں بنائیں۔ جناب ایس ایم مُنیر، جناب عارف حبیب، جناب زبیر طفیل، سردار یٰسین ملک وغیرہ کی ٹیم سے مشورہ لیں تو یقیناً معیشت بہت جلد اُڑان بھر لے گی۔ نیچے کا کام آپ کمشنروں سے لیں، ان پر ذمہ داریاں ڈالیں اور ان سے نظامِ مملکت میں مدد لیں۔ اسکولوں، کالجوں، ہیلتھ ڈسپینسریوں وغیرہ کو یہ لوگ فوراً فعال کر سکتے ہیں۔ امریکی پروفیسروں نے یہی بتایا تھا کہ اچھے آدمی اچھی جگہ لگائیں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے بارے میں لوگوں کے تحفظات ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ چوہدری سرور اور علیم خان کو حکمرانی دینے کا یہ واحد طریقہ کار تھا۔ بہرحال عوام اب بھی چاہتے ہیں کہ حکومت کامیاب رہے اور ملک ترقی کرے اور عوام کے معاشی حالات تبدیل ہو جائیں۔

عمران خان نے جنرل باجوہ کو کیا کہا؟

انصار عباسی

کس سے منصفی چاہیں


ایک بڑے ٹی وی چینل سے تعلق رکھنے والے اینکر پرسن نے چند روز قبل ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو جب اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف تعینات کیا تو جنرل باجوہ وزیراعظم سے ملنے گئے، اُن کو سیلوٹ کیا اور اُن کو اپنی خدمات پیش کیں۔ پھر جنرل باجوہ نے وزیراعظم نواز شریف سے مخاطب ہو کر کہا You are my boss (آپ میرے باس ہیں) آپ جو حکم دیں گے ہم اُس کی تعمیل کریں گے اور جب آپ ہم سے کوئی رائے لیں گے تو ہم آپ کو اپنی Inputدیں گے۔ اینکر نے کہا کہ آرمی چیف نے وزیراعظم کو پہلی میٹنگ میں اپنا اعتماد دیا لیکن اس کے بعد پاناما کیس سامنے آ گیا، جہاں سے بات بگڑی۔ اینکر کے مطابق پاناما کیس کے بعد جب پاناما جے آئی ٹی ٹی تشکیل دی گئی تو وزیراعظم نواز شریف نے جے آئی ٹی میں شامل دو بریگیڈیئرز کے حوالے سے جنرل باجوہ سے کہا کہ آپ کے بریگیڈیئرز کام خراب کر رہے ہیں، اُن کو ذرا سمجھائیں۔ اینکر نے مزید کہا کہ اس پر جنرل باجوہ نے اسحاق ڈار اور ایک اور صاحب جو آرمی چیف سے اس موضوع پر ملنے آئے تھے، کو بڑے واضح انداز میں کہہ دیا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ جانے اور آپ جانیں، یہ آپ کا کام ہے، اس میں مَیں کوئی کردار نہیں ادا کروں گا۔ نہ ایک طرف نہ دوسری طرف۔ اینکر کے مطابق اس کے بعد حالات خراب ہو گئے۔
اینکر نے مزید انکشاف کیا کہ جب عمران خان وزیراعظم بن گئے اور جنرل باجوہ اُن سے پہلے ملاقات کرنے آئے تو وزیراعظم عمران خان نے بڑی بے تکلفی سے جنرل باجوہ سے کہا کہ اب آپ ہمارے ’’پارٹنر‘‘ ہیں۔ اس کے جواب میں آرمی چیف نے وزیراعظم عمران خان سے کہا:نہیں سر! آپ میرے باس، میرے چیف ایگزیکٹو ہیں اور میں آپ کا ماتحت ہوں۔ اس ٹاک شو کے میزبان نے یہ بات واضح کی کہ اینکر صاحب نے جو بات بتائی ہےوہ اُن کی معلومات ہے نہ کہ تجزیہ۔ جس اینکر نے ٹی وی کے ذریعے یہ انکشاف کیا وہ نہ صرف اُن اینکرز میں شامل تھے جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کا مختلف ٹی وی چینلز کو دیا جانے والے پہلا مشترکہ انٹرویو کیا بلکہ حال ہی میں آرمی چیف سے بھی ملاقات کرنے والے اینکرز میں بھی شامل تھے۔ ٹاک شو میں اس بات پر کوئی تبصرہ نہ کیا گیا کہ آخر وزیراعظم عمران خان نے آرمی چیف سے یہ کیوں کہا کہ آپ اب حکومت میں ہمارے پارٹنر ہوں گے۔ بہرحال ایک بات ثابت ہوئی کہ عمران خان کی حکومت کو اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
گزشتہ پانچ ماہ کی تحریک انصاف کی حکومت نے بہت سوں کو مایوس کیا ہے لیکن مختلف ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ریاستی ادارے اب بھی تحریک انصاف کی حکومت کو مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔ بہت سوں کو حیرانی ہے کہ تحریک انصاف بغیر تیاری کے حکومت میں آگئی لیکن امیدیں اب بھی قائم ہیں کہ وزیراعظم عمران خان پاکستان کو مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف حکومت کے اہم حمایتی بھی مانتے ہیں کہ عمران خان کی ٹیم سلیکشن اچھی نہیں، پنجاب کے حالات درست نہیں، کئی وزراء اپنی ہی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود عمران خان کے پاس کامیاب ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن بھی خان صاحب کو موقع دینا چاہتی ہے لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ اپنے آپ سے ہے۔ جو Advantagesعمران خان کی حکومت کو میسر ہیں، وہ ماضی میں شاید ہی کسی دوسری سول حکومت کو حاصل رہے ہوں۔ ان حالات سے عمران خان کی حکومت کو پورا فائدہ اٹھانا چاہئے اور ایسے اقدامات اور رویوں سے پرہیز کرنا چاہئے جو سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ حکومت کو اپنے انتخابی منشور میں دیئے گئے عوامی ایجنڈے کے حصول سے دور کر دیں اور سارا وقت لڑائیوں اور بے کار کی سیاسی تلخی میں ہی گزر جائے۔

تزکِ تیموری


حامد میر


قلم کمان


امیر تیمور کو اسکندر اعظم کی طرح دنیا فتح کرنے کا شوق تھا۔ وہ آج کے ازبکستان سے اُٹھا اور مصر، شام، عراق اور ایران کو فتح کرتا ہوا ہندوستان تک آ پہنچا۔ جب تیمور نے ایران فتح کیا تو اُس نے فارسی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی کو بلایا اور اُن کا ایک شعر دہرا کر پوچھا کہ کیا یہ آپ ہی نے کہا تھا کہ میں اپنے محبوب کے رخسار پر خوبصورت تل کے عوض ثمرقند اور بخارا کو قربان کر دوں گا؟ جواب میں حافظ شیرازی نے کہا ’’ہاں اے شاہِ شاہاں! یہ شعر میرا ہی ہے‘‘۔ امیر تیمور نے فارسی کے اس عظیم شاعر کو کہا کہ میں نے تو تلوار کے زور پر بڑی مشکل سے ثمرقند کو فتح کیا تھا اور اُس کے بعد شہر پر شہر فتح کر رہا ہوں مگر تم تو اس ثمرقند کو شیراز کی کسی معمولی چھوکری کے رُخسار پر تل کی خاطر قربان کرنے کیلئے تیار ہو؟ حافظ چند لمحے خاموش رہے پھر مسکرا کر بولے ’’اے امیر! ایسی ہی غلطیوں کی وجہ سے آج افلاس کا شکار ہوں‘‘۔ حافظ کی حاضر جوابی پر تیمور ہنس دیا اور شاعر کو انعام و اکرام دے کر رخصت کر دیا۔ تیمور صرف ایک جنگجو نہیں تھا بلکہ علم و ادب سے گہرا شغف رکھنے والا انسان تھا۔
ایران کو فتح کرنے سے قبل اُسے ایران کے شاعر حافظ شیرازی کے بہت سے اشعار یاد تھے۔ وہ خوشامدیوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کے بجائے اکثر اوقات ابنِ خلدون کے ساتھ بحث مباحثہ کرتا تھا۔ امیر تیمور چین فتح کرنے کی کوشش میں بیمار پڑا اور زندگی کی بازی ہار گیا لیکن مرنے سے پہلے اُس نے اپنی خود نوشت قلم بند کر لی جو ’’تزکِ تیموری‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کتاب میں تیمور نے یہ دعویٰ کیا کہ اُس کی جنگ و جدل کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت محمدیؐ کو فروغ دینا تھا۔ اس دعوے سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے کیونکہ تیمور نے بہت سی جنگیں مسلمانوں کے خلاف لڑیں اور ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا لیکن اس کتاب کے اندر تیمور نے اپنے تجربے کی روشنی میں حکمرانی کے کچھ اصول اور آداب بیان کئے ہیں، جو آج کے حکمرانوں کیلئے قابلِ غور ہیں۔
’’تزکِ تیموری‘‘ میں کہا گیا ہے کہ اچھے حکمران کو ہمیشہ مشاورت اور دور اندیشی سے کام لینا چاہئے۔ دوستوں اور دشمنوں‘ دونوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ نرمی، درگزر اور صبر و تحمل کو شعار بنانا چاہئے۔ تیمور نے لکھا کہ جو لوگ میرے وفادار رہے اور مشکل وقت میں میرے ساتھ کھڑے رہے میں نے ہمیشہ اُن کی خواہشات کا احترام کیا۔ میں نے عوام کو عدل و انصاف دیا۔ نہ تو عوام کے ساتھ زیادہ سختی کی کہ وہ مجھ سے ناراض ہو جائیں نہ اُنہیں اتنی آزادی دی کہ وہ بے قابو ہو جائیں۔ تیمور نے لکھا کہ میں نے ہمیشہ مظلوم کی مدد کی اور ظالم کو سزا دی۔ تیمور نے اُن لوگوں کو بھی معاف کر دیا جنہوں نے ہمیشہ اُس کے ساتھ بدعہدیاں کیں۔ تیمور لکھتا ہے کہ میں نے ہمیشہ علماء اور مشائخ کو اپنے قریب رکھا۔ میں شریر اور بدنفس لوگوں سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی رعایا کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتا تھا۔ تیمور نے بار بار لکھا کہ جس نے میرے ساتھ احسان کیا میں نے اُس کا بدلہ ضرور چکایا۔ تیمور نے ایک اہم بات لکھی کہ میں دشمن کی فوج کے ایسے سپاہیوں کی بڑی قدر کرتا تھا جو اپنے آقا کے ساتھ وفادار رہتے۔ اس کے برعکس جو سپاہی اپنے آقا کو دھوکہ دے کر میرے پاس آ جاتے تو میں اُنہیں اپنا بدترین دشمن سمجھتا تھا۔ تیمور نے لکھا ہے کہ ایک اچھے حکمران کا قول اُس کے فعل کے مطابق ہونا چاہئے، وہ جو قانون دوسروں پر نافذ کرے اُس کا خود بھی احترام کرے۔ اچھے حکمران کو مستقل مزاج ہونا چاہئے۔ وہ اپنے وزیروں کی کہی ہوئی باتوں کو آنکھیں بند کر کے تسلیم نہ کرے بلکہ اُن کی تفتیش کرے۔ اچھے حکمران کو کانوں کا کچا نہیں ہونا چاہئے۔
’’تزکِ تیموری‘‘ میں امیر تیمور کہتا ہے کہ اچھے حکمران کو ایسے افراد کو وزیر بنانا چاہئے جو امورِ حکومت نیکی اور حسنِ سلوک سے چلائیں، نفاق کی باتیں نہ کریں، نہ کسی کو بُرا کہیں نہ کسی کی بُرائی سنیں۔ امیر تیمور ایسے وزیروں کو فارغ کر دیتا تھا جو زیادہ وقت دوسروں کی برائی کرتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ کینہ پرور، حاسد اور غصیلا آدمی اگر وزیر ہو گا تو وہ کسی بھی وقت دشمن سے سازباز کر سکتا ہے لہٰذا نیک لوگوں کو وزیر بنانا چاہئے تاکہ خلقِ خدا کو فائدہ ہو۔ ’’تزکِ تیموری‘‘ پڑھتے پڑھتے میں سوچنے لگا کہ امیر تیمور نے اچھے حکمران اور اچھے وزیروں کی جو خصوصیات بیان کی ہیں یہ تو آج کل کے اندازِ حکمرانی کی مکمل ضد ہیں۔ ہمارے اکثر حکمران تو اہلِ علم کے بجائے اہلِ ستم میں گھرے رہتے ہیں۔ آج کے حکمرانوں کو وفادار نہیں بلکہ بے وفا لوگ پسند ہیں جنہیں پبلک لوٹا بھی کہتی ہے۔ ہمارے حکمران لوٹے کو اس کی اصل جگہ پر رکھنے کے بجائے سر پر رکھ لیتے ہیں اور اسی لئے لوٹوں والی سرکار کہلاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے کئی وزیر شکل سے ہی کینہ پرور نظر آتے ہیں۔ ہر وقت بُری بُری باتیں کہتے ہیں اور پھر اپوزیشن سے بُری بُری باتیں سنتے رہتے ہیں۔ امیر تیمور نے اچھے، نیک خصلت، بہادر اور وفادار لوگوں کو وزیر بنا کر اپنی سلطنت کو وسیع کیا۔ ہمارے حکمرانوں کی سلطنت اور اختیار روز بروز محدود ہو رہا ہے۔ بظاہر وہ پورے ملک کے وزیراعظم یا صدر کہلاتے ہیں لیکن اُن کا اختیار یا تو دارالحکومت میں ہوتا ہے یا ڈیڑھ دو صوبوں میں ہوتا ہے۔ باقی صوبوں میں کسی اور کی حکومت بن جاتی ہے اور وہاں کے حکمران بھی مرکز کے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہوتے۔ سیاست کے تضادات اور محاذ آرائی کے باعث پھیلنے والی مایوسی نے نظام تبدیل کرنے کی تجویز کو پھر سے ابھارا ہے۔ یعنی ایک دفعہ پھر پارلیمانی نظام چھوڑ کر واپس صدارتی نظام کی طرف چلے جائو تاکہ مرکز کا حکمران آسانی کے ساتھ پورے ملک کا حکمران بن جائے۔ یہ تجویز دینے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ محاذ آرائی اور مایوسی کی وجہ نظام نہیں بلکہ کچھ افراد ہیں جو آدابِ حکمرانی سے واقف نہیں لیکن حکمران بن بیٹھے ہیں۔ حافظ شیرازی تو اپنی محبوبہ کے تل کی خاطر ثمرقند اور بخارا قربان کرنے کیلئے تیار تھے لیکن ہمارے حکمران اپنی ذاتی اَنا کیلئے آئین کو قربان کرنے پر بھی تیار ہیں۔ امیر تیمور نے لکھا ہے کہ ذاتی اَنا کے اسیر حکمران کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔

قیدی نمبر 4470 کی خاموشی

Image