جمعرات، 5 جون، 2025

ٹھاکر اورٹھوکر میں فرق




ٹھاکر اور ٹھوکر میں فرق
کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کے نوجوانوں کی محنت، جذبے اور دیانت پر ہوتا ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں نوجوانوں میں کام چوری، سستی اور بیزاری کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ روش نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے بلکہ ہماری قومی ترقی کے خواب کو بھی چکنا چور کر رہی ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوموں کی عروج و زوال کی کہانی نوجوانوں کی کارکردگی سے جڑی ہوتی ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں نوجوان علم، محنت اور جہاد میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے دنیا کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنایا۔ برعکس اس کے، جب مسلمانوں کے نوجوان عیش و عشرت اور کاہلی کا شکار ہوئے تو زوال نے انہیں آ لیا۔
مذہبی تعلیمات بھی کام چوری کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ قرآن مجید میں واضح ارشاد ہے:
"اور یہ کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔"
(النجم، 39)
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
"جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتا ہے، وہ اللہ کا محبوب بندہ ہے۔"
(مسند احمد)
اسلامی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ محنت عین عبادت ہے اور سستی گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔
دانشوروں کے اقوال بھی ہمیں یہی درس دیتے ہیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں:
"جب تک انسان عمل میں مصروف ہے، شیطان اس پر قابو نہیں پا سکتا۔"
علامہ اقبال نوجوانوں سے امید لگاتے ہوئے کہتے ہیں:
"محنت کشوں کا جہاں اور ہے، خواب دیکھنے والوں کا جہاں اور ہے۔"
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان اپنے اندر محنت اور جفاکشی کا جذبہ پیدا کریں۔ کام چوری سے توبہ کریں اور خود کو علم، فن اور عمل کے میدانوں میں ثابت کریں۔ کیونکہ وقت اور محنت وہ خزانے ہیں جنہیں ضائع کرنا، اپنے مستقبل کو دفنانے کے مترادف ہے۔
یاد رکھیں:
“محنتی ہاتھ کبھی خالی نہیں رہتے اور سست لوگ کبھی اونچا مقام حاصل نہیں کرتے۔”
اگر آج ہم نے نوجوانوں میں کام کی عظمت کا شعور بیدار نہ کیا تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔

باریک واردات

باریک واردات

سوشل میڈیا، جہاں ایک طرف عوامی شعور بیدار کرنے کا ذریعہ ہے، وہیں دوسری طرف اب یہ غلط اطلاعات اور جھوٹی خبروں کا سب سے بڑا اڈہ بن چکا ہے۔ آج کل ایک خاص طرز کی وارداتیں انھی پلیٹ فارمز پر نظر آ رہی ہیں جنہیں اگر بغور نہ دیکھا جائے تو وہ قوم کے جذبات کو توڑنے، اداروں کے اعتماد کو مجروح کرنے اور معاشرے میں فرقہ واریت پھیلانے کا سبب بن سکتی ہیں۔

چند دن قبل ایک ایسی ہی خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان ایئر فورس کے ایک پائلٹ کو امریکہ میں کسی تقریب کے دوران تمغے سے نوازا گیا ہے۔ خبر میں نہ کوئی تصدیق تھی، نہ حوالہ۔ مگر سوشل میڈیا کے "رضاکاروں" نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا، تصاویر شیئر ہوئیں، مبارک بادیں دی گئیں، اور قوم جذباتی فضا میں بہک گئی۔

اس پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور باخبر محترم جناب افضل چوہان نے، جو مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور سوشل میڈیا کی باریکیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، ایک ہوش رُبا ویڈیو پیغام جاری کیا۔ ان کے مطابق نہ تو پاکستان ایئر فورس نے اس خبر کی تصدیق کی ہے، نہ حکومت نے۔ بلکہ ایئر فورس نے اپنے متحرک پائلٹوں کی باقاعدہ تصاویر جاری کیں جن میں وہ "نامزد" پائلٹ شامل ہی نہیں تھے۔

جناب افضل چوہان نے نشان دہی کی کہ یہ عمل دراصل ایک خاص ذہنیت کی جانب سے پھیلایا گیا بیانیہ ہے۔ امریکہ میں ایک مخصوص کمیونٹی کے لیے تمغہ دینے کی بات کو جان بوجھ کر وائرل کیا گیا تاکہ پاکستانی اداروں میں تفریق اور عوام میں تاثر سازی کا کھیل کھیلا جا سکے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ واردات صرف اسی واقعے تک محدود نہیں۔ سرگودھا، جو اپنے مالٹوں اور پاک فضائیہ کے اہم بیس کی وجہ سے معروف ہے، وہاں حال ہی میں ایک قتل کا واقعہ پیش آیا۔ تحقیقات کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا، ایف آئی آر بھی درج نہیں ہوئی تھی، مگر سوشل میڈیا پر فوراً اسے ایک مذہبی اقلیت سے جوڑ دیا گیا۔ مقصد؟ وہی — جذبات بھڑکانا، تعصب پیدا کرنا، اور قومی وحدت کو ٹھیس پہنچانا۔

یہی واردات بھارت پلوامہ واقعے میں کر چکا ہے۔ تحقیق سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر "رضاکاروں" نے ایک مخصوص بیانیہ اتارا اور بھارت میں جنگی جنون پھیلایا، نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت نے بغیر سوچے سمجھے پاکستان پر چڑھائی کر دی — اور بعد ازاں دنیا کے سامنے شرمندگی اٹھائی۔

آج پاکستان ایک بار پھر نشانے پر ہے۔ 10 مئی کو پاکستان نے عالمی سطح پر جو سفارتی، اخلاقی اور عسکری کامیابیاں حاصل کیں، انہیں ماند کرنے کے لیے یہ باریک وارداتیں ڈالی جا رہی ہیں۔ مخصوص ذہن رکھنے والے گروہ نہ صرف متحرک ہیں بلکہ سوشل میڈیا پر اپنا اثر بھی جما چکے ہیں۔

ایسے میں سوال یہ نہیں کہ یہ وارداتیں کون کر رہا ہے، اصل سوال یہ ہے کہ ہم ان کا شکار کیوں بنتے ہیں؟

کیا ہماری ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم ہر خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کریں؟ کیا ہمیں سیکھ لینا نہیں چاہیے کہ جذباتی ردعمل، بغیر تحقیق کے، ہمیں غیر ارادی طور پر دشمن کے بیانیے کا حصہ بنا دیتا ہے؟

یہ وقت ہے کہ ہم بطور قوم بالغ نظری کا مظاہرہ کریں۔ اداروں کو کمزور کرنے والی باتوں کا حصہ نہ بنیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ:

فارورڈ کرنے سے پہلے سوچیں

اگر ہم نے اس روش کو نہ بدلا تو کل یہی فیک نیوز، یہی افواہیں، ہمارے امن، ہماری یکجہتی اور ہمارے قومی وقار کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گی۔


Open Letter



 Why Pakistan Must Appoint Permanent Peace Envoys and Build a Diplomatic Front Against State Terrorism

By: Dilpazir Janjua

Pakistan has long stood on the frontlines of the global war on terror—sacrificing tens of thousands of lives in its struggle to root out extremist violence. Soldiers, schoolchildren, journalists, religious scholars, and ordinary citizens have all suffered in this battle. Yet despite these sacrifices, Pakistan remains under scrutiny, while states like India—actively involved in funding and facilitating terrorism—continue to enjoy diplomatic immunity and soft global narratives.

Now is the time for Pakistan to step out of the shadows of reactionary diplomacy and adopt a proactive, institutional, and strategic foreign policy stance that places peace, truth, and justice at its center.

Establishing a Permanent Counter-Terror and Peace Diplomacy Desk

To combat both the perception and reality of asymmetric warfare waged by hostile neighbors, Pakistan's Ministry of Foreign Affairs must establish a Permanent Desk for Counter-Terrorism and Peace Diplomacy. This desk, led by a senior diplomat or ambassador with deep international experience, must focus on:

  • Documenting the human toll of terrorism within Pakistan

  • Investigating and showcasing India’s state-sponsored terrorism through RAW and other proxies

  • Giving a global platform to victims and survivors of terrorism

  • Engaging the Pakistani diaspora and civil society in peace representation

  • Appointing and training Permanent Peace Envoys who can represent Pakistan at global forums, summits, and academic institutions

This initiative must be deeply rooted in the stories of those who’ve lived the pain of terrorism—not just officials and bureaucrats, but real victims, survivors, and their families.

India: A Rising Hub of State-Sponsored Terrorism

The global community must be reminded that India is not just a regional rival — it is fast becoming a nucleus of state-sponsored terrorism. From RAW’s financing of separatist groups in Balochistan to assassination plots in Canada, the UK, and the US, India’s use of covert warfare is no longer a secret.

India labels Kashmiris, Sikhs, and Assamese freedom fighters as "terrorists" while crushing their democratic rights. These acts mirror its ideological alignment with Israel’s violent suppression of Palestinians in Gaza—another bleeding region under occupation.

Such double standards cannot go unchallenged. Pakistan must lead a campaign of global awareness — not through hostility, but with diplomacy anchored in truth, morality, and the testimonies of victims.

From Tragedy to Diplomacy: The Way Forward

Pakistan needs to transition from reactive condemnation to institutionalized peace diplomacy. Establishing a permanent counter-terrorism desk and empowering peace envoys will allow the country to project its truth and challenge dangerous narratives.

“We do not ask for sympathy.
We demand acknowledgment.
Our martyrs deserve more than silence — they deserve the world’s ear.”

It is time the world sees Pakistan not as a problem but as a witness, a victim, and a voice for peace.

Include Voices of Individual effecties of Terrorism.

Pakistan must appoint individuals of international credibility, moral authority, and personal sacrifice. Suggested peace envoys include:

 Malala Yousafzai

Nobel Peace Prize laureate and survivor of a Taliban assassination attempt, Malala is a global voice for education, peace, and women’s rights. More than 2 million copies of her Book have been sold.She can be the voice against terrorism in EU and USA

 Bilawal Bhutto Zardari

As the son of martyred Prime Minister Benazir Bhutto, and a foreign policy leader himself, Bilawal embodies the cost of political terror and the potential for diplomatic reform.

 Hamid Mir

A renowned journalist and frequent target of extremist violence, Mir brings global credibility and firsthand experience of the threats journalists face in Kahmir..

 Shahnaz Anwar

Mother of a child martyred in the APS Peshawar attack, Shahnaz's grief turned into advocacy. She symbolizes the voice of every mother in Pakistan who has lost a child to terror .

 Mujahid Ali Bangash

Father of Aitzaz Hassan—the brave student who gave his life to stop a suicide bomber. His son’s legacy is a story the world needs to hear.

 Family of Shahbaz Bhatti

He stood for tolerance and religious freedom. His family continue his mission and deserve global platforms for peace advocacy.

These individuals not only embody Pakistan’s sacrifice but also provide a human face to the country’s long battle against terrorism.



انڈس واٹرز ٹریٹی کا دوطرفہ معاہدہ بننا: بھارت کے لیے ایک قدم آگے؟

 



 انڈس واٹرز 

ٹریٹی 

بین الاقوامی معائدہ سے دو طرفہ  

انڈس واٹرز ٹریٹی، جو 1960 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا، برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم دستاویز ہے۔ یہ معاہدہ نہ صرف پانی کے منصفانہ تقسیم کا ضامن ہے بلکہ خطے کی سیاسی کشیدگی میں بھی ایک نہ ختم ہونے والا موضوع رہا ہے۔ آج بھارت کی جانب سے اس معاہدے کو ایک بین الاقوامی دستاویز سے ہٹا کر دوطرفہ سمجھوتے میں تبدیل کرنے کی خواہش سامنے آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کو اس تبدیلی سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟

سب سے پہلے بات کریں تو، بھارت کو اس تبدیلی سے اپنی پانی کی پالیسیوں پر زیادہ خودمختاری حاصل ہو گی۔ فی الوقت، انڈس واٹرز ٹریٹی کے تحت عالمی بینک اور دیگر ثالث فریق پانی کے منصوبوں پر نظر رکھتے ہیں، جس سے بھارت کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو اس بوجھ سے آزاد کرے گا اور وہ اپنی زمینی حدود میں پانی کے وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکے گا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بھارت کو پانی کے منصوبوں کی منظوری اور عملدرآمد میں تاخیر کا سامنا کم ہوگا۔ بین الاقوامی ثالثی کے بغیر بھارت تیزی سے فیصلہ سازی کر سکے گا، جو کہ زرعی، صنعتی اور توانائی کے شعبوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔ خاص طور پر، بھارت ہائیڈرو الیکٹرک پاور پروجیکٹس اور نئے ڈیم بنانے میں زیادہ آزاد ہو گا، جس سے توانائی کی پیداوار میں اضافہ متوقع ہے۔

اسی کے ساتھ، بھارت کی سلامتی کے حوالے سے خدشات بھی اس اقدام کے پیچھے کارفرما ہیں۔ پاکستان کے ساتھ دیرینہ کشیدگی اور دہشت گردی کے الزامات نے بھارت کو محتاط بنا دیا ہے کہ وہ پانی جیسے حساس موضوع پر عالمی ثالثوں کے ذریعے مذاکرات کرے۔ دوطرفہ معاہدہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ براہِ راست اور مضبوط مذاکرات کا موقع دے گا اور اسے اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے زیادہ اختیار دے گا۔

آخر میں، یہ تبدیلی بھارت کو خطے میں اپنی سفارتی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع بھی دے سکتی ہے۔ عالمی ثالثوں کے بغیر بات چیت کا مطلب ہے کہ بھارت اپنے مفادات کو بہتر طریقے سے منوا سکے گا اور پاکستان پر دباؤ بڑھا سکے گا۔

یقیناً، اس تبدیلی کے اپنے خطرات بھی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے شدید ردعمل اور خطے میں پانی کی تقسیم کے مسئلے پر کشیدگی بڑھنے کا خدشہ موجود ہے۔ مگر بھارت کے لیے یہ قدم اپنی پانی کی خودمختاری اور قومی سلامتی کو مقدم رکھنے کی واضح ترجیح ہے۔

لہٰذا، انڈس واٹرز ٹریٹی کو دوطرفہ معاہدے میں تبدیل کرنا بھارت کے لیے ایک ایسا سیاسی اور اقتصادی حربہ ہو سکتا ہے جو اسے مستقبل کے پانی کے انتظام اور علاقائی سیاست میں ایک مضبوط پوزیشن دلائے۔

دوسری بار




دوسری بار

 10 

مئی 

2025

 کا دن تاریخ کے اوراق میں سنہری الفاظ میں درج ہو چکا ہے۔ سیالکوٹ اور کشمیر کے محاذ پر جب بھارت نے ایک بار پھر بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم پاکستانی بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا، تو پاکستانی قوم نے جو ردِ عمل دیا، وہ کسی فوجی حکمتِ عملی سے بڑھ کر تھا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قوم اور فوج ایک ہو گئے — اور تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ عوام نے مسلح افواج کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کیا ہو۔ جدید دنیا کی تاریخ میں ایے واقعات شاز ہی مگر جنم لیتے رہے ہین جب عوام نے صرف نعرے نہیں لگائے، بلکہ ہتھیار اٹھا کر افواج کا بازو بنے۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تو فتح صرف وقت کی بات بن جاتی ہے۔

1775

 سے 1783 تک امریکہ کی جنگِ آزادی ہو، یا دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی مزاحمتی تحریک، وارسا کی بغاوت ہو یا ویتنام کی گوریلا جنگ، اسٹالن گراڈ کی خونریز لڑائی ہو یا 1965 میں لاہور کی سڑکوں پر عوام کا جذبہ — ان سب میں ایک قدر مشترک تھی: قوم نے اپنی افواج کو تنہا نہیں چھوڑا۔

1965 

کی جنگ میں لاہور اور سیالکوٹ کے شہریوں نے جو جذبہ دکھایا تھا، وہی جذبہ اب ایک نئی نسل نے 10 مئی 2025 کو دہرا دیا۔ جب بھارتی میزائل شہری آبادی پر گرے، تو ردعمل میں صرف فوجی توپیں نہیں بولیں، عام نوجوان بھی توپوں میں گولے بھرنے لگے، خواتین نے کھانا پکا کر فوجیوں کو پیش کیے، اور شہریوں نے اپنی نقل و حمل کے ذرائع فوج کے سپرد کیے۔ یہ وہی جذبہ تھا جو قوموں کو ناقابلِ تسخیر بناتا ہے۔

دنیا کی تاریخ میں یہ ساتواں بڑا واقعہ ہے جب عوام نے براہِ راست عسکری میدان میں قدم رکھا۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے — اور اس بار جس طرح کی یکجہتی اور قومی غیرت کا مظاہرہ ہوا، اُس نے دشمن کو نہ صرف پسپا کیا بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ قوم پاکستان کے دفاؑع کے لیے متحد ہے۔

ہمیں اس اتحاد کو لمحاتی جوش کی بجائے مستقل قومی پالیسی بنانا ہوگا۔ عوام اور افواج کا یہ رشتہ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہ رہے، بلکہ ہر میدان میں ایسا ہی ساتھ ہو۔ دفاع ہو یا معیشت، تعلیم ہو یا ٹیکنالوجی، ہم سب ایک قوم بن کر ہی آگے بڑھ سکتے ہیں۔

تاریخ کی گواہی ہے کہ جب عوام اور فوج ایک ہو جاتے ہیں، تو دشمن کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔