اتوار، 21 جنوری، 2018

مریکہ اور پاکستانی پولیس

امریکہ نے نائن الیون کے واقعے کو دہشت گردی قرار دے کر اس کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تواس کے عزم کا رخ مسلمان ممالک کی طرف تھا۔ جب حکمرانوں پر دباو بڑھا اور ان کی سانس پھولنا شروع ہوئی تو دھیمے لہجے میں استفسارشروع ہوا کہ دہشت گردی کی تعریف کر کے بتائی جائے ۔ تعریف تو نہ بتائی گئی مگر ملکوں ملکوں دہشت گردی کے خلاف قانون بننا شروع ہو گئے۔ پاکستان میں بھی یہ قانون بنا کر رانجھا راضی کر لیا گیا۔ اگرامریکہ نیاسلامی ممالک پر اس قانون کو دہاندلی سے استعمال کیا تو مسلمان ممالک کے حکمرانوں نے دہشت گردی کے خلاف بنائے گئے مقامی قانون کو اپنے عوام پر نافذ کرکے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ مگر اس ناقص حکمت عملی کوجہاں امریکہ نے اپنے کرپٹ حلیف حکمرانوں کے ذریعے نافذ کرکے بے گناہوں کے خون مین ہاتھ رنگے وہاں پاکستان میں اس قانون کو پولیس نے اس عجلت میں بنائے گئے قانون کے نفاذ میں اتنا خون بہایا کہ دہشت گرد ہی ختم ہو گئے مگر پولیس کا جذبہ مانند نہیں پڑہا ۔ شروع میں جب کہا گیا کہ دہشت گردی کی آڑ میں پیسہ بنانے اور ذاتی مخالفتوں کو مٹانے کا دہندا شروع ہو گیا ہے تو اس آواز پر کسی نے کان ہی نہ دہرے ۔ پھر یہ تماشا شروع ہوا کہ پولیس دہشت گردی کے الزام میں بندہ مارتی اور وہ بعد میں بے گناہ ثابت ہوتا مگر سرکار نے ْ مٹی پاو ْ کی پالیسی جاری رکھی اور قاتلوں کا حوصلہ بڑہتا گیا۔ان کیسوں میں قاتل سرکاری اہل کار اور مقتول بے دست و پا و وسائل سے عاری عوام ہے۔ مگر عوام کی سنائی سرکار کے ہاں نہیں ہے، موم بتی مارکہ سول سوسائٹی کو مخصوص نوعیت کے کیس کی حمائت سے فرصت نہیں ہے، عجب تماشہ ہے ہمارے ادارے دوسرے اداروں کو تو ٹھیک کرنے کے لیے مضطرب نظر آتے ہیں مگر اپنی ادارتی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔
عوام کی چیخ و پکار اہمیت ہی کھو چکی ہے۔نا امیدی سے منع فرمایا گیا ہے ورنہ حالات مایوس کر دینے والے ہی ہیں۔برطانیہ کے گارڈین اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 
2015
میں پاکستان میں پولیس مقابلوں میں 
2018
افراد مارے گئے ہیں۔پاکستان کے ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق سال
2016
صرف سندھ میں مارچ اور جولائی کے دوران صرف چھ ماہ میں 
732
پولیس مقابلوں میں 
160
بندے پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے
اعداد و شمار کی فہرست طویل ہے ، اور انسانی زندگی مختصر ، اور قیمتی بھی ،آدم کی اولادزمین پر اللہ کا نائب ہے۔ اخلاق، قانون، منت سماجت، نصیحت کو نہیں مانتے ہو ۔ خدا کی پکڑ مگر بہت سخت ہے

ہفتہ، 20 جنوری، 2018

اپنی ذات کا عاشق

یاسر پیرزادہ کی تحریر

ابن عربی اور رومی کی صوفیانہ تعلیمات نے اس مرد با کمال کو سلوک کی تمام منازل
 ایک ہی جست میں طے کروا دی ہیں، یہ اپنی ذات کا عاشق اور خود اپنا ہی محبوب ہے، یہ بولے تو منہ سے پھول جھڑتے ہیں، یہ روزانہ صبح آئینے میں خود کو دیکھ کر سوال کرتا ہے کہ تمہارے والدین کس قدر خوش قسمت لوگ تھے جنہوں نے تمہیں جنم دیا، اس کا ہر عمل اس کا ہر فعل اس کا ہر قول ابن عربی اور رومی کے فلسفے کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ ابن عربی کا پرتو، رومی کا معشوق اگر کسی نے دیکھنا ہو تو پاکستان کے اس ہیرو میں دیکھ لے، من کی مراد پا لے گا۔ من کی مراد پانے کے لئے ہمارے اس ہیرو نے درویشی کی ایک نئی جہت متعارف کروائی ہے، جس کے مطابق یہ اور اس کے پیروکار اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں، جو ان کی خواہشات میں رکاوٹ بنتا ہے، یہی درویشی ہے یہی عیاری۔

مجیب الرحمن اور نواز شریف



نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں مجیب الرحمن کا ذکر کر کے جہاں پاکستانیوں کے زخموں کو تازہ کر دیا ہے وہاں سیاسی مجمع بازوں نے اس موضوع کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ 
16 December 1971 
کے بعد پاکستان کی سیاست میں کافی تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور بعض تبدیلیوں کی ابھی تک مزاحمت جاری ہے۔ پاکستان میں مقتدر قوتوں اور عوام نے اس عرصہ میں بہت کچھ سیکھا ہے اور ہمارے ایسے سیاستدان جو ڈرائنگ روم کی سیاست والی اشرافیہ لیگ کے ممبر ہیں اور پاکستان میں کرسی کی سیاست کے علمبردارہیں , نوجوانوں کو گمراہ کرنے میں ماہر ہیں اور تاریخی حقیقتوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے کوے کے کالے رنگ کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔شائد اسی لئے بنگلہ دیش نے ایسے پاکستانی سیاست دانوں کے مجیب الرحمن کی ذات کے متعلق بیانات پر تبصرہ بھی کیا ہے۔ 

شیخ مجیب الرحمن جو بنگلہ دیش کے پہلے وزیراعظم تھے ، نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 
1940
میں آل انڈیا مسلم سٹوڈنس فیڈریشن سے کیا تھا. 
1943
میں مسلم لیگ میں شامل ہو کر حسین شہید سہروردی کے معتمدبن گئے، اور تحریک پاکستان کی جدو جہدمیں بنیادی کردار ادا کرنے والے کارکنوں میں شامل تھے۔
1947
میں قیام پاکستان کے وقت وہ حسین شہید سہروردی کے قریبی قانون دان ساتھی تھے۔پاکستان بننے کے بعد انھوں نے مشرقی پاکستان سٹوڈنس بنائی ۔
1948
میں قائد اعظم کے دورہ مشرقی پاکستان کے دوران اردوکو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کی مخالف آواز مسلم لیگ کے اندر سے سب سے توانا آواز مجیب الرحمن کی تھی۔
1958
میں ایوب خان کے مارشل لاء کی مخالفت کی اور ۸ ۱ ماہ جیل میں رہے۔
1963
میں سہروردی اور
1964
میں خواجہ ناظم الدین کی وفات کے بعد سیاسی خلا کو مجیب ہی نے پر کیا 
1965
میں ایوب خان کے خلاف مشرقی پاکستان میں مادر ملت فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی اور ۵۶ کی جنگ میں پاکستانی افواج کے ساتھ یک جہتی اور حمائت کا اعلان کیا۔
1966
میں لاہور میں چوہدری محمد علی کی معاہدہ تاشقند کے خلاف بلائی گئی ایک میٹنگ کے دوران مجیب نے اپنے چھ نکات کا اعلان کیا۔
مجیب کے چھ نکات
۔ ملک مین پارلیمانی نظام ہو گا اور مرکز میں قانون سازی کے لیے نمائندگی کے لیے بنیاد آبادی پر ہو گی۔
۔ مرکز کے پاس خارجہ، دفاع ، کرنسی اور خارجہ کے محکمے ہوں گے، مالی معاملات کو صوبے طے کریں گے۔
۔ مشرقی اور مغربی صوبوں کے لیے الگ الگ فیڈرل ریزرو مالیاتی سسٹم ہوں گے یا کرنسی علیحدہ علیحدہ ہو گی۔
۔ ٹیکس اکٹھا کرنا صوبائی معاملہ ہو گا البتہ مرکز کو دفاع سمیت دوسرے محکمے چلانے کے لیے خاطر خواہ فنڈ مہیا کیا جائے
گا۔
۔ دونوں صوبوں کے لیے علیحدہ علیحدہ فارن کرنسی ونگ ہوں گے۔
۔ مشرقی ونگ کے لیے علیحدہ پیرا ملٹری فورس ہو گی۔

مجیب نے اپنے مغربی پاکستان کے ایک دورے کے دوران ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کو اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے۔ یہ بیان اس دور کی سیاست کا اہم موضوع بنا ، سول اور عسکری معاشی اخراجات پر بحث ہوئی، اور سوشل ازم کے عروج کے دور میں یہ سیاسی بیان امیر اور غریب کی تقسیم کو اجاگر کرنے کی بجائے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان
1200
میل کے فاصلے کو اجاگر کرے کا سبب بنا ۔ علاقی تعصب بمقابلہ ادارتی تعصب عروج پر پہنچا ۔الیکشن کے نتیجے میں 
169
میں سے 
167
نشستیں جیتنے والے ، اور اعلان کے باوجود اقتدار مجیب کے حوالے نہ ہو سکا تو عوامی لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کردی، فوجی کاروائی شروع ہوئی ، مکتی باہنی کی آڑ میں مسلح جتھے بھارت سے آنا شروع ہوئے۔
10 Aril 1971
کو ْ مجیب نگر ْ نامی آزاد حکومت بنی اور 
16 December 1971
آزاد بنگلہ دیش بن گیا۔

ہم یہاں ایک ایسے کردار پر بحث کر رہے ہیں جو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا مگر سیاسی اور معاشی نا انصافیوں نے اسے ملک توڑنے والی قوتوں کا سر غنہ بنا دیا۔ مجیب کو ملک دشمن، غدار یا جو بھی کہیں ، کہنے والوں کو حق ہے ۔اور اس کا دفاع کرنا بنگلہ دیشی حکومت کا حق ہے مگر ہمار حق ہے کہ ہم اپنے حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں۔ اور پاکستان کے اور خود پاکستانی عوام کے مفاد میں اس حقیقت کا ادراک کریں
۔ ملک کے اندر ادارے اپنے طے شدہ آئینی دائروں کے اندر رہ کر اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
۔ ملک کے اندر دولت کی غلط تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محرومیوں کو بلا دست طبقے سیاسی اور مذہبی اختلاف میں
ڈہال کر عوام کو تقسیم در تقسیم کر کے اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں۔ اس تقسیم کی اصلاح کی کوشش کرنے والوں کے خلوص
کے ادراک کی ضرورت ہے۔
۔ معاملات اقراء پروری اور ذاتی مفادات کی بجائے میرٹ پر نمٹائے جائیں۔ 
۔ ملک میں انصاف کا بول بالا ہونا چاہئے اور حکومت بالا دست طبقات کی لونڈی بننے کی بجائے غریب اور بے سہارا لوگوں کو انصاف کی فراہمی کے لیے زیردست کا بازو بنے۔
۔ ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن و دوستی کو فروغ دینا چاہیے ۔

عوام کے خوابوں کی تعبیر اور خواہشات کی تکمیل ملک کے جغرافیائی تحفظ کے احساس اور استعداد کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت اور اسلام کے دفاع کے امین اداروں کو خالص اسی مقصد کے لئے فارغ کر کے ہی ہم اپنی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔

ملک کے اندر شہریوں کو دہشت گرد ، غدار وطن اور کافر قرار دینے کی روش جاری و ساری ہے، جاتی امراٗ کے حکمرانوں کو غدار وطن قرار دینا، عمران خان کو یہودی ایجنٹ ثابت کرنا، مولانا فصل الرحمن کو زر کا پجاری بتانا ، زرداری کو کمیشن ایجنٹ مشہور کرنا سستی شہرت حاصل کرنے کے ہتھ کنڈے ہیں ۔ اور ہتھ کنڈے نہ پہلے کامیاب ہوئے ہیں نہ اب ہوں گے۔ البتہ معاشی محرومی ایسا عنصر ہے جو غداراور کافر بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اسی لیے محسن انسانیت ، نبی اکرم، خاتم المرسلین صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غربت سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی ہے۔

جمعہ، 19 جنوری، 2018

علامہ خادم رضوی بقابلہ بیس روپے


اخباروں میں قومی اسمبلی کی رپورٹنگ میں بتایا گیا کی جمعرات والے دن وزیر خارجہ محمد آصف کی تقریر کے دوران پی ٹی ٰئی کے غلام سرور خان کی طرف سے مداخلت پر عابد شہرعلی نے لقمہ دیا
ْ خاموش بیٹھو ، عمران خان نے تجھ پر بھی لعنت بھجوائی ہےْ 
جس پر سرور خان چپ تو ہو گئے مگر ان کے چہرے پر ابھرتی ناگواری نے بہت کچھ کہہ دیا۔ بہت کچھ تو اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بھی اسمبلی کے فلورپر کہا ہے، اور آصف زرداری کی لاہور میں تقریر کے فوری بعد بلاول کے ٹویٹ نے پارلیمنٹ کے حق میں ٓواز اٹھائی ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ٹویٹ سے نا قابل توقع قسم کے کام لئے جا رہے ہیں۔ بلاول کا ٹویٹ بروقت اور کارگر رہا جو بے نظیر کی پیپلز پارٹی کے ایسے کارکنوں کو حوصلہ دے گیا جو جمہوریت کے علمبردار ہیں۔پیپلز پارٹی نے اسلام آباد کے تین ماہ پر محیط دھرنے کے دوران جمہوریت اورپارلیمنٹ کے دفاع میں جو موقف اپنایا تھا۔زرداری صاحب کی تقریر کے باوجود عوامی سطح پر بلاول اور پارلیمنٹ کے اندر اپوزیشن لیڈر نے اپنے ذریعہ اظہار کے ذریعے پیپلز پارٹی کے بیانئے کو بر وقت سنبھال لیا۔
قادری صاحب اپنے خطابانہ جوش میں بہت ساری ایسی باتیں فرما جاتے ہیں جو دوسروں کی راہ آسان کرتی ہیں ۔ موجودہ دور میں لفظ ْ لعنت ْ کے استعمال کے بہت ارزاں ہو جانے کے باوجود اس کا ْ جچا تلا ْ استعمال ان ہی کو زیبا رہا۔البتہ عمران خان نے جب لاہور میں اس لفظ کا استعمال پارلیمنٹ کے لئے کیا تو ووٹ کی طاقت کے مبلغین حیرت زدہ ہوئے تو پارلیمنٹ کے اندر ان کے ساتھیوں کی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔ شیخ رشید نے دریاے سندھ اور دریائے اٹک سے اپنے استعفیٰ کی صورت میں جو نہر نکالنے کی راہ دکھائی ہے، وہ بھی کوئی راہ روشن کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس کو کیا جواب دیں اور سرور خان جیسے صحرائے سیاست کے تجربہ کار مسافر کو بھی وقتی طور پر پھبتی کے جواب کے لئے الفاظ نہ مل پائے۔عمران خان کو بقول خود کے دھرنوں کی سیاست کے بعد جو تجربہ حاصل ہو گیا ہے اس تجربے کو پارلیمانی پارٹی کے مشورے کے بغیر چنے گے الفاظ ، پارلیمنٹ میں خود ان کے ساتھیوں کو زچ کر گیا۔
بھرے جلسہ میں خان صاحب نے شیخ رشید کی استعفی ٰ دینے کی آفر پر غور کرنے کا کہہ کر کیا شیخ رشید کے اس دعوے کو سچ کر دیا ہے کہ خان صاحب سیاست کے کھلاڑی اور شیخ صاحب کوچ ہیں۔
سیاسی مبصرین اور اخباروں کے رپورٹر اور چینلوں کے کیمرے لاہور کے اس شو کو ناکام قرار دے دینے کے بعد یوں لگتا ہے کہ نون لیگ نے دفاعی حکمت عملی کے ذریعے بغیر میدان میں اترے کامیابی اپنے نام کر لی ہے۔ بے شک اس کامیابی کے بعد پنجاب حکومت ، قادری صاحب کی طرف سے مزید کسی یلغار کی تشویش سے بھی نکل چکی ہے۔کہ اس جلسے میں مقامی لوگوں کی عدم دلچسپی اور لاہور کی تاجر تنظیموں کی کھلی حوصلہ شکنی نے ، شہباز شریف کی پوزیشن کو سہارا دیا ہے۔
شہباز شریف ،جن کو نون لیگ اپنا مستقبل کا وزیر اعظم مان چکی، مقتدر قوتیں اپنی نیم رضامندی کا خاموش اظہار کر چکیں، کے لئے اب بھی بزرگوں اور روحانی شیوخ سے فیض لینا باقی ہے اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہی عوام دیکھ لے گے۔اس کے بعد الیکشن تک سیاسی ہلچل دریائے راوی کا روپ دہار لے گی کہ نہ پانی ہو گا نہ طوفان اٹھے گا ۔ مگر حقیقت یہ نہیں ہے۔ پنجاب کے سیاست کے دریا میں اصل جوار بھاٹہ الیکشن سے پہلے اٹھے گا ۔ عمران خان کا سونامی 
2013 
میں نون لیگ کا نقصان کئے بغیر گذر گیا تھا مگر علامہ خادم حسین رضوی کا طوفانی بگولہ جس جولانی سے اٹھنے کو مچل رہا ہے اس سے نون لیگ کا بچنا کرامت ہو گا مگر اس بارسارے ہی صاحبان کرامات کا فیض علامہ صاحب کے ساتھ ہے ۔
رہ گئی دو روٹی کو ترستی اور بیس روپے میں میٹرو میں سفر کرتی عوام تو اس بار ایک بڑی اکثریت ْ عمر بن خطاب کے معاشی بیانئے ْ اور میٹرو کے ْ بیس روپےْ میں تقسیم ہو جائے گی۔

پیر، 15 جنوری، 2018

گیارہ ستاروں میں قطبی ستارہ


لاہور میں سیاسی اکابرین خواب بھی دیکھتے ہیں اور ان پر عذاب بھی یہیں نازل ہوتا ہے۔ذولفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستارے اور گیارہ پارٹیوں کی یاد سترہ جنوری کو پاکستان کے زندہ دلوں کے اسی شہر میں تازہ کی جائے گی۔

نوابزادہ نصراللہ خان کو تانگہ پارٹی کا لقب دیا گیا تھا مگر ان کے سیاسی قد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ لال حویلی والے شیخ رشید نے علم نجوم کے ذریعے ٹی وی کے چینلوں کوریٹنگ کے بہت تحفے دیے مگر سیاسی لیڈر جب تک ووٹ نہ جیت سکے اس کو مخالفین کے طعنے ہی مار دیتے ہیں۔اسلا�آباد میں ایک سیاست دان نے سامنے بٹھا کر کہا کہ تمھاری بولتی تمھارے گھر میں آ کر بند کی ہے ۔ مگر موجودہ ٓوازوں میں بلند تر آواز شیخ صاحب ہی کی ہے۔ 

موجودہ گیارہ ستاروں میں قطبی تارہ طاہر القادری کی ذات کی ہے۔ شریفوں کی اتفاق مسجد سے اڑان کے بعد طائر نے پنجاب کا لباس اتار کر عربوں کی ْ توپ ْ اور ترکوں کی "ٹوپی " پہن کر پاکستان کے پاسپورٹ کو بھی خیر آباد کہہ دیا تو برطانیہ میں ان کے مالی معاملات زیر بحث آئے ۔ اور یہ خوف ابھرا کہ پاکستان میں قران کی راہ منور کرنے پر لوگوں کا ایثار مایوسی پا کر چراغوں کو گل بھی کر سکتا ہے مگر عالم کی جب پانچوں گھی میں ہوں اور خوراک مین باداموں کے کشتے بھی شامل ہوں تو علم کا نور منور ہوتا ہے، اور قادری صاحب تو فلسفے اور منطق کے شارح ہیں۔

ہماری امیدوں کے مرکز اور انقلاب کے سرخیل کپتان کا پہلا کارنامہ 
Electables 
کا باسی اچاراکٹھا کرنا ، دوسرا اپنے نظریاتی جانبازوں کو دیوار کے ساتھ لگانا تیسرا نظریات اور جدوجہد کی بجائے تعویزوں اور پہاڑوں کی بلندیوں پہ چلے کاٹنا۔ سیاست کے بابوں کی تنقیدی سوچ کی اقتداء مگر اسد عمر جیسے منظم کی موجودگی میں جلسوں کی افرادی قوت کو ووٹ کی طاقت میں نہ بدل سکنا، اور سب سے بڑھ کر منفی تنقید اور نا مانوس بیانئے نے سنجیدہ ہمدردوں کو مایوسی سے دوچار کیا ہے۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ حلق کی پوری قوت کے ساتھ آپ کے بیانیے کو الیکٹرانک میڈیا اور قلم کی پوری طاقت سے پرنٹ میڈیا میں عوام کو سمجھانے والے آپ سے شاقی ہیں۔ جناب آپ ناکام ٹولے میں گھرکر مخلصین سے روز بروز محروم ہوتے جا رہے ہیں اور آپ کی میڈیا ٹیم کی کار گذاری یہ ہے کہ اس نے نئے پاکستان کے نعرے کے علمبردار کو کرسی کو ترستا شخص بنا دیا ہے ۔ البتہ ضد نے آج تک اور کس کی راہ سہل کی ہے۔
جماعت اسلامی کے امیر محترم صادق اور امین ہونے کے باوجود اپنے روائتی ووٹر سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ سیاست قریہ بلا ہے ، قاضی اللہ کو پیارے ہو چکے اور جس طلسم کے لوگ گرویدہ تھے وہ طلسم ٹوٹ چکا مگر جماعت اسلامی محدود سیاسی ووٹ بنک کے باوجود اپنا مقام رکھتی ہے ،کپتان نے جو فیض حاصل کرنا تھا کر چکے۔ اب کے جماعت اپنے اصل کی طرف پلٹے گی مگر مال روڈ پرنکلنے والی بارات میں جماعت کی افرادی قوت محدود ہی رہے گی۔ 
زرداری کی پیپلز پارٹی کو بے نظیر بھٹوکے بیٹے کی پارٹی بننے میں وقت درکار ہے اور فی الحال لاہور میں وہ قحط الرجال کا شکار ہے۔
لاہور میں یہ اجتماع شہباز شریف کی سیاسی زیست کے لیے فیصلہ کن موڑ ثابت ہو سکتا تھا ۔مگر سیاست بڑا بے رحم کھیل ہےْ ۔ بازی گروں نے بازی زبردست بچھائی ہے ۔یہ بازی مگرشطرنج کی ہے ۔ غلط چال کا ادراک کھلاڑیوں کو فروری کے مہینے میں ہوگا ۔ ناکامی کا بوجھ مگراناڑی پر نہیں ، کھلاڑی پر ہی ہوتا ہے۔

لال حویلی سے اٹھایا گیا یہ تاثر اپنا رنگ جمانے میں ناکام رہاہے کہ فوج اور عدلیہ بطور ادارہ کپتان کی پشت پر ہیں۔ اس رنگ بازی نے ان دو اداروں کو جو چونا لگایا ہے اس کے بعد ان اداروں میں اگر کوئی ہمدرد تھا بھی تو اب نہیں ہے۔