پیر، 16 جون، 2025

نقبہ

 



نقبہ: ایک دن نہیں، ایک مسلسل سانحہ

15 مئی دنیا بھر میں "نقبہ ڈے" کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1948 میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے زبردستی نکالا گیا، ان کے دیہات زمین بوس کیے گئے اور ایک پوری قوم کو بےوطن بنا دیا گیا۔ فلسطینی اس دن کو "نقبہ" یعنی "تباہی" کا دن کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نقبہ صرف ایک دن یا سال کا واقعہ نہیں بلکہ ایک مسلسل اور جاری المیہ ہے۔

1948

 میں اسرائیل کے قیام کے وقت تقریباً 8 لاکھ فلسطینیوں کو بےدخل کیا گیا۔ ان میں سے کئی آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں مہاجر کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس دوران تقریباً 500 فلسطینی دیہات تباہ کیے گئے، اجتماعی قبریں کھودی گئیں، اور ایک مربوط قتل و غارت کا آغاز ہوا۔ یہ سب صرف زمین ہتھیانے کے لیے نہیں بلکہ ایک پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کوشش تھی۔

پھر آیا 1967 کا سال، جسے فلسطینی "نقبہ ثانیہ" کہتے ہیں۔ مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر اسرائیلی قبضہ ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نقبہ بستیوں کی توسیع، مسجد اقصیٰ کی بےحرمتی، غزہ پر محاصرہ، اور حالیہ 2023–24 کی جنگ تک پھیل چکا ہے۔ آج فلسطینی بچے اس دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں جنہوں نے کبھی آزادی، شناخت اور سلامتی نہیں دیکھی۔

اب سوال یہ ہے کہ ایسا ظلم روکنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کہاں ہیں؟

دسمبر 1948 کو اقوامِ متحدہ نے "جینوسائیڈ کنونشن" منظور کیا، جس کا مقصد نسل کشی کو روکنا اور اس کے مجرموں کو سزا دینا تھا۔ اس کنونشن کی رو سے کسی بھی گروہ کو ان کی نسل، مذہب یا قومیت کی بنیاد پر مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا "جینوسائیڈ" کہلاتا ہے یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل خود اس کنونشن کا دستخط کنندہ ہے۔ لیکن  وہ فلسطینیوں کے خلاف ایسے اقدامات کر رہا ہے جو اس کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ خاص طور پر جنوبی افریقہ نے حالیہ دنوں میں اسرائیل کے خلاف 

ICJ

 میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں غزہ میں ہونے والی حالیہ بمباری کو نسل کشی قرار دیا گیا ہے۔

اس تمام صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر کی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ عالمی ضمیر، انسانی حقوق کے علمبردار ادارے، اور اقوامِ متحدہ کی قراردادیں سب بےبس نظر آتی ہیں۔

فلسطینیوں کے لیے نقبہ محض ایک یاد نہیں، بلکہ ان کی روزمرہ زندگی ہے۔ ان کے بچوں کے لیے اسکول جانا، غزہ میں پانی یا دوا کا ملنا، یا یروشلم میں نماز پڑھنا – سب کچھ ایک سیاسی جرم بن چکا ہے۔ اور اس جرم کے مجرم کو نہ صرف عالمی حمایت حاصل ہے بلکہ وہ عالمی قوانین کا محافظ بھی بنا بیٹھا ہے۔

اتوار، 15 جون، 2025

دو مہرے





تحریر: دلپزیر احمد جنجوعہ




دنیا میں بعض رشتے نظر آتے ہیں، بعض چھپے ہوتے ہیں۔ بھارت، قبرص اور اسرائیل کا تعلق بظاہر تین الگ ممالک کا ہے مگر حقیقت میں یہ انسدادِ دہشت گردی کے ایک خاموش اتحاد میں جُڑے ہوئے ہیں۔

اسرائیل، جسے دہشت گردی کے خلاف دنیا کی سب سے ماہر ریاست مانا جاتا ہے، اب اپنی حربہ جاتی ذہانت اور ٹیکنالوجی کو پھیلانے کے مشن پر ہے۔ بھارت اور قبرص اس مہم کے اہم اتحادی بن چکے ہیں۔

قبرص اسرائیل کے لیے ایک خاموش مگر نہایت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہاں اسرائیلی نگرانی کے نظام، انٹیلیجنس سنٹرز اور فوجی مشقوں کا سلسلہ جاری ہے۔ شام، لبنان اور ایران پر نظر رکھنے کے لیے قبرص ایک اسٹریٹجک آؤٹ پوسٹ بن چکا ہے۔

بھارت کے ساتھ اسرائیل کا رشتہ زیادہ واضح اور فعال ہے۔ ڈرون، سمارٹ باڑ، سائبر سیکیورٹی، اور کمانڈو تربیت — سب اسرائیل سے بھارت کو منتقل ہو رہا ہے۔ موساد اور 
RAW
کے درمیان خفیہ تعاون، بالاکوٹ جیسی پیشگی کارروائیاں اور فلسطین و کشمیر پر سفارتی یکجہتی اس تعلق کی گہرائی ظاہر کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تینوں ممالک کے مشترکہ "دشمن" بھی ہے —
پاکستان اور ترکی۔
ترک حکومت اور پاکستان  کی فلسطین اور کشمیر پر بڑھتی مداخلت، اور قبرص میں ترکی کا عسکری قبضہ، ان تینوں کو ایک خفیہ اتحاد کی طرف دھکیل رہا ہے۔

یہ اتحاد صرف دفاعی نہیں، نظریاتی بھی ہے — ریاستی خودمختاری، پیشگی حملہ، مذہبی قوم پرستی اور دہشت گردوں سے عدم مفاہمت ان سب کی مشترکہ سوچ ہے۔

سوال یہ ہے کہ:
کیا یہ اشتراک آئندہ برسوں میں کسی نئے جیوپولیٹیکل بلاک میں تبدیل ہوگا؟
یا پھر یہ خاموشی سے دنیا میں انسدادِ دہشت گردی کا اسرائیلی ماڈل نافذ کرتا رہے گا؟

انسانیت معترض ہے




اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی اب محض دو ریاستوں کا تنازعہ نہیں رہا۔ یہ ایک عالمی اقتصادی، عسکری اور سیاسی نظام کی بقا کی جنگ بنتی جا رہی ہے۔ اس کشمکش میں اسرائیل صرف ایک فریق نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ بن کر سامنے آیا ہے، جو ہر قیمت پر اپنے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹنے پر تُلا ہوا ہے۔ معاملہ صرف غزہ، شام یا نطنز کے حملوں تک محدود نہیں بلکہ اصل ہدف واشنگٹن کو اس تنازعے میں براہِ راست شامل کرنا ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ معاشی ہے۔

امریکہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ اس کا قومی قرضہ 36 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس قرضے کا بوجھ کم کرنے کے لیے امریکہ عالمی منڈی میں ٹریژری بانڈز فروخت کرتا ہے، جنہیں اب بڑی معاشی طاقتیں جیسے چین، سعودی عرب اور جاپان ہاتھ لگانے سے بھی کترا رہی ہیں۔ بانڈز کی یہ گرتی ساکھ امریکی معیشت کے لیے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ اسرائیل بخوبی جانتا ہے کہ اس صورتحال میں اگر ایک بڑی جنگ چھڑ جائے تو عالمی سرمایہ ایک بار پھر خوف کے تحت "محفوظ سرمایہ کاری" کی طرف دوڑے گا، اور یہ محفوظ سرمایہ کاری امریکی بانڈز اور ڈالر سمجھے جائیں گے۔

یہی وہ پس منظر ہے جس میں اسرائیل ایران پر حملے کر رہا ہے۔ تل ابیب چاہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی صورت حال اس قدر کشیدہ ہو جائے کہ امریکہ اپنی معاشی بقا کی خاطر اس جنگ میں براہِ راست کودنے پر مجبور ہو جائے۔ کیونکہ جب جنگ ہوگی تو نہ صرف بانڈز کی مانگ بڑھے گی بلکہ امریکی اسلحہ ساز ادارے بھی منافع کی نئی بلندیاں چھوئیں گے۔ اسرائیل کا یہی دوہرا مفاد ہے، ایک طرف امریکہ کو اپنے دفاعی وعدوں کے تحت  جنگ میں گھسیٹنا، دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کی مالی سانسیں بحال کرنا۔

اسرائیل کو معلوم ہے کہ امریکہ صرف سیاسی اخلاقیات پر نہیں بلکہ معاشی مجبوریوں پر عمل کرتا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینکس، امریکی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے جڑے ہوتے ہیں، اور ان کے درمیان ایک ناقابل انکار مفاہمت ہے۔ اسرائیلی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ اگر امریکی مارکیٹ میں خوف کی فضا پیدا ہو جائے تو امریکی حکومت پر اندرونی دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ عالمی سرمایہ کو اعتماد دلانے کے لیے خود میدانِ جنگ میں اترے۔

یہ کوئی خفیہ بات نہیں کہ امریکہ کی موجودہ معیشت ٹیکس سے نہیں بلکہ قرض اور بانڈ فروشی سے چلتی ہے۔ جب عالمی سرمایہ بانڈ خریدنے سے گریز کرتا ہے تو امریکہ کے پاس اپنی بقا کا صرف ایک ہتھیار بچتا ہے: جنگ۔ ایسی جنگ جو امریکہ کو نہ صرف عالمی سیاسی رہنما کے طور پر دکھائے بلکہ اسے معاشی طور پر بھی فائدہ دے۔ اسرائیل یہی جنگ امریکہ پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔

ایران کے ساتھ ممکنہ جنگ میں اسرائیل ایک بار پھر خود کو "مظلوم ہد ف" بنا کر پیش کر رہا ہے تاکہ عالمی ہمدردی حاصل کرے اور امریکہ کو عسکری طور پر مداخلت پر مجبور کرے۔ مگر دراصل یہ ایک بڑی معاشی اسکرپٹ کا حصہ ہے، جس میں میدانِ جنگ مشرقِ وسطیٰ ہے، مگر اصل لڑائی وال اسٹریٹ اور امریکی خزانے میں لڑی جا رہی ہے۔ اگر امریکہ اس جنگ میں داخل ہوتا ہے تو یہ ایران کی شکست نہیں بلکہ سرمایہ داری کی وقتی فتح ہو گی، جو اپنی ساکھ بچانے کے لیے لاکھوں جانیں قربان کرنے کو تیار ہے۔

اسرائیل اس وقت ایک ریاست نہیں، بلکہ ایک نظام کا آخری سپاہی ہے۔ اس نظام کا نام ہے سرمایہ داری، اور اس کے سب سے بڑے محافظ کا نام ہے جنگ۔ اور اب وہ اپنے سب سے بڑے سرپرست، امریکہ کو اس جنگ میں دھکیلنے کے لیے ہر چال کھیل رہا ہے۔ یہ ایک بارودی سازش ہے، جس میں گولی، میزائل اور حملہ محض ظاہری ہتھیار ہیں، اصل جنگ تو قرض، سود اور ڈالر کی ہے۔

ہفتہ، 14 جون، 2025

جان اور جہان کی کہانی

ہم ایک ایسی مڈل کلاس تہذیب کے پروردہ ہیں جہاں جسم کی نہیں، صرف نمبر، نوکری اور نیک نامی کی پرورش ہوتی ہے۔ صحت، آرام، متوازن خوراک یا نیند جیسے تصورات کبھی زندگی کا حصہ نہیں رہے۔

ناشتہ چھوڑ دینا مصروفیت کہلاتا ہے، ورزش فالتو کام، اور آرام سستی کی علامت۔ تھکن ہو تو بام لگا کر لیٹنے کا مشورہ ملتا ہے، اور کمزوری ہو تو چھٹی کر لینے کا۔ ڈاکٹر صرف تب یاد آتا ہے جب جسم چیخنے لگتا ہے۔

ہمیں چہل قدمی بوجھ لگتی ہے، لیکن مرغ کڑاہی کھانے میلوں کا سفر آسان۔ کولڈ ڈرنک پر سینکڑوں روپے خرچ کرنا معمول، مگر جم کی فیس دینا فضول خرچی۔

ہم تھکن کو فخر، بدہضمی کو روایت اور نیند کی کمی کو جوانی سمجھ بیٹھے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ سب لاپروائی نہیں، خود سے بےوفائی ہے۔

وقت رہتے اگر صحت پر توجہ نہ دی، تو ایک دن سب کچھ سلامت رہ جائے گا — بس جسم نہیں۔

جان ہے تو جہان ہے۔

جمعہ، 13 جون، 2025

سرخ جھنڈا ۔۔۔ عزمِ نو؟



پاکستان اور ایران کا رشتہ صرف جغرافیائی ہمسائیگی کا نہیں، بلکہ تہذیبی، دینی، ثقافتی اور تاریخی قربتوں کا آئینہ دار ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ایران کے استحکام اور خودمختاری کی حمایت کی ہے، اور13  جون 2025 میں جب اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا، تو حکومتِ پاکستان نے اس کھلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ یہ حملہ دراصل ایران کے خلاف نہیں، پوری مسلم دنیا کے وقار، آزادی اور خودمختاری کے خلاف ایک اعلانِ جنگ تھا۔
ایران اسرائیل کی طرح مصنوعی ریاست نہیں، نہ ہی مغرب کی کسی فیکٹری سے برآمد شدہ قوم ہے۔ ایران ایک قدیم تہذیب ہے — فردوسی، سعدی، رومی، خیام اور حافظ کی سرزمین۔ علم، حکمت، فن، فلسفہ اور خودداری کا وہ خزینہ جس نے قرنوں تک دنیا کو روشنی دی۔ ایران کی تاریخ میں کبھی غلامی کا باب نہیں لکھا گیا۔ یہ قوم جب جھکی تو اپنے رب کے سامنے، اور جب اٹھی تو استکبار کے خلاف۔
آج اسرائیل دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ظاہر کر رہا ہے، یہ کہہ کر کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے پاس خود درجنوں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اور اس کا ماضی فلسطین، شام، لبنان اور عراق جیسے ممالک پر بے شمار حملوں سے داغدار ہے۔ ایران پر حملہ اس کے ایٹمی پروگرام کا نہیں، بلکہ اس کے نظریے، غیرت اور مزاحمت کا دشمن ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ ایک مضبوط، خودمختار اور نظریاتی ایران اس کے سامراجی خوابوں کا قبرستان بن سکتا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ ایران کی اس عظیم مزاحمت کو اندرونی طور پر کمزور کرنے کے لیے دشمنوں کو کسی بڑی محنت کی ضرورت نہیں پڑی۔ ایران کے اندر وہ عناصر موجود ہیں جو دشمن کے آلہ کار بن کر ریاست کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ میڈیا، سوشل میڈیا، ثقافتی ادارے اور بعض این جی اوز کے ذریعے ایرانی قوم کو مایوسی، بے یقینی اور خلفشار کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ غدار دشمن کے بیانیے کو داخلی زبان دے رہے ہیں، اور ایران کی اصل جنگ کو نظریاتی بحران میں بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس عمل نے ایران کے اندر ایسے لوگ پیدا کر دیے ہیں جو اپنی ہی ریاست اور اپنے ہی ملک کے خلاف بر سر پیکار ہیں ، جس ریاست میں غدار پیدا ہو جائیں اس ریاست کے ساتھ عہی ہوتا ہے جو اسرائیل نے ایران کے ساتھ کیا ہے ۔ جب اسسرائیل کے جہاز فضا میں بلند تھے زمین پر انٹی ائر کرفٹ گنوں کو آرانے والے ایرانی موساد کے ایجنت تھے ، فوجی جرنیلوں اور سائنسدانوں کی موجدگی کی مخبری کرنے والی بھی اسرائیلی نہیں بلکہ کود ایرانی تھے جو بکے ہوئے تھے ۔
عراق نے اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے دی، شام کے نئے حکمران ریاض میں ٹرمپ کے ہاتھ پر بیعت کرچکے ہیں ، سعودی عرب بیانات دے کر خاموش ہو جاتا ہے، اور دیگر عرب ریاستیں خاموشی میں عافیت تلاش کر رہی ہیں۔ ایران نے اپنے انقلابی بیانیے میں "مرگ بر اسرائیل"، "مرگ بر امریکہ" کے ساتھ "مرگ بر آل سعود" جیسے نعرے شامل کر کے دشمن کی پہچان تو واضح کی، مگر ان نعروں نے اسے خطے  میں سفارتی تنہائی کا شکار بھی بنایا۔
پاکستان کی ہمدردیاں آج بھی ایران کے ساتھ ہیں۔ حکومت اور عوام نے یکجہتی کا اظہار کیا ہے، مگر پاکستان سمیت کوئی بھی ملک اس وقت اتنی طاقت میں نہیں کہ وہ ایران کی عملی عسکری مدد کر سکے۔ دنیا معاشی دباؤ، سیاسی تناؤ اور سفارتی مجبوریوں میں جکڑی ہوئی ہے۔
ایران اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر وہ دشمن کی لگائی آگ میں جل گیا تو یہ المیہ ہو گا، مگر اگر وہ اسی آزمائش سے نئی حکمت، نئے اتحاد، اور نئی قوت کے ساتھ نکلتا ہے تو یہ عزمِ نو ہو گا — ایک نئی صبح کا آغاز۔
تاریخ گواہ ہے، ایران نے ہمیشہ اپنی بقا کی جنگ اکیلے لڑی ہے، لیکن سر اٹھا کر لڑی ہے۔ اس کی مزاحمت، اس کا تہذیبی وقار، اور اس کا انقلابی نظریہ آج بھی مطلوموں  کے لیے امید کا چراغ بن سکتا ہے — بشرطِ یہ کہ وہ  
اپنی صفوں میں چھپے دشمنوں کو پہچانے، اور اپنی قوت کو پختگی میں بدلے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسا نعرہ لگانا بند کر دے جس پر عمل نہ کر سکتا ہوں ۔ 
جہان تک اس جنگ کا تعلق ہے یہ اسرائیل اور ایران دونوں کے لیے بقا کی جنگ ہو گی اسرائیل یہ جنگ ہار گیا تو نتین ہاھو اور اس کے ساتھی مجرمیں نشان عبرت بنیں گے اور ایران ہار گیا تو موجودہ قیادت کو پھانسیاں خود ایران والے دین گے ۔
ایران: المیہ یا عزمِ نو؟
فیصلہ خود ایران کے ہاتھ میں ہے۔