اتوار، 8 اکتوبر، 2017

باپ

                                                                                   
میں نے جمعہ بازار سے سستے داموں خریدی کتاب بغل میں دبائی اور مولوی رشید کو دینے ان کے مسجد سے متصل حجرے میں گیا۔ انھیں کتاب کا تحفہ خوش کر دیتا تھامگر اس دن وہ رنجیدہ تھے۔ کتاب کو انھوں نے کونے میں رکھ دیا۔ بتانے لگے ْ ملک صاحب فوت ہو گئے ہیں ْ ۔۔۔ ملک صاحب اپنے وقت میں دبدبے والے سرکاری افسر تھے، مسجد کے ساتھ تیسرا بنگلہ ان کا تھا۔ دونوں بیٹے بھی سرکاری افسر تھے ْ مغرب کے بعد ہسپتال کی ایمبولنس میں میت آئی ، میں بھی موجود تھا ، لوگوں نے میت اتاری ْ خاموش ہو گئے سانس لیا ْ بڑے بیٹے نے کہا میت گیراج میں رکھ دو ، اندر بچے ڈریں گےْ              

مرکز ثقل

میری عمر ساٹھ سال ہے، میرے بچپن میں دادی اماں کا کمرہ گھر کا مرکز ثقل ہوا کرتا تھا۔دادی کا انتقال ہوا تو گھر میں ٹی وی آگیا ۔ ٹی وی والد صاحب کے کمرے کی بغل والے کمرے میں رکھا ہوا تھا ، پھر وہی کمرہ گھر کامرکز ثقل بن گیا۔والد صاحب کی وفات کے بعد گھر میں تبدیلی آئی اور اپنے اپنے کمرے کے ساتھ باتھ روم بھی اپنااپنا ہوگیا۔ آج میرے گھر کا مرکز ثقل وائی فائی ہے اور سب کے پاس موبائل اپنا اپنا ہے

گدھے کی کھال

اس نے بچھو پالنے کا کام شروع کیا تو اس کے گھر والوں نے اسے بہت برا بھلا کہا، دوستوں نے مذاق اڑایا ، مگر آدمی ضدی تھا ، ہر نصیحت کے جواب میں کہتا ،مجھے یقین ہے ۔۔۔ ، 
پچھلے تین سالوں میں اس نے بچھو وں کی برآمد سے بہت ڈالر کمائے، اس کے پاس بنگلہ ہے گاڑی ہے مگر بیچارہ ہے کیونکہ چھڑا ہے۔۔ 
اب دوست اس نے کاروباری مشورے لیتے ہیں۔
تم گدہے پالنے کا کام شروع کر دو، اس نے دوست کو مشورہ دیا ۔اگلے دو سالوں میں گدہے کی قیمت 10 لاکھ روپے تک جمپ کرنے والی ہے وہ دیر تک دوست کو مفید مشورے دیتا رہا ۔۔۔ میں پاس بیٹھا سن رہا تھا ۔
جب اس کا دوست اٹھ کر جانے لگا تو کہا۔
ہاں سنو ۔۔۔ گدہے کو مارنے سے پہلے بھوکا رکھنا کھال اتارنے میں آسانی رہے گی۔


ہفتہ، 7 اکتوبر، 2017

آپکی عمر

ایک لڑکی سے پوچھا آپکی عمر ؟؟؟
کہا پتہ نہیں البتہ اپنی امی سے آدھی عمر کی ھوں 
پوچھا آپکی امی کی عمر ؟؟؟
کہا پتہ نہیں البتہ میرے ابو سے پانچ سال چھوٹی
پوچھا آپکے ابو کی عمر ؟؟؟
کہا معلوم نہیں البتہ ھم تینوں کی عمر کا مجموعہ 💯 سال
اب آپ بتائیں
لڑکی کی عمر ؟؟؟
لڑکی کی ماں کی عمر ؟
لڑکی کے باپ کی عمر ؟

اعتدال


معاشرتی زندگی میں انفرادی رویوں کی بہت اہمیت ہوتی ہے، مگر ْ اعتدال ْ ایسا اچھا رویہ ہے جس کو ہر قوم و مذہب ومعاشرہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔انسان بنیادی طور پر امن پسند ہے وہ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق جینا چاہتا ہے، اس کو اپنی آزادی عزیز ہے، وہ جانی و مالی خساروں سے بچنا چاہتا ہے اور اس کی ایک عزت نفس ہے جو اس کو بہت عزیز ہے۔ایک فقرہ ہم روزمرہ زندگی میں سنتے ہیں ْ جیو اور جینے دو ْ دراصل یہ اعتدال اختیار کرنے کی تعلیم دینے کے لیے اختیار کیا گیا ایک بیانیہ ہے۔ عوامی بیانیوں کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے ۔ جیسے ہم سنتے ہیں حدسے بڑہا ہو ا پیار خطر ناک ہوتا ہے ، حالانکہ پیا ر اور محبت حد سے بڑہا ہوا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ محبت کو جتنا بھی بڑہا لیا جائے اس میں مزید کی گنجائش رہتی ہے۔لیکن عمومی بیانیہ یہ ہے کہ کسی بھی رویے میں غلو نقصان دہ ہے خواہ محبت ہی ہو۔
اعتدال کواگر ایک مقام مان لیا جائے تو اس کے اوپر ایک مقام غلو کا ہوتا ہے جس کو افراط کے لفظ سے بیان کیا جا سکتاہے اور افراط کے متضاد لفظ تفریط کا مقام اعتدال کے مقام سے نیچے آ جائے گا ۔افراط و تفریط دراصل ایک قسم کی سختی یا انتہا پسندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ان طرفین کے مابین معتدل موقف کواعتدال کا نام دے کر پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔اور یہ پسندیدگی تمام انسانوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے اور اس کا امتیاز ہے کہ اس رویے کی ہمارے رہبر و رہنماء حضرت محمد خاتم مرسلین ﷺ نے بہت حوصلہ افزائی فرمائی اور کہا ْ دو رذیلوں کے مابین برتر اعتدال ہے ْ ۔
یعنی اعتدال کے مقام سے اوپر اور نیچے کے مقام پر دونوں رویوں کو ْ رذیل ْ بتا کر ان سے کنارہ کش ہونے کی ترغیب دی ہے۔ ایک بار حضور ﷺ نے فرمایا ْ دین آسان ہے اور جو بھی دین میں بے جا سختی کرتا ہے تو دین اس پر غالب آ جاتا ہے ْ اور دین کو عملی طور پر فرد پر غالب ہوتے ہوئے ہم موجودہ معاشرے میں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ انسان دین سے مغلوب ہو کر دین کی اصل روح پر عمل سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔اور حیرت انگیز طور پر یہ ْ مغلوب ْ جاہل نہیں بلکہ ْ عالم ْ ہوتا ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ صادق کا قول اپناآپ خود منواتا ہے۔اعتدال کو بیان کرتے ہوئے صادق و امین نبی ﷺ نے فریایا کہ تمھارے اوپر تمھارے نفس کا حق ہے، تمھارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے، تمھارے بدن کا بھی تم پر حق ہے اور تمھارے رب کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے تم ہر حق دارکا حق ادا کرو ۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی و رسول ﷺ کے فرمان کو یہ فرما کر مستحکم فر دیا ْ آپ فرما دیجیے ۔ اللہ کے پیدا کیے ہوئے اسباب زینت کو ، جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے، اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے ْ ۔
اسلام ایک طرز زندگی ہے جو اعتدال پسندوں کا دین ہے ۔ اسلام جیو اور جینے دو کا سبق دیتا ہے۔ اور اپنے ماننے والوں کو نصیحت کرتا ہے کہ دینی اور دنیاوی معاملات میں اللہ کی حدود سے نہ تجاوز کرو نہ کمی کرو۔اسلام اعتدال ، توازن اور عدل کا دین ہے ۔ اور یہ دین اپنے ماننے والوں کو ہدائت کرتا ہے ْ اور جو کچھ اللہ نے تجھے دے رکھاہے، اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیاوی حصے کو بھی نہ بھول ْ بلکہ انسان کو مزید تاکید کرتے ہوے اللہ تعالی نے فرمایا ہے ْ اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گذر جاواور اللہ پر بجز حق کے کچھ نہ کہو ْ اورحق یہ ہے کہ ہر انسان اپنے قول و فعل میں اس حد تک آزاد ہے جب تک اس کا قول و فعل معاشرے میں بسنے والے کسی دوسرے فرد کی حق تلفی کا سبب نہ بن جائے۔اور انفرادی آزادی ، جانی و مالی تحفظ اور فرد کی عزت نفس کی پاسداری کا سبق ہمیں اس ہستی نے دیا ہے جس پر خود خالق ارض و سماوات اور آسمانوں کی مخلوق سلامتی بھیجتی ہے اور اہل ایمان کو حکم ہے کہ تم بھی ان رحمت العالمین ﷺ پر صلاۃ و سلام بھیجو !