جمعرات، 4 ستمبر، 2025

ایدھی اور مدر ٹریسا: لاحاصل بحثوں کا زہر




ایدھی اور مدر ٹریسا: لاحاصل بحثوں کا زہر

کچھ روز پہلے ایک عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین سے سوال پوچھا گیا:
“کیا مدر ٹریسا جنت میں جائے گی؟”

سوال سننے میں سادہ ہے مگر دراصل یہ ایک ایسی لاحاصل بحث ہے جو ہمیں اصل مقصد سے بھٹکا دیتی ہے۔ جنت اور دوزخ کا فیصلہ انسانوں کے ہاتھ میں نہیں۔ یہ صرف ربِ کائنات کا اختیار ہے۔ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے اعمال کے ساتھ کہاں کھڑے ہیں؟
بغداد کی الم ناک یاد

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب بغداد پر تاتاری لشکر حملہ آور تھے، اس وقت شہر کے بڑے بڑے علماء اس بات پر مناظرے کر رہے تھے کہ کوے کا گوشت حلال ہے یا حرام۔ دشمن شہر کے دروازوں پر دستک دے رہا تھا، مگر اہلِ علم لاحاصل بحثوں میں الجھے رہے۔ انجام یہ نکلا کہ دنیا کی عظیم لائبریریاں راکھ ہو گئیں اور علم و تہذیب کے مینار زمین بوس ہو گئے۔
اسلام آباد کا المیہ

صدیوں بعد آج ہم بھی ویسی ہی اندھی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ کبھی گدھے کے گوشت کے حلال و حرام پر مناظرے ہوتے ہیں، اور کبھی مدر ٹریسا یا عبدالستار ایدھی کے جنتی یا دوزخی ہونے پر۔ یہ بحث بغداد کے علماء سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ وہاں بات ایک پرندے تک محدود تھی، یہاں ہم مرے ہوئے انسانوں کے انجام پر فیصلہ صادر کر رہے ہیں۔
اندر کے دشمن

ہم نے اپنی ہی تاریخ کے ہیروز کو گروہوں میں بانٹ لیا ہے۔ کوئی ایک ہستی کو اپنا پرچم بناتا ہے، تو کوئی دوسری کو اپنا ہتھیار۔ یوں تاریخ سبق کے بجائے ہتھیار میں بدل گئی۔

بغداد کا دشمن باہر سے آیا تھا، ہمارا دشمن ہمارے اندر ہے۔ یہ دشمن ہمیں مذہب کے نام پر بانٹتا ہے، سیاست کے نام پر لڑاتا ہے، تاریخ کے نام پر گمراہ کرتا ہے اور معیشت کے نام پر تقسیم کرتا ہے۔
اصل پیغام

یاد رکھیں، ہر وہ وعظ، تقریر یا تحریر جو دل میں دوسرے انسان کے لیے نفرت پیدا کرے، وہ گمراہ کن ہے۔ دین کا اصل پیغام محبت، عدل اور ہمدردی ہے۔

مدر ٹریسا اور عبدالستار ایدھی جنت میں جائیں گے یا نہیں، یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اٹل ہے کہ دونوں کی زندگی انسانیت کی خدمت، محبت اور قربانی کی علامت تھی—نفرت اور تقسیم کی نہیں۔
سبق آج کے لیے

انسان نے ابتدا سے محنت، علم اور ہمدردی کے ذریعے ترقی کی ہے۔ تہذیبیں تعمیر اسی وقت ہوتی ہیں جب عقل اور محبت کو رہنما بنایا جائے۔ اور تہذیبیں ٹوٹتی اسی وقت ہیں جب قومیں لاحاصل بحثوں، نفرت اور تفرقے میں کھو جائیں۔

اے انسان! دوسروں کی جنت یا دوزخ پربحث کرنے کے بجائے اپنی جنت کے لیے عمل کر۔
کیونکہ روزِ محشر تیرے ساتھ تیرے اپنے اعمال ہوں گے، نہ مدر ٹریسا، نہ ایدھی، نہ کوئی دوسرا۔

منگل، 26 اگست، 2025

خوابیدہ لوگوں خواب




تاریخ میں کچھ واقعات اور خواب ایسے ہوتے ہیں جو صدیوں تک عوامی شعور میں گردش کرتے رہتے ہیں، اور ان کی تعبیرات وقت کے ساتھ کئی رنگ اختیار کر لیتی ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ "شہنشاہ جارج اور تاج" سے متعلق ہے، جو روحانیت، سیاست، اور استعمار کی تاریخ کے سنگم پر کھڑا ہے۔
یہ واقعہ برصغیر میں برطانوی حکومت کے ابتدائی دور میں مشہور ہوا۔ خواب کے مطابق ایک بزرگ کو روحانی طور پر دکھایا گیا کہ شہنشاہ جارج پنجم 
 جس نے 1911ء میں دہلی دربار میں شرکت کر کے ہندوستان کا باقاعدہ تاج پہنا، اس کے سر سے تاج اتار دیا گیا۔ تاہم، جب وہ بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر ہوا تو وہاں سے حکم ہوا کہ "تاج واپس اس کے سر پر رکھ دو۔" اس خواب کی تعبیر اس طرح کی گئی کہ انگریز راج کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے وقتی طور پر "روحانی اجازت" حاصل ہو چکی ہے۔
یہ خواب سب سے زیادہ حضرت مولانا غلام محمد سیالویؒ (1293ھ/1876ء – 1383ھ/1963ء) سے منسوب کیا جاتا ہے، جو کہ حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑوی (1837–1937ء) کے ہم عصر بزرگ تھے۔ بعض روایتوں میں اس خواب کو سید احمد شہید بریلویؒ یا دیگر اولیاء کے حوالے سے بھی نقل کیا گیا ہے، مگر مقبولیت اور استناد کے لحاظ سے یہ روایت سب سے زیادہ سیال شریف کے بزرگوں سے منسوب ہو کر سامنے آتی ہے۔
یہ خواب نہ صرف عوامی محافل اور مذہبی بیانیے میں بیان کیا جاتا رہا ہے بلکہ کئی خطباء، صوفی شخصیات، اور غیر رسمی دینی حلقے اس واقعے کو انگریز حکومت کی "روحانی حیثیت" کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے آئے ہیں۔ تاہم، اس روایت کی کوئی متفق علیہ سند یا مضبوط حوالہ روایتی کتبِ سیرت، تاریخ یا تصوف میں دستیاب نہیں۔ معروف محقق مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اس واقعے کو عوامی روایت قرار دیتے ہیں اور اس پر تائید یا تردید سے گریز کرتے ہیں، البتہ اسے کسی شرعی دلیل یا عقیدہ سازی کا ذریعہ نہیں سمجھا جاتا۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ انگریز راج نے برصغیر میں اپنی حکومت کو صرف فوجی قوت سے نہیں، بلکہ مذہبی و روحانی تائید حاصل کر کے بھی مستحکم کیا۔ ایسے خواب اور روایات، جن میں انگریز حکومت کو خدائی تقدیر کا حصہ دکھایا جائے، دراصل نوآبادیاتی ذہنیت کی سادہ لوح عوام پر ایک نفسیاتی برتری قائم کرنے کی کوشش کا حصہ بھی سمجھے جا سکتے ہیں۔
کچھ دانشوروں اور محققین کا ماننا ہے کہ ایسے خوابوں کا فروغ استعمار کے اس بیانیے کا حصہ تھا جس کے تحت وہ خود کو "خیر کا نمائندہ" اور "مہذب حاکم" ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ چنانچہ جہاں ایک طرف انگریزوں نے علما کو دبایا، وہیں کچھ خانقاہی حلقوں کے ذریعے روحانی تائید حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔

پرانا پروپیگنڈہ نئی بوتل







پرانا پروپیگنڈہ نئی بوتل
اگر آپ تیسری دنیا میں آنکھ کھولتے ہیں تو جیسے پیدائش کے ساتھ ہی کانوں میں ایک پیغام ڈال دیا جاتا ہے: “تمہارے ملک کے پاس کچھ نہیں، تمہارے تعلیمی ادارے پسماندہ ہیں، صحت کا نظام ناکام ہے، کھیل کا میدان ہارنے والوں سے بھرا ہوا ہے، اور عملی زندگی میں کامیابی صرف خواب ہے۔” یہ بیانیہ دہائیوں سے تیسری دنیا کی نسلوں کے ذہنوں میں بٹھایا گیا ہے۔
لیکن یہ پوری حقیقت نہیں، بلکہ آدھا سچ ہے۔یہی تیسری دنیا ہے جہاں عبدالسلام جیسے سائنسدان پیدا ہوئے جنہوں نے نوبل انعام حاصل کیا۔ یہیں سے عبد الستار ایدھی جیسا انسان دوست اٹھا جس نے دنیا کو خدمتِ خلق کا نیا معیار دیا۔ یہیں سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نکلے جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔
کھیلوں کی دنیا میں دیکھیں تو پاکستان نے ہاکی کے میدان میں عالمی چیمپئن شپ جیتی، جہانگیر خان اور جان شیر خان نے دنیا بھر کو اسکواش میں پیچھے چھوڑا۔ کرکٹ میں عمران خان کی قیادت میں ورلڈ کپ جیتا۔ آج بھی بابر اعظم اپنی بیٹنگ سے دنیا کو حیران کر رہا ہے اور ارشد ندیم جیسا ایتھلیٹ اولمپکس تک پاکستان کا نام روشن کر رہا ہے۔ بھارت سے سچن ٹنڈولکر اور افغانستان سے راشد خان جیسے کھلاڑی اسی خطے کی محنت اور قابلیت کی علامت ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں ملالہ یوسفزئی نے امن کا نوبل انعام حاصل کرکے دنیا کو دکھایا کہ مشکلات کے باوجود علم کی شمع بجھائی نہیں جا سکتی۔ مریم محمّد جیسے پاکستانی نوجوان سائنسدان ناسا کے پروجیکٹس میں کام کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں بھارتی نژاد ستیہ نڈیلا اور سندر پچائی دنیا کی بڑی کمپنیوں مائیکروسافٹ اور گوگل کے سربراہ ہیں۔
اس سب کے باوجود، میڈیا اور تعلیمی نصاب میں ناکامیوں کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔ ایک کرپٹ سیاستدان کی کہانی تو دن رات سنائی جاتی ہے لیکن وہ استاد، سائنسدان، کھلاڑی یا محقق جو دنیا میں پہچان بنا رہے ہیں، ان پر کتابیں کم لکھی جاتی ہیں اور میڈیا پر وہ ہیرو کم ہی تسلیم کیے جاتے ہیں۔
یہی اصل پروپیگنڈہ ہے: کامیابیوں کو دبانا اور ناکامیوں کو بڑھا کر پیش کرنا۔ نئی نسل کو بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک ہاری ہوئی ٹیم کا حصہ ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے دنیا بھر میں کامیابی کے پرچم لہرائے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی کامیابیوں کو اپنی شناخت بنائیں۔ نصاب، میڈیا اور گفتگو میں اپنی کامیاب مثالیں پیش کریں تاکہ نوجوان نسل یہ سمجھے کہ وہ ہارنے والوں کے وارث نہیں بلکہ کامیابی کی روایت رکھنے والوں کے جانشین ہیں۔
کیونکہ میدان زیست میں کامیابی محنت اور جذبے سے جیتی جاتی ہے، نہ کہ اسکور بورڈ پر پہلے سے درج اعداد و شمار سے۔

بدھ، 20 اگست، 2025

عمل کے کرشمے



عمل  کے کرشمے


معاشرے میں خاندانی زندگی ہمیشہ سکون، محبت اور اعتماد کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ لیکن آج یہ زندگی اتنی آسان اور سادہ نہیں رہی۔ جدید دور کی دوڑ میں جہاں سہولتیں بڑھ رہی ہیں، وہیں شک، وہم اور بے اعتمادی نے خاندان کے اندر اعتماد کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کئی گھروں کی خوشیاں ایک لمحے کے وہم یا ایک غلط فیصلے کی نذر ہو جاتی ہیں۔

ہمارے محلے میں کچھ عرصہ پہلے ایک ایسی کہانی نے جنم لیا جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔ ایک شادی شدہ جوڑا، جن میں مرد کی عمر تقریباً 55  برس کے قریب تھی، اپنے بڑے مکان میں رہتا تھا۔ گھر میں دو کتے، کچھ بلیاں اور پرندے تھے۔ ایک دن بیوی نے شوہر سے کہا کہ کیوں نہ ہم کوئی بچہ گود لے لیں۔ چند ماہ بعد یہ خواہش حقیقت بنی اور ان کے گھر ایک بچہ آ گیا۔

بچے نے ان کی زندگیوں میں خوشیوں کی بہار بھر دی۔ کتے اور بلیاں گھر سے نکل گئے۔ ماں باپ کی محبت کا مرکز یہ بچہ بن گیا۔ وقت گزرتا گیا اور یہ بچہ محلے کا ایک صاف ستھرا، ذہین اور باادب نوجوان بن کر ابھرا۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ لے پالک ہے، لیکن اس حقیقت نے اس کے وقار اور کردار کو کم نہیں کیا۔
میٹرک پاس کرنے پر اس  گھر میں جشن منایا گیا، مگر اسی دوران اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ مرنے سے پہلے اس نے سب کے سامنے بیٹے کو نصیحت کی
"بیٹا! تعلیم جاری رکھنا اور میرے خوابوں کو پورا کرنا۔"
لڑکے نے یہ وصیت اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اس نے ماسٹرز، پھر ایم فل اور بالآخر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ اسی دوران والد اس کی منگنی کر چکا تھا۔ شادی کے بعد بیوی ایک مقامی اسکول میں پڑھانے لگی اور شوہر کو یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی نوکری مل گئی۔ باپ اپنے انتقال سے پہلے اپنا مکان اور جائیداد اسی بیٹے کے نام کر گیا۔
 اس نے اپنے باپ کا مکان ایک ریسٹ ہاؤس میں بدل دیا جہاں یتیم اور بے سہارا بچے رہنے لگے۔ آج اس گھر میں 14 بچے ہیں جنہیں وہ اور اس کی بیوی روزانہ وقت دیتے ہیں۔ جیسے کبھی اس کے والدین نے اسے اپنی گود میں پروان چڑھایا تھا، ویسے ہی اب وہ ان بچوں کو سنبھال رہا ہے۔
یہ ایک سوچ ہے — وہ سوچ جو فرد، خاندان اور معاشرے کو سکون اور آسودگی دیتی ہے۔
اب ذرا دوسری طرف دیکھئے۔ ایک اور گھر کی کہانی ہے۔ ایک عورت اور اس کا شوہر، جنہوں نے 
IVF
 کے ذریعے والدین بننے کا فیصلہ کیا۔ عورت چاہتی تھی کہ گھر اعتماد اور محبت پر بسے لیکن شوہر کے دل میں وہم نے جگہ بنا لی۔ اس نے چھپ کر بچوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کروا لیا کیونکہ اسے لگا بچے اس پر نہیں گئے۔ بیوی جانتی تھی کہ اگر نتیجہ منفی آیا تو گھر ٹوٹ سکتا ہے، دادا دادی کا پیار ختم ہو سکتا ہے اور بچے ساری زندگی کے لیے زخم کھا لیں گے۔
یہ ہے شک اور بدگمانی کا انجام، جو خاندان کی بنیادیں ہلا دیتا ہے۔ قرآنِ مجید میں صاف حکم ہے:
(اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔)
[سورۃ الحجرات: 12]
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔) [صحیح بخاری و مسلم]
یہ دونوں واقعات ہمیں آئینہ دکھاتے ہیں۔ ایک طرف ایثار اور اعتماد ہے، جو ایک یتیم بچے کو خاندان، عزت اور معاشرے کے لیے روشنی بنا دیتا ہے۔ دوسری طرف شک اور بدگمانی ہے، جو خوشیوں بھرے گھر کو لمحوں میں اجاڑ سکتی ہے۔
ہمیں یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ ہم کون سا راستہ اپنائیں گے۔ وہ راستہ جو محبت، اعتماد اور قربانی پر مبنی ہے یا وہ جس میں شک، وہم اور خود کو ہمیشہ درست سمجھنے کا زعم چھپا ہے۔