بدھ، 14 فروری، 2018

حیدر فاروق مودودی


حیدر فاروق مودودی صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مودودی کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔
ہر بیٹے کے نام کا دوسرا حصہ " فاروق" ہے۔
محمد فاروق ، احمد فاروق ، ، عمر فاروق ، حسین فاروق ، حیدر فاروق اور خالد فاروق۔
مجھے حافظ وحید اللہ صاحب مرحوم ( سکھر ) نے بتایا کہ مولانا مودودی نے اپنی اولاد کی تربیت پر خصوصی توجہ دی اور وہ ان کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔

حافظ وحید اللہ صاحب اتالیق مقرر کیے گئے۔ بد قسمتی سے ابتداء میں ان کی اہلیہ کی طرف سے بچوں کی بے جا تائید کی جاتی تھی ، جس کی وجہ سے تربیتی ڈسپلن پر اثر پڑتا تھا۔
(بہت بعد میں وہ جماعت کی رکن بنیں ، درس قرآن دینے لگیں۔ اللہ مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔)۔


مولانا کے بیٹوں میں " حیدر " صاحب ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں ، بلکہ خود بھائیوں اور بہنوں میں بھی متنازعہ۔ سبھی بھائی بہن ان کے لبرل خیالات ، ان کے عقائد اور ان کی بدعات سے اختلاف کرتے رہے ہیں۔
وہ بھارتی چینل پر بھی الٹی سیدھی باتیں کرتے رہے ہیں۔

سب سے چھوٹے خالد فاروق صاحب کو ہم فجر و عشاء کی نماز میں خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

مولانا کے پانچ بیٹوں نے ( بجز حیدر صاحب ) نے آبائی مکان کو اکیڈمی SAMA کے لیے وقف کردیا ہے ، جہاں سے بہت سے طلبہ فیض اٹھا رہے ہیں۔
مولانا کی بیٹی نے مولانا کے مکان سے متصل اپنی زمین وقف کرکے " مسجد الاعلیٰ " کی تعمیر کی۔


حیدر فاروق صاحب ، عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے ادارے میں عرصے تک بھاری معاوضے پر کام کرتے رہے ہیں۔
چنانچہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی نماز جنازہ انہوں نے پڑھائی۔ ۔مرد و خواتین ایک ہی صف میں کھڑے تھے شانہ بہ شانہ۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
کند ہر جنس باجنس پرواز
کبوتر با کبوتر ، باز با باز
اللہ ہر اس شخص کی مغفرت فرمائے ، جس کی موت ایمان پر ہوئی ہو ، اور ہم سب کو موت سے پہلے سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


خلیل الرحمٰن چشتی
13 فروری 2018ء

منگل، 13 فروری، 2018

کاغز کا ٹکڑا


مرسلین نے یہ خط اپنے بیٹے کی شادی کے موقع پر مہمانوں کو پڑھ کر سنایا،  اس کی بیگم نے خط لکھنے 
والے کا قصیدہ پڑھامگر اصل بات یہ ہے کہ الفاظ قیمتی تب ہی بنتے ہیں جب ان پر عمل کیا جائے، عام سے الفاظ پر عمل کر کے انھین قیمتی بنایا جا سکتا ہے اور خاص الفاظ پر عمل نہ کر کے انھیں ارزان کر دینا مشکل کام نہیں ہے
   ***********************                             

پیارے مرسلیں

سلامت رہو۔ امید ہے میرا یہ خط ملنے تک تم رشتہ ازدواج میں بندھ چکے ہو گئے۔ تم اچھے معاشرے میں جا 
بسے ہو جہاں شادی کا ساتھی ڈہونڈنے میں تمھارے بڑے مدد گار رہتے ہیں بلکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ شادی کے بعد بھی بڑے اس رشتے کی کامیابی میں معاونت کرتے ہیں۔ تمھاری فرمائش کو پورا کرتے ہوئے چند باتین لکھ رہا ہوں لیکن انسانی رویے لکیر نہیں ہوتے کہ ہر شخص اس پر چل کر کامیاب ہو البتہ میرے اس خط کے مندرجات میں سے تم کامیابی ڈہونڈ سکتے ہو۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب میں پاکستان میں تھا تو میں نے تمھیں امام غزالی کی ایک کتاب تحفہ دی تھی ، اگر پڑھ لی ہے تو ٹھیک ورنہ اس کتاب میں یہ جملہ ضرور ڈھونڈ کر پڑہنا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ نومولود بچہ اتنی عمر تک والدین کے لئے کھلونا ہے، پھر اتنی عمر تک والدین کا خادم ہے اور اتنی عمر کے بعد دشمن ہے۔ جب تم مطلوبہ عبارت ڈھونڈ کر پڑھ لو ۔ تو پھر سوچنا کہ انھوں نے اولاد کو ایک خاص عمر کے بعدوالدین کا دشمن اس لیے کہا ہے کہ اب وہ ایک شخصیت ہے۔ شخصیت کی اپنی ذات ، دماغ اور سوچ کا انداز ہوتا ہے ۔ تمھاری شادی کے بعد ایک شخصیت تمھاری ذات کا حصہ بن چکی ہے۔ جو اپنے دماغ سے سوچتی ہے ۔ اللہ کی دی ہوئی اس صفت کی مذمت نہ کرنا۔ انسان پسند کرتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے۔ اچھا خاوند اچھا سامع بھی ہوتا ہے۔لازمی نہیں تم جو کچھ سنو وہ درست ہو اختلاف کرنا تمھارا حق ہے ، اپنے ساتھی کو بھی اس حق سے محروم نہ کرنا۔ شادی محبت کا کھیل ہے اور اس کھیل کے دوران محبت بھری زبان ہی مناسب ہے۔ جب انسان قبول کا کلمہ زبان سے ادا کر دیتا ہے تو اس کو زندگی کی خوبصورتیوں کے ساتھ کچھ بد صورتیوں کو بھی قبول کرنا ہوتا ہے، تمھیں یاد ہے ایک بار اسلام آباد میں ایک گلاب کا پھول توڑتے ہوئے تمھاری انگلی سے بہت خون بہا تھا اور میں نے اپنا رومال پھاڑ کر باندھا تھا۔ یہ واقعہ یاد کراکربتا رہاہوں کہ خوبصورت پھولوں کے ساتھ جو کانٹے ہوتے ہیں ان کے ساتھ نہیں الجھنا چاہئے ۔تم نے جو پھول چناہے اس کے ساتھ کانٹے بھی ہوں گے۔ خود کو خو ن آلود کرنا نہ اپنے ساتھی کو ۔ یہ ایک ذمہ داری ہے دوسری بہت سی ذمہ داریوں کی طرح۔یہ بھی یاد رکھنا تمھار ی زوج بیوی کسی کے جگر کا ٹکڑا ہے اور دوسروں کے جگر کے ٹکڑے کو ارزان نہ سمجھ لینا کہ انسان کی فطرت ہے کہ ساتھی کے حصول میں محنت ، وقت اور پیسہ نہ لگے اس کو ارزاں سمجھ لیتا ہے۔ اس لیے اپنے قول سے عمل سے اسے یہ احساس دلاتے رہنا کہ وہ ایک ایسی قیمتی ہستی ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے تم نے ایک امیر ملک میں بہت سی آسائشوں کو ترک کرنے کی قربانی دی ہے۔ حالانکہ میں جانتا ہوں یہ قربانی دراصل تمھاری ماں کی ہے ۔ رشتے نبھانے کے لیے تمھاری ماں کا رویہ تمھارے لیے راہ کی روشنی ثابت ہو سکتاہے۔تمھارا باپ اکثر کہا کرتاتھا اچھے الفاط اور میٹھا لہجہ اللہ کی نعمت ہوتی ہے ۔ اپنے مرحوم باپ کے کہے پر عمل کرو گے تو رشتوں کی مٹھاس سے لطف اندوز ہو گئے ۔ محبت بھرے الفاظ مرد اور عورت دونوں کو فرحت دیتے ہیں۔ تم اپنے ساتھی کے لیے فرحت بنوگے تو بدلے میں وہ کچھ پا سکتے ہو جس کو الفاظ کا روپ دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ دنیا میں قریب ترین رشتہ اور دوستیوں میں قابل یقین دوستی مرد اور عورت کے اسی رشتہ میں ہے۔ میں نے اللہ کا فرمان پڑھا ہے اللہ ان لوگوں کی مذمت فرماتا ہے جو بیوی خاوند کے رشتے میں رخنے ڈالتے ہیں۔ تم اس رشتے میں رخنہ ڈالنے سے بچ جانا۔اور اس کا طریقہ نرمی اختیار کرنا ہے۔نرمی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسا مطالبہ نہ کرنا جو پورا کرنا اس کے بس میں نہ ہواور دھمکی دینے سے بھی بچ کے رہنا اور یاد رکھنا عورت کو دہمکی دینا مرد کے وقار کے خلاف ہے۔ البتہ اختلاف کے بعد محبت کی مقدار میں اضافہ دھمکی سے کئی گنا کارگر ہوتا ہے۔زوج کا رشتہ سب دوستیوں اور اکثررشتوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس لیے اپنی زوج کو تمام دوستیوں اور اکثر رشتوں پر ترجیح دینا۔ اپنا راز اس کو دینے میں خوف محسوس نہ کرنا اور اس کے رازوں کا امین بننا۔یاد رکھنا تمھاری زوج تمھارے تحفوں کی حقدار ہے۔ اگروہ تجھے کوئی تحفہ دے تو اس کو قیمتی بتانا اور اس کا اظہار کرنا۔جب اللہ اور اس کے رسول نے اس رشتے کو ایک دوسرے کا لباس کہہ دیا تو اس آزادی سے لطف اندوز ہونا دونوں کا حق ہے مگر اپنی راتوں کو اپنے درمیان محبت اور اعتماد کے بڑہانے کا ذریعہ بنانا۔ اور میٹھی نیند کے بعد صبح کا آغاز ایسے لفظوں اور لہجے سے کرنا جو سارا دن خود تجھے اور تیری زوج کو خوش رکھے۔تم دونوں کا ایک دوسرے کے جسم پر حق ہے اور اتنا اہم ہے کہ شادی کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔تنہائی کے لمحات میں شرارت ازدواجی تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرتا ہے۔ میرے دوست کے بیٹے تم اپنی زوج کے لیے اسانیاں پیدا کرنے والا بننا ۔ عورت کے رستے سے کانٹے چننے والے زوج پر عورت سب کچھ قربان کر سکتی ہے۔ اس لیے اس کی طرف اپنا دست تعاون دراز رکھنا ۔ اس کے رشتے داروں کو بہت عزت دینا۔ اس کی خوشی میں قہقہ لگا کر اس کا ساتھ دینا مگر جب اس کی آنکھوں میں آنسوں ہو تو اپنا کندھا پیش کرنا کہ وہ اس پر سر رکھ کر آنسو بہا سکے۔اور اپنی زوج سے محبت پر شرمندہ نہ ہونا ،اس پر اعتماد کرنا ۔ ہفتے بعد دونو ں بیٹھ کر اپنی غلطیوں کو یاد کرو اس پر ہنسو ایک دوسرے سے معذرت کرو۔ اور زندگی کو رنگین بناو۔ یاد رکھنا رنگوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے سکون لازمی ہے ۔ مرد کو قوی بنایا گیا ہے ، اس کا مطلب ہے وہ برداشت کرنے اور ایثار کرنے میں اپنی اس صفت سے مدد لے۔تمھاری والدہ کا ٹکٹ بھجوا دیا ہے ۔ روانگی کی تاریخ سے بر وقت مطلع کر دیاتمھار پچھلا خط ساتویں دن موصول ہواہے ۔ حالانکہ ہوائی ڈاک کے ٹکٹ لگانے کا مطلب یہ بتایا جاتا ہے کہ خط تیسرے دن پہنچے گا ۔ یہ بھی اچھا ہے ورنہ ایک وقت تھا پاکستان سے چلا ہوا خط اکیسویں دن پہنچا کرتا تھا۔ اگر ہو سکے تو والدہ کی رونگی کا دن طے ہو جاے تو مجھے فون کر لینا تاکہ میں بر وقت انھیں ہوائی اڈے سے لے سکوں ۔ خط لمبا ہو گیا ہے ۔میں نے ابھی وجاہت صاحب کو بھی خط لکھا ہے ۔ سب ملنے والوں کو سلام کہنا ۔ تیرے لئے اور تیرے خاندان اور رشتے داروں کے لیے دعا گو ہوں اپنی والدہ کی خدمت میں دعاوں کی درخواست کرنا ۔
والسلام
دلپذیر 
16-2-1984


عاصمہ جہانگیر

                                     
انسان کی عوام میں ایک پہچان ہوتی ہے۔عاصمہ جہانگیر کی پہچان انسانی حقوق کی نگہبانی تھی ، وہ اول و آخر انسانیت کی داعی تھی ۔ منافقانہ معاشرے میں وہ دور سے پہچانی جاتی تھی۔ وہ ایک عورت تھی۔مگر جرات مند و بے باک و انسان دوست اور اپنی ذات میں ایک ادارہ،

پاکستان میں نامور اور بے مثال ہستیاں پیدا ہوتی ہیں مگر پہلے سے موجود نامور اور بے مثال ان کی ذ ہنی بلوغیت سے قبل ہی ان پر سحر پھونک دیتے ہیں۔ اس سحر سے محفوظ رہ جانے والی اپنی طبیعت کے لحاظ سے عاصمہ جہانگیر تیسری عورت تھی جو مردوں پر بازی لے گئیں۔ پہلی دو کے نام محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں۔امن انصاف جمہوریت انسانیت دوستی عاصمہ کی مٹی میں ، تو بے باکی اور جرات اس کے خمیر میں شامل تھی۔اٹھارہ سال کی عمر میں وہ بلا جھجک عدالت کے روبرو اپنے باپ کے لئے انصاف مانگنے کھڑی ہو گی۔سچ پر ڈٹ جانا اس کو ورثے میں ملا تھا۔ پہاڑ کی طرح اپنے موقتف پر جم جانا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب کھڑے ہونے کی جگہ کی مضبوطی کا احساس ہواور یہ مضبوطی سچ ہی مہیا کر سکتا ہے۔وہ سچی تھی، اس کوغلامی کی زنجیروں سے نفرت تھی ۔ تنقید کی حامی تھی اور سول حکمرانی کی داعی ۔ اس کی تنقید مگراصولی اور قانونی ہوا کرتی تھی۔
بیمار معاشرہ جہاں مرد بھی زنانہ سوچ والی زندگی گذارنے میں عافیت پاتے ہیں وہاں مردانہ سوچ اور طور طریقوں پر زندگی گزارنے والی عاصمہ نے انسانی حقوق کی نگہبانی کا بیڑا اٹھایا تو مذمت کرنے والوں کی مذمت کی پرواہ نہ کی ۔ملک دشمن اوردین دشمن جیسے بڑے الزام سہہ لئے مگر انسانی حقوق کی نگہبانی کو نبھایا۔اس میدان میں اس کی کامیابیوں کا اندازہ اس کی موت پر ماتم کنان لوگ اور دنیا بھر سے ماتمی پرسوں سے لگانا مشکل نہیں ہے۔ لوگ مادی ترقی کے لئے اور ترقی یافتہ ممالک کے پاسپورٹ کے مشتاق ہوتے ہیں مگر تلخ لہجے میں بات کرنے والی عاصمہ نے جینیوا کے ٹھنڈے موسموں کی آسائشوں میں پناہ نہ لی۔وہ غاصب کا تیوری چڑہا کر ذکر تی تھی،اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پروردہ سیاسی اور دینی بونوں پر ساری عمر خفا ہی رہیں۔بقول یاسر الیاس :
گستاخ لگی نہ غدار لگی ہاں تھوڑی سی بیدار لگی 
مردوں کے اس ریوڑ میں اک عورت ہی جی دار لگی
اس کی جرات کا امتحان ۱۹۸۳ میں ہی نظر بندی سے شروع کر دیا گیا تھا۔ کوٹ لکھپت کی جیل میں آمرکی عدالت میں رعیت ہونے کا سلیقہ سکھا نے کی پوری سعی کی گئی مگر وہ سخت جان ثابت ہوئی۔لاہور کی مال روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں بھی اس کے عزم کو نہ توڑ سکیں تو آمر کی مجلس شوریٰ میں توہین مذہب کی آڑ میں اس کا سر جھکانے کی کوشش نے ثابت کر دیا کہ اس سر کو جھکانا نا ممکن ہے ۔اس نے لاہور میں میراتھن ریس کا انتطام کیا تو لوگوں کویقین ہو گیا ، یہ عورت ناقابل اصلاح ہے ۔ مگر کوشش جاری رہی اوراس کو سڑک پر گھسیٹا گیا تھا۔ مگر وہ آزادی پر سمجھوتے نہ کر سکنے پر اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور تھی۔
ظلم و جبر ، لاقانونت و بے امنی اور تشددو نفرت کے رویوں کے خلاف اس آزاد عورت کے کاموں کی مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہیں۔ْ اصولی اختلاف پر پتہ صاف اور چار حرف بر انصاف ْ ایسی سوچ ہے کہ اس کوجبر کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا ممکن ہی نہیں ہے ۔ لاپتہ افراد کی بازیابی میں پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے اورخود عاصمہ کا بڑا حصہ ہے۔ اسلام آباد میں پشتونوں کا لانگ مارچ اسی سوچ کی مخالفت میں دھرنا دے کر بیٹھا ہوا ہے۔ ان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کی حمائت بطور انسانی حقوق کی محافظہ عاصمہ جہانگیر نے کی، اور وہاں علامتی شرکت کی۔جب ایبٹ اباد میں اسامہ بن لادن کے بعد اس کے خاندان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا گیا تو اس عورت نے ان کے حق کے لئے آواز اٹھائی۔پاکستان کی بیٹی عافیہ کو جب ظالموں کے ہاتھ بیچا جا رہا تھا ۔ اس کے بیٹے کی حمائت میں اپنے شہری فروخت کرنے والے لالچی آمر کے سامنے کھڑا ہونے کی جراٗت عاصمہ ہی نے دکھائی تھی۔حکمرانوں کی خواہشوں، ایجنسیوں کی سازشوں اور ججوں کے فیصلوں کو روک نہ پانے کے باوجود ملک اسحاق کی موت پر عاصمہ عدالت کے روبرو کھڑی ضرور ہوئی تھی۔جب عاصمہ کو کہا گیا کہ طالبان کے لاپتہ ساتھیوں کا کیس عدالت میں لڑنے کے لیے کوئی وکیل رضامند نہیں ہے تو اس کا کہنا تھا ریاست کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو لا پتہ کرے۔ایک اخبار نے عاصمہ کے خلاف لکھامگر جب اس ادارے کو ریاستی جبر کے تحت عدالت میں بلایا گیا تو ہم نے دیکھا کہ عاصمہ مجبور کی وکیل بن کے کھڑی ہے۔ایک سیاسی جماعت نے اسے گالیں دیں مگر اس نے ان کی وکالت سے انکار نہیں کیا۔وہ اول و آخر انسان تھی اور انسانیت کی ہمدرد۔
دوسروں ممالک میں زندہ رہنے کے لیے انصاف مہیا کیا جاتا ہے ہمارے ہاں انصاف کے حصول کے طویل مدت کی زندگی شرط ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ کمزور جج نامور وکیل کی قانونی اور آئینی رائے ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ایک نامور وکیل تھی۔
اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی ہمدردی نے اسے اسٹیبلش منٹ کے دلالوں کی نفرت کا نشانہ بنا دیا ہوا تھا۔ اس کو دین بیزار ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے دین دشمن قرار دیا ہوا تھا۔قصہ یہ ہے کہ اس نے سترہ مئی والے سیمنار میں عربی کے لفظ ْ امی ْ کا ترجمہ ْ ان پڑھْ کیا تواس پر تو ہیں مذہب کا الزام لگا۔جب تحقیقی کمیشن میں توہین ثابت نہ ہو سکی تو قادیانی ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔ اس نے کبھی بھی خود کو مذہبی نہیں بتایا تھا۔ نہ کبھی اس نے اس الزام کی تردید کی۔ مرتے وقت تک الزام لگانے والوں کو شکائت تھی کہ اس نے قادیانی ہونے کی تردید نہیں کی تو اعتراف کیوں نہیں کرتی۔مگر اس کا دین انسانیت تھا جس کا وہ اعتراف کرنے میں عار محسوس نہ کرتی تھی۔
تنقید کی حامی تھی وکلاء ، علماء، جج، جنرل ، سیاستدان سب اس کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ تنقید ہی خامی کو اجاگر کرتی ہے جو اصلاح کا موجب بنتی ہے۔ توہین رسالت کی مخالفت کا اظہار ٹی وی پر بیٹھ کر کرتی تھی۔ اور دینی طبقہ اس پر سیخ پا ہوتا تھا۔مگراس حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ اس قانون کی زد میں آج تک دیندار لوگوں کی گردن ہی آئی ہے۔
عاصمہ جہانگیر سول حکمرانی کی داعی اور آمریت کی کھلی مخالف تھی ۔ اس نے منافقانہ رویہ اپنانے کی بجائے ببانگ دہل اپنے ان خیالات کا پرچار کیا۔یہ ایسا اصولی موقف ہے کہ مخالفین اس کی مخالفت نہیں کر پائے تو اسے پاکستان کا غدار اور بھارت کا ایجنٹ مشہور کرنا شروع کیا ۔مگر برہان وانی کو عاصمہ نے ہیرو قرار دیا اور بھارتی وزیر اعظم کولومڑ قرار دیا، اس نے نعرہ لگایاتھا ْ آو کشمیر کو آزادی دلاتے ہیں ْ وہ جھوٹے الزاموں کو سچ کی طاقت سے دھو ڈالنے کا سلیقہ جانتی تھی۔اس سال کے شروع میں امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کیا اور بہت سے زبان درازوں کی موجودگی میں اس ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کرنے والی یہ واحد پاکستانی تھی۔
۲۰۱۰ میں بار کا الیکشن لڑا ، اس کے بعد اس کا گروپ بار کی سیاست میں سرگرم ہی رہا۔اس میں انسان کاضمیر جنجھوڑنے کی صلاحیت تھی۔ اس نے اپنی یہ صلاحیت پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی پیشہ ورانہ خوبصورتی سے پیش کی۔
معاشرے کے با ضمیر لوگو ں نے اس کی خدمات کا اعتراف کیا اور اس کو ہلال امتیاز اور اورستارہ امتیاز سے نوازا، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں نے اسے درجنوں تمغات سے نوازا اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کر اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔
میں لاہور میں پیدا ہونے والی عاصمہ جیلانی اا فروری کو عاصمہ جہانگیر کی شخصیت مین لاہو ر میں فوت ہوئی تو پورے پاکستان کے وکیلوں نے سوگ کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ سمیت بین الااقوامی اداروں نے تعزیت کے پرسے ارسال کیے۔
عاصمہ اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں جیسا بھی گمان ہے آپ کا حق ہے مگر یہ فرض ہے کہ جائزہ لیں کہیں آپ کے گمان کی بنیاد سنی سنائی باتیں تو نہیں ہیں۔

اتوار، 11 فروری، 2018

67 کلو گرام







                                   
غربت سیاسی مسٗلہ ہے
1970 کے قومی الیکشن میں ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن لڑا اور پارٹی اکثریت سے جیت گئی۔ دراصل اس نعرے میں انسان کی بنیادی ضرورت کو اجاگر کر کے لوگوں سے ووٹ مانگے گئے تھے۔ اور حقیققت یہ ہے کہ موجودہ دور میں سیاست کی تعریف کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے اس کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ ایسا طرزحکومت جس میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔بنیادی انسانی ضروریات یہ ہیں۔
روٹی بشمول پانی
لباس
مکان
صحت
تعلیم
سفر
معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک خود کفیل دوسرے زیر کفالت، زیر کفالت لوگوں کو غریب کہا جاتا ہے ۔ زیر کفالت یا غریب لوگ یا غربت ایک مسٗلہ ہے
روس کے سابقہ صدر گرباچوف نے
 October 2004 
کواٹلی میں ایک سیمنار میں کہا تھا ْ غربت سیاسی مسٗلہ ہے کیونکہ دنیا میں غربت کے خاتمے کے لئے بنیادی وسائل موجود ہیں مگر سیاسی عزم کی کمی ہے ْ
دنیا بھر میں سروے کے ایک ممتاز ادارے
Statisca.com
کے مطابق دنیا بھر میں پورے سال کے دوران انسان جو گندم کھا جاتے ہیں اس کا اوسط67 کلو گرام فی آدمی فی سال بنتا ہے۔ کیاپاکستان میں عوام کی ضروریات کے مقابلے میں گندم کی پیداوار مکم ہے کہ لوگ راتوں کو بھوکے سوتے ہیں۔ اس سوال کا جواب  اتنا مشکل نہیں جتنا   حکومتی کہہ منکریوں  کے باعث بنا دیا گیا ہے  .
پاکستان میں سال 2020-21 میں گندم کی پیداوار کا اندازہ  25۔6 ملین ٹن لگایا گیا تھا ۔ جب یہ اندازہ لگایا جارہا تھا تو حکومت کے پاس کم از کم دس لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔ جادو البتہ یہ ہوا ہے کہ 7 سے 10 لاکھ ٹن گندم   /" غائب  "  ہو گئی ہے ۔ یہ غائب کرنے والے چور  اور ڈاکو ہیں جن کو حکومت مافیا کا نام دیتی ہے ۔ حکومت کے پاس ایسے ماہرین تو موجود ہیں جو غائب ہونے والی گندم کا کھرا  مافیا کے  گوداموں تک لے جاتے ہیں ۔ ایسے سوژل میدیا مشیران بھی کثرت میں ہیں جو گندم کے بحران کو بغض عمران خان سے جوڑ کر اپنے کاکنوں کو مطمن کرنے کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں ۔ حکومت کے پاس ایسے دماغوں کی مگر کمی ہے جو ایسا بندوبست کرسکیں کہ ہر پاکستانی کو فی فرد 67 کلو گرام سالانہ ۤٹا بہم پہنچانے کا انتظام کرسکیں ۔

ابابیلوں کا ذکر


                                                                      

حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ


حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ
جب ابرہ کی افواج مکہ مکرمہ کے قربب پہنچ گئی اور مالک کعبہ، جو طاقت و قوت ، قدرت و استعداد میں لاثانی ہے ، کی فوج نمودار ہوئی ۔ یہ ابابیل نام کا پرندہ تہا ۔جو ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں اٹہائے، کنکریوں سے لیس تہا ۔ یہ کمزور چڑیاں ،طاقتور ہاتہیوں کے خالق کے حکم سے اپنے رب کی طاقت کا مظہر بنیں ۔ چڑیوں کو کون کیسے روکے ۔ کنکر نے ہاتہی ، گہوڑے یا سوار کو کہایا ہوا بہس بنانے میں کچہ تمیز نہ کی ۔ مالک کی چاہت یہ تہی کہ وہ ابن آدم کو یاد دہانی کرا دے کہ قوت ، طاقت ، سدا غلبہ اور حکم اسی واحد و احد اور اکیلے کا ہے ۔ بے شک قہر و جبر اورانتقام اس کی صفات ہیں مگر اس نے خود ہی رحمت ، درگذر ،معافی اور کرامت کو اپنی دوسری صفات پر غالب کر لیا ہے ۔اللہ کو پسند نہیں کہ کوئی دشمن مکہ میں داخل ہو، کوئی ابرہ ہو کہ مشرک ہو کہ کافر ہو ،اللہ کے گہر کو تباہ کرنے کی نیت سے آنے والوں کی باقیات عجائب گہر میں داستان عبرت ہیں اور بیت اللہ بصورت کعبہ آج بہی صیح و سالم موجود ہے ۔ اے راہیا، تیرا نفس ہی تیرا دشمن ہے اور تیرا قلب تیرا کعبہ ہے تیرا کعبہ ضرور دشمن کے حملہ کی زد میں آئے گا اور تیرا بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے اس مالک کی طرف متوجہ ہوں جو کعبہ کی حفاظت کے لیے ابابیلیں بہیجتا ہے اور التجا کرتا ہوں کہ میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک ابابیل بہیج دے۔جیسے بییت اللہ مکہ شہر میں ہے اور اسکی حفاظت کے لیے اللہ نے دشمن کی فوج کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا، میری التجا یہ ہے کہ میرے کعبہ قلب کی حفاظت کے لیے ابابیلوں کا لشکر بہیج تاکہ میرا دشمن ، ابلیس، شہر سے باہر ہی روک لیا جائے ، اس بظاہر طاقتور دشمن سے بچنا محال ہے الا یہ کہ تیری رحمت کی ایک ابابیل میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے آئے ۔ اللہ نے اپنےگہر کی حفاظت کے لیے لشکر بہجوایا مگر میرے دل کے کعبہ کی حفاظت کے لیے رحمت کی ایک ابابیل ہی کافی ہے۔تیری بہجوائی ہوئی رحمت کی اکلوتی ابابیل بطور حفاظت میرے شہر پر پرواز کرتی رہے اور میرے شہر سے باہر جب ‘تو ہی تو’ کی آنے والی آواز مدہم ہونے لگے تو یہی میرے خوف اور مدد کے لیے پکار ہو گی ۔میرا شہر کچی خاک سے بنا ہوا جسم ہے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں ، لیکن اس کی حفاظت صرف تیرے ذکر طیب ہی سے ممکن ہے ۔اس دنیا میں میرے پاس ٹہکانہ بس ایک کچی مٹی کا جسم ہے اور میرا نفس [ابرہ] اسے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کی حفاظت تب ہی ممکن ہے کہ تیری ابابیل رحمت مدد گار رہے ورنہ یہ کچا ٹہکانہ بہی نہ رہے گا ۔میں بہت گناہ گار اور نکما ہوں ، میرے پاس کوئی اچہا عمل بہی نہیں ۔ تیرے سامنے آنے کے لیے شکستہ اعمال باعث شرمساری ہیں مگر تیری رحمت ہی کا سہارا اور امید ہے ۔میں تیری رحمت کے نور میں رہوں اور تیرے معزز و مکرم محبوب نبی کے صدقے ان کی راہ میرے لیے منور رہے ۔ کہ تاریکی میں گمراہی سے محفوظ رہوں ۔میرے سامنے طویل سفر ہے ، راہ کی طوالت اور صعوبتوں کا احساس ہی نہ کیا ، سواری بہی نہ خریدی ،میں نے تو اور ہی خریداریوں میں زیادہ وقت گزار دیا ہے ۔میرے طویل سفر کی راہ مشکل، تاریک اور انجانی ہے، تیری رحمت کے نور میں ایسا رہنماء ساتہی ہو کہ راہ سہل ، منزل روشن تر ہو۔
محمد افسر راہیا [1922 -2014 راولپنڈی] راہ سلوک کے مسافر ، اور نعت گو شاعر تہے ۔ان کی تین مطبوعہ کتب پنجابی پوٹہواری میں ہيں ۔