جمعرات، 20 دسمبر، 2018

لندن کا مہاجر


سال 1979سے قبل مسلمانوں کا یہ بیانیہ بہت مضبوط تھاکہ اسلام مسلمانوں کے علم و عمل اور سیرت وکردار کے بل بوتے پرپھیلا۔ اولین دور میں جب مکہ فتح ہوا تو دینا نے دیکھا کہ فاتح لشکر کی تلواریں نیاموں میں ہیں اور اعلان کرنے والے اعلان کر رہے ہیں کہ بچوں اور عورتوں کو امان ہے ۔ غیر مسلح شہریوں کو امان ہے۔ اپنے اپنے علاقے کے سرداروں کے گھروں میں پناہ گزین ہو جانے والوں کو امان ہے۔ بات آگے بڑھی ، طاقت زیادہ ہو گئی تو اعلان ہوا ، جو علاقہ فتح ہو گا وہاں درخت اور فصلیں کو گزند نہ پہنچنے گا۔ طاقت مزید بڑہی تو غیروں نے آ کر دعوت دی کہ ہم اپنوں سے بیزار ہیں تشریف لائیے اور ہمارے حکمران بن جائیے۔ بات مزید آگے بڑہی تو متکلم نے دوسرے معاشروں میں جا کر اسلام کی دعوت پیش کرتے اور جماعتوں کی صورت میں جاہلوں کو اسلام کے مہذب معاشرے میں شامل کرتے ۔ بات اور آگے بڑہی ۔ اہل علوم نے کتابیں تصنیف کیں لوگوں نے اس کتابوں کے دوسری زبانوں مین تراجم کیے۔ انجان اور دور دراز علاقوں کے با صلاحیت نوجوان ان ترجم کو پڑہتے اور ان کی زندگی بدل جاتی۔ سال 1915 میں لندن کے ایک زمیندار مسیحی گھرانے میں
 John Gilbert Lennard
 کے نام سے پرورش پانے والے ایک نوجوان نے حضرت علی بن عثمان ہجویریؓ کی کتاب ْ کشف المجوب ْ کا انگریزی میں ترجمہ پڑہنا شروع کیا ۔ نوجوان جوں جوں ترجمہ پڑہتا گیا اس کا من روشن ہوتا گیا۔ جب کتاب مکمل پڑھ چکا تو اس نے خود جا کر اس معاشرے کا مطالعہ کرنے کی ٹھانی جس معاشرے کے باسی نے یہ کتاب لکھی تھی۔ وہ حیدر آباد میں حضرت سید محمد ذوقی شاہؓ کی خانقاہ میں پہنچا تو شاہ جی نے اس کو اپنا مرید بنا کر اس کا نام شہیداللہ رکھا ۔ جو بعد میں شہید اللہ فریدی کے نام سے معروف ہوا۔ سید محمد ذوقی شاہ کے پاس پہنچ کر شہید اللہ کو ادراک ہو ا کہ یہ طرز ندگی اس کی پڑہی ہو ئی کتاب کی عملی تجربہ گاہ ہے۔ 
کہا جاتا ہے کہ جس عمل پر انسان کا وقت، مال اور محنت صرف ہو ، اس انسان کے لیے وہ عمل قیمتی بن جاتا ہے۔ اہل تصوف کے آستانوں میں نوجوانوں سے وقت کا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کچھ وقت اپنے پیر و مرشد کے آستانے پر گذاریں۔ عام تجربہ ہے کہ جو مرید مہینہ میں ایک بار اپنے پیر کے آستانے پر حاضری دیتا ہے اس کی نسبت وہ سالک جلد ترقی کی منزلین طے کرتا ہے جو ہر ہفتے اپنی حاضری یقینی بناتا ہے۔ اس سے تیز رفتار ترقی اس کی ہوتی ہے جو روزانہ اپنے پیر کے آستانے پر حاضر ہوتا ہے۔ شہیداللہ تو دن رات سید ذوقی شاہ کی صحبت میں تھا۔مطالعہ انسان کے ذہن کے بند دریچوں کو وا کرتا ہے تو عملی تربیت قلب و ذہن میں پیدا ہونے والی تحریک کو عمل میں ڈہالتی ہے۔ شہید اللہ کے خیالات اپنے مرشد کی زیر نگرانی بہت جلدی اعمال میں ڈہلنا شروع ہو گئے۔ ہوا یہ کہ جو منازل علم و عمل برسوں میں طے کراتا ہے وہ ساری منازل شہیداللہ کے مرشد نے نظروں میں طے کرا دیں۔ 
اینٹیں بنانے والے بھٹے پر جب مٹی کو گوندھ کر اس سے اینٹیں بنائی جاتی ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے دہوپ میں رکھ دیا جاتا ہے تو اس دوران بارش آ جائے تو اس پر ترپال ڈال کر ان اینٹوں کو بارش سے بچایا جاتا ہے کہ وہ بھیگ کر دوبارہ گارا نہ بن جائیں۔ مگر ان کچی اینٹوں کو جب بھٹے کی آگ میں پکا کر نکالا جاتا ہے تو پھر ان پر ترپال ڈال کرموسموں کے تغیرات سے بچانے کی ضرورت نہیں رہتی۔اہل تصوف کے آستانے کچی اینٹوں کو پکانے کے بھٹے ہوتے ہیں۔سید ذوقی شاہ کے بھٹے میں شہیداللہ فریدی نام کی اینٹ تیار ہو چکی تو انھیں کراچی بھیج دیا گیا۔ ہجرت ایسا عمل ہے جو ہر صوفی کرتا ہے کہ یہ مکہ سے مدینہ ہنتقل ہونے والی ہستی ﷺ کی سنت ہے ۔شہید اللہ نے کراچی میں 30 سال وہی کام کیا جو ہر صوفی کرتا ہے یعنی ْ خدمت خلق ْ ۔ خدمت خلق کی ابتدا محبت ہے تو اس کی انتہا بھی محبت ہی ہے۔ حضرت سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی ؒ کا فرمان ہے ْ محبت ایک نشہ ہے جو ہوش ختم کر دیتا ہے ْ ۔ شہید اللہ فریدی نے محبت کے نشے میں ڈوب کر جو کتابیں لکھیں ان میں سب سے مشہور ہونے والی کتاب کا نام : Inner Aspects of Faith ہے۔
اس کے علاوہ ان کی تصانیف کے عنوان یہ ہیں ۔ 
Every day Practice in Islam انگریزی
Vision for Speakers of the Truth انگریزی
Spirtuality in Religion انگریزی
Ciencia Y Creencia اسپانوی
Dagling Praksis ڈینش
Vigleding for Muslims ڈینش
ان کی وفات 1978 میں کراچی میں ہوئی اور کراچی کے قبرستان سخی حسن میں محو استراحت ہیں۔ 


منگل، 18 دسمبر، 2018

اسکندر مرزا کون تھا

اسکندر مرزا
------------                                                                         
مشرقی پاکستان ملک کا سب سے بڑا صوبہ تھا، جس کی آبادی ، مغربی حصے میں شامل چاروں صوبوں کی آبادی سے زیادہ تھی ۔ علیحدگی کے وقت ملک کی آبادی کا 56٪ مشرقی پاکستان میں تھا۔اصل طاقت بیورو کریسی کے پاس تھی ۔ جب 1958 میں جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اس وقت اسکندر مرزا پاکستان کے صدر تھے۔ اسکندر مرزا آزادی سے قبل انگریز گورنمنٹ کے ڈیفنس سیکریٹری تھے۔ پاکستان میں بھی وہ اس پوسٹ پر قائم رہے ۔ رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ، لندن کے گریجویٹ میجر جنرل اسکندر مرزا کے برطانوی بیوروکریسی اور برطانوی فوج کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ ان کے انڈین پولیٹیکل سروس کے منتخب ہونے میں بھی انگریز کا ان اعتماد شامل تھا ۔وہ اسسٹنٹ کمشنر سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچے تھے ۔ ان کو جہاں انگریز کا اعتماد حاصل تھا وہین مقامی سرکاری عہدے داروں میں بھی ان کا اثر و رسوخ تھا اسکندر مرزا کی ایک بیوی ’ناہید‘ ابراہیم مرزا امیر تیموری کلالی کی بیٹی تھی اور ناہید کی ماں ایرانی حکمراں رضا شاہ پہلوی کی بھتیجی تھی۔ اس کے بیٹے ہمایوں مرزا کی شادی اُس وقت کے امریکی سفیر کی بیٹی سے ہوئی تھی۔کراچی مین امریکہ سفارت خانہ ان دنوں سیاسی جوڑ توڑ اور علاقائی سفارتی اور سیاسی سرگمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ایران کے شہنشاہ علاقے میں مغربی طاقتوں کے سب سے بڑے حلیف ہوا کرتے تھے۔لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد جب بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے تو سکندرمرزا کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا گیا۔پھر اس عہرے کو صدر سے بدل دیا گیا۔ حتمی اختیارات صدر ہی کے پاس ہوا کرتے تھے ۔اسکندر مرزا کا خیال تھا کہ اب وہ ساری عمر صدر کے عہدے پر فائز رہیں گے۔انھوں نے جوڑ توڑ اور سیاسی عہدوں کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ ملک کے اکثریتی صوبے کے سیاسی رہنماوں کو اس نے مہرے سمجھا ۔ بنگالیوں سے حسین شہید سہروردی کی برطرفی ہضم نہ ہو سکی ۔ بنگالیوں کے ذہنوں میں شکوک پیدا کر دیے گئے اور مغربی پاکستان کے لوگوں کے خلاف کے خلاف ایسے بیج بوئے جو وقت کے ساتھ ساتھ نفرت مین تبدیل ہو گئے۔مشرقی پاکستان میں کہیں بھی جاگیر داری نہ تھی ۔ بنگالی غریب اور نڈر تھے ۔ وڈیرہ شاہی انھیں مرعوب نہ کر سکی۔ مغربی پاکستان میں مجیب کو منشی کا بیٹا کہا جاتا تھا تو مشرقی پاکستان میں اس بات پر ناز کیا جاتا تھا کہ ان کا لیڈر ان ہی مین سے ہے۔بنگال کے بارے میں قائد اعظم نے ایک بار کہا تھا کہ وہ خود اپنی ذات میں ایک بر اعظم ہے۔ مگر قائد جیسا رہنمااب پاکستان میں کوئی بھی نہ تھا۔ قائد نے تو اپنا تن ، من دھن سب کچھ ہی اپنی قوم پر نچھاور کر دیا تھا۔ بنگالیوں میں سیاسی ادراک علاقے کے دوسروے لوگوں سے بڑھ کر تھا۔ یہی سبب تھا جب قائد نے ڈھاکہ میں اعلان کیا کہ بنگلہ اور اردو کی بجائے صرف اردو پاکستان کی زبان ہو گئی تو بھی قائد اعظم زندہ باد ہی کا نعرہ بلند ہوا تھا۔ قائد اعظم کے بعد 1971 تک جو بھی آیا حکمران ہی بن کر آیا۔ عوام رہنما اور حکمران کے فرق کو خوب سمجھتی ہے ۔ اسکندر مرزا اول دن سےحکمران تھا۔ اس کو دھکا دے کر اس کی کرسی پر براجمان ہونے والا ایوب خان بھی حکمران تھا۔عوام کو نظر آتا تھاسہروردی نے پاکستان اٹامک کمیشن کی بنیاد رکھی ۔ عوام جانتے تھے چین کا پہلا دورہ کس نے اور کیون کیا ہے۔عوام کو نظر آتا تھا کہ وقت کے جبر کےہاتھوں معتوب ہو کر جیل جانے والا کون ہے اور کرسی چھن جانے پر لندن چلے جانے والا کون ہے۔ اسکندر مرزا اور سہروردی مین فرق عوام کو نظر آتا تھا۔اسکندر مرزاکا وارث جنرل ایوب بنا تو عوام نے سہروردی کا وارث مجیب الرحمن کو بنا لیا۔
سال 1958 میں جنرل ایوب نے اسکندر مرزا کی کرسی پر قبضہ کر لیا تو اسکندر مرزا کو احساس ہوا کہ اس سے بنیادی غلطی یہ ہو گئی ہے کہ بیورو کریٹ ہمیشہ طاقت ور سے بنا کر رکھتا ہے ۔یہ اصول نواب سراج الدولہ کے بیورو کریٹ میر جعفر کو تو یاد تھا مگر اس کے ہونہار پڑپوتے کو یاد نہ رہا۔البتہ انگریز کو داد دینی پڑے گی کہ اس نے میر جعفر کے احسان کو یاد رکھا ہوا تھا اور جب اسکندر مرزا لندن پہنچا تو اس کی رہائش کے سارے اخراجات تا عمرانگریز نے برداشت کیے ۔ 1969میں اس کی موت پر ایران کے شہنشاہ نے برطانیہ کے کہنے پر اسکندر مرزا کی میت خصوصی طیارے سے لندن سے تہران منگائی اور تہران میں سرکاری اعزاز ک ساتھ دفن کیا۔ تہران میں اس قبر کو اس وقت سے سرکاری تحفظ حاصل ہےجب سے اس کو اکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ اسکندر مرزا کے ہاتھون معتوب ہونے والے سید حسین شہید سہروردی کی قبر پر اج بھی بنگالی ہی نہیں پاکستانی بھی پھول چڑھاتے ہیں۔ 

پیر، 17 دسمبر، 2018

ڈھاکہ سے ڈھاکہ تک ۔۔۔ 4



ڈھاکہ ہائی کورٹ کے احاطے میں ایک مقبرہ ہے جس میں پاکستان سے جڑی تین شخصیات کی قبریں ہیں ایک مولوی فصل الحق دوسرے خواجہ ناظم الدین الدین اور تیسرے حسین شہید سہروردی جن کی موت بیروت میں جلا وطنی میں ہوئی تھی ۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا 21 توپوں کی سلامی دی گئی پاکستان کا پرچم سر نگوں کر دیا گیا اور پھر ان کی میّت کو ڈھاکہ لے جایا گیا جہاں لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں ڈھاکہ ہائی کورٹ کے صحن میں دفن کر دیا گیا
مشرقی پاکستان کے دورے کے دوران 1968 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں سہروردی کے منہ پر تکیہ رکھ کر دبا دیا گیا تھا یہاں تک کہ ان کا سانس رُک گیا اور وہ فوت ہو گئے
حسین شہید سہروردی قیام پاکستان سے قبل ہی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکے تھے۔
1918 میں لندن کے "گریز ان" سے تعلیم مکمل کر بنگال لوٹ کر آنے والے سہروردی نے 1946 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آزاد اراکان کو ساتھ ملا کر کامیابی پلیٹ میں رکھ کر قائد اعظم کو پیش کی تھی۔ وہ جناح صاحب کی توقعات پر پورا اترے۔قائد نے انھیں بنگال کاوزیراعلیٰ نامزد کردیاتھا۔ قائد اعظم کے ہاتھ میں حسین شہید سہروردی کی شبانہ روز محنت سے حاصل کی گئی وہ مسلم لیگی حکومت تھی جس نے کانگریس کو ملک کی تقسیم پر مجبور کر دیا تھا
ان کے بارے میں ایک کالم نگار نے لکھا تھا حسین شہید سہروردی ہماری تاریخ کا وہ ہیرو ہے جسے شاید ہم نے بنگالی ہونے کی بناء پر وہ مقام عطا نہیں کیا جس کے وہ حقدار تھے۔قابلیت وہ ہوتی ہے جس کا مخالفین بھی اعتراف کریں گاندھی کے الفاظ ہیں کہ جناح صاحب ایک حقیقی اسٹیٹس مین، لیاقت علی خان ایک سیاست دان اور سہروردی ایک لیڈر ہے
لاہور میں کچھ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کے دوارن ایک صحافی نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ہونے زیادتیوں کے حوالے سے سہروردی صاحب سے پوچھا کہ بابا! مشرقی اور مغربی پاکستان کو کونسی طاقت متحد رکھے ہوئے ہے؟ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ تین طاقتیں ہیں ً انگریزی زبان ً ً پی آئی اے ً اور ًحسین شہید سہروردی ً
وہ پاکستان کی وحدت کے سخت حامی تھےصدر ایوب خاں کو اپنی معذولی کے بعد ایک خط لکھا جس میں یہ بھی کہا کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ وہ ایک بھارتی پولیس ایکشن کی مار ہےان کی خواہش تھی کہ ان کی اندگی میںمشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک constitutional settlement ہو جائے،
انھوں نے جنرل ایوب کو کہلوایا تھا "میں ایوب خاں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خاں صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں‘
ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔
جنرل ایوب نہیں چاہتے تھے کہ سہروردی پاکستان میں رہیں ۔

گوادر اج جو ترقی کی امید کا محور ہے۔ اس کے حصول کی ابتدا قائد ملت لیاقت علی خان کے دور میں ہو چکی تھی ۔ سہروردی نے اپنے دور میں اس کو آگے بڑہایا اور فیروز خان نون کے دور میں پاکستان اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

امریکہ نواز خارجہ پالیسی تو انہیں ورثے میں ملی تھی مگر بھارت اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو وہ پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے تھے کیونکہ بھارت سے کسی بھی چپقلش کی صورت میں انہیں امریکہ سے کسی قسم کی امداد کی امید نہیں تھی جبکہ اپنے معاہدوں کے مطابق روس بھارت کے ساتھ کھڑا تھا اس لئے اس وقت انہوں نے دیانتداری سے محسو س کیا تھا کہ پاکستان کیلئے اب چین سے دوستانہ تعلقات پیدا کرنا ہماری علاقائی اور دفاعی ضرورت بن گیا ہے
میں جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں امریکی صدر نکسن پہلی مرتبہ 1969 پاکستان سے پی آئی اے کی پرواز پر چین گئے تھے. جس کے بعد چین امریکہ تعلقات کا دور شروع ہوا تھا۔
سہروردی وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئےتو انہوں نے عہد کیا کہ وہ توانائی کا بحران دور کریں گے اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی تفاوت کا خاتمہ کریں گے۔ انہوںنے پاکستانی فوج کی تنظیم نو کابھی عہد کیا۔ خارجہ پالیسی کے حوالے سے انہوں نے سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ ایسی شراکت داری کی بنیاد رکھی جس کے تحت ایک خاص مقصد اور مفاد( ایٹمی توانائی ) کو حاصل کیا جانا تھا۔ایوب خان نے یہ کہہ کر اس منصوبے کو ترک کر دیا تھا کہ ہم غریب قوم ہیں ۔ ان اخراجات کے متحمل نہیں ہو سکتے

جنرل ایوب خان نے مارشل لالگانے کے بعد سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے اور عدالت نے یاستدانوں کو نااہل فرار دے دیا۔ سابق وزیر اعظم حسین شہید سہروردی پر بھی کرپشن کا کیس بنا۔ جو ایک فوجی عدالت میں چلا ۔ اس کیس کی روداد منیر احمد منیر نے لکھی ہے “ گیارہ برس قبل قائداعظمؒ کی عظیم الشان قیادت میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی اور اُس طرح پانچویں بڑی مملکت قائم کر دکھائی تھی۔ تقریباً یہ تمام سیاستدان 8 برس کے لیے نااہل قرار پائے۔ مارشل لا والوں کی باریک بینی اور تو کچھ نہ ڈھونڈ سکی، چاولوں کے ایک پرمٹ کو سامنے لے آئی‘ کہ جب سہرودیؒ وزیر اعظم تھے، انہوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ پنجاب اسمبلی میں ملٹری کورٹ کے سامنے یہ مقدمہ چلا۔ سہروردی صاحبؒ نے اپنے بیان صفائی میں کہا ''میں وزیر اعظم تھا۔ میں نے یہ پرمٹ جاری کیا۔ میں سیٹھ نور علی کو جانتا تک نہیں۔ مجھے اس کے لیے سفارش دو افراد نے کی تھی۔ ایک تو اس وقت ملک بدر ہے۔ دوسرا یہیں ہے۔ جو ملک سے جا چکا، اس کا نام ہے سکندر مرزا۔ اس نے بہ حیثیت صدرِ پاکستان مجھ سے اس پرمٹ کے لیے سفارش کی‘ لیکن سیٹھ نور علی کا دوسرا سفارشی یہیں ہے۔ وہ اس وقت کمانڈر انچیف تھا۔ اس کا نام ہے، جنرل محمد ایوب خاں‘‘۔ صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خاں کے بارے میں سہروردی صاحبؒ کے اس اظہار پر عدالت ہُو کے عالم میں آ گئی۔ عدالت کو پریزائیڈ ایک کرنل کر رہا تھا۔ جنرل ایوب خاں کے حوالے سے کرنل نے سہروردی صاحبؒ سے پوچھا: ''کیا انہوں نے آپ کو اس کا حکم دیا تھا؟‘‘ اس استفسار پر سہروردی صاحبؒ طیش میں آ کر گرجے: ''وہ کیسے مجھے حکم دے سکتا تھا۔ میں وزیر دفاع اور وزیر اعظم تھا۔ اس نے عاجزی کے ساتھ مجھ سے request کی تھی‘‘

بیرسٹر ظہور بٹ لندن۔ جو سہروردی کے بہت قریب تھےنے لکھا ہے
جنرل ایوب خان ایک عرصہ دراز تک اقتدار میں رہنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے
( Elective Bodies Disqualification Odrinnance 1960)
کے نام سے مارشل لاء کا ایک ضابطہ جاری کیا جسے ایبڈو (EBDO)بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد ایسے تمام سیاستدانوں کو ناہل قرار دلوانا تھا جو جنرل ایوب خان کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کر سکتے تھے اس مقصد کیلئے ایک ٹریبونل بنایا گیا جس کے چیئر مین جسٹس اے آر چنگیز تھے جو پنجاب ہائی کورٹ کے جج بھی تھے دوسرے دو ممبروں میں ایک فوجی کرنل محمد اکرم تھے اور دوسرے ایک سینئر بیوروکریٹ۔
ٹریبونل میں پیش ہو کر سہروردی صاحبؒ کہا ’’میں نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں لگائے جانیوالے بد عنوانیوں کے ان الزامات کو نفرت اور حقارت کیساتھ پڑھا ہے کیونکہ یہ سب جھوٹے اور من گھڑت ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ تمام دنیا جانتی ہے کہ کلکتہ میں وہ کتنی بڑی جائیداد کے مالک تھے جس کے عوض وہ بھی پاکستان میں متروکہ املاک پر قبضہ کرکے حقوق ملکیت حاصل کر سکتے تھے مگر انکی غیرت نے ایسا کرناگوارا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی پورے پاکستان میں ان کا کوئی ذاتی گھر نہیں ہے ڈھاکہ میں وہ اپنے دوست اور روزنامہ اتفاق کے مالک مانک میاں کے ہاں ٹھہرتے ہیں۔ کراچی میں اپنی بیٹی بیگم اختر سلیمان کی کوٹھی لکھم ہاؤس میں ہوتے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ اب جا کر کہیں ڈھاکہ میں انہوں نے ایک بیگھہ زمین خریدی ہے جس پر ایک ٹھکیدار مکان تعمیر کر رہا ہے جس کی ادائیگی وہ ماہوار قسطوں میں کر رہے ہیں جس مہینے میں قسط رُک جاتی ہے‘ اس مہینے مکان کی تعمیر بھی رُک جاتی ہے‘بہر حال یہ مکان ان کی موت تک بھی مکمل نہ ہو سکا۔ ’پھر ٹریبونل کے ممبران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ گدو بیراج اور سکھر بیراج میں ہزاروں ایکڑوں کے حساب سے تقسیم کی جانیوالی زمینیں انہوں نے اپنے نام نہیں لکھوائیں بلکہ جنرل ایوب خان اور انکے دیگر تمام جرنیلوں نے اپنے ناموں پہ لکھوائی ہیں جن میں جنرل اعظم خان سے لیکر جنرل پیرزادہ تک سبھی ملوث ہیں یہ اور بات ہے کہ انکے کرتوتوں کا علم لوگوں کو کئی سالوں بعد ہو گا خود ان جرنیلوں کا اپنا تو یہ حال ہے اور بدعنوانی کے الزامات یہ مجھ پر لگا رہے ہیں۔

کلکتہ کی عدالتوں میں جس وکیل کا نام عزت سے لیا جاتا تھاجب وہ پاکستان کی وزارت عظمی سے برخاست کیا گیا تو 1۔ دیال سنگھ مینشن مال روڈ لاہور پر اپنا دفترپر ان کااپنا وکالت کا دفتر موجود تھا ۔حکومت نے انھیں معاشی طور پر محتاج کرنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ ملک کی عدالتوں کی بار کونسلوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انھیں رجسٹر نہ کریں۔ منٹگمری کی ایک عدالت نے حسین شہید سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا۔“

منیر احمد منیر نے " ان کہی سیاست " میں لکھا ہے کہ اس وقت کے امریکی صدر ۔ امریکہ آئزن ہاور بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈا کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ اس کے عوض میں مجھے کشمیر لے دیں۔جب ان سے برظرفی کے کاغذات پر دستخط کرائے جا رہے تھے تو ان کی آنکھوں مین انسو تھے ۔ کسی نے پوچھا یہ انسو وزارت عظمی کے چھن جانے پر ہیں تو انھوں نے فولادی لہجے میں جواب دیا ۔ مجھے وزارت عظمی کے چھن جانے کا ذرا بھی دکھ نہیں ہے یہ آنسو تو اس لیے ہیں کہ ہم نے کشمیر ہمیشہ کے لیے کھو دیا

کشمیر کے لیے انسو بہاتے ، پاکستان کے اس سابقہ وزیر اعظم کو71 سال کی عمر مین جنوری کی یخ بستہ صبح 5 بجے گرفتار کیا گیا تو ان پر گاندہی سے ہاتھ ملانے کاالزام تھا جو ملک سے سنگیں غداری تھی .ان پر غداری کا مقدمہ چلا چیل بھیجے گئے ۔ مشرقی پاکستان میں ان کی رہائی کے لیے مظاہرے شروع ہونے کے خوف سے ان کو جیل سے نکال کر ملک بدر کر دیا گیا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

اردو کالم اور مضامین: پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا:   کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب...

پاکستان 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا

 کیا آپ یقین کریں گے کہ پاکستان کے ایک وفاقی وزیر قانون نے 1962ء میں اپنی ڈائری میں لکھ دیا تھا کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے؟ جی ہاں! جنرل ایوب خان کی مارشل لا حکومت کے بنگالی وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب ’’ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم‘‘ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان 1971ء میں نہیں 1962ء میں ٹوٹ گیا تھا۔ 1971ء میں تو مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کا نام دینے کی رسمی کارروائی ہوئی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم کی ڈائریوں اور جنرل ایوب خان کے ساتھ اُن کی خط و کتابت پر مشتمل یہ کتاب اُن کی صاحبزادی ڈاکٹر صوفیہ احمد نے مرتب کی ہے جو ڈھاکہ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ہسٹری اینڈ کلچر کی سابق سربراہ ہیں۔ جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں پر مشتمل یہ کتاب 1960ء سے 1966ء تک کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے اور کتاب میں حساس نوعیت کی خفیہ دستاویزات کو بھی شامل کیا گیا ہے، شاید اسی لئے یہ کتاب جسٹس محمد ابراہیم کی وفات کے  45سال بعد شائع کی گئی ہے۔ جسٹس محمد ابراہیم 1958ء سے 1962ء تک جنرل ایوب خان کی پہلی کابینہ میں وزیر قانون تھے۔ ایوب خان کے ساتھ اُن کے اختلافات کا آغاز 1962ء کے صدارتی آئین پر ہوا۔ جسٹس محمد ابراہیم پارلیمانی نظام حکومت کے حامی تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ صدارتی نظام مشرقی پاکستان کے احساس محرومی میں اضافہ کرے گا۔ انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے جو آئینی تجاویز دیں وہ مسترد کر دی گئیں۔ نومبر 1961ء کے بعد اُنہوں نے کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کرنا بند کر دی۔ جنرل ایوب خان نے اُن کو راضی کرنے کے لئے وزیر خزانہ محمد شعیب، وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ہاشم رضا کو بھیجا لیکن جسٹس محمد ابراہیم نے ان سب کو جواب دیا کہ وہ پاکستان کی تباہی کے آئینی منصوبے میں شامل نہیں ہو سکتے۔ کابینہ کے تین دیگر بنگالی وزراء حفیظ الرحمان، حبیب الرحمان اور اے کے خان بھی جسٹس محمد ابراہیم کے موقف کی تائید کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی استعفے کی دھمکی نہ دی۔ جنوری 1962ء میں حسین شہید سہروردی کو کراچی میں گرفتار کر لیا گیا تو 5فروری کو جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ملاقات کی اور انہیں کہا کہ سہروردی کی گرفتاری ایک ’’بلنڈر‘‘ ہے لیکن ایوب خان نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ میں نے اُسے ڈھاکہ کے بجائے کراچی میں گرفتار کیا ہے تاکہ زیادہ عوامی ردعمل نہ ہو۔ جسٹس محمد ابراہیم نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ صدر ایوب خان کو بھی پتا ہے کہ اُن کے صدارتی آئین کے خلاف شدید مزاحمت ہو گی اور متوقع مزاحمت کو روکنے کے لئے وہ ایک ظالم ڈکٹیٹر کے انداز میں انسانی آزادیاں چھین رہے ہیں۔ اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھنے والا دردمند شخص وزارت سے استعفے کا فیصلہ کر چکا تھا۔
حسین شہید سہروردی کو غداری کے الزام میں جیل پہنچانے کے بعد جنرل ایوب خان راجشاہی یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن سے خطاب کے لئے مشرقی پاکستان پہنچے جہاں اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی دی جانی تھی۔ جسٹس محمد ابراہیم اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کے ڈھاکہ پہنچتے ہی پورے مشرقی پاکستان میں طلبہ نے سہروردی کی رہائی کے لئے مظاہرے شروع کر دیئے۔ کتاب کے صفحہ 140پر وہ لکھتے ہیں کہ طلبہ نے پاکستان سے علیحدگی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان سے ڈھاکہ میں ملاقات کی اور استعفے کی پیشکش کر دی۔ فوجی صدر نے اپنے وزیر قانون کو استعفے سے روک دیا۔ خیال تھا کہ وہ پاکستانی عوام پر صدارتی آئین مسلط کرنے کا ارادہ ترک کر دیں گے لیکن جب اس آئین کو نافذ کرنے کا اعلان ہو گیا تو پہلے مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان اور پھر وزیر قانون جسٹس محمد ابراہیم نے وزارت قانون سے استعفیٰ دے دیا۔ حکومت نے ایک اعلامیے کے ذریعے اخبارات کو بتایا کہ وزیر قانون نے بیماری کے باعث استعفیٰ دیا ہے جس پر جسٹس محمد ابراہیم نے جنرل ایوب خان کو خط لکھا کہ وہ اپنے استعفیٰ میں 1962ء کا آئین مسترد کر چکے ہیں اور استعفے کی نقل اخبارات کو جاری کرنا چاہتے ہیں۔ فوجی صدر نے جواب میں جسٹس محمد ابراہیم کو ایسی کسی حرکت پر سنگین نتائج کی دھمکی دی۔ کتاب پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود جسٹس محمد ابراہیم نے کوئی قانونی ضابطہ اور اخلاقی روایت نہیں توڑی لیکن جنرل ایوب خان دھونس پر اُتر آئے تھے۔ اگر ٹوئٹ کا زمانہ ہوتا تو جسٹس محمد ابراہیم ایک مختصر ٹوئٹ کرتے کہ میں 1962ء کا آئین مسترد کرتا ہوں اور پھر خاموشی اختیار کر لیتے۔ لیکن وہ ٹوئٹ کے نہیں ٹیلی گرام اور ٹیلی فون کے زمانے میں زندہ تھے۔ انہوں نے جنرل ایوب خان کے دھمکی آمیز خط کے جواب میں چار صفحات پر مشتمل طویل خط لکھا اور اپنے دور کے ’’گاڈ فادر‘‘ کی دھمکی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مشرقی پاکستان کے حقوق کے لئے لڑائی کی ہے کیونکہ مجھے پاکستان سے محبت ہے۔
جنرل ایوب خان نے جسٹس محمد ابراہیم کی جگہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس محمد منیر کو اپنا نیا وزیر قانون بنایا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے یہ جج صاحب جمہوریت کے قتل کو جائز قرار دینے کے لئے نظریہ ضرورت ایجاد کر چکے تھے۔ موصوف نے وزیر قانون بنتے ہی قائد اعظمؒ کے پاکستان کو قتل کرنے کے ایک باقاعدہ اعلان کی تیاری شروع کر دی۔ جسٹس محمد منیر اپنی کتاب ’’فرام جناح ٹو ضیاء ‘‘ میں اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے وزیر قانون بننے کے بعد جنرل ایوب خان کے مشورے سے 1962ء کی قومی اسمبلی کے بنگالی ارکان سے علیحدگی یا کنفیڈریشن کے لئے باقاعدہ مذاکرات کئے لیکن ایک بنگالی رکن اسمبلی رمیض الدین نے اُنہیں یہ کہہ کر چپ کرا دیا کہ ہم اکثریت ہیں اور ہم پاکستان ہیں پاکستان سے علیحدگی کا فیصلہ اکثریت کو نہیں اقلیت کو کرنا ہے۔ 1971ء میں یہ اکثریت لڑجھگڑ کر اقلیت سے علیحدہ ہو گئی۔
جسٹس محمد ابراہیم کی یادداشتوں میں بار بار جنرل ایوب خان کے علاوہ حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق کا ذکر آتا ہے۔ اے کے فضل الحق نے 23مارچ 1940ء کی قرارداد لاہور پیش کی تھی اور سہروردی نے 1946ء میں قرارداد دہلی پیش کی تھی جس کے ذریعے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کو ایک ملک بنایا گیا۔ جنرل ایوب خان نے ناصرف سہروردی بلکہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دیا۔ سہروردی اور فاطمہ جناح کو غدار کہنے والے ایوب خان کے نام پر راولپنڈی میں ایک ایوب پارک ہے۔ اس ایوب پارک کے قریب ہی فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی ہے اور چند کلو میٹر دور اسلام آباد میں حسین شہید سہروردی روڈ اور اے کے فضل الحق روڈ بھی موجود ہیں۔ دوسری طرف 1971ء کے بعد ڈھاکہ کے جناح ایونیو کو بنگلہ بندھو ایونیو بنا دیا گیا حالانکہ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان والوں نے فاطمہ جناح کو اکثریت دلوائی تھی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے کے باوجود بہت سے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ 1962ء کے صدارتی نظام کی ناکامی کے بعد پاکستان میں 1973ء کا پارلیمانی آئین چل رہا ہے۔ کچھ لوگ پاکستان کو واپس صدارتی نظام کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جن میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سرفہرست ہیں۔ اُنہیں جسٹس محمد ابراہیم کی کتاب پڑھ لینی چاہئے اور پاکستان کو مزید ٹوٹ پھوٹ کی طرف دھکیلنے سے گریز کرنا چاہئے۔
بشکریہ روز نامہ جنگ