اتوار، 7 جنوری، 2018

خربوزہ

قوالی بر صغیر میں مقبول صنف ہے اسے روایات کا علمبردار اور دین دوست شمار کیا جاتا ہے۔ قوالی میں ہارمونیم اور طبلے کو بنیادی سازقرار دیا جاتاہے . طبلہ مندر اور کلینسا مین بھی مقبول ہے ۔ طبلہ ہمیشہ بطور جوڑی استعمال ہوتاہے . قوالی میں طبلہ اور ہارمونیم سے ماحول کو گرمایا جاتا ہے راگ شروع کیا جاتا ہے۔ قوال تان اٹھاتا ہے . دوسرالپک کراسے بڑھاوا دیتا ہے ، تیسرا اچک کراپنا جوھر دکھاتا ہے ، سارے ساز جاگ اٹھتے ہیں ، سر میں سر اورشعر کو شعر سے ملا کر ایک زنجیر میں پرو کر ساماں باندھ دیا جاتا ہے , بعض فنکار سحر طاری کر دیتے ہیں ، سحر کو جادو بھی کہتے ہیں ۔کامیاب جادو کے بارے میں کہا جاتا ہے سر چڑھ کر بولتا ہے . اسلام آباد میں یہ عمل اونچائی پر کیا جاتا ہے کہ داد میں تین صفروں والے نوٹ ملتے ہیں . اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خربوزہ تقلید پسند ہوتا ہے

ہفتہ، 6 جنوری، 2018

چھ سوار

تحریر عبدالرحمن
پاکستانی قیادت امریکی انتظامیہ کی باجماعت دھمکیوں کے جواب میں اپنی اپنی سمجھ اور حیثیت کے مطابق غراتے ہوئے ہی سانس پھلا بیٹھی ہے۔ لیکن اصل دشمن سے غافل ہے جو ایسی صورتحال میں گھات لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
مجھے اس سے ایک واقعہ یاد آیا۔ یہ تب کی بات ہے جب فصیل بند شہروں کے دروازے شام ڈھلتے ہی بند ہو جاتے تھے۔ ایسے ہی ایک شہر پانچ گھوڑ سوار دروازے بند ہونے کے بعد پنہچے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ دربان کو تعارف کراتے ایک گدھے پے بیٹھا بد حال شخص پیچھے سے پکارا! ہم چھ سواردہلی سے آئے ہیں اور زبردستی شہسواروں کی صف میں کھڑا ہو گیا۔
دنیا پہلے پانچ شاہ سواروں سے کم تنگ تھی کہ اب یہ چٹھا بھی آ ٹپکا۔ ذرا سا قد چھوٹا رہ گیا ورنہ تو اب شاہ سواری کے سارے لوازمات رکھتا ہے اور جلدی سے ہر قیمت پر گھوڑ سواروں میں ملنے کو بے چین ہے۔ لیکن اس کی حرکتوں سے لگتا ہے جیسے ڈر ہوا ہے کہ کہیں سب کچھ ہونے کے باوجود بھی گدھا سواری ہی نہ کرتا رہ جائے۔ اس لیے گھوڑ سواروں کی نقل میں اپنی اصل بھلا بیٹھا ہے۔ بدقسمتی سے یہ شوقی پاکستان کا ہمسایہ ہے اور اپنے بونے پن کا صرف اس اکیلے کو ہی قصوروار سمجھتا ہے۔
عجیب صورتحال ہے اگر وہ اپنے بونے پن کی وجہ سے گدھا سوار ہی رہا تب بھی الزام پاکستان پے اور اگر کسی نے زبردستی گھوڑے پےبٹھا کر شاہ سواروں کی صف میں کھڑا کر دیا تو پاکستان تو پہلے ہی اس کی دو لتیوں کے مزے لے رہا۔ جلد ہی باقی دنیا کو بھی لگ پتا جائے گا کہ گدھا سوار کسے کہتے ہیں۔

نئِ گرفتاریاں


سعودی عرب کے انتہائی طاقتور ہو جانے والے حکمران ولی عہد بن سلیمان کے خلاف مزاحمت کے آثار طاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں ۔ بن سلیمان جو ملک کے اندر طاقت کے حصول میں اپنے ذاتی دوست امریکی صدر ٹرمپ کے اعلیٰ مشیر کشنیر کے واسطے سے امریکی صدر کی معاونت حاصل کرتے رہے ہیں شائد اب وہ اب سعودی شہزادے کی مدد نہ کر پائیں ۔
 sabq.org 
پر شائع شدہ مواد کے مطابق سعودی شاہی خاندان کے لوگ بن سلیمان سے اس خون بہا کا مطالبہ کر رہے ہیں ، ویب سائٹ ، کے مطابق جو پچھلے ماہ جان بحق ہوا تھا۔ دسمبر کے مہینے میں سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کو پکڑ دھکڑ ہوئی تھی ، ایک ماہ بعد بھی ان میں سے کسی کا مقدمہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہوا ہے، سعودیہ میں خبروں کا حصول مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے اس کے باوجود کچھ سعودی شہری ملک سے باہر کچھ کہہ دیتے ہیں یا پھر کچھ ایسی ویب سائٹس ہیں جو اندر کی خبر لیک کرتی ہیں مگر جلد ہی وہ بھی انٹرنیٹ کے سمندر میں ڈوب جاتی ہیں ۔ ایسی ہی مذکورہ ویب سائٹ 
ہے اس نے یہ خبر لیک کی ہے کہ سعودیہ کے مشہور قصر الحکم میں سعودی شاہی خاندان کے شہزادوں کا ایک اجلاس ہوا ، یہ شہزادے ولی عہد محمد بن سلیمان کے طریق کار کے مخالف ہیں اور ان کی کچھ پالیسوں کے ناقد بھی ۔ البتہ ان کا یہ مطالبہ بن سلیمان کے سامنے رکھنے کا ویب سائٹ نے دعوی کیا ہے ۔ اس ویب سائٹ کی کہانی کو تقویت مشہور سعودی اخبار عقاظ میں چھپی ایک رپورٹ سے ملتی ہے جس میں شاہی خاندان کے گیارہ شہزادوں کو حکومتی تحویل میں لینے کا ذکر ہے ۔ اخبار نے سعودی حکومت کے اس عزم کو دھرایا ہے کہ حکومت کی نظر میں سب شہری برابر ہیں خواہ ان کا تعلق کہیں سے بھی ہو۔ 
گرفتار شدہ گیارہ شہزادوں کے بارے میں مزید کوئی خبر کہیں سے بھی دستیاب نہیں ہے البتہ سعودی شاہی خاندان کے اندر محسوس کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر اور ان کے داماد کی جانب سے بن سلیمان کے لئے وہ گرمجوشی مدہم ہو رہی ہے جس کا اظہار پچھلے ماہ ، امریکی صدر کے ، اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو القدس میں منتقل کرنے کے اعلان سے پہلے ہو رہا تھا۔ 

جمعرات، 4 جنوری، 2018

ائرمارشل اصغر خان



پاکستان ائرفورس کے پہلے پاکستانی سربراہ ئرمارشل اصغر خان آج 5 جنوری 2018۸ کو96 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔انھوں نے 1920 میں 19 سال کی عمر میں رائل انڈین ائر فورس میں بطور کیڈٹ شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے برطانیہ کے بہترین اداروں سے تربیت حاصل کی اور آخری ڈگر ی امپیریل دیفنس کالج سے لی۔قیام پاکستان کے وقت وہ پاکستان ائر فورس اکیڈمی کے پہلے سربراہ مقررہوئے اور 1957 میں پاکستان ائر فورس کے پہلے پاکستانی سربراہ مقرر ہوئے۔ اور 1965 کی جنگ سے قبل مستعفیٰ ہوئے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ملک کے لئے دوبارہ خدمات پیش کیں اور اس جنگ کے ہیرو گردانے جاتے ہیں۔عوام نے انھیں شاہین پاکستان کا خطاب دیا۔جنگ بندی کے بعد پی آئی اے کے سربراہ مقررہوئے اور 1968 تک خدمات انجام دیں۔
انھوں نے 1970 میں تحریک استقلال کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی اور سیاست میں سرگرم رہے مگر الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اور 2012 میں اپنی سیاسی پارٹی کو پاکستان تحریک انصاف میں مدغم کر کے سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔
وہ انسانی حقوق کے سرگرم سرپرست رہے اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انسانی حقوق کے کمیشن نے انھیں سونے کا تمغہ عنائت کیا. جناح سوسائٹی نے انھیں جناح ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ 

تہذیوں کی جنگ

عالمی سیاست میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تیزی بھی دکھائی دے رہی ہے ۔عالمی قوتیں اس قدر جلدی میں ہیں ، ایک ملک کے امن کو دیاسلائی دکھائی جاتی ہے اور حالات پر تیل چھڑک کر دوسرے ملک کا رخ کر لیا جاتا ہے ۔ فلسطین میں قتل و غارت پر ماتم کناں انسانیت کی افسردگی اور بے چارگی سے شہہ پا کر ٹرمپ نامی انسانیت دشمن خونی پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے ، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان تو چند دنوں کی معاشی مار ہے اور پاکستان کی سیکورٹی معطلی کے اعلان کے موقع پر امریکی ترجمان کے لہجے کی رعونت یہ رہی کہْ جب تکْ پاکستان امریکہ کے اطمینان کے مطابق اپنے ہاں سے دہشت گردی کے اڈے ختم نہیں کرتااس وقت تک امداد اور سیکورٹی معطل رہے گی اور جب پاکستان یہ کر لے گا تو پھر امداد کی بحالی کا سوچا جا سکتا ہے ۔ 

امریکی صدر نے سعودیہ کے دورے کے دوران جہاز میں ْ اپنے میڈیا ْ کے لوگوں سے بات چیت کی جو بعد میں ایک امریکی اخبار میں اور وہاں سے شرق الاوسط کے ایک جریدے میں نقل ہوئی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور امریکہ کو اپنی یہ طاقت استعمال کر کے دنیا پر اپنے رعب کو بحال کرنا ہو گا اور یہ محتاج ممالک
 Client States
 پر دھاک سے ہی ممکن ہے ۔القدس کے مسٗٗلے پر دھاک جما لینے کے بعد ہی اکلوتی سپر پاور کا رخ پاکستان کی طرف ہوا ہے ۔اور ابھی پاکستان رد عمل کی تیاری میں ہی ہے تو سوچ لیا گیا ہے کہ پاکستان نے تو خود کشی کا راستہ اختیار کر ہی لیا ہے لہذا خطے میں پاکستان کے متبادل کے طور پر امریکہ کی نظر ایران پر ہے۔

مریکہ کا خیال ہے کہ ایران خطے میں تنہا ہے ، اس کے ہمسائیوں میں بھارت اسرائیل کی محبت میں کلی طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔شام اور عراق برباد ہو چکے ہیں۔سعودیہ اور ایران کے حالات ْ تومار یا میں ماروںْ تک کشیدہ ہیں ۔ پاکستان کو اپنی فکر لاحق ہو چکی ہے ۔ واحد سہارا ایران کی اندرونی یکجہتی ہے مگر اس کے خلاف امریکہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں حکومت مخالف ایرانی عناصر سر گرم ہو چکے ہیں ۔ جمعرات کے دن ایرانی حکومت کے مخالفین کی جانب سے جو تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں ۔ان میں یہ تصویر بھی شامل ہے۔
القدس میں سفارت خانے کی منتقلی کے بعد لگتا ہے امریکہ نے یقین کر لیا ہے کہ اس کی دھاک کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ اسی لیے پاکستان کو کسی قابل ہی نہیں سمجھا جا رہا اور ایران میں مظاہرین کی اعانت شروع کر دی گئی ہے ۔ امریکی عوام پر ایسا بدبخت ٹولہ مسلط ہو گیا ہے جس کو خود امریکہ میں مست ہاتھی کہا جا رہا ہے ۔ حالانکہ امریکہ دنیا کا با خبر ترین ملک ہے ۔حکمران ٹولہ اپنے تھنک ٹنکس کی سنتا ہے نہ جرنیلوں کی ۔قدرت کو معلوم نہیں کس کا امتحان مقصود ہے ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہر امتحان کے بعد نتیجہ کامیابی یا ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ امریکہ نے خطے میں بہت وسیع امتحان گاہ چنی ہے اور اس کو یقین ہے کہ امتحان میں کامیابی چوہدری کے صاحبزادے کو ہی ہونی ہے ۔اور اس یقین دہانی میں بھارت کا بہت بڑا کردار ہے ، اور یہ طے ہے کہ بھارت نے پاکستان اور ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا ہے ۔ مگر رولا یہ ہے کہ اس خطے میں بسنے والے مسلمان( جو امریکہ کے نزدیک کمی کمین ہیں ) سترہ سالوں سے اسی امتحان کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور یقین یہ ہے کہ یہ ْ کمی کمین ْ دہاندلی کے باوجود پاس ہوں یا نہ ہوں البتہ فیل نہیں ہوں گے ۔مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے یہ جذباتی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانیوں کے بارے میں امریکہ کی سوچ رعونت پر مبنی ہے تو ایران کے بارے اس کا یہ یقین کہ شیعہ ایران ،ایران کے اندر ،شام اور عراق میں شیعہ سنی لڑاہیوں کے باعث سنیوں کو اپنا دشمن بنا چکا ہے ۔ 

علاقے میں جاری تصادم مسلکی ہیں یا ان کا سبب معیشت ہے اس کا فیصلہ بھی اب امتحان کے بعد ہی ہو گا ۔ امریکہ جو کشیدگی دین کی بنیاد پر شروع کیے ہوئے ہے اس کشیدگی کو اسرائیل کی شہہ اور بھارت کی معاونت نے جنگ کے شعلوں میں تبدیل کرنا ہے ۔ اور اگر ( خدا نہ ، نہ ، نہ کرے ) جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی ابتداء ہو گی اور یہ جنگ افغانستان کی طرح سترہ سالوں تک بے نتیجہ نہیں رہے گی مگر سرعت کے ساتھ اس کا رخ سرمایہ داری 
Capitalism 
نظام کے خلاف ہو جائے گا ۔اس کے متحارب فریق ممالک نہیں بلکہ مفلوک الحال لوگ بمقابلہ سرمایہ دار ہوں گے ۔ سابقہ امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ آور ہوتے وقت امریکیوں اورمغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ یہ جنگ ان کے گھروں سے دور لڑی جائے گی ۔جس جنگ کی ابتداء ہی بے اصولی پر ہو چکی ہے وہ کسی امریکی صدر کے اصول کی پابند کیوں اور کیسے رہ سکے گی کہ بھوک مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اس کا مداوا روٹی ہی ہے ۔ ایک امریکی دانشور نے لکھا تھا نا کہ یہ جنگ تہذیوں کی ہو گی ۔ اس نے سچ لکھا تھا۔ تہذیبیں مگر دو ہی ہیں ایک سرمایہ دار دوسری مفلوک الحال۔