اتوار، 28 جنوری، 2018

نیا اسلوب



شیخ الاسلام کے تبحر علمی کا اعتراف صوفیاء عظام کو بھی تھا گو علماء اس دور میں ہر قسم کی اعترافی بدعت سے مبرا رہے ۔مشائخ نے انھیں مسند ارشاد پر بٹھا کراپنے فیض سے نوازاان کا طوطی چار سو سلطنت بولنے لگاپھر حب
مال وجاء نے کروٹ بیداری لی تو شیخ نے کامیابی سے اس مرحلے کو بھی عبور کرلیاویزے،اقامے اور بدیسی پاسپورٹ جیب میں آئے۔لباس رہن سہن اور طرز عبادت کو نیا اسلوب عطا فرما کر مجددیت کا زینہ عبور کر ڈالااب جمعہ کی نماز مسجد میں ادا کی جاتی ہے تو فوٹو گرافر تصویر بناکر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتا ہے۔ یہ کرم کے فیصلے ہیں یہ ادب کا مقام ہے

جمعرات، 25 جنوری، 2018

قاضی اور مولوی

تحریر: مظہر چوہدری


نہ جانے کیوں آج مجھے لودھراں کی وہ مظلوم خاتون یاد آرہی ہے جو اپنے شوہر اور دیگر اہلخانہ کیساتھ کراچی گئی۔اسے مزار قائد کے سیکورٹی منیجر نے موقع پاکر اغواکرلیا اور اپنے دفتر لے جاکر بے حرمت کر دیا۔ معاملہ مزار قائد کا نہ ہوتا تو شاید دب جاتا مگر بابائے قوم کے مزار پر ایسی گھنائونی حرکت پر پولیس بھی متحرک ہو گئی۔ ملزم پکڑے گئے ان کا ڈی این اے میچ کر گیا ۔جس طرح آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا اسی طرح دس برس قبل پیش آنے والے واقعہ سے متعلق بھی استغاثہ کا یہی خیال تھا لیکن ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج شرقی جناب ندیم احمد خان نے یہ کہتے ہوئے ملزموں کو باعزت بری کر دیا کہ عدالت ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم نہیں کرتی اگر مدعیہ کے پاس تذکیۃالشہود کے عین مطابق چار گوا ہ موجود ہیں تو پیش کیا جائے ۔جج صاحب نے اپنے اس فیصلے کی تائید میں نہ صرف قرآن کی ایک آیت پڑھی بلکہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا حوالہ بھی دیا ۔15مارچ 2008ء کو سرزد ہونے والے اس جرم کا فیصلہ اپریل 2013ء میں سنایا گیا جبکہ تین ماہ بعد جولائی 2013ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ ڈی این اے کو زنابالجبر کے مقدمات میں بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جا سکتا

کرپشن پر تنقید


منفی سیاست
زینب کے والدمحمد امین انصاری صاحب، جو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں کی طرف سے شروع میں بتایا گیا تھا کہ قصور کے اس وقت کے ڈی پی او نے ان سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی ۔ اور ٹی وی چینلوں پر اس الزام کی بار بار تشہیر کی گئی، اور ایک ممبر قومی اسمبلی نے اپنے ایک ٹی وی انٹر ویو میں بھی اس کا ذکر کیا ۔ اب محمدامین صاحب نے اپنے ہی الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ ڈی پی او ایک ایمان دار افسر تھا ، اصل قصور وار قصور کی ڈی سی ہے، ان کے خلا ف کاروائی ہونی چاہیے۔ اس سے قبل محمد امین صاحب نے جے آئی ٹی کے سربراہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا تو فوری طور پر ان کو سربرائی سے ہٹا دیا گیا تھا۔
انھوں نے وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس میں اپنا مائیک بند کرنے کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں تو علاقے کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ جہاں زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا وہاں زینب کے نام سے منسوب ہسپتال بنایا جائے۔
قصور میں ہونے والے درندگی کے واقعات میں متاثرہ لڑکیوں کے لواحقین میں سے عقب معراج کے والد سلامت کا کہنا ہے کہ ْ ہمارے دل کو تسلی تب ہی ہو گی جب بچی کا قاتل ہمارے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کرے ْ

نور فاطمہ کے چچا آصف رضا کا کہنا ہے ْ اگر یہی مجرم ہے تو ڈی این اے میچ کرنے کی کاپی ہمیں دی جائے ْ

عاٗشہ کے والد محمد آصف کا کہنا ہے ْ جب تک خود ملزم سے مل کر تسلی نہ کر لیں اس وقت تک پولیس کا دعویٰ تسلیم نہیں کریں گےْ ْ
یہ چند خیالات ہیں جو ان شخصیات کی ہمارے دوست شہریار صاحب سے بات چیت کے دوران سامنے آئے ہیں

پولیس کا کردار
ْ بد سے برا بد نام ْ کی سولی پر لٹکتی پنجاب پولیس کے خلاف بطور ادارہ اور اہلکاروں ک خلاف بطور فرد اس قدر منفی پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ اخلاق و حدود کی تمام فصیلیں ہی ڈھا دی گئی ہیں ۔یہ الزام تو آپ نے بھی سنا ہو گا کہ قصور کے سابقہ ڈی پی او نے زینب کے لواحقین سے دس ہزار روپے رشوت طلب کی تھی، بدھ والے دن زینب کے والد محمد امین انصاری نے اسی ڈی پی او کے بارے میں شہریار سے گفتگو میں کہا ہے کہ وہ ایک ایمان دار پولیس افسر تھا اور یہ کہ اسے قصور میں واپس لایا جائے۔
پکڑے گئے ملزم عمران کو جب پولیس نے گرفتار کرنا چاہا تو اس وقت کہا گیا کہ پولیس اس کیس میں ہمارے عزیزوں کو ملوث کرنا چاہتی ہے اور مقامی تھانیدار کے بارے میں ان کے کرپٹ ہونے کی پوری داستان پیش کی گئی۔اور جب میں نے اس وقت عرض کیا کہ پولیس کو اپنا کام کرنے دیا جائے تو ْ معززین ْ نے نون لیگی اور پولیس کا ْ ہمدردْ ہونے کا طعنہ دیا ۔ اور یہاں تک کہا گیا کہ ہم کسی صورت ْ اپنے بندےْ کو گرفتار نہ ہونے دیں گے۔بالآخر وہی ْ اپنا بندہ ْ ہی درندہ نکلا۔
ہمارے جذباتی معاشرے میں انسانی سانحات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا نئی بات نہیں ہے مگر یہ عمل غیر پسندیدہ ہی نہیں بلکہ قابل اصلاح ہے اور معاشرے کے ہمدردوں کو اس کے لیے اپنی آواز جہاں بھی اور جیسے بھی ممکن ہو بلند کرنی چاہیے۔
عوام سے خوف زدہ اشرافیہ
قصور میں زینب کے والدین کی عدم موجودگی میں نماز جنازہ کے بعد دوران دعا جو الفاظ اور لہجہ اختیار کیا گیا اس کے فوری اثرات شام تک ہی ٹی وی کی سکرینوں کی زینت بن چکے تھے ، ان عوامل نے مگر خوف زدہ اشرافیہ کو نہ صرف دیوار کے ساتھ لگا دیا بلکہ مقامی سیاسی اشرافیہ کے ڈیرے پر آتش زنی کے واقعہ نے سیاسی رہنماوں کی زبان کو بھی خاموش کرا دیا۔یہاں مقامی نون لیگی منتخب رہنماء اپنے سیاسی وزن کے بھاری بھر کم ہونے کے مغالطے کا شکار ہو گئے ۔ اور یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ وہ اپنے منصب کی بے توقیری کے خود ہی مجرم بن گئے۔ 
یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے ہمارے منتخب رہنماوں کو ، ان کا تعلق کسی بھی علاقے یا پارٹی سے ہو، اس حقیقت کو ہر صورت مد نظر رکھنا چاہئے کہ علاقے کی اکثریت ان کو منتخب کر کے اپنا سیاسی وزن ان کے ہاں گروی رکھتی ہے اور ووٹ کی طاقت سے چنے گئے لیڈر ایسے موقع پر اپنا قد و وزن قائم نہیں رکھ پاتے تو ان کے بارے میں ان کی پارٹیوں کے سربراہ کو سوچنا چاہئے ۔ 
بے خوف اور نڈر لیڈر شپ کے بغیر ْ نادیدہ عناصر ْ لوگوں کو قوی دکھائی دیتے ہیں اور معاشرتی رہنمائی میں ْ طاقت ور ْ رہنا ہی اصل لیڈر شپ ہوتی ہے ۔ سیاسی کھیل میں ْ بھٹو ْ کو جب عوام نے بے بس مان لیا تب ہی ان کو پھانسی کے پھندے پر لٹکادیا گیا تھا۔ نواز شریف قانونی طور پر نا اہل ہو کر بھی ْ سخت ہڈی ْ اسی لئے ہے کہ انفرادی طور پر
ْ بہادر ْ ہے ۔
عمران خان کے خلاف اداروں کے سمن، وارنٹ اور اشتہاری قرار دینا محض اس لئے کاغذ کے ٹکڑے ثابت ہوئے کہ وہ اپنے سیاسی قد کا احساس دلانے میں کامیاب رہے۔ ووٹ کی طاقت کا ادراک کرنا اور اس کو انفرادی بہادری کا چارہ بنانا ہی سیاست کی اصل ہے اور قصور میں عوام کی ووٹ کی طاقت کے علمبردار اس امتحان میں بالکل بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ضلع بھر کے ممبران قومی و اسمبلی کو اگر ْ بکری ْ گردانا جاے تو رانا ثنا اللہ صاحب کو سیاسی ْ سانڈ ْ ہی کہا جائے گا ۔
اصل سبق ، جس کی باربار اور ہر بار نشان دہی کی جاتی ہے ، جو ہمارے معاشرتی بگاڑ کا اصل سبب ہے ، اور جو خرابیوں کی جڑوں میں سب سے موٹی جڑ ہے۔ہم اپنی نجی محفلوں میں اس کو خرابی مانتے بھی ہیں مگر اجتماعی فیصلوں میں ہماری انفرادی سوچ ابھر نہیں پاتی۔
پنجاب پولیس یا سندھ پولیس کو بطور ادارہ مطعون کرنا زیادتی ہے تو یونیفارم پہن کر غیر قانونی اعمال کا مرتکب اہلکاروں اور افسران کا کھوج لگانا اور بے نقاب کرنا معاشرتی جہاد ہے۔ عدلیہ ہماری پگڑی کا شملہ ہے تو ججوں کے ذاتی فیصلوں پر تنقید خود ہمارے چیف جسٹس صاحب نے کر کے اس عمل کی حوصلہ افزائی کی ہے،سیاسی جماعتیں ہمارے معاشرتی ادارے ہیں ۔ ان میں شامل کسی فرد کے نظریا ت سے اختلاف کو زندگی و موت کا مسئلہ بنا لینا حماقت کے سوا کیا ہے۔ 
اپنے اداروں پر تنقید میں اس اصول کو مد نظر رکھنا چاہے کہ کرپٹ افراد پر کھل کر تنقید کریں مگر ملکی اداروں کے تقدس کو مجروح نہ ہونے دیں ، ہمارے ادارے ہمارے معاشرے ہی کا حصہ ہیں، ان میں بھی کالی بھیڑیں ہیں ۔ ہمیں ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے جو ان کالی بھیڑوں کے خلاف میدان عمل میں اتر کر ثبوت سامنے لاتے ہیں۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ معاشرے میں جس ادارے کا جو کام ہے اسے پوری ذمہ داری سے کرنے دیا جائے۔

اتوار، 21 جنوری، 2018

مریکہ اور پاکستانی پولیس

امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تواس کے عزم کا رخ مسلمان ممالک کی طرف تھا۔ جب حکمرانوں پر دباو بڑھا اور ان کی سانس پھولنا شروع ہوئی تو دھیمے لہجے میں استفسارشروع ہوا کہ دہشت گردی کی تعریف کر کے بتائی جائے ۔ تعریف تو نہ بتائی گئی مگر ملکوں ملکوں دہشت گردی کے خلاف قانون بننا شروع ہو گئے۔ پاکستان میں بھی یہ قانون بنا کر رانجھا راضی کر لیا گیا۔ اگرامریکہ نیاسلامی ممالک پر اس قانون کو دہاندلی سے استعمال کیا تو مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے مقامی قانون کو اپنے عوام پر نافذ کرکے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ مگر اس ناقص حکمت عملی کوجہاں امریکہ نے اپنے کرپٹ حلیف حکمرانوں کے ذریعے نافذ کرکے بے گناہوں کے خون مین ہاتھ رنگے وہاں پاکستان میں اس قانون کو پولیس نے اس عجلت میں بنائے گئے قانون کے نفاذ میں اتنا خون بہایا کہ دہشت گرد ہی ختم ہو گئے مگر پولیس کا جذبہ مانند نہیں پڑہا ۔ شروع میں جب کہا گیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں پیسہ بنانے اور ذاتی مخالفتوں کو مٹانے کا دہندا شروع ہو گیا ہے تو اس آواز پر کسی نے کان ہی نہ دہرے ۔ پھر یہ تماشا شروع ہوا کہ پولیس دہشت گردی کے الزام میں بندہ مارتی اور وہ بعد میں بے گناہ ثابت ہوتا مگر سرکار نے ْ مٹی پاو ْ کی پالیسی جاری رکھی اور قاتلوں کا حوصلہ بڑہتا گیا۔ان کیسوں میں قاتل سرکاری اہل کار اور مقتول بے دست و پا و وسائل سے عاری عوام ہے۔ مگر عوام کی سنائی سرکار کے ہاں نہیں ہے، موم بتی مارکہ سول سوسائٹی کو مخصوص نوعیت کے کیس کی حمائت سے فرصت نہیں ہے، عجب تماشہ ہے ہمارے ادارے دوسرے اداروں کو تو ٹھیک کرنے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں مگر اپنی ادارتی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کی چیخ و پکار اہمیت ہی کھو چکی ہے۔نا امیدی سے منع فرمایا گیا ہے ورنہ حالات مایوس کر دینے والے ہی ہیں۔برطانیہ کے گارڈین اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 
2015
میں پاکستان میں پولیس مقابلوں میں 
2018
افراد مارے گئے ہیں۔پاکستان کے ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق سال
2016
صرف سندھ میں مارچ اور جولائی کے دوران صرف چھ ماہ میں 
732
پولیس مقابلوں میں 
160
بندے پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے
اعداد و شمار کی فہرست طویل ہے ، اور انسانی زندگی مختصر ، اور قیمتی بھی ،آدم کی اولادزمین پر اللہ کا نائب ہے۔ اخلاق، قانون، منت سماجت، نصیحت کو نہیں مانتے ہو ۔ خدا کی پکڑ مگر بہت سخت ہے

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

اپنی ذات کا عاشق

یاسر پیرزادہ کی تحریر

ابن عربی اور رومی کی صوفیانہ تعلیمات نے اس مرد با کمال کو سلوک کی تمام منازل
 ایک ہی جست میں طے کروا دی ہیں، یہ اپنی ذات کا عاشق اور خود اپنا ہی محبوب ہے، یہ بولے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں، یہ روزانہ صبح آئینے میں خود کو دیکھ کر سوال کرتا ہے کہ تمہارے والدین کس قدر خوش قسمت لوگ تھے جنہوں نے تمہیں جنم دیا، اس کا ہر عمل اس کا ہر فعل اس کا ہر قول ابن عربی اور رومی کے فلسفے کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ابن عربی کا پرتو، رومی کا معشوق اگر کسی نے دیکھنا ہو تو پاکستان کے اس ہیرو میں دیکھ لے، من کی مراد پا لے گا۔ من کی مراد پانے کے لئے ہمارے اس ہیرو نے درویشی کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے، جس کے مطابق یہ اور اس کے پیروکار اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں، جو ان کی خواہشات میں رکاوٹ بنتا ہے، یہی درویشی ہے یہی عیاری۔