پیر، 15 اکتوبر، 2018

سچ


پچیسجولائی کے عام انتخابات کے بعد جب ٹی وی پر غیر رسمی غیر حتمی نتائج دکھائے جا رہے تھے تو حلقہ این اے ۵۷ سے پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم اور نون لیگ کے امیدوار جناب شاہد خاقان عباسی صاحب  جیت چکے تھے اور یہ نتیجہ پی ٹی وی کی سکرین پر دکھا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اقلیت کو معلوم ہے اور اکثریت بھی زیادہ بے خبر نہیں ہے۔تین ماہ میں بہت سا پانی بہہ گیا ہے، زمین بطور حقیقت سامنے ہے۔ جناب شاہد خاقان عباسی کی مقبولیت کی حقیقت این اے ۱۲۴ کے نتیجے کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ تحمل مزاج، بردبار ، پاکستان کے بیٹے نے اپنے حلقے کا نتیجہ بدل دیے جانے کے واقعے کو ہرز جان بنایا نہ کوئی شکوہ زبان پر لائے البتہ لاہور ۱۴ اکتوبر کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دینے اکٹھے ہوئے حلقے کے لوگوں سے خطاب کے دوران انھوں نے بردباری سے لیکن اہم واقعہ سنایا کہ انھوں نے ۴۰ سے زیادہ پولنگ کے مراکز کے دورے کے دوران کسی ایک پولنگ کے مرکز پر الیکشن کمیشن کی طرف سے نامزد پریذاڈنگ افسر کومرکز کا انچارچ نہیں پایا ۔ انھوں نے الیکشن کمیشن کے چیرمین کے سامنے ایک سنجیدہ سوال رکھا ہے۔ یہ سوال پاکستان کے عوام کے دل کی آواز ہے۔ البتہ توجہ ان کے بردبار لہجے اور الفاظ کے چناو کی طرف مبذول کرانا مقصود ہے۔ 
یہ ثاثر دیا جاتا ہے کہ نون لیگ مزاحمت کی سیاست کی متحمل ہی نہیں ہو سکتی اس کا جواب بھی لاہور کے حلقہ این اے ۱۳۱ کے ووٹروں نے دے دیا ہے کہ جب خواجہ سعد رفیق نے اپنے پولنگ ایجنٹوں کے ذریعے نتائج حاصل کر لینے کے بعد اپنی جیت کا اعلان کر دیا تو ریٹرنگ آفیسر نے ان کے نتائج روک لیے اور خواجہ سعد رفیق کے بیان کو بتنگڑ بنانا چاہا تو ووٹر آر او کے دفتر پہنچ گئے اور نتیجہ لے کر ہی ٹلے اور ٹی وی کے سٹوڈیوز میں براجمان نام نہاد اینکروں کی قینچی کی طرح چلتی زبانیں بند ہو گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف اور شہید بے نظیر بھٹو نے اپنی اپنی آپ بیتی کے بعد یہ عہد کیا تھا کہ وہ سیاسی مخالف کی ٹانگ پکڑ کر اس کا گھٹنا نہیں توڑیں گے۔ اس مثبت تبدیلی کا مظاہرہ اس دن دیکھنے میں آیا جس دن راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک اندھی گولی نے جمہوریت کی اس شمع کو بجھا دیاتو جیالوں نے میاں نواز شریف کے کندھے سر رکھ کر گریہ کر کے اپنادکھ ہلکا کیا تھا۔اسی سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ جناب آصف علی زرداری اور جناب نواز شریف صاحبان کے دور میں کسی سیاسی مخالف پر مقدمہ نہیں بنا۔
میاں نواز شریف صاحب کی حکومت بننے کے ایک سال کے اندر ہی لندن پلان پر عمل کر کے اسلام آباد کا معاصرہ کر لیا گیا۔ریاست کی اہم عمارات اور تنصیبات پر قبضہ کر کے قبریں بھی کھود لی گئیں جن میں وزیر اعظم سمیت سیاسی مخالفین کو دفنانا مقصود تھا۔ ریاست کی طاقت کی مظہر پولیس کے ایک لائق اور با کردار نوجوان افسر کو دارلحکومت کی شاہراہ دستور پر پھینٹا لگا دیا گیا۔ مگر میاں نواز شریف صاحب نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ خود ان کی ذات پر ایسی دھول اڑاہی گئی کی ناظرین کے مناظر دھندلا گئے۔ذرائع ابلاغ کے ایک حصے نے لوگوں کو سمجھانے کی مخلصانہ کوشش کی کہ ستر سالہ عوام کی محرومیوں کا ذمہ دار یہی شخص ہے۔
ُ شدید دباو کے باوجو دمیاں صاحب نے تحمل اور بردباری سے پارٹی اور کارکنوں کو سمجھایا کہ ملک اور عوام کی خوشحالی بہتر معیشت میں پوشیدہ ہے۔اور ہمارا جارحانہ رویہ معاشی ترقی کی راہ کو مسدود کر دے گا۔جس حکمت عملی کو اپنا کر ہم نے ملک میں انفرا سٹرکچر کا جال بچھایا ہے اور پاکستان کے لیے جو دن رات کام کیا ہے وہ خواب بکھر جائے گا۔ان کو یقین ہے بے بنیاد، جھوٹے اور گھٹیا الزام اپنی موت آپ مر جائیں گے۔پاکستان کے عوام اپنے برے اور بھلے کی بہتر تمیز کر سکتے ہیں۔دوسری طرف ان کے مخالفین نے اس سوچ کو نون لیگ کی کمزوری جان کر اقتدار کی کرسی چھین لی۔
نئی حکومت کو آئے دو ماہ ہو رہے ہیں،سو دن کا ابتدائی عرصہ پالیسیوں کے بناو سنگھار اور افسران کی تعیناتی ہی مین گذر جاتا ہے مگرتاثر تو یہ دیا گیا تھا کہ ۲۰۰ قابل افراد جیب میں ہیں، توقع یہ تھی بیرون ملک مقیم پاکستانی اس حکومت کے آتے ہی ڈالر روانہ کر دیں گے،بتایا جاتا تھا ہر تعیناتی قابلیت کے بل بوتے پر ہو گی۔توقع یہ تھی کہ کفائت شعاری اپنائی جائے گی۔سنجیدہ دوست کہتے تھے ۲۲ سال کی تیاری ملک کی قسمت بدل کر رکھ دے گی۔بلند بانگ دعووں ۔ زبانی لن ترانیوں اور بے سرو پا اقدامات کے سوا مگر دو مہینوں میں عوام کو کچھ نظر نہیں آیا۔ترقی کا عمل رک چکا ہے۔بقول وزیر خزانہ ان کو ۱۷ ارب ڈالر خزانے میں ملے تھے اس کے باوجود ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ملکوں ملکوں مفلسی کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا۔پی ٹی آئی کا ورکر ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر ہانپ چکا ہے۔ اس کو ادراک ہو گیا ہے کہ یہ صرف گرجنے والے بادل ہیں۔اس کا اندازہ ضمنی انتخاب کے نتائج کی صورت میں ہو چکا ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ریوڑیاں بٹ رہی ہیں، سیاسی مخالفین پر تبرہ اونچی اواز میں بھیجا جاتا ہے۔تعلیم اور صحت کے شعبوں سے ماہرین کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔وہ لوگ جو ذاتی سرمائے کے بل بوتے پر ان شعبوں مین کچھ کر رہے تھے ان کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔پہلے سو دن سورج نکلنے سے پہلے سحر کی طرح ہوتے ہیں مگر لوگ اس سحر کو صادق ماننے پر تیا ر نہیں کہ سحر صادق کے آثار ایسے نہیں ہوتے۔
لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کیا عمران خان بطور وزیر اعظم ناکام ہو گئے ہیں مگر خان صاحب کے مخلصین بتاتے ہیں ناکام نہیں ہوے وہ نا اہل ٹولے میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کیا وزیر اعظم کو اس کا ادراک نہیں ہے؟
ہمیں یاد ہے ایسے سوال محترمہ شہید اور میاں صاحب کے بارے میں بھی پوچھے جاتے تھے۔ مگر ان کے مابین مفاہمت کی دستاویز ان کے ادراک کا اظہار تھا ۔ ہماری دلی خواہش ہے خان صاحب کامیاب ہوں۔ اپوزیشن نے اسمبلیوں میں حلف اٹھا کر اپنے اخلاص کر اظہار کر دیا ہے۔عربوں کی کہاوت ہے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کو دھوتا ہے ۔ سیاسی پارٹیاں ملک کا ہاتھ ہوتی ہیں ، ہاتھ کو دھونا یا کاٹنا ہمیشہ حکومتی جماعت کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایک عاقل نے لکھا ہے ْ سچ تین مرحلوں سے گذرتا ہے ، پہلے مرحلے میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس کی متشدد طریقے سے مخالفت کی جاتی ہے اور تیسرے مرحلے میں   اس سچائی کو یوں تسلیم کر لیا جاتا ہے جیسے اس سچائی کو کبھی ثبوت کی ضرورت ہی نہ تھی
میاں نواز شریف سچ کے تینوں مرحلوں سے گذر چکے البتہ عمران خان صاحب کے سچ کے پہلے مرحلے کے بارے میں ہی عوام تذبزب کا شکار ہے

ہفتہ، 13 اکتوبر، 2018

تشدد


انسان دو قسم پر ہیں ایک وہ جو اپنے علم و تجربہ کے بل بوتے پر ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں ۔ علم مگر ایک جاری عمل ہے جب انسان علم 
کی ایک سیڑھی طے کر کے دوسری سیڑھی کی طرف بڑھتا ہے تو وہ اپنے سابقہ خیالات اور اعتقادات کے بل بوتے پر ہی نیا ادراک پاتا ہے وہ سابقہ ادراک کی نفی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ نیا وسیع ادراک اس کے سابقی محدود ادراک ہی کی ایک بہتر شکل ہوتی ہے۔علم حاصل کرنے اور اس کی بڑہوتی میں اختلافی دلیل کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ 
دوسری قسم کا انسان جب علم کا ایک زینب طے کر کے اس پر قناعت کر لیتا ہےتو وہ سابقہ زینوںکو کم تر سمجھ کر انھینں مردود قراردیتا ہے، اور علوی زینوں سے نا مانوسیت کے سبب ان سے خوفزدہ ہوتا ہے۔ یہ خوفزدہ شخص اپنی لا علمی کے سبب متشدد ہو جاتا ہے ۔ گو تشدد کا سبب خوف ہوتا ہے مگرسبب لا علمی ہی بنتا ہے ۔ یہ وہ عنصر ہے جو معاشرے کو تشدد کی طرف دھکیلتا ہے ۔سوشل میڈیا پر پائی جانے والی بد زبانی لچر پن اور گالی گلوچ بھی تشدد ہی کی ایک قسم ہے

جمعرات، 11 اکتوبر، 2018

کٹا


ایک مراثی کے بیٹے نے آخر کار بابا جی سے جن قابو کرنے کا علم سیکھ کر ایک جن قابو کر ہی لیا۔ جن کو جو کام بتایا جاتا وہ لمحوں مین مکمل کر کے اں حاضر ہوتا اور کہتا " ہور حکم " بے چارے نےتنگ آ کر بابا جی کی مدد چاہی ، بابا جی نے پوچھا تمھارے گھر مین "مج " ہے کہنے لگا مج تو نہیں ہے کٹا ہے۔ بابا جی نے کہا ہرروز صبح کٹا کھول کر بھگا دیا کرو اور اسے پکڑنے پر لگا دیا کروتمھارا دن اچھا گذر جائے گا .

غربت کا مسئلہ

لوگ دو طرح کے  ہوتے ہیں ایک خود کفیل دوسرے زیر کفالت، زیر کفالت لوگوں کو غریب کہا جاتا ہے ۔ اورغربت ایک مسٗلہ ہے . روس کے سابقہ صدر گرباچوف نے October 2004 کواٹلی میں ایک سیمنار میں کہا تھا ْ غربت سیاسی مسٗلہ ہے .
 سروے کے ایک ممتاز ادارے Statisca.comکے مطابق دنیا بھر میں پورے سال کے دوران انسان جو گندم کھا جاتے ہیں اس کا اوسط 67 کلو گرام فی آدمی فی سال بنتا ہےپاکستانفی آدمی فی سال131 کلو گندم پیدا کرتا ہے. بھوک مسئلہ ہے مگر سیاسی ہے





پیر، 8 اکتوبر، 2018

عصاء


اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم عطا فرمایا اور اشرف کہہ کر حکمرانی کی کرسی پر بٹھا دیا، اٹھارہ ہزار نعمتیں اس کے آگے رکھ دیں کہ اس سے لطف اندوز ہو۔ لکڑی بھی ان اٹھارہ ہزار نعمتوں میں شامل ہے، ابتداء سے ہی انسان اس نعمت سے مستفید ہوتا آ رہا ہے،کھانا پکانے ، سردیوں مین جسم تاپنے، گھر بنانے کے بعد انسان نے اسی لکڑی سے بنے کوئلے سے ریل انجن چلانے سے بجلی پیدا کرنے تک کا کام لیا۔ لکڑی سے انسان نے تسبیح بنائی، کرسی، میز اور پلنگ تیار کیے۔ عصاء بھی لکڑی کا بنا ہوتا ہے جو ان انسان اپنے مقصد کے لیے ہاتھ میں لے کر چلتا ہے۔اس کو لاٹھی ، چھڑی ،سوٹا ، لٹھ،سہارا اور ڈانگ بھی کہاجاتا ہے۔نام کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ نام کے سہارے ہی تصویر ذہن میں محفوط یادداشت سے ابھرتی ہے۔
عصاء سے عقیدت اور بزرگی کا عکس ابھرتا ہے،کچھ عصاء مشہور بھی ہوئے کچھ عقیدتوں کا محور بنے، کچھ کو تاریخ نے یاد رکھا۔معلوم تاریخ میں اللہ کے نبی سلیمان کے عصاء کو خاص اہمیت حاصل ہے،نبی اللہ موسی کے عصاء کا ذکر کتاب میں محفوظ ہے،عصاء کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ نبی خاتم المرسلین نے بھی اس کو ہاتھ میں رکھا۔ موجودہ تاریخ میں میانوالی والے مولانا عبد الستار خان نیازی کے عصاء نے بھی اپنے وقت میں خوب شہرت پائی تھی۔مولانا دوسرے بزرگوں کی طرح اسے اپنے نبی کے عمل کی تقلید میں ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔انھوں نے عصاء پر گرفت مضبوط رکھی اور اللہ نے ان کے شملے کو بلند رکھااور ان کے عصاء کو کوئی دوسرا نام دینے کی کسی کو اللہ نے توفیق ہی نہ دی۔
چھڑی عصا ، ہی کی چھوٹی بہن ہے مگر نام کے بدلنے سے ہی ذہن میں موجود عصاء کے ساتھ عقیدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔چھڑی کے مختلف علاقوں میں استعمال مختلف ہیں، چھڑی کا عام استعمال کتوں سے بچنا ہے۔کچھ علاقوں میں اسے تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،بعض تعلیمی اداروں میں چھڑی کو بطورپوانٹر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان کی سیاست میں اس سے استعفیٰ وغیرہ لینے کا کام بھی لیا جاتا رہا ہے۔
عصاء کو ڈنڈا کہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نمازی بے وضو ہو گیا ہو۔اور حقیقتا ڈنڈے کا استعمال رحمت العالمین کے پیرو کاروں کو بے وضو ہی کرتا ہے۔ڈنڈا چھڑی سے بڑا ہوتا ہے اور ہمیشہ بطور ہتھیار ہی استعمال ہوا ہے۔جس نسل نے ٹاٹ والے سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے وہ ڈنڈے کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔سرکار کے پاس بھی ایک ڈنڈا ہوتا ہے جو معلمانہ ڈنڈے سے کافی تگڑا ہوتا ہے اور پولیس کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے۔اور سرکار کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے کام آتا ہے۔عصر جدید میں اس کو حکومت کی رٹ قائم رکھنے کا نام دیا گیا ہے۔رٹ قائم رکھنے کی ضرورت ہر طبقے،معاشرے اور ملک میں ہوتی ہے، اس میں ترقی یافتہ اور پسماندہ کی تفریق کرنا بے معنی ہے۔ڈنڈے کا سیاسی استعمال
1971
میں بنگالیوں پر ہوا تھا۔ایف ۔ایس ۔ ایف نامی ایک فورس کے پاس بھی کافی مضبوط ڈنڈا ہوتا تھا۔آئی جے آئی ایک تحریک تھی جو ڈنڈے کے ساتھ آئی تھی مگر خالی ہاتھ لوٹ گئی تھی۔
لکڑی ہی سے انسان نے دستہ دریافت کیا تھا جو مختلف ہتھیاروں کے استعمال کو سہل بنانے کے کام آتا ہے۔ جیسے درانتی، کھرپا ، بھالا، کلہاڑی وغیرہ کے دستے۔ ایک دستہ گینتی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگرسیاسی جماعت کے جھنڈے کی طرح گینتی کا دستہ بھی کثیر المقاصد شے ہے۔
2014
میں اسلام آباد میں یہ دستہ عصمت اللہ جونیجو کا سر پھاڑنے میں استعمال ہوا تھا۔پاکستان ٹیلیویژن کی عمارت پر قبضہ کرنے والوں کو
22
 کروڑ کی آبادی نے جب سے پہچاننے سے انکار کیا ہے ، اس کے بعد دستہ کا لفظ ذہن میں گڈمڈ رہتا ہے ، فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اس کو متبرک عصاء کہا جائے، حکومتی رٹ قائم رکھنے والا ڈنڈا کہا جائے، با اختیار چھڑی میں شمار کیا جائے ، عوامی ڈانگ کہا جائے یا نا اہلی کی لٹھ کا نام دیا جائے۔