ہفتہ، 26 جنوری، 2019

خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سُراغ

امتیاز عالم


ساحر نے ٹھیک ہی تو کہا تھا:
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سُراغ
سازشیں لاکھ اُڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ساہیوال کے قریب پولیس گردی کے ہاتھوں خلیل اور اُس کے خاندان کے خون سے کھیلی گئی ہولی کا پردہ تو سہمے ہوئے بچے کی گواہی نے چاک کر دیا تھا۔ اپنے باپ، ماں اور بہن کا خون معصوم بچے کے ذہن پر جم گیا تھا اور وہ بول اُٹھا کہ اُس کے بابا خلیل نے پولیس والوں کی منتیں کیں، لیکن سب کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ تیرہ سالہ بہن نے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ بھی موت کی نیند سلا دی گئی کہ گواہی نہ دے پائے۔ ایک قومی شاہراہ پہ دن دیہاڑے نہتے شہریوں کے قتلِ عام کی شہریوں ہی نے جو ویڈیوز بنائیں وہ وائرل ہوگئیں۔ اور ہر کسی نے دیکھا کہ نہ فرار کی کوشش، نہ پولیس کی مزاحمت کی گئی، نہ مبینہ دہشت گردوں نے فائرنگ کی اور وہ بے بسی سے ریاستی قاتلوں کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن گئے۔ خلیل، اُس کی بیوی اور بچی کو جس بے رحمی سے بھونا گیا، اُس نے ہر خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ہے کہ یہ ہیں ہماری زندگیوں کے محافظ جو زندگیاں خون میں نہلانے پہ تُلے ہیں۔ سرکاری اداروں کے بے حس ترجمانوں کے بدلتے جھوٹے بیانات اور وزرا کی منافقانہ پردہ پوشیوں نے عوامی ردِّعمل کو اور بھڑکا دیا۔ کبھی کہا گیا کہ سوزوکی گاڑی میں داعش سے جُڑے دہشت گرد جا رہے تھے، دھماکہ خیز مواد اور خود کُش جیکٹس لے جائی جا رہی تھیں، بچے اغوا کیے جا رہے تھے۔ سب جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا۔ اور وزیرِ داخلہ نے ایک مبینہ دہشت گرد کی نشاندہی کرتے ہوئے باقی مارے جانے والوں کو کولیٹرل ڈمیج قرار دے کر قصہ نمٹانے کی کوشش میں اپنی حکومت کی ساکھ گنوا دی۔ لے دے کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ فیصل اصغر نے پنجاب اسمبلی کو جو اِن کیمرہ بریفنگ دی اُس میں خون آشام کارروائی کا جواز ذیشان نامی شخص کے داعش کے ایک گروہ سے مبینہ تعلق سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ فرض کر لیتے ہیں کہ ذیشان کا کسی دہشت گرد گروہ سے کوئی تعلق بھی تھا تو ذیشان، جلیل اور اُس کے خاندان کے سرنڈر کر دینے کے باوجود کس قانون، کس اختیار اور کس کے حکم پر چار لوگوں کو قتل کر دیا گیا۔ اس سب کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ کوئی وضاحت۔ ماورائے عدالت قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ انٹیلی جنس کی بنیاد پہ کیے گئے نام نہاد پولیس مقابلوں کی صورت میں کب سے جاری ہے۔ کوئی پوچھنے والا ہے نہ کوئی بولنے والا۔
گزشتہ برسوں میں ہزاروں لوگ اس طرح کی کارروائیوں میں لقمہ اجل بن چکے ہیں، نہ کوئی تفتیش ہوئی نہ احتساب۔ دہشت گردی کے عفریت سے کڑے ہاتھوں سے نپٹنا جہاں ضروری تھا، وہیں بندوق بردار سرکاری اہلکاروں کو کسی قانونی ضابطے، جوابدہی اور ضابطۂ عمل کا پابند بنایا جانا بھی ضروری تھا۔ ریاست نے جو آستین کے سانپ پالے تھے پہلے اُنہوں نے ہزارہا پاکستانیوں کو اپنی دہشت کا نشانہ بنایا اور جب وہ ریاست پر پلٹ کر جھپٹے تو ریاست کو ہوش آیا اور اُن سے خلاصی پانے کی کوششوں میں جو آپریشنز کیے گئے ان میں دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی مارے گئے، اُن کے گھر بار برباد ہوئے اور وہ اپنے آبائی گھروں سے بدر ہوئے۔ ہزاروں لاپتہ کر دیئے گئے اور اعلیٰ عدلیہ اور لاپتہ افراد کا کمیشن ان لوگوں کا سراغ لگانے میں بے بس پائے گئے۔ قبائلی علاقوں، بلوچستان اور سندھ میں تو یہ کام بڑے پیمانے پہ ہوا اور پنجاب میں ماورائے عدالت کے واقعات پراسرار خاموشی کے پردوں میں چھپے رہے۔ تاآنکہ ساہیوال میں پولیس گردی نے خفیہ آپریشنز کی ہولناکی سے پردہ اُٹھا دیا۔ شہریوں کے حقِ زندگی پہ ڈاکہ ڈالنے کا اختیار ریاست اور اس کے کسی انتظامی ادارے کو نہیں۔ نہ ہی اپنے ہی شہریوں کو اغوا کر کے غائب کر دینے کا اختیار کسی کو حاصل ہے۔ نہ ہی ریاست کو حق ہے کہ وہ کسی شہری کے ساتھ وہ سلوک کرے جو ساہیوال میں ایک معصوم خاندان کے ریاستی قتل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یہ ایک ایسا قومی المیہ ہے جس پر ہر شخص، ہر جماعت اور ہر ادارے کو غور کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ریاستی دہشت گردی کے جواز ڈھونڈے جائیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ کرتے کرتے ریاست ہی دہشت پسند ہو جائے۔ ایسے میں بے بس اور ہراساں شہری سیاستدانوں میں جاری بیہودہ الزام بازی پہ خون کے آنسو نہ روئیں تو کیا کریں۔ تحریکِ انصاف جو حکومت میں ہے اس پہ پردہ ڈالنے میں مصروف ہے اور مسلم لیگ نواز کو ماڈل ٹائون کا قتلِ عام یاد دلا رہی ہے اور مسلم لیگ نواز ہے کہ لاہور کے ایک خاندان کے قتل پہ عوام کی داد رسی کے لیے سڑکوں پہ احتجاج کے لیے تیار نہیں۔ نہ ہی پیپلز پارٹی والے کہیں عوام کے دُکھ سکھ میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔ عدالتِ عظمی کراچی میں ہزاروں عمارتیں گرانے پہ تومصر ہے، لیکن ریاستی بربریت پہ انسانی حقوق کے دفاع پہ خاموشی طاری ہے۔ نقیب اللہ محسود کے نام نہاد پولیس مقابلے کی رپورٹ بھی سامنے آ گئی ہے اور مقتولین کو دہشت گردی کے الزامات سے تو بری کر دیا گیا ہے لیکن رائو انوار آزادانہ دندناتا پھر رہا ہے کہ وہ پولیس کا رول ماڈل ہے۔ ایسے میں پولیس اصلاحات کی باتیں لغو لگتی ہیں جب قانون کی پروانہ کرنے والے پولیس آفیسر دبنگ افسر کہلاتے ہیں۔ 100 ماڈل پولیس تھانوں کا قیام اور نیا پولیس قانون کیسے قانون نافذ کرنے والوں کے ذہن اور کیریکٹر کو بدل سکتا ہے؟ ریاستی جبر کے اداروں کا قیام برطانوی سامراج نے جنتا کو غلام بنانے اور دبانے کے لیے کیا تھا اور ان اداروں کا عوام دشمن کردار پاکستان کے خواص اور حکمرانوں کے لیے برقرار رکھا گیا۔ اس سے زیادہ المناک بات کیا ہوگی کہ جو خلیل اور اُس کے خاندان کے قاتل ہیں وہی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم میں ہیں۔ اس سے زیادہ مفادات کا ٹکرائو (Conflict of Interest) کیا ہوگا؟ جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کے مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں، لیکن ماضی میں ایسے واقعات پر قائم کیے گئے کمیشنوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج بھی تو سامنے نہیں آئے۔ ایسے میں کوئی کسے وکیل کرے اور کس سے منصفی چاہے


اپنے قدرتی و انسانی وسائل پر توجہ کیوں نہیں؟

محمود شام


ہم اپنے بازوئوں۔ اپنی زمینوں۔ اپنے سمندر پر بھروسہ کیوں نہیں کرتے۔ہم اپنے شہروں کو لندن۔ ٹورنٹو۔ لاس اینجلس کیوں نہیں بناسکتے۔ وہ بھی انسانوں نے ہی بنائے ہیں۔یہ زیادہ تر بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے ریٹائر ہونے والے لوگ ہیں جو بڑے بڑے بنگلوں میں اکیلے رہ رہے ہیں سب کو غم ہے کہ ان کے بیٹے امریکہ۔ کینیڈا۔ برطانیہ سے واپس پاکستان آنا ہی نہیں چاہتے۔ ایک دو ہفتے کے لیے آتے ہیں تو ہمیں بھی فکر لاحق رہتی ہے کہ خیریت سے واپس چلے جائیں۔ ہم وہاں باہر ان کے پاس ہوتے ہیں تو انہیں تشویش نہیں ہوتی۔ بیٹے کہتے ہیں۔ یہاں عدم تحفظ کا احساس ہے۔ یہاں کوئی کام بھی ہو آسان یا مشکل۔سرکاری یا غیر سرکاری ۔سفارش سے ہوتا ہے۔ کام کرنے والا سمجھتا ہے کہ ہم پر احسان کررہا ہے۔ اپنا فرض نہیں ۔ دیار غیر میں یہ سب کام معمول میں ہوجاتے ہیں وہاں سب انہیں اپنی ڈیوٹی خیال کرتے ہیں۔بیٹوں کا کہنا بالکل برحق ہے۔ اب اپنی گلی میں جھاڑو لگوانے کے لیے بھی جمعداروں کو چائے پانی کا خرچہ دینا پڑتا ہے۔ ہماری گلی کے گٹر ایک مہینے سے بھرے ہوئے ہیں۔ گندا پانی۔ پینے کے پانی کے ٹینکوں میں رسنے کا خطرہ ہے۔ کراچی واٹر بورڈ کو آن لائن بھی شکایت درج کرواچکے ہیں۔ مقامی دفتر میں خود جاکر اطلاع دے چکے ہیں۔ ایم ڈی تک بات پہنچائی جاچکی ہے۔ مگر کوئی صاف کرنے نہیں آرہا ہے۔سوال یہی ہے کہ ہم 72سال میں وہ نظام قائم کیوں نہیں کرسکے جہاں ہر کوئی اپنے کام کو ڈیوٹی سمجھے۔ نئے پاکستان میں بھی ایسی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ دوسرے ملکوں کی بات چھوڑیں۔ ہم اپنے ہاں دیکھ سکتے ہیں فوج نے اپنے ہاں ایک نظام قائم کرلیا۔ سب کچھ ڈیوٹی سمجھ کر ہوتا ہے۔ اپنی جان بھی ڈیوٹی پر نثار کردیتے ہیں۔ آرمی چیف تین تین سال بعد بدلتے رہتے ہیں۔ ادارہ اپنی جگہ مضبوط رہتا ہے۔ سویلین میں یہ نظام آپ کو موٹروے پر نظر آتا ہے تو ہم باقی محکموں۔ وفاقی۔ صوبائی سیکرٹریٹ۔ بلدیاتی اداروں۔ پولیس میں یہ سسٹم کیوں نہیں لاسکتے۔ یہ تو شکر ہے کہ اب غیر ملکی گوری میموں کے ہمارے نوجوان اتنے دلدادہ نہیں رہے۔ لیکن غیر ملکی تعلیم، غیر ملکی روزگار، غیر ملکی قرضوں سے ہر نسل کو عشق ہے۔ کھانے پینے کی چیزیں۔ کپڑے۔ جوتے ضرورت کی ہر چیز غیر ملکی پسند ہے۔ ہمارے کارخانے بند ہورہے ہیں۔ ان کی جگہ وسیع و عریض شاپنگ مراکز لے رہے ہیں۔ جہاں ہر ملک کی مصنوعات کھلے عام ملتی ہیں۔ کچھ کی درآمد پر ہم اربوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔ کچھ اسمگل کی جاتی ہیں۔گزشتہ سال ہماری آمدنی صرف 5.2ٹریلین تھی۔ خرچے 5.9ٹریلین۔ یعنی 700ارب روپے کا خسارہ۔ جس کے لیے قرضے لیے جاتے ہیں۔ تاکہ ملازمین کی تنخواہیں دی جاسکیں۔ ہماری درآمدات برآمدات سے 19بلین ڈالر زیادہ ہیں۔ یہ مہنگی درآمدات وہی غیر ملکی مصنوعات ہیں جس کے امیر غریب سب عاشق ہوگئے ہیں۔ اپنا دودھ دہی۔ کپڑے جوتے۔ برش استعمال نہیں کرتے۔ ہم زرعی لوگ تھے۔ ہُنر مند تھے۔ اپنا اناج اگاتے تھے۔ دوسروں کو بھی برآمد کرتے تھے۔ لیکن اب ہم صرف گاہک بن گئے ہیں۔
حکومتیں آرہی ہیں جارہی ہیں۔ لیکن کوئی بھی مقامی اخراجات اور بیرونی اخراجات میں توازن قائم کرنے کی کوشش نہیں کرتی ہے۔ایک عام دکاندار بھی۔ ضرورت پڑتی ہے تو پہلے اپنی تجوری۔ گھر کی الماریوں میں ہاتھ مارتا ہے اپنی مالی استطاعت دیکھتا ہے۔ پھر کسی سے ادھار مانگنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے وزرائے خزانہ۔ چیف اکنامسٹ۔ وزرائے تجارت۔ اپنے قدرتی وسائل ۔ معدنی دولت اور افرادی قوت کا حساب ہی نہیں لگاتے۔ غیر ملکی اداروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو ہی راہ نجات سمجھتے ہیں۔جتنی محنت کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف۔ عالمی بینک۔ ایشیائی ترقیاتی بینک ۔ چین ۔ سعودی عرب ۔ قطر ۔ متحدہ عرب امارات سے قرض بمع سود لینے کے لیے کی جاتی ہے کیا اتنی اپنے پہاڑوں۔ ریگ زاروں۔ دریائوں۔ سمندروں میں چھُپے سونے۔ تانبے۔ تیل ۔گیس کے حصول کے لیے کی جاتی ہے۔ عمران خان سعودی عرب۔ قطر۔ چین۔ ابو ظہبی جارہے ہیں کیا وہ ریکوڈک گئے۔ سینڈک گئے۔ تھر گئے۔ خاصخیلی گئے۔ سوئی یہاں گم ہوئی ہے ہم اسے ریاض ۔واشنگٹن ۔ ابو ظہبی۔ بیجنگ میں ڈھونڈ رہے ہیں۔
ہم اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اپنی زرخیز زمینوں۔ معدنی دولت۔ نوجوانوں کی توانائی سے بے خبر رکھ رہے ہیں۔اسکولوں ۔ کالجوں۔ یونیورسٹیوں میں کیا ہم مقامی معیشت پڑھاتے ہیں۔ جوانوں کوغیر ممالک کی معیشتوں اور وسائل کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔ اس لیے وہ وہاں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن کیا انہیںقلات۔ پشین۔ شکار پور۔ تھرپارکر۔ صادق آباد۔ بوریوالہ۔ وزیر آباد۔ کلر کہار۔ ہری پور۔ ہزارہ۔ سوات۔ شمالی وزیرستان کی ضلعی معیشت بھی پڑھائی جاتی ہے کہ یہاں کون سی فصلیں پکتی ہیں۔ کونسی گیس ملتی ہے۔ کونسے قیمتی پتھر ہیں۔
پاکستان زرعی ملک ہے۔ اس لیے سب سے زیادہ ضرورت یہاں زرعی سائنسز پڑھانے کی تھی۔ معدنیات تک پہنچنے کے لیے جیالوجی ( ارضیات) کی تدریس کی جاتی۔ ہم صرف ایم بی اے تیار کررہے ہیں۔ جن کی کھپت مارکیٹوں اور بینکوں میں ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی زمین اپنی جڑی بوٹیوں اپنی فصلوں سے دور ہورہے ہیں۔ ہمارا زاویۂ نگاہ ہی غلامانہ ہے۔ تحقیق سے ڈرتے ہیں۔ بہائو الدین زکریا یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر نے اپنی کارکردگی بتاتے ہوئے کہا کہ یہاں خالی زمین پر ایک پودا ’کھار‘ بہت اُگ رہا ہے۔ مقامی لوگ اسے جلاکر اسکی راکھ سے کپڑے دھوتے ہیں۔ میں نے وہ سب صاف کروادیا۔ زندہ قوم کا وی سی ہوتا تو وہ کھار پر تحقیق کرواتا۔ اس سے کپڑے دھونے کا پائوڈر تیار کرواتا۔
غیر ملکی امداد اور قرضے ہمیں ذہنی طور پر آزاد ہی نہیں ہونے دے رہے۔ ہماری نسلیں غیر قوموں کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھ رہی ہیں۔ غیر ملکی مال کی عادت ڈالی جارہی ہے۔ ہمارا خوبصورت طرزِ تعمیر جسے امریکہ برطانیہ والے دیکھنے آتے تھے اب وہ غائب ہورہا ہے۔ اس کی جگہ بد شکل ڈبے نما عمارتیں لے رہی ہیں۔
ہماری سب سے بڑی دولت 60فیصد نوجوان آبادی ہے۔ اس کی توانائیوں۔ صلاحیتوں کو اپنی مضبوط معیشت میں بروئے کار لانے کے لیے ہم نے کونسی شاہراہ تراشی ہے۔ یہ ایٹمی توانائی سے بھی زیادہ بڑی طاقت ہے۔
خود انحصاری۔ خود کفالت۔ ہماری منزل ہونی چاہئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم غیر ملکیوں سے تجارت اور اقتصادی رشتہ ختم کردیں۔ بلکہ یہ کہ ہم دوسروں سے لیے گئے قرضے غیر پیداواری اخراجات کی نذر نہ کریں۔ درآمدات ایسی کریں جس سے ہماری زراعت۔ صنعت آگے بڑھیں۔ نیا پاکستان قرضوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ پرانے پاکستان کے قدرتی ۔معدنی اور انسانی وسائل کی تحقیق اور بہبود سے ہی تعمیر ہوگا۔

سانحہ سائیوال کے بعد اب ماڈل تھانے بنیں گے