مجھے اس سے نفرت تھی، جس دن اس کی ماں کو ہسپتال لے کر گئے،میں نے اپنے صحن میں میوزک اونچی آوا ز میں بجایا،جس دن اس کی ماں کا جنازہ تھا میرے گھر میں دوستوں کی پارٹی چل رہی تھی۔تین سال بعد میں اپنی دادی کو ہسپتال لے کر جانے لگا وہ گاڑی لے کر آیامیں نے اس ڈرامے پر اس کو گالیاں دے کر واپس بھگا دیا، میرے والد کا حادثہ ہوا و ہ تیمارداری کرنے آنا چاہتا تھا،میں نے دروازے سے واپس دھتکار دیا۔میرے والدکے جنازے میں شامل تھامیں نے چارپائی کو ہاتھ نہیں لگانے دیا۔دوسرے دن تعزیت کے لیے آدھمکا میں نے ڈنڈا اٹھا لیا۔اسکا سر پھاڑ دینا تھامگر ڈنڈا میری بیوی نے پکڑ لیا ۔بیوی پربہت غصہ آیایہ ڈنڈااسی کے سر پر پڑنے ہی والا تھا کہ میرے 12 سالہ بیٹے نے ڈنڈا پکڑ لیا ْ ابو بس کریں لوگ تعزیت کے لئے آئے ہوئے ہیں ْ ۔ 7 سالہ عاشی نے مجھے ٹانگ سے پکڑ لیا ْ ابو آپ امی کو نہ ماریں ْ ماں بھی عورتوں کے بیچ سے اٹھ کر آ گئی ۔مجھے کچھ نہیں کہا اس سے کہا ْ آو بیٹا مجھ سے تعزیت کرو خاوند میرا مرا ہے، اس کا کیا لگتا تھا ْ میں نے ڈنڈا پھینک دیا ۔غصہ اب بھی آتا ہے ، ضبط کر لیتا ہوں۔
اتوار، 8 اکتوبر، 2017
سٹینڈرڈ
ہم لوگ جنازہ پڑھ کر واپس آرہے تھے، جنازے میں مولوی سمیت بتیس آدمی میں نے گنے۔ہمار ا پرانا ہمسائیہ ایک پوش علاقے میں جا بسا تھا، اس کا 14 سالہ بیٹا فوت ہوا تھا۔محلے سے بس ہم دونوں ہی گئے تھے وہ توخیر اس کا رشتہ دار تھا ،میں بس مروت میں چلا گیا تھا،جب ہمارے محلے میں اس کا دادا فوت ہوا تھا تو جنازہ کافی بڑا تھا۔ گاوں سے بھی بہت لوگ آئے تھے ۔ راستے میں خاموشی توڑنے کی نیت سے میں نے کہا ْ جنازے میں زیادہ لوگ نہیں تھے ْ اس نے کہا ْ بات یہ ہےْ لہجہ یخ بستہ تھا ْ جو لوگ اس کے سٹینڈرڈ کے نہیں ہیں ، ان کو یہ منہ نہیں لگاتا اور جن کے سٹینڈرڈ کا یہ نہیں ہے وہ اسے منہ نہیں لگاتے ْ
مردے کی مسکراہٹ
کیشیرنے بل میرے حوالے کرتے ہوئے کہا ْ آپ کافی دنوں بعد ہمارے سٹور میں تشریف لائے ہیں ، آپکو ہمارے معیار یا قیمتوں کے بارے کوئی گلہ تو نہیں ْ ایسی بات نہیں ہے دراصل آّ پ کے ہاں ورائٹی اتنی زیادہ ہے اور ڈسپلے اتنا شاندار ہے کہ ایک چکر میں ہی پورے مہینے کا بجٹ گڑ بڑ ہو جاتا ہے، اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا ، نوجوان لڑکی کی مسکراہٹ ، ایسے لگا جیسے مردہ مسکرا رہا ہو۔
باپ
میں نے جمعہ بازار سے سستے داموں خریدی کتاب بغل میں دبائی اور مولوی رشید کو دینے ان کے مسجد سے متصل حجرے میں گیا۔ انھیں کتاب کا تحفہ خوش کر دیتا تھامگر اس دن وہ رنجیدہ تھے۔ کتاب کو انھوں نے کونے میں رکھ دیا۔ بتانے لگے ْ ملک صاحب فوت ہو گئے ہیں ْ ۔۔۔ ملک صاحب اپنے وقت میں دبدبے والے سرکاری افسر تھے، مسجد کے ساتھ تیسرا بنگلہ ان کا تھا۔ دونوں بیٹے بھی سرکاری افسر تھے ْ مغرب کے بعد ہسپتال کی ایمبولنس میں میت آئی ، میں بھی موجود تھا ، لوگوں نے میت اتاری ْ خاموش ہو گئے سانس لیا ْ بڑے بیٹے نے کہا میت گیراج میں رکھ دو ، اندر بچے ڈریں گےْ
مرکز ثقل
میری عمر ساٹھ سال ہے، میرے بچپن میں دادی اماں کا کمرہ گھر کا مرکز ثقل ہوا کرتا تھا۔دادی کا انتقال ہوا تو گھر میں ٹی وی آگیا ۔ ٹی وی والد صاحب کے کمرے کی بغل والے کمرے میں رکھا ہوا تھا ، پھر وہی کمرہ گھر کامرکز ثقل بن گیا۔والد صاحب کی وفات کے بعد گھر میں تبدیلی آئی اور اپنے اپنے کمرے کے ساتھ باتھ روم بھی اپنااپنا ہوگیا۔ آج میرے گھر کا مرکز ثقل وائی فائی ہے اور سب کے پاس موبائل اپنا اپنا ہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)