بدھ، 8 نومبر، 2017

20000000Million



                                
سعودی خبر رساں نیٹ ورک العربیہ کے مطابق سعودی عرب میں شاہ سلمان بن عبدلعزیز نے انسداد رشوت ستانی یا انٹی کرپشن کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا ہے،جس کے سربراہ شاہ کے ولی عہد اور شہزادہ محمد بن سلیمان ہیں۔ اس کمیٹی کو مملکت سے کرپشن کے خاتمے کے لیے وسیع اختیارات دیے گئے ہیں ، ان اختیارات کے تحت ولی عہد مملکت میں جس فرد کو چاہیں بغیر مقدمہ درج کیے کسی بھی فرد کو اپنی تحویل میں لے 
سکتے ہیں اور اس کی جائیداد کو ضبط کر سکتے ہیں اور اپنی اس کاروائی کو خفیہ بھی رکھ سکتے ہیں


اس کمیٹی کی تشکیل کے چند گھنٹوں کے اندر مملکت میں کئی عہدیداروں کو اپنے عہدوں سے برطرف کر کے ان کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے ۔ پرنس متعب بن عبداللہ کو ان کے مقتدر ادرے نیشنل گارڈ کے عہدے سے معزول کرکے تحویل میں لیے جانے کے بعد ، مزید 16 شہزادوں سمیت ، کاروباری اور میڈیا سے تعلق رکھنے والی کئی مقتدر شخصیات کو بھی سرکاری تحویل میں لے لیا گیا ہے اور ایک اخباری نمائندے کی اطلاع کے مطابق شاہی خاندان کے تمام شہزادوں کے مملکت سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔


شہزادہ متعب ، شاہ عبد اللہ کے صاحبزادے ہیں ، جو 2005سے 2015 تک سعودی عرب کے بادشاہ تھے.شہزدہ متعب کو 4نومبر 2017کو ان کے عہدے سے معزول کر کے حراست میں لیا گیا 

شاہی خاندان کے دو اور شہزادوں ولید بن طلال اور ترکی بن ناصر کو
بھی تحویل میں لیا گیا ہے

اڑتیس 38 موجودہ یا سابقہ وزیر مملکت بھی زیر عتاب ہیں ان کو بھی حراست میں لیا گیا ہے
درجنوں سابقہ وزراء کو بھی پوچھ گچھ کے لیے تحویل میں لیا گیا ہ

اب تک 1200 لوگوں کے اکاونٹ منجمد کِے جا چکے ہیں جن مجموعی طور پر 20000000ملین سرمایہ موجود ہے




اتوار، 5 نومبر، 2017

سعودیہ ۔ اج اور آنے والا کل


اختلاف کا سلیقہ
1989
 کا واقعہ ہے ، رمضان کا آخری عشرہ تھا ، راقم اپنے دو پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ عمرہ کے ارادے   سے محو سفر تھا،دوران سفر ایک مسجد میں نماز پڑہنے کے بعد میں نے تعجب سے اپنے ساتھی یوسف سے پوچھا کہ لوگ تزہیں شدہ مسجد میں نماز ادا کرنے کی بجائے مسجد کے باہر کیوں نماز ادا کرتے ہیں، یوسف گو پاکستانی تھا مگر اس کی ماں عرب تھی ، گھر میں عربی بولتے تھے اور تعلیم بھی اس نے سرکاری سکول میں عربی میں ہی حاصل کی تھی ، یوسف کا جواب تھا کہ ریت پر نماز ادا کرنا سنت ہے، اس جواب پر میں خاموش تو ہو گیا لیکن تشفی نہ ہوئی ، اگلے سال ایسے ہی سفر میں میراہم سفر ایک مصری دوست تھا، ہم نے ایک گاوں میں عصر کی نماز ریت پر سنت کے مطابق ادا کی اور روانگی کے لیے گاڑی میں بیٹھ کر اگلی منزل کے لئے روانہ ہوئے تو میں نے جو سوال پچھلے سال یوسف سے پوچھا تھا اس سے بھی پوچھا ، نوجوان مصری کویت یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اس نے بتا یا ْ پچھلے سال میں عمرہ کرنے ایک ساتھی سعودی طالب علم کے ساتھ آیا تھا ، سعودی کا گاوں رستے میں پڑہتا تھا ، اس کے گاوں میں عشاء کی نماز ہم نے مسجد کے باہر ریت پر ادا کی رات اس کے گھر رہنے کا پروگرام تھا، میں نے رات کو اس سے پوچھا کہ گاوں کے لوگ سجی سجائی مسجد میں نماز ادا کرنے کی بجائے مسجد کے صحن میں ریت پر نماز کیوں ادا کرتے ہیں، اس کا جواب تھا مسجد میں موجود صفوں پر ہدیہ من وزارت الاوقاف بالریاض کی جو مہر لگی ہوئی ہے اس سے نماز کے دوران توجہ منتشرہوتی ہے ْ عرب معاشرے کی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ اختلاف کو بھی سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔
اختلاف رائے، ہوا بھرے غبارے کی طرح ہوتا ہے ایک حد تک دباو کے بعد پھٹ جاتا ہے ، سعودیہ عرب کے شاہی خاندان میں پہلا غبارہ شاہ فیصل کے قتل کی صورت میں پھٹا تھا، آواز پوری دنیا میں سنی گئی تھی کہ پستول کی گولی کی تھی اور حجاز مقدس سے سنائی دی تھی، مسلمان پاکستان میں ہو یا بورکینا فسو میں حجاز میں اٹھنے والی صدا پر فوری متوجہ ہوتا ہے کہ وہ وہ ارض مقدس اس کی عقیدتوں کا محور ہے۔
اقتدار کی کشش
شاہی اقتدار کی تاریخ ، کسی بھی خطے میں ہو ، اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے، سعودیہ بھی زمین پر ہی واقع ہے، وہاں بھی شاہی خاندان کے اندر رقابت نئی بات نہیں ہے ، 
آل سعود
آل سعود کی ترکیب باقی خاندانوں سے منفرد ہے، خاندان کا بانی ایک زبردست سپاہی، ذہیں حکمران اور وقت کی چال دیکھ کر چلنے والا سیاستدان تھا۔ اس نے سعودی قبائلی معاشرے کو اپنی ذہانت اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایسے شیر شکر 
کیا کہ ْ شیر اور بکری ْ ایک ہی گھاٹ سے اپنی پیاس بجھانے کے خوگر ہو گئے۔
قبائل کو متحد کر کے پیدائشی طور پر آزاد منش سعودیوں پر حکمرانی کرنا بائیں ہاتھ کا کھیل کبھی بھی نہیں رہا مگر اس خاندان کے بانی نے یہ معجزہ بھی کر دکھایا ، کئی شادیاں اور کثیر اولاد اسی معجزہ کا ثمر تھا ۔ حالیہ حکمران ملک سلیمان شاہد اپنے بھائیوں میں آخری حکمران ہوں گے کہ انھوں نے اپنے صاحبزادے محمد کو مستقبل کا بادشاہ نامزد کر دیا ہوا ہے۔
محمد بن سلیمان 
یہ نوجوان شہزادہ پہلے وزیر دفاع مقرر ہوا ، سعودی حکمرانی میں وزارت دفاع، نیشنل گارڈز کی وزارت ور وزارت داخلہ بادشاہت کے ستون ہیں ، وزارت دفاع سعودی عرب کی مسلح افواج کو کنٹرول کرتی ہے ، جن کی قوت دو لاکھ افراد ہیں، یہ مسلح قوت سعودیہ کی حدود پر پھیلی ہوئی ہے ، اس فورس کے متوازی سعودی نیشنل گارڈز ہیں جن کی تعدا د ایک لاکھ ہے اور ان کی تعیناتی کا مقام دارلخلافہ اور دو متبرک شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں، اس فورس کے ساتھ پچیس سے تیس ہزار ایسے رضا کار بھی ہیں جو وردی نہیں پہنتے۔ یہ فورس در اصل بادشاہت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ،اندرونی خلفشار کو کنٹرول کرنا اس کے فرائض میں شامل ہے ، مثال کے طور پر 1979 میں جب کچھ انقلابیوں نے مکہ مکرمہ کے حرم کی مسجد پر قبضہ کر لیا تھا اور قبضہ ختم کرانے میں اس فورس نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
بادشاہت کا ایک اور ستون وزارت داخلہ ہے جو بہت منظم اور قوی ادارہ ہے اور وزارتوں میں اس کے ہم پلہ کوئی دوسری وزارت نہیں ہے
اختیارات کا ارتکاز
شہزادہ محمد بن سلیمان کے بارے میں مبصرین کی رائے ہے کہ وہ راسخ الذہن حکمران ہیں، اپنی رائے کو منوانے کا ہنر جانتے ہیں اور تیزی سے پیش قدمی کرتے ہیں ، انھوں نے سعودی معاشرے میں دور رس تبدیلوں کی بنیاد رکھی ہے ۔مثال کے طور پر ان کا بیانیہ Vision 2030 ایک منفرد دستاویز ہے اورآنیوالے تیرہ سالوں میں سعودی معاشرہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آئے گا، تیزی سے پیش قدمی کی جرات کا اظہار ان کے یمن کے ساتھ تنازع اورقطر کے گھیراو کے دوران ہو چکا ہے۔ حالیہ اقدامات کے دوران نیشنل گارڈ کی وزارت ان کے کنٹرول میں آ چکی ہے اور وزارت داخلہ پر بھی ان ہی کی سرپرستی کا ہاتھ ہے۔ یوں یہ شہزادہ اختیارات کے لحاظ سے اپنے وقت کا مضبوط ترین بادشاہ ہو سکتا ہے۔
میڈیا کا کردار 
پرنٹ میڈیا سعودیہ میں مکمل طور پر حکومت کے کنٹرول میں ہے، اور وہاں سے عام حالات میں مخالفت کی بدبو پیدا ہونے کا دور دور تک امکان نہیں ہے، الیکٹرونک میڈیا ایسا میزائل ہے جو کسی مقام سے کسی مقام کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے ، حساس مقام پر ، شیشوں کے محلات میں بیٹھے ، خاص طور پر امت مسلمہ کے حکمران اس میزائل سے مرعوب ہیں ۔مثال کے طور پر قطر کا الجزیرہ چینل۔
سوشل میڈیا کی اہمیت کا ادراک اس ملاقات سے بخوبی ہو جاتا ہے جو سعودیہ کے مستقبل کے بادشاہ نے فیس بک کے چیف ایگزیکٹو سے کی ہے۔
ٹوئیٹر کا کردار
Twitter میڈیا کا وہ پستول ہے جو امریکہ کے صدرسمیت تمام حکمرانوں کی جیب میں ہوتا ہے، ٹوئیٹر کی ملکیت میں ایک سعودی ولید بن طلال کا موٹا حصہ ہے ،اس کے علاوہ ولید بن طلال کئی ایسے الیکٹرانک چینلوں کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو خود سعودیہ اور دوسرے عرب ممالک میں مقبول ہیں۔ اس ہفتے جو سعودی بادشاہ نے ہفتہ کے دن انٹی کرپشن کمیٹی تشکیل دی ہے اس کے سربراہ خود شہزادہ محمد بن سلیمان ہیں ۔ اور اس کمیٹی کی تشکیل ہوتے ہی جن لوگوں کو زیر حراست لیا گیا ہے ان میں ولید بن طلال کے علاوہ ، کہا جاتا ہے ، نیشنل گارڈ کے سابقہ سربراہ بھی شامل ہیں، کچھ مذہبی رہنماوں پر چند ہفتے پہلے پابندی اور حراست میں لئے جانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
ہمسائے
سعودیہ کا ایک دور کا ہمسایہ بحرین ہے، عوام پر ایران کا اثر رسوخ ہے اور حکمران خاندان کی حفاظت کے لیے سعودی نیشل گارڈ کا دستہ وہاں موجود ہے، عراق میں سعودیہ کا اثر و رسوخ ناپید ہو چکا ہے اور ایران کے زیر اثر ہی نہیں بلکہ اندرونی خانہ جنگی کے باعث سانس بھی مشکل سے لے رہا ہے ، یمن سعودیہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور کہا جاتا ہے کہ کمبل ریچھ ثابت ہو رہا ہے۔عرب دنیا میں مصر کسی کے لیے بھی قابل اعتبار نہیں ہے سوائے سپر طاقت کے۔ شام بچارہ خود لہو لہان ہے، لبنان سعودیہ کا معتمد ساتھی ہے کہ شاہی خاندان کے لبنانیوں کے اہم خاندانوں کے ساتھ رشتے داریاں جڑی ہوئی ہیں ۔ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ لبنان کے حکمران نے ریاض میں بیٹھ کر اپنا استعفیٰ لکھ بھیجا ہے۔
الولید بن طلال
2015 میں اخباروں میں یہ خبر چھپی تھی کہ طلال بن ولید نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے 32 بلین ڈالر خیراتی اداروں کو دان کرے گا ، ولید دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتا ہے، نیو یارک میں اس کے قیمتی ہوٹل ہیں ، فرنس میں بڑی سرمایہ کاری ہے، عرب دنیا میں دیکھا جانا والا نیوز کارپ اس کا ہے، سٹی گروپ میں اس کی موٹی سرمایہ کاری ہے، ساتھ ہی اس کے عالمی حکمرانوں سے بے تکلفانہ تعلقات ہیں ، سابقہ امریکہ صدر کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا ۔ موجودہ امریکی صدر کو اس نے انتخابات کے دوران مشورہ دیا تھا کہ اپ کبھی بھی الیکشن نہیں جیت سکو گے ۔ صدر ٹرمپ کے مشیر اور داماد کے سعودی مستقبل کے بادشاہ کے ساتھ ذاتی مراسم ہیں، اور موجودہ پکڑ دھکڑ سے قبل وہ صاحب سعودیہ ہ میں تھے۔ اور اس کا شمار ولید بن طلال کے مخالفین میں ہوتا ہے۔
نوجوانوں کا کردار
سعودی ولی عہد خود بھی نوجوان ہیں اور اس کے ملک کی دو کروڑ کی آبادی میں پچیس سال سے کم عمر نوجوانوں کی تعدا د ایک کروڑ ہے، بادشاہ معظم ملک سلیمان اس وقت اکاسی سال کے ہیں اور کام سے زیادہ ٓرام کرتے ہیں،اختیارات عملی طور پر ولی عہد ہی کے پاس ہیں۔
عرب معاشرے کی زبان کی خصوصیت ہے کہ وہ اختلاف کو بھی سلیقے سے بیان کرتے ہیں۔اختلاف رائے، ہوا بھرے غبارے کی طرح ہوتا ہے ایک حد تک دباو کے بعد پھٹ جاتا ہے۔مسلمان پاکستان میں ہو یا بورکینا فسو میں حجاز میں اٹھنے والی صدا پر فوری متوجہ ہوتا ہے کہ وہ وہ ارض مقدس اس کی عقیدتوں کا محور ہے۔
اس مضمون کو اللہ تعالیٰ کے آخری نبی و رسل ﷺ پر عقیدت کے اظہار پھول نچھاور کر کے ختم کرتا ہوں اور یاد ہانی کراتا ہوں کہ انھوں نے فقر کو پسند کیا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کی نصیحت۔

جمعرات، 19 اکتوبر، 2017

قابلیت


خلیفہ ہارون رشید کے دور میں حکومت کے ایک افسربارے لوگوں کی شکایت پر جب خلیفہ نے اس کی صلاحیتوں کی تعریف کی تو عوام کی طرف سے کہا گیا کہ اگر یہ ایسے ہی قابل ہیں تو دوسرے علاقے کے لوگوں کا بھی حق ہے کہ وہ اس کی قابلیت سے مستفید ہوں۔ دور خلافت کے وقت سے ہی کچھ سرکاری افسران بشمول عدلیہ ہر دور میں پائے جاتے رہے جو اپنی کارکردگی کی بنا پر عوام میں معروف ہوئے۔ موجودہ دور میں یہ شرف ہمارے عدلیہ کے محترم جج کھوسہ صاحب کو حاصل ہے کہ وہ عوام کی توجہ کا مرکز ہیں شائد اس کا سبب ان کی جلد انصاف مہیا کرنے کی خواہش ہو۔ 
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب شوکت عزیزصدیقی صاحب جنھوں نے چند ہفتے ہوئے سوشل میڈیا سے جڑے ایک مقدمے کی سماعت کی تھی۔کے خلاف ایک ریفرنس جوڈیشنل کونسل میں دائر ہواہے اور اس کی سماعت جناب کھوسہ صاحب کے پاس ہے۔جناب شوکت صدیقی صاحب کا یہ مطالبہ اخبارات میں چھپ چکاہے کہ اس ریفرنس کی سماعت بند کمرے کی بجائے کھلی عدالت میں کی جائے اوریہ کہ اس ریفرنس کی سماعت کھوسہ صاحب کے علاوہ کوئی بھی دوسرا جج کرے۔
یہ امر باعث تعجب ہے کہ ریفرنس کے ایک فریق کے اعتراض کے باوجود یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اس کیس میں کھوسہ صاحب ہی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ہے ۔خلیفہ ہارون رشید کو تو عوام نے لا جواب کر دیا تھا مگر ہمارے ہاں عام طور پر ْ کمزور فریق ْ لاجواب ہوتا ہے کیونکہ طاقت جواب دہ نہیں ہوتی

پیر، 16 اکتوبر، 2017

جذبہ


ٓ یہ حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان میں اسلام صرف نعرہ تھا مگر پاکستان میں اسلام اب عملی حقیقت ہے، پاکستان کے ابتدائی دنو ں میں گھوڑوں پر سفر کرنے والے آج ہائی ویز پر ہائی برڈ گاڑیاں دوڑاتے ہیں ۔گھریلو اور انفرادی آسائشوں نے ہماری معاشرت کو آسان تر کر دیاہے۔سیاسی طور پر ہم آگے ہی بڑھے ہیں ، دفاع میں ہم نے معجزے دکھائے ہیں۔۔۔گذشتہ ستر سالوں پر نظر ڈالیں تو ہم نے معاشی ، سیاسی،دفاعی، معاشرتی، مذہبی ہی نہیں بلکہ تعلیمی سطح پر ترقی کی ہے۔
ہمارے دیہاتی معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ کمزور اور پسماندہ طبقات نے تعلیم میں پناہ لے کرخود کو خود کفیل کرنے کی طرف کامیابی سے قدم بڑھائے ہیں۔یعنی تعلیم وہ جادو ہے جس سے انسان مستفید ہو کر معاشرے میں اپنی اگلی نسل کو بہتر معاشرتی مقام پر کھڑا کر سکتا ہے۔
نئے تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں بن رہی ہیں۔ مگرقابل تشویش یہ ہے کہ ہماری تعلیم افراد میں یہ ادراک نہ پیدا کر پارہی کہ ْ جس کا کام اس کو ساجھے ْ آج ایک فرد فزکس کا پرفیسر ہے تو وہ ہمیں معاشرت سکھا رہا ہے، کھلاڑی ہے تو وہ معاشیات کو بہتر کرنے کے درپے ہے، سوشل سائنسز والا مکان بنا نے میں مصروف ہے ، وغیرہ وغیرہ
تعلیم کی اہمیت تسلیم، عالم ہمارے سر کا تاج، مگر ہمیں اپنے موجودہ تعلیمی سلیبس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نصاب سے اس ْ جذبےْ کو نکالنے کی ضرورت ہے جو انسان کو ہر فن مولا بناتا ہے مگر اپنے کام کا نہیں رہنے دیتا۔

ہفتہ، 14 اکتوبر، 2017

نا اہل عوام


خانہ جنگی میں مبتلاملک کے شہری نے صاف ماحول، سجے بازار، رونق اور امن و امان دیکھ کر مستقل اسی ملک میں رہائش کا خواہشمند ہوا ۔ اس نے مقامی لوگوں کے جلسے میں شرکت کی تومقرر نے اپنے حکمران کے علم وفراست ،انسان دوستی اور انصاف کی تعریف کی،اس کے دل کو بہت حوصلہ ملا۔ 
اسی شہر میں دوسرے دن اسنے اسی جگہ پھر ایک جلسے میں شرکت کی جہاں مقرر حکمرانوں کو بد یانت، جاہل ، ظالم بتا رہے تھے ، وہ تذبزب میں مبتلا ہو گیا ، رات کو اس نے اپنے میزبان سے دونوں فریقوں کی بات بیان کی تو میزبان نے کہا کل والاجلسہ نیک اور امن پسند لوگوں کا تھا جبکہ آج کاجلسہ فسادی اور فتنہ پرور لوگوں کا تھا ،جیسے وہ خود ہیں ان پر حکمرانوں کی طرف سے ایسا فیصلے صادرہوتے ہیں کیا تم نے سنا نہیں ْ جیسے تم خود ہو ایسے ہی حکمران تم پر مسلط کئے جاتے ہیں (ماخوذ)