پیر، 23 جون، 2025

ٹرمپ… امن کے داعی سے جارح کا مہرہ




دنیا کی تاریخ میں طاقتور عہدے کبھی کبھی کمزور اور غیر سنجیدہ افراد کے ہاتھ آ جاتے ہیں، جن کے فیصلے نہ صرف ان کے ملک بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور قیادت اسی افسوسناک مثال کا عملی روپ ہے، جو اپنے متضاد بیانات، غیر مستقل مزاجی اور سیاسی کمزوری کے باعث نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کو ایک سنگین بحران کی جانب دھکیل چکے ہیں۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بڑی بڑی باتیں کیں۔ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ امریکہ کو غیر ضروری جنگوں سے نکالیں گے، مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کریں گے، اور عالمی سیاست میں سفارت کاری کو ترجیح دیں گے۔ مگر اقتدار میں آتے ہی ان کے تمام وعدے دھوئیں میں اُڑ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیرِاعظم بنیامن نیتن یاہو کے ہاتھوں میں ایک کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔

ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی حمایت، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا متنازع فیصلہ، اور عرب دنیا میں عدم استحکام — یہ سب نیتن یاہو کی دیرینہ خواہشات تھیں جو ٹرمپ کی کمزور قیادت کے سائے میں عملی جامہ پہن گئیں۔

دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جیسے ہی پندرہ جون کو ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی امید پیدا ہوئی، اسرائیل نے تیرہ جون کو ایران پر حملہ کر دیا۔ ٹرمپ کا سیز فائر کا وعدہ ایک مذاق بن کر رہ گیا اور اگلے ہی دن ٹرمپ خود جنگ میں کود گئے۔ یہ واضح پیغام تھا کہ امریکہ اب آزاد ریاست کم اور اسرائیل کی سیاسی چالوں کا آلۂ کار زیادہ بن چکا ہے۔

یہ حقیقت صرف مشرقِ وسطیٰ تک محدود نہیں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں روس اور یوکرین کی جنگ بھی شدت اختیار کرتی گئی۔ جہاں توقع تھی کہ امریکہ ایک غیر جانب دار ثالثی کردار ادا کرے گا، وہاں روس نے امریکی مداخلت کا الزام لگا کر اپنے تباہ شدہ جنگی جہازوں کی ذمہ داری امریکہ پر ڈال دی۔ ٹرمپ کی کمزور حکمت عملی کے باعث عالمی سطح پر امریکہ کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔

جنوبی ایشیا کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو یہاں بھی ٹرمپ کی خارجہ پالیسی نے خطرناک اثرات مرتب کیے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی، اور پاکستانی عوام کے ذہنوں میں یہ شک جڑ پکڑتا گیا کہ بھارت کو اسرائیل کی خفیہ مدد حاصل ہے۔ اور اسرائیل، امریکہ کی آشیر باد کے بغیر کسی خطے میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ ماضی میں بھی بھارت اور اسرائیل کی دفاعی شراکت داری رہی ہے، مگر ٹرمپ کے دور میں اس تعاون کو غیر معمولی وسعت ملی، جس نے خطے میں طاقت کا توازن مزید بگاڑ دیا۔

ٹرمپ کی شخصیت میں نہ سیاسی بلوغت ہے، نہ عالمی سطح کی سمجھ بوجھ۔ ان کے فیصلے محض ذاتی مفادات اور وقتی سیاسی فائدے کے گرد گھومتے ہیں۔ نیتن یاہو جیسے چالاک سیاست دانوں نے ٹرمپ کی اسی کمزوری کو خوب استعمال کیا اور امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا مہرہ بنا کر رکھ دیا۔

فلسطینیوں کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل کی وعدہ خلافیاں ایک بار پھر کھل کر سامنے آئیں۔ انیس سو سینتالیس میں فلسطینی ریاست کے قیام کا وعدہ، انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیلی قبضہ، ہر دور میں فلسطینی عوام سے فریب اور دھوکہ، اور اب ٹرمپ کے دور میں ان کے تمام حقوق روند ڈالنے کی کھلی اجازت — یہ سب دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ ٹرمپ کمزور صدر ہیں یا نہیں، سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اتنی سادہ لوح ہے کہ یہ حقیقت نظر انداز کرے کہ امریکہ اب ایک خود مختار سپر پاور نہیں رہا بلکہ اسرائیل کی چالاکیوں کا آلۂ کار بن چکا ہے؟

دنیا میں جب بھی کوئی طاقتور ملک کمزور قیادت کے ہاتھ آتا ہے تو اس کے اثرات صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہتے بلکہ پوری دنیا اس کی قیمت چکاتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کی آگ، روس اور یوکرین کی کشیدگی، جنوبی ایشیا میں بڑھتا ہوا تناؤ، اور فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی — یہ سب ٹرمپ کی کمزوریوں اور اسرائیل کی چالاکیوں کا نتیجہ ہے۔


اتوار، 22 جون، 2025

ایران






ایران پر حالیہ امریکی حملے نے مشرقِ وسطیٰ کی فضا کو ایک بار پھر بارود آلود کر دیا ہے۔ یہ حملہ اچانک نہیں تھا، بلکہ ایک منظم منصوبے کا تسلسل ہے جس کا آغاز پہلے اسرائیلی اشتعال انگیزی سے ہوا، پھر یورپی یونین کے نام نہاد سفارتی مشوروں سے، اور آخر میں امریکہ کی کھلی عسکری جارحیت سے۔

ایران کو پہلے مذاکرات کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ یورپی یونین نے ثالثی کا لبادہ اوڑھ کر ایران کو جھوٹی امیدوں میں الجھائے رکھا۔ اسی دوران اسرائیل مسلسل اشتعال انگیز اقدامات کرتا رہا، ایرانی سائنسدانوں کے قتل، شام میں ایرانی تنصیبات پر حملے، اور پراکسی جنگوں کا میدان گرم رکھ کر تہران کو مسلسل دفاعی پوزیشن میں دھکیلتا رہا۔ ایران نے پھر بھی تحمل کا راستہ اختیار کیا اور دنیا کو یقین دلایا کہ وہ جنگ نہیں، امن کا خواہاں ہے۔

مگر امن کی امید اس وقت کرچی کرچی ہو گئی جب امریکہ نے فوردو، نطنز اور اصفہان جیسے ایران کے تین حساس ترین جوہری مراکز پر حملہ کر دیا۔ ان حملوں کا مقصد نہ صرف ایران کی ایٹمی صلاحیت پر ضرب لگانا تھا بلکہ یہ ایران کو عالمی سطح پر کمزور کرنے کی ایک کوشش بھی تھی۔

حیرت انگیز طور پر، ایران کی نیشنل نیوکلیئر سیفٹی سسٹم سینٹر نے اعلان کیا کہ ان حملوں کے باوجود کسی قسم کی تابکار آلودگی یا جوہری مواد کا اخراج نہیں ہوا، کیونکہ حساس مواد پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ یہ اعلان نہ صرف ایران کی تکنیکی مہارت کا ثبوت ہے بلکہ اس کے اس دیرینہ دعوے کو بھی تقویت دیتا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

ایران نے حملے کے فوری بعد جوابی کارروائی سے گریز کیا، مگر یہ گریز کمزوری نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔ ایرانی قیادت عوام کے جذبات سے آگاہ ہے اور انہیں اس بات پر مطمئن کیا گیا ہے کہ ردِعمل ضرور ہوگا، مگر اپنے وقت اور طریقے سے۔ آبنائے ہرمز کی بندش، امریکی اڈوں کی فہرست، اور بیلسٹک میزائلوں کی تیاری، سب کچھ ایران کی میز پر موجود ہے — بس انگلیاں ٹرگر پر نہیں رکھیں گئیں، ابھی۔

امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اگر ایران نے امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا تو وہ "ناقابلِ برداشت قیمت" چکائے گا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ حملہ پہلے امریکہ نے کیا ہے۔ ایران پر الزامات لگانے سے پہلے واشنگٹن کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ وہ خود ایک جارح ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے کیوں آ رہا ہے۔

ایرانی مؤقف بالکل واضح ہے: جب اس کے حساس مراکز کو نشانہ بنایا گیا ہے، تو اب اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی قدم اٹھائے۔ عراق، شام، قطر، بحرین، اور خلیج کی دیگر امریکی تنصیبات اب اس خطرے کی زد میں ہیں، جسے ایران وقتی طور پر روک رہا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔

چین اور روس نے اگرچہ اب تک صرف "تحمل" کی اپیل کی ہے، مگر سفارتی محاذ پر ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے اشارے دے رہے ہیں۔ یہ عالمی قوتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے — اگر اب بھی انصاف اور توازن کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو یہ تنازع ایک عالمی بحران میں بدل سکتا ہے۔

ایرانی عوام نے اپنی حکومت پر اعتماد ظاہر کیا ہے، خاص طور پر اس بات پر کہ بروقت حساس مواد کو محفوظ بنا کر ایک ممکنہ تباہی سے بچا لیا گیا۔ اب حکومت نہ صرف اپنے داخلی استحکام میں مضبوط ہے بلکہ اس کے پاس اخلاقی جواز بھی موجود ہے کہ وہ امریکہ کی اس کھلی جارحیت کا جواب دے۔

یہ سب کچھ ایک بڑی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے: ایران کو دیوار سے لگانے کی کوششیں اب ناکام ہونے والی ہیں۔ نہ اسرائیلی چالیں کارگر ہوئیں، نہ یورپی سفارت کاری، اور اب امریکی میزائل بھی ایران کے عزم کو نہیں جھکا سکے۔ ایران نے جنگ شروع نہیں کی، مگر اگر اس پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ اسے ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے — چاہے قیمت کوئی بھی ہو۔
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

ہفتہ، 21 جون، 2025

اسرائیل کے دوست




اسرائیل کے دوست

تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

دنیا میں قوموں کے تعلقات صرف معاہدات، مفادات یا وقتی ضروریات پر مبنی نہیں ہوتے، بلکہ بعض رشتے فطری ہوتے ہیں — نظریاتی ہم آہنگی، تاریخی تجربات، تہذیبی مماثلت، اور اسٹریٹجک ضروریات کے باعث بعض ممالک ایک دوسرے کے قدرتی اتحادی بن جاتے ہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ اگرچہ اس کی جغرافیائی حدود مشرق وسطیٰ میں واقع ہیں، لیکن اس کے قدرتی اتحادی عموماً مغربی یا غیر عرب دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں کا مفصل تجزیہ کریں گے۔
 امریکہ: اسٹریٹجک رفیق یا روحانی بھائی؟
امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا اور دیرینہ اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان فوجی، انٹیلی جنس، اقتصادی اور سائنسی تعلقات نہایت مضبوط ہیں۔ اس تعلق کی چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں:
یہودی لابی کا اثر: امریکہ میں یہودی برادری کا اثرورسوخ بہت گہرا ہے۔
 AIPAC
 جیسی تنظیمیں امریکی پالیسی پر براہ راست اثر ڈالتی ہیں۔
مسیحی صہیونی تحریک: ایک بڑی امریکی عیسائی آبادی عقیدے کی بنیاد پر اسرائیل کی حمایت کرتی ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی طاقت مسیحا کی آمد کے لیے لازمی ہے۔
اسٹریٹجک ضرورت: مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے لیے اسرائیل ایک مستقل عسکری اڈہ ہے، جہاں سے وہ علاقائی طاقتوں ایران، شام، اور حتیٰ کہ ترکی پر بھی نظر رکھتا ہے۔
بھارت: نظریاتی ہم آہنگی اور اسلام دشمنی کا اشتراک
اگرچہ بھارت نے 1992 میں اسرائیل سے باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم کیے، مگر گزشتہ دو دہائیوں میں یہ تعلقات حیرت انگیز حد تک گہرے ہو چکے ہیں۔
اسلام مخالف بیانیہ: بھارت اور اسرائیل دونوں نے مذہبی اقلیتوں — خصوصاً مسلمانوں — کے خلاف سخت گیر رویہ اپنایا ہے۔ نریندر مودی اور بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں یہ رشتہ مزید مستحکم ہوا۔
دہشت گردی کے خلاف اتحاد: دونوں ممالک خود کو دہشت گردی کا شکار ظاہر کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے انسداد دہشت گردی کی ٹیکنالوجی اور تجربات شیئر کرتے ہیں۔
دفاعی تجارت: اسرائیل، بھارت کو جدید ہتھیار، ڈرون، سائبر ٹیکنالوجی، اور انٹیلیجنس سسٹمز فراہم کرتا ہے۔
 یونان اور قبرص: اسرائیل کے یورپی پڑوسی
مشرقِ وسطیٰ کے جغرافیائی قرب میں واقع یونان اور قبرص اسرائیل کے قدرتی اتحادیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
ترکی مخالف اتحاد: ترکی کے ساتھ ان تینوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں، جس کا فائدہ باہمی اشتراک میں ہو رہا ہے۔
توانائی کے منصوبے: اسرائیل، یونان اور قبرص نے مشرقی بحیرہ روم سے گیس نکالنے اور یورپ تک پہنچانے کے لیے مشترکہ پائپ لائن منصوبے بنائے ہیں۔
بحری تحفظ: یہ ممالک مل کر سمندری تحفظ، انٹیلیجنس شیئرنگ اور نیول مشقیں کرتے ہیں۔
 افریقی ممالک: نظریاتی نہیں، لیکن فائدے مند اتحادی
متعدد افریقی ممالک جیسے کینیا، یوگنڈا، ایتھوپیا، اور روانڈا اسرائیل کے ساتھ دفاعی، زرعی اور تکنیکی تعلقات رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ بنیادی وجوہات شامل ہیں:
ترقیاتی منصوبے: اسرائیل ان ممالک کو ٹیکنالوجی، زراعت، اور پانی کی صفائی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اقوامِ متحدہ میں ووٹنگ سپورٹ: یہ ممالک اسرائیل کو عالمی فورمز پر ووٹ کے ذریعے فائدہ دیتے ہیں۔
 خلیجی ممالک (نئے اتحادی)
ابراہام معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش، اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔
ایران مخالف بیانیہ: ان ممالک کے لیے اسرائیل ایک طاقتور حلیف ہے جو ایران کے خلاف عالمی سطح پر دباؤ بنا سکتا ہے۔
معاشی مفادات: ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، اور سیاحت کے شعبوں میں اسرائیل کی مہارت ان ممالک کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
امریکی دباو: امریکہ نے ان ممالک پر سفارتی دباؤ ڈال کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرائے۔

اسرائیل کے " اتحادی" صرف وہ ممالک نہیں جو اس سے سفارتی یا عسکری تعلقات رکھتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو
نظریاتی طور پر اسلام دشمنی میں شریک ہیں،
ایران مخالف بیانیے کے حامل ہیں،
امریکہ کی عالمی حکمت عملی کا حصہ ہیں،
یا پھر اسرائیلی ٹیکنالوجی اور عسکری طاقت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

اسرائیل آج ایک ایسا ملک بن چکا ہے جو اپنے فطری اتحادیوں کے ساتھ مل کر نہ صرف مشرق وسطیٰ کی سیاست بلکہ عالمی جغرافیہ پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔

اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ



اردن اور اسرائیل — دوستی اور نفرت ساتھ ساتھ

اتحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

اردن ایک منفرد عرب ریاست ہے۔ اس کی تاریخ خلافت عثمانیہ کے خاتمے، عرب بغاوت، اور برطانیہ کی مہربانیوں سے شروع ہوتی ہے۔ حکومت ہاشمی خاندان کے پاس ہے، جو رسول اللہ ﷺ کی نسل سے تعلق رکھتا ہے، مگر حرمین کا اختیار ان کے مخالف آلِ سعود کے پاس ہے۔ اردن ایک طرف امریکہ کی مالی چھتری تلے سانس لیتا ہے، دوسری طرف اسرائیل سے امن معاہدہ رکھتا ہے، اور تیسری طرف فلسطینی عوام کے ساتھ دلی ہمدردی بھی جتاتا ہے۔ یہ سب کچھ بیک وقت ممکن کیسے ہے؟ اس کا جواب صرف "مشرقِ وسطیٰ کی سیاست" میں پوشیدہ ہے، جو اصولوں سے نہیں، مجبوریوں سے لکھی جاتی ہے۔
ہاشمیوں کی بادشاہت: برطانوی تحفہ
اردن کا قیام 1921 میں ہوا جب برطانیہ نے شریف حسین کے بیٹے عبداللہ اول کو "امیرِ شرقِ اردن" مقرر کیا۔ شریف حسین وہی شخص تھا جس نے عربوں کو خلافتِ عثمانیہ سے بغاوت پر اکسایا، اس وعدے پر کہ برطانیہ انہیں آزاد عرب ریاست دے گا۔ مگر برطانیہ نے اس وعدے کو پورا نہ کیا اور صرف ایک چھوٹا سا صحرا — موجودہ اردن — انعام میں دیا۔ باقی عرب سرزمین، فرانس اور برطانیہ نے آپس میں بانٹ لی۔ یوں ہاشمی قیادت خلافت تو نہ پا سکی، مگر ایک چھوٹی بادشاہت ضرور مل گئی۔
آلِ سعود اور ہاشمی کشمکش
     انیس سو چوبیس 
 میں آلِ سعود نے شریف حسین کو مکہ سے بے دخل کیا، اور یوں حرمین پر ہاشمیوں کی تاریخی نگرانی ختم ہو گئی۔ یہ واقعہ آج تک ہاشمی خاندان کی سیاسی اور روحانی نفسیات پر اثرانداز ہے۔ آج اگرچہ اردن اور سعودی عرب بظاہر اتحادی ہیں، مگر دلوں میں تاریخی چبھن باقی ہے۔ اردن اپنے آپ کو مسجد اقصیٰ کا محافظ سمجھتا ہے، اور آل سعود کو خادمینِ حرمین کا دعویدار۔ دونوں کی مذہبی حیثیت کا ٹکراؤ ہمیشہ ایک خاموش کشمکش کی صورت میں موجود ہے۔
امریکہ کی چھتری
اردن کی معیشت، دفاع اور سفارت کاری کی ڈوریں امریکہ سے بندھی ہوئی ہیں۔ ہر سال اردن کو امریکہ سے اربوں ڈالرز کی امداد ملتی ہے۔ امریکہ اردن کو ایک "معتدل، پرو-ویسٹ، اور قابلِ اعتماد" عرب اتحادی سمجھتا ہے، جو اسرائیل کے خلاف کسی سخت رویے میں شریک نہیں ہوتا۔ اردن میں کئی امریکی فوجی اڈے موجود ہیں جو شام، عراق اور ایران پر نظر رکھنے کے کام آتے ہیں۔
اسرائیل سے امن، مگر کس قیمت پر؟
این سو چورانوے
 میں اردن نے اسرائیل سے امن معاہدہ کیا۔ اس معاہدے کے بدلے اردن کو پانی، تجارتی مواقع، اور امریکی حمایت ملی۔ اسرائیل نے اردن کو مسجد اقصیٰ کے اسلامی انتظام کا غیر رسمی حق بھی تسلیم کیا۔ مگر یہ معاہدہ اردنی عوام کو کبھی ہضم نہ ہوا۔ اردن کی اکثریت فلسطینی نژاد ہے، جن کے دل میں اسرائیل کے لیے شدید نفرت ہے۔ ہر بار جب اسرائیلی فوج مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی کرتی ہے، اردن کی سڑکوں پر عوام سُلگ اٹھتی ہے، مگر حکومت صرف "اظہارِ تشویش" تک محدود رہتی ہے۔
گیس اور پانی: خاموش مجبوریاں
اردن اسرائیل سے پانی خریدتا ہے۔ ساتھ ہی 2016 میں اردن نے اسرائیل سے گیس خریدنے کا اربوں ڈالر کا معاہدہ بھی کیا، جس پر عوام نے شدید احتجاج کیا۔ مگر اردن جیسی خشک اور مالی لحاظ سے کمزور ریاست کے لیے ان معاہدوں سے نکلنا آسان نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں معاشی بقا اور اخلاقی موقف آپس میں ٹکرا جاتے ہیں۔
اسرائیل کی سخت گیر حکومت اور اردن کا اضطراب
نیتن یاہو کی موجودہ شدت پسند حکومت نے مسجد اقصیٰ پر مسلسل دھاوے بولے، بستیوں کی تعمیر تیز کی، اور فلسطینیوں پر ظلم بڑھایا۔ اردن نے ہر موقع پر سخت بیانات دیے، مگر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔ وجہ واضح ہے — امن معاہدہ ختم کرنے کا مطلب امریکی امداد کا خاتمہ، اندرونی استحکام کا خطرہ، اور اسرائیل سے براہِ راست محاذ آرائی۔
عوام اور حکومت: دو الگ دنیائیں
اردنی حکومت اسرائیل سے امن چاہتی ہے، مگر عوام کے لیے اسرائیل ایک ظالم، غاصب اور مذہب دشمن ریاست ہے۔ اردن کا یہ تضاد — جہاں حکومت اور عوام دو الگ بیانیوں پر زندہ ہیں — مشرق وسطیٰ کی سیاست کی سب سے تلخ حقیقت ہے۔

اردن کا اسرائیل سے رشتہ دو جہتوں پر مبنی ہے — مجبوری اور مفاد۔ حکومت کے لیے امن، پانی، گیس، اور امریکی حمایت ضروری ہے۔ عوام کے لیے فلسطین، مسجد اقصیٰ، اور اخلاقی انصاف اہم ہے۔ ہاشمی بادشاہت کو اپنے وجود کے لیے مغرب سے جڑنا پڑا، مگر اپنی عوام سے جڑے رہنے کے لیے فلسطینیوں کے درد کو بھی محسوس کرنا پڑتا ہے۔ یوں اردن ایک ایسی کشتی میں سوار ہے جو دونوں کناروں کو چھونے کی کوشش کر رہی ہے، مگر کسی ایک کنارے پر اترنے کی ہمت نہیں کر پا رہی۔
یہ وہ ریاست ہے جہاں سیاست مجبوری ہے، مذہب شناخت ہے، اور امن معاہدہ ایک ناپسندیدہ ضرورت۔


اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟






عنوان: اسرائیل اور مصر — امن کا معاہدہ یا مجبوری کا سودا؟
تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ

مصر، جو فراعنہ کی سرزمین بھی ہے، اسلام کا قلعہ بھی اور عرب دنیا کی عسکری قوت بھی، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہمیشہ مرکزیت رکھتا رہا ہے۔ مگر اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات عرب دنیا میں سب سے پہلے "امن" پر منتج ہوئے — ایک ایسا امن جو کاغذ پر لکھا گیا، مگر دلوں میں کبھی اُترا نہیں۔
اسرائیل اور مصر کی کہانی صرف دو ریاستوں کی سفارتی تاریخ نہیں، بلکہ یہ عرب قومی جذبات، فلسطینی کاز، امریکی اثر، اور عوامی نفرت کے درمیان پھنسی ہوئی ایک ایسی داستان ہے جسے سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کئی دریچوں میں جھانکنا ہوگا۔
 مصر کی تاریخ: عظمت، نوآبادیات اور قوم پرستی
 قدیم عظمت
مصر دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ہے۔ فراعنہ، اہرام، نیل، اور علم و حکمت کی تاریخ اسے منفرد بناتی ہے۔ اسلام کی آمد کے بعد مصر نے خلافتوں اور سلطنتوں کا دور دیکھا، یہاں تک کہ عثمانی خلافت کے زیراثر آ گیا۔
برطانوی قبضہ اور آزادی
1882
 میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا، اور 1922
 میں جزوی آزادی ملی۔ مگر اصل خودمختاری
 1952
 میں "فری آفیسرز موومنٹ" کے بعد حاصل ہوئی، جب بادشاہ فاروق کو معزول کر کے صدر جمال عبدالناصر نے حکومت سنبھالی۔ ناصر عرب قوم پرستی اور اسرائیل مخالفت کا سب سے بڑا علمبردار بنا۔
 اسرائیل کے ساتھ جنگیں: 
عرب خون، شکست اور امن
1948
 میں مصر نے عرب اتحاد کے تحت اسرائیل کے خلاف جنگ لڑی، مگر کامیابی نہ ملی۔
1956
 میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل نے مل کر نہر سویز پر قبضہ کرنے کی کوشش کی، جسے ناصر نے عوامی جذبات سے شکست دی۔
1967
 کی "شش روزہ جنگ" میں اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نما سینا چھین لیا — ایک ایسی شکست جو ناصر کی زندگی پر بوجھ بن گئی۔
1973
 کی  جنگ میں مصر نے شام کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنا غصب شدہ علاقہ واگزار کرانے کی کوشش کی، کچھ کامیابی ملی، مگر مکمل فتح حاصل نہ ہو سکی۔
. انور السادات اور امن معاہدہ
صدر انور السادات نے
 1978
 میں امریکہ کے شہر کیمپ ڈیوڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم مناخم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر کے ساتھ "کیمپ ڈیوڈ معاہدہ" پر دستخط کیے۔
1979
 میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عرب دنیا کی پہلی مسلم ریاست ہونے کا اعزاز حاصل کیا — اور شدید تنقید کا سامنا کیا۔
  تعلقات بحال مگر فاصلے باقی
مصر اور اسرائیل کے درمیان مکمل سفارتی تعلقات موجود ہیں۔ دونوں ملکوں کے سفارت خانے فعال ہیں، وزرائے خارجہ ملاقاتیں کرتے ہیں، انٹیلیجنس افسران تعاون کرتے ہیں، اور فوجی سطح پر بھی رابطے ہوتے ہیں، خصوصاً غزہ کی سرحد پر۔
 انٹیلیجنس شراکت داری
مصر اور اسرائیل، غزہ میں حماس کے خلاف خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔
مصر سینا میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں اسرائیلی انٹیلیجنس کا سہارا لیتا ہے۔
 امریکی اثر
امریکہ، مصر کو ہر سال 1.3 ارب ڈالرز کی فوجی امداد دیتا ہے، جس کی شرط ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ امن رکھے۔
امریکہ مصر کی فوجی اور سیاسی اشرافیہ کے لیے سب سے اہم خارجی طاقت ہے، اور وہ اسرائیل سے دشمنی کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔
 مصری عوام کا احساس 
عام مصری، اسرائیل کو ایک غاصب اور ظالم ریاست سمجھتے ہیں۔
غزہ کے محاصرے میں مصر کا کردار عوام کو تکلیف دیتا ہے — کیونکہ رفح بارڈر اکثر بند رکھا جاتا ہے، اور فلسطینیوں کو امداد یا علاج کے لیے مصر داخلے پرسختیاں ہوتی ہیں۔
 انور سادات کا قتل اور اس کے اثرات
سادات کو 1981 میں انہی کی فوج کے ایک رکن نے قتل کیا — اسرائیل سے امن معاہدے پر ناراضی اس کی بڑی وجہ تھی۔
آج بھی سادات کو بعض حلقے "قومی خائن" اور بعض "دور اندیش قائد" مانتے ہیں، مگر اختلاف قائم ہے۔
 عوامی سطح پر بائیکاٹ
مصر میں اسرائیلی اشیاء کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔
فنکار، ادیب، اور دانشور اسرائیل سے کسی بھی قسم کے ثقافتی یا تجارتی تعلقات کے مخالف ہیں۔
 مفادات کی سیاست
مصر کی فوج، جو ملکی اقتدار کی اصل وارث ہے، اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتی۔
صدر السیسی کا طرزِ حکمرانی سیکیورٹی، اسٹیبلشمنٹ اور معیشت پر مبنی ہے، اور ان تینوں کو اسرائیل سے تعلق میں فائدہ ہے، نقصان نہیں۔سادگی سے کہا جا سکتا ہے: "امن معاہدہ زندہ ہے، مگر امن مردہ ہے۔"
  مجبوری کا امن
مصر اور اسرائیل کے تعلقات ایک ایسے معاہدے پر قائم ہیں جو دنیا کے سامنے امن کی مثال ہے، مگر عوامی دلوں میں شکست اور غصے کی یاد بھی ہے۔ حکومت کو امن، استحکام اور امریکی امداد کی فکر ہے، اور عوام کو فلسطینی خون، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اور اسرائیلی جبر کا غصہ۔
مصر نے اسرائیل کو تسلیم تو کر لیا، مگر دلوں نے کبھی معاف نہیں کیا۔
یہی وہ تضاد ہے جو مشرقِ وسطیٰ کی سیاست کا خاصہ ہے —  امن معاہدے زندہ ہوتے ہیں، مگر امن کی روح مر چکی ہوتی ہے۔