منگل، 16 ستمبر، 2025

حقیقی آزادی




دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ہر بڑی تبدیلی یا انقلاب کے پیچھے اکثر ایک فرد کا وژن اور حوصلہ کارفرما رہا ہے۔ اگرچہ قومیں اجتماعی طور پر ترقی کرتی ہیں، لیکن ابتدا میں یہ سفر اکثر کسی ایک شخصیت کے خواب اور جدوجہد سے شروع ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر مشرقِ وسطیٰ میں صلاح الدین ایوبی کی مثال لیجیے۔ بیت المقدس کی بازیابی کوئی آسان کام نہ تھا، لیکن ایک شخص کی بصیرت، صبر اور عسکری حکمتِ عملی نے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔  ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا جس نے پورے خطے کی سیاست پر اثر ڈالا۔
پاکستان کی تاریخ بھی ایک فرد کے وژن کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کا بیج بویا اور اسے قومی بقا کا ضامن قرار دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنی محنت اور صلاحیت سے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔
میاں نواز شریف نے بھٹو کے خواب اور عبدالقیرخان کی محنت کو حقیقت میں بدل دیا۔
 زرعی میدان میں گرین ریولوشن کی بنیاد زرعی ماہرین کی بصیرت کا نتیجہ تھی، جس نے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں مدد دی۔ 
میاں نواز شریف نے جدید سڑکوں اور ریل کے منصوبے شروع کیے، جنہوں نے ملک کی معیشت اور روابط کو نئی جہت دی۔ فلاحی میدان میں عبدالستار ایدھی کی جدوجہد اس بات کی مثال ہے کہ ایک فرد کی سوچ پورے معاشرے میں تبدیلی لا سکتی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح  نے برصغیر کو آزادی دلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امریکہ میں ابراہم لنکن نے غلامی کے خاتمے کا جو فیصلہ کیا، وہ ایک فرد کی بصیرت تھی جس نے امریکی معاشرے کی بنیاد بدل دی۔ چین میں ماؤ زے تنگ نے ایک نئی سیاسی و سماجی فکر کے ذریعے ملک کو استحکام اور طاقت کی طرف گامزن کیا۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی جدوجہد نسل پرستی کے نظام کو ختم کر کے دنیا کے لیے مثال بنی۔
زندہ رہنے کے لیے دو ہی طریقے ہیں: غلامی یا آزادی۔ بقول عمر بن خطابؓ، ہر بچہ آزاد پیدا ہوتا ہے، غلامی بعد میں اپنائی جاتی ہے۔ یہی غلامی آج بھی اردن، لبنان اور شام سمیت کئی حکمرانوں نے قبول کر رکھی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے اسرائیل اور بھارت کے حملوں کا جوانمردی سے جواب دے کر نہ صرف اپنی قوم میں نیا ولولہ پیدا کیا ہے بلکہ عربوں اور مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی امید کی نئی چنگاری بھی بھڑکا دی ہے۔ یہ  کوشش دراصل اتحاد اور حقیقی آزادی کی بنیاد رکھتی ہے۔
  یہ بھی ایک شخص کا وژن
جس نے جنگ جیت کر پاکستانیوں کا اعتماد بحال کیا۔ یہ اعتماد کی چنگاری ہی ہے جس نے عربوں میں بھی حقیقی آزادی کی بناید رکھ دی ہے ۔ 
پاکستان اور پاکستانی اس وقت امید کی کرن بن چکے ہیں ۔ 

ٹھکانے دو ہی تو ہیں آزاد منش انسانوں کے
 تخت، جگہ آزادی کی یا تخت، مقام آزادی 

پیر، 15 ستمبر، 2025

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ

صیہونی نظریہ اور فلسطینی شناخت کا خاتمہ
فلسطین کی زمین پر اسرائیل کا قیام محض ایک سیاسی منصوبہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی مہم تھی، جسے "صیہونیت" کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نظریے کی جڑیں مذہب، نسل، سیاست اور استعمار کے گٹھ جوڑ میں پیوست ہیں۔ صیہونی منصوبہ محض ایک یہودی ریاست کا قیام نہیں بلکہ ایک ایسے پورے معاشرے کو مٹانے کی کوشش ہے جو صدیوں سے فلسطین میں رچ بس چکا تھا — زبان، ثقافت، زمین، تاریخ، مذہب اور شناخت سمیت۔
صیہونی تحریک کی بنیاد انیسویں صدی کے اواخر میں تھیوڈور ہرزل نے رکھی۔ اس کا ابتدائی ہدف صرف فلسطین میں یہودی وطن کا قیام تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ ایک توسیع پسندانہ منصوبے میں ڈھل گیا۔ برطانیہ کی سرپرستی میں 1917 کا بالفور اعلامیہ اور 1948 میں اسرائیل کا قیام اسی منصوبے کا حصہ تھے۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر ایک الگ قوم کی بنیاد رکھنے کے لیے، مقامی آبادی کی زمینیں چھینی گئیں، گاؤں جلائے گئے، اور لاکھوں افراد کو زبردستی بے دخل کیا گیا — جسے فلسطینی "نقبہ" یعنی تباہی کہتے ہیں۔
صیہونی نظریے کی سب سے خطرناک شکل وہ ہے جو شناخت کے خلاف ہے۔ فلسطینیوں کی زبان عربی، ان کی تاریخ، ان کے شہروں کے نام، حتیٰ کہ ان کی کھانوں اور ملبوسات کو بھی صیہونی ثقافت میں ضم کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ یافا کے سنترے، القدس کی زیتون کی شاخیں، نابلس کی کُنافہ — یہ سب کچھ اب اسرائیلی شناخت میں ضم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔

اسرائیلی نصاب میں فلسطینی وجود کو سرے سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ فلسطینی بچوں کی کتابوں سے ان کی تاریخ مٹا دی گئی، دیہات کے نام بدلے گئے، حتیٰ کہ قبرستانوں پر بھی اسرائیلی بستیاں کھڑی کر دی گئیں۔ یہ سب کچھ ایک نسل کو ان کی جڑوں سے کاٹنے کے لیے کیا گیا تاکہ آنے والے وقت میں فلسطینی وجود ایک "ماضی کی کہانی" بن جائے۔
عالمی خاموشی اور مغربی حمایت

فلسطینی شناخت کے خلاف یہ جنگ صرف اسرائیل نہیں لڑ رہا۔ مغربی میڈیا، تعلیمی ادارے، اور سیاسی طاقتیں اس بیانیے کو پھیلا رہی ہیں کہ فلسطینی دہشت گرد ہیں اور اسرائیل ایک مظلوم ریاست ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے، اور جو فلسطینی اپنی شناخت بچانے کے لیے مزاحمت کرتے ہیں، انہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔
فلسطینی مزاحمت: شناخت کا دفاع

اس سب کے باوجود فلسطینی عوام، خواہ وہ غزہ میں ہوں یا مغربی کنارے میں، اپنی شناخت کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کے گیت، ان کی شاعری، ان کا لباس اور ان کی یادگاریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ مٹنے والے نہیں۔ محمود درویش جیسے شاعر، غسان کنفانی جیسے ادیب، اور شیخ جراح کے رہائشی — سب شناخت کی بقاء کی علامت ہیں۔

صیہونی نظریہ، درحقیقت، ایک استعماری ذہنیت کی جدید شکل ہے جس کا ہدف صرف زمین پر قبضہ نہیں بلکہ ایک قوم کی روح، اس کی شناخت، اس کا ماضی اور اس کا مستقبل چھیننا ہے۔ لیکن یہ نظریہ جتنا بھی طاقتور ہو، وہ ایک زندہ قوم کی مزاحمت اور اس کے عزم کو کبھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکتا۔


تاریخ خود کو دہرا رہی ہے



امریکہ کی کمزور قیادت، اسرائیل کی چالاکیاں اور فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں — تاریخ خود کو دہرا رہی ہے

دنیا میں طاقت صرف اسلحے یا معیشت کی بنیاد پر قائم نہیں رہتی، بلکہ اصل طاقت سمجھ داری، سیاسی تدبر اور چالاکیوں میں چھپی ہوتی ہے۔ اگر ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت امریکہ ہے، تو دوسری طرف اسرائیل ہے، جو اپنی چالاکی اور موقع پرستی سے ہمیشہ امریکہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ فلسطینی عوام کی قربانیاں اور ان کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافیاں اس تلخ حقیقت کی واضح مثال ہیں۔

دو ہزار ایک میں جب امریکہ نے افغانستان پر پوری طاقت سے حملہ کیا تو دنیا کو لگا کہ طالبان کی حکومت چند دنوں کی مہمان ہے۔ امریکہ کی ایئر پاور، نیٹو اتحادیوں کی شراکت اور جدید ترین ہتھیاروں کے باوجود طالبان کو ختم نہ کیا جا سکا۔ طالبان نے اس جنگ کو طول دے کر امریکہ کو ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا، جہاں سے نکلنا اس کے بس کی بات نہ رہی۔ بیس برس کی جنگ کے بعد امریکہ کو شرمندگی کے ساتھ افغانستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی، اور طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
ویت نام — بیس سال کی جنگ، امریکی ہزیمت

یہ کوئی پہلا موقع نہ تھا۔ انیس سو پچپن میں امریکہ نے ویت نام میں فوجی مداخلت کی اور سمجھا کہ وہ چند مہینوں میں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔ مگر بیس سال تک جاری رہنے والی اس خونی جنگ کا انجام امریکہ کی تاریخی شکست کی صورت میں نکلا۔ انیس سو پچہتر میں جب امریکہ کو ویت نام سے بھاگنا پڑا تو دنیا کو اندازہ ہو گیا کہ صرف ہتھیار طاقت کی ضمانت نہیں ہوتے۔
اسرائیل کی پرانی چالاکیاں اور فلسطینیوں سے غداری

اسرائیل ہمیشہ چالاک سفارت کاری اور امریکہ کی طاقت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا آیا ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ کی گئی وعدہ خلافیاں اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

انیس سو سینتالیس میں اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں فلسطینیوں کو اپنی ریاست دینے کا وعدہ کیا گیا، مگر اسرائیل نے قبضہ کر کے فلسطینی علاقوں پر اپنی بستیوں کی تعمیر شروع کر دی۔ انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غزہ، گولان کی پہاڑیاں اور مصر کے کئی علاقے ہتھیا لیے۔ فلسطینیوں کو نہ صرف ان کی سرزمین سے محروم کیا گیا بلکہ انہیں بے گھر، مہاجر اور مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔

امریکہ نے ہر بار فلسطینیوں سے وعدہ کیا کہ وہ دو ریاستی حل کا حامی ہے، مگر حقیقت میں امریکہ ہمیشہ اسرائیل کی پشت پناہی کرتا رہا۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، فلسطینی ریاست کے قیام کی باتیں اور دو ریاستی حل — سب کاغذوں کی حد تک محدود رہ گئے، جبکہ اسرائیل زمینی حقائق پر اپنی مرضی مسلط کرتا رہا۔
ایران، امریکہ اور اسرائیل — ایک اور سیاسی چال

دو ہزار پچیس میں ایک بار پھر دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل نے امریکہ کو اپنے مفاد کے لیے کیسے استعمال کیا۔ پندرہ جون دو ہزار پچیس کو عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران اور امریکہ کے درمیان اہم مذاکرات طے تھے، جنہیں مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی آخری امید سمجھا جا رہا تھا۔

مگر اسرائیل نے ہمیشہ کی طرح چالاکی دکھاتے ہوئے تیرہ جون دو ہزار پچیس کو ایران پر حملہ کر دیا اور تمام سفارتی کوششوں کو روند ڈالا۔
ڈونلڈ ٹرمپ — کمزور قیادت کی علامت

ڈونلڈ ٹرمپ کی کمزور اور پل پل بیانئے نے امریکہ کو مزید بے بس ثابت کیا۔ انیس جون دو ہزار پچیس کو انہوں نے وائٹ ہاؤس میں پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کے بعد اعلان کیا کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان سیز فائر کے لیے دو ہفتے انتظار کریں گے۔ مگر اسرائیل نے ان کے اعلان کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے پہلے ہی ایران پر حملہ کر دیا۔

مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ اکیس جون دو ہزار پچیس کو پاکستان کی حکومت نے ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا، اور صرف اگلے دن یعنی بائیس جون کو ٹرمپ خود اسرائیل اور ایران کی جنگ میں عملی طور پر کود پڑے۔
نتیجہ — طاقت، کمزوری اور چالاکی کی کہانی

تاریخ بار بار بتاتی ہے کہ فوجی طاقت ہی سب کچھ نہیں۔ امریکہ اپنی عسکری برتری کے باوجود سیاسی میدان میں کمزور نظر آتا ہے۔ افغانستان اور ویت نام کی شکستیں، فلسطینیوں سے وعدہ خلافیاں، اور اسرائیل کی بار بار کی چالاکیاں اس کی واضح مثال ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل، جو رقبے اور آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے، اپنی چالاک حکمت عملی اور امریکہ کو استعمال کرنے کی مہارت سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی مرضی مسلط کرتا جا رہا ہے۔

فلسطینی عوام آج بھی ان وعدوں کی تکمیل کے منتظر ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل نے بارہا کیے مگر کبھی پورے نہ کیے۔ عالمی طاقتوں کی اس منافقت نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں بے چینی اور بد اعتمادی کو جنم دیا ہے۔


ہفتہ، 13 ستمبر، 2025

مالی خوشحالی کا راز



چین کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انقلاب کے بعد قومیں کس طرح مشکلات کا سامنا کر کے ترقی کی راہیں کھول سکتی ہیں۔ 1949 میں جب عوامی جمہوریہ چین وجود میں آیا تو یہ ملک غربت، بھوک اور پسماندگی میں گھرا ہوا تھا۔ آبادی کی اکثریت کسانوں پر مشتمل تھی جو جاگیردارانہ نظام کے ظلم کا شکار تھے، صنعت نہ ہونے کے برابر تھی اور تعلیم و صحت عام انسان کی پہنچ سے باہر تھیں۔ ابتدائی برسوں میں کمیونسٹ حکومت نے گریٹ لیپ فارورڈ اور کلچرل ریولوشن جیسے سخت تجربات کیے جن کے نتیجے میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد بھوک، غربت اور موت کا شکار ہوئے اور عوام کی حالت مزید بگڑ گئی۔

اصل تبدیلی اُس وقت آئی جب ماؤ کے بعد ڈینگ ژیاوپنگ نے قیادت سنبھالی اور یہ سوچ سامنے رکھی کہ بلی کالی ہو یا سفید، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ چوہے پکڑتی ہے۔ اس فلسفے کے تحت چین نے سخت کمیونسٹ معیشت کو ترک کر کے مارکیٹ اکنامی کے اصول اپنانے شروع کیے۔ کسانوں کو اپنی پیداوار بیچنے کی آزادی ملی، غیر ملکی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا گیا، نئے صنعتی زون قائم کیے گئے اور تعلیم و سائنسی تحقیق پر سرمایہ کاری کی گئی۔

ان اصلاحات کے اثرات عوام کی زندگی میں نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے۔ کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے اوپر آئے، شہروں میں روزگار کے مواقع بڑھے اور دیہات میں کسان خوشحال ہوئے۔ صحت اور تعلیم پر سرمایہ کاری نے شرح خواندگی اور اوسط عمر میں اضافہ کیا، خواتین کو تعلیم اور ملازمت کے بہتر مواقع ملے اور بنیادی ڈھانچے میں حیرت انگیز ترقی نے چین کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔

چند دہائیوں کے اندر چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے طور پر ابھرا اور تقریباً 80 کروڑ افراد کو غربت سے نکالنے کا کارنامہ سرانجام دیا جو انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آج چین جدید ٹیکنالوجی، خلائی پروگرام، ہائی اسپیڈ ٹرین اور ڈیجیٹل کرنسی جیسے شعبوں میں دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔

تاہم یہ ترقی اپنی قیمت بھی رکھتی ہے۔ چین میں آج بھی سیاسی آزادی محدود ہے، کمیونسٹ پارٹی کا سخت کنٹرول قائم ہے اور اظہارِ رائے پر قدغن موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر صرف معاشی اور سماجی حالات کو دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انقلاب کے بعد چین کی قیادت نے ایسی لچکدار پالیسیاں اپنائیں جنہوں نے عوامی زندگی کو حقیقی معنوں میں بہتر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج چین کو دنیا کی سب سے بڑی کامیاب عوامی ترقی کی کہانی کہا جاتا ہے۔

صفوں میں خلا اور شیطان کی رسائی



صفوں کے خلا اور شیطانی وسوسے
نماز صرف ایک انفرادی عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل اجتماعی تربیت ہے۔ جب ہم جماعت کے ساتھ صف در صف کھڑے ہوتے ہیں، تو درحقیقت ہم نظم، اتحاد اور ہم آہنگی کی ایک عملی تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے نہ صرف جماعت کے ساتھ نماز کی ترغیب دی، بلکہ صفوں کی درستگی، خلا پُر کرنے، اور تراص (قریب قریب کھڑے ہونے) پر خاص تاکید فرمائی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"کیا تم صف بندی اس طرح نہیں کرتے جیسے فرشتے اپنے رب کے سامنے کرتے ہیں؟"
صحابہؓ نے عرض کیا: "فرشتے کیسے صف بناتے ہیں؟"
ارشاد ہوا: "وہ پہلی صف مکمل کرتے ہیں اور صفوں میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔"
دراصل، جب ہم صفوں میں خلا چھوڑتے ہیں، فاصلے بناتے ہیں یا بے ترتیبی برتتے ہیں، تو یہ محض جسمانی معاملہ نہیں رہتا بلکہ روحانی خرابی کی علامت بن جاتا ہے۔ علمائے کرام اس حدیث کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ صفوں میں خلا چھوڑنا دراصل شیطان کے لیے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ وہ ان خلاؤں سے وسوسوں، غفلت اور بدگمانی کے تیر چلاتا ہے، اور نمازی کے دل کو عبادت کی روح سے کاٹ دیتا ہے۔
یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہے کہ "شیطان خود صف کے خلا میں آ کر نماز پڑھتا ہے"۔ کوئی مستند حدیث ایسی نہیں۔ شیطان نماز نہیں پڑھتا، وہ تو عبادت میں خلل ڈالنے والا ہے۔ وہ انہی خلاؤں کو استعمال کرتا ہے جہاں دل بکھرے ہوتے ہیں، صفیں کمزور ہوتی ہیں اور توجہ بٹی ہوتی ہے۔
صفوں کی ترتیب سنت مؤکدہ ہے، اور جان بوجھ کر صف میں خلا چھوڑنا مکروہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ فقہا—حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی—سب اس بات پر متفق ہیں کہ صفوں میں تراص یعنی قریب قریب کھڑے ہونا ضروری ہے۔ بعض خلفائے راشدین خود صفیں درست کیا کرتے تھے تاکہ نظم و ضبط کی عملی مثال قائم ہو۔
آج ہماری مساجد میں اکثر یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ امام تکبیر کہہ چکا ہوتا ہے، اور صفوں میں خلا موجود ہوتا ہے۔ نمازی اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں، اور بعض تو یوں کھڑے ہوتے ہیں کہ کندھوں اور ایڑیوں کے درمیان دو دو فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ کیا یہی ہے وہ نظم جس کا سبق اسلام ہمیں دیتا ہے؟
یاد رکھیے، مسجد کا نظم معاشرے کے نظم کی بنیاد ہے۔ جب ہم صفوں کو سیدھا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، تو دلوں میں بھی قربت آتی ہے۔ اس سے نہ صرف نماز میں خشوع پیدا ہوتا ہے، بلکہ وحدتِ امت کا عملی مظاہرہ بھی سامنے آتا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ:
صف میں خلا دیکھیں تو آگے بڑھ کر پُر کریں
کندھے سے کندھا نرم انداز سے ملائیں
بچوں اور بزرگوں کے ساتھ نرمی برتیں
ایہ محض ایک ظاہری ترتیب نہیں، بلکہ روحانی ربط کی علامت ہے۔ اگر ہم مساجد میں صفیں سیدھی کرنے کا شعور پیدا کر لیں، تو شاید ہمارے معاشرتی اور فکری انتشار میں بھی کچھ کمی آ جائے۔
شیطان کو صفوں میں جگہ نہ دیں۔
اپنے دل، اپنی صف، اور اپنی امت کو متحد رکھیں۔
نماز کو صرف فرض نہ سمجھیں، اس کو ایک اجتماعی فریضہ اور روحانی تربیت کا مرکز بنائیں۔
یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کی رضا، اتحادِ امت، اور روحانی سکون کی طرف لے جاتا ہے۔