جمعرات، 24 اپریل، 2025
کبوتر
تسلسل /مسلسل
کائنات کے نظام میں تسلسل ایک بنیادی اصول ہے۔ سورج روز طلوع ہوتا ہے، رات ہر دن کے بعد آتی ہے، اور موسموں کی گردش کبھی نہیں رُکتی۔ یہی تسلسل فطرت کا حسن بھی ہے اور طاقت بھی۔ اسی تسلسل کی ایک شاندار مثال ہے: "پانی کا مسلسل بہاؤ سخت چٹان میں سے راستہ بنا لیتا ہے" — یہ صرف ایک قدرتی مشاہدہ نہیں بلکہ انسان کے لیے ایک عظیم درس ہے کہ اگر کوشش لگاتار ہو، تو کامیابی یقینی ہے، چاہے سامنے چٹان جیسی رکاوٹ ہی کیوں نہ ہو۔
تسلسل: کامیابی کی کنجی
پانی میں کوئی ظاہری سختی یا طاقت نہیں ہوتی، لیکن اس میں ایک خوبی ہے — وہ رکتا نہیں۔ نہ تھکتا ہے، نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ نرم ہو کر بھی وہ چٹان کو کاٹ دیتا ہے، لیکن صرف ایک شرط پر: مسلسل بہنے کی شرط پر۔
انسان کی زندگی میں بھی یہی اصول لاگو ہوتا ہے۔ کامیابی اُنہی کے قدم چومتی ہے جو وقتی ناکامیوں سے گھبرا کر رک نہیں جاتے، بلکہ پانی کی طرح بہتے رہتے ہیں، حالات سے الجھتے رہتے ہیں، اور وقت کے ساتھ اپنے لیے نئی راہیں نکال لیتے ہیں۔
قرآن کی روشنی میں: صبر اور تسلسل
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے صبر اور استقامت کو بارہا کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ"(العنکبوت 29:69)اور جو لوگ ہمارے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں، ہم ضرور انہیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں، اور بے شک اللہ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
یہ آیت واضح طور پر بتاتی ہے کہ جدوجہد مسلسل ہو تو رہنمائی بھی آتی ہے اور منزل بھی۔ یعنی وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو ٹھہرے نہیں رہتے، جو مشکلات کے باوجود چلتے رہتے ہیں۔
حضرت موسیٰؑ کا واقعہ بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ جب بنی اسرائیل سمندر کے کنارے بے بس کھڑے تھے، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو حکم دیا کہ لاٹھی سمندر پر مارو۔ اور پھر سمندر چٹان کی مانند دو حصوں میں بٹ گیا:
"فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ"(الشعراء 26:63)تو سمندر پھٹ گیا اور ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہو گیا۔
یہ محض معجزہ نہیں تھا بلکہ صبر، یقین اور تسلسل کے بعد آنے والی فتح کی علامت تھی۔
بائبل کی روشنی میں: نہ رکنے کی تلقین
نیکی کرتے کرتے تھک نہ جاؤ، کیونکہ اگر ہم باز نہ آئیں تو وقت پر ہم اس کا پھل ضرور پائیں گے۔
یہ آیت تسلسل کی روح ہے۔ جب ہم تھکتے نہیں، جب ہم باز نہیں آتے، تبھی ہمیں پھل ملتا ہے۔ حضرت ایوبؑ کی زندگی اسی تسلسل کا نمونہ ہے — بیماری، غم اور تنہائی کے باوجود اُنہوں نے صبر نہیں چھوڑا، اور آخرکار اللہ نے انہیں دُگنا انعام دیا۔
بہتے رہنے والا کبھی ہارتا نہیں
پانی کی طاقت اُس کی روانی میں ہے، اُس کے بہنے میں ہے۔ اگر وہ رُک جائے تو بدبودار ہو جاتا ہے، لیکن اگر وہ بہتا رہے تو زرخیزی، تازگی اور راستہ دونوں لے آتا ہے۔
لہٰذا، کامیابی کا راز طاقت میں نہیں، تسلسل میں ہے۔ یہی قرآن کا درس ہے، یہی بائبل کی ہدایت، اور یہی فطرت کی گواہی۔
بدھ، 23 اپریل، 2025
اللہ آخر چاہتا کیا ہے
پیر، 21 اپریل، 2025
دو نظریے، دو راستے
آج کے فکری، سماجی اور مذہبی انتشار سے بھرپور ماحول میں یہ سوال اکثر ذہن میں گونجتا ہے: کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟ دونوں کی شکلیں بظاہر ایک سی لگتی ہیں، مگر ان کی بنیادیں، نتائج اور اثرات زمین آسمان کا فرق رکھتے ہیں۔ ایک روشنی کی طرف لے جاتا ہے، تو دوسرا اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے۔
یقین کیا ہے؟
یقین سچائی پر مبنی اعتماد ہے۔ یہ تب پیدا ہوتا ہے جب انسان دلیل، مشاہدہ، علم، تجربہ اور شعور کی بنیاد پر کسی بات کو مانتا ہے۔ یقین ایک متحرک عمل ہے؛ یہ جمود نہیں لاتا بلکہ سوچنے، سیکھنے اور بہتر کرنے کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔
تعصب کیا ہے؟
تعصب، یقین کا بگڑا ہوا روپ ہے۔ یہ بغیر تحقیق، دلیل یا کھلے ذہن کے کسی رائے یا عقیدے کو محض جذبات، روایات یا وراثت کی بنیاد پر قبول کرنا ہے۔ تعصب کی جڑیں اکثر خوف، انا، یا شناخت کے عدم تحفظ میں پیوست ہوتی ہیں۔
یقین اور تعصب: معاشرتی اثرات
آج بھی مذہبی انتہا پسندی، نسل پرستی، سیاسی فرقہ واریت — یہ سب تعصب کی ہی شکلیں ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں معلومات کو عام کیا ہے، وہیں تعصبات کو بھی کئی گنا تیز کر دیا ہے۔
یقین: ترقی کی بنیاد
تعصب: خطرناک جمود
تعصب نہ صرف فرد کو بند ذہن کا حامل بناتا ہے، بلکہ پورے معاشرے کو ذہنی غلامی میں جکڑ دیتا ہے۔
کیا ہم یقین پر ہیں یا تعصب پر؟
یہ سوال ہمیں خود سے روز پوچھنا چاہیے:
-
کیا میں دلیل سنتا ہوں؟
-
کیا میں اپنی رائے بدلنے کو تیار ہوں اگر سچ سامنے آئے؟
-
کیا میں اختلاف کو برداشت کرتا ہوں؟
-
کیا میں صرف اس لیے کسی بات کو مانتا ہوں کہ میرے بزرگ یا گروہ نے کہا ہے؟
سایوں کے پیچھے بھاگتی زندگی
ہم میں سے اکثر نے زندگی میں کبھی نہ کبھی کوئی ایسی شے محسوس کی ہے جو وہاں نہیں تھی— کوئی سایہ، کوئی آواز، کوئی ہیولا۔ اور پھر اس "محسوس شدہ حقیقت" کو ہم وہم کا نام دے کر یا تو نظر انداز کر دیتے ہیں، یا پھر اس کے پیچھے ایک پوری کہانی بُن لیتے ہیں۔
وہم صرف ایک تصور نہیں، ایک کیفیت ہے— اور بعض اوقات ایک مکمل طرزِ زندگی بن جاتا ہے۔
میرے حلقہ احباب میں ایک صاحب نے حال ہی میں پریشان ہو کر بتایا کہ ان کے 22 سالہ بیٹے کو کئی دنوں سے اپنے کمرے میں اور کبھی کبھی گھر میں کوئی "ہیولا نما" شے دکھائی دیتی ہے۔ کبھی وہ انسانی شکل میں ہوتی اور کبھی کسی ناقابلِ بیان، مہیب صورت میں۔ والدین سخت پریشان تھے— دم درود سے لے کر ماہر نفسیات تک ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے تھے، لیکن افاقہ نہیں ہو رہا تھا۔
تب ہمارے ایک تجربہ کار دوست نے بڑی سادہ سی بات کی۔ کہنے لگے: "اس نوجوان کو چاہیے کہ وہ رات کو 9 بجے ہر حال میں سوجائے، اور جو بھی کام رات کو کرتا ہے وہ صبح کر لیا کرے۔" بظاہر یہ مشورہ سادہ لگا، لیکن اس پر عمل ہوتے ہی نوجوان کے ہیولے غائب ہو گئے۔
یہ کوئی جادو نہ تھا، بلکہ انسانی دماغ کا کمال تھا۔ نیند کی کمی، مسلسل تنہائی، اور دماغ پر سکرینز کی روشنی— یہ سب مل کر ایسے "وہم" پیدا کر دیتے ہیں جو انسان کو سچ سے زیادہ حقیقی لگنے لگتے ہیں۔
وہم صرف ایک سوچ نہیں، ایک زنجیر ہے جو انسان کے اعتماد کو جکڑ لیتی ہے۔ ہم اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ان کی وجہ کسی "غیبی" قوت کو دے دیتے ہیں، اور یوں خود کو عمل سے بری الذمہ سمجھنے لگتے ہیں۔
اگر وہ نوجوان رات کو جلد سونے سے ٹھیک ہو سکتا ہے، تو ہم سب بھی سادہ، متوازن زندگی اپنا کر بہت سے ذہنی سایوں سے نجات پا سکتے ہیں۔
وہم کا علاج فلسفہ یا عملیات میں نہیں، بلکہ نظم، علم، نیند، سادہ زندگی اور اللہ پر یقین میں ہے۔ ہم جتنا جلد یہ سیکھ لیں، اتنا بہتر۔