اتوار، 11 نومبر، 2018

سیاسی طغیانی کے بعد مٹی میں دھنسا ہوا ڈرم


لاہور ہائیکورٹ کا راولپنڈی بنچ پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے ، جی ٹی روڈ 
کے ذریعے راولپنڈی سے لاہور جانے والوں کو دور سے نظر آتا ہے۔ اسی پہاڑی کے نیچے سواں بس اڈہ ہے اور اس اڈے سے متصل ایک پل کانام بھی سواں پل ہی ہے جس کے نیچے سے دریاے سواں گذرتا ہے اورراولپنڈی سے آنے والا نالہ لئی بھی اسی مقام پر ان پانیوں میں گڈمڈ ہو جاتا ہے۔بالائی علاقوں میں بارش کے بعد سارا پانی اسی پل کے نیچے سے طغیانی بن کر گذرتا ہے ۔ راہ گیر اس پل پر کھڑے ہو کر بپھرے پانیوں کی طاقت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور پل کے نیچے سے گذرتے بپھرے پانیونوں کی طاقت کے شاہد بنتے ہیں۔اسی پل پر کھڑے ہو کر ایک سیلاب کے دوران میں نے دیکھا تھا کہ پانی بڑے بڑے ڈرم دبوچ کر اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ ایک ہفتے بعد راولپنڈی سے چک بیلی خان جاتے ہوتے میں نے ایک ڈرم اسی دریا کے پاٹ میں زمین میں دھنسا ہوا دیکھا تھا۔میرا خیال ہے کہ انفرادی طور پر لوگوں نے لوہے کے اس ڈرم کو جو تارکول سے بھرا ہوا تھا ، نکالنے کی ناکام کوشش کی ہو گی مگر اجتماعی طاقت سے یہ ڈرم باہراور زیر قبضہ آسکتاتھا ۔ شاہد ہماری اجتماعی خلاقیات ابھی اس قدر نہیں گری ہے۔

سیاسی واقعات بھی طغیانی کی مانند ہوتے ہیں ۔ سیلاب اتر جانے کے بعد کئی ْ ڈرمْ مٹی میں دبے رہ جاتے ہیں ۔ پاکستانی سیاست میں ایک طغیانی 2014 میں اسلام آباد میں آئی تھی۔126  دن کے دھرنے اور ماڈل ٹاون میں معصوم لاشوں کی یادگار کی صورت میں کئی ْ تارکول بھرے ڈرم ْ اہل بصارت کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے اس سیاسی سیلاب کا منبع لندن تھا اور مقدار و والیم کے والو چند افراد کے ہاتھ میں تھے۔ اس مصنوعی طغیانی کے بہاو میں جن کوآنا تھا ان میں پاکستان چین معاشی رہداری کی نیم سوختہ اینٹیں اور نون لیگ کے وزیر اعظم کی کرسی شامل تھی۔

عوامی تحریک کے جنرل سیکرٹری خرم نواز گنڈا پور نے ’’دنیا ‘‘ ٹی وی کے اینکر معیز پیر زادہ کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ لندن پلان کے حوالہ سے جو خبریں آتی رہی ہیں وہ درست ہیں ۔ ہمارے سربراہ طاہر القادری صاحب سے لندن میں عمران، چودھری پرویز اٰلہٰی اور چودھری شجاعت حسین نے ملاقات کی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ نواز حکومت کو گرانا ہے۔

 ایم کیو ایم کے ممبر قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی نے گنڈا پور صاحب کے بیان کی تائید میں بیان دیاتھا کہ قادری صاحب نےایم کیو ایم  لندن کے سیکرٹریٹ کو فون کر کے پیشکش کی تھی کی حکومت گرانے میں ان کا ساتھ دیا جائے توبدلے میں کراچی 
ایم کیو ایم 
کےحوالے کر دیا جائے گا

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نےلندن پلان بارے ایک نجی ٹی وی کو آنٹر ویو یتے یوئے   
 تصدیق کی  کہ لندن پلان موجود تھا  ۔
انہوں نے کہا کہ 2014ء میں لندن پلان تشکیل دیا گیا اور ہم اس پلان کے اہم کردار تھے۔ ہمارا مقصد ملک میں نظام کی تبدیلی تھا اس لیے ہم لندن پلان میں شامل ہوئے۔ 
لیکن ہمیں یہ نہیں علم تھا کہ اس پلان کو عملی جامعہ پہنانے والے نظام تبدیلی نہیں صرف نواز شریف حکومت ہٹانا چاہتے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ پاکستان میں نظام کی تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں سب کا کڑا احتساب ہو اور موجودہ پارلیمانی نظام کو بھی تبدیل کیا جائے۔ 
یہ نظام ملک میں کرپشن اور بد امنی کی بڑی وجہ ہے۔ جس کے بعد ہم نے لندن پلان میں شامل ہونے کا حتمی فیصلہ کیا

مخدوم جاوید ہاشمی صاحب نے بھی اس سخن کو اپنا موضوع بنایا اور کہا 
خود عمران خان نے ان سے لندن میں رابطوں کی تصدیق کی تھی۔ہاشمی صاحب نے تو پلان بی، سی اور ڈی کی موجودگی کا بھی ذکر کیا تھا۔اور جیو نیوز سے وابستہ مرتضیٰ علی زیدی کی یہ شہادت بھی موجود ہے کہ 28, 29۔  اور 30 جون کو برطانوی شہری زلفی بخاری کے دفتر میں یہ ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ 

ان ملاقاتوں کو میڈیا مین لندن پلان کا نام دیا گیااور روزنامہ امت نے اس بارے میںلکھا تھا  
 کہ لندن پلان کا مقصد اقتصاد ی راہداری کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنا ہے ۔قادری کے منصوبے میں برطانیہ ، امریکہ بھارت اور ایران کے نام سامنے آئے  ۔ طاہر القادر ی کو کلبھوشن کی گرفتاری کے بعدپاکستان بھیجنے کا منصوبہ بنایاگیا ۔اسی سال مارچ کے آخری عشرے میں طاہر القادری صوفی کانفرنس کی آڑ میں بھارت گئے تھے۔ جہاں 18مارچ کو ان کی ملاقات بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی راکے اعلیٰ افسران سے کرائی گئی اخبار  کے مطابق ملاقات کا مقام دہلی میں راکا ذیلی ادارہ انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفینس اسٹڈیز اینڈ اینالیسز تھا اور قادری کو منصوبے کے بارے میں انسٹی ٹیوٹ کے ڈپٹی چیئرمین بریگیڈئر (ر) رومل ڈاھیا نے بریف دی تھی ۔ اور طاہر القادری کو یہ مشن سونپا گیا کہ پاکستان میں کسی بھی صورت فرقہ ورانہ کشید گی کو ہوا دی جائے ۔ تاکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر اتنی سست ہوجائے کہ چین اس منصوبے سے اکتا جائے ۔  طاہر القادری بظاہر پاناما لیکس کے دبائو کا شکار نواز حکومت ایک دھکا اور دینا چاہتے تھے ، لیکن اس موقع پر بھارتی حکومت کی توجہ کا مرکز طاہر القادری تھے ۔ جو پاکستان کے لیے ایک نیا منصوبہ 
importance of moderate islam for south east asia 
کے عنوان سے بھارتی انسٹی ٹیوٹ میں پیشکر چکے تھے ۔ طاہر القادری نے پاکستان میں بھارتی دہشت گردی اور مداخلت کے حوالے سے پاکستان کے موقف کی تائید کرنے کی بجائے مذمت کی اور بھارتی ٹی وی چینل اے بی این کو انٹرو یو دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کے موقف کو درست نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان کی جانب سے بھارت پر لگائے جانے والے کسی بھی الزا م کی تائید نہیں کرتے اور پاکستان کو بھارت کے تحفظات پر غور کرنا چاہئے ۔  مارچ 2016میں طاہر القادری کو پورے بھارت کا دورہ کرایا گیا ۔ اس دوران وہ راجستھان ، آندھراپردیشن اور حیدر آباد دکن بھی گئے بھارتی حکومت کی جانب سے طاہر القادری کی جماعت منہاج القرآن کے نام سے پورے بھارت میں شاخیں کھولنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
   
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق شہباز شریف نے  19 ستمبر 2014 کوکہا کہ لندن پلان کے پیچھے وہی لوگ ہیں جنھوں نے 
قرضے معاف کرائے اور پنجاب بینک میں ڈاکے ڈالےہیں

  نواز شریف نے کہا کہ لندن پلان بےنقاب ہوگیا ۔ عمران خان اور طاہر القادری کی لندن ملاقات کا حال سب کے سامنے ہے ۔

اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹریٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیف کوارڈینیٹر پاکستان مسلم لیگ ن محمد صدیق الفارق نے کہا کہ لندن پلان بنانے والوں کا منصوبہ ہے کہ لاشیں گرا کر اور مظلوم بن کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جائیں۔ لندن پروگرام بے نقاب ہونے کے ڈر سے قادری چودھری گٹھ جوڑ نے  
عدالتی کمیشن کے بائیکاٹ کا علان کیا ہے۔
ہ
کچھ لوائی کورٹ نے 1990 میں  طاہر القادری کو جھوٹا مکار قرار دیا ۔ ہےگوں کا اس پر اتفاق ہے  کہ لندن پلان اسٹبلشمنٹ نے تیار کیا ہے اور اس کی وجہ نواز شریف کی جانب سے افغانستان اور بھارت بارے ڈیپ سٹیٹ یا تزویراتی گہرائی کی پالیسی سے اتفاق نہ کرنا اور مشرف کے ٹرائل پر اصرار  کرنا ہےاور پاکستان میں ملٹری بزنس کے مفادات کے آڑے آنا ہے

جاوید چودھری نے اپنے ایک کالم میں اشاروں کی صورت میں  قادری و عمران کے
 دھرنوں و انقلاب کو انھوں نے بھی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور سابق و موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا اور ظہیر الاسلام کے  ذھن کا مشترکہ منصوبہ قرار دیا لندن پلان کے شور ہی میں لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن رونما ہوا تھا
محمد صدیق الفاروق نے کہاتھا
  سانحہ ماڈل ٹاون  سازش ہے

 سلیم صافی کے بقول “لندن پلان ” کا بلیو پرنٹ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے نے تیار کیا اور اسے کینیڈین حکام کے حوالے کیا – یہ لندن پلان مغربی ملکوں نے پانچ سال پہلے تیار کرلیا تھا اور اس کی بنیادی وجہ مغربی ملکوں کا یہ یقین تھا کہ دیوبندی سلفی انتہا پسند عالمی جہاد پاکستان سے بیٹھ کر چلارہے ہیں اور ان کو روکنے کے لیے ان کا ٹکراؤ سنی صوفی بریلوی اور شیعہ سے کرانا بہت ضروری ہے – بقول سلیم صافی مغربی طاقتوں نے نے یہ کام ڈاکٹر طاہر القادری کے سپرد کردیا اور ڈاکٹر قادری نے اس پلان پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک طرف تو پاکستان میں شیعہ تنظیم مجلس وحدت المسلمین اور سنّی بریلوی تنظیم سنّی اتحاد کونسل کا سہارا لیا اور بعدازاں اس میں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الہی بھی شامل ہوگئے- سلیم صافی کے بقول اس کی کچھ کڑیاں جو مل نہیں رہی تھیں وہ جاوید ہاشمی نے ملادیں کہ عمران خان بھی اس پلان میں شامل تھے اور لندن میں ان کی قادری اور چودھری شجاعت سے ملاقات ہوئی تھی سلیم صافی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس معاملے میں آصف زردای کا ڈبل رول ہے اور ان کے کہنے پر چودھری برداران، قادری کے ساتھ ہوئے اور اب تک ان کے ساتھ ہیں


سیاسی طغیانی کے بعد لندن پلان ایسا تارکول بھرا ڈرم ہے جو سیلابی مٹی میں پھنسا ہوا ہے انفرادی قوت اس کو نکالنے میں ناکام ہے ۔ کیا ہمارا اجتماعی سیاسی شعور اس قابل ہے کہ اس پھنسے ہوے ڈرم کو نکال کر کنارے لگائے تاکہ سیاسی پانی کا بہاو رواں دوان رہے اور ایک اور جمہوری حکومت کسی اور پلان کے نتیجے میں گرنے پر مجبور نہ ہو  

ہفتہ، 3 نومبر، 2018

اونچا شملہ اور چاں چاں کرتی چپل


اکلوتی ، سب سے بڑی، حافظہ بیٹی کے سر پر چادر ڈالی، اس کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا مگر اس کے دماغ نے کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔ وقت جو ستم کر کے گذر گیا تھا اس کو واپس موڑنا اس کے بس میں نہیں تھا۔پہلی بار ، زندگی میں پہلی بار، اس کے گھر والوں ، پوتوں اور نواسوں نے سفاک لہجے میں سنا ْ عبد الطیف کو بلاو میں نے عشاء کے بعد فیصلہ کرنا ہےْ 
حاجی حاحب ، جو حج کرنے سے پہلے سارے گاو ں کے ماسٹر جی تھے، گاوں کی سب سے باعزت شخصیت تھے۔ مگر اج اس عزت کا جنازہ گھر سے ملحقہ کھیت میں نکلنے لگا تھا ۔ عشاء کے بعد ان کے چھ بیٹے، اکیس پوتے، تیرہ نواسے اور گھر کی ساری خواتین موجود تھیں جب عبدالطیف کی چیختی چپلوں نے اس کی آمد کا اعلان کیا۔ عبد ا لطیف نے چپل اتارے اونچے لہجے میں السلام علیکم کہاسوتیلے والد کے ساتھ جھک کرمصافحہ کیا اور ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔حاجی صاحب نے فیصلہ کن اور گرجدار میں کہا ْ عبدالطیف تینڈی جتی دی چاں چاں کدن مکیسی ْ 
یہ واقعہ خود اسی سالہ مولانا لطیف نے نوشہرہ کے اکوڑہ خٹک سے واپسی پر سنایا۔ ہم ملک کے نامور عالم دین مولانا سمیع الحق کا جنازہ پڑھ کر واپس آ رہے تھے۔ مولانا مرحوم کے علم کے شجر تناور تھے ایسا شجر جس کے سائے میں نام ور ہستیاں راحت پاتی تھیں ان کی روادار فطرت کی مثال ہے کہ بھٹو کے وقت مین تشکیل پانے والی آئی جے آئی جس کے سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد تھے اور جب مولانا سمیع الحق کی سربراہی کی باری آئی تو وہ ازخود اس سے دستبردار ہو گئے اس شجر کی شاخیں شہبازوں سے خوف زدہ چڑیوں کو گھونسلہ بنانے میں کبھی بھی مانع نہیں ہوئیں۔وہ تین بار پاکستان کی پارلیمان بالا کے ممبر رہے ۔ ان کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ ملا عمر اور جلال الدین حقانی خود کو ان کا شاگرد بتاتے اور مولانا فضل الرحمن بتاتے ہیں کہ انھوں نے آٹھ سال ان کے مدرسہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔امریکہ کا سفیر ان کے در پر حاضر ہوتا تھا۔ سعودیہ والے اس کی اقتداء میں نماز پڑہتے تھے ، پاکستان کے علماء ان کی بات مانتے تھے مغرب نے انھیں طالبان کے باپ کا خطاب دیا تو طالبان کو فرحت ہوئی ۔ وہ اول و آخر پاکستانی تھے ۔ ان کے والد مولانا عبدالحق نے تحریک پاکستان میں حصہ ڈالا تھا۔ اس علمی گھرانے نے سیاست میں قدم رکھا تو لوگوں نے نہ صرف مولانا سمیع الحق کے والد صاحب کو بلکہ بیٹے مولانا حامد الحق کو بھی قومی اسمبلی میں اپنی ترجمانی کے لیے منتخب کیا۔ایک مسلمان ملک پر روس نے قبضہ کیا تو وہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں کے سب سے بڑے خیر خواہ کے طور پر سامنے آئے۔ امریکہ نے اپنے پنجے گاڑہے تو بھی وہ حکومت پاکستان کی پالیسوں کے ہم نوا بنے ۔ ۲۰۱۴ میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے طالبان نے ان کا نام لیا۔ دینی مدرسوں کے نصاب میں بہتری لانے کی ہر حکومتی آواز کی انھوں نے تبلیغ کی۔جو لوگ ان کے نزدیک تھے ان کے دلوں میں ان کے لیے احترام تھا، جو ان سے ملاقات کرتا ان کی شخصیت سے مرعوب ہوتا ۔ دور کے نکتہ چین بھی ان کی سیاسی زندگی میں کوئی سکینڈل ڈھونڈے میں ناکام ہی رہے۔
میں نے مولانا لطیف سے سوال یہ کیا تھا کہ ہمارے علماء اپنے اپنے مقام پر قوی ہونے کے باوجود اسلام کی طاقت میں اضافہ کیوں نہیں کر پاتے ہیں ۔تو مولانا نے اپنا ذاتی واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں ایسا خطیب ہوں کہ دور دور سے لوگ مجھے خطاب کے لیے لینے آتے ہیں ۔ مگر میں اپنے دادا کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز نہیں پڑہتا تھا ۔ میری وجہ سے میرے دادا کا خاندان دو حصوں میں بٹ گیا۔ میں اپنے چاچا( سوتیلے باپ) سے نفرت کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ کر سکا مگر بھائیوں کا معاشرتی مقابلہ کرنے کے لیے خطیب پاکستان بن بیٹھا ۔ میں نے اسلام کو چھوڑ کر مسلک کو اپنالیا ۔ میں ہنسے مجمع کو رلانے کے فن سے آشنا ہو گیاتھا ۔ میں نے اونچا شملہ اور چیختی چپل کو صرف اس لیے اپنا لیا تھا کہ دو دونوں چیزیں میرے چاچے کو پسند نہ تھیں۔اس دن میں بہت خوش تھا جس دن ایک معمولی تنازعے پر جرگہ منعقد ہوا اورمیں نے چاچے کو سر پنچ ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد جب بھی کوئی مسٗلہ میرے چاچے کے سامنے آتا ۔ میرا چاچا لوگوں کو تھانے کی راہ دکھاتا۔ میں خود سے شرمسار رہنے لگا مجھے چاچے کا کوئی ایسا عمل یاد نہ تھا جو نفرت کا باعث ہوتا۔ اب میں کسی بہانے کا انتظار کر رہا تھا ۔ پھر وہ واقعہ ہو گیا جس نے سارے گاوں کو ششدر کر دیا کسی نے میری بھتیجی کے سر سے چادر کھینچنے کی کوشش کی تھی ۔ میں گیا تو چاں چاں کرتی چپل پہن کے اور اونچا شملہ رکھ کے تھا ۔ مگر میں نے شملہ چاچے کے قدموں میں رکھ دیا تھا اور واپس ننگے پاوں آیا تھا۔ پھر میں نے اس بد بخت کو ڈہونڈ نکالا ۔ سارا گاوں متفق تھا کہ فیصلہ جرگے میں ہو اور چاچا جو فیصلہ کرے سب کو منظور ہو گا۔ عین موقع پر چاچے نے کہا میں تو فریق ہوں تم فیصلہ کرو۔ میرا فیصلہ غصہ بھرا تھا ، مگر گاوں والوں کو منظور تھا۔ میرا چاچا اٹھ کھڑا ہو اکہا میں بطور فریق مجرم کو معاف کرتا ہوں، معافی نہ مجھے منظور تھی نہ گاوں والوں کو۔ چاچے سے اپنا کرتا اتار کر پیٹھ ننگی کر لی ۔کہا اپ لوگوں نے سزا دینی ہے تو مجھے دو۔ سب کے ساتھ میری نظریں بھی جھک گئیں۔ بغاوت پر آمادہ مجرم ایسے جھکا کہا اس کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا ۔ مولانا لطیف نے میرے کندہے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ اللہ اس لیے خدا ہے کہ وہ احسان کرتا ہے۔چند لمحے کی خاموشی کے بعد کہا جس شخص کا جنازہ پڑھ کر آرہے ہیں وہ میرے چاچے جیسا تھا وہ کہتا تو نہیں تھا کہ مگر اس کا مدعا یہی ہوتا تھا کہ دیندار بننا ہے تو دستار کاشملہ اونچا کرنے اور چاں چاں کرتی چپل سے پرہیز کرو۔ 

جمعرات، 25 اکتوبر، 2018

خان کہاں ہے ؟

عمران خان کیلئے تصویری نتیجہ
اس ملک کو ڈاکو اور چور کھا گئے، عوام کے لیے کچھ بھی نہیں چھوڑا یہ آواز ہر کان تک پہنچ چکی۔ ایک وزیر با تدبیر ٹی وی پر ریوالنگ کرسی پر بیٹھ کر فرماتے ہیں میری وزارت سے سابقہ چور حکمران سب کچھ لوٹ کر لے گئے وزارت کے کھاتے میں صرف تیس روپے پڑے ہیں ۔ اس پر میرے ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا اس کا صدقہ کر دو۔
ہر سیاسی جماعت معاشرے کے کسی طبقے کی نمائندگی کر رہی ہوتی ہے جہاں سے اس کو مالی کمک مہیا کی جاتی ہے۔منفرد اور طویل دھرنے کے دوران شیخ الاسلام صاحب نے رات گئے خواہش کا ااظہار کیا اور صبح ہم نے سکول کے لیے سامان لیے ٹرک موقع پر دیکھے تھے۔پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت جس طبقے کے مفاد کی دعویدار ہوتی ہے ، عمل اس کے بر عکس نہ ہو تو بھی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتوں کے یہی اعمال عوام کی اکثریت کو بد ظن کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے والوں میں کمی کا سبب لاتعلقی کا اظہار ہے۔
عمران خان صاحب کی پی ٹی آئی کا المیہ مگر اس سے بڑھ کر ہے ۔اس جماعت کا دعویٰ تھا مر جائیں گے مگر قرض نہیں لیں گے، پورے پاکستان میں مہنگائی کو عوام نے سہہ لیا۔ہزاروں ڈیم کے بارے میں عوام کہتی ہے سو دنوں میں ہونے والاکام نہیں ہے۔مگر عوام پوچھتی ہے وہ دو ارب ڈالر کیا ہوئے جو عمران خان کے کرسی پر بیٹھتے ہی پاکستان میں آنا تھے۔ اب ہمارے وزیر خزانہ صاحب اس سوال پر ہنس دیتے ہیں۔ عوام ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ ہنسی عوام کے فہم پر ہے؟ عوام کو یہ بھی یاد ہے چوروں کی حکومت میں جو سات ارب روپے کی مبینہ روزانہ کرپشن تھی وہ اب رکی کہ نہیں ؟ تو جواب ملتا ہے پولیس اور بیرو کریسی ہماری بات ہی نہیں مانتے۔  عوام تو اس پولیس اور بیورو کریسی کو نسلوں سے جانتی ہے بس آپ کی جماعت ہی اس زمینی حقیقت سے ایک صوبے میں پانچ سال کی باری کے بعد بھی بے خبرنکلی۔عوام کو یاد ہے آپ نے پچاس بلین ڈالر سالانہ کے موصول زر کا ذکر کیا تھا۔ اس کے جواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہماری ایکسپورٹ کم اور امپورٹ زیادہ ہے اور پاک چین راہداری کی درآمدات پر تبرہ کیا جاتا ہے ، حالانکہ سابقہ وزیر اقبال احسن کا کہنا ہے کہ اس کی ادائیگی اگلے سال سے شروع ہونی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ وہ چور ہی نہیں جھوٹے بھی ہیں۔ تین سوارب جو سوئس بنکوں سے پاکستان میں آنا تھے اس کا جواب وزیر اطلاعات جیسے با خبر بھی تراشنے میں ناکام ہی ہیں۔لیکن سو ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ نہ رکنے اور دس ٹریلین کا ٹیکس امیروں سے اکٹھاکر کے غریبوں پر خرچ کرنے کی امید اس دن دم توڑ گئی جب پاکستان کے وزیر خزانہ نے سابقہ بجٹ پر قلم پھیر کر اپنا بجٹ اسمبلی سے منظور کرا لیاتھا۔
نا اہل وزیر اعظم نے تین ماہ میں ملک مین بجلی پوری کرنا کا دعویٰ کیا تھا ،پہلے سو دنوں میں ان کی پھرتیاں دیکھ کر عوام کی ڈھارس بندہی تھی کہ سو دنوں مین نہ سہی پانچ سالوں میں ہی یہ گھاٹی عبور کر لی جائے۔آخر کار چار سالوں بعد عوام کے گھروں کے اندہیرے اجالے میں بدلے۔
سپریم کورٹ نے جب سے عمران خان کے بارے میں صادق و امین کی سند جاری کی تھی ۔اس کے بعد سے عوام کا خان صاحب کے اقوال پر یقین دو چند ہو گیا تھا۔ خان صاحب نے مگر پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرتے زمینی حقائق کو دیکھا تک نہیں۔
ہر قوم کا ایک بیانیہ ہوتا ہے، جو معاشرے کے ہر فرد کو ازبر ہوتا ہے۔اس بیانئے کو لے کر افراد اور معاشرہ آگے جاتا ہے۔امریکہ میں غلامی اسی صدی میں ختم ہوئی ہے مگر ایک شخص نے عوام کو ایک بیانیہ دیا تھا۔ اس کی تبلیغ پر اپنا تن ،من دھن لگا دیا تھا۔مگر اس کا بیانیہ سادہ اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے والا تھا۔برطانیہ میں جمہوریت کے علمبرداروں نے تاج اچھالے بنا ایسا بیانیہ عوام کو دیا جس کو رد کرنا کسی کے بس میں نہ تھا۔چین کی موجودہ ترقی بھی ایک بیانئے کا کرشمہ ہے۔ ایک شخص ایسا بیانہ لے کر اٹھا جو حکمران پارٹی کے دشمنوں کو چین لانے کی دعوت پر مشتمل تھا۔ پارلیمان کے ممبران تو دور کی بات ہے خود پارٹی کی سطح پر انگلیوں پر گنے جانے والے افراد ہی اس کے وژن پر ایمان لائے تھے۔مگر اس نے ایک ایک فرد کے پاس جا کے اپنا بیانیہ لوگوں کو سمجھایا تھا۔ آج چین کی معیشت کہاں کھڑی ہے سب کو معلوم ہے۔
عمران خان صاحب کی جماعت عوام کو بتاتی تھی یہ ہم ۲۲ سالوں سے محنت کر رہے ہیں۔ نیا پاکستان بنائیں گے ہر آدمی ٹیکس دے گا۔ بلواسطہ ٹیکس ختم ہو جائیں گے، ہر شخص کو کام پر لگایا جائے گا۔ مگر کبھی وزیر خزانہ ہنس دیتے ہیں تو کبھی بتایا جاتا ہے کہ چور وزارت کے اکاونٹ میں تیس روپے چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔ سب سے بڑا چور تو نواز شریف بتایا جاتا تھا۔ وہ تو سزا بھگتنے کے لیے لندن سے چل کر آ گیا تھا۔اگرچور تھا، عوام پوچھتے ہیں، چوری کا مال نکلواتے کیوں نہیں۔وزیر با تدبیر فرماتے ہیں یہ عدالتوں کا کام ہے۔ عدالت کہتی ہے پارلیمان سست ہے۔ مگر وزیر اعظم صاحب تو کہتے ہیں می ں چھوڑوں گا نہیں ۔مگر پارٹی میں موجود سند یافتہ چوروں، ڈاکووں ، منی لانڈرنگ کے مرتکب افراد کا نام لیا جائے تودوسرے ہفتے نام لینے والا ملازمت سے فارغ ہو جاتا ہے۔
اب عوام کہتی ہے پی ٹی آئی نے ۲۲ سال اپنے بیانئے کو مقبول بنانے ہی میں صرف کیے ہیں۔ وہ معاشرے کے جس طبقے کے مفادات کی نگہبان ہے ان ہی کے مفادات کی نگہبانی کر رہی ہے۔ عوام کو کرپشن کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے سیاسی جماعتوں کے پاس شہداء کی جو فہرست ہے ان میں اکثریت امید کی بتی کے پیچھے دوڑ میں ہانپ کر مر جانے والوں ہی کی ہے۔
کرسی کا اپنا ہی بیانیہ ہے۔ جوانگریز کے وقت سے چلا آ رہا ہے کہ اس پر بیٹھنے والا حاکم ہے باقی سب محکوم۔ 
پاکستان میں دوبارہ ایسے بیانئے کے لیے جگہ خالی ہے جہاں عوام کے ساتھ معاملہ کرنے والے پٹواری اور تھانیدار جو حکمران ہیں۔ ان کے ساتھ ایسے شخص کو نہ بٹھا دیا جائے جس کو احساس ہو کہ اس کا کام عوام کی خدمت ہے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب ان دونوں کرسیوں کے بیچ میں کھڑے عوامی نمائندے کو بیٹھنے کے مستقل کرسی مہیا نہ کر دی جائے۔ جب تک یہ نہیں ہو گا ۔ سیاسی کارکن ہانپ ہانپ کر گرتے ، مرتے رہیں گے جن کو سیاسی مبلغین سیاست کی جنت برین میں بتاتے ہیں ۔ مگر ان کی اولادیں تعلیم کو اور ان کا خاندان دو وقت کی روٹی کو ترس جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کا بیانیہ بہت مقبول تھا ۔ مگر عمل نے ہدف ہی تبدیل کر دیے ہیں ، اب ہدف پٹواری اور تھانیدار نہیں بلکہ وہ تیسرا ہے جو عوام کی خدمت کے بل بوتے پر ووٹ حاصل کر کے آتا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا کا ہدف یہی تیسرا ہے ۔عوام تو یہی کر سکتی ہے خان صاحب کی بجائے نیازی صاحب پکارنا شروع کر دے۔جب عمران خان صاحب کے سابقہ شیدائی سے اس کا سبب پوچھا تو اس کا جواب تھا۔ عمران احمد نیازی میں خان کہاں ہے

پاکستان اکیلا نہیں ہے اس حمام میں


‪CBI moin akhtar‬‏ کیلئے تصویری نتیجہ                                   
پڑوسی ملک بھارت میں ان دنوں سی بی آئی اسکینڈل چل رہا ہے جس میں ہونے 
والی تحقیقات کے دوران سی بی آئی کے کئی ایک ڈائریکٹرز کو اپنے عہدوں سے ہاتھ دھونا پڑ گئے ہیں اور ان سب کے زوال کا سبب بنے والے شخص کا نام ہے معین اختر قریشی۔
ارب پتی معین اختر قریشی کا تعلق بھارت کے شہر کانپور سے ہے اور اُن کا شمار گوشت کے بڑے برآمد کنندگان میں ہوتا ہے۔انہیں سی بی آئی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔
معین اختر قریشی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ بہت سے سرکاری افسران کو خوش رکھنے کے لیے انہیں حوالہ کے ذریعے رقوم بھجوانے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ان کی طرف سے نوازے جانے والوں میں سی بی آئی افسران اور بعض سیاستدان بھی شامل ہیں۔
معین قریشی کا نام 2014ء میں سامنے آیا جب ان کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے سی بی آئی چیف رنجیت سنہا سے 15ماہ کے دوران 70بار ملاقات کی۔حیدرآباد دکن کے بزنس مین ستیش بابو کے مطابق انہوں نے اپنے ایک دوست کی ضمانت کے لیے معین اختر قریشی کو ایک کروڑ روپے دیے تھے۔
2014ء کے بعد بھی معین اختر قریشی کے سی بی آئی کے اعلیٰ افسران سے ملاقاتوں اور پیغامات کا تبادلہ جاری رہااور اب سی بی آئی کے نئے چیف الوک ورما بھی ان سے تعلقات رکھنے کے الزام میں اپنے سارے اختیارات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
قریشی نے اپنے کاروبار کا آغاز 1993ء میں رامپور میں ایک چھوٹے سے مذبح خانے سے شروع کیا تھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا شمار بھارت کے چند بڑے گوشت برآمدکنندگان میں ہونے لگا۔25سال کے دوران ان کی کمپنیوں کی تعداد 25ہوگئیہے اوروہ برآمدات کے علاوہ تعمیرات اور فیشن انڈسٹری میں اپنی ساکھ بنا چکے ہیں۔

پیر، 22 اکتوبر، 2018

آزمودہ نسخہ



یہ واقعہ مستند کتاب میں درج ہے۔ زبان دراز اور بے عمل ہجوم پر مشتمل ایک قوم ہوا کرتی تھی۔ تنظیم نام کی شے سے وہ واقف نہ تھے۔ دو وقت کی روٹی کے عوض اپنے مالکوں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے۔ پھر قدرت نے اپنے دن پھیرنے کے قانون کے تحت چاہا ان کے دن پھیر دے۔لیکن وہ نئے سفر پر روانگی کے لیے گھر کی دہلیز ہی چھوڑنے پر تیا ر نہ تھے۔ ان ہی میں سے اللہ نے ایک بندے کو نبی بنایا۔ جو ساری بھیڑکو ہانک کر ایک میدان میں لے گئے۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں مگر ان کا اصرار تھا کہ مقابلہ ان کی بجائے ان کا نبی اور نبی کا خدا کرے۔خدا تو مقابلے میں ان کی فتح کا فیصلہ لکھ ہی چکا تھا مگر خدا نے حالات بھی ان بے عملوں کے موافق کر دیے۔ جب وہ فتح یاب ہو چکے تو ان کا قصہ اسی خدا نے ایک دوسری قوم کے سنانے کے لیے ایک دوسرے نبی کے دل پر القاء کیا ۔ اس نبی نے کتاب میں لکھوایا اور وہ کتاب پوری دنیا میں مستند مانی جاتی ہے ۔ اس دوسرے نبی کی قوم کو بھی نوازنے کا فیصلہ وہی خدا کر چکا تھا۔ نبی نے قوم کو میدان میں نکالنے کے لیے اکٹھا کیا۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں۔ اس قوم نے اپنے نبی سے کہا ۔ خدا تو آسمانوں میں اپنی کرسی پر ہی بیٹھا رہے۔ اور اپنے نبی سے کہا ہم میدان میں مقابلہ کریں گے ۔ آپ بس ہمارے درمیان موجود رہ کر ہماری ڈھارس بڑہاتے رہیں ہم آپ کے دائیں اور بائیں ، آگے اور پیچھے رہیں گے، ہم میدان میں لڑیں گے، لڑتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور اگر ضرورت پڑی تو گہرے پانیوں میں بھی کود جائیں گے۔ اس قوم کے نبی نے اپنے لوگوں کے عمل کو دیکھا ، پرکھا، ان کے کر گذرنے کی داد اس طرح دی کہ ان کو بتا دیا تم شما ل اور جنوب ، مغرب اور مشرق کے مالک بنادیے جاو گے۔ جاہ و جلال چل کر تمھیں سجدہ کرنے آئیگا۔ دنیا کی فراوانی تمھاری دہلیز پر پہنچے گی۔لوگ تمھیں حکمران بنا کر عافیت پایا کریں گے۔یہ قوم میدان امتحان سے فراغت پاتی تو کام میں جت جاتی۔کام سے فرغ ہوتی تو علم کی کتاب کھول کر بیٹھ جاتی۔ یہ قوم کھانے مین سست اور کھانے کا حق ادا کرنے میں چست ہو گئی۔ اس قوم نے عملی طور پر معلوم کر لیا تھا امارت قناعت میں ہے۔ اقل طعام ان کے معدے کو سیر کرنے کا سبب بنا۔یہ کفائت شعار رات کو بے ضرورت دیا نہ جلاتے مگر بھوکی انسانیت کے لیے اپنی تجارت کے مال کا اصل بھی لٹا دیا کرتے تھے۔ان کے دبدبے کا یہ عالم ہوا کہ وہ تلوار نیام میں لیے جس شہر میں داخل ہوتے وہ شہر اپنے مکینوں سمیت ان کی جھولی میں آ گرتا۔ 
ہر طاقت کو آزمایا جاتا ہے۔ صناع اپنی صنعت کو صنعت سے آزماتا ہے، طاقت کو طاقت سے ، علم کو علم سے اور اخلاق کو اخلاق سے آزمایا جاتا ہے۔ کلاشنکوف نام کے شخص نے اپنی گن سے پہلی گولی خود چلا کر اسے جانچا تھا۔ جرنیل اپنی فوج کو آزمائشی جنگوں میںآزماتا رہتا ہے، ادیب اور شاعر وں کی محفلیں اپنے فن کی آزمائش ہوا کرتے ہیں۔ طالب علموں کو امتحان سے گذارا جاتا ہے ۔ خدا بھی اپنے نائبیں کا محاسبہ کرنے سے نہیں چوکتا۔ 
نبوت کا در بند ہو چکا ۔ قوموں کو نوازنے کا فیصلہ اب بھی وہی خدا کرتا ہے۔جس کو نوازنا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے اسباب ارزان کر دیتا ہے۔ 
جب بات اسباب کی ارزانی کی ہو تو نبی آخرالزمان کی قوم کے لیے ارزانی صرف اس کے خون کی باقی رہ گئی ہے۔ اس کا سبب لوگوں کو زبانی ازبر ہے،بتایا جاتا ہے ہم میدان میں نکلنے کی بجائے گھر کی چوکھٹ ہی کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ معدے کی ثقالت نے ہمیں کاہل کر دیا ہے۔ زبان درازی عمل سے بازی لے چکی ہے۔اخلاق روٹھ چکا ہے۔ برکت ناپیدہو گئی ہے۔ ذلت نازل ہو چکی، انصاف ناپیدہو گیا۔تعلیم بے ثمر ہو گئی۔ الفاظ محض لکیریں بن کر رہ گئے ۔ اولادیں نا فرمان ہوگئیں۔ ۔۔ وغیرہ 
کیا مرض لا علاج ہو چکا۔ کیا ہم آنکھیں بند کر کے اپنے مرمٹنے کا انتظار کریں؟
نہیں ۔ نہیں ۔ نہیں، دنیا نشیب و فراز کا نام ہے ہر نشیب کو فرازہے ۔ ہر پستی کو عروج ہے۔ ہر مجرم کے لئے کفارہ ہے۔کوئی قوم غلط نہیں ہوا کرتی مگر افراد۔ فرد ہی کو ملت کے مقدر کا ستارہ بتا یا گیا ہے۔فرد کو آج تک خود فرد ہی نے بدلا ہے۔ آج کا فرد اگر اپنی ذات ، اپنے خاندان، اپنے ملک اور اپنہ امت کو بدلنا چاہتا ہے کہ وہ حق کو اپنا لے۔ حق کے لیے ٓآسان ترین اور سادہ ترین لفظ ْ سچ ْ ہے۔ایسا ْ سچ ْ جو خود اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے