پیر، 22 ستمبر، 2025

اسرائیل کا منقسم ڈھانچہ

اسرائیل کا منقسم ڈھانچہ
اسرائیل بے شک ایک ملک ہے ۔ مگر اس کے شہری گروہوں میں منقسم لوگ ہیں نہ کہ ایک قوم ۔ اسرائیلی معاشرہ سیاسی، مذہبی، معاشی ، معاشرتی اور لسانی گروہ میں بٹا ہوا ایک ملک ہے ۔ ۔ اسرائیل میں مقامی پیدا ہونے والے یہودی تقریباً 35 سے 40 فیصد ہیں۔ یورپ اور امریکہ سے آنے والے، جنہیں آشکنازی کہا جاتا ہے، تقریباً ایک تہائی ہیں۔ سابق سوویت یونین سے آنے والے قریب 15 فیصد ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ (یعنی مزراحی یا سفاردی یہودی) تقریباً 40 سے 45 فیصد ہیں۔ایتھوپیا سے آنے والے یہودی تقریباً دو فیصد کے قریب ہیں۔
یہ لوگ کہاں اور کیسے آباد ہوتے ہیں
ابتدا میں حکومت نے نئے آنے والوں کو مخصوص بستیوں اور شہروں میں آباد کیا، اس وجہ سے ایک ہی خطے سے آنے والے لوگ اکٹھے رہنے لگے۔ بعد میں زبان اور ثقافت کی بنیاد پر بھی محلّے اور ہمسایہ داریاں بن گئیں۔
مختلف خطوں کے لوگ کیسے ہیں
سوویت یونین سے آنے والے زیادہ تر تعلیم یافتہ اور فنی مہارت رکھنے والے تھے، وقت کے ساتھ انہوں نے اچھی ترقی کی۔یورپ اور امریکہ سے آنے والے نسبتاً خوشحال اور آزاد خیال لوگ ہیں۔مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ سے آنے والے لوگ زیادہ روایتی ہیں، خاندان اور مذہبی اقدار کو اہمیت دیتے ہیں۔
ایتھوپیا سے آنے والے لوگ کم وسائل کے باوجود اپنی ثقافت اور زبان کو گھروں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
گھروں میں کون سی زبان بولی جاتی ہے
روسی بولنے والے اپنے گھروں میں روسی بولتے ہیں۔ایتھوپیا سے آنے والے امہاری یا تیگرینیا بولتے ہیں۔عرب اور دروز گھرانوں میں عربی رائج ہے۔
لیکن باہر کے معاملات، تعلیم اور ملازمت میں عبرانی ہی سب سے زیادہ بولی جاتی ہے۔
اسرائیل میں کس کو برتر سمجھا جاتا ہے
اسرائیل کے شروع کے زمانے میں یورپ اور امریکہ سے آنے والے یہودی، یعنی آشکنازی، تعلیم اور حکومت کے بڑے عہدوں پر زیادہ نظر آتے تھے۔ اس وجہ سے انہیں برتر طبقہ سمجھا گیا۔ وقت کے ساتھ دوسرے گروہ بھی اوپر آئے، لیکن معاشی اور تعلیمی فرق وقت کے ساتھ بڑھا ہے۔
سیاست میں کس گروہ کا زور ہے
ابتدا میں یورپی نژاد یہودی سیاست میں سب سے آگے تھے اور زیادہ تر بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ جڑے رہے۔ بعد میں مشرقی اور شمالی افریقہ کے یہودیوں نے دائیں بازو کی جماعتوں کو اپنی طاقت بنایا اور سیاست میں بڑی قوت حاصل کی۔ آج سیاست میں مختلف گروہ شریک ہیں لیکن مزراحی یہودی ووٹوں کی بڑی طاقت سمجھے جاتے ہیں۔اس ؑعنصر نے معاشرے میں انمٹ مسابقت پیدا کر دی ہے
فوج میں زیادہ کون ہیں
اسرائیل میں یہودی نوجوانوں کے لیے فوجی خدمت لازمی ہے، اس لیے سب سے زیادہ نمائندگی یہودیوں کی ہی ہے۔ اس کے علاوہ دروز کمیونٹی کے مرد سب سے زیادہ فوج میں شامل ہوتے ہیں اور اونچے عہدوں تک پہنچے ہیں۔ بدو بھی بعض خاص یونٹوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ الٹرا آرتھوڈوکس یہودی فوج میں کم شریک ہوتے ہیں۔دروز عنصر البتہ اس قدر غالب ہے کہ فوج کے اندر ان کی رضامندی لازمی مانی جاتی ہے
کس گروہ کی معیشت مضبوط ہے
یورپی اور امریکی نژاد یہودی شروع سے ہی تعلیم اور سرمایہ رکھنے کی وجہ سے زیادہ خوشحال ہیں۔ امریکہ اور یورپ سے آنے والے بہت سے خاندان معاشی طور پر جلدی اوپر چلے گئے۔ سوویت یونین سے آنے والے ابتدا میں مشکل میں تھے مگر وقت کے ساتھ بہتر ہو گئے۔ مشرقی اور شمالی افریقہ کے لوگ اور ایتھوپین یہودی معاشی لحاظ سے اب بھی پچھڑے ہوئے سمجھے جاتے ہیں۔
اسرائیل کہنے کو یہودی مزہبی ملک ہے مگر اندر سے ملک سیاسی، معاشرتی، معاشی، اخلاقی ہی نہیں سیاسی طور پر پر بھی ایک منقسم معاشرہ ہے ۔ جس کو پرپیگنڈے، سرمائے اور ظلم نے جوڑ کے رکھا ہوا ہے۔

صغیرہ کبیہرہ

 

حضرت موسی علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ تعالی سے پوچھا
یا اللہ میری امت کا سب سے بدترین شخص کون سا ھے؟
اللہ تعالی نے فرمایا !
کل صبح جو شخص تمھیں سب سے پہلے نظر آئے وہ آپ کی امت کا بد ترین انسان ھے
حضرت موسی علیہ السلام صبح جیسے ہی گھر سے باہر تشریف لائے
ایک شخص اپنے بیٹے کو کندھے پر بٹھائے ھوئے گزرا
حضرت موسی علیہ السلام نے دل میں سوچا
اچھا تو یہ ھے میری امت کا سب سے برا انسان
پھر آپ اللہ تعالی سے مخاطب ھوئے اور کہا
یا اللہ !
میری امت کا سب سے اچھا انسان کون سا ھے اسے دکھائیں
اللہ تعالی نے فرمایا !
شام کو جو شخص سب سے پہلے آپ سے ملے وہ آپکی امت کا سب سے بہترین انسان ھے
حضرت موسی علیہ السلام شام کو انتظار کرنے لگے کہ
اچانک انکی نظر صبح والے بد ترین انسان پر پڑی
یہ وہی شخص جو صبح ملا تھا
حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے کلام کیا
یا اللہ یا رب کریم
یہ کیا ماجرہ ھے
جو شخص بدترین تھا وہی سب سے بہترین
کیسے ھوسکتا ھے ؟
اللہ تعالی نے فرمایا !
صبح جب یہ شخص اپنے بیٹے کو کندھے پر بٹھائے جنگل کی طرف نکلا تو اس کے بیٹے نے اس سے پوچھا
ابا کیا اس جنگل سے بڑی کوئی چیز ھے
اس نے کہا
ہاں بیٹا
یہ پہاڑ جنگل سے بھی بڑے ہیں
بیٹا بولا
ابا ان پہاڑوں سے بھی بڑی کوئی شئے ھے
وہ بولا
ہاں بیا
یہ آسمان پہاڑوں سے بھی بہت بڑا بہت وسیع و عریض ھے
بیٹے نے کہا
ابا اس آسمان سے بڑی بھی کوئی چیز ھے
باپ نے ایک سرد آہ بھری اور دکھ بھری آواز میں بولا
ہاں بیٹا اس آسمان سے بھی بڑے تیرے باپ کے گناہ ہیں
بیٹے نے کہا
ابا ! تیرے گناہ سے بڑی بھی کوئی چیز ھے
باپ کے چہرے پر ایک چمک سی اگئی اور بولا
ہاں بیٹا
تیرے باپ کے گناھوں سے بہت بہت بڑی
میرے رب کی رحمت اور اسکی مغفرت ھے
اللہ رب العزت نے فرمایا
اے موسی ! مجھے اس شخص کا اعتراف گناہ اور ندامت اس قدر پسند آیا کہ
میں نے اس بدترین شخص کو تیری امت کا بہترین انسان بنا دیا
میں نے اسکے تمام گناہ ناصرف معاف کر دئیے بلکہ
گناھوں کو نیکیوں سے بدل دیا

لنگڑے جنگجو اور سپہ سالار



تاریخ میں کئی عظیم جنگجو ایسے بھی گزرے ہیں جو کسی جسمانی معذوری، خاص طور پر لنگڑا پن (عرج یا پاؤں کا نقص) کے باوجود عظیم ترین سپہ سالار، فاتح، یا بہادر جنگجو بنے۔ ان کا عزم، قیادت اور بہادری جسمانی نقص سے کہیں زیادہ بلند تھی۔
یہاں لنگڑے (عرج والے) مشہور جنگجوؤں کے چند نام دیے جا رہے ہیں:

1. حضرت عمرو بن الجموحؓ — صحابی رسول ﷺ
مدینہ کے معزز صحابی، پاؤں میں شدید لنگڑا پن تھا (عرج)
غزوہ اُحد میں شرکت کے لیے بار بار اصرار کیا، حالانکہ بیٹے اور اہلِ خانہ منع کرتے تھے
رسول اکرم ﷺ نے ان کی دلیری دیکھ کر اجازت دی
شہادت کے بعد فرمایا گیا:
"میں نے عمرو بن الجموح کو جنت میں لنگڑاتے ہوئے نہیں بلکہ دوڑتے ہوئے دیکھا ہے!"
 تمور لنگ  یا  — ترک-منگول فاتح
اصل نام: تیمور گرگانی
پاؤں میں شدید زخم کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے لنگڑا ہو گیا
اسی نسبت سے تاریخ میں "لنگ" (لنگڑا) کہلایا
وسطی ایشیا، ایران، عراق، ہندوستان اور شام تک فتوحات کیں
سمرقند کو عظیم دارالحکومت بنایا
اپنے وقت کا سب سے خوفناک اور چالاک جنگجو و حکمران
 فلپ آف میسیڈون — سکندر اعظم کا والد
ایک آنکھ ضائع اور ایک ٹانگ زخمی ہو گئی تھی
میدان جنگ میں زخمی ہو کر بھی جنگ جاری رکھی
مقدونیہ کو عظیم سلطنت میں تبدیل کیا
سکندر اعظم کی عسکری تربیت کا اصل معمار
 الپ ارسلان — سلجوقی سلطان
روایات کے مطابق جنگ میں زخمی ہو کر ٹانگ پر اثر آیا
بازنطینیوں کے خلاف ملاذکرد کی جنگ میں تاریخی فتح حاصل کی
اس کی قیادت میں سلجوق سلطنت نے عظیم وسعت پائی
5. شیخ عدی بن مسافر — یزیدی فرقے کے بزرگ
بعض روایات کے مطابق ان کی چال میں لنگ تھا، مگر قیادت اور روحانی طاقت میں بہت بلند مقام رکھتے تھے
جسمانی نقص یا معذوری کبھی بھی عزم، قیادت یا بہادری میں رکاوٹ نہیں بنتی۔
ان تاریخی شخصیات نے یہ ثابت کیا کہ دل، دماغ اور یقین کی طاقت جسمانی حدود سے زیادہ اہم ہے۔

ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ






 ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ

کسی بھی معاشرے میں علم کی روشنی بکھیرنے والے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک درخشاں ستارے کا نام ہے محمد بن سیرینؒ، جنہیں دنیا آج بھی علمِ تعبیرِ خواب کا امام مانتی ہے۔ ان کی شخصیت محض خوابوں کی تعبیر تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان کی زندگی علم، تقویٰ، دیانت اور سچائی کی لازوال مثال تھی۔

ابن سیرینؒ کا اصل نام محمد بن سیرین تھا۔ ان کی پیدائش 33 ہجری میں عراق کے مشہور شہر بصرہ میں ہوئی۔ ان کے والد سیرینؒ حضرت انس بن مالکؓ کے آزاد کردہ غلام تھے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص  ہے۔ اس نسبت نے ابن سیرینؒ کے گھرانے کو دین و علم کی خوشبو سے معطر رکھا۔
ان کی والدہ ایک نیک، عبادت گزار اور متقی خاتون تھیں۔ ایسی پرورش میں ابن سیرینؒ کی شخصیت میں دیانت، سچائی، علم اور حلم کی بنیاد بچپن ہی سے رکھ دی گئی تھی۔

ابن سیرینؒ نے ابتدائی تعلیم بصرہ میں حاصل کی، مگر ان کا دل علم کی پیاس بجھانے کو مزید بڑے علماء اور صحابہ کرامؓ کی تلاش میں لگا رہا۔ انہوں نے دورِ تابعین میں ایسے جلیل القدر صحابہ کرام سے براہِ راست فیض حاصل کیا جن کے علم اور عمل کی دنیا معترف ہے، جیسے:
حضرت انس بن مالکؓ
حضرت ابن عباسؓ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ
حضرت ابوہریرہؓ
ابن سیرینؒ نے صرف حدیث و فقہ ہی نہیں، بلکہ اخلاقیات، زہد و تقویٰ اور معاشرتی اصلاح میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

اگر ابن سیرینؒ کا نام لیا جائے تو سب سے پہلا حوالہ علمِ تعبیرِ خواب کا ذہن میں آتا ہے۔ انہوں نے اس علم میں ایسی مہارت حاصل کی جو صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی تعبیریں صرف خواب کی ظاہری شکل پر مبنی نہ تھیں، بلکہ وہ انسان کی شخصیت، نیت، حالات اور وقت کو مدنظر رکھتے تھے۔
مشہور کتاب "تعبیر الرؤیا" میں منسوب ان کی تعبیریں آج بھی دنیا بھر میں حوالہ مانی جاتی ہیں۔ ان کا یہ علم صرف ظاہری بصیرت نہیں بلکہ دینی فہم، قرآن، حدیث اور حضرت یوسفؑ کے علم تعبیر کی عملی مثال ہے۔

ابن سیرینؒ کی زندگی زہد، عبادت اور تقویٰ سے بھرپور تھی۔ وہ سچ بولنے، وعدہ نبھانے اور امانت داری میں بے مثال تھے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے کسی کا مال بطور امانت لیا، بعد میں اس مال کی واپسی میں رکاوٹ آئی، حتیٰ کہ ابن سیرینؒ کو قید کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، مگر انہوں نے امانت میں خیانت نہ کی۔
وہ کاروبار بھی کرتے تھے، مگر ان کے کاروبار کی بنیاد دیانت اور اللہ پر توکل تھی۔ ناپ تول میں کمی، دھوکہ، جھوٹ یا فریب سے انہیں سخت نفرت تھی۔

ابن سیرینؒ دن کو علم میں مصروف رہتے، راتوں کو عبادت میں مگن رہتے تھے۔ وہ دنیا کی زیب و زینت سے زیادہ آخرت کی تیاری کو اہم سمجھتے تھے۔ ان کے تقویٰ اور عاجزی کی یہ حالت تھی کہ ان کی محفل میں بیٹھنے والے دین اور علم کی خوشبو میں ڈوب جاتے تھے۔

ابن سیرینؒ کا ایک قول آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے:
"جو شخص اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھتا، وہ ایمان کے دائرے سے باہر جا سکتا ہے۔"
انہوں نے ہمیشہ سچ، دیانت اور علم کی تلقین کی اور کہا کہ خواب کی تعبیر دینا کھیل نہیں بلکہ علم، تقویٰ اور فہم کا امتحان ہے۔

ابن سیرینؒ کی وفات 110 ہجری میں بصرہ میں ہوئی۔ ان کی وفات علم، تقویٰ اور حکمت کی دنیا میں ایک بڑا خلا چھوڑ گئی۔ مگر آج بھی دنیا بھر میں ان کی تعبیریں، اقوال اور کردار زندہ ہیں۔

ثابت قدمی کی تاریخ


ثابت قدمی کی تاریخ
غزہ ایک قدیم شہر اور پٹی ہے، جس کی تہذیبیں ہزاروں سال پیچھے جاتی ہیں۔ یہاں سے مصر، فلستی، یونان، رومی، صلیبی، اسلامی سلطنتیں، عثمانی دور، برطانوی استعمار، اور جدید اسرائیلی قابضین تک کے ادوار کا سلسلہ ملتا ہے۔ ہر دور میں مختلف حکمرانوں نے اہلِ غزہ پر ظلم یا سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہے۔
غزہ بنیادی طور پر کنعانیوں کا شہر تھا بعد میں فلستی ان کا ایک اہم حصہ بنے۔ یہ شہر ایک مضبوط بحری اور تجارتی مرکز تھا، مگر یہ ایسا خطہ تھا جہاں جنگیں اور مقامی قبائل کے مابین جھگڑے معمول تھے، جس سے عوام متاثر ہوتے رہے۔
اسکندر اعظم اور ہیلینی دور
تین سو بتیس قبل مسیح میں، اسکندر اعظم نے غزہ کا محاصرہ کیا۔
اس محاصرے میں شہری نقصان ہوا، لوگوں کا قتل عام ہوا، اور شہر کی ساخت تباہ ہوئی۔ غزہ دیر تک مزاحمت کرتا رہا، مگر آخر کار فتح ہوا۔
رومی اور بازنطینی ادوار
رومی سلطنت کے تحت، غزہ کو ایک اہم شہر سمجھا جانے لگا، مگر رومی قوانین، ٹیکس اور مذہبی دباؤ غالب رہا۔ خاص طور پر عیسائیت کے دور میں لوگوں کو مذہبی تبدیلی پر مجبور کیا گیا۔
بازنطینی دور میں مذہبی اور انتظامی اختیارات کے تحت غیر مسیحی اکثریت خود کوپچھڑی ہوئی محسوس کرتی رہی۔
اسلامی فتوحات سے عثمانی دور تک
تقریبا 637 عیسوی میں، عمرو بن العاص نے مسلمانوں کی قیادت میں غزہ فتح کیا۔ اسلام کے بعد، بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ عمومی طور پر غزہ کا دور اسلامی حکمرانی میں پُر امن سمجھا جاتا ہے، اس دور مین غزہ مین قبائلی تصادم کا خاتمہ ہوا، تجارت بڑہی اور لوگوں نے خود کو پرامن محسوس کیا
صلیبی دور
تقریباً ایک ہزار ایک سو عیسوی میں صلیبی فوجوں نے پہلی بار غزہ پر قبضہ کیا ۔ صلیبی دور میں غزہ کا امن تباہ ہوا۔ بدامنی اور جنگ و جدل کا بازار گرم رہا۔ مقامی مسلم و عرب آبادی کا قتل عام کیا گیا۔ مسلمان تباہی اور مذہبی جبرکا شکار ہوئے ۔ پوری صلیبی دور میں اہل غزہ کو امن نصیب نہ ہو سکا۔
مملوک اور عثمانی سلطنت
مملوک دور میں غزہ تقریباً ایک مستحکم علاقہ رہا، اگرچہ فوجی تصادم اور بیرونی حملے رہتے تھے۔ مگر تصادم صرف مسلح سرکاری فوجیوں کے درمیان رہا اور غزہ کے عوام اس سے متاثر نہیں ہوئے۔
پندہ سو سترہ عیسوی سے عثمانی دور آیا۔ اس دور میں غزہ نے زبردست ثقافتی اور تجارتی ترقی دیکھی۔ غزہ کی تاریخ میں عثمانی خلافت کا دور امن و امن ، معاشرتی رواداری، تجارت کے عروج اور بیرونی حملہ آوروں سے نجات کا دور تھا ۔
جدید دور: برطانوی مینڈیٹ سے اسرائیل تک
برطانوی استعمار
(1917–1948)
پہلی جنگ عظیم کے بعد، عثمانی سلطنت ٹوٹ گئی، اور غزہ برطانوی استعماری فلسطین کا حصہ بن گیا۔ برطانوی دور میں اہل غزہ سیاسی جبر، صیھونٰون کی ہجرت میں اضافہ، زمینوں پر صیھونیوں کے قبضے، اور فلسطینی عرب آبادی کی مزاحمت حکومتی و معاشاری جبر کا شکار ہوئے
مصر کا کنٹرول
(1948-1967)
انیس سو اڑتالیس کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد، مصر نے غزہ کو کنٹرول میں لے لیا۔ اس دور میں اہلِ غزہ پر فوجی اور انتظامی دباؤ رہا، فلسطینی مجاہدین اور رہائش پذیر لوگ سیاسی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ مگر مجموعی طور پر غزہ میں امن رہا ۔
اسرائیلی قبضہ
(1967 کے بعد)
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ کے بعد، اسرائیل نے غزہ پٹی پر براہِ راست قبضہ کر لیا۔ قبضے کے بعد اسرائیلی فورسز نے اہل غزہ کو باغی اور غدار قرار دیا اور باغیوں کو کچلنے کی کارروائیاں کیں، زمینوں پر قبضے کیے گئے،اہل غزہ کی رہائش گاہیں منہدم کی گئیں، ٹرانسپورٹ اور نقل مکانی کے حقوق محدود کر دیے گئے ۔
دوسرے ممالک سے ائے ہوئے یہودیوں نے مقامی لوگوں کی رہائشگاہوں اور زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے ۔ اس عمل میں یہودیوں کو اسرائیل کی قانونی، سیاسی، معاشرتی اور عسکری پست پنائی حاصل رہی
غزہ کی خود مختاری کا آغاز اور داخلی سیاسی تناؤ
انیس سو چورانوے میں غزہ ر فلسطینی اتھارٹی کو محدود خود مختاری دی گئی، 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے فوجی انخلاء کا اعلان کیا مگر تحویلِ کنٹرول مکمل طور پراہل غزہ کے حوالے نہیں کیا اسرائیل نے سرحدی کنٹرول، فضائی اور سمندری حدود نگرانی کے بہانے اپنا وجود موجود رکھا
حماس کا اقتدار اور اسرائیلی محاصرہ
دوہزارچھ میں غزہ میں حماس نے انتخابات جیتے، اور 2007 میں مرکزی کنٹرول حاصل کیا۔ اس کے بعد، اسرائیل اور مصر نے مل کر سرحدوں پر مکمل محاصرہ کر لیا، بجلی، دوائیوں، انسانی امداد کی ترسیل محدود ہوئی جو روز بروز محدود ہوتی گئی اوراہل غزہ کے خلاف آپریشن شروع کیے گئے ۔اہل غزہ کے نہتے شہریوں کے خلاف ان اپریشن کو جنگ کا نام دیا گیا ۔
حال کے جنگی واقعات اور انسانی بحران
دو ہزار آتھ میں اسرائیل کی فوج نے اہل غزہ کے خلاف اپریشن کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ فوجی اپریشن کے نام پر ظلم اور جبر ڈھایا گیا مگر سخت سنسر شپ کے ذریعے کوشش کی گئی کہ یہ ظلم دنیا تک کم از کم پہچے
موجودہ دور
سات اکتوبر 2023 کے بعد محاصرے، ہنگامی حالت، انسانی امداد کی کمی اور آبادی کی نقل مکانی ادویات اور خوراک اور پانی پر کنٹرول معمول کا حصہ بن چکا ہے۔
سماجی و اقتصادی تناؤ:
مہنگائی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات کی کمی جیسے پانی، بجلی، صحت کی خدمات پر پابندیوں نے غزہ کو ایک ایسی جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ جہان، ادویات کے حصول، کھانے کی لائن میں کھڑے ہونے یا پانی کا کنستر لے کر چلنے پر گولی مار دی جاتی ہے ۔
نفسیاتی اور انسانی نقصان:
بچوں، عورتوں اور عمر رسیدہ افراد پر جنگی تشدد اور قحط جیسے حالات مسلط کر دیے گئے ہیں
تاریخی و ثقافتی تباہی:
رہائشی عمارات،ہسپتالوں، مذہبی عبادت گاہوں، سکولوں اور ثقافتی ورثے کو آگ و بارود کے ذریعے راکھ میں تبدیل کر دیا گیا ہے
غزہ کی تاریخ میں تقریباً ہر دور میں کوئی نہ کوئی طاقت رہی ہے جس نے اہلِ غزہ پر ظلم یا کم از کم سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہو۔ یہ ظلم ہمیشہ ایک جیسے پیمانے کا نہیں رہا—کبھی شدید محاصرے، کبھی زبردست فوجی کارروائیاں، کبھی قانونی و سماجی جبر—مگر اسرائیل نے قبضے نے اہل غزہ پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں جو انسانی تاریخ نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے ۔ دنیا بھر میں عوام ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر ہے ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم پر قرار دادیں منظور ہوتی ہیں ۔ مگر صیھونی کے اسرائیل میں قابص نمائدے سر عام اہل غزہ کو انسان ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں