منگل، 12 دسمبر، 2017

کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔

سری نگر سے قندھار تک اور فلوجہ سے یروشلم تک صرف مسلمان کا لہو بہہ رہا ہے اور کٹہرے میں بھی وہی کھڑا ہے۔وہی گھائل ہے لیکن اسی کو انتہا پسند کہا جاتا ہے۔اسی کی پور پور لہو ہے لیکن وہی دہشت گرد ہے۔اسی کی زمین پر قبضہ کر کے اس کے گھروں کو میدان جنگ بنا دیا گیا لیکن اسی کو امن کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا ہے۔اس کے بچے اس عالم میں قتل کیے جا رہے ہیں کہ ماں کے دودھ کی خوشبو ابھی ان کے ہونٹوں سے جدا نہیں ہوئی ہوتی لیکن وہی وحشی کہلاتا ہے۔جن کے نتھنوں سے لہو ٹپکتا ہے اور جن کے فسانوں سے بوئے خون آتی ہے وہ امن کے علمبردارہیں ، وہ مہذب ہیں ، وہ شائستہ ہیں ۔
اب سوال صرف اتنا سا ہے : ثنا خوان تقدیس مغرب کہاں ہیں؟ کہیں مل جائیں تو بس اتنا کہنا ہے: کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔
آصف محمود

8 دجالی پروٹوکولز

یہودی ایجنسی اس کے لئے ضرورت ہے ایک مضبوط بنیاد قائم
دجالی پروٹوکولز امریکی یہودی مفکر، چومسکی "، امریکی نظام نے
(یہودی نظام) وہ دنیا کے حکمران ہونا ضروری ہے
یہودی اپنے مقاصد کے لیے ہر برائی اور بد عنوانی عالمی طور پر برے اور کرپشن دہشت گردی، بنیاد پرستی، قوم پرستی اور نسلی تنازعات کو دنیا میں پھیلا کر اپنی حکومت بنارہے ہیں
دجالی پروٹوکولز 1896 میں، منظور کیا گیا تھا جس کے مشن کی تکمیل، ایک منصوبہ بندی کی گئی اگست 31،1897 اجلاس باسل میں منعقد کیا گیا تھا. یہودی موجود تھےاسی منصوبہ بندی پر 1جنوری 1920، اقوام متحدہ کے لیگ کے منصوبہ پیش کیا گیا 24 اکتوبر، 1945 کو اقوام متحدہ قیام عمل میں آگیا اقوام متحدہ قیام کا مقصد چھوٹے اور کمزور ممالک پر بڑی طاقتور حکومتوں کے فیصلے مسلط کرانا ہیں اقوام متحدہ کے قیام کے زریعے یہودیوں کا پوری دنیا پر دجالی حکومت کا خواب حقیقت میں بدل گیا اور پوری دنیا کی معشت پر قبضہ کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڑ بینک جیسے ادارے قائم کیے گئے اس کے ساتھ یہودیوں کو ایک طاقتور اور مضبوط بیس کی ضرورت تھی جس کی مدد سے اپنی دجالی حکومت کو پوری دنیا میں چلایا جاسکے اس لیے امریکہ ایک آئیڑل ملک کرار ادا کر رہا ہے یہودی مفادات کو پوری دنیا میں تحفط دینے میں ہے اس کے لیے
یہودیوں نے 1921 لندن میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے کہا کیا یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ،
انٹرنیشنل کے امریکن انسٹی ٹیوٹ
کس طرح امریکہ کو کنٹرول کرنا چاہئے
اس کے لیے اقوام متحدہ اور ایک تنظیم بنائی جائے جو
مستقبل میں امریکہ پر مکمل کنٹرول کے اس کو یہودی اعلی گھروں تک پہنچنے کے قابل ہو اور یہودیوں کے ایجنٹ امریکہ کے اعلی عہدوں پر فائز ہو جائے اس کے لیے1921 میں کونسل برائے خارجہ تعلعقات (سی ایف آر) رکھا گیا'خارجہ تعلقات کی کونسل کی مدد سے یہودی ارکان ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں ایک اعلی عہدوں پرآنا شروع ہو گئے بینک اور سیاسی اہم پر اعلی عہدوں اور سیاسی جماعتوں یہودی قبضےآگئی .اب تک جتنے بھی امریکی صدر بن رہیں ہیں سب کا تعلق CFR سے ہے اورCFR انہوں نے کے رکن ان کے نائب جارج بش منتخب کرنے کے لئے مجبور کیا گیا تھا
جارج بش کے عہدہ سنبھالنے کے بعد، CFR کے ایک رکن تھے
صدر گئیر ینگ حملوں پر ریگن قاتلانہ حملے کا مقصد
جارج بش وسیع اختیارات میں حکومت کے ارکان پھاڑنا دھونا
313 اور وہ تمام CFR ارکان کلنٹن صدارت جب
CFR کی یہودی کو مرکز حکومت چلانے کے لئے 'میں منتخب کریں. یہی وجہ ہے کہ کے ارکان کی سب سے زیادہ CFR حکومتی ارکان کی ہوتی ہے یہودی دجالی منصوبوں کو کامیاب کرنے کے لیے امریکی حکومت کو استمال کر رہیں ہیں اور امریکی حکومت میں موجود اپنے سیاسی ایجنٹوں کی مدد سے دنیا میں دجالی حکومت قائم کررکھا ہے اور دنیا میں فتنہ پیدا کر رکھا ہے
آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا کی طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کر رہی ہیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی ہیں۔ ’’ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر بھی کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ہم یہودیوں کے لیئے ضروری ہے کہ ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو۔ اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو۔‘‘ یہ اقتباس یہودیوں کی مقبول کتاب ’’ پروٹوکولز ‘‘ کے بارہویں باب سے لیا گیا ہے۔ بظاہر دیکھنے میں تو یہ محض ایک عام سی کتاب لگتی ہے مگر کئی اعتبار سے انوکھی ہے کیونکہ اس کتاب کو دنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی داناؤں کی ایک پوری جماعت نے لکھا ہے۔ پروٹوکول نامی اس کتاب میں صرف پوری دنیا کے میڈیا پر کنٹرول ہی نہیں بلکہ وسیع تر اسرائیل کا جو پلان بتایا گیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی بہت جلد پوری دنیا پر قابض ہو جائیں گے جبکہ آخر میں انہوں نے چند پروٹوکول بھی لکھے ہیں کہ دنیا پر قبضے کے بعد وہ کس طرح حکومت کرینگے۔ پروٹوکولز کا نام پانے والی دستاویزات کی کل تعداد چالیس سے زیادہ بتائی جاتی ہے
’’پروٹوکولز‘‘ ایک ایسی دجالی دستاویز ہے جسے دُنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی دانائوں ( مفتنوں اور شرپسندوں)کی ایک پوری جماعت نے صدی پہلے تحریر کیا’’پروٹوکولز‘‘یہودیوں کی وہ عالمی سازشیں جس کی مدد سے وہ پوری دنیا میں دجالیت کوفروغ دے گے اپنی دجالی حکومت کو قائم کرے گے یہودی دنیا والوں پر اپنی مزعوم قدرت اور دنیاوی نظام پر اپنی تصوراتی گرفت کے اظہار کے لئے دنیا کے ہر قوم ومذہب کے عوام کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ ہمارا درپردہ کتنا اختیار ہے، تمہارے نظاموں پر۔ تاکہ بے دنیا کی اکثریت کے حامل بے سروسامان نا سمجھ لوگ انہی کو کل طاقت کا دیوتا سمجھ کران سے پینگیں بڑھائیں۔ صہونیوں نے اپنا گریٹر اسرائیل کا پلان بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح دنیا پر قابض ہوں گے اور کس طرح حکومت کریں گے ۔ کس طرح انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنایا ہوا ہے آزادی صحافت ، آزادی رائے جیسی جو خرافات انہوں نے ہم میں پیدا کی ہیں اس سے وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اور آخر میں انہوں نے بتایا ہوا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے آزادی رائے کا پرچار کرنے والے کس طرح اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دیں گے اور سٹاک مارکیٹ جیسے تصوارت جو ان لوگوں نے پیدا کیے ھوئے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ بعد میں ختم کردیں گے ۔ کس طرح انہوں نے دوسرے ممالک کو قرضوں جیسی لعنت میں پھنسایا ھوا ہے۔ آخر میں انہوں نے چند پروٹوکول لکھے ہیں کہ وہ جب حکومت کریں گے تو کس طرح کریں گے
ایک مشہور’’ دجالی پروٹوکولز" کے مطابق ایسے افراد کو قومی حکمرانی سونپی جائے گی جنکا ماضی کالا ہو، تاکہ وہ اپنے پوشیدہ "راز" افشاں ہونے کے خوف سے رہتی حکومت تک صیہونی ایجنڈے کی غلامی کریں۔
" دجالی پروٹوکولز"‘ کے بارہویں باب میں میڈیا کو کنٹرول کرنے اور اس کے ذریعے برین واشنگ یا ذہنی دھلائی کرکے اپنے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا پلان بھی شامل ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہودی اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر کنٹرول بارے اس کتاب میں جو پروٹوکولز شامل ہیں اُن میں یہ بتایا گیا ہے کہ ’’ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ خبر بھی کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ہم یہودیوں کیلئے ضروری ہے کہ ہم خبر رساں ایجنسیاں قائم کریںجن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو۔ اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کر سکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو۔
" دجالی پروٹوکولز" کے مطابق عالمی ذرائع ابلاغ خاص صیہونی میڈیا سمجھا جاتا ہے جو کہ ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے حتیٰ کہ عالمی حالات پر اس میڈیا کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ ہم اسکے منفی پروپیگنڈوں کے باوجود اسے اپنے قومی میڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ اس وقت عالمی میڈیا پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف برین واشنگ کرکے یہودی مفادات کیلئے سرگرم عمل ہے۔ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد، دہشت پسند اور اسلام کو ناقابلِ عمل دین باور کراتا ہے ۔ مسلمانوں کی دل آزاری کیلئے کبھی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخانہ خاکے جاری کئے جاتے ہیں تو کبھی ’’مسلمانوں کی معصومیت‘‘ کے عنوان سے طنزیہ فلمیں بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے سوشل میڈیا کو بھی ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ مخالف اسلامی میڈیا اتنا طاقتور نہیں کہ اپنے خلاف ہونیوالے پروپیگنڈے کا بھرپور جواب دے سکے۔

’’پروٹوکولز‘‘ ایک ایسی مقبولِ عام دستاویز ہے جسے دُنیا بھر سے منتخب کی گئی یہودی دانائوں ( مفتنوں اور شرپسندوں)کی ایک پوری جماعت نے صدی پہلے تحریر کیا۔ بظاہر دیکھنے میں یہ محض ایک عام سی کتاب لگتی ہے مگر کئی اعتبار سے انوکھی ہے۔ اس کتاب میں وسیع تر اسرائیل کا جو پلان بتایا گیا ہے وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ صیہونیت بہت جلد پوری دُنیا پر چھا جائے گی اور یہودیوں کا معیشت، سیاست اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی پر مکمل کنٹرول ہوگا۔
" دجالی پروٹوکولز" کے مطابق اسرائیل کے یہودیوں کو فلسطین کا ۴۷فیصد حصہ دیا گیا لیکن تقسیم فلسطین کے اعلان کے بعد یہودیوں نے جارحیت کے ذریعے فلسطین کے ۷۰فیصد خطے پر برطانیہ اور امریکہ کی سرپرستی میں قبضہ کیا
یہود کے بزرگوں کی صدیوں پرانی خواہش ہے اس مقصد کیلئے یہود کے اکابرین صدیوں سے سازشیں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف کینیڈا میں ۱۹۹۳ء میں چھپنے والی کتاب پاؤن اِن دی گیم"" دجالی پروٹوکولز" میں اس کے مصنف بحریہ کے کمانڈر ولیم نے کیا۔ مصنف مذکور نے تحریری شہادتوں کے حوالے سے لکھا ہے تمام عالمی جنگوں اور بغاوتوں کے پیچھے یہودی ہاتھ صاف نظر آتا ہے۔ یہودی ساری دنیا پر اور خصوصاً عالم اسلام پر جس طرح قبضہ کرنا چاہتا ہے وہ پلان اس نے اس " دجالی پروٹوکولز"کتاب میں بے نقاب کئے ہیں۔ وسیع تر اسرائیل کا یہودی پلان اس منصوبے کا اہم حصہ ہے امریکہ اور اس کے حواری یہود کے اس پلان کی تکمیل کیلئے اسرائیل کیلئے کام کر رہے ہیں۔ دنیا پر صیہونی تسلط کیلئے ۱۸۹۷ء میں یہودیوں کی تنظیم فری میسن کے اعلیٰ درجے کے اکابرین نے کئی برسوں کے صلاح مشوروں کے بعد "" دجالی پروٹوکولز"" کے نام سے ایک دستاویز تیار کی، پروٹوکولز کا نام پانے والی دستاویزات کی کل تعداد ۲۴ہے۔ ۱۹۰۵ء میں روس کے ایک چرچ کے پادری پروفیسر سرجائی اے نائلس نے ان دستاویزات کو ایک کتابچے کی شکل میں روسی زبان میں شائع کر دیا۔ ۱۹۱۹ء اور ۱۹۲۰ء اس کے انگریزی ترجمے امریکہ اور برطانیہ میں شائع ہوئے۔ نائلس کو اس کتابچے کی ایک نقل اس کے ایک دوست کے ذریعے ملی جو کہ اصل مسودے کا صحیح ترجمہ تھا۔ یہ مسودہ انتہائی خفیہ اجلاس کی کارروائی پر مشتمل تھا جو ایک عورت چرانے میں کامیاب ہو گئی جو کہ فرانس میں منعقد ہوا جس کا آغاز فرانس سے ہوا تھا اس خفیہ اجلاس کا نام تھا۔ MASONIC CONSPIRACY The nest of Jewish
(یہودی خفیہ تنظیم کی سازشوں کا آشیانہ) اس کتابچے کا نام "Protocols of the meeting of the Zions elders." ہے۔

پاکستان میں پہلی بار مصباح السلام فاروقی نے "جی وِش کنسپائریسی" کے نام سے پروٹوکولز کا انگریزی ترجمہ شائع کیا۔ یہودی اس کے نسخے خرید کر تلف کرتے رہے" دجالی پروٹوکولز"کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے بیشتر اہم واقعات، انقلابات، حکومتوں کی تبدیلیاں وغیرہ صیہونی منصوبوں کے مطابق ہوتی ہیں۔ ۱۹۱۷ء کا روس کا کمیونسٹ انقلاب بھی اسی منصوبے کا حصہ تھا مارکس اور لینن دونوں یہودی تھے، ملاحظہ ہو پروٹوکولز کا مندرجہ ذیل پیراگراف ”ترجمہ… ماضی کے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات یہودی بزرگوں کے مرتب کردہ خفیہ دستاویزات کے عین مطابق رونما ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا میں جنگ وجدل، انقلابات، قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ، مستقل بے چینی دراصل چور دروازوں سے پوری دنیا کو زیرنگیں کرنے کے حربے ہیں۔
پروفیسر نائلس کو روس کی کمیونسٹ حکومت سے پروٹوکولز کا انکشاف کرنے پر قید کی سزا ملی اور وہ قید میں ہی اذیتیں پا کر جنوری ۱۹۲۹ء کو انتقال پاگیا۔ پروفیسر نائلس کی کتاب پر پابندی لگادی گئی اور کتاب اپنے پاس رکھنے پر سزائے موت کا اعلان کیا گیا۔اس کتاب میں بینجمن ڈزرائلی (اصل نام اسرائیلی) نے ۱۸۴۸ء میں کہا تھا۔ ترجمہ ”کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ دنیا کے جو حکمران نظر آ رہے ہیں ان کے پیچھے حکومت کرنے والے ہاتھ اور ہوتے ہیں اس نے کہا کہ درپردہ لوگ تمام کے تمام یہودی ہوتے ہیں“۔ —حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے کئی سال پہلے فرمادیا تھا : فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔۔۔ آج پوری دنیا کا معاشی نیٹ ورک دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ اس وقت امریکہ جیسی سپر پاور سمیت تقریبا تمام دنیا کے معاشی نیٹ ورک پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں،عالمی میڈیا یہودیوں کے پاس ہے۔ زیر نظر کتاب میں عالمی یہودی منصوبے کی خفیہ دستاویزات فراہم کی گئی ہیں۔جو یہودیوں کے اصل چہرے سے نقاب کشائی کرتی ہیں۔
’’ دجالی پروٹوکولز" صہونیوں نے اپنا گریٹر اسرائیل کا پلان بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح دنیا پر قابض ہوں گے اور کس طرح حکومت کریں گے ۔ کس طرح انہوں نے دنیا کو بے وقوف بنایا ہوا ہے آزادی صحافت ، آزادی رائے جیسی جو خرافات انہوں نے ہم میں پیدا کی ہیں اس سے وہ کس طرح اپنا مقصد حاصل کر رہے ہیں۔ اور آخر میں انہوں نے بتایا ہوا ہے کہ وہ کس طرح حکومت کریں گے آزادی رائے کا پرچار کرنے والے کس طرح اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبا دیں گے اور سٹاک مارکیٹ جیسے تصوارت جو ان لوگوں نے پیدا کیے ھوئے ہیں جو وہ چاہتے ہیں کہ بعد میں ختم کردیں گے ۔ کس طرح انہوں نے دوسرے ممالک کو قرضوں جیسی لعنت میں پھنسایا ھوا ہے۔ آخر میں انہوں نے چند’’ دجالی پروٹوکولز" لکھے ہیں کہ وہ جب حکومت کریں گے تو کس طرح کریں گے۔
یہودیوں نے اپنے مذہب کو اعلی و ارفع ثابت کرنے اور مثالی یہودی حکومت کے قیام کے لیے ’’ دجالی پروٹوکولز" تیار کیا ہے جن کا تعلق زندگی کے سبھی شعبہٴ حیات سے ہے جس میں اس کے اغراض ومقاصد کے ساتھ ساتھ ان کے طریقہٴ نفاذ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے پروٹوکول نمبر14 جو مذاہب وزبانوں کے بارے میں ہے جس کا عنوان ہے ”دنیا کے سارے مذاہب کے خلاف جنگ اور فحش ادب کا فروغ“۔مذاہب کے بارے میں پروٹوکول14 میں کہا گیا ہے ” ہمارے فلاسفر غیر یہودیوں کے مختلف اعتقادات کی تمام خامیوں کو زیرِ بحث لائیں گے، ان کا مذاق اڑائیں گے، اور ان کے پیروکاروں کو اعتقادات ومذاہب سے بدظن کریں گے تاکہ لوگ مذہب سے بیزار ہو کر ان کے راستہ پر چل پڑیں۔ اسی پروٹوکول کی ایک شق ہے ”فحش لٹریچر کا فروغ“ اس میں درج ہے ”ہم عوام کی تقریروں اور تفریحی پروگراموں کے ذریعہ مخربِ اخلاق ادب کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے، ہمارے دانشور جنہیں غیر یہود کی قیادت سنبھالنے کی تربیت دی جائے گی، ایسی تقاریر ومضامین تیار کریں گے جن کا ذہن فوراً اثر قبول کریں گے تاکہ نئی نسل ہماری متعین کردہ راہوں پر گامزن ہوسکیں،،۔اس پروٹوکول کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہودیوں نے دنیا کے ہر گوشہ میں اپنے ایجنٹ مقرر کررکھے ہیں جو زرخرید غلاموں کی طرح ان کے اشاروں پر رقص کرتے ہیں، ان کے افکار ونظریات کی تبلیغ کرتے ہیں، اپنی تقریروں وتحریروں سے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی مختلف لسانی تحریکوں کے سہارے فحش لٹریچر کی نشرواشاعت کرکے، کبھی مذہب مخالف افکار و نظریات کا پرچار کرکے اور کبھی دین پسند ومذہبی لوگوں کو بے وقوف ونادان ثابت کرکے۔پاکستان اور انڈیا میں، اردو زبان میں لکھنے والے ایسے زر خرید غلاموں کی ایک بڑی ٹیم ہے جو اپنے آقا کے اشاروں کے مطابق ہی کام کرتی ہے۔ چونکہ ان کے آقا کے خاص نشانے پر ہے ؛مذہب ِاسلام اور مذہبی مسلمان۔ اس لیے یہودی پروٹوکول کے مطابق، یہ زر خرید غلام اپنی تحریروں و تقریروں سے اسلام کے بنیادی عقائد کو نشانہ بناتے ہیں، اپنی خودساختہ عقلی دلیلوں سے مبادیٴ اسلام کا انکار کرتے ہیں اور اپنے فلسفیانہ وعقلی ومنطقی دلائل سے اپنے قارئین کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مبادیٴ اسلام واسلامی عقائد ہی ان کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اسلام ہی نے ان کی قوتِ فکر کو مفلوج کردیا ہے۔ اس طرح وہ اپنے قارئین کی ذہنوں میں دین کے بارے میں شک کا بیج بونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور پھر اس کی مسلسل آبیاری کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ الحاد وزندیقیت کا ایک تناور درخت نہیں بن جاتااور جس کی بیخ کنی تقریباً ناممکن ہو۔یہ خود ساختہ دانشورانِ اردو مذہبی مسلمانوں کو، یہودی پروٹوکول کے مطابق، اپنی لعن و طعن کا نشانہ بھی بناتے ہیں، ان کے مختلف مذہبی اعتقادات کا مذاق اڑاتے ہیں، ان کے مذہبی حرکات وسکنات پر قہقہے لگاتے ہیں اور الٹے سیدھے اخباری بیانات کے ذریعہ ان کو ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں۔قوم یہود کی پالیسیوں کے مطابق، اردو کے ان نام نہاد مصنفوں اور خودساختہ دانشوروں نے پاکستان اور انڈیا میں ایک گھناوٴنا ادبی و ثقافتی ماحول تیار کیا ہے جسکی اساس ہے مے نوشی، عریانیت وفحاشیت اور جنسی ہوس پرستی۔ یہ خود شراب کے نشہ میں دھت رہتے ہیں اور اپنی تحریروں سے اپنے قارئین کو بھی اسکی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ فحش کاری کے بدترین جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس پر نادم وشرمندہ ہونے کے بجائے، نہ صرف اس کا اظہار اپنے ندیموں کی محفل میں کرتے ہیں بلکہ ان سیاہ کارناموں کو نمک مرچ لگا کر اپنے تحریروں کے ذریعہ قارئین تک پہنچاتے ہیں تاکہ انہیں صراطِ مستقیم سے نکال کر اس راستہ پر چلنے کے چھوڑ دیں جس راستے میں قدم قدم پر دلدل ہے تاکہ وہ اس میں دھنستا رہے یہاں تک کہ اس کا وجود ختم ہوجائے۔ ان خودساختہ دانشوروں نے اس یہودی طرزِ تحریر کو اتنا جاذب و دلکش بنا دیا ہے کہ اردو زبان کا ہر رنگ روٹ کاسی فکرواسلوب کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اب اردوزبان کی یہ عام روایت بن گئی ہے کہ ا س زبان میں جو شخض اسلام کے خلاف جو نازیبا کلمات ادا کرے، مسلمانوں کو گالیاں دے، ان کو دہشت گرد ثابت کرے اور اسلام کو دہشت گردی کا مذہب قرار دے، زیادہ فحش وعریاں لٹریچر لکھے، شراب پئے اور اپنے آپ کو جتنا بڑا شرابی ثابت کرلے جائے وہ اتنے ہی بڑے انعام واکرام اور ایوارڈ کا مستحق ہوتا ہے۔ ایسے خود ساختہ دانشوروں کی خوب پذیرائی ہوتی ہے ان پر انعام واکرام کی بارش کی جاتی ہے، انہیں ایوارڈس سے نوازا جاتا ہے،اندرون وبیرون ملک کے سفر کرائے جاتے ہیں اور اردو اخبارات ورسائل میں یہ تشہیر کیا جاتا ہے کہ یہی حضرات ہیں اصلی وحقیقی دانشور، یہی ہیں خادمِ اردو، اور اردو کی فروغ وترقی کے لیے یہ حضرات ہمیشہ کوشاں رہتے ہیں۔ انہیں حضرات کی کوششوں سے اردو اب تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ اردو کا فروغ ہورہا ہے اور مسلسل ترقی کے مراحل طے کررہی ہے۔ذرا کوئی ان خود ساختہ دانشوروں سے پوچھے کہ کیا دو چار فحش افسانے اور غزلیں لکھ دینے سے کیا کوئی خادمِ اردو ہوجاتا ہے؟ اردو کے سچے اور مخلص خادم ہیں مدارسِ اسلامیہ اور ان کے اساتذہ وطلباء۔ یہ وہ حضرات ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا اردو ہے، اردو ہی بولتے اور لکھتے ہیں، اردو میں ہی مختلف سماجی و دینی مسائل پر مضامین لکھتے ہیں، اردو جرائد ومجلات نکالتے ہیں، اردو میں ہی سیرت، مغازی، تاریخ، تفسیر و حدیث کی ضخیم کتابیں تصنیف کرتے ہیں نیز ان کا اسلوب نگارش نیز فکرو خیال ان خودساختہ دانشوران اردو سے کہیں ارفع واعلی ہوتا ہے۔ اسے مصنفین کی ایک طویل فہرست ہے جیسے عبدالماجد دریابادی، سلیمان سلمان منصوپوری، علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مولانا ابوالحسن ندوی، قاضی اطہر مبارکپوری، شیخ صفی الرحمن مبارکپوری ، عبدالمعید مدنی وغیرہ۔ان مخلص دانشوروں نے ہمیشہ سماجی فلاح وبہبود، اصلاحِ معاشرہ، اسلامی ثقافت، برگزیدہ شخصیات، جیسے اہم موضوعات کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایانیز ہر اس فکر کی مخالفت کی جو کسی بھی مہذب معاشرہ کے لیے نقصان دہ ہو۔ ان کا اسلوبِ نگارِش بھی معیاری ہے جس میں پختگی و سادگی ہے لیکن ایسے جلیل القدر مصنفین کو کبھی نہیں سراہا گیا، ان کے اوپر کبھی انعام واکرام و ایوارڈس کی بارش کی گئی۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ان محترم شخصیات نے کبھی بھی تخریبی ادب تخلیق نہیں کیا جو یہودی ’’ دجالی پروٹوکولز" کے عین مطابق ہو۔ اگر یہ حضرات بھی وہی کرتے جو اس ’’ دجالی پروٹوکولز" کا تقاضہ ہے تو ان پر بھی انعام و اکرام کی بارش کی جاتی

1903 میں پروٹوکولز آف دی ایلڈرز آف دا زائیون کے حصوں کو ایک روسی اخبار زنامیہ (دا بینر) میں سلسلہ وار شائع کیا گیا۔ پروٹوکولز کا جو متن مسلسل جاری رہا اور جس کا درجنوں دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا وہ دراصل پہلی مرتبہ 1905 میں روس میں "دا گریٹ اِن دا سمال: دا کمنگ آف دا اینٹی۔ کرائیسٹ اینڈ دا رول آف سیٹن آن ارتھ" کے دیباچے کے طور پر چھپا جسے روسی مصنف اور تصوف پسند سرگی نائلس نے تحریر کیا۔
اگرچہ پروٹوکولز کی اصل ابتدا کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے تاہم اِس کا مقصد یہودیوں کو ریاست کے خلاف سازش کرنے والوں کے طور پر ثابت کرنا تھا۔ 24 اسباق یا پروٹوکولز مبینہ طور پر یہودی لیڈروں کی ملاقاتوں کی تفصیل ہے۔ پروٹوکولز میں دنیا پر حکمرانی کرنے کی غرض سے یہودیوں کے "خفیہ منصوبوں" کی تفصیل "بیان" کی گئی ہے۔ اِن کی رو سے دنیا پر حکمرانی کا مقصد معیشت کو چالاکی سے برتنے، ذرائع ابلاغ پر کنٹرول حاصل کرنے اور مذاہب کے درمیان تنازعات پیدا کرنے کے ذریعے حاصل کیا جانا تھا۔
1917 میں روسی انقلاب کے بعد بالشوک تحریک کے نقل مکانی کرنے والے مخالفین پروٹوکولز کو مغربی دنیا میں لائے۔ جلد ہی اِن کی جلدیں یورپ، امریکہ، جنوبی امریکہ اور جاپان میں پھیل گئیں۔ پروٹوکولز کا عربی زبان میں ترجمہ 1920 کی دہائی میں سامنے آیا۔
کلیدی کار ساز شخصیت ہینری فورڈ کے اخبار "دا ڈیربورن انڈیپنڈنٹ" نے 1920 میں پروٹوکولز کے چند حصوں پر مشتمل مضامین کا سلسلہ چھاپنا شروع کیا۔ مضامین کا سلسلہ "دی انٹرنیشنل جیو" نامی کتاب میں شامل کیا گیا۔ اِس کتاب کا کم سے کم 16 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ ایڈولف ہٹلر اور بعد میں پراپیگنڈے کے نازی وزیر بننے والے جوزف گوئبیلز دونوں نے فورڈ اور "دی انٹرنیشنل جیو" کی تعریف کی۔
قوم پرست جرمن نازی دور
1933 جرمنی میں نازی برسر اقتدار آتے ہیں۔ نازی پارٹی دوسری عالمی جنگ کے آغاز سے پہلے پروٹوکولز کے کم سے کم 23 ایڈیشن شائع کرتی ہے۔
ہٹلر کے نزدیک پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی کی معاشی تباہی اور ذلت کا سبب جرمنی کی فوجی مہم جوئی نہ تھی بلکہ اسکی وجہ یہودی اور انکے ایجنٹ تھے، یعنی بینکرز، ڈیموکریٹس اور کمیونسٹ تھے جنہوں نے جرمنی قوم سے غداری کی تھی اور لاکھوں جرمن قوم کی موت کے زمہ دار تھے جن کی وجہ سے جرمنی کو شکست ہوئی تھی
نازی پارٹی کے نظریہ ساز ایلفریڈ روزن برگ نے 1920 کی دہائی کے دوران ہٹلر کو اُس وقت پروٹوکولز سے روشناس کرایا جب وہ اپنے عالمی نظرئیے کی تشکیل میں تھا۔ ہٹلر نے اپنی اولین تقاریر میں سے کچھ میں پروٹوکولز کا حوالہ دیا اور اپنے تمامتر کیریر کے دوران اِس تصور سے بھرپور فائدہ اُٹھایا کہ "یہودی بالشوک" دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے سازش کر رہے ہیں۔
1920 اور 1930 کے عشروں کے دوران "صیہونی زعماء کے خفیہ اجلاسوں کی تفصیل" نےقوم پرست جرمنی نازی میں اہم کردار ادا کیا۔قوم پرست جرمن نازی پارٹی نے 1919 اور 1939 کے دوران پروٹوکولز کے کم از کم 23 ایڈیشن شائع کئے۔ 1933 میں قوم پرست جرمن نازیوں کے برسراقتدار آنے کے بعد کچھ اسکولوں نے طلبا کو نظریاتی تعلیم دینے کیلئے پروٹوکولز کو استعمال کیا۔
١٩٢٢میں امریکہ میں کار بنانے والی ایک کمپنی کے مالک ھنری فورڈ نے اپنے ایک اخبار میں اس کتاب کی قسط وار اشاعت شروع کر دی تھی ۔ جس پر بعد میں یہودیوں نے پابندی لکائی تھی اس کتاب کو بعد ازاں "دی انٹرنیشنل جیو" کے نام سے قسط وار شایع کیا گیا جو جرمنی جیسے ممالک میں جہاں کی معیشت پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد بری طرح متاثر ہوئی تھی ، بہت مقبول ہوئی- جاپان جیسے ممالک بھی شامل ہیں جہاں یہودی مخالف جزبات موجود ہیں۔
تمام ترعرب اور اسلامی دنیا میں بیشتر اسکولوں میں پروٹوکولز کو حقائق کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ان گنت سیاسی تقریریں، اداریے حتٰی کہ بچوں کے کارٹون تک پروٹوکولز سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ 2002 میں مصر کی حکومت کے زیر کنٹرول ٹیلی ویژن نے پروٹوکولز پر مبنی سلسلے وار پروگرام پیش کئے جس کی امریکی محکمہ خارجہ نے مذمت کی تھی۔ فلسطینی تنظیم حماس نے پروٹوکولز سے ایک حصہ لیا ہے۔یہودیوں کی اصلیت کو دنیا کے سامنے لے کر آئے
انٹرنیٹ پر پروٹوکولز تک رسائی میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیٹ پر یہودیوں کی اصلیت کو دنیا کے سامنے دکھانے کی خاطر پروٹوکولز کے استعمال کو آسان کر دیا ہے۔ آج انٹرنیٹ پر معمول کی ایک سرچ کے نتیجے میں لاکھوں ایسی ویب سائٹس سامنے آتی ہیں جو پروٹوکولز کو فروخت کرتی ہیں، اِس پر بحث پیش کرتی ہیں
کسی مفکر کا کہنا ہے کہ ”پروپیگنڈا ذہین لوگوں پر احمقانہ تأثرات ڈالنے کا نام ہے“، بہ الفاظ دیگر پروپیگنڈا محض جھوٹ اور فریب ہے جو کہ عصرحاضر میں سب سے اہم ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے، پروپیگنڈے کا اصول یہی ہے کہ بات اس طرح کہی جائے کہ پروپیگنڈا،پروپیگنڈا محسوس نہ ہو،ذرائع ابلاغ میں اس ہتھیار کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ہوا جب برطانوی فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا تھا تو امریکی ذرائع ابلاغ نے فتح کا سہرا برطانوی فوج کے سر باندھنے کے بجائے امریکی افواج کے سر باندھااوریہ پروپیگنڈا کیا کہ انہی کی بدولت یورپ نازیوں سے محفوظ رہ سکا ہے ، یہ پروپیگنڈا اتنا موٴثر ثابت ہوا کہ یورپی عوام کو یہ یقین ہوگیا کہ امریکہ ان کے لیے کسی مسیحا سے کم نہیں ،اس وقت سے لے کر آج تک ذرائع ابلاغ اس موٴثر ہتھیار کو کسی نہ کسی شکل میں مستقل استعمال کرتے چلے آرہے ہیں،عالمی ذرائع ابلاغ خالص یہودی میڈیا ہے جو ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے اور یہودی کمیونٹی کا سب سے بڑا ہتھیارسمجھا جاتا ہے حتی کہ عالمی حالات پر اس کی اتنی گہری چھاپ ہے کہ ہر مشہور لیڈر یہودی میڈیا کی خوشامد کرتا نظر آتا ہے ،در اصل اس کے ذریعے یہودیوں نے اپنے دانشوروں کے ”پروٹوکولز“ کو عملی جامہ پہنایا ہے ، ”یہودی پروٹوکولز“ کے بارہویں باب میں درج ہے کہ ”ہماری منظوری کے بغیر کوئی ادنی سے ادنی خبر کسی سماج تک نہیں پہنچ سکتی ، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہم یہودیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ خبر رساں ایجنسیاں قائم کریں جن کا بنیادی کام ساری دنیا کے گوشے گوشے سے خبروں کا جمع کرنا ہو ،اس صورت میں ہم اس بات کی ضمانت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہماری مرضی اور اجازت کے بغیر کوئی خبر شائع نہ ہو“۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے مخفی نہیں ،اگرغور کریں تو دور حاضر کی بظاہرتمام تر قی وخوشحالی ، سائنسی ایجادات اور تحقیقات کا ادراک انہی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ، سیٹلائٹ کی ایجاد نے پوری دنیا کو سمیٹ کر ایک محلے کی طرح کردیا ہے ،دنیا کے کسی بھی حصے میں ہونے والے تمام واقعات ٹیلی وژن سکرین پر دیکھے جاسکتے ہیں ،ذرائع ابلاغ نے معلومات اور آگہی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے ، اسی کے ذریعے کثرت معلومات کافتنہ تیزی سے پھلتا پھولتا جارہا ہے ،عالمی آگہی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں کوئی واقعہ یا حادثہ رونما ہوتا ہے تو ہر شخص اس سے واقف ہوتا ہے ،یہ ذرائع ابلاغ کا کمال ہے کہ اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی ۔ ذرائع ابلاغ کی افادیت مسلم ہے لیکن اس کے منفی پہلو بھی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ مخصوص مفادات کے حصول کے لیے ان کا استعمال نیز تشہیر کے لیے جو اشتہار دیے جاتے ہیں وہ اکثر مبالغے پر مبنی ہوتے ہیں اور مارکیٹنگ کے لیے جو نفسیاتی حربے استعمال کیے جاتے ہیں وہ مخصوص گروہوں کے مفادات کے لیے ہوتے ہیں اور عام آدمی کو اس سے نقصان پہنچتا ہے ، پھر قومی وبین الاقوامی ایجنسیاں انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں ، حکومتیں اور بین الاقوامی طاقتیں اپنی عوام کو مطیع رکھنے کے لیے گمراہ کن پروپیگنڈے کے ذریعے ایک خاص نقطہ نظر پروان چڑھاتی ہیں اور رائے عامہ کو متأثر کرنے یازیادہ دکھانے کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاتا ہے ، عوام کی برین واشنگ کے لیے میڈیا ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہورہا ہے،نائن الیون کے حادثے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ نے اسلام اورمسلمانوں کے خلاف جس قدر غلیظ مہم چلائی ہے اس سے مسلمانوں کے تشخص کو بڑا نقصان پہنچا ہے ، پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ ذرائع ابلاغ کو فحاشی ،عریانی اور بداخلاقی پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جارہاہے جو معاشرے کی عمومی اخلاقی فضا کو تباہ کرنے کا ایک مہلک طریقہ ہے،دنیا کی طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لیے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کررہی ہیں اور اپنے اہداف ومقاصد کے حصول میں کامیاب ہیں، خلاصہ یہ کہ آج میڈیا اس پوزیشن میں ہے کہ وہ پوری دنیا کو جس نہج پر اور جس سمت میں لے جانا چاہے لے جاسکتا ہے ،لوگ غیر ارادی اور غیر شعوری طور پر میڈیا کے ذریعے پھیلائی ہوئی باتوں کو بسروچشم قبول کرلیتے ہیں،گویا میڈیا واضح الفاظ میں دن کو رات ، سفید کو سیاہ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی خدمات انجام دے رہا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کی اس اہمیت کو دیکھتے ہوئے اکثر لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ علماء کو میڈیا خصوصا ٹی وی چینل پر آجانا چاہیے اور اسلام کے متعلق جو شکوک و شبہات اور پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں اس کا دفاع ٹی وی چینل پہ آکر کرنااز حد ضروری ہے اور اس طرح صحیح اسلامی عقائد ،نظریات اور افکار کی تبلیغ بھی خود بخود ہوجائے گی ،اس ضمن میں وہ یہ دلیل دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ ”شدت پسند علماء “ ابھی نہیں تو کچھ عرصے بعد ضرور مان جائیں گے جس طرح لاوٴڈ اسپیکر کے مسئلے میں علماء نے شروع میں اختلاف کیا اور نہ مانا لیکن پھر کچھ عرصے بعد خود ہی زور وشور سے اس کا استعمال شروع فرمادیا ،لیکن یہ کہنے والے ٹی وی کی خرابیوں ،مفسدات اورمہلکات سے شاید اپنی نظریں چرالیتے ہیں ، میڈیا خصوصا ٹی وی چینل پہ آکر اسلام کی خدمت کسی طور ممکن نہیں ،ہاں! البتہ اسلام اور مسلمانوں کی توہین وتضحیک ضرور ممکن ہے ۔ میڈیا اسلام اور مسلمانوں کا خیر خواہ کبھی نہیں ہوسکتا ،ایک چینل کے تئیس گھنٹے توعریانی ،فحاشی وگمراہی کے لیے مخصوص ہو اور ایک گھنٹہ ”اسلام“ کے لیے، میڈیا کے ذریعے جو حضرات اسلام کی تبلیغ وترویج چاہتے ہیں اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کسی کچرے کے ڈھیر پر عنبر وعودجیسی خوشبو رکھ دی جائیں اوروہاں سے گذرنے والوں کے بارے میں امید کی جائے کہ وہ اس کچرے کنڈی میں رکھی خوشبو سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے ، ٹی وی چینل کا ”رنگین اسلام“ اس وقت مسلمان اورخاص طور پر غیر مسلموں میں اسلام کے متعلق تشویش کا باعث بن رہا ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک مسئلہ کسی چینل پر فرض بتایا جاتا ہے ، دوسرے چینل پر اس کو بدعت کہتے ہیں اور تیسرا چینل اس کو سنت ثابت کررہا ہوتا ہے ،ذرا سوچیے ! ٹی وی دیکھنے والا ایک سادہ لوح آدمی اس سے اسلام کے متعلق کیا انتشار کا شکار نہیں ہوگا ؟! پھر ٹی وی پر اسلام کے متعلق مذاکروں میں ہر خاص وعام کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ آکر جس طرح چاہیں اسلام کو تختہٴ مشق بنائیں اور ان نام نہاد ”اسلامی اسکالرز“ میں عالم غیر عالم کی کوئی تمیز نہیں کی جاتی اور اس کے ذریعے لوگوں کو لاشعوری طور پر یہ پیغام دینا بھی مقصود ہوتا ہے کہ ہر راہ چلتا پھرتا شخص اپنے تفہیم دین کے پر چارکا ”فطری حق “رکھتا ہے اور یہ نازک اور اہم دینی مسائل پرگفتگو کرنا صرف ”ملاوٴں “ ہی کی ٹھیکیداری نہیں ہے ۔ اور اگر کسی ٹی وی چینل کے مذاکرے میں کسی صحیح اور مستند عالم دین کو بلا بھی لیا جائے تو اس کے بلانے سے دین کی صحیح رہنمائی مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس کو بلاکر دیگر لادین اور ملحد شرکاء کے اسلام کے متعلق ایسے فتنہ پرور سوالات و اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جنہیں سن کر کان ہی پکڑے جاسکتے ہیں،فارسی ادب کی سدا بہار کتاب ”گلستان “ کے چوتھے باب میں شیخ سعدی نے ایک حکایت بیان کی ہے کہ ایک عالم کا ایک ملحد کے ساتھ مناظرہ ہوگیاعالم نے اس بے دین کے سامنے ہار مان لی اور پیچھے ہٹ گیا ، کسی نے اس عالم سے پوچھا کہ جناب باوجود آپ علم وفضل رکھنے کے ایک ملحد سے مناظرے میں ہار گئے اور اس پردلائل کے ذریعے قابو نہ پاسکے ؟عالم نے جواب دیا کہ میرا علم تو قرآن ، حدیث اور فقہاء ومشائخ کے اقوال ہیں وہ ملحد ان سے عقیدت ہی نہیں رکھتا تو مجھے اس کا کفر سننا کس کام آئیگا؟بس اسی لیے میں نے ہار ماننے میں ہی عافیت جانی:
آنکس کہ بقرآن و خبر زو نرہی
آنست جوابش کہ جوابش ندہی
چنانچہ بارہا یہ بھی دیکھا گیا کہ مستند علماء سے ایسے سوالات کیے جاتے ہیں جن سے مقصد اس سوال میں پوشیدہ فتنہ کی نشر واشاعت ہو جس کے نتیجے میں دیکھنے والی عوام اس عالم کے جواب کی طرف تو غورنہیں کرتی اور اس فتنہ پرور سوال پر خود ان کے دل ودماغ میں اسلام کے متعلق شکوک وشبہات پیدا ہوجاتے ہیں اور ہوتے ہوتے اس سوال کی بازگشت زبان زد عام ہوجاتی ہے۔ ایک اوراہم چیز جو محسوس کی گئی کہ ان مواصلاتی اسلامی مذاکروں کے شروع ہوجانے سے عام آدمی بھی بلا سوچے سمجھے اسلام کے نازک اور دقیق مباحث کے بارے میں اپنی فہم اور سوچ کے بیان کرنے میں جری ہوگیا ہے جبکہ اس سے قبل عام لوگ اس قسم کے مسائل میں دخل اندازی نہیں کرسکتے تھے ،اور ان پروگراموں کی ”قابل قدر خدمت“ یہ ہے کہ دین کے مسلمہ اورمتفقہ مسائل کو موضوع بحث بناکر اس کو اختلافی بنایاجائے، مکالمہ یا تقریب بین المذاہب کے نام پر وحدت ادیان کو فروغ دیا جائے ، فکری اور نظریاتی گمراہیوں کو عقلی بنیادوں پر پھیلایاجائے ، اسلام کی تشریح وتعبیر عرب جاہلیت کے دور اورزمانے کے ساتھ مخصوص کی جائے۔ جو حضرات کہتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعے اسلام کی صحیح خدمت یا کم از کم دفاعی خدمت ممکن ہے تویہ بات بھی غور کی محتاج ہے کہ نائن الیون کے بعد سے عالمی میڈیا نے اسلام کی بنیادوں پر جو رکیک حملے کیے ان کا اب تک کتنا دفاع ہوسکا ؟ پھر آج سے پندرہ سال پیچھے لوٹ کر دیکھیے جب کیبل ،ڈش اور چینلز کی بھرمار نہ تھی تب ہمارے معاشرے کے حالات کیسے تھے اور آج جب کہ میڈیا کا ہر چینل بزعم خود اسلام کی خدمت انجام دے رہا ہے تو اخلاقی گراوٹ ، فحاشی وعریانی کا ایک سیلاب ہے جو امنڈتا چلا آرہا ہے ،اور جب سمجھ دار اور باشعور عوام یا علماء کی طرف سے اس فحاشی وعریانی کے خلاف احتجاج کیا جائے تو ان کا یہ رد عمل پہلے سے موجود خانوں میں ”فٹ“ کردیا جاتا ہے کہ مذہبی عناصر ہمیشہ یہی رونا روتے رہتے ہیں حالانکہ اب عریانی وفحاشی کوئی ایسا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمگیریت (گلوبلائزیشن )کا اہم جز ہے اورابلاغ کے تمام ذرائع بالخصوص ٹیلی وژن اب معاشرے کی تشکیل نو کے لیے استعمال ہورہے ہیں ، پھر یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اب توعریانی وفحاشی زندگی کا معمول بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت نے اس فتنے کو گھر گھر پھیلانے کے لیے کیبل سسٹم شروع کردیا ، پہلے ڈش ہوا کرتا تھا ، لینے والا آدمی ڈرتا تھا کہ گھر کی چھت پر اس منحوس چھتری کو کیوں رکھا جائے ؟ یاکسی کی جیب گنجائش نہیں دیتی تھی کہ وہ ڈش خریدے ، حکومت نے آسانی کردی کہ گھر گھر ، بستی بستی کیبل سسٹم پھیلا دیا کہ صرف چند روپوں میں مہینے بھر کی عیاشی کوآسان بنادیااور دیکھا جائے تو یہ وہ واحد عیاشی ہے جس میں امیر وغریب برابر کے شریک ہیں ،اور تو اور بعض چینلز پر ہم جنس پرستی کے جواز اور نفاذ سے متعلق پروگرام پیش کیے جارہے ہیں اور اس کے لیے جو دلائل پیش کیے گئے وہ خالص کفر والحاد پر مبنی جن کو نقل کرنے کی راقم یہاں سکت نہیں رکھتا
حکیم الامت شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے کئی سال پہلے فرمادیا تھا : فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔۔۔ آج پوری دنیا کا معاشی نیٹ ورک دیکھ لیں تو اندازہ ہو گا کہ اس وقت امریکہ جیسی سپر پاور سمیت تقریبا تمام دنیا کے معاشی نیٹ ورک پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں،عالمی میڈیا یہودیوں کے پاس ہے۔ زیر نظر کتاب میں عالمی یہودی منصوبے کی خفیہ دستاویزات فراہم کی گئی ہیں۔جو یہودیوں کے اصل چہرے سے نقاب کشائی کرتی ہیں۔
۔مسلمانو! جوش سے نہیں ہوش سے کام لو، رطب ویابس، تعمیری اور تخریبی ادب کو پہچانو، تعمیری ادب کو دل سے لگاوٴ اور تخریبی ادب کا بائیکاٹ کرو، بہروپئے اور سنجیدہ مصنفین و ادباء کو کے درمیان فرق کو سمجھو، سنجیدہ، شریف اور صاف گو جرائدومجلات و مصنفین وادباء کا دامے درمے قدمے سخنے ساتھ دو۔ فحاشی و عریانیت کو عام کرنے والے یہودی ایجنٹوں کو دھتکارو، اپنے افرادِ خانہ کو تعمیری ادب پڑھنے کی تلقین کرو اور تخریبی ادب سے باز رکھو۔ یہودی ایجنٹوں کے حربہ کو پہچانو جو مسلم معاشرہ میں مشاعروں، ادبی محفلوں اور فحش لٹریچر کے ذریعہ عریانیت و فحش کاری کو عام کرنا چاہتے ہیں جو ادب برائے اصلاحِ معاشرہ نہیں بلکہ ادب برائے ذہنی عیاشی ہے۔مسلمان تو کیا ، دنیا کی “اکثریت“ جو کہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، وہ انسے نا علم ہے ۔ جمہوریت کی آڑ میں جیسے گھناؤنے جرم و ظلم یہ صیہونی افراد کر چکے ہیں۔ ان سے پردہ فاش کرنا ضروری ہےجمہوریت ایک باطل نظامِ حکومت ہے جو کفار نے اسلام کے نظامِ سیاست خلافت کے مقابلے پر بنایا ہوا ہے، ہم کبھی بھی فلاح نہیں حاصل کرسکتے جب تک اس باطل نظام کی جگہ اسلام کا نظام حکومت خلافت قائم نہیں کریں گے
تحریر مصنف
ڈاکٹر ابوبکر جواد

7 دجالی پروٹوکولز

دجالی پروٹوکولز کی مختلف شکلیں
دجالی پروٹوکولز 9/11 کے بعد اس نے طاقتور فوجی افسروں، سیاستدانوں، میڈیا کے مالکوں، بینکرز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے بورڈروم میٹنگوں کی شکل اختیار کر لی ہے جن کی لگام مزید چالاک و عیار یہودیوں اوران کے مغربی اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے جو مسلمانوں کو محکوم بنانے کے درپے ہیں - اور دھشتگری کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کرنا اپنا حق سمحھتے ہیں مسلم ممالک کو مضید کمزور کرنے کے لیے دھشتگری کرواتے ہیں تاکہ ان کی مندپسند حکومت قائم ہو سکے
یہودی سازش ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کے نتیجے میں افغانستان پر اتحادی حملے کے بارے میں بھی یہودی سازشی بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی ایسی یہودی سازشی وسیع پیمانے پر کی جارہیں ہیں جیسے دھشتگردی پھلانا اور پھر دھشتگردی کے نام پر پوری دنیا میں تباہی کرنا
فری میسن کی مدد سے ہر ملک میں یہودی ایجنٹ مردوں اور عورتوں معاشی، فوجی اور سیاسی اقتدار کے ایوانوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور ہماری زمین پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں- ان میں ٹی وی کے اہم چینلوں پر مبصرین اور سیاسی شعبدہ بازوں کی شکل میں با قاعدگی سے تبصرہ کرتے ہوے سنتے ہیں- بھی شامل ہیں
۔ پروٹوکولز نامی اس کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کو دنیا میں موجود غربت، بیروزگاری، نفسا نفسی، مادہ پرستی، بے سکونی، جنگ و جدل، جرائم اور فحاشی جیسے مسائل کی موجودگی کی اصل وجہ معلوم ہو جائے گی۔ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بہت پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ آج نہ صرف پوری دنیا کے معاشی نیٹ ورک پر یہودی قابض ہیں بلکہ وہ سیاست اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ خالص صیہونی میڈیا سمجھا جاتا ہے جو کہ ارب پتی یہودی تاجروں کے زیر اثر ہے حتیٰ کہ عالمی حالات پر بھی اس میڈیا کی چھاپ اس قدر گہری ہے کہ ہم اس کے منفی پروپیگنڈوں کے باوجود بھی اسے اپنے قومی میڈیا پر ترجیح دیتے ہیں۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں ذرائع ابلاغ کا جو اہم کردار ہے وہ کسی ذی شعور سے محفی نہیں لیکن یہی میڈیا عوام کی برین واشنگ کیلئے ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ دنیا کی طاقتور لابیاں اپنے مقاصد کے لئے ذرائع ابلاغ کو ڈھٹائی سے استعمال کر رہی ہیں اور اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیاب رہی ہیں۔ برین واشنگ یا ذہنی دھلائی سے مراد غیر اخلاقی طور پر انفرادی یا اجتماعی سطح پر کسی کے خیالات کو اپنی مرضی کے تابع کرنا ہے۔ عموماً یہ عمل مفعول کی مرضی کیخلاف سرانجام دیا جاتا ہے اور یہ کام نفسیاتی یا غیر نفسیاتی طریقے کی مدد سے سرانجام پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مفعول اپنی سوچ، اپنے رویئے، اپنے جذبات اور اپنی قوتِ فیصلہ پر اپنا قابو کھو دیتا ہے۔ برین واشنگ یا مائنڈ کنٹرول کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی آدمی سے اس کا ہر طرح کا ماحول، اس کی خوشحالی اور فلاح کی تمام راہیں چھین کر اسے تنہا کر دیا جائے۔ مائنڈ کنٹرول کا شکار آدمی حقیقت اور فکشن میں فرق نہیں کر پاتا اور جھوٹ کو بھی اپنے تئیں حقیقت ہی سمجھتا ہے۔ مغرب یہ جانتا ہے کہ آج کا دور میڈیا، برین واشنگ اور فکری یلغار کا ہے۔ اس لیئے وہ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسے پسپا کرنے کے لیئے نت نئے طریقے استعمال میں لاتا ہے۔ وہ باہر سے بھی دباؤ ڈالتا ہے اور اندر سے بھی جڑیں کھوکھلی کرکے نقب لگاتا ہے۔ آج کے دور میں ہم سر سے پاؤں تک دجالی نظام میں جکڑے جا چکے ہیں۔ جس طرح سے آہستگی کے ساتھ پوری دنیا پر دجالی نظام قائم ہوتا جا رہا ہے آج معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر تقریباً پوری دنیا اس کی لپیٹ میں ہے۔ آج کے ماڈرن دور میں جدید ایجادات کے ذریعے حکومتیں میڈیا مائنڈ کنٹرول کے ذریعے کسی قوم کو اپنے تابع کرنے کی بھرپور کوششیں کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر نائن الیون کے جعلی حملے، عراق میں جوہری توانائی و کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا پروپیگنڈہ وغیرہ۔ اسی چیز کا نام مائنڈ کنٹرول آف میڈیا ہے۔ مائنڈ کنٹرول یا برین واشنگ کے لئے ٹی وی اور میس میڈیا کا استعمال اب ایک سائنس بن گیا ہے اور یہ میڈیا ایک نہایت طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اس وقت عالمی یہودی میڈیا اپنی پوری طاقت کے ساتھ اسلام کے خلاف برین واشنگ کرکے یہودی مفادات کے لیئے سرگرم عمل ہے۔ اس دجالی میڈیا سے قومی ذرائع ابلاغ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ ہمارے قومی میڈیا کے ذریعے بعض معاملات پر ایسے برین واشنگ کی جاتی ہے کہ حیرانی کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکا۔ آج کل میڈیا کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں کی دھلائی کرکے جس طرح امریکی اور یہودی مفادات کی ترجمانی کی جاتی ہے اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور یورپ سمیت متعدد ممالک کا میڈیا اب جیوش نیوز ( Jewish News ) بن گیا ہے۔

6 دجالی پروٹوکولز

صہیونی بزرگوں کے پروٹوکولز (The Protocols of the elders of Zion)
یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا۔ قدامت پسند لوگ یہودیوں کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہودی بیشتر دوسرے لوگوں کے برعکس انٹرنیشنل تھے۔ وہ تقریباً ہرملک میں رہتے تھے اور اکثر اعلیٰ عہدوں اور دولت کے مالک تھے۔ ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود وہ الگ تھلگ تھے۔ وہ اپنی الگ زبان میں عبادت کرنے، دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں کرنے کے اقرار کرتے اور تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے۔ لوگ انہیں کسی عظیم راز کا پاسبان سمجھتے تھے۔
انہی دنوں تقریباً اسّی صفحات کی ایک کتاب سامنے آئی۔ یہ جرمن اور انگریزی زبان میں تھی۔ انگریزی میں اس کا نام The Protocols of the Elders of Zion تھا۔ یہ ہدایات اور لائحہ عمل پر مشتمل تھی کہ موجودہ طاقتوں، سلطنتوں، حکومتوں اور چرچوں کو کس طرح ختم کر کے ایک نئی عالمی حکومت قائم کی جائے جس کا سربراہ خاندان دائو دی کا سپریم یہودی آمر ہو۔ پروٹوکولز میں ہدایت کی گئی کہ اس مقصد کے لیے طبقاتی نفرت پیدا کی جائے۔ جنگوں کو ہوا دی جائے۔ انقلاب لائے جائیں اور قومی اداروں کو بدنام کیا جائے۔
روایتی اقدار کو تباہ کرنے کے لیے لبرل ازم کو فروغ دیا جائے۔ اس سے سوشلزم آئے گا اور پھر کمیونزم ریاستیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا کو ایک نئے نظام کی تلاش ہو گی اور فری میسن کی مدد سے ہم اس کے لیے تیارہوں گے۔ پروٹوکول جو بیس سرخیوں کے تحت مینجمنٹ کے لیکچروں کی طرح ہیں۔ پہلے پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں اچھی فطرت والوں کے مقابلے میں بدفطرت افراد زیادہ ہیں اس لیے تعلیمی مباحث سے زیادہ تشدد موثر ہوسکتا ہے۔ پروٹوکولز میں ضابطہ پالیسی، سیکورٹی، اسلحہ بندی، اجارہ داری، پریس، ٹیکس پالیسی اور تعلیم کے ابواب ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک ا نتخابی منشور نظر آتا ہے لیکن اسے رائے دہندگان سے پوشیدہ رکھنا ہے۔ اس کا انداز میکاولی کاہے کہ انسانوں کی کمزوریوں کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ پروٹوکول 12 میں کہا گیا ہے کہ ادب اور صحافت سب سے اہم تعلیمی قوتیں ہیں۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ رسالوں اور اخباروں کے مالک بن جائیں گے لیکن لوگوں کے شک سے بچنے کے لیے تمام رسالے ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ظاہری شکل، خیالات اور رجحانات میں ایک دوسرے سے ہٹ کر ہوں گے۔ یہ رسالے ہر مکتبہ فکر کے ہوں گے۔ ارسٹوکریٹک، ری پبلکن، انقلابی حتیٰ کہ انارکسٹ بھی۔ ہندو دیوتا وشنو کی طرح ان کے ایک سو ہاتھ ہوں گے اور ہر ہاتھ کی نبض مختلف ذہنی رجحان کے تحت ہو گی۔ فحش اور عریاں مواد بھی خوب پھیلایا جائے گا تاکہ وہ تقریروں اور پارٹی پروگراموں سے زیادہ راحت پائیں۔
جرمن ایڈیشن کے ایڈیٹر 74 سالہ سابق فوجی افسر، زوربیک نے لکھا کہ اگست 1897ء میں سوئس شہر باتل میں پہلی صہیونی کانفرنس ہوئی تھی جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لیے ایک ملک کی ضرورت پر غور کیا گیا۔ کانگریس کے دس اجلاس ہوئے جن کی صدارت بابائے صیہونیت ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل نے کی۔
انہوں نے ہی یہ پروٹوکول بیان کیے۔ ہرشخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ 9 پروٹوکولز کا مسودہ کہیں لے جانے والے ایلچی نے بھی اپنی قیمت وصول کی۔ اسے مسودہ کہیں پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ فرنکفرٹ کے میسنک لاج میں روسی سیکرٹ پولیس کا ایک ایجنٹ اسے ملا جس کے ساتھ نقل نویسوں کی ایک ٹیم بھی تھی۔ ایلچی نے قیمت وصول کی اور ایک رات کے لیے مسودہ ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے راتوں رات اصل زبان (شاید عبرانی) میں اس کی نقل تیار کی۔ صبح کو ایلچی نے مسودہ واپس لیا اور تاریخ سے غائب ہو گیا۔ نقل روس پہنچی جہاں سکالرز نے اس کا ترجمہ کیا۔
1905ء میں ماسکو کے ایک سکالر سرگئی اے فیلوس نے ایک کتاب "The Great in the small" لکھی۔ پروٹوکولز اس میں بطور ضمیمہ شامل تھے۔ زوربیک کے جرمن ایڈیشن کے بعد پروٹوکولز کے کئی یورپی زبانوں میں تراجم شائع ہوئے۔ امریکہ میں تین مختلف ایڈیشن چھپے۔ اس کے بعد عربی ترجمہ بھی آ گیا۔ ہرجگہ سکالرز اور حکمرانوں میں اس کاچرچا ہونے لگا۔ 1919ء میں ایک اور کتاب چھپی Friedrich wichtl کی اس کتاب The World Freemasunry world revolution میں یہودیوں اور فری میسن کے بارے میں وہی خیالات تھے جنہیں پروٹوکولز نے تقویت دی تھی 

5 دجالی پروٹوکولز

صہیونی حکومت کو تسلیم کرنا:
صہیونی حکومت کے اعلان کے فوراً بعد، امریکی صدر ٹرومین نے اسے باضابطہ طور پر تسلیم کر کے اس کی حمایت کا اعلان کردیا اور اس کے بعد فوجی اور اقتصادی امداد کا سیل رواں امریکہ سے اسرائیل کی جانب بہنے لگا۔ اس حکومت کو تسلیم کرنے والا تیسرا ملک روس تھا جب کہ اس سے پہلے بھی اسٹالن نے صہیونیوں کی کافی مدد کی تھی۔
صہیونیوں نے اپنی حکومت کے اعلان کے فوراً بعد، مسلمانوں کی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائداد کو ضبط کرلیا اور مسلمان دیہاتوں اور مقامات مقدسہ کو ویران کرنا شروع کردیاجس کے نتیجے میں مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑ کر جوق در جوق قریبی ممالک کی طرف ہجرت کر کے جانے لگے۔
اور اس طرح یہودی اپنے دجالی پروٹوکولز منصوبوں کو پروان حڑھانے میں کامیاب ہوتے جارہیں ہے