منگل، 19 دسمبر، 2017

16 دسمبر کے حوالے سے آصف محمود کی فریاد

مکتی باہنی ، ہم اور وہ
آصف محمود
یہ ستمبر 2006کی بات ہے۔ دکھی دل کے ساتھ میں نے چند سطریں لکھیں اور بنگلہ دیش میں قائم پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل کر دیں۔آج گیارہ سال ہونے کو آئے ہیں ،کسی نے جواب دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔
یہ ای میل بھیجنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ، یہ بھی ایک داستان ہے۔یہ پرویز مشرف کے دور اقتدار کی بات ہے۔جون 2006 میں مطیع الرحمن کی قبر کشائی کر کے اس کی میت مشرف نے بنگلہ دیش کے حوالے کی۔یہ وہی مطیع الرحمن ہے جس نے غداری کی اور راشد منہاس کا جہاز ہائی جیک کرکے بھارت لے جانے کی کوشش میں مارا گیا۔راشد منہاس کو نشان حیدر دیا گیا۔ بنگلہ دیش حکومت پینتیس سال کوشش کرتی رہی کہ اس کی لاش کراچی کے قبرستان سے نکال کر ڈھاکہ لے جائی جائے لیکن پاکستان نے بنگلہ دیش کی یہ درخواست قبول نہیں کی۔مشرف حکومت نے ایک دن خاموشی سے یہ فیصلہ کر لیا جس غدار کی وجہ سے راشد منہاس شہید ہوئے اس غدار کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کر دی جائے۔ بنگلہ دیش سے ایک ٹیم کراچی پہنچی، مطیع الرحمن کی قبر کشائی ہوئی ، اس کی لاش بنگلہ دیش کے پر چم میں لپیٹ کر ڈھاکہ پہنچا دی گئی۔ڈھاکہ میں اسے غیر معمولی پروٹوکول کے ساتھ میر پور کے علاقے میں دفن کر دیا گیا۔
بنگلہ دیش نے سرکاری طور پر بتایا کہ مطیع الرحمن کی خدمات صرف یہ نہیں کہ پاک فضائیہ کا ایک جہاز اس نے اغواء کرنے کی کوشش کی بلکہ دوران سروس جب وہ کراچی سے چھٹیوں پر مشرقی پاکستان گیا تو رائے پور کے علاقے رام نگر میں اس نے ایک کیمپ قائم کیا جہاں وہ مکتی باہنی کے مسلح نوجوانوں کی تربیت بھی کرتا رہا۔یہ کام نواز شریف یا بے نظیر کے دور حکومت میں ہوا ہوتا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوتا لیکن چونکہ آمروں کو یہ ایک اضافی فائدہ میسر رہا ہے کہ وہ ملک توڑیں یا آئین ان کی حب الوطنی ہر حال میں سلامت رہتی ہے اور اس پر کوئی آنچ نہیں آتی اس لیے مشرف دور میں جب یہ کام ہوا تو نہ کوئی آواز اٹھی نہ شور مچا نہ کسی نے احتجاج کیا۔پرویز مشرف نے نہ صرف مکتی باہنی کے اس غدار کی میت بنگلہ دیش کے حوالے کی بلکہ اس سے قبل جب انہوں نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا تو مکتی باہنی کے قاتلوں کے لیے قائم کردہ یادگار پر بھی حاضری دے آئے اور معذرت بھی فرما آئے۔
یہ خبر پڑھی تو دکھ ہوا اور میں نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ہائی کمیشن کو ای میل بھیجی اور چند سوالات پوچھے:
1 ۔چند سال قبل پر ویز مشرف مکتی باہنی کے غداروں کی یادگار پر تو تشریف لے گئے کیا انہیں اس بات کی بھی توفیق ہوئی کہ 5 دسمبر 1971 کو دیناج پور میں ہلی کے مقام پر شہید ہونے والے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر پر بھی حاضری دیں ؟
2۔ میجر اکرم راجشاہی ڈویژن کے ضلع بوگرہ میں کہیں دفن ہیں۔کیا آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ میجر اکرم شہید کی قبر کس حال میں ہے؟کیا ان کے یوم شہادت پر سفارت خانے کی طرف سے ان کی قبر پر چند پھول رکھے جاتے ہیں یا جناب سفیر محترم کو بھی علم نہیں کہ قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟
3۔ مجھے ان کی قبر کی کچھ تصاویر چاہییں ، کیا میں توقع رکھوں کہ سفارت خانہ مجھے میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر کی چند تصاویر بھیج سکے؟
4۔میں یہ بھی جاننا چاہوں گا کہ کیا میجر اکرم شہید نشان حیدر کی قبر وہاں ابھی موجود ہے یا مکتی باہنی نے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اس کے نشان مٹا دیے ہیں؟
5۔ بنگلہ دیش اپنے مطیع الرحمن کی لاش لے جا سکتا ہے تو کیا آپ میجر اکرم شہید نشان حیدر کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کر سکتے؟
وہ دن اور آج کا دن سفارت خانے نے جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔آج بنگلہ دیش میں ’ البدر‘ کے شہداء کو ایک ایک کر کے دی جانے والی پھانسیوں نے ان سوالات کا درد ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔
بنگلہ دیش اپنے غداروں اور قاتلوں کو عزت دے رہا ہے اور ہم اپنے مظلوم اور بہادر سپاہیوں کو بھول گئے۔ وہ مکتی باہنی کے انسٹرکٹر مطیع الرحمن کی میت پینتیس سال بعد بھی لے جاتا ہے اور پورے اعزاز کے ساتھ دفناتا ہے اور ہم اپنے مطیع الرحمن نظامی کی پھانسی پر نہ احتجاج کر سکتے ہیں نہ بنگلہ دیش سے یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ پاکستان کا شہید تھا ااس کی میت پاکستان کے حوالے کر دی جائے ہم اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کرنا چاہتے ہیں۔ مکتی باہنی کے مطیع الرحمن سے البدر کے مطیع الرحمان تک ، نام ایک ہے مگر کہانیاں دو ہیں۔یہ کہانیاں بتاتی ہیں قومیں جب اپنی اساس سے بے نیاز ہو جائیں تو خزاں کے پتوں کی طرح ہو جاتی ہیں۔ہم جیسے طالب علموں کو تو کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ ہمارے میجر اکرم شہید کی قبر کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔شہید کو واپس لانا اور پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں تو کوئی خبر نہیں جہاں شہید دفن ہوئے وہ مقام کس حال میں ہے۔
بنگلہ دیش نے مکتی باہنی کو یاد رکھا ، ان کے لیے وظائف مقرر کیے ، ان کی یادگار بنائی، ان کے جرائم کی پردہ پوشی کی، باقاعدہ ایک قانون بنا دیا کہ مکتی باہنی نے جو بھی کیا اس سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی اور اس کے اراکین کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہو گی۔لیکن ہم نے کیا کیا؟ ہم اپنے شہداء کو بھول گئے۔ہمیں اپنی’ البدر ‘یاد رہی نہ خاکی وردی میں جان سے گزر جانے والے شہداء یاد رہے۔آج آپ کو حکمرانوں اور ان کے طفیلیوں کے نام پر بہت کچھ ملتا ہے۔ آدھے ادارے بھٹو سے منسوب ہو گئے ا ور آدھے شریفوں سے لیکن البدر کے شہداء کے نام پر نہ کوئی یاد گار ہے نہ کسی سڑک یا چوراہے کو ان سے منسوب کرنے کی کسی نے ضرورت محسوس کی۔دنیا میں آج تک یکطرفہ پروپیگنڈہ جاری ہے کہ پاکستان نے بہت ظلم کیے لیکن ہم آج تک دنیا کے سامنے حقائق نہیں رکھ سکے کہ مکتی باہنی نے کیا کیا؟
ہمارے نصاب میں نہ بھارت کے کردار کا ذکر ہے نہ مکتی باہنی کی درندگی کا ، نہ ہی ہم نے نصاب میں بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی کہ البدر کیا تھی ۔حد تو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگوں نے نجی سکول قائم کیے اور تو نصاب میں ترکی کے سلطان مراد پر تو سبق شامل کر لیے جو بغیر نکاح کے حرم آباد رکھتا تھا اور بعض مورخین کے نزدیک ہم جنس پرست بھی تھا لیکن انہیں بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ملا عبد القادر سے لے کر مطیع الرحمن نظامی تک کسی ایک شہید کا تذکرہ نصاب میں شامل کر دیتے کہ یہ بوڑھے آج پچاس سال بعد بھی پاکستان کے نام پر ہنستے ہوئے قربان ہو رہے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟
قوم کے ساتھ یہ کھلواڑ بند کیجیے۔ نئی نسل کو بتائیے کیا ہوا تھا اور سچ کیا تھا۔اسے اندھیرے میں رکھنے کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دشمن کے
پروپیگنڈے کے سامنے شعوری طور پر پسپا ہونے لگتی ہے۔ اور یہ حادثہ لمحہ لمحہ ہو رہا ہے۔فکر کی دنیا میں اس ملامتی تصوف کو پھیلنے سے روکنا ہے تو قوم کو اعتماد دینا ہو گا۔پورے قد سے کھڑے ہو کر بات کرنا سیکھیے۔

جمہوریت

ملک میں پہلامارشل لاء نافذہواتو پہلا پتھر جس ادارے کے صحن میں آکر گراوہ پاکستانی عدلیہ تھی ۔ ریکارڈ پر ہے کچھ ہمدردوں نے اس کو عدلیہ کی بے توقیری کا پہلا پتھر قرار دیا ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ْ دوسروں کی نہ سننے مگر اپنی ہانکنے ْ والے لوگ ہیں۔ ملک پر یحییٰ خان اینڈ فرینڈز نے قبضہ کیا تو عدلیہ کے صحن کی بجائے کھڑکی پر پتھر برسے ۔ جب جنرل مشرف کا مارشل لاء فضاوں سے نازل ہوا تو عدلیہ کے دروازے پر پتھر مارے گئے اور نواز شریف اور جہانگیر ترین کے مقدمات کے فیصلوں کے بعد حالت یہ ہو گئی ہے کہ پر امن عدالت کی با عزت کرسی پر بیٹھنے والے عادل ْ بابے ْ اور کچھ کے نزدیک ْ بابے رحمتے ْ کی چارپائی پر آ بیٹھے ہیں۔ 

ادارتی بے توقیری ایک ہی لمحے میں نازل نہیں ہوتی مگر ادارے چلانے والوں کے مکافات عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پاکستانی عدلیہ البتہ وہی کاٹ رہی ہے جو کچھ اس نے بویا تھا۔آج عزت ماب چیف جسٹس عوام سے عزت کے طلب گار ہیں اور لوگوں نے جوابی بیانئے کے سنگریزے پھینک کر جواب دیا ہے۔اور حالت ْ این جا رسید ْ کہ لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ ْ بابے رحمتے ْ کو اب کیا کرنا چاہئے۔مگر پاکستانی عوام اپنی عدلیہ کی اس بے توقیری پر رنجیدہ ہے۔ 

عوام کو پولیس کے ادارے سے بھی بہت گلہ ہے مگر جس دن دھرنا نمبر ۱ میں پولیس والوں کو ْ پھینٹی ْ لگوائی گئی اس دن عوام کے دل دکھے تھے ایک نوجوان نے کہا تھا ْ ان کرپٹ پولیس والوں ْ سے بدلہ لیتے لیتے ہم نے ایک ادارے پر ظلم کیا ہے ۔ اور فیض آباد کے دھرنے کے ڈراپ سین والے دن لوگوں نے کہا ہم اپنے ایک ادار ے کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کر رہے ہیں۔ 

جمہوریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام اور حکمران اپنے خود مختار اداروں کے ذریعے اپنی ذمہ داریاں تقسیم کر لیتے ہیں اور اپی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے دوسروں اداروں کو عزت دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں گو جمہوریت ابھی نو زائیدہ ہی کی طرح ہے مگرہمارے عزائم اور رویے البتہ جمہوری نہیں ہیں۔ حکمرانوں کا رویہ نہ ہی عوام کی سوچ جمہوری ہے۔ اداروں کا ایک دوسرے سے طرز عمل بھی غیر جمہوری ہے۔ 

ہمارے اس طرز عمل نے عوام کو فائدہ پہنچایا ہے نہ اداروں کو۔ ایک ایک کر کے ہم اپنے اداروں کو خود کمزور اور بے بس کر رہے ہیں ۔ عدلیہ کی بے بسی کا اظہار جو منصف اعلیٰ کی طرف سے ہوا ہے ۔ اسی  کا مظہر ہے۔ 

پاکستان اپنے جغرافیائی وقوع اور دستیاب وسائل کے با وصف ، پاکستانی عوام ہر حال میں جینے کی راہ تلاش کر لینے کی قابلیت کے با وصف ، موجود ادارے اپنے تجربات کی بدولت ، افواج پاکستان اپنے پیشہ ورانہ عزم کی بدولت وہ نعمتیں ہیں جو اس وقت موجود ہ ہیں۔ ضرورت اور شدید ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی سوچ اور طرز عمل کو جمہوری سوچ کے مطابق کر لیں ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور آپشن باقی بچا ہی نہیں ہے۔

اتوار، 17 دسمبر، 2017

تراشے



16
دسمبر
1971
سے پہلے اخبارات میں سے تراشے 

انتخابات آپ نے کرائے ہیں ، فیصلہ عوام نے دیا ہے ۔ عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنا آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔

پنجابی فوجی جرنیل اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر تحریک پاکستان میں دی گئی قربانیوں کے انکار کا مرتکب ہو رہے ہیں

عوامی لیگ نے پورے پاکستان میں اکثریت حاصل کی ہے، اخلاقی اور قانونی طور پر اس کو اقتدار منتقل کر دینا ضروری ہے

جنرل یخییٰ فوجی آمر ہے، عدالت آمر کر رستہ دیتی ہے اور عوامی نمائندوں کو جیل بھیج دیتی ہے۔عدالتی فیصلے قانونی نہیں سیاسی ہیں

فوجی آمر اور ان کے کاسہ لیس سیاستدان ملک کو نقصان پہنچا کر ہی دم لیں گے

آپ ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس نہ بلاو ، اسلام آباد مین ہی بلا لو، اجلاس تو بلاو ۔ ہمارے مطالبے کی مخالفت کرن والے نا عاقبت اندیش لوگ ہیں

پاکستان بچ گیا ۔۔۔ میرا خیال اس کے برعکس ہے

موجودہ حالات میں نوشتہ دیوار کو پڑہنے کے لیے زیادہ بصیرت اور علمی قابلیت درکار نہیں ہے

بنگالی پاکستان توڑنے کے مخالف ہیں۔بنگالیوں نے تو پاکستان بنایا ہے۔ البتہ فوجی آمریت کے مخالف ہیں

عوام سے مسترد شدہ سیاستدان جرنیلوں کے اشارے پر ناچتے ہیں اور ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں

بھارت کو آپ نے خود موقع دیاہے کہ وہ دنیا میں آپ کو بدنام کرے۔ آپ اسمبلی کا اجلاس بلائیں۔نہ زمین پر زلزلہ آئے گا نہ آسمان گرے گا ۔حالات بہترہو جائیں گے

عوامی فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتا ، ماضی اور مستقبل میں ہی نہیں حال میں بھی عوامی فیصلہ ہی درست ہے

ہم پنجابیوں کے خلاف نہیں ہیں پنجابی تو خود مظلوم ہیں البتہ جرنیلوں کو ہمارے قد پر اعتراض ہے

ناظم الدین کا قصور بنگالی ہونا نہیں بلکہ اس نے جرنیلوں کی کاسہ لیسی سے انکار کیا تھا

مولوی تمیز الدین کو تو عدالت نے دھتکار کر مشرقی پاکستان پر نہیں پاکستان پر ظلم کیا تھا

حسین شہید سہروردی کو غدار کہنے والے یہ بھی بتا دیں کیا وہ پاکستان کا غدار تھا 

ہم نے تو برابری کے اصول پر بھی امین ہی کہا تھا ۔ 

حکومت کا ہر بیان، ہر عمل ، ہر ضابطہ پہلے سے موجود بے چینی میں اضافہ ہی کرتا ہے

مشرقی پاکستان کے لوگ اپنے آئینی اور قانونی حقوق مانگتے ہیں ، یہ پاکستان سے غداری نہیں ہے مگر جرنیل اسے غداری سے تعبیر کرتے ہیں

ملک میں اس وقت سیاسی  چینی بے عوام کے منتخب نمائندوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔عدالتوں کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں

بیلٹ کی قوت کو بلٹ سے دبانا ممکن نہیں ہے۔ اس سوچ کو نہ بدلا گیا تو پاکستان ٹوٹ جائے گا۔

عدالتوں کے پاس جرنیلوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے مگر عوام کو دینے کے لیے صرف اگلی تاریخ ہے

جمعہ، 15 دسمبر، 2017

ابودیس


ابو دیس مشرقی بیت المقدس میں ایک غیر معروف قصبہ ہے۔فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے مابین اوسلو میں جو معاہدہ ہوا تھا اس کی رو سے اس قصبے کا کنٹرول مشترکہ طور پر اسرائیل اور فلسطینی اٹھارٹی کے پاس ہے۔ جیسے مسجد اقصیٰ کا مشترکہ کنٹرول ہے۔ جن لوگوں کو مسجد اقصیٰ جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہے کہ مسجد کے باہر اسرائیلی سیکورٹی کی عمل داری ہے البتہ مسجد کے دروازے میں داخل ہونے کے بعداندرونی سیکورٹی فلسطینیوں کے پاس ہے۔ 
آئندہ چند ماہ میں مسلمان ابو دیس کے نام سے مانوس ہو جائیں گے اور اس کی قصبے کی اہمیت کا اندازہ بھی ہو جائے گا۔ کیونکہ ابو دیس نے ہی فلسطین کا دارلحکومت بننا ہے ۔جس کی بیرونی سیکورٹی اسرائیل کے پاس اور اندرونی سیکورٹی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہو گی۔اور فلسطینیوں کو اس پر راضی کرنے والے ان کے عرب سرپرست ہی ہوں گے۔



اس قصبے کا امتیاز یہ ہے کہ گھر کی چھت پر چڑھ کر دیکھیں تو مسجد اقصی کا گنبد نظر آتا ہے

بدھ، 13 دسمبر، 2017

حسب توقع



امریکی صدر ٹرمپ کے القدس کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کے اعلان کے بعد فلسطین مین جو قتل و غارت و بربریت کا اسرائیل نے جو غیر انسانی ستم شروع کیا ہے ۔ اور خون مسلم کی ارزانی کا جو مظاہرہ ہو رہا ہے اس پر افغانستان سے لے کر لیبیا تک اور ملائیشیا سے لے کر افریقہ تک مسلمانوں کے دل افسردہ ہیں۔ ترکی کے کے صدر جناب طیب اردگان جو ستاون ملکی اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیرمین ہیں ، نے استنبول میں مسلمان ممالک کے سربراہان کا اجلاس طلب کیا تھا ۔ جس میں وینزیلا کے صدر بطور مبصر شریک ہوئے۔ اس اجلاس مین تقریر کرتے ہوئے فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ امریکہ اپنے اس اعلان کے بعد امن مذاکرات میں اپنا کردار کھو چکا ہے۔
ترکی کے صدر نے امریکہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ کے پاس توپ و بم ، جہاز اور ایٹمی ہتھیار ہیں مگر اس کے باوجود آپ طاقتور نہیں ہیں۔ ہاں آّپ طاقتور ہوتے اگر آپ حق پر ہوتے۔
اردن کے شاہ عبدللہ نے کہا کہ اسرائیل فلسطین تنازعہ طے کیے بغیر ہمارے علاقے میں امن نہیں ہو سکتا۔
ایران کے صدر روحانی نے کہا کہ امریکہ کے حالیہ اقدام نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ صیہونت کے مفادات کا پاسبان ہے۔
مصر، سعودیہ اور امارات نے اس اجلاس میں حکومتی نمائندے بھیجے ہیں اورسعودیہ نے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ مشرقی القدس فلسطین کا دارلحکومت ہے۔
کمزور، نحیف ، نفاق کا شکار اور مصلحت کے مارے مسلمان حکمرانوں سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جارہی تھی