منگل، 3 جون، 2025

زخمی سانپ



زخمی سانپ

بلوچستان کے علاقے خضدار میں حالیہ دہشت گرد حملہ، جس میں بھارتی ساختہ ڈرون اور فوجی بارود استعمال ہوا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت نہ صرف پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہا ہے بلکہ فوراً بعد میڈیا پر الزام تراشی کے ذریعے بیانیے کی جنگ بھی چھیڑ دیتا ہے۔ حملے کے صرف 13 منٹ بعد بھارتی نیوز چینلز نے دھمکی آمیز زبان میں کہنا شروع کر دیا: "اب بھارت پاکستان کو سبق سکھائے گا!" سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کا نشانہ پاکستان بنا، مگر دھمکیاں بھارت دے رہا ہے؟

یہ پہلا موقع نہیں۔ بھارتی ایجنسی RAW کی پراکسی تنظیمیں — بلوچ لبریشن آرمی (BLA) اور تحریک طالبان پاکستان (TTP) — عرصہ دراز سے پاکستان کے اندر بدامنی پھیلا رہی ہیں۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اعترافی بیان بھارتی مداخلت کا زندہ ثبوت ہے، جسے پاکستان نے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا۔ پھر بھی عالمی برادری کی معنی خیز خاموشی اس خطے کے لیے مزید خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔

تاریخی پس منظر یہ بتاتا ہے کہ بھارت نے 1971 میں مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لیے بھی ایسی ہی چالیں چلیں۔ آج بھی وہی پالیسی بلوچستان، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے خلاف بروئے کار لائی جا رہی ہے۔

ایسے میں اس خطے کے سپیرے ایک اہم بات کرتے ہیں:

"زخمی سانپ کا سر کچلنا لازمی ہوتا ہے۔"

بھارت جس طرح حملے کر کے الزام تراشی کرتا ہے، وہ ایک زخمی سانپ کی مانند ہے جو اب بھی زہر اگلنے پر تُلا ہوا ہے۔ ایک برطانوی جریدے نے حال ہی میں لکھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔ مگر اس بار اگر جنگ ہوئی، تو پاکستان زخمی سانپ کا سر کچلنے سے گریز نہیں کرے گا۔

پاکستان نے ہمیشہ امن کی بات کی، مذاکرات کی بات کی، عالمی قوانین کا احترام کیا۔ لیکن جب خضدار جیسا حملہ ہو، جب اسکولوں پر حملے ہوں، جب معصوم شہری شہید ہوں — تو خاموشی خود ایک جرم بن جاتی ہے۔

اب وقت ہے کہ پاکستان صرف دفاعی پوزیشن نہ اپنائے بلکہ سفارتی، عسکری اور اطلاعاتی محاذ پر بھارت کی دہشت گردی کو عالمی سطح پر پوری قوت سے بے نقاب کرے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی، انسانی حقوق کی تنظیمیں — سب کو اب بتانا ہوگا کہ جنوبی ایشیا میں بدامنی کا اصل محرک کون ہے۔

کیا بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ بار بار زخم دے گا، اور پاکستان صرف مرہم لگاتا رہے گا؟ نہیں! اب پاکستان کے بیانیے میں بھی وہی کاٹ ہوگی جو تلوار میں ہوتی ہے۔ کیونکہ زخمی سانپ کو چھوڑنا صرف ایک نئی زہریلی نسل کو جنم دینے کے مترادف ہوتا ہے۔

"یہ بیانیے کی جنگ ہے، جہاں خاموشی شکست ہے اور سچائی ہتھیار۔ اب اگر جنگ ہوئی، تو انصاف صرف میز پر نہیں، میدان میں بھی نظر آئے گا۔"


ایک تھا فیلڈ مارشل

 



کہانی شروع ہوتی ہے 1971 میں، جب جناب نے "جمہوریت کی چھٹی" کروا کر یوگنڈا پر مارشل لاء کا نفاذ کیا۔ مگر اس سے اگلے دن ہی انہیں خیال آیا کہ اب جب وہ سب کچھ خود ہی ہیں، تو خود کو ترقی دینا بھی خود پر فرض ہے۔

سب سے پہلے خود کو صدر بنایا۔ پھر سوچا، "فوجی ہوں، تو آرمی چیف بھی میں ہی ہونا چاہیے۔" پھر کمانڈر ان چیف، پھر چیف آف اسٹاف، پھر فیلڈ مارشل۔ اور آخر میں جب کوئی عہدہ باقی نہ بچا، تو انہوں نے خود ہی نیا بنا لیا:
"Lord of All the Beasts of the Earth and Fishes of the Seas"
(زمین کے تمام جانوروں اور سمندر کی تمام مچھلیوں کا مالک!)

پھر ایک دن جناب کو لگا کہ صرف فوجی عہدے کم ہیں۔ تو لگا دی فہرستِ القابات کی لمبی لائن:

"His Excellency, President for Life, Field Marshal Al Hadji Doctor Idi Amin Dada, VC, DSO, MC, Lord of All the Beasts of the Earth and Fishes of the Seas, and Conqueror of the British Empire in Africa in General and Uganda in Particular."

قارئین! اگر آپ کو یہ سب یاد کرنے میں دشواری ہو رہی ہے، تو فکر نہ کریں۔ یوگنڈا کے وزیرِ اطلاعات نے بتایا تھا کہ ہر تقریر سے پہلے ان القابات کو پڑھنے میں 5 منٹ لگتے تھے، اور تقریر کا اصل وقت 2 منٹ ہوتا تھا!

وی سی، ڈی ایس او، ایم سی بھی شامل کیے گئے — کسی نے پوچھا کہ یہ تمغے کب ملے؟ جواب آیا: "ملے نہیں، لیے۔"

اور “فاتحِ برطانیہ” کا لقب؟ بھئی صرف اس لیے کہ وہ برطانیہ میں ایک بار باکسنگ میچ جیت چکے تھے، 

کالم نگار کی رائے میں اگر عیدی امین مزید زندہ رہتے، تو ہو سکتا ہے اگلا لقب ہوتا:
"Intergalactic Supreme Commander of Mars and Jupiter's Moon!"

کہتے ہیں یوگنڈا کے بچے الف بے سے پہلے “ع” برائے عیدی، “ق” برائے "قابضِ حکومت"، اور “م” برائے "مالکِ مچھلیاں" پڑھتے تھے۔

آخر میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ جناب عیدی امین تاریخ میں وہ نایاب شخصیت تھے، جنہوں نے آمرانہ 

حکومت کو ایک سرکس میں تبدیل کر دیا — اور خود ہی رِنگ ماسٹر بن بیٹھے!

اس کے اپوزیشن رہنما سے کسی نے پوچھا تھا 

صبح نو ہے منتظر



"جھو   ٹ جو کل تک فخر سے چلتا تھا، اب سچ کے سامنے سر جھکانے لگا ہے — اور یہی آغاز ہے اصل آزادی کا۔"

بعض اوقات قومیں اندھیرے میں اتنا وقت گزار دیتی ہیں کہ روشنی کا تصور بھی خواب سا لگنے لگتا ہے۔ ہرسمت مایوسی، ہر طرف شور، اور ہر چہرے پر ایک سا سوال ہوا کرتا تھا 
ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب لفظ بکنے لگے تھے، جب سچ کا گلا گھونٹ دیا جاتا تھا، جب کردار کمزور اور نعرے طاقتور ہو چکے تھے۔ جب ہر طرف جھوٹ کا بازار گرم تھا، اور وہ لوگ جو سچ بولتے تھے، تنہائی کے اندھیروں میں دھکیل دیے جاتے تھے۔

یہ وہ دور تھا جب ریاست اپنی ذمہ داریوں سے غافل تھی، بقول ابن خلدون قوم خواب بیچنے والوں کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔
زائچے تقدیر لکھ رہے تھے، درباری فقیہہ فتوے بیچ رہے تھے، اور شاعری طنز و تحقیر کی زبان بن چکی تھی۔
جب علم پسپا ہو گیا اور فنونِ لطیفہ کا حسن، بازاری پن میں گم ہو چکا تھا۔

مگر… ہر اندھیری رات کا ایک سحر ہوتا ہے۔

ریاست نے اپنے زخم چھپانے کی بجائے زخموں کی مرہم پٹی کر رہی ہے ۔ جھوٹے خواب فروش، نجومی، جھوٹی پیشن گوئیوں میں الجھانے والےاور قصیدہ گو کم ہوتے جا رہے ہیں۔

آئینہ وہ آلہ ہے جو چہرے پر جمی گرد کا صاف دکھا دیتا ہے

ریاست نے اب آئینہ دیکھ لیا ہے۔
 اس نے تسلیم کر لیا ہے کہ  دشمن کے خنجر تیز ہینجبکہ ، ہماری صفوں میں انتشار ہے۔ عوام نے حیرت سے محسوس کیا ہے کہ وہ ریاست جو تنقید کا نشاہ بنی ہوئی تھی جو سو رہی تھی نہ غافل تھی ۔ اس ادراک نے پاکستان  کے نوجوانوں میں وہ احساس زندہ کر دیا ہے 
جو مٹی میں دفن ہو چکا محسوس ہوتا تھا مگر اس  کی خوشبو اب پھر سے محسوس ہونے لگی ہے۔
جھوٹ جو کل تک سینہ تان کر چلتا تھا، اب نظریں چرا رہا ہے۔
علم پھر سے بولنے لگا ہے، اور وہ صدا جو کبھی دب گئی تھی، اب ہوا میں گونجنے لگی ہے۔

یہ وہ لمحہ ہے جہاں ایک نئی صبح جنم لیتی ہے۔
یہ وہ موڑ ہے جہاں تاریخ نئے رخ پر مڑتی ہے۔
اور یہ وہ مرحلہ ہے جب قومیں فیصلہ کرتی ہیں — صرف زندہ رہنا ہے یا جینا ہے، سر اٹھا کر۔

ہمیں مان لینا ہوگا کہ ہم اندھیرے سے گزرے ہیں۔
مگر ہمیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اب ہم اس سے نکل آئے ہیں۔
اب سچ پھر سے معتبر ہو رہا ہے۔
اب درباری کنارے لگائے جا رہے ہیں۔
اب قیادت صرف وعدے نہیں، سمت دکھا رہی ہے۔

یہ وقت ہے دعا کا نہیں، محنت کا۔
یہ وقت ہے گلہ نہیں، عمل کا۔
یہ وقت ہے قوم بننے کا — صرف ہجوم سے آگے بڑھ کر۔

ہماری امید کے چراغ کی لو

شاید دھیمی سی  ہو، مگر جل رہی ہے۔
اگر ہم سب نے اپنی سانسوں سے اسے ہوا دی…
تو صبح کی پہلی کرن صرف اُفق پر نہیں، دل میں بھی اترے گی۔


دو ریاستی حل: امن کی راہ یا ایک خواب؟


دو ریاستی حل: امن کی راہ یا ایک خواب؟

ایسا خطہ جہاں دہائیوں سے خونریزی، محاصرے اور وعدہ خلافیاں معمول بن چکی ہیں، وہاں دو ریاستی حل آج بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن کے لیے سب سے موزوں تصور سمجھا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس راہ پر چلنا اب تک ایک مشکل اور کٹھن سفر رہا ہے۔

اس تصور کی بنیاد 1947 میں پڑی، جب اقوام متحدہ نے برطانوی زیرانتظام فلسطین کو دو علیحدہ ریاستوں — ایک یہودی اور ایک عرب — میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ یہودی قیادت نے اسے قبول کرلیا، مگر عرب دنیا نے مسترد کر دیا۔ نتیجہ جنگ، نقل مکانی اور آج تک جاری رہنے والا تنازعہ نکلا۔

تب سے لے کر اب تک، ہر بڑی سفارتی کوشش — جیسے اوسلو معاہدے (1993) اور عرب امن منصوبہ (2002) — اسی خواب کی طرف لوٹتی ہے۔ لیکن یہ خواب ہمیشہ آباد کاری, سیکیورٹی کے خدشات اور قیادت کی ناکامیوں کے سبب حقیقت نہ بن سکا۔

2023 کے غزہ تنازع کے بعد، عالمی سطح پر دو ریاستی حل کے مطالبات میں شدت آئی ہے۔ اس تناظر میں فرانس اور سعودی عرب نے نمایاں سفارتی کردار ادا کیا ہے۔
فرانس کا نیا سفارتی اقدام

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایک بین الاقوامی امن کانفرنس بلانے کی تجویز دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف دو ریاستی حل ہی فلسطینیوں کو انصاف اور اسرائیلیوں کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے۔ فرانس نے غزہ کے لیے امداد میں اضافہ کیا ہے اور اشارہ دیا ہے کہ اگر مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو وہ فلسطین کو باقاعدہ ریاست تسلیم کر سکتا ہے۔
سعودی عرب کا فیصلہ کن مؤقف

سعودی عرب، جو 2002 کے عرب امن منصوبے کا بانی ہے، اس نے حالیہ دنوں میں واضح سفارتی پیغام دیا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بات چیت کے دوران، ولی عہد محمد بن سلمان نے کہا کہ فلسطینی ریاست کے بغیر کوئی سفارتی تعلق ممکن نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنا کر ایک خودمختار فلسطینی ریاست قائم کی جائے۔
طویل مگر ضروری سفر

امن کا نقشہ موجود ہے، مگر راستہ ابھی بھی سیاسی رکاوٹوں سے بھرا ہوا ہے۔ پھر بھی اگر عالمی دباؤ میں اضافہ ہو، اور سعودی عرب و فرانس جیسے ممالک سنجیدہ سفارتی کردار ادا کرتے رہیں، تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دو ریاستی حل ایک خواب سے نکل کر حقیقت بن جائے۔


Kashmir in Crisis: Suppression, Silence, and the Shadow of War

Kashmir in Crisis: Suppression, Silence, and the Shadow of War

In the aftermath of a military setback against Pakistan, Indian forces have intensified their grip on Indian-administered Kashmir, launching what many observers call an undeclared siege. Thousands of Kashmiri youth have been rounded up. Homes have been torched, entire neighborhoods demolished, and disturbing reports suggest that girls and women have been taken to military camps. The valley, once described as the Switzerland of Asia, now resembles a war zone under lockdown.

No journalist is allowed to enter. The internet is a luxury permitted only to a few vetted individuals. What little information escapes the region paints a grim picture of systematic repression.

Then, on April 22, a brutal attack on a tourist site near Pahalgam claimed 26 lives. India immediately pointed fingers at Pakistan, alleging the involvement of a little-known militant group called The Resistance Front (TRF). The group, however, denied any role. The incident triggered another round of accusations and retaliation.

Within weeks, India struck targets across the Pakistani border, killing civilians, including women and children. Pakistan responded swiftly, targeting the military installations from which the initial missiles had been launched. Tensions soared as India deployed dozens of fighter jets, including the much-vaunted French-made Rafales. But in a dramatic counter, Pakistan reportedly shot down five Indian aircraft—three of them Rafales. A ceasefire was hastily negotiated by then-U.S. President Donald Trump at India’s request.

At the core of this bitter and recurring hostility lies Kashmir—a territory whose fate has remained unresolved since 1947.

Back then, the princely state of Jammu and Kashmir was given a choice: accede to India or Pakistan. Despite the region’s Muslim-majority population, its Hindu ruler, Maharaja Hari Singh, aligned with India. The decision, never accepted by  Kashmiris, they fought back and liberated the Area now called Azad Kashmir.

Today, Kashmir is divided. India administers the Kashmir Valley, Jammu, and Ladakh; Pakistan oversees Azad Jammu and Kashmir and Gilgit-Baltistan. China controls Aksai Chin and the Shaksgam Valley. Each stakeholder maintains its grip, but the people of Kashmir continue to suffer the consequences.

In August 2019, India revoked Article 370 and 35A, stripping Kashmir of its special constitutional status. This opened the door for demographic change: over 85,000 domicile certificates have reportedly been granted to non-Kashmiris—mainly retired Indian army personnel and Hindu settlers—stoking fears of engineered demographic shifts.

Elections in 2024 brought Omar Abdullah back into the political spotlight, but his government holds little actual power. Real authority remains with the Indian Army, and the façade of democracy has offered little relief to the people.

Human rights groups have consistently flagged violations in the region. Thousands of young Kashmiris are behind bars. Freedom of speech, religion, and assembly has been suppressed. Dissent is met with detentions; protest is criminalized. Even digital resistance is quashed—over 8,000 social media accounts were blocked in the wake of the Pahalgam attack, many belonging to journalists, activists, and ordinary citizens.

India continues to label Kashmiri resistance as terrorism, but on the ground, the narrative is far more complex. What is framed as national security is, to many Kashmiris, the erasure of their identity and voice.

The media, once a potential ally for truth, is now a tool of statecraft. News portals have been shut down or repurposed to echo the state’s perspective. Journalists who dare to report independently face harassment or arrest.

What happens in Kashmir is not just a regional dispute—it is a human tragedy unfolding in silence.

Until the world chooses to listen—and act—Kashmir will remain caged in conflict, its people paying the price for geopolitical games played far from their homes.