ہفتہ، 13 ستمبر، 2025

صفوں میں خلا اور شیطان کی رسائی



صفوں کے خلا اور شیطانی وسوسے
نماز صرف ایک انفرادی عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل اجتماعی تربیت ہے۔ جب ہم جماعت کے ساتھ صف در صف کھڑے ہوتے ہیں، تو درحقیقت ہم نظم، اتحاد اور ہم آہنگی کی ایک عملی تصویر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے نہ صرف جماعت کے ساتھ نماز کی ترغیب دی، بلکہ صفوں کی درستگی، خلا پُر کرنے، اور تراص (قریب قریب کھڑے ہونے) پر خاص تاکید فرمائی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"کیا تم صف بندی اس طرح نہیں کرتے جیسے فرشتے اپنے رب کے سامنے کرتے ہیں؟"
صحابہؓ نے عرض کیا: "فرشتے کیسے صف بناتے ہیں؟"
ارشاد ہوا: "وہ پہلی صف مکمل کرتے ہیں اور صفوں میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔"
دراصل، جب ہم صفوں میں خلا چھوڑتے ہیں، فاصلے بناتے ہیں یا بے ترتیبی برتتے ہیں، تو یہ محض جسمانی معاملہ نہیں رہتا بلکہ روحانی خرابی کی علامت بن جاتا ہے۔ علمائے کرام اس حدیث کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ صفوں میں خلا چھوڑنا دراصل شیطان کے لیے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ وہ ان خلاؤں سے وسوسوں، غفلت اور بدگمانی کے تیر چلاتا ہے، اور نمازی کے دل کو عبادت کی روح سے کاٹ دیتا ہے۔
یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہے کہ "شیطان خود صف کے خلا میں آ کر نماز پڑھتا ہے"۔ کوئی مستند حدیث ایسی نہیں۔ شیطان نماز نہیں پڑھتا، وہ تو عبادت میں خلل ڈالنے والا ہے۔ وہ انہی خلاؤں کو استعمال کرتا ہے جہاں دل بکھرے ہوتے ہیں، صفیں کمزور ہوتی ہیں اور توجہ بٹی ہوتی ہے۔
صفوں کی ترتیب سنت مؤکدہ ہے، اور جان بوجھ کر صف میں خلا چھوڑنا مکروہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ فقہا—حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی—سب اس بات پر متفق ہیں کہ صفوں میں تراص یعنی قریب قریب کھڑے ہونا ضروری ہے۔ بعض خلفائے راشدین خود صفیں درست کیا کرتے تھے تاکہ نظم و ضبط کی عملی مثال قائم ہو۔
آج ہماری مساجد میں اکثر یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ امام تکبیر کہہ چکا ہوتا ہے، اور صفوں میں خلا موجود ہوتا ہے۔ نمازی اپنی جگہ سے ہلنے کو تیار نہیں، اور بعض تو یوں کھڑے ہوتے ہیں کہ کندھوں اور ایڑیوں کے درمیان دو دو فٹ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ کیا یہی ہے وہ نظم جس کا سبق اسلام ہمیں دیتا ہے؟
یاد رکھیے، مسجد کا نظم معاشرے کے نظم کی بنیاد ہے۔ جب ہم صفوں کو سیدھا کرتے ہیں، ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں، تو دلوں میں بھی قربت آتی ہے۔ اس سے نہ صرف نماز میں خشوع پیدا ہوتا ہے، بلکہ وحدتِ امت کا عملی مظاہرہ بھی سامنے آتا ہے۔
ہمارا فرض ہے کہ:
صف میں خلا دیکھیں تو آگے بڑھ کر پُر کریں
کندھے سے کندھا نرم انداز سے ملائیں
بچوں اور بزرگوں کے ساتھ نرمی برتیں
ایہ محض ایک ظاہری ترتیب نہیں، بلکہ روحانی ربط کی علامت ہے۔ اگر ہم مساجد میں صفیں سیدھی کرنے کا شعور پیدا کر لیں، تو شاید ہمارے معاشرتی اور فکری انتشار میں بھی کچھ کمی آ جائے۔
شیطان کو صفوں میں جگہ نہ دیں۔
اپنے دل، اپنی صف، اور اپنی امت کو متحد رکھیں۔
نماز کو صرف فرض نہ سمجھیں، اس کو ایک اجتماعی فریضہ اور روحانی تربیت کا مرکز بنائیں۔
یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں اللہ کی رضا، اتحادِ امت، اور روحانی سکون کی طرف لے جاتا ہے۔

قربت اور دوری



پاکستان میں مذہبیت کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد اگر ہم اسے دوسرے مسلم ممالک کے ساتھ تقابلی تناظر میں دیکھیں تو یہ تضادات اور بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں چار لاکھ سے زائد مساجد اور تیس سے پینتیس ہزار مدارس کی موجودگی کو دین سے قربت کا انعام سمجھا جا سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود معاشرہ اخلاقی و سماجی انحطاط کا شکار ہے۔

مثال کے طور پر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک میں مذہبی علامات بھی موجود ہیں، لیکن ساتھ ہی ریاستی سطح پر قوانین کی سختی اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ سڑکوں پر نظم و ضبط، لین کا احترام اور سماجی انصاف کی فراہمی عام زندگی میں دکھائی دیتی ہے۔ وہاں کے معاشرتی ڈھانچے نے مذہبیت کو صرف رسومات تک محدود نہیں رکھا بلکہ عملی سطح پر قانون اور اخلاقیات کو مضبوطی سے قائم کیا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں مذہبی رسومات کی کثرت تو نظر آتی ہے لیکن ان کے اثرات روزمرہ زندگی میں نہیں جھلکتے۔

ترکی کی مثال بھی یہاں قابلِ ذکر ہے۔ وہاں جدیدیت اور مذہبیت کے امتزاج نے ایک ایسا معاشرتی ماڈل تشکیل دیا ہے جہاں مذہب کو انفرادی زندگی کا حصہ بنایا گیا ہے مگر ریاستی ادارے بنیادی طور پر قانون اور انصاف کی بنیاد پر چلتے ہیں۔ اس ماڈل نے وہاں کرپشن اور سماجی بے نظمی کو ایک حد تک محدود رکھا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں تضادات کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مذہبی ادارے اور مظاہر تو بڑھتے جا رہے ہیں مگر ساحل جیسی تنظیموں کی رپورٹیں سالانہ ہزاروں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے لا رہی ہیں۔ اسی طرح خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی اور کرپشن کے اعداد و شمار عالمی سطح پر پاکستان کو ایک پسماندہ تصویر میں پیش کرتے ہیں۔

یہ سوال مزید شدت اختیار کر لیتا ہے کہ کیا ہم واقعی دین کے قریب ہیں یا دین سے دور؟ اگر قربت صرف مساجد اور مدارس کی تعداد سے ناپی جائے تو شاید ہم دنیا کے سب سے مذہبی معاشروں میں شامل ہوں۔ لیکن اگر معیار قرآن و سنت کے مطابق اعمال، اخلاق، عدل اور انصاف ہے تو پھر ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہمارے اعمال ہمیں دین سے قریب نہیں بلکہ دین سے دور کر رہے ہیں۔

یوں بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اصل دین داری کا معیار ظاہری مذہبیت نہیں بلکہ قانون، انصاف اور اخلاقیات کا عملی نفاذ ہے۔ جب تک یہ پہلو ہمارے معاشرے میں مضبوط نہیں ہوتے، ہم صرف دعووں اور رسومات کی سطح پر مذہبیت کے قائل رہیں گے مگر حقیقی دین سے دوری ہمارا مقدر بنی رہے گی۔

پاکستان — وسائل کی سرزمین، امکانات کی دنیا



پاکستان دنیا کے اُن خوش نصیب ممالک میں شمار ہوتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بے شمار وسائل اور قدرتی نعمتوں سے نوازا ہے۔ اگرچہ رقبے کے لحاظ سے یہ روس سے دس گنا چھوٹا ہے، لیکن اس کا نہری نظام روس کے مقابلے میں تین گنا بڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنی زرخیز زمین اور محنتی عوام کی بدولت دنیا کی زرعی اور معدنی پیداوار میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

زرعی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان مختلف اجناس اور پھلوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ مٹر کی پیداوار میں دوسرا، خوبانی، کپاس اور گنے میں چوتھا، دودھ اور پیاز میں پانچواں، کھجور میں چھٹا، آم اور گندم میں ساتواں، چاول میں آٹھواں اور کینو و مالٹے میں دسویں نمبر پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صنعتی اور معدنی شعبوں میں بھی پاکستان کسی سے کم نہیں۔ کوئلے کے ذخائر کے اعتبار سے دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے، تانبے میں ساتویں اور ایشیا میں گیس کے ذخائر میں چھٹے نمبر پر ہے۔ سی این جی کے استعمال میں پاکستان دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ دفاعی اعتبار سے یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔

پاکستان کے برقی آلات، پنکھے اور سینٹری مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں پاکستانی انجینئرز اور مزدوروں کی مہارت کو مشرقِ وسطیٰ سے یورپ تک تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی قیمتی زرِمبادلہ کا ذریعہ ہے۔ اسی طرح دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین کی کاٹیج انڈسٹری گھریلو معیشت کا سہارا بنی ہوئی ہے۔ کڑھائی، دستکاری، قالین بافی اور گھریلو مصنوعات نہ صرف خواتین کو بااختیار بنا رہی ہیں بلکہ یہ اشیا دنیا بھر میں برآمد ہو کر پاکستان کی شناخت میں اضافہ کر رہی ہیں۔

پاکستان کی سب سے بڑی طاقت اس کے نوجوان ہیں جو کل آبادی کا تقریباً 65 فیصد ہیں۔ اگر یہ نوجوان بے روزگار اور مایوسی کا شکار ہوں تو یہ ملک پر بوجھ ہیں، لیکن اگر ان کی توانائی کو صحیح سمت دی جائے تو یہی نوجوان پاکستان کی ترقی کا سب سے بڑا سرمایہ بن سکتے ہیں۔ تعلیم، ٹیکنالوجی، صنعت، زراعت اور کاروبار میں ان کی شمولیت ملک کو خوشحال بنانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔

ترقی کا راستہ شکایات اور تنقید سے نہیں بلکہ محنت، درست سمت کے انتخاب اور مسلسل جدوجہد سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا فرمان "کام، کام اور کام" دراصل ایک نعرہ نہیں بلکہ کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ اگر ہم اپنی توانائیاں مثبت جدوجہد میں لگائیں، اپنی صلاحیتوں کو صحیح سمت میں استعمال کریں اور قومی وسائل کو منصفانہ طور پر بروئے کار لائیں تو پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستان اپنی زمین کے وسائل اور افرادی قوت دونوں کے اعتبار سے دنیا کا ایک باصلاحیت ملک ہے۔ اصل دولت اس کے لوگ ہیں۔ جب یہ قوم تنقید سے آگے بڑھ کر محنت اور جدوجہد کو اپنا شعار بنائے گی تو پاکستان نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال بنائے گا بلکہ دنیا میں ایک باوقار اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرے گا۔

ملتانی عامل سے انوکھی ملاقات



جنات اور ان کی طویل العمری صدیوں سے انسانی تجسس کا حصہ رہی ہے۔ قرآنِ کریم میں جنات کی تخلیق اور ان کی پوشیدہ زندگی کا ذکر تو ہے، مگر ان کی عمروں کی حد بندی کے بارے میں کوئی صریح بات نہیں ملتی۔ البتہ عوامی قصوں، صوفی حلقوں اور بزرگوں کی محفلوں میں جنات کی ہزاروں سالہ عمروں کے قصے اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
انہی حکایات میں ابلیس کی نسل سے تعلق رکھنے والے ہامہ بن ہیم بن لاقیس بن ابلیس کا ذکر بھی ملتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں زندہ تھا، کئی انبیائے کرام کی صحبت میں شامل رہا، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں اس نے بارگاہِ رسالت میں سلام پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ البتہ ان باتوں کی کوئی شرعی یا تاریخی حیثیت نہیں، یہ محض صوفیانہ روایات اور عوامی قصے ہیں۔
ایسا ہی ایک دلچسپ قصہ چند دن پہلے ہمارے ساتھ بھی پیش آیا، جو کسی حکایت سے کم نہ تھا۔
راولپنڈی صدر کا علاقہ ویسے جدید طرز کی عمارتوں اور ماڈرن دکانوں سے بھرا ہوا ہے، لیکن اسی صدر میں ایک صاف ستھرا، جدید طرز کا کافی شاپ نما چائے خانہ بھی ہے، جس کا ماحول کسی بڑے شہر کی کافی شاپ جیسا تھا۔ شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں، سفید اور گہرے سرمئی رنگ کی جدید فرنیچر، ایل ای ڈی لائٹس کی مدھم روشنی، میز پر رکھے خوبصورت مینو کارڈز، اور پیش خدمت عملہ انتہائی مہذب اور یونیفارم میں ملبوس۔ یہاں بیٹھ کر چائے پینا کسی پنج ستارہ ہوٹل کی کیفے میں بیٹھنے کا احساس دلاتا ہے۔
میں اور میرا بچپن کا دوست ناضر اس ہوٹل میں اکثر گپ شپ کے لیے بیٹھتے ہیں۔ اس دن بھی ہم حسبِ معمول چائے اور بسکٹ منگوا کر ملکی سیاست سے لے کر راولپنڈی کی پرانی کہانیوں تک ہر موضوع پر بات کر رہے تھے کہ اچانک دروازے سے ایک شخص داخل ہوا۔
لمبا قد، دبلا پتلا جسم، صاف ستھرا لباس، کندھے پر سفید چادر، ہاتھ میں سیاہ رنگ کی نفیس تسبیح، اور آنکھوں میں عجیب سا ٹھہراؤ اور گہرا اعتماد۔ انداز ایسا جیسے کوئی پڑھا لکھا، سلجھا ہوا صوفی ہو۔
اس نے خاموشی سے بھرے ہوئے ہال کا جاہزہ لیا۔ ہماری میز پر دو کرسیاں خالی تھیں ۔ ناصر کو سلام کر کے اور بیٹھنے کی اجازت لے کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر خاموش رہا، پھر ناضر نے خود ہی پہل کی، "جناب، آپ کا تعلق بھی ملتان سے ہے؟ لہجہ کچھ ایسا لگ رہا ہے۔"
وہ مسکرایا، تسبیح کے دانے آہستہ آہستہ گھماتے ہوئے بولا، "جی، میرا تعلق ملتان سے ہے۔ بس راولپنڈی کے ٹنچ بھاٹہ جا رہا ہوں۔ کسی پر جن کا سایہ ہے، علاج کرنا ہے۔"
ناضر کے چہرے پر دلچسپی بڑھ گئی۔ میں بھی چونکا، کیونکہ ٹنچ بھاٹہ کی ایسی کہانیاں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔
بات چیت آگے بڑھی تو ملتانی عامل نے بڑے سکون اور اعتماد سے کہا، "میرے قبضے میں ایک ایسا جن ہے جس کی عمر دو ہزار سال سے زیادہ ہے۔"
ناضر نے جھٹ سے سوال داغ دیا، "دو ہزار سال؟ واہ بھئی! اتنی عمر میں تو اس نے آدھی دنیا گھوم لی ہو گی۔ بتاؤ، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے یا نہیں؟"
ملتانی عامل نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "اس جن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ضرور سنا تھا، مگر اس وقت مسلمان نہیں ہوا تھا، اور نہ ہی ملاقات ہوئی تھی۔ بعد میں ایمان لایا۔ اب میرا مددگار ہے، جہاں بلاؤں، آ جاتا ہے۔"
ہم دونوں چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئے۔ ماحول میں ایک عجب سنجیدگی چھا گئی تھی۔ سچ جھوٹ اپنی جگہ، مگر ملتانی عامل کے انداز میں اتنا وقار اور ٹھہراؤ تھا کہ بات کو مذاق میں اڑا دینا مشکل لگ رہا تھا۔
چائے ختم ہوئی، ملتانی عامل اٹھا، شائستگی سے سلام کیا اور دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ باہر کی ہوا کے ساتھ اس کی سفید چادر لہرا رہی تھی۔ ناضر نے میری طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا، "یار، بندہ سچا تھا یا جھوٹا، مگر کہانی زبردست ہے!"
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "پنڈی صدر میں نہ بیٹھو تو زندگی کی رنگینیوں کا اندازہ نہیں ہوتا۔ اب جن کا علاج بھی ٹنچ بھاٹہ میں ہوتا ہے۔"
چائے کی خالی پیالیوں کے درمیان، ملتانی عامل کی باتیں اور جنات کی طویل العمری کی حکایتیں، سب ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اصل حقیقت کیا ہے، کون جانے؟ بس یہی سمجھ آیا کہ قصہ ہو یا حقیقت، عقیدے اور کہانی کے درمیان فرق رکھنا ہی دانشمندی ہے۔

خاموش خطرہ




خاموش خطرہ:

بھارتی برادری کو دنیا کی سب سے بڑی اور محنتی کمیونٹی مانا جاتا ہے، جس نے خلیجی ممالک کی تعمیر، ٹیکنالوجی، تجارت اور سکیورٹی جیسے شعبوں میں دہائیوں تک نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سعودی عرب اور عمان کی مزدوری منڈی ہو یا متحدہ عرب امارات اور قطر کی ٹیکنالوجی و مالیاتی صنعت، بھارتی کارکن ہمیشہ ترقی اور استحکام کا حصہ رہے ہیں۔ مگر اس تعاون کے ساتھ ایک پوشیدہ خطرہ بھی جنم لے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ کمیونٹی سیاسی یا نظریاتی طور پر استعمال ہو جائے تو کیا یہ میزبان معاشروں کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اس کا جواب اب زیادہ تر اثبات میں دیا جا رہا ہے۔

بھارت کی موجودہ حکومت اور اس کی نظریاتی تنظیمیں ہندو قوم پرستی کو شدت پسندی کی شکل میں دنیا بھر میں پھیلا رہی ہیں۔ اس کا اثر خلیج میں مقیم بھارتی برادری پر بھی پڑ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر اسلام مخالف اور اسرائیل نواز بیانیہ پھیلانا اسی رجحان کا مظہر ہے۔ 2020 میں متحدہ عرب امارات نے ایسے کئی بھارتی شہری ملک بدر کیے جنہوں نے مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کیا تھا۔ کچھ بھارتی ڈاکٹر اور انجینئر بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ رویہ نہ صرف خلیجی معاشروں کی مذہبی حساسیت کے خلاف ہے بلکہ فلسطین کے مسئلے پر خلیج کے تاریخی موقف کو بھی متاثر کرنے کی کوشش ہے۔

خطرہ صرف فرقہ وارانہ مواد تک محدود نہیں۔ خلیج میں بھارتی کمیونٹی کے کچھ افراد حساس اداروں میں ملازمت کرتے ہیں، جیسے بندرگاہوں، سکیورٹی یا آئی ٹی کے شعبے۔ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ افراد معلومات نئی دہلی یا اس کے اتحادیوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ایران نے اس حوالے سے پہلے ہی شکوک ظاہر کیے تھے، اور خلیجی ریاستوں میں بھی ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ یہ رویہ براہِ راست میزبان ملک کی خودمختاری اور داخلی سلامتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھارتی برادری کے بعض افراد کا کردار بھی تشویشناک ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران دبئی اور دوحہ میں مقیم بھارتی صارفین نے پرو اسرائیل بیانیہ پھیلایا جس پر عوامی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ اس طرح کے اقدامات خلیجی ممالک کی متوازن خارجہ پالیسی اور داخلی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

آنے والے دنوں میں یہ خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ فلسطین کے حق میں کھڑے ممالک جیسے کویت اور قطر زیادہ دباؤ میں آ سکتے ہیں، ایران اور اسرائیل کی کشیدگی میں بھارتی کارکن مشکوک یا ہدف بن سکتے ہیں، اور اگر خلیجی ممالک نے اسلام مخالف رویوں کے خلاف سخت قوانین بنائے تو سب سے زیادہ اثر بھارتی کمیونٹی پر پڑے گا۔

بھارتی برادری نے ہمیشہ خلیجی ممالک کے لیے ترقی اور تنوع کا ذریعہ فراہم کیا ہے۔ لیکن اگر ہندوتوا نظریہ اور خفیہ سرگرمیاں بے قابو ہو گئیں تو یہی برادری استحکام کے بجائے عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہے۔ خلیجی ممالک کو چاہیے کہ وہ بھارتی کارکنوں کی محنت سے ضرور فائدہ اٹھائیں مگر سیاسی، فرقہ وارانہ اور جاسوسی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں لگائیں۔ بھارت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ تارکینِ وطن کی سفارت کاری کو انتہا ۔پسندی کا آلہ نہیں بنایا جا سکتا