جمعہ، 24 نومبر، 2017

مصر : مسجد پر حملہ

حملہ میں اب تک 235   لوگ ہلاک اور109 زخمی ہوئے ہیں


یہ ولاِیۃ سینائی نامی گروپ کا کام ہے جس کا تعلق دعش سے ہے




مصر کے صوبہ سینائی مین واقع مسجد العریش میں نما ز جمعہ کے نمازیوں پر وحشیانہ حملہ، دنیا بھر میں
 مسلمانوں کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں
      مصدقہ اطلاعات کے مطابق اب تک مرنے والوں کی تعداد 236 ہو چکی ہے،   پہلے مسجد میں بم پھینکا 
گیا اور ساتھ ہی نمازیوں کو گولیاں مار کر خون میں نہلا دیا گیا۔ 



صہیونی میدیا کی طرف سے شعلہ برساتا سوال
Again. Muslims killing Muslims for not being Muslim enough. Just imagine what they’d do to Non Muslims-given the chance.



دہشت گرد  4 گاڑیوں میں آئے ، پہلے بم پھینکا پھر نمازیوں پر گولیاں برسائیں
Over 235 people killed - Deadliest terrorist attack in Egyptian history - During prayers at mosque in North Sinai - Condemnations from Arab League, US, Gulf states and Jordan
تین دن پہلے ناہجیرا کی مسجد میں بھی ایسا ہی ظلم ڈہایا گیا تھا



یہ مسجد "صوفی مکتبہ فکر " والوں کی بتائی جاتی ہے

مصری حکومت نے دن کے سوگ کا اعلان کیا ہے

سات دہشت گردوں نے اہمبولنس پر بھی گولیان برسائیں


امریکی صدر کی مسجد پر حملہ کی مذمت

تقسیم کی لکیر



اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک جنجویانہ اور غیر مفاہمانہ رویے کا حامل مذہب ہے ، یہ خاکہ غیر ممالک میں ہی نہیں بلکہ اسلامی ممالک کے اندر بھی نئی نسل میں راسخ ہو چکا ہے
اسلام ، انسانی حقوق کا علمبردار ہونے کے باوجود ، مسلم اکثریت کے ممالک میں انسانی اقدار پر عمل نہ ہونے کے باعث مدافعتی رویے پر مجبور ہے۔ دین کے دکھائی دینے والے چہرے کو دوسروں کے لیے قابل قبول بنانا تعلیم یافتہ لوگوں کا کام ہوتا ہے۔
پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں تعلیم یافتہ طبقہ دو گروہوں مین منقسم ہے۔ عصری علوم کا پروفیسر،دینی مفتی کے علم منظق و فلسفہ کوعصر حاضر کی اورنج ٹرین کا پچھڑا ہوا مسافر گردانتا ہے ، جب کہ دینی اداروں میں اب بھی جدید معاشرے کی بناوٹ پر بحث کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک میں معاشرتی بناوٹ کے باعث، مسجد کا مائیک دینی مدارس سے فارغ التحصیل طلباء اور اساتذہ کے ہاتھ میں ہونے کے سبب ان کی آواز بلند تر ہے جو مساجد کے قریبی گھروں ہی میں ہی نہیں بلکہ دور دراز تک لوگوں پر بصارتوں کے ذریعے اثر انداز ہوتی ہے
یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ عام آدمی کی بصارتوں تک صرف مذہبی طبقے کی آواز پہنچتی ہے اور جدید علوم کی آوازیں مخصوص تعلیمی اداروں اور چند بند مقامات میں کم لوگوں تک رسائی حا صل کر پاتی ہیں۔
عجیب بات ہے کہ فلسفہ دینی مدرسے میں پڑھا جائے تو دین کا حصہ اور کالج سے پڑھا جائے تو دین بیزار مضمون بن جاتا ہے۔اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم کی سند سیال شریف سے ہو تو معاشرے کا رہنماء اوراسلامیات میں پی ایچ ڈی یونیورسٹی سے ہو تو مشکوک ۔
ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کو افہام و تفہیم سے مل بیٹھنا چائیے، اور معاشرے کی رہنمائی کا فرض نبھانا چاہئے ، اختلافات اور معاشرتی تقسیم ، تعلیم یافتہ افراد کی پیدا کردہ ہے۔اوراس تقسیم کی لکیر کو مٹانا بھی تعلیم یافتہ لوگوں کا ہی کام ہے۔ 

بابا بھلے شاہ کی ایک نظم کا بند اہل علم کی نذر
عِلموں پئے قِضیّے ھور
اکھّاں والے انّھے کور
پھڑدے سادھ ، تے چھڈن چور
دو ھیں جہانِیں ، ھون خوار
عِلموں بس کریں او یار

بدھ، 22 نومبر، 2017

پہلی بار

22
 نومبر 2017 فیض آباد دھرنے کا 17 وان دن، میرے دیکھتے دیکھتے کم از کم 4 باوردی لوگوں کو لہو لہان کر گیا۔لمبے ڈنڈوں سے مسلح جوانوں کا جتھہ اپنی فتح کے نعرے لگاتا ہجوم میں گم ہو گیا۔
اسی اسلام اباد میں قومی اسمبلی کی عمارت میں بھی ایک معرکہ برپا تھا۔ریاستی نصرت سے آراستہ متحدہ اپوزیشن رائے شماری کے نتائج پر حیرت زدہ تھی۔
وزیر قانون کے بیان کو اسمبلی کے اندر اپوزیشن اور فیض آباد میں بیٹھے عوام نے یکساں نا پسندیدگی سے سنا ، اور کڑوا سچ یہ نکلا کہ دھرنے کا باعث سبب بننے والے بل کی منظوری میں اکثر سیاسی جماعتوں سمیت شیخ رشید کا ووٹ بھی شامل تھا۔
پہلی باریہ ہوا کہ فیض آباد دھرنے کے شرکاء نے ہی پولیس والوں پرتشدد کی مذمت اس عزم سے کی کہ کنٹینر کے لاوڈ سپیکر وں سے اس کی توجہیات بیان کی گئیں، دوسری طرف 70 سالوں میں پہلی بار عوام نے قومی اسمبلی میں خود کو ملکی معاملات میں حصہ دار پایا۔
اداروں کے خود ساختہ ترجمان، عدلیہ کو مفت مشوروں سے نوازنے والے، سیاسی رہنماوں کی ٹانگیں کھینچنے والے ، اور ذاتی خواہشات کے اسیران ، اپنی سوچوں کو اسمبلی میں آئین او ر فیض آباد میں قانون کو اپنی راہ بنانے دیں۔
پہلا بیانیہ ہی آخری ثابت ہو گا اور پہلا بیانیہ یہ ہے کہ ْ جس کا کام اسی کو ساجھے ْ 

جمعہ، 17 نومبر، 2017

صبح نور



سعودی عرب کی اہمیت
سعودی عرب اپنے جغرافیائی وجود، دو متبرک شہروں کی موجودگی اور حکمران آل سعود خاندان کی سیاسی بصیرت اور مملکت کے اندر اور باہر اس کے اثر و رسوخ اور سعودی عوام کی دین سے محبت اور عملی جذبے ، مہمان نوازی کی روایات، جوانمردگی اور بہادری کی تاریخ اور اپنے مخصوص قبائلی ہیت کے باعث ہمیشہ سے اہم رہا ہے۔جدید تاریخ میں خدا داد وسائل کی فراوانی نے اسے خطے اور دنیا میں ایک ممتاز کردار کا حامل بنایا ہے، ان سب سے بڑھ کر پوری دنیا کے مسلمان سرزمین سعودیہ کو ، حرمین شریفین سے مذہبی عقیدت کے باعث احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، مملکت کا جھنڈا وہ وحید علم ہے جو کبھی بھی سر نگون نہیں ہوتا۔
مگر ماضی قریب میں اس مقدس سرزمین کے باسیوں کی کرپشن کی کہانیاں جو مغربی میڈیا میں مزے لے لے کر بیان کی جاتی ہیں ان کہانیوں نے سعودیہ کے ماتھے کو داغدار کیا ہے۔




کرپشن
کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس نے مسلم ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، ہر ملک کی اپنی اپنی داستان ہے جو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔سعودی عرب میں کرپشن کی داستانوں کا طویل عرصہ سے بین الاقوامی میڈیا میں چرچا ہے مگر اس امیج کو درست کرنے کی جانب پہلی بار موثر قدم اٹھایا گیا ہے۔ سعودی انسداد کرپشن کمیٹی نے کرپشن کے منبع پر ہاتھ ڈال کر ایساجرات مندانہ قدم اٹھا یا ہے جس نے مملکت کے اندر اور باہر لوگوں کوحیرت انگیز فرحت سے ہمکنار کیا ہے۔ مملکت کے اندر اس تحریک کو نہ صرف خوش آمدید کہا گیا ہے بلکہ سعودی شہریوں میں یہ قدم حکومت اور خادم حرمین شریفین اور خاص طور پر شہزادہ ولی عہد کی مقبولیت کو نئی بلندیوں پر لے گیا ہے۔ سعودی عوام کا اپنی حکومت پر اعتماد ہی نہیں بڑہا بلکہ اس قدم سے معاشی نا ہمواری کی ٹوٹی پھوٹی راہ کی مرمت کی امید بندہی ہے۔ سعودی نوجوان بجا طور پر امید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں سعودی معاشرے اور حکومتی اداروں سے رشوت اور کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سعودی ولی عہد نے کرپشن کے مضبوط اور تناور شجر کی جڑہوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ کانٹے دار درخت خود نخود سوکھ کر مرجھا جائے گا۔
اپنے خاندان اور اپنی ہی حکومت کے کرپٹ افراد پر آہنی گرفت نے شہزادہ ولی عہد کو اپنے ملک کے نوجوانوں کو مثبت سوچ کی راہ دکھائی ہے تو بیرون ملک سے سرمایہ کاروں کو نیا حوصلہ میسر آیا ہے۔




سعودی ولی عہد کو جن چیلنج کا سامنا ہے اس میں ایک یہ الزام بھی ہے کہ انھوں نے اپنے حکومتی حریفوں پرہاتھ ڈال کر اپنے بادشاہ بننے کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ محض الزام ہی ہے کیونکہ ان کی ولی عہدی کا شاہی فرمان جاری ہونے کے بعد متعلقہ کمیٹی اس کی توثیق کر چکی ہوئی ہے۔ اور انھوں نے تیاری اور ثبوت کے ساتھ صرف کرپشن مین مبتلاء افراد پر ہی ہاتھ ڈالا ہے۔ اور اس میں ان کے اپنے وزیر، مشیر اور خاندان کے لوگ بھی سر فہرست ہیں۔ آنے والے چند ہفتوں میں ہی ناقدین کے منہ بند ہو جائیں گے کہ خادم حرمین شریفین نے عدلیہ میں نئے منصف ، جو قانونی ماہرین ہیں اور غیر جانبداری کی شہرت رکھتے ہیں شامل کر کے اور عدلیہ میں موجود ایماندار اور شفاف کردار کے منصفین کو ترقی دے کر اس بات کا اہتمام کر دیا ہے کہ کسی بے گناہ کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے۔ اس تحریک کے بالکل ابتدائی مرحلے پر ایسے سات افراد کو رہا کر دیاگیا جو اس پکڑ دھکڑ کا شکار ہو گئے تھے۔
جب مقدمات چلیں گئے اور تحویل میں لئے گئے افراد کی کرپشن کی کہانیاں سامنے آئیں گی تو عوام اور دنیا کا سعودی حکومت اور معاشرے پر یقین بڑہے گا۔



اخوت کی ٹھوس بنیاد
امت مسلمہ آپس میں اشتراک و اتحاد کے لئے مدت سے تگ و دود جاری رکھے ہوئے ہے ، علاقائی اتحادجیسے جی سی سی یا بین الاقوامی اتحاد جیسے اسلامی سربرائی کانفرنس در اصل اسی اتحا د اور اتفاق کے حصول کی کوشش ہے۔ جو وقت کی ضرورت اور اسلام کا بنیادی پیغام ہے۔ قوموں مین اتحاد و یگانگت کے کئی محر ک ہوتے ہیں جیسے یورپی یونین کے اتحاد کی بنیاد معاش بنی۔ کچھ اتحاد علاقائی وحدتوں میں معاشرتی اشتراک بنا ، کہیں مشترک دشمن نے ملکوں کو اتحا د پر مجبور کیا۔مگر دین میں مشترکہ اعتقادات پر مبنی اتحاد ہمیشہ ہی پائیدار ثابت ہوا ہے۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی ذات وحدانیت ، خاتم المرسلین کی ذات سے محبت، قرآن جیسی آفاقی کتاب کا موجود ہونا ، ایسی حقیقتیں ہیں جو اتحاد کی پائیدار بنیادیں فراہم کرتے ہیں۔ اسلام وہ مذہب ہے جس نے انسانیت کو ٹھوس اور دور رس تحفے دئے تھے ۔ دور نبوت میں رسول اللہ کا یہ فرمان کہ عورتوں کو بھی ترکے میں حصہ دو حالانکہ کہ اس وقت عورت کو زندہ درگور کر دینا زیادہ معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔ علاقی و خاندانی تفرقات کی جائے تقویٰ کی بنیاد پر معاشرے کی بنیاد رکھنا ۔ ایسے انقلاب آفریں اعلانات تھے جس نے معاشرے کو بالکل ہی بدل کر رکھ دیا۔ رواداری، محبت ، عفو و در گزر کے پیغام محمدی کو تو ہم عشروں سے پس پشت ڈالے ہوئے تھے ۔ اب خادم حرمین شریفین نے عید میلاد النبی پر عام تعطیل کا اعلان کر کے یہ راہ دکھائی ہے کہ ْ یا محمدا ْ کی بنیاد اگر ابوبکر کے دور میں نتیجہ خیز تھی تو موجودہ دور میں بھیْ حب النبیْ خیر ہی کا پیغام ثابت ہو گی۔تنقید، انا پرستی، اور مسلکی تفاخر ایسے امراض ہیں کہ جس جس معاشرے میں پھیلے اس معاشرے کو تباہ ہی کیا۔امید رکھنی چاہئے کہ حب النبی کے سایہ دار ، خوشبودار شجر سے اسلام کے باسیوں کو امن و عافیت کا سایہ نصیب ہو گا۔ خادم حرمین شریفین نے ۲۱ ربیع الاول کی اہمیت کو واضح کر کے خطے کے باسیوں کو محبت، دوستی کی راہ دکھائی ہے ۔

منگل، 14 نومبر، 2017

ہمارا مولا






امریکہ کے صدر جناب ٹرمپ صاحب نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے صدر نے ان کو ْ بڈھا ْ کہہ کر ان کی توہین کی ہے مگر وہ شمالی کوریا کے صدر جناب کم کو ْ ٹھگنا ْ یا ْ موٹا ْ نہیں کہیں گے ۔ 

اس کو کہتے ہیں کچھ بھی نہ کہنے کا دعویٰ اور کہہ بھی دینا ۔ 

الفاظ کا چناو ایک فن ہے ، اور الفاظ چننے میں کچھ لوگ بڑے فنکار ہوتے ہیں ۔بڑ ے لوگ مگر عام طور پر فنکار ہی ہوتے ہیں۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں امریکی صدر بڑے فنکار ہیں۔ یہ بھی غلط نہ ہو گا اگر ہم کہیں فنکار لوگ بڑ ے ہوتے ہیں۔بڑے ہونے کے لیے کسی نہ کسی فن کا کاریگر یا ماہر ہونا لازمی ہے ۔موجودہ دور میں 
خطابت بڑا ْ زر آمدْ فن ہے، اس فن میں کچھ لوگ بغیر پی ایچ ڈی کے ماسٹر ہوتے ہیں جیسے ہمارے
مولانافضل الرحمن صاحب ۔ اس فن میں کوئی دوسرا مولانا، ان کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ 

دوسرے کی جیب سے روپیہ نکالنا بھی ایک فن ہے ۔ ہمارے کئی فن کار یہ کام کرتے ہیں اور اس روپے کو عوام کے لئے نفع رسان ادارے بنا کر داد بھی پاتے ہیں۔ایسا ہی ایک فنکار عبدالستار ایدھی بھی تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی جنت میں ، اس بھیک مانگنے والے اور لوگوں کے ناجائز بچے پالنے والے ، کی روح کو سکون دے اور درجات بلند کرے۔وہ عمر کے آخری حصے تک ْ بڈھا ْ ہوا نہ اس کا قد ْ ٹھگنا ْ تھا ۔ البتہ وہ مولانا ضرور تھا ۔ مولانا عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے
ْ ہمار ا مولا ْ