پیر، 22 ستمبر، 2025

لنگڑے جنگجو اور سپہ سالار



تاریخ میں کئی عظیم جنگجو ایسے بھی گزرے ہیں جو کسی جسمانی معذوری، خاص طور پر لنگڑا پن (عرج یا پاؤں کا نقص) کے باوجود عظیم ترین سپہ سالار، فاتح، یا بہادر جنگجو بنے۔ ان کا عزم، قیادت اور بہادری جسمانی نقص سے کہیں زیادہ بلند تھی۔
یہاں لنگڑے (عرج والے) مشہور جنگجوؤں کے چند نام دیے جا رہے ہیں:

1. حضرت عمرو بن الجموحؓ — صحابی رسول ﷺ
مدینہ کے معزز صحابی، پاؤں میں شدید لنگڑا پن تھا (عرج)
غزوہ اُحد میں شرکت کے لیے بار بار اصرار کیا، حالانکہ بیٹے اور اہلِ خانہ منع کرتے تھے
رسول اکرم ﷺ نے ان کی دلیری دیکھ کر اجازت دی
شہادت کے بعد فرمایا گیا:
"میں نے عمرو بن الجموح کو جنت میں لنگڑاتے ہوئے نہیں بلکہ دوڑتے ہوئے دیکھا ہے!"
 تمور لنگ  یا  — ترک-منگول فاتح
اصل نام: تیمور گرگانی
پاؤں میں شدید زخم کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے لنگڑا ہو گیا
اسی نسبت سے تاریخ میں "لنگ" (لنگڑا) کہلایا
وسطی ایشیا، ایران، عراق، ہندوستان اور شام تک فتوحات کیں
سمرقند کو عظیم دارالحکومت بنایا
اپنے وقت کا سب سے خوفناک اور چالاک جنگجو و حکمران
 فلپ آف میسیڈون — سکندر اعظم کا والد
ایک آنکھ ضائع اور ایک ٹانگ زخمی ہو گئی تھی
میدان جنگ میں زخمی ہو کر بھی جنگ جاری رکھی
مقدونیہ کو عظیم سلطنت میں تبدیل کیا
سکندر اعظم کی عسکری تربیت کا اصل معمار
 الپ ارسلان — سلجوقی سلطان
روایات کے مطابق جنگ میں زخمی ہو کر ٹانگ پر اثر آیا
بازنطینیوں کے خلاف ملاذکرد کی جنگ میں تاریخی فتح حاصل کی
اس کی قیادت میں سلجوق سلطنت نے عظیم وسعت پائی
5. شیخ عدی بن مسافر — یزیدی فرقے کے بزرگ
بعض روایات کے مطابق ان کی چال میں لنگ تھا، مگر قیادت اور روحانی طاقت میں بہت بلند مقام رکھتے تھے
جسمانی نقص یا معذوری کبھی بھی عزم، قیادت یا بہادری میں رکاوٹ نہیں بنتی۔
ان تاریخی شخصیات نے یہ ثابت کیا کہ دل، دماغ اور یقین کی طاقت جسمانی حدود سے زیادہ اہم ہے۔

ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ






 ابن سیرینؒ — خوابوں کا عالم، سچائی کا چراغ

کسی بھی معاشرے میں علم کی روشنی بکھیرنے والے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک درخشاں ستارے کا نام ہے محمد بن سیرینؒ، جنہیں دنیا آج بھی علمِ تعبیرِ خواب کا امام مانتی ہے۔ ان کی شخصیت محض خوابوں کی تعبیر تک محدود نہیں تھی، بلکہ ان کی زندگی علم، تقویٰ، دیانت اور سچائی کی لازوال مثال تھی۔

ابن سیرینؒ کا اصل نام محمد بن سیرین تھا۔ ان کی پیدائش 33 ہجری میں عراق کے مشہور شہر بصرہ میں ہوئی۔ ان کے والد سیرینؒ حضرت انس بن مالکؓ کے آزاد کردہ غلام تھے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص  ہے۔ اس نسبت نے ابن سیرینؒ کے گھرانے کو دین و علم کی خوشبو سے معطر رکھا۔
ان کی والدہ ایک نیک، عبادت گزار اور متقی خاتون تھیں۔ ایسی پرورش میں ابن سیرینؒ کی شخصیت میں دیانت، سچائی، علم اور حلم کی بنیاد بچپن ہی سے رکھ دی گئی تھی۔

ابن سیرینؒ نے ابتدائی تعلیم بصرہ میں حاصل کی، مگر ان کا دل علم کی پیاس بجھانے کو مزید بڑے علماء اور صحابہ کرامؓ کی تلاش میں لگا رہا۔ انہوں نے دورِ تابعین میں ایسے جلیل القدر صحابہ کرام سے براہِ راست فیض حاصل کیا جن کے علم اور عمل کی دنیا معترف ہے، جیسے:
حضرت انس بن مالکؓ
حضرت ابن عباسؓ
حضرت عبداللہ بن عمرؓ
حضرت ابوہریرہؓ
ابن سیرینؒ نے صرف حدیث و فقہ ہی نہیں، بلکہ اخلاقیات، زہد و تقویٰ اور معاشرتی اصلاح میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔

اگر ابن سیرینؒ کا نام لیا جائے تو سب سے پہلا حوالہ علمِ تعبیرِ خواب کا ذہن میں آتا ہے۔ انہوں نے اس علم میں ایسی مہارت حاصل کی جو صدیوں میں کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ان کی تعبیریں صرف خواب کی ظاہری شکل پر مبنی نہ تھیں، بلکہ وہ انسان کی شخصیت، نیت، حالات اور وقت کو مدنظر رکھتے تھے۔
مشہور کتاب "تعبیر الرؤیا" میں منسوب ان کی تعبیریں آج بھی دنیا بھر میں حوالہ مانی جاتی ہیں۔ ان کا یہ علم صرف ظاہری بصیرت نہیں بلکہ دینی فہم، قرآن، حدیث اور حضرت یوسفؑ کے علم تعبیر کی عملی مثال ہے۔

ابن سیرینؒ کی زندگی زہد، عبادت اور تقویٰ سے بھرپور تھی۔ وہ سچ بولنے، وعدہ نبھانے اور امانت داری میں بے مثال تھے۔ ایک واقعہ مشہور ہے کہ انہوں نے کسی کا مال بطور امانت لیا، بعد میں اس مال کی واپسی میں رکاوٹ آئی، حتیٰ کہ ابن سیرینؒ کو قید کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، مگر انہوں نے امانت میں خیانت نہ کی۔
وہ کاروبار بھی کرتے تھے، مگر ان کے کاروبار کی بنیاد دیانت اور اللہ پر توکل تھی۔ ناپ تول میں کمی، دھوکہ، جھوٹ یا فریب سے انہیں سخت نفرت تھی۔

ابن سیرینؒ دن کو علم میں مصروف رہتے، راتوں کو عبادت میں مگن رہتے تھے۔ وہ دنیا کی زیب و زینت سے زیادہ آخرت کی تیاری کو اہم سمجھتے تھے۔ ان کے تقویٰ اور عاجزی کی یہ حالت تھی کہ ان کی محفل میں بیٹھنے والے دین اور علم کی خوشبو میں ڈوب جاتے تھے۔

ابن سیرینؒ کا ایک قول آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے:
"جو شخص اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھتا، وہ ایمان کے دائرے سے باہر جا سکتا ہے۔"
انہوں نے ہمیشہ سچ، دیانت اور علم کی تلقین کی اور کہا کہ خواب کی تعبیر دینا کھیل نہیں بلکہ علم، تقویٰ اور فہم کا امتحان ہے۔

ابن سیرینؒ کی وفات 110 ہجری میں بصرہ میں ہوئی۔ ان کی وفات علم، تقویٰ اور حکمت کی دنیا میں ایک بڑا خلا چھوڑ گئی۔ مگر آج بھی دنیا بھر میں ان کی تعبیریں، اقوال اور کردار زندہ ہیں۔

ثابت قدمی کی تاریخ


ثابت قدمی کی تاریخ
غزہ ایک قدیم شہر اور پٹی ہے، جس کی تہذیبیں ہزاروں سال پیچھے جاتی ہیں۔ یہاں سے مصر، فلستی، یونان، رومی، صلیبی، اسلامی سلطنتیں، عثمانی دور، برطانوی استعمار، اور جدید اسرائیلی قابضین تک کے ادوار کا سلسلہ ملتا ہے۔ ہر دور میں مختلف حکمرانوں نے اہلِ غزہ پر ظلم یا سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہے۔
غزہ بنیادی طور پر کنعانیوں کا شہر تھا بعد میں فلستی ان کا ایک اہم حصہ بنے۔ یہ شہر ایک مضبوط بحری اور تجارتی مرکز تھا، مگر یہ ایسا خطہ تھا جہاں جنگیں اور مقامی قبائل کے مابین جھگڑے معمول تھے، جس سے عوام متاثر ہوتے رہے۔
اسکندر اعظم اور ہیلینی دور
تین سو بتیس قبل مسیح میں، اسکندر اعظم نے غزہ کا محاصرہ کیا۔
اس محاصرے میں شہری نقصان ہوا، لوگوں کا قتل عام ہوا، اور شہر کی ساخت تباہ ہوئی۔ غزہ دیر تک مزاحمت کرتا رہا، مگر آخر کار فتح ہوا۔
رومی اور بازنطینی ادوار
رومی سلطنت کے تحت، غزہ کو ایک اہم شہر سمجھا جانے لگا، مگر رومی قوانین، ٹیکس اور مذہبی دباؤ غالب رہا۔ خاص طور پر عیسائیت کے دور میں لوگوں کو مذہبی تبدیلی پر مجبور کیا گیا۔
بازنطینی دور میں مذہبی اور انتظامی اختیارات کے تحت غیر مسیحی اکثریت خود کوپچھڑی ہوئی محسوس کرتی رہی۔
اسلامی فتوحات سے عثمانی دور تک
تقریبا 637 عیسوی میں، عمرو بن العاص نے مسلمانوں کی قیادت میں غزہ فتح کیا۔ اسلام کے بعد، بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ عمومی طور پر غزہ کا دور اسلامی حکمرانی میں پُر امن سمجھا جاتا ہے، اس دور مین غزہ مین قبائلی تصادم کا خاتمہ ہوا، تجارت بڑہی اور لوگوں نے خود کو پرامن محسوس کیا
صلیبی دور
تقریباً ایک ہزار ایک سو عیسوی میں صلیبی فوجوں نے پہلی بار غزہ پر قبضہ کیا ۔ صلیبی دور میں غزہ کا امن تباہ ہوا۔ بدامنی اور جنگ و جدل کا بازار گرم رہا۔ مقامی مسلم و عرب آبادی کا قتل عام کیا گیا۔ مسلمان تباہی اور مذہبی جبرکا شکار ہوئے ۔ پوری صلیبی دور میں اہل غزہ کو امن نصیب نہ ہو سکا۔
مملوک اور عثمانی سلطنت
مملوک دور میں غزہ تقریباً ایک مستحکم علاقہ رہا، اگرچہ فوجی تصادم اور بیرونی حملے رہتے تھے۔ مگر تصادم صرف مسلح سرکاری فوجیوں کے درمیان رہا اور غزہ کے عوام اس سے متاثر نہیں ہوئے۔
پندہ سو سترہ عیسوی سے عثمانی دور آیا۔ اس دور میں غزہ نے زبردست ثقافتی اور تجارتی ترقی دیکھی۔ غزہ کی تاریخ میں عثمانی خلافت کا دور امن و امن ، معاشرتی رواداری، تجارت کے عروج اور بیرونی حملہ آوروں سے نجات کا دور تھا ۔
جدید دور: برطانوی مینڈیٹ سے اسرائیل تک
برطانوی استعمار
(1917–1948)
پہلی جنگ عظیم کے بعد، عثمانی سلطنت ٹوٹ گئی، اور غزہ برطانوی استعماری فلسطین کا حصہ بن گیا۔ برطانوی دور میں اہل غزہ سیاسی جبر، صیھونٰون کی ہجرت میں اضافہ، زمینوں پر صیھونیوں کے قبضے، اور فلسطینی عرب آبادی کی مزاحمت حکومتی و معاشاری جبر کا شکار ہوئے
مصر کا کنٹرول
(1948-1967)
انیس سو اڑتالیس کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد، مصر نے غزہ کو کنٹرول میں لے لیا۔ اس دور میں اہلِ غزہ پر فوجی اور انتظامی دباؤ رہا، فلسطینی مجاہدین اور رہائش پذیر لوگ سیاسی و اقتصادی مشکلات کا سامنا کرتے رہے۔ مگر مجموعی طور پر غزہ میں امن رہا ۔
اسرائیلی قبضہ
(1967 کے بعد)
انیس سو سڑسٹھ کی چھ روزہ جنگ کے بعد، اسرائیل نے غزہ پٹی پر براہِ راست قبضہ کر لیا۔ قبضے کے بعد اسرائیلی فورسز نے اہل غزہ کو باغی اور غدار قرار دیا اور باغیوں کو کچلنے کی کارروائیاں کیں، زمینوں پر قبضے کیے گئے،اہل غزہ کی رہائش گاہیں منہدم کی گئیں، ٹرانسپورٹ اور نقل مکانی کے حقوق محدود کر دیے گئے ۔
دوسرے ممالک سے ائے ہوئے یہودیوں نے مقامی لوگوں کی رہائشگاہوں اور زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے ۔ اس عمل میں یہودیوں کو اسرائیل کی قانونی، سیاسی، معاشرتی اور عسکری پست پنائی حاصل رہی
غزہ کی خود مختاری کا آغاز اور داخلی سیاسی تناؤ
انیس سو چورانوے میں غزہ ر فلسطینی اتھارٹی کو محدود خود مختاری دی گئی، 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے فوجی انخلاء کا اعلان کیا مگر تحویلِ کنٹرول مکمل طور پراہل غزہ کے حوالے نہیں کیا اسرائیل نے سرحدی کنٹرول، فضائی اور سمندری حدود نگرانی کے بہانے اپنا وجود موجود رکھا
حماس کا اقتدار اور اسرائیلی محاصرہ
دوہزارچھ میں غزہ میں حماس نے انتخابات جیتے، اور 2007 میں مرکزی کنٹرول حاصل کیا۔ اس کے بعد، اسرائیل اور مصر نے مل کر سرحدوں پر مکمل محاصرہ کر لیا، بجلی، دوائیوں، انسانی امداد کی ترسیل محدود ہوئی جو روز بروز محدود ہوتی گئی اوراہل غزہ کے خلاف آپریشن شروع کیے گئے ۔اہل غزہ کے نہتے شہریوں کے خلاف ان اپریشن کو جنگ کا نام دیا گیا ۔
حال کے جنگی واقعات اور انسانی بحران
دو ہزار آتھ میں اسرائیل کی فوج نے اہل غزہ کے خلاف اپریشن کا نئے سرے سے آغاز کیا۔ فوجی اپریشن کے نام پر ظلم اور جبر ڈھایا گیا مگر سخت سنسر شپ کے ذریعے کوشش کی گئی کہ یہ ظلم دنیا تک کم از کم پہچے
موجودہ دور
سات اکتوبر 2023 کے بعد محاصرے، ہنگامی حالت، انسانی امداد کی کمی اور آبادی کی نقل مکانی ادویات اور خوراک اور پانی پر کنٹرول معمول کا حصہ بن چکا ہے۔
سماجی و اقتصادی تناؤ:
مہنگائی، بے روزگاری، بنیادی سہولیات کی کمی جیسے پانی، بجلی، صحت کی خدمات پر پابندیوں نے غزہ کو ایک ایسی جیل میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔ جہان، ادویات کے حصول، کھانے کی لائن میں کھڑے ہونے یا پانی کا کنستر لے کر چلنے پر گولی مار دی جاتی ہے ۔
نفسیاتی اور انسانی نقصان:
بچوں، عورتوں اور عمر رسیدہ افراد پر جنگی تشدد اور قحط جیسے حالات مسلط کر دیے گئے ہیں
تاریخی و ثقافتی تباہی:
رہائشی عمارات،ہسپتالوں، مذہبی عبادت گاہوں، سکولوں اور ثقافتی ورثے کو آگ و بارود کے ذریعے راکھ میں تبدیل کر دیا گیا ہے
غزہ کی تاریخ میں تقریباً ہر دور میں کوئی نہ کوئی طاقت رہی ہے جس نے اہلِ غزہ پر ظلم یا کم از کم سیاسی و اقتصادی دباؤ ڈالا ہو۔ یہ ظلم ہمیشہ ایک جیسے پیمانے کا نہیں رہا—کبھی شدید محاصرے، کبھی زبردست فوجی کارروائیاں، کبھی قانونی و سماجی جبر—مگر اسرائیل نے قبضے نے اہل غزہ پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں جو انسانی تاریخ نے اس سے پہلے نہیں دیکھے تھے ۔ دنیا بھر میں عوام ان مظالم کے خلاف سڑکوں پر ہے ۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے انسانیت سوز مظالم پر قرار دادیں منظور ہوتی ہیں ۔ مگر صیھونی کے اسرائیل میں قابص نمائدے سر عام اہل غزہ کو انسان ہی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں

اتوار، 21 ستمبر، 2025

Pak-Saudi Defence Pact

The reported defence pact between Pakistan and Saudi Arabia has stirred widespread excitement at home. Many Pakistanis see it as a historic moment, imagining their country as the ultimate guardian of the Kingdom and the holy sites. Emotional calls about “defending Makkah and Madinah” or “standing against Israel” are not uncommon. But before celebrating too loudly, it is worth asking what this agreement actually means in practical terms.

Saudi Arabia’s military power still rests heavily on U.S.-supplied systems — from fighter jets to missile defences. These weapons require American maintenance, training, and in many cases, cannot be used independently against U.S. or allied interests. Yet to say the Kingdom is entirely dependent on Washington would be misleading. In recent years, Riyadh has diversified its defence ties, buying drones from China, exploring advanced air defence from Russia, and expanding procurement from Europe. After the 2019 Aramco attacks, when America’s support seemed hesitant, Saudi leaders drew a clear lesson: do not rely on a single supplier.

Pakistan’s role under this pact should also be viewed realistically. Pakistani forces will not be flying Saudi fighter jets or operating Patriot batteries. Their value lies in areas where they have proven strength: protecting key sites, training Saudi forces, and providing counterterrorism expertise. For decades, Riyadh has trusted Pakistani troops with sensitive duties — a level of confidence not easily extended to Western contractors.

Other Muslim-majority states show that dependency does not equal paralysis. Turkey, despite tensions with the U.S., built its own drones that changed the course of several conflicts. Egypt diversified with French and Russian aircraft. Both remain tied to the West, but they still carve out space for strategic autonomy. Iran, meanwhile, built an independent defence industry but at enormous economic and diplomatic cost. Few countries would want to pay that price.

Change is already visible in the Gulf. Saudi Vision 2030 aims to produce half of the Kingdom’s defence needs locally. The UAE is co-developing fighter jets with South Korea. Chinese and Turkish drones are widely in use. The region is slowly moving toward a more balanced military future.

Pakistan itself faces constraints: economic dependence, mixed military hardware, and reliance on Western-trained doctrines. But it also brings assets no one else in the Muslim world does — a nuclear deterrent, a growing domestic arms industry, and unmatched counterterrorism experience. These strengths explain why Saudi Arabia values Pakistan as a partner.

The new pact is neither a guarantee of Muslim unity nor a hollow illusion. Its importance lies in symbolism, deterrence, and trust. For Pakistan, it reinforces ties with a crucial ally in a time of economic strain. For Saudi Arabia, it adds a dependable partner beyond Western support. Strategic independence will take years to achieve, but until then, practical partnerships and careful balancing remain the reality.

The challenge for both nations is to see this agreement not as a cause for euphoria, but as one step in a much longer journey toward genuine security and self-reliance.




ہفتہ، 20 ستمبر، 2025

شیور مرغے




 پاکستان نے 1977 سے ای
ک طویل سفر طے کیا ہے۔ 2025 میں صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ انسان انسان کو مار مار کر تھک چکا ہے، ہر طرح کے تعصب اور نفرت کے نام پر خون بہایا جا چکا ہے۔ لیکن دو ایسی حقیقتیں ہیں جنہیں کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا: ایک یہ کہ پاکستان کا نوجوان آج بھی روزگار کو ترس رہا ہے، اور دوسری یہ کہ پاکستان کے ہر باسی کی جیب سے کچھ نہ کچھ نکل کر کسی نہ کسی تجوری میں جمع ہو رہا ہے۔

اب تو لوگ اس تجوری کو بھی پہچان گئے ہیں جہاں غریبوں کے خون پسینے کی کمائی جمع کی جاتی ہے، اور ان مگرمچھوں کو بھی پہچان گئے ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو سیاست کے میدان میں استعمال کرکے بے روزگاری کے اندھیروں میں دھکیل دیا اور پھر بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔اس بے رحمی کا مداوا آزانوں سے ممکن نہیں ہو پائے گا بلکہ عملی ادراک کے بغیر چارہ نہیں ۔ حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت آ چکا۔ بانگ سحر والے مرغ ناپید ہو چکے ۔ شیور مرغوں کی البتہ بہتات ہے ۔