بدھ، 4 جون، 2025

وقار خاموشی میں ہے


 

وقار خاموشی میں ہے

ریل کی پٹڑی پر جب کبھی ایک ڈبہ دھڑام دھڑام کرتا ہوا گزرے، تو ذرا ٹھہر کر سوچئے — کیا واقعی اس میں کچھ ہے؟ نہیں! وہ آواز، وہ شور، صرف اس کے خالی ہونے کی علامت ہے۔
زندگی بھی عجب ریل ہے، جہاں شور وہی مچاتے ہیں جو اندر سے خالی ہوتے ہیں۔

بازار میں جو تاجر اپنی چیزوں کی تعریف میں آسمان سر پر اٹھا لے، اکثر اُس کی چیزیں ناقص ہوتی ہیں،  جو مال کوالٹی کا ہو وہ بغیر شور  بھی خریدار کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ 

انسان بھی کچھ اسی قبیل سے ہیں۔ جو اندر سے کھوکھلے ہوں، وہ سب سے زیادہ بولتے ہیں۔ بات بات پر تبصرے، ہر محفل میں شور، ہر لمحے خود نمائی — کیونکہ اُن کے پاس دینے کو کچھ اور نہیں ہوتا۔
لیکن جو اصل محنت کرنے والے ہیں، جو اپنے علم، ہنر، اور کردار سے دنیا بدلتے ہیں، وہ خاموشی کی چادر اوڑھے رہتے ہیں۔ ان کا وقار ان کی خاموشی سے جھلکتا ہے۔

گیہوں کی بھری ہوئی بالی کو دیکھیے، وہ خاک کی طرف جھکی ہوئی، خاموش کھڑی ہوتی ہے، جبکہ خالی بالیاں ہوا کے ہر جھونکے کے ساتھ اتراتی پھرتی ہیں۔
تلوار، جو فولاد کی ہوتی ہے، ہڈی کو چیر دیتی ہے، پر خود خاموش رہتی ہے۔ دوسری طرف طبلہ، جو اندر سے خالی ہوتا ہے، وہ بجتا ضرور ہے، لیکن صرف شور پیدا کرتا ہے۔

زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ دکھاوا عارضی ہوتا ہے، اور خاموش خدمت مستقل اثر رکھتی ہے۔
شہد کی مکھی کی مثال لیجیے — نہ واویلا، نہ خودنمائی۔ پھولوں سے رس چنتی ہے، اور انسانوں کے لیے شفا بھرا شہد تخلیق کرتی ہے۔

یہی فلسفہ ہے وقار کا۔
جو اپنی ذات کی اصلاح میں لگا ہو، جو اپنے ہنر کو نکھارنے میں جُتا ہو، وہ دوسروں کی باتوں پر کان نہیں دھرتا۔
ناکام کرنے والے، حسد کرنے والے، اور کھوکھلے شور مچانے والے، دراصل وہ ہیں جن کی اپنی زندگی بےمعنی ہو چکی ہے۔

لہٰذا اے اہلِ دل —
محنت کو شعار بناؤ،
خاموشی کو وقار،
اور شور مچانے والوں سے بچ کر اپنے سفر پر رواں دواں رہو۔
کیونکہ وقار خاموشی میں ہے۔

ہمارے ہمسایوں کے نام ایک پیغام

مخالفت سے سیکھنا — ہمارے ہمسایوں کے نام ایک پیغام

سیکھنا ایک عظیم عمل ہے — چاہے وہ کسی مخالف سے ہی کیوں نہ ہو۔ جب بی جے پی کا نعرہ "چمکتا بھارت" زور پکڑنے لگا، تو بہت سے نوجوان پاکستانیوں نے نفرت سے جواب نہیں دیا۔ ہم نے خود پر نظر ڈالی اور سوچا: ہم سے کہاں غلطی ہوئی؟

ہماری اپنی قیادت ہمیں راہ دکھانے میں ناکام رہی تھی۔ ہم معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے۔ لیکن ہم نے جمہوریت کا دامن نہیں چھوڑا — بلکہ اسے گلے لگایا۔ ہم نے اپنے رہنما کو پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیل کیا۔

نئی قیادت کو گالیوں، جھوٹے پروپیگنڈے اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر وہ ڈٹے رہے۔ آہستہ آہستہ ہم سنبھلنے لگے۔

پھر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہمارے معصوم بچے، ہماری عبادت گاہیں — بے قصور — بمباری کا نشانہ بنیں۔ بغیر کسی وجہ کے۔ اور ہمیں دہشتگرد قرار دے دیا گیا۔

ہم صرف اپنے دکھ پر نہیں روئے، بلکہ بھارت والوں کے ضمیر کی خاموشی پر بھی افسوس کیا۔

ہم نے سوچا: ہندوستانی اپنے رہنماؤں سے سوال کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے "چمکتا بھارت" ووٹ دیا تھا، جنگ کو نہیں۔ 1.75 ارب لوگوں کو ٹکراؤ کی طرف کیوں دھکیلا جا رہا ہے؟

اس کا جواز؟ ایک خطرناک سوچ: ہماری مذہب افضل، باقی — مسلمان، عیسائی، سکھ، دلت — کمتر۔

ہمارے بھارتی دوستو: ہم نے آپ سے سیکھا۔ ہم نے اُس شخص کو قید کیا جو صرف باتیں کرتا تھا، کام کچھ نہیں۔ اب اُس کے حمایتی بھی سچ کو پہچان چکے ہیں۔ کیونکہ سچ، آخرکار، سامنے آ ہی جاتا ہے۔

آپ نے ایک وقت ہمیں متاثر کیا تھا — اب ہمیں موقع دیجیے کہ ہم آپ کو متاثر کریں۔

اپنے دلوں سے نفرت نکال دیں۔ آئیں مقابلہ کریں — علم میں، مہارت میں، کھیلوں میں، ٹیکنالوجی میں — جنگ میں نہیں۔

کیونکہ جنگ میں صرف انسانیت ہارتی ہے۔

چاہے وہ سکھ ہو یا مسلمان، عیسائی ہو یا ہندو — ہر انسان عزت اور امن کا حق رکھتا ہے۔

آئیں نفرت نہیں، ترقی چنیں۔ تباہی نہیں، بلندی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔

آئیں ہم ایک دوسرے کے خلاف نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے اپنے ملکوں کو سنواریں


پرانی ڈھولکی نئی تھاپ


عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم          

جب قوم کے بچے بچے کو "نیوٹرل" کا مطلب سمجھ آ جائے، اور "پیرنی" گوگل پر ٹاپ ٹرینڈ بن جائے، تو سمجھ لیں کہ تبدیلی آ چکی ہے — اور تبدیلی کسی درخت پر نہیں، بنی گالہ کے ایوانوں میں پکی ہوئی ہے۔

جی ہاں، جناب عمران خان! ایک ایسا نایاب سیاسی پیکج جس میں تھوڑی سی کرکٹ، تھوڑا سا روحانیت کا تڑکا، اور باقی سب پیٹرن۔ جی ہاں، پیٹرن! وہی جس سے کپڑے تو بن سکتے ہیں، لیکن قوم کا مستقبل نہیں۔

شروع کرتے ہیں اُس مشہور زمانہ پیٹرن سے جس میں بغیر نکاح بچی بھی “نعمت” اور الزام بھی "سازش"۔ اسے کہتے ہیں "جدید خاندانی نظام"، جس پر مغرب بھی تحقیق کرنے لگا ہے۔

پھر آیا زکوٰة پیٹرن — جس میں اسپتال کے نام پر چندہ، اور بہنوں کے بزنس کے لیے بونس۔ یہ کوئی عام پیٹرن نہیں، یہ وہ ماڈل ہے جسے

Harvard Business School

نہیں سمجھ پایا ورنہ نصاب میں شامل ہو چکا ہوتا۔

جوئے والا پیٹرن تو خیر ورلڈ کپ جیتنے کے دن سے چل رہا ہے۔ فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اب اس میں "قوم کا مقدر" بھی شامل ہے — ہارے تو عوام، جیتے تو خان صاحب۔

اور بچوں کی پرورش؟ وہ بھی

Elite-International Style

میں۔ یعنی بچے گولڈ سمتھ کے کچن سے ناشتہ کرتے ہیں، اوربا شعور قوم خالی وعدوں سے دن کا آغاز کرتے ہیں

اُدھر جمائما نے بنی گالہ چھوڑا، اِدھر خان صاحب نے اس پر قبضہ جما لیا — اسے کہتے ہیں قبضہ اورپیار کا مکافات

اب آتے ہیں جنرل باجوہ والے پیٹرن کی طرف — پہلے "قوم کا باپ باجوہ"، پھر "میر جعفر"۔ یعنی مطلب درآمد اور تعلقات بر آمد

اور جس برق رفتاری سے خان صاحب نے مانیکا فیملی سے پیرنی کو الگ کیا، اُس پر لاہور ہائی کورٹ کو خود نوٹس لینا چاہیے تھا، کہ یہ کیس طلاق نہیں، تاوان کا بنتا ہے!


کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، کیونکہ خان صاحب کا کمال یہی ہے کہ ہر اسکینڈل ایک نئی قسط بن جاتا ہے۔
رمل علی کی ڈھولکی، مراد سعید کی ٹنل، اور عائلہ ملک کی چھاؤنی — سب کہانیاں "ایکسکلوسو" بھی ہیں، اور "چٹپٹی" بھی۔




توشہ خانہ میں تحفے رکھے نہیں، سیدھے بیچے — پھر رسید دکھا کر فرمایا: "یہ سب قانونی ہے!"
اور القادر ٹرسٹ؟ ارے بھائی، یہ کوئی عام ٹرسٹ نہیں، یہ ڈرامائی ٹرسٹ ہے، جہاں
Trust
کم اور
Trick
زیادہ ہے۔



آخر میں، سانحہ 9 مئی۔ اگر تاریخ میں کبھی "بغاوت کے ناکام خاکے" کے نام سے کوئی کتاب لکھی گئی تو اس کا پہلا باب خان صاحب کے نام سے منسوب ہوگا۔

اور آج خان صاحب خود بن گئے ہیں "پیٹرن اِن چیف" — یعنی ہر پیٹرن، ہر پلاٹ، ہر پلان کے بانی و مہربان!


قوم سوچ رہی ہے کہ "خان صاحب اب کیا کریں گے؟"
ہم عرض کرتے ہیں: خان صاحب کچھ نہ کریں، بس ڈٹیں رہیں… کیونکہ ڈرامے ختم ہو جائیں تو با شعور قوم
اداس ہو جائے گی



عمران خان کو اب بانی چیئرمین کے بجائے پیٹرن ان چیف پکارا جائے گا،علیمہ خٰانم

منگل، 3 جون، 2025

زخمی سانپ



زخمی سانپ

بلوچستان کے علاقے خضدار میں حالیہ دہشت گرد حملہ، جس میں بھارتی ساختہ ڈرون اور فوجی بارود استعمال ہوا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہا ہے بلکہ فوراً بعد میڈیا پر الزام تراشی کے ذریعے بیانیے کی جنگ بھی چھیڑ دیتا ہے۔ حملے کے صرف 13 منٹ بعد بھارتی نیوز چینلز نے دھمکی آمیز زبان میں کہنا شروع کر دیا: "اب بھارت پاکستان کو سبق سکھائے گا!" سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ پاکستان بنا، مگر دھمکیاں بھارت دے رہا ہے؟

یہ پہلا موقع نہیں۔ بھارتی ایجنسی RAW کی پراکسی تنظیمیں — بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) — عرصہ دراز سے پاکستان کے اندر بدامنی پھیلا رہی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اعترافی بیان بھارتی مداخلت کا زندہ ثبوت ہے، جسے پاکستان نے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا۔ پھر بھی عالمی برادری کی معنی خیز خاموشی اس خطے کے لیے مزید خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔

تاریخی پس منظر یہ بتاتا ہے کہ بھارت نے 1971 میں مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لیے بھی ایسی ہی چالیں چلیں۔ آج بھی وہی پالیسی بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے خلاف بروئے کار لائی جا رہی ہے۔

ایسے میں اس خطے کے سپیرے ایک اہم بات کرتے ہیں:

"زخمی سانپ کا سر کچلنا لازمی ہوتا ہے۔"

بھارت جس طرح حملے کر کے الزام تراشی کرتا ہے، وہ ایک زخمی سانپ کی مانند ہے جو اب بھی زہر اگلنے پر تُلا ہوا ہے۔ ایک برطانوی جریدے نے حال ہی میں لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ مگر اس بار اگر جنگ ہوئی، تو پاکستان زخمی سانپ کا سر کچلنے سے گریز نہیں کرے گا۔

پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی، مذاکرات کی بات کی، عالمی قوانین کا احترام کیا۔ لیکن جب خضدار جیسا حملہ ہو، جب اسکولوں پر حملے ہوں، جب معصوم شہری شہید ہوں — تو خاموشی خود ایک جرم بن جاتی ہے۔

اب وقت ہے کہ پاکستان صرف دفاعی پوزیشن نہ اپنائے بلکہ سفارتی، عسکری اور اطلاعاتی محاذ پر بھارت کی دہشت گردی کو عالمی سطح پر پوری قوت سے بے نقاب کرے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، انسانی حقوق کی تنظیمیں — سب کو اب بتانا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں بدامنی کا اصل محرک کون ہے۔

کیا بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ بار بار زخم دے گا، اور پاکستان صرف مرہم لگاتا رہے گا؟ نہیں! اب پاکستان کے بیانیے میں بھی وہی کاٹ ہوگی جو تلوار میں ہوتی ہے۔ کیونکہ زخمی سانپ کو چھوڑنا صرف ایک نئی زہریلی نسل کو جنم دینے کے مترادف ہوتا ہے۔

"یہ بیانیے کی جنگ ہے، جہاں خاموشی شکست ہے اور سچائی ہتھیار۔ اب اگر جنگ ہوئی، تو انصاف صرف میز پر نہیں، میدان میں بھی نظر آئے گا۔"


ایک تھا فیلڈ مارشل

 



کہانی شروع ہوتی ہے 1971 میں، جب جناب نے "جمہوریت کی چھٹی" کروا کر یوگنڈا پر مارشل لاء کا نفاذ کیا۔ مگر اس سے اگلے دن ہی انہیں خیال آیا کہ اب جب وہ سب کچھ خود ہی ہیں، تو خود کو ترقی دینا بھی خود پر فرض ہے۔

سب سے پہلے خود کو صدر بنایا۔ پھر سوچا، "فوجی ہوں، تو آرمی چیف بھی میں ہی ہونا چاہیے۔" پھر کمانڈر ان چیف، پھر چیف آف اسٹاف، پھر فیلڈ مارشل۔ اور آخر میں جب کوئی عہدہ باقی نہ بچا، تو انہوں نے خود ہی نیا بنا لیا:
"Lord of All the Beasts of the Earth and Fishes of the Seas"
(زمین کے تمام جانوروں اور سمندر کی تمام مچھلیوں کا مالک!)

پھر ایک دن جناب کو لگا کہ صرف فوجی عہدے کم ہیں۔ تو لگا دی فہرستِ القابات کی لمبی لائن:

"His Excellency, President for Life, Field Marshal Al Hadji Doctor Idi Amin Dada, VC, DSO, MC, Lord of All the Beasts of the Earth and Fishes of the Seas, and Conqueror of the British Empire in Africa in General and Uganda in Particular."

قارئین! اگر آپ کو یہ سب یاد کرنے میں دشواری ہو رہی ہے، تو فکر نہ کریں۔ یوگنڈا کے وزیرِ اطلاعات نے بتایا تھا کہ ہر تقریر سے پہلے ان القابات کو پڑھنے میں 5 منٹ لگتے تھے، اور تقریر کا اصل وقت 2 منٹ ہوتا تھا!

وی سی، ڈی ایس او، ایم سی بھی شامل کیے گئے — کسی نے پوچھا کہ یہ تمغے کب ملے؟ جواب آیا: "ملے نہیں، لیے۔"

اور “فاتحِ برطانیہ” کا لقب؟ بھئی صرف اس لیے کہ وہ برطانیہ میں ایک بار باکسنگ میچ جیت چکے تھے، 

کالم نگار کی رائے میں اگر عیدی امین مزید زندہ رہتے، تو ہو سکتا ہے اگلا لقب ہوتا:
"Intergalactic Supreme Commander of Mars and Jupiter's Moon!"

کہتے ہیں یوگنڈا کے بچے الف بے سے پہلے “ع” برائے عیدی، “ق” برائے "قابضِ حکومت"، اور “م” برائے "مالکِ مچھلیاں" پڑھتے تھے۔

آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ جناب عیدی امین تاریخ میں وہ نایاب شخصیت تھے، جنہوں نے آمرانہ 

حکومت کو ایک سرکس میں تبدیل کر دیا — اور خود ہی رِنگ ماسٹر بن بیٹھے!

اس کے اپوزیشن رہنما سے کسی نے پوچھا تھا