یہ انسانی فطرت ھے کہ اسے نعمت کی اھمیت کا احساس اس وقت ھوتا ھے جب وہ چھن باتی ھے ۔ وقت ایسی ھی نعمت ھے جس کو ھمارے معاشرے میں بڑی بے دردی سے ضائع کیا جاتا ھے ۔ معصوم بچوں ، نوجوانوں اور ادھیڑ عمر لوگوں حتی کہ بزرگوں کو بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں ھوتی کہ اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت کی بے قدری کی جا رھی ھے ۔ مجھے دنیا کے کے کئی ممالک میں سفر کرنے کا موقع ملا ھے لیکن وقت کی ایسی بے قدری کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آئی ۔ البتہ ایسے لوگوں سے ملاقات ضرور ھوئی ھے جن کی ساری عمر وقت کی بے قدری میں گزر گئی اور جب ان کو قدر آئی تو بقول کسے آنکھیں بند ھونے کا وقت ھو گیا ۔
جن افراد نے اس نعمت کی قدر کی وہ عام افراد سے ممتازھو گئے ۔ جن خاندانوں ، معا شروں اور قوموں نے وقت کی حقیقت اور اھمیت کو جانا اور مثبت استعمال کیا انھوں نے رفعت اور عظمت کی صف میں مقام بنا لیا ۔ دوسری طرف اس کی بے قدری کرنے والے افراد اور معاشرے بھی ھماری آنکھوں کے سامنے ھی بے قدری کی ٹھوکروں پر ھیں ۔ تاریخ انسانی کا سبق ھے کہ روز اول سے ھی اس نعمت کے فدر دان ممتاز رھے اور بے قدرے معدوم ھوئے ۔
اللہ تعالی نے قران مجید میں وقت کی قسم کھا کر اس کی اھمیت کو اجاگر کیا ھے لیکن مسلمان ھی اس کی بے قدری کے مرتکب ھوئے ۔ وقت کی بے قدری نے نشیب و فراز دکھائے ، مشکلات وپریشانیاں پیدا ھوئیں ،شکست و ریخت سے دوچار کیا ، محبتوں کی جگہ بے رحمی نے لے لی لیکن ھم سنبھل نہ سکے ۔ لیکن یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ اگرھم نے وقت سے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ھمیں کامیابی ھی حاصل ھوئی ھے ۔
ھمارے معاشرے میں مثبت تبدیلی یہ آ رھی ھے کہ ھمیں احساس زیاں ھو رھا ھے اور بہت کم وقت میں یہ احساس گہرا تر ھوگیا ھے ۔ اس وقت ھم یہ ادراک حاصل کر چکے ھیں کہ ھم انفرادی مثبت فیصلوں سے ھی اجتماعی بہتری کی منزل حاصل کر سکيں گے ۔ ھمیں نہ صرف وقت کے مثبت استعمال کا انفرادی فیصلہ کرنا ھے بلکہ یہ ذمہ داری بھی پورا کرنا ھے کہ وقت کے مثبت استعمال کا احساس اپنے ان پیاروں کے دل میں بھی پیدا کریں جن کی بہتری ھمیں خوشی عطا کرتی ھے ۔
بدھ، 1 مئی، 2019
محبت
بیج زمین مین دفن کیا جاتا ہے۔ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے مگر جب وہ پھٹ کر، پھوٹ کر اورزمین کو پھاڑ کر نکلتا ہے تو نظر آتا ہے۔ جب درخت بنتا ہے تو مخلوق اس سے مستفید ہوتی ہے۔کچھ کے لیے پناہ گاہ بنتا ہے۔کوئی اس کے پھل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔پتے اور چھلکے سے شفا حاصل ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کئی بیچ پیدا ہوتے ہیں۔محبت بھی ایک بیج ہے انسان کے دل میں پھوٹتا ہے تو زبان اور اعضاء سے لوگوں کو نظر آتا ہے۔محبت وہ جوہر ہے جورشتوں، ناطوں، قرابتوں اور دوستیوں کو مستحکم بناتا ہے۔فرد، خاندان اور معاشرے پر اثر انداز ہو کرزندگیوں میں امن، سکون اور عافیت لاتا ہے۔
اہل علم کے نزدیک محبت کے تین درجے ہیں۔ محبت، شدید محبت اور اشد محبت۔ اشد محبت کوامام فخرالدین رازی نے عشق کا نام دیا ہے۔۔محبت کے بارے میں صاحب کنزالایمان نے لکھا ہے جو کسی چیز سے محبت کرے اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے ۔اشد محبت کا ذکر قرآن پاک میں ہے ایمان والے اللہ سے اشد محبت کرتے ہیں (البقرہ:165)
محبت کا تعلق جبلت، فطرت،اطاعت، عطا،احسان وغیرہ سے ہوتا ہے۔ البتہ شدید محبت ایک کیفیت ہے اور عشق جوہر ہے۔ ہر جوہر کی بنیاد ہوا کرتی ہے۔ جیسے گھی کی بنیاد دودھ ہے۔ انسانوں کی آپس میں محبت ایک فطری عمل ہے جو یوم الست کو آپس میں مانوس ہو جانے والی ارواح کے درمیان پایا جاتا ہے۔
محبت خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ جس کابیچ ہر دل میں رکھ دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں دفن یہ بیج پھوٹ کر ظاہر ہو جاتا ہے ان سے اللہ اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے
اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (البقرہ:222)
اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (آلعمران:159)
اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (آلعمران:139)
اللہ پرہیز گاروں سے محبت کرتا ہے (التوبہ:6)
اللہ پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے (التوبہ:108)
اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (المائدہ:13)
اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (المائدہ:62)
اللہ اپنی راہ میں قتال کرنے والوں سے محبت کرتا ہے (الصف:6)
مزیدرسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تین قسم کے لوگوں سے محبت کرتا ہے (1) جو خلوص نیت سے اس کی راہ میں اپنی جان فدا کرتے ہیں (2) جو اپنے پڑوسی کے ظلم پر صبر کرتے ہیں (3) جو رات کو اس وقت اٹھتے ہیں جب قافلہ سفر سے تھک کر آرام کے لیے اپنا بستر لگاتاہے۔
انسان کو دنیا میں عزیز ترین چیز اپنی اور اہل و عیال کی جان ہوتی ہے۔مگررسول اللہ ﷺ کی دعا کے الفاظ پر غور فرمائیں میں تیری محبت مانگتا ہوں اور جو تجھ سے محبت کرتا ہو اسکی محبت اور اس عمل کی محبت جو تیری محبت سے قریب کر دے ایک دوسری دعا کے الفاظ ہیں اے اللہ تو اپنی محبت کو میری جان سے میرے اہل وعیال سے اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ میری نظر میں محبوب بنا
رحم کا منبع محبت ہے۔ دنیا میں رحم بھرے مناظر جن کا ہم اپنی آنکھوں سے مشائدہ کرتے ہیں جیسے انسانوں کے درمیان ایثار کے واقعات، اولاد کے لیے والدین کی مشقت، معذروں سے ہمدردی یہ سب اس سرمایہ محبت کا سو میں سے ایک حصہ ہے جو خالق نے پوری مخلوق کو عطا کیا ہے۔دور رسالت میں ایک شخص کو بار بار شراب نوشی کے جرم میں گرفتار کرکے پایا جاتا تھا۔کسی نے کہا اللہ اس پر لعنت کر کہ باربار لایا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس پر لعنت نہ کروکہ اسے اللہ اور رسول سے محبت ہے ۔ موذن رسول سید نا بلال اللہ اور رسول اللہ سے محبت کا جیتا جاگتا نام ہے
مدینہ میں ایک مسلمان فوت ہوا۔کاشانہ نبوت سے ہدائت آئی اس کے ساتھ نرمی کرو کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ نرمی کی ہے کیونکہ اس کو اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت تھی ۔ قبر کھودنے والوں سے فرمایا اس کی قبر کشادہ رکھو کہ اللہ نے بھی اس کے ساتھ کشادگی فرمائی ہے ۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کو مرنے والی کی موت کا غم ہے فرمایا
ہاں، کیونکہ یہ اللہ اور رسول سے محبت کرتا تھا ۔
لوگوں کے کہنے پر رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے پوچھا ہر نماز میں ایک ہی سورۃ کیون پڑہتے ہو۔عرض کیا اس میں اللہ کی صفات ہیں اور مجھے اس کے پڑہنے سے محبت ہے۔ فرمان جاری ہوا ان کو بشارت ہو اللہ بھی ان سے محبت کرتا ہے
یہ واقعہ تو بار بار سنا اور سنایا اور لکھا جاتا ہے کہ ایک نے پوچھا تھا قیامت کب آئے گی استفسار فرمایا تم نے اس کی کیا تیاری کر رکھی ہے۔نادم نے عرض کیا نمازوں کا ذخیرہ ہے نہ روزوں کا۔ صدقات و خیرات سے بھی تہی دامن ہوں۔البتہ سرمایہ امید اللہ اور رسول کی محبت ہے۔ ارشاد فرمایا انسان جس سے محبت کرے گا اسی کے ساتھ رہے گا۔
اللہ تعالی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو جبریل کو حکم ہوتا ہے کہ تم بھی اس سے محبت کرو۔پھر زمین پر اسے محب بنا دیا جاتا ہے۔
محبت وہ ثمر شیریں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا لوگو، اللہ سے محبت کرو کہ وہ تمھیں اپنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور اس کی محبت کے سبب سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب سے میرے اہل بیت سے محبت کرو ۔
یہ محبت ہی ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کو حبیب اللہ بنایا۔
سنن نسائی میں درج یہ واقعہ اللہ، بندے اور محبت کے تعلق پر سے چادر ہٹاتا ہے ۔ ایک عورت اپنا بچہ گود میں لے کر سوال کرتی ہے یا رسول اللہ، ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے، کیا اللہ کو اپنے بندوں سے اس سے زیادہ محبت نہیں ہے
فرمایا بے شک ایسے ہی ہے
بولی کوئی ماں تو اپنی اولاد کوخود آگ میں ڈالنا گوارہ نہ کرے گی
ان الفاظ کے فرط اثر سے رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں میں صرف آنسو ہی نہ آئے بلکہ گریہ طاری ہو گیا۔رب العالمین کے صادق و امین رحمت العالمین نبی خاتم المرسلین ﷺ نے فرمایا اللہ صرف اس بندے کو عذاب دیتا ہے جو سرکشی سے ایک کو دو کہتا ہے
اتوار، 28 اپریل، 2019
کہانی بڑی پرانی
کہانی ہے اور پرانی ہے مگر ہر دور میں ترمیم کر کے دہرائی جاتی رہی ہے۔جب شروع میں یہ کہانی لکھی گئی اس کا ہیرو، یقین کی دولت سے مالا مال ایک غریب اور نیم خواندہ، نورحیات نام کاشخص تھا۔ اس نے ایک عالم دین کا وعظ سنا اور اپنی ساری جمع پونچی خرچ کر کے گاوں کے باہر اس رستے پر کنواں کھدوایاں جس رستے پر مسافروں کی آمدو رفت ہوا کرتی تھی۔ وہ صبح کی نماز پڑھ کر کنویں کی منڈہیر پر بیٹھ جاتا اور پیاسے مسافروں کو پانی پلاتا۔شیطان کو اس کا یہ عمل کھٹکتا تھا۔ اس نے نور حیات کے ساتھ دوستی لگائی اور انتظار کرنے لگا کہ موقع ملے تو اسے خدمت خلق سے باز رکھے۔
گرمیوں کی ایک دوپہر نور حیات نے ایک مسافر جو راز دار لوح مقد ر تھا کو پانی پلایا۔ مسافر کا کلیجہ تازہ پانی پی کرٹھنڈا ہوا تو اس نے نظر بھر کے نور حیات کو دیکھا اور بولا اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا جو چاہیں عطا کر دیں ۔ مسافرنے اس کے ہاتھ ہر اپنی انگلی سے ایک کا ہندسہ لکھا اور چل دیا۔ چند دنوں میں ہی نورحیات کو احساس ہو گیاکہ اس کی آمدن بڑھ کر ایک روپیہ روز ہو گئی ہے۔ وقت گزرتا رہا کہ ایک دن نور حیات کے ہاتھوں سے ایک اور راز دار لوح مقدر نے پانی پیا اور کہا اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے ۔ نور حیات مانگنے کے سلیقے سے محروم تھا مگر اس نے اپنا داہنا ہاتھ پھیلا کر کہا جو چاہیں عطا کر دیں مسافر نے اس کے ہاتھ پر ایک کا ہندسہ دیکھا تو اس کے دائیں طرف ایک صفر ڈال کر چل دیا۔ نور حیات کی روزانہ آمدن دس روپے ہوگئی۔ جس زمانے کی کہانی ہے دس روپے روازانہ بڑے بڑے رئیسوں کی آمدن بھی نہ تھی۔ طاق میں بیٹھے نور حیات کے دوست نے اسے یہ روپیہ کاروبار میں لگانے کا مشورہ دیا۔دونوں دوستوں نے مشورہ کیا اور اور اونے پونے داموں بنجر زمیں خرید کر اس پر اینٹیں بنانے کا بھٹہ لگا لیا۔ دس روپے روزانہ میں بھٹے کی کمائی بھی شامل ہو گئی۔ چند سالوں میں نور حیات نے علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں کا جا ل پھیلا دیا۔ اس کا دوست اس کو مشورہ دیتا کہ وہ کنویں کی منڈہیر پر کسی ملازم کو بٹھائے اور خود اپنے کاروبار پر توجہ دے۔ مگر نورحیات کو کنویں پر لوگوں کو پانی پلا کر قلبی سکون ملتا تھا۔ ادھر اس کا دوست اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتا۔ نور حیات فیصلہ نہ کر پاتا کہ وہ دل کی مانے یا دوست کی۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک دن گرمیوں کی تپتی دوپہر کو ایک گھڑ سوار کہ راز دار لوح مقدر تھا ، پنے ساتھی سمیت کنویں پر اترا۔نور حیات نے اسے پانی کا پیالہ پیش کیا اس نے پیالہ پکڑانے والے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کو دیکھا پھر نور حیات کے ماتھے کو پڑہا اور بولا اے نیک بخت مانگ کیا مانگتا ہے نور حیات نے ہاتھ پھیلا دیا۔ مسافر نے پوچھا بولتے کیوں نہیں کیا مانگنے کا سلیقہ نہیں آتا ، نور حیات نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ مسافر نے اپنے ساتھی سے کہا۔
مولوی، اس کے ہاتھ پر لکھے دس کے ہندسے کے دائیں طرف ایک صفر ہماری طرف سے ڈال دے، ساتھ ہی مولوی کی طرف متوجہ ہو کر کہا تیرا چلہ بھی ختم ہوا اب تو اسی نیک بخت کے ساتھ رہ اور اسے مانگنے کا نہیں خرچ کرنے کاسلیقہ سکھا۔یہ کہہ کر مسافر گھوڑے پر سوار ہوکر چل دیا۔
گھڑ سوار کے جاتے ہی مولوی نے نور حیات کو باور کرا دیا کہ سو روپے میں نوے روپے اس کے استاد کے دیے ہوئے ہیں اس لیے یہ رقم سلیقہ سیکھنے پر ہی خرچ ہو گی۔ نور حیات رضا مند ہو گیا۔
مولوی کے مشورے پر نور حیات نے کنویں کے ساتھ ہی ایک مسافر خانہ بنا لیا۔ اس میں کھانا پکتا مسافر اور ارد گرد کے لوگ کھاتے اور نور حیات کو دعائیں دیتے۔ آمدن زیادہ تھی اور اخراجات کم۔کچھ ہی عرصے میں مولوی کے کہنے پر ایک مسجد بھی بن گئی، بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ اہل علم بھی علاقے کے راستوں سے آشنا ہوئے۔یہ سب نور حیات کے دوست کو پسند نہ تھا۔ اس نے علاقے کے لوگوں کو قائل کیا اور نور حیات کے خلاف کے تھانے میں، نیب کے دفتر اور انکم ٹیکس کے دفتر میں درخواستیں دینا شروع کر دیں۔ تفتیش شروع ہوئی، پولیس کو ہدائت ہوئی ایک کا ہندسہ لکھنے والے کو گرفتار کیا جائے۔ کہا جاتا ہے پولیس چاہے تو ملزم کو پاتال سے بھی ڈہونڈ کر لا سکتی ہے۔ پولیس نے اپنی اہلیت کو ثابت کیا، ملزم کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنا لکھا ہوا ایک کا ہندسہ مٹائے۔ نیب کا خیال تھا کہ ایک کے مٹ جانے کے بعد، صفر، خواہ کتنے ہی ہوں اپنی وقعت کھو دیں گے۔ایسا ہی ہوا، اینٹوں کے سارے ہی بھٹے بیٹھ گئے۔ البتہ کہانی کے مطابق ایک مٹ جانے کے بعد وہ صفر بے وقعت ہو گیا جو ایک کو دس بناتا تھا البتہ تیسرا صفرجو سو بناتا تھا اپنے مقام پر قائم ہے مگر اس کی قیمت نوے ہے۔
کہانی، کہانی ہی ہوتی ہے، ہمارا کام لکھنا ہے، نتیجہ نکالنا یا سبق حاصل کرنا قاری کا حق ہے اور پڑھ کر نذر انداز کردینے والوں کے اپنے حقوق ہیں۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا رواداری ہے، اس سے بڑھ کر رواداری کیا ہو سکتی ہے کہ دستر خوان بچھا کر معترض کو بھی کھلایا جائے اور اس کی تنقید کوبھی مسکرا کر سنا جائے۔
ہفتہ، 27 اپریل، 2019
زبان اور عمل کی لگام
یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے انسانوں کو ہدائت ار رہنمائی سے کبھی بھی محروم نہ رکھا۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی اسے عقل و شعورکے ساتھ ساتھ اپنی ایک بڑی صفت ْ علیم ْ میں سےعلم عطا فرما کر انسان کو اس قابل کر دیا کہ وہ راہ حیات کے روشن اور تاریک راستوں کو پہچان سکے۔ہم صبح و شام اپنے خدا سے سیدھی راہ کی طلب کرتے ہیں۔حالانکہ یہ راہ تو موجود ہے البتہ ہماری دعاوں کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ یہ سیدہی راہ روشن ہو کر ہمیں اس طرح دکھائی دے کہ ہم یقین کامل اور دل کے اطمینان کے ساتھ اس پر چل سکیں۔ ذہنی بے یقینی انسان کی جبلت کا حصہ ہے، اس کے باوجود کامیاب لوگوں کی زندگی سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں ہے۔
کامیابی کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ مختلف لوگوں کے قابل تقلید لوگ (ہیرو) مختلف ہوتے ہیں۔البتہ اس عالم رنگ و بو میں ایک نام ایسا بھی ہے جو دنیا کے اخلاقی طور پر تاریک ترین حصے میں روشن ہوااور اخلاقی، سماجی، نظریاتی اور عملی طور پر ایسے انقلابی اقدامات اٹھاٗے کہ دنیا کے کونے کونے سے اہل علم نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اس ہستی کا نام مبارک محمد ﷺ ہے جو اللہ کے اخری رسول ﷺ ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کو ان کی اتباع میں لانے کے لیے اپنے عزم کو مضبوط کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا نے انسانوں کو ہدائت ار رہنمائی سے کبھی بھی محروم نہ رکھا۔ تخلیق انسان کے ساتھ ہی اسے عقل و شعورکے ساتھ ساتھ اپنی ایک بڑی صفت ْ علیم ْ میں سےعلم عطا فرما کر انسان کو اس قابل کر دیا کہ وہ راہ حیات کے روشن اور تاریک راستوں کو پہچان سکے۔ہم صبح و شام اپنے خدا سے سیدھی راہ کی طلب کرتے ہیں۔حالانکہ یہ راہ تو موجود ہے البتہ ہماری دعاوں کا مدعا یہ ہوتا ہے کہ یہ سیدہی راہ روشن ہو کر ہمیں اس طرح دکھائی دے کہ ہم یقین کامل اور دل کے اطمینان کے ساتھ اس پر چل سکیں۔ ذہنی بے یقینی انسان کی جبلت کا حصہ ہے، اس کے باوجود کامیاب لوگوں کی زندگی سے متاثر ہونا انسان کی فطرت میں ہے۔
کامیابی کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں، یہی سبب ہے کہ مختلف لوگوں کے قابل تقلید لوگ (ہیرو) مختلف ہوتے ہیں۔البتہ اس عالم رنگ و بو میں ایک نام ایسا بھی ہے جو دنیا کے اخلاقی طور پر تاریک ترین حصے میں روشن ہوااور اخلاقی، سماجی، نظریاتی اور عملی طور پر ایسے انقلابی اقدامات اٹھاٗے کہ دنیا کے کونے کونے سے اہل علم نے انھیں خراج تحسین پیش کیا۔اس ہستی کا نام مبارک محمد ﷺ ہے جو اللہ کے اخری رسول ﷺ ہیں اور ہم اپنی زندگیوں کو ان کی اتباع میں لانے کے لیے اپنے عزم کو مضبوط کرنے کی سعی میں مصروف رہتے ہیں۔
زمینی حقائق یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو بطور نمونہ اپنانے کے خواہش مند اپنے جبلی تعصبات سے بالا تر ہو کر بھی اس اجتماعیت سے دورہیں جس اجتماعیت نے رسول اللہ ﷺ کے پیروکاروں (اصحاب ) کے ایمان کو اس طرح راسخ کر دیا تھاکہ ان کو اپنی انفرادی اور اجتماعی کامیابی گویا نظرآ رہی تھی۔جبلی طور پر انسان وہی ہے۔فطرت آدم بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ قران بھی وہی ہے جو اصحاب رسول پڑہا کرتے تھے۔تعلیمات نبوی ﷺ بھی محفوظ ہیں ۔مگرآج اسلام کی وحدانیت تقسیم ہو کر رہ گئی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مذہب ایک تقسیم کارآلہ بن کر رہ گیا ہے۔مقام غور ہے کہ ْ تبدیلی ْ کہاں ہوئی ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے
ْ فی الحقیقت تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہائت ہی حسین نمونہ ہے ْ (الاحزاب)
اسوہ حسنہ عنوان ہے رسول اللہ کی حیات طیبہ کااور اس عنوان کے کئی ابواب اور پہلو ہیں، ان میں ایک پہلو کی خود خدا نے نشاندہی کی ہے ۔ فرمان الہی ہے
ْ تم کیوں کہتے ہو جو کرتےنئیں ، بڑی بے زاری ہے اللہ کے یہاں ، کہ کہو وہ جو کرو نہ ْ ۔ اس عمل کو
اردو کے ایک محاورے میں کہا گیا ہے ْ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ْ یہ عمل انسان کا ایسا کمزور پہلو ہے جس کی خدا نے نظریاتی طور پر اور خدا کے رسول نے عملی طور پر حوصلہ شکنی کی ہے۔سیرت النبی کا مطالعہ بتاتاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ہرنصیحت کے الفاظ میں عمل کی روح پھونک کراپنی تعلیمات کو ابدیت عطا فرمائی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا
ْ جو قران میں الفاظ کی صورت میں ہے ،وہی حامل قرآن کی سیرت مین بطور عمل تھا ْ ۔
انھوں نے اگر دوسروں کو کھلانے کی نصیحت کی تو خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلایا، اگر دوسروں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو ہند اوراس کے غلام کومعاف کیا، زہر کھلانے والوں سے در گذر کیا۔ اگر سوال کرنے والوں کے سوال پورا کرنے کی ہدایت کی تو شدید ضرورت کے ایام میں اپنی چادر اتار کر دے دی۔فرمان و اعمال میں ہم آہنگی کتاب اسوہ حسنہ کا روشن باب ہے۔اس فرمان نبی کا ہر لفظ عمل کی گردش پوری کرنے کے بعد زبان مبارک سے نکلا ہے
ْ مومن وہ ہے جس کو لوگ امین سمجھیں ، مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہیں ،
مہاجر وہ ہے جس نے بدی کو چھوڑ دیا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے غصہ سے محفوظ نہ رہا ہو ْ
قول و فعل کا ہم آہنگ نہ ہونا ایسا عیب ہے جو الفاظ کی تاثیر کو ختم کر دیتا ہے۔وعظ کو بے اثر بے جان الفاظ نہیں کیا کرتے۔ شخصیت کو گہن اقوال و افعال کی بے آہنگی لگایا کرتی ہے۔ ہمارے پاس خوبصورت اور مرصع الفاظ کی کمی ہے نہ دلپذیر حکائتوں کی قلت ۔ ناصحین کی بھی بہتات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زبان کو عمل کی لگام پہنانے کی ضرورت ہے
اللہ تعالی نے انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے
ْ فی الحقیقت تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں نہائت ہی حسین نمونہ ہے ْ (الاحزاب)
اسوہ حسنہ عنوان ہے رسول اللہ کی حیات طیبہ کااور اس عنوان کے کئی ابواب اور پہلو ہیں، ان میں ایک پہلو کی خود خدا نے نشاندہی کی ہے ۔ فرمان الہی ہے
ْ تم کیوں کہتے ہو جو کرتےنئیں ، بڑی بے زاری ہے اللہ کے یہاں ، کہ کہو وہ جو کرو نہ ْ ۔ اس عمل کو
اردو کے ایک محاورے میں کہا گیا ہے ْ دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت ْ یہ عمل انسان کا ایسا کمزور پہلو ہے جس کی خدا نے نظریاتی طور پر اور خدا کے رسول نے عملی طور پر حوصلہ شکنی کی ہے۔سیرت النبی کا مطالعہ بتاتاہے کہ نبی اکرم ﷺ نے اپنی ہرنصیحت کے الفاظ میں عمل کی روح پھونک کراپنی تعلیمات کو ابدیت عطا فرمائی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک سائل کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا
ْ جو قران میں الفاظ کی صورت میں ہے ،وہی حامل قرآن کی سیرت مین بطور عمل تھا ْ ۔
انھوں نے اگر دوسروں کو کھلانے کی نصیحت کی تو خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلایا، اگر دوسروں کو معاف کرنے کی نصیحت کی تو ہند اوراس کے غلام کومعاف کیا، زہر کھلانے والوں سے در گذر کیا۔ اگر سوال کرنے والوں کے سوال پورا کرنے کی ہدایت کی تو شدید ضرورت کے ایام میں اپنی چادر اتار کر دے دی۔فرمان و اعمال میں ہم آہنگی کتاب اسوہ حسنہ کا روشن باب ہے۔اس فرمان نبی کا ہر لفظ عمل کی گردش پوری کرنے کے بعد زبان مبارک سے نکلا ہے
ْ مومن وہ ہے جس کو لوگ امین سمجھیں ، مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت رہیں ،
مہاجر وہ ہے جس نے بدی کو چھوڑ دیا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی اس وقت تک جنت میں نہیں جا سکتا جب تک اس کا پڑوسی اس کے غصہ سے محفوظ نہ رہا ہو ْ
قول و فعل کا ہم آہنگ نہ ہونا ایسا عیب ہے جو الفاظ کی تاثیر کو ختم کر دیتا ہے۔وعظ کو بے اثر بے جان الفاظ نہیں کیا کرتے۔ شخصیت کو گہن اقوال و افعال کی بے آہنگی لگایا کرتی ہے۔ ہمارے پاس خوبصورت اور مرصع الفاظ کی کمی ہے نہ دلپذیر حکائتوں کی قلت ۔ ناصحین کی بھی بہتات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ زبان کو عمل کی لگام پہنانے کی ضرورت ہے
جمعہ، 26 اپریل، 2019
سمیع و علیم
زیادہ پرانی بات نہیں، 1992 کا سال تھا، کپمیوٹر میں ونڈو انسٹال کی، اس مشین میں حیرت انگیز انقلاب آیا۔ محنت کم اور نتیجہ رنگین۔ وہ کمپیوٹر جو میرے بچوں کے لیے معمہ تھا اب گھر میں ان کی پسندیدہ شے تھی۔ انٹر نیٹ نایاب نہیں مگر مہنگی تھی۔ اس کے باوجود بچوں کو کچھ دیر اس انٹرنیٹ نامی نئے کھلونے سے کھیلنے کی اجازت تھی۔ البتہ میرا ایک بیٹا اس پر حیرت کا اظہار کیا کرتا تھا ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے
لاہور سے ایک صاحب راولپنڈی تشریف لائے، ایک پروفیسرصاحب سے انھوں نے ملاقات کی۔ لاہور واپس جا کر انھوں نے اپنا طبی معائنہ کرایا۔ ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ پروفیسر صاحب جن کا طب سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے اوروہ بیماری جو مجھ سے بھی پوشیدہ تھی کیسے جان گئے۔
وہ لوگ جو حکمرانی کے خواہش مندوں کو خوش خبریاں سناتے ہیں یا وزیر اعظم ہاوس مین بیٹھ کر وقت کے وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہیں کہ اب اونٹوں کی قربانی کا وقت آں پہنچا ہے، یا وہ لوگ جو کسی میڈیا ہاوس میں بیٹھ کر دور کے ملک کے بارے میں پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئی کر دیتے ہیں یہ لوگ کوئی غیب دان نہیں ہوتے البتہ وہ علم کے بڑے درخت کی ایک شاخ کے ماہر ضرور ہوتے ہیں، امام محمد بن سیرین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کو خوابوں کی تعبیر بتانے میں ید طولی ٰ حاصل تھا۔ ان کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک شخص حاضر ہوا اور بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ ابن سیرین نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ تمھارا ہاتھ کاٹا جائے گا، مذکورہ شخص کی موجودگی میں ایک اور شخص اسی محفل میں داخل ہوااور اس نے بیان کیا کہ اس نے خواب میں اذان کہی ہے۔ امام نے اسے تعبیر بتائی کہ وہ حج کو جائے گا۔ پہلا شخص حیران ہوا مگر وقت نے ثابت کیا کہ پہلے شخص کا ہاتھ کاٹا گیا اور دوسرے شخص نے حج کیا۔
علم کیا ہے، کسے حاصل ہوتا ہے، کیسے حاصل ہوتا ہے، انسان کتنا علم حاصل کر سکتا ہے تشنہ بحث ہے مگر ایک بات پر سب صاحبان علم متفق ہیں کہ انسان کا علم ناقص اور ادہورا ہے۔ تمام علوم کی کی مکمل اجارہ داری خدا ہی کے پاس ہے کہ وہ تمام مخلوقات کا موجد اول ہے۔
انسان کو دیکھنے کے لیے بینا آنکھ کے ساتھ ساتھ روشنی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دن کو سورج آنکھ کی یہ ضرورت پوری کرتا ہے اور حد نگاہ تک مناطر روشن ہو جاتے ہیں۔ رات کے اندہیرے میں آنکھ کی حد نگاہ مصنوعی روشنی کی لو تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔صاحب شمس الفقراء نے لکھاہے کہ انسان کو اندر سے دیکھنے کے لیے قلبی آنکھ کے ساتھ ساتھ اس ضیاء کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو نور اسم ذات سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی اسم ذات کے نور سے مستفید ہونے والا انسان دوسرے انسان کے اندر تک جھانک سکتا ہے۔ یہ تو صاحبان علم کی باتیں ہیں۔کچھ لوگ ان اقوال کی حقیقت تک پہنچتے ہیں اور بعض کا کم علم انھیں ان باتوں کے انکار پر پر اکساتا ہے۔ البتہ خالق کائنات ایسی ہستی ہے جس کے ہاں علوم کلی ازل سے سجدہ ریز ہیں اور تا ابد اس کی اجارہ داری مستحکم ہے۔
جب ابراہیم نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں تو رجوع کیا اور دعا کی اے ہمارے رب، ہم سے قبول فرما بے شک آپ سنتے اور جانتے ہیں (البقرۃ:127) ۔ علمائے دین کا کہنا ہے کہ نبیوں کا ہر عمل امر ربی کا مظہر ہوتا ہے اور انسانیت کے لیے اس میں اسباق پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس دعا میں پوشیدہ اسباق قابل غور ہیں
۔ ا س دعا کے لیے رفع ید سے قبل خلیل اللہ علیہ السلام نے ایک بامقصد نیک عمل کو پورا کیا
۔ اپنے اللہ کی طرف رجوع ہو کر اپنے ایمان کی سچائی کو ثابت کیا
۔ عمل کرتے وقت دل میں اخلاص تھا۔ غافل دل کے ساتھ نہیں بلکہ دل کو مائل کر کے اپنے قلب کی کیفیت کو اللہ کے سامنے رکھ کر ہی دعا کا سلیقہ پورا ہوتا ہے
۔ دعا کے لیے مقام کی اہمیت بھی ظاہر کر دی گئی ہ
۔ اور یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ واسطہ بھی اسی قادر مطلق اور بے پرواہ کی صفات کا کارآمد ہے۔
نیکی پر نیکی کرنے والوں کے دل حساب دینے کے لیے رب کے سامنے کھڑے ہونے کے تصور ہی سے خوف کھاتے ہیں (المومنوں: 60,61) ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کا دل خیالات کاایسا بھنور ہے جس میں سیاہ و بے رنگ لہروں کا جنم لینا اورعدم ہو جاتا جبلت انسان ہے۔ البتہ انسان کی حوصلہ افزائی یہ کہہ کر کی گئی ہے مجھے پکارو، مین تمھاری دعا قبول کروں گا (الغافر:60)
دنیا میں بسنے والا انسان بھی سنتا ہے لیکن وہ دوسروں کے دل کے حالات سے بے خبر ہوتا ہے۔سمیع تو ضرور ہے مگر علیم نہیں ہے۔ اور جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں، جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ہم تو صرف ان سے مذاق کرتے ہیں ۔اللہ بھی ان سے مذاق کرتا ہے اور انھیں ان کی سرکشی اور بہکاوے میں بڑہا دیتا ہے (البقرہ:15,16)۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ منافقین اس بہکاوے میں ہیں کہ شائد اللہ صرف سنتا ہے۔اہل ایمان اور دوسروں میں فرق یہ ہے کہ ایمان والوں کو بصارت عطا کی جاتی ہے تمھیں وہ کچھ سکھایا گیا جو تم اور تمھارے آبا بھی نہیں جانتے تھے (الانعام:19)
حدیث قدسی ہے میرے بندو، تم سب کے سب گمراہ ہو، سواے اس شخص کے جسے میں ہدائت دوں، اس لیے مجھ سے ہدائت مانگو میں تمھیں ہدائت دوں گا۔ میرے بندو تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں کھلاوں، اس لئے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمھیں کھلاوں گا۔ میرے بندو، تم سب کے سب بے لباس ہو، سوائے اس شخص کے جسے میں لباس پہناوں، اس لیے مجھ سے لباس مانگو، میں تمھیں لباس پہناوں گا۔ میرے بندو، تم دن رات گناہ کرتے ہواور مین تمھارے گناہ معاف کر سکتا ہوں، اس لیے تم مجھ سے بخشش مانگو، میں تمھیں معاف کر دوں گا البتہ رسول اکرم ﷺ کی یہ ہدائت پیش نظر رہے اللہ کسی ایسے دل سے دعا قبول نہیں کرتاجو سہو و لہو مین مبتلاء ہو
وہ سنتا اور جانتا ہے۔
ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے اور علیم تو جمیع علوم کا اجارہ دار ہے۔ دعا گو کے ذہن میں یہ بچپنا نہیں ہونا چاہیے
ابو، آپ کو معلوم کیسے ہو جاتا ہے کہ میں نے کون سی ویب سائٹ دیکھی ہے
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)