منگل، 13 فروری، 2018

عاصمہ جہانگیر

                                     
انسان کی عوام میں ایک پہچان ہوتی ہے۔عاصمہ جہانگیر کی پہچان انسانی حقوق کی نگہبانی تھی ، وہ اول و آخر انسانیت کی داعی تھی ۔ منافقانہ معاشرے میں وہ دور سے پہچانی جاتی تھی۔ وہ ایک عورت تھی۔مگر جرات مند و بے باک و انسان دوست اور اپنی ذات میں ایک ادارہ،

پاکستان میں نامور اور بے مثال ہستیاں پیدا ہوتی ہیں مگر پہلے سے موجود نامور اور بے مثال ان کی ذ ہنی بلوغیت سے قبل ہی ان پر سحر پھونک دیتے ہیں۔ اس سحر سے محفوظ رہ جانے والی اپنی طبیعت کے لحاظ سے عاصمہ جہانگیر تیسری عورت تھی جو مردوں پر بازی لے گئیں۔ پہلی دو کے نام محترمہ فاطمہ جناح اور محترمہ بے نظیر بھٹو ہیں۔امن انصاف جمہوریت انسانیت دوستی عاصمہ کی مٹی میں ، تو بے باکی اور جرات اس کے خمیر میں شامل تھی۔اٹھارہ سال کی عمر میں وہ بلا جھجک عدالت کے روبرو اپنے باپ کے لئے انصاف مانگنے کھڑی ہو گی۔سچ پر ڈٹ جانا اس کو ورثے میں ملا تھا۔ پہاڑ کی طرح اپنے موقتف پر جم جانا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب کھڑے ہونے کی جگہ کی مضبوطی کا احساس ہواور یہ مضبوطی سچ ہی مہیا کر سکتا ہے۔وہ سچی تھی، اس کوغلامی کی زنجیروں سے نفرت تھی ۔ تنقید کی حامی تھی اور سول حکمرانی کی داعی ۔ اس کی تنقید مگراصولی اور قانونی ہوا کرتی تھی۔
بیمار معاشرہ جہاں مرد بھی زنانہ سوچ والی زندگی گذارنے میں عافیت پاتے ہیں وہاں مردانہ سوچ اور طور طریقوں پر زندگی گزارنے والی عاصمہ نے انسانی حقوق کی نگہبانی کا بیڑا اٹھایا تو مذمت کرنے والوں کی مذمت کی پرواہ نہ کی ۔ملک دشمن اوردین دشمن جیسے بڑے الزام سہہ لئے مگر انسانی حقوق کی نگہبانی کو نبھایا۔اس میدان میں اس کی کامیابیوں کا اندازہ اس کی موت پر ماتم کنان لوگ اور دنیا بھر سے ماتمی پرسوں سے لگانا مشکل نہیں ہے۔ لوگ مادی ترقی کے لئے اور ترقی یافتہ ممالک کے پاسپورٹ کے مشتاق ہوتے ہیں مگر تلخ لہجے میں بات کرنے والی عاصمہ نے جینیوا کے ٹھنڈے موسموں کی آسائشوں میں پناہ نہ لی۔وہ غاصب کا تیوری چڑہا کر ذکر تی تھی،اسٹیبلشمنٹ اور اس کے پروردہ سیاسی اور دینی بونوں پر ساری عمر خفا ہی رہیں۔بقول یاسر الیاس :
گستاخ لگی نہ غدار لگی ہاں تھوڑی سی بیدار لگی 
مردوں کے اس ریوڑ میں اک عورت ہی جی دار لگی
اس کی جرات کا امتحان ۱۹۸۳ میں ہی نظر بندی سے شروع کر دیا گیا تھا۔ کوٹ لکھپت کی جیل میں آمرکی عدالت میں رعیت ہونے کا سلیقہ سکھا نے کی پوری سعی کی گئی مگر وہ سخت جان ثابت ہوئی۔لاہور کی مال روڈ پر پولیس کی لاٹھیاں بھی اس کے عزم کو نہ توڑ سکیں تو آمر کی مجلس شوریٰ میں توہین مذہب کی آڑ میں اس کا سر جھکانے کی کوشش نے ثابت کر دیا کہ اس سر کو جھکانا نا ممکن ہے ۔اس نے لاہور میں میراتھن ریس کا انتطام کیا تو لوگوں کویقین ہو گیا ، یہ عورت ناقابل اصلاح ہے ۔ مگر کوشش جاری رہی اوراس کو سڑک پر گھسیٹا گیا تھا۔ مگر وہ آزادی پر سمجھوتے نہ کر سکنے پر اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور تھی۔
ظلم و جبر ، لاقانونت و بے امنی اور تشددو نفرت کے رویوں کے خلاف اس آزاد عورت کے کاموں کی مخالفین بھی داد دینے پر مجبور ہیں۔ْ اصولی اختلاف پر پتہ صاف اور چار حرف بر انصاف ْ ایسی سوچ ہے کہ اس کوجبر کے علاوہ کوئی دوسرا نام دینا ممکن ہی نہیں ہے ۔ لاپتہ افراد کی بازیابی میں پاکستان کے انسانی حقوق کے ادارے اورخود عاصمہ کا بڑا حصہ ہے۔ اسلام آباد میں پشتونوں کا لانگ مارچ اسی سوچ کی مخالفت میں دھرنا دے کر بیٹھا ہوا ہے۔ ان کے لاپتہ افراد کی بازیابی کے مطالبے کی حمائت بطور انسانی حقوق کی محافظہ عاصمہ جہانگیر نے کی، اور وہاں علامتی شرکت کی۔جب ایبٹ اباد میں اسامہ بن لادن کے بعد اس کے خاندان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا گیا تو اس عورت نے ان کے حق کے لئے آواز اٹھائی۔پاکستان کی بیٹی عافیہ کو جب ظالموں کے ہاتھ بیچا جا رہا تھا ۔ اس کے بیٹے کی حمائت میں اپنے شہری فروخت کرنے والے لالچی آمر کے سامنے کھڑا ہونے کی جراٗت عاصمہ ہی نے دکھائی تھی۔حکمرانوں کی خواہشوں، ایجنسیوں کی سازشوں اور ججوں کے فیصلوں کو روک نہ پانے کے باوجود ملک اسحاق کی موت پر عاصمہ عدالت کے روبرو کھڑی ضرور ہوئی تھی۔جب عاصمہ کو کہا گیا کہ طالبان کے لاپتہ ساتھیوں کا کیس عدالت میں لڑنے کے لیے کوئی وکیل رضامند نہیں ہے تو اس کا کہنا تھا ریاست کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو لا پتہ کرے۔ایک اخبار نے عاصمہ کے خلاف لکھامگر جب اس ادارے کو ریاستی جبر کے تحت عدالت میں بلایا گیا تو ہم نے دیکھا کہ عاصمہ مجبور کی وکیل بن کے کھڑی ہے۔ایک سیاسی جماعت نے اسے گالیں دیں مگر اس نے ان کی وکالت سے انکار نہیں کیا۔وہ اول و آخر انسان تھی اور انسانیت کی ہمدرد۔
دوسروں ممالک میں زندہ رہنے کے لیے انصاف مہیا کیا جاتا ہے ہمارے ہاں انصاف کے حصول کے طویل مدت کی زندگی شرط ہے اور یہ بھی غلط نہیں ہے کہ کمزور جج نامور وکیل کی قانونی اور آئینی رائے ماننے پر مجبور ہوتا ہے۔ عاصمہ جہانگیر ایک نامور وکیل تھی۔
اقلیتوں اور معاشرے کے کمزور طبقوں کی ہمدردی نے اسے اسٹیبلش منٹ کے دلالوں کی نفرت کا نشانہ بنا دیا ہوا تھا۔ اس کو دین بیزار ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے دین دشمن قرار دیا ہوا تھا۔قصہ یہ ہے کہ اس نے سترہ مئی والے سیمنار میں عربی کے لفظ ْ امی ْ کا ترجمہ ْ ان پڑھْ کیا تواس پر تو ہیں مذہب کا الزام لگا۔جب تحقیقی کمیشن میں توہین ثابت نہ ہو سکی تو قادیانی ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔ اس نے کبھی بھی خود کو مذہبی نہیں بتایا تھا۔ نہ کبھی اس نے اس الزام کی تردید کی۔ مرتے وقت تک الزام لگانے والوں کو شکائت تھی کہ اس نے قادیانی ہونے کی تردید نہیں کی تو اعتراف کیوں نہیں کرتی۔مگر اس کا دین انسانیت تھا جس کا وہ اعتراف کرنے میں عار محسوس نہ کرتی تھی۔
تنقید کی حامی تھی وکلاء ، علماء، جج، جنرل ، سیاستدان سب اس کی تنقید کا نشانہ بنتے رہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ تنقید ہی خامی کو اجاگر کرتی ہے جو اصلاح کا موجب بنتی ہے۔ توہین رسالت کی مخالفت کا اظہار ٹی وی پر بیٹھ کر کرتی تھی۔ اور دینی طبقہ اس پر سیخ پا ہوتا تھا۔مگراس حقیقت کا ادراک کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ اس قانون کی زد میں آج تک دیندار لوگوں کی گردن ہی آئی ہے۔
عاصمہ جہانگیر سول حکمرانی کی داعی اور آمریت کی کھلی مخالف تھی ۔ اس نے منافقانہ رویہ اپنانے کی بجائے ببانگ دہل اپنے ان خیالات کا پرچار کیا۔یہ ایسا اصولی موقف ہے کہ مخالفین اس کی مخالفت نہیں کر پائے تو اسے پاکستان کا غدار اور بھارت کا ایجنٹ مشہور کرنا شروع کیا ۔مگر برہان وانی کو عاصمہ نے ہیرو قرار دیا اور بھارتی وزیر اعظم کولومڑ قرار دیا، اس نے نعرہ لگایاتھا ْ آو کشمیر کو آزادی دلاتے ہیں ْ وہ جھوٹے الزاموں کو سچ کی طاقت سے دھو ڈالنے کا سلیقہ جانتی تھی۔اس سال کے شروع میں امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کیا اور بہت سے زبان درازوں کی موجودگی میں اس ٹویٹ کے جواب میں ٹویٹ کرنے والی یہ واحد پاکستانی تھی۔
۲۰۱۰ میں بار کا الیکشن لڑا ، اس کے بعد اس کا گروپ بار کی سیاست میں سرگرم ہی رہا۔اس میں انسان کاضمیر جنجھوڑنے کی صلاحیت تھی۔ اس نے اپنی یہ صلاحیت پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر بھی پیشہ ورانہ خوبصورتی سے پیش کی۔
معاشرے کے با ضمیر لوگو ں نے اس کی خدمات کا اعتراف کیا اور اس کو ہلال امتیاز اور اورستارہ امتیاز سے نوازا، اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی اداروں نے اسے درجنوں تمغات سے نوازا اور امریکہ کی ایک یونیورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے کر اس کی خدمات کا اعتراف کیا۔
میں لاہور میں پیدا ہونے والی عاصمہ جیلانی اا فروری کو عاصمہ جہانگیر کی شخصیت مین لاہو ر میں فوت ہوئی تو پورے پاکستان کے وکیلوں نے سوگ کا اعلان کیا۔ اقوام متحدہ سمیت بین الااقوامی اداروں نے تعزیت کے پرسے ارسال کیے۔
عاصمہ اب اس دنیا میں نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں جیسا بھی گمان ہے آپ کا حق ہے مگر یہ فرض ہے کہ جائزہ لیں کہیں آپ کے گمان کی بنیاد سنی سنائی باتیں تو نہیں ہیں۔

اتوار، 11 فروری، 2018

67 کلو گرام







                                   
غربت سیاسی مسٗلہ ہے
1970 کے قومی الیکشن میں ذولفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نے روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر الیکشن لڑا اور پارٹی اکثریت سے جیت گئی۔ دراصل اس نعرے میں انسان کی بنیادی ضرورت کو اجاگر کر کے لوگوں سے ووٹ مانگے گئے تھے۔ اور حقیققت یہ ہے کہ موجودہ دور میں سیاست کی تعریف کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے اس کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ ایسا طرزحکومت جس میں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔بنیادی انسانی ضروریات یہ ہیں۔
روٹی بشمول پانی
لباس
مکان
صحت
تعلیم
سفر
معاشرے میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک خود کفیل دوسرے زیر کفالت، زیر کفالت لوگوں کو غریب کہا جاتا ہے ۔ زیر کفالت یا غریب لوگ یا غربت ایک مسٗلہ ہے
روس کے سابقہ صدر گرباچوف نے
 October 2004 
کواٹلی میں ایک سیمنار میں کہا تھا ْ غربت سیاسی مسٗلہ ہے کیونکہ دنیا میں غربت کے خاتمے کے لئے بنیادی وسائل موجود ہیں مگر سیاسی عزم کی کمی ہے ْ
دنیا بھر میں سروے کے ایک ممتاز ادارے
Statisca.com
کے مطابق دنیا بھر میں پورے سال کے دوران انسان جو گندم کھا جاتے ہیں اس کا اوسط67 کلو گرام فی آدمی فی سال بنتا ہے۔ کیاپاکستان میں عوام کی ضروریات کے مقابلے میں گندم کی پیداوار مکم ہے کہ لوگ راتوں کو بھوکے سوتے ہیں۔ اس سوال کا جواب  اتنا مشکل نہیں جتنا   حکومتی کہہ منکریوں  کے باعث بنا دیا گیا ہے  .
پاکستان میں سال 2020-21 میں گندم کی پیداوار کا اندازہ  25۔6 ملین ٹن لگایا گیا تھا ۔ جب یہ اندازہ لگایا جارہا تھا تو حکومت کے پاس کم از کم دس لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ موجود تھا۔ جادو البتہ یہ ہوا ہے کہ 7 سے 10 لاکھ ٹن گندم   /" غائب  "  ہو گئی ہے ۔ یہ غائب کرنے والے چور  اور ڈاکو ہیں جن کو حکومت مافیا کا نام دیتی ہے ۔ حکومت کے پاس ایسے ماہرین تو موجود ہیں جو غائب ہونے والی گندم کا کھرا  مافیا کے  گوداموں تک لے جاتے ہیں ۔ ایسے سوژل میدیا مشیران بھی کثرت میں ہیں جو گندم کے بحران کو بغض عمران خان سے جوڑ کر اپنے کاکنوں کو مطمن کرنے کا فریضہ بھی خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں ۔ حکومت کے پاس ایسے دماغوں کی مگر کمی ہے جو ایسا بندوبست کرسکیں کہ ہر پاکستانی کو فی فرد 67 کلو گرام سالانہ ۤٹا بہم پہنچانے کا انتظام کرسکیں ۔

ابابیلوں کا ذکر


                                                                      

حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ


حاجی صاحب [محمد افسر راہیا ] کی کتاب عظمت کعبہ کی ایک پنجابی نظم کا اردو ترجمہ
جب ابرہ کی افواج مکہ مکرمہ کے قربب پہنچ گئی اور مالک کعبہ، جو طاقت و قوت ، قدرت و استعداد میں لاثانی ہے ، کی فوج نمودار ہوئی ۔ یہ ابابیل نام کا پرندہ تہا ۔جو ایک چونچ میں اور دو پنجوں میں اٹہائے، کنکریوں سے لیس تہا ۔ یہ کمزور چڑیاں ،طاقتور ہاتہیوں کے خالق کے حکم سے اپنے رب کی طاقت کا مظہر بنیں ۔ چڑیوں کو کون کیسے روکے ۔ کنکر نے ہاتہی ، گہوڑے یا سوار کو کہایا ہوا بہس بنانے میں کچہ تمیز نہ کی ۔ مالک کی چاہت یہ تہی کہ وہ ابن آدم کو یاد دہانی کرا دے کہ قوت ، طاقت ، سدا غلبہ اور حکم اسی واحد و احد اور اکیلے کا ہے ۔ بے شک قہر و جبر اورانتقام اس کی صفات ہیں مگر اس نے خود ہی رحمت ، درگذر ،معافی اور کرامت کو اپنی دوسری صفات پر غالب کر لیا ہے ۔اللہ کو پسند نہیں کہ کوئی دشمن مکہ میں داخل ہو، کوئی ابرہ ہو کہ مشرک ہو کہ کافر ہو ،اللہ کے گہر کو تباہ کرنے کی نیت سے آنے والوں کی باقیات عجائب گہر میں داستان عبرت ہیں اور بیت اللہ بصورت کعبہ آج بہی صیح و سالم موجود ہے ۔ اے راہیا، تیرا نفس ہی تیرا دشمن ہے اور تیرا قلب تیرا کعبہ ہے تیرا کعبہ ضرور دشمن کے حملہ کی زد میں آئے گا اور تیرا بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ میں اپنے کعبے کی حفاظت کے لیے اس مالک کی طرف متوجہ ہوں جو کعبہ کی حفاظت کے لیے ابابیلیں بہیجتا ہے اور التجا کرتا ہوں کہ میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے ایک ابابیل بہیج دے۔جیسے بییت اللہ مکہ شہر میں ہے اور اسکی حفاظت کے لیے اللہ نے دشمن کی فوج کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا، میری التجا یہ ہے کہ میرے کعبہ قلب کی حفاظت کے لیے ابابیلوں کا لشکر بہیج تاکہ میرا دشمن ، ابلیس، شہر سے باہر ہی روک لیا جائے ، اس بظاہر طاقتور دشمن سے بچنا محال ہے الا یہ کہ تیری رحمت کی ایک ابابیل میرے کعبہ کی حفاظت کے لیے آئے ۔ اللہ نے اپنےگہر کی حفاظت کے لیے لشکر بہجوایا مگر میرے دل کے کعبہ کی حفاظت کے لیے رحمت کی ایک ابابیل ہی کافی ہے۔تیری بہجوائی ہوئی رحمت کی اکلوتی ابابیل بطور حفاظت میرے شہر پر پرواز کرتی رہے اور میرے شہر سے باہر جب ‘تو ہی تو’ کی آنے والی آواز مدہم ہونے لگے تو یہی میرے خوف اور مدد کے لیے پکار ہو گی ۔میرا شہر کچی خاک سے بنا ہوا جسم ہے اور اس کی بنیادیں مضبوط نہیں ہیں ، لیکن اس کی حفاظت صرف تیرے ذکر طیب ہی سے ممکن ہے ۔اس دنیا میں میرے پاس ٹہکانہ بس ایک کچی مٹی کا جسم ہے اور میرا نفس [ابرہ] اسے تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، اس کی حفاظت تب ہی ممکن ہے کہ تیری ابابیل رحمت مدد گار رہے ورنہ یہ کچا ٹہکانہ بہی نہ رہے گا ۔میں بہت گناہ گار اور نکما ہوں ، میرے پاس کوئی اچہا عمل بہی نہیں ۔ تیرے سامنے آنے کے لیے شکستہ اعمال باعث شرمساری ہیں مگر تیری رحمت ہی کا سہارا اور امید ہے ۔میں تیری رحمت کے نور میں رہوں اور تیرے معزز و مکرم محبوب نبی کے صدقے ان کی راہ میرے لیے منور رہے ۔ کہ تاریکی میں گمراہی سے محفوظ رہوں ۔میرے سامنے طویل سفر ہے ، راہ کی طوالت اور صعوبتوں کا احساس ہی نہ کیا ، سواری بہی نہ خریدی ،میں نے تو اور ہی خریداریوں میں زیادہ وقت گزار دیا ہے ۔میرے طویل سفر کی راہ مشکل، تاریک اور انجانی ہے، تیری رحمت کے نور میں ایسا رہنماء ساتہی ہو کہ راہ سہل ، منزل روشن تر ہو۔
محمد افسر راہیا [1922 -2014 راولپنڈی] راہ سلوک کے مسافر ، اور نعت گو شاعر تہے ۔ان کی تین مطبوعہ کتب پنجابی پوٹہواری میں ہيں ۔

ہفتہ، 10 فروری، 2018

جھوٹ کے سوداگر

کراچی میں نقیب اللہ محسود کو راو انور نامی ایک پویس افسر نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا ۔ نقیب کے دوستوں نے کراچی میں اس پراحتجاج شروع کیاتو سول سوسائٹی اور پولیس گردی کے شکار لوگوں نے ہی نہیں پورے ملک سے اس ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھی۔ پاکستان میں عوام کی قسمت کی ٹوکری نا انصافیوں کے وزن سے اس قدر بھاری ہو چکی ہے کہ عوام اس وزن سے ہانپ رہی ہے، وہ ہر نا انصافی پر چیخ اٹھتی ہے ۔ پاکستانی عوام کی مثال اس بوڑہی کی طرح ہے جس کو ہر ماتم پر اپنا جوان مرا ہو بیٹا یاد آجاتا ہے اور وہ دوسروں کے ماتم پر حقیقی آنسووں سے روتی ہے۔
نقیب اللہ محسود کے والد اور اس کے عزیزو اقارب ابھی کراچی پہنچے ہی تھے کہ جرگے کو برخاست کر دیا گیا۔ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو معلوم ہوا کہ اسلا�آباد میں دھرنا دیا جا رہا ہے جس کامقصد نقیب محسود کے قاتل راو انور کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہے۔اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑوان شہر کے باسیوں نے اپنے دور سے آئے مہمانوں کی ، جو اپنے بے گناہ مقتول بیٹے کے لئے انصاف مانگنے آئے ہیں، کے لئے اپنے دل و در واکر دیے۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک ریلی نکالی گئی ،بتایا گیا ، اس ریلی کا مقصد اسلام آباد میں موجود پر امن قبائلی جرگے کے ساتھ یک جہتی ہے ۔ مگر جب ریلی ختم ہوئی تواس کی باقیات میں ایک جلتی گاڑی، سلگتے دفتر اور خوفزدہ انسا نوں کی تصویریں سوشل میڈیا پر ابھریں۔ لوگ ابھی ان حالات پر انگشت بدندان ہی تھے کہ سوموار والے دن سوشل میڈیا پر پختوں لانگ مارچ کی ہمدردی میں ٹویٹس میں ایک نیا رنگ پیدا ہوا ، اس میں سب سے چکمدار رنگ افغانستان کے صدر کا تھا۔اس سال کا افتتاح امریکہ کے صدر نے اپنے ایک پاکستان مخالف ٹویٹ سے کیا تھا۔ اس سے دو ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ نے کوریا میں بیان دیا تھاکہ اگر پاکستان نے ڈو مور کے امریکی مطالبے پر عمل نہ کیاتو اپنے کچھ علاقوں پر حکمرانی سے محروم ہو سکتا ہے۔
قوالی گائیکی کا ایک انداز ہے جو بر صغیرمیں پایا جاتا ہے، علاقوں پر قبضے کی جنگ کے درمیان ٹویٹس کی قوالی کا پہلا مصرعہ کوریا ایک امریکی نے گایا ہے، واشنگٹن نے ساز کو چھیڑا ہے اور کابل نے سر میں سر ملا کر اپنا کھایا پیا حلال کیا ہے۔ اسی پر بس نہیں ہے بلکہ آنے والے دنوں میں ، موٹی توند والے، بہت لوگ بھارت اور خود پاکستان کے اندر سے اس قوالی کا حصہ بنیں گے۔مگر تاریخ سے بے بہرہ اور چمک کے شیدائی یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قبائل وہ لوگ ہیں جو پاکستان سے محبت کرنے والی بہادر ماوں کا دودھ پی کر جوان ہوتے ہیں اور محنت مزدوری کو پرائے ڈالروں پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ اپنی آزادی چمک اور مفروضوں پر قربان نہیں کرتے بلکہ آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ پاکستان اور پاکستان کے دفاع میں اس علاقے میں یہ اسلام اور پاکستان کا پہلا دفاعی حصار ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جب یہ کہتے ہیں ْ وہ مسلم جن کا نشانہ کابل ہے ، ایک دن یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ اسلام آباد ، کابل کی نسبت آسان ہدف ہے ْ تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جن کو وہ مسلم کہتے ہیں وہ مسلمان ہیں ان کا ہدف کابل نہیں بلکہ غیر ملکی طاقتوں کا افغانستان سے انخلاء ہے۔اور غیر ملکی فوجوں کو ایک دن افغانستان سے جانا ہی ہوگا۔ ایک زمانہ تھا جب امریکہ کی دھمکی پر حکمرانوں کی پتلون ڈھیلی ہو جاتا کرتی تھی۔امریکہ اس بات پر متعجب ہے کہ اس کی ایک فون کال پرڈھیر ہو جانے والوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ کسی دھمکی پر خوفزدہ ہی نہیں ہوتے۔ امریکہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ لیٹ جانے والے فرد تھے وہ قوم کے نمائندے نہیں تھے ۔ اب امریکہ کا پالا عوام کے منتخب کردہ رہنماوں سے ہے۔ فاٹا سے جو لوگ الیکشن جیت کراسمبلی میں پہنچے ہیں وہ عوام کی حقیقی منتخب آواز ہیں۔
اگر دشمن یہ سوچتے ہیں کہ وہ نقیب اللہ محسود کے خون پر ٖفاٹا کے لوگوں کی غیرت کا سودا کر لیں گے تو وہ جان لیں ان کی سوچ احمقوں والی ہے۔ پاکستان میں ہماری جوجدوجہد ایک محسود قبیلے کے نقیب اللہ کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے تمام بے گناہ نقیبوں کے لئے ہے ، ہم نے اس دھرنے کے بہانے چھ درجن سے زائد لاپتہ افراد کو ان کی ماوں تک پہنچا دیا ہے ، ہم نقیب کے قاتلوں کو بھی ڈہونڈ لیں گے مگر ۔۔۔ اے امن کے دشمنو! ہمیں تو خود تم پر شک ہے کہ تم نے ہی معصوم نقیب اللہ محسود کے قاتل راو انور کو چھپا کے رکھا ہوا ہے تاکہ تم غلط فہمیوں ، جھوٹ اور پروپیگنڈہ کے زور پر اس جنگ کو فاٹا کے اندر تک لا سکو۔ 


جمعہ، 9 فروری، 2018

جواب درکار ہے

                               
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کا پل ہے جو مختلف شہروں سے آنے والے رستوں کو ملاتا ہے ۔مگر اس کی وجہ شہرت نومبرکا تحریک لبیک والوں کا دھرنا ہے جس نے اس چورستے کو پاکستان بھر میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے باہر بھی مشہور کر دیا۔ اس مشق میں شامل لوگوں سے ہم نے ملاقات کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ ان کے یہاں آنے کے مقاصد کیا ہیں اور اس دھرنے سے انھیں کیا حاصل ہو گا۔ مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر نے کہا تھا ْ بچپن سے دیکھ رہا ہوں خدا امیروں کے ساتھ ہے ْ 
The Guardian 2016 may
گارڈین اخبار میں گایلز فریسر کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان کامیابی کے رستوں سے پھسل جاتا ہے تو وہ مذہب کا سہارا لیتا ہے ۔ تیسری دنیا جو عام طور پر مسلمان ہیں ۔۔ کیا ترقی اور کامیابی کی شارع سے پھسلے ہوئے لوگ نہیں ہیں ؟ اگرگاڑی کو ایک سو چالیس کلو میٹر کی رفتار سے دوڑنے کے لیے ہموار موٹر وے دستیاب ہے تو چنگ چی میں چار کلومیٹر کا سفر سوار اور سواری دونوں کا پنجر ہلا کے رکھ دیتا ہے۔ اور مورال آف سٹوری یہ ہے کہ گاڑی میں سفر کرنا ہے تو گلیوں سے نکلو اور کسی کالونی کے باسی بن جاو۔
کالونی کا تصور سوویٹزرلینڈ سے درآمد شدہ ہے تو کالونی کے گردا گرد اونچی دیوار سے کالونی کے اندر باسیوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ اسرائیل کی پیداوار ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام اس سوچ کو معاونت فراہم کرتا ہے ۔پاکستان میں کالونیوں کے باسیوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے مگر اجتماعی وسائل اور خدمات کی دستیابی اور معیار کیسا ہے آپ خود اندازہ کرلیں۔ زیادہ دماغ کھپانے کی زحمت سے بچتے ہوئے صرف اصول عرض ہے کہ خدا قوی اور صاحب استعداد ہستی ہے مگر وہ دنیا میں اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے اپنی مخلوق کو ذریعہ بناتا ہے۔ اگر پاکستان سمیت دنیا بھر میں صرف سرمایہ ہی حکمرانی کا حقدار ہے تو پھر مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ایک ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کا کہا ہوا سچ ہے کہ خدا امیروں کے ساتھ ہے ۔ اگرآپ سکول کے ٹیچر سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی آپ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ خدا غریبوں کے ساتھ ہے ۔
1940
کے بعد دنیا میں ایک ایسا خاموش انقلاب برپا ہوا ہے ، ہوا یوں کہ ایک شخص نے بیانیہ جاری کیا، چند معروف اور معاشرے کے مانوس لوگوں نے اس بیانیے کو دانشوری کے کوہ طور کا سنگ قرار دیا، مزید لوگوں نے اس پتھر کو مقدس اور مبارک مشہور کیا ، اسی گروہ کے لوگوں نے اس کی تقدیس کے بیانئے اور ترانے لکھے اور معاشرے نے اس تقدیس سے تبرک حاصل کرنا شروع کر دیا۔ اس سارے عمل میں جادو یہ ہے کہ عوام کو جاہل رکھ کر سحر زدہ رکھو۔ سرمایہ داری نظام کی یہ حکمت عملی کامیابی سے جاری و ساری تھی کہ اس نظام کی کوکھ سے گلوبل ولیج میں سوشل میڈیا نے جنم لیا۔ اور ایک دہائی بعد ہی ْ جاہل ْ بہت سے مفروضوں سے انکاری ہو گیا۔ پروپیگنڈہ کے بعد جعلی خبروں نے اس گروہ اور اس کے کاسہ لیسوں کو بے نقاب کر دیا۔
تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے ہر تبدیلی طاقت کی مرہون منت ہوتی ہے ، جب مدینہ المنورہ سے انسانیت کا ایک قاٖفلہ مکہ کی طرف بڑہا تھا تو اس کے پاس ایک سوچ یا ذہنیت یا عقیدے کی ْ متاع ْ تھی ۔ جوقافلے کے افراد کے قلوب میں گہری رسوخیت رکھتی تھی اور وزن میں بہت بھاری تھی۔ابو سفیان نے صاف کہہ دیا تھا یہ بھاری پتھر اٹھانا مکہ والوں کے بس میں نہیں ہے۔
مرور زمانہ میں یہ متاع لٹتی گئی ، ڈاکووں نے پلاننگ بیسویں صدی کی ابتداء میں ہی شروع کر دی تھی اور آخری ڈاکہ ترکی کے ایک شہر میں دن دیہاڑے پڑا تھا ۔انسانیت کا سر ننگا ہو گیا۔
آج کا انسان فیض آباد کے پل تک پہنچ گیا ہے ، اس کے پاس متاع میں وہی کچھ ہے جو مدینہ المنورہ سے مکہ کی طرف بڑہتے قافلے کے پاس تھی ، نام اس متاع کا ْ حب النبی ْ ہے ۔ یہ آزمودہ کارگر ہے، اگر مکہ والوں جیسے بہادر اس وقت اپنے گھروں میں دبک گئے تھے تو اب تو ایسے بہادر خود مکہ میں بھی ناپید ہو چکے۔ اس وقت اگر یہ متاع سنگ گراں تھی تو اج بھی اتنی ہی بھاری ہے ۔ مگر مسٗلہ یہ ہے کہ اس وقت کے ْ رہنماء ْ کا فخر فقر تھا مگر اج کے رہنماوں کا فقر ان کا فخر نہیں بلکہ کمزوری ہے ۔
مظفر گڑھ سے آئے ہوئے ریٹائرڈ سرکاری سکول کے ٹیچر کے پاس ایک کتاب تھی ۔ جس میں لکھا ہوا اس نے پڑھ کے سنایا تھا ۔ ترجمہ اس کا یوں ہے ْ اسلام غریبوں کا دین ہے ْ 
اگر یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے کہْ کیا مسلمان ہونے کے لیے غریب ہونا لازمی ہے ْ تو عرض ہے کہ خود مجھے اس سوال کا جواب درکار ہے