جمعرات، 4 جنوری، 2018

ائرمارشل اصغر خان



پاکستان ائرفورس کے پہلے پاکستانی سربراہ ئرمارشل اصغر خان آج 5 جنوری 2018۸ کو96 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔انھوں نے 1920 میں 19 سال کی عمر میں رائل انڈین ائر فورس میں بطور کیڈٹ شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے برطانیہ کے بہترین اداروں سے تربیت حاصل کی اور آخری ڈگر ی امپیریل دیفنس کالج سے لی۔قیام پاکستان کے وقت وہ پاکستان ائر فورس اکیڈمی کے پہلے سربراہ مقررہوئے اور 1957 میں پاکستان ائر فورس کے پہلے پاکستانی سربراہ مقرر ہوئے۔ اور 1965 کی جنگ سے قبل مستعفیٰ ہوئے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں ملک کے لئے دوبارہ خدمات پیش کیں اور اس جنگ کے ہیرو گردانے جاتے ہیں۔عوام نے انھیں شاہین پاکستان کا خطاب دیا۔جنگ بندی کے بعد پی آئی اے کے سربراہ مقررہوئے اور 1968 تک خدمات انجام دیں۔
انھوں نے 1970 میں تحریک استقلال کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی اور سیاست میں سرگرم رہے مگر الیکشن میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اور 2012 میں اپنی سیاسی پارٹی کو پاکستان تحریک انصاف میں مدغم کر کے سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔
وہ انسانی حقوق کے سرگرم سرپرست رہے اور ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انسانی حقوق کے کمیشن نے انھیں سونے کا تمغہ عنائت کیا. جناح سوسائٹی نے انھیں جناح ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ 

تہذیوں کی جنگ

عالمی سیاست میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ تیزی بھی دکھائی دے رہی ہے ۔عالمی قوتیں اس قدر جلدی میں ہیں ، ایک ملک کے امن کو دیاسلائی دکھائی جاتی ہے اور حالات پر تیل چھڑک کر دوسرے ملک کا رخ کر لیا جاتا ہے ۔ فلسطین میں قتل و غارت پر ماتم کناں انسانیت کی افسردگی اور بے چارگی سے شہہ پا کر ٹرمپ نامی انسانیت دشمن خونی پاکستان پر چڑھ دوڑا ہے ، اور کہا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان تو چند دنوں کی معاشی مار ہے اور پاکستان کی سیکورٹی معطلی کے اعلان کے موقع پر امریکی ترجمان کے لہجے کی رعونت یہ رہی کہْ جب تکْ پاکستان امریکہ کے اطمینان کے مطابق اپنے ہاں سے دہشت گردی کے اڈے ختم نہیں کرتااس وقت تک امداد اور سیکورٹی معطل رہے گی اور جب پاکستان یہ کر لے گا تو پھر امداد کی بحالی کا سوچا جا سکتا ہے ۔ 

امریکی صدر نے سعودیہ کے دورے کے دوران جہاز میں ْ اپنے میڈیا ْ کے لوگوں سے بات چیت کی جو بعد میں ایک امریکی اخبار میں اور وہاں سے شرق الاوسط کے ایک جریدے میں نقل ہوئی ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے اور امریکہ کو اپنی یہ طاقت استعمال کر کے دنیا پر اپنے رعب کو بحال کرنا ہو گا اور یہ محتاج ممالک
 Client States
 پر دھاک سے ہی ممکن ہے ۔القدس کے مسٗٗلے پر دھاک جما لینے کے بعد ہی اکلوتی سپر پاور کا رخ پاکستان کی طرف ہوا ہے ۔اور ابھی پاکستان رد عمل کی تیاری میں ہی ہے تو سوچ لیا گیا ہے کہ پاکستان نے تو خود کشی کا راستہ اختیار کر ہی لیا ہے لہذا خطے میں پاکستان کے متبادل کے طور پر امریکہ کی نظر ایران پر ہے۔

مریکہ کا خیال ہے کہ ایران خطے میں تنہا ہے ، اس کے ہمسائیوں میں بھارت اسرائیل کی محبت میں کلی طور پر امریکہ کے ساتھ ہے۔شام اور عراق برباد ہو چکے ہیں۔سعودیہ اور ایران کے حالات ْ تومار یا میں ماروںْ تک کشیدہ ہیں ۔ پاکستان کو اپنی فکر لاحق ہو چکی ہے ۔ واحد سہارا ایران کی اندرونی یکجہتی ہے مگر اس کے خلاف امریکہ کھل کر سامنے آ چکا ہے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک میں حکومت مخالف ایرانی عناصر سر گرم ہو چکے ہیں ۔ جمعرات کے دن ایرانی حکومت کے مخالفین کی جانب سے جو تصویریں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئی ہیں ۔ان میں یہ تصویر بھی شامل ہے۔
القدس میں سفارت خانے کی منتقلی کے بعد لگتا ہے امریکہ نے یقین کر لیا ہے کہ اس کی دھاک کو تسلیم کر لیا گیا ہے ۔ اسی لیے پاکستان کو کسی قابل ہی نہیں سمجھا جا رہا اور ایران میں مظاہرین کی اعانت شروع کر دی گئی ہے ۔ امریکی عوام پر ایسا بدبخت ٹولہ مسلط ہو گیا ہے جس کو خود امریکہ میں مست ہاتھی کہا جا رہا ہے ۔ حالانکہ امریکہ دنیا کا با خبر ترین ملک ہے ۔حکمران ٹولہ اپنے تھنک ٹنکس کی سنتا ہے نہ جرنیلوں کی ۔قدرت کو معلوم نہیں کس کا امتحان مقصود ہے ۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ ہر امتحان کے بعد نتیجہ کامیابی یا ناکامی کی صورت میں نکلتا ہے۔ امریکہ نے خطے میں بہت وسیع امتحان گاہ چنی ہے اور اس کو یقین ہے کہ امتحان میں کامیابی چوہدری کے صاحبزادے کو ہی ہونی ہے ۔اور اس یقین دہانی میں بھارت کا بہت بڑا کردار ہے ، اور یہ طے ہے کہ بھارت نے پاکستان اور ایران کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا ہے ۔ مگر رولا یہ ہے کہ اس خطے میں بسنے والے مسلمان( جو امریکہ کے نزدیک کمی کمین ہیں ) سترہ سالوں سے اسی امتحان کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور یقین یہ ہے کہ یہ ْ کمی کمین ْ دہاندلی کے باوجود پاس ہوں یا نہ ہوں البتہ فیل نہیں ہوں گے ۔مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے یہ جذباتی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستانیوں کے بارے میں امریکہ کی سوچ رعونت پر مبنی ہے تو ایران کے بارے اس کا یہ یقین کہ شیعہ ایران ،ایران کے اندر ،شام اور عراق میں شیعہ سنی لڑاہیوں کے باعث سنیوں کو اپنا دشمن بنا چکا ہے ۔ 

علاقے میں جاری تصادم مسلکی ہیں یا ان کا سبب معیشت ہے اس کا فیصلہ بھی اب امتحان کے بعد ہی ہو گا ۔ امریکہ جو کشیدگی دین کی بنیاد پر شروع کیے ہوئے ہے اس کشیدگی کو اسرائیل کی شہہ اور بھارت کی معاونت نے جنگ کے شعلوں میں تبدیل کرنا ہے ۔ اور اگر ( خدا نہ ، نہ ، نہ کرے ) جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے تو یہ تیسری عالمی جنگ کی ابتداء ہو گی اور یہ جنگ افغانستان کی طرح سترہ سالوں تک بے نتیجہ نہیں رہے گی مگر سرعت کے ساتھ اس کا رخ سرمایہ داری 
Capitalism 
نظام کے خلاف ہو جائے گا ۔اس کے متحارب فریق ممالک نہیں بلکہ مفلوک الحال لوگ بمقابلہ سرمایہ دار ہوں گے ۔ سابقہ امریکی صدر بش نے افغانستان پر حملہ آور ہوتے وقت امریکیوں اورمغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ یہ جنگ ان کے گھروں سے دور لڑی جائے گی ۔جس جنگ کی ابتداء ہی بے اصولی پر ہو چکی ہے وہ کسی امریکی صدر کے اصول کی پابند کیوں اور کیسے رہ سکے گی کہ بھوک مسلمان کی ہو یا عیسائی کی اس کا مداوا روٹی ہی ہے ۔ ایک امریکی دانشور نے لکھا تھا نا کہ یہ جنگ تہذیوں کی ہو گی ۔ اس نے سچ لکھا تھا۔ تہذیبیں مگر دو ہی ہیں ایک سرمایہ دار دوسری مفلوک الحال۔

بدھ، 3 جنوری، 2018

قیامت کا منظر




امریکی صدر کے نئے سال کے ٹویٹ نے پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔جہاں عراق کے ہر دل عزیز صدر صدام حسین 1990 میں کھڑے تھے ۔ عشروں اقتدار میں رہ کر انھوں نے عراق کے اندر بہت نام کمایا ۔ میں نے ان کے دور اقتدار میں ایک سال بغداد میں گذارااور بغداد کی گلیوں اور اقتدار کی راہداریوں کو قریب سے دیکھا ۔ اور اپنے گمان کی بنیا د پر نہیں حقائق کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ صدام عراقیوں میں مقبول ترین شخصیت تھا۔ مگر اس کا جو انجام ہو ا سو ہوا مگر صدام کا عراق بھی اجڑ گیا۔ 
کیوں؟
صدام نے احمد حسن البکر کی معیت میں عربوں کو یکجا کرنے کا بیڑا اٹھایا تھامگر اس نے ایران کے ساتھ جنگ کی ، کویت پر چڑھ دوڑا اور سعودیہ کو ایسی آنکھیں دکھائیں کہ سعودیہ نے امریکہ کے ذریعے اس 
کی آنکھوں کا نور ہی چھین لیا ۔ اور یہ تینوں صدام کے ملک کے ہمسائے تھے۔

نئے سال کے پہلے دن امریکی صدر کے ایک ٹویٹ نے پاکستان کے اندر ہلچل سی مچا دی ہے ۔ ایک بحث چل نکلی ہے امریکہ حملہ کر دے گا ، دوسری آواز آتی ہے نہیں کر سکتا ، اس کو ویتنام میں مار پڑھ چکی ہے ، بے خانمان طالبان نے اسے سولہ سالوں سے افغانستان میں بکری بنایا ہوا ہے۔ایک آواز ہے امریکہ پر چار حرف بھیجو اور چین پر انحصار کرو۔ ایک آواز ہے امریکہ ایک مست تیز بھاگتاہے اس سے بچو اور اس کا رخ کسی دوسری طرف موڑوکہ افغانوں کے پاس بچانے کے لئے کچھ بھی نہ تھا مگر ہمارے پاس تباہ 
 کرانے کے لئے بہت کچھ ہے ۔ 

مسٗلہ اسقدر گھمبیر ہے اور واقعات اس تیزی سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں کہ اب سوچ بچار سے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ ہمارا سارا زور قوم کی ذہن سازی اور تیاری میں لگا ہوا ہے مگر حکومت نے قابل تحسین کام یہ کیا ہے کہ اپنے سفارت کار دنیا کے اہم ممالک کے دارلحکومتوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے جو پاکستان کا کیس دینا کے سامنے رکھیں گے اور ہم پر لگائے گئے الزامات ْ جھوٹا ْ اور ْ دغا باز ْ کو غلط ثابت کریں گے ۔ یہ بہت اچھا فیصلہ ہے مگر ہمیں اپنے ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے ْ انا ْ اور ْ تباہی ْ میں سے ایک کو چننا ہو گا ۔ افغان کے بارے میں کہہ دیا گیا ہے کہ افغانستان جانے اور افغان جانیں۔ ایران کے ساتھ ہمارے مسائل ہیں مگرعام پاکستانی بھی جانتا ہے کہ وہ بد گمانیاں ہیں۔ بد گمانی بھارت کے ساتھ بھی ہے ۔ صدام کے بارے میں بھی تینوں ہمسائیوں ہی کو بد گمانی تھی ۔ 

کہا جاتا ہے کہ اصل مسٗلہ اندرونی خلفشار ، سیاسی و دینی تقسیم ہے ۔ اس تقسیم کو پاک افواج ختم کرانے کی استعداد یوں رکھتی ہے کہ سپہ سالاراس مقام پر ہیں کہ وہ متحارب گروہوں کو ایک میز کے گرد بٹھا سکتے ہیں ۔ ملک کے اندر یہ کام کر لیا جائے تو ہمارے پاس اپنے ہمسائیوں اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں بات کرنے کے لئے ہمارے پاس ایسے پاکستانی دستیاب ہو جائیں گے جو ہمار ا کیس بہتر طور پر لڑ سکتے ہیں ۔ عمران خان کی شخصیت کا سحر لندن اور واشنگٹن میں کھل کر سامنے آ سکتاہے تو نواز شریف کی بات کو دہلی میں پذیرائی حاصل ہو سکتی ہے۔دونوں سیاستدانوں کی حالات پر فکر مندی کے بیانات آ چکے ہیں ۔لہذا یہ نا ممکنات میں سے نہیں ہے ۔ 

اتوار، 31 دسمبر، 2017

بے نظیر کی ڈائری



میرے دوسرے دور حکومت میں مجھے جی ایچ کیو میں سیکورٹی کے بارے میں بریفنگ کے لئیے دعوت دی گئی ڈائریکٹر آف ملٹری آپریشنز میجر جنرل پرویز 
مشرف (جو بعد میں چیف آف اور صدرمملکت بنا) نے بریفنگ دی
اس بریفنگ میں ایک بار پھر دہرایا گیا کہ پاکستان سرینگر پر قبضہ کیسے کرے گا مشرف کے آخری الفاظ کے مطابق جنگ بندی ہوجائے گی جبکہ سری نگر پاکستان کے قبضے میں ہوگا اس کے بعد کیا ہوگا ؟میرا سوال تھا وہ میرے سوال پر حیران ہوا اور کہنے لگا اگلا قدم یہ ہوگا کہ پاکستان کا جھنڈا سرینگر پارلیمنٹ پر لہرا رہاہوگا اس کے بعد کیا ہوگا؟؟ میں نے پھر سوال کیا ، آپ اقوام متحدہ کا دورہ کریں گئی اور انہیں بتائیں گئ کہ سرینگر پر پاکستان کا قبضہ ہے ، اور پھر کیا ہوگا میں نے سوال کیا ، مجھے محسوس ہوا کہ جنرل مشرف نے ایسے سوالات کے جوابات کی تیاری نہیں کی تھی وہ گھبرا گیا اس نے کہا آپ انہیں دنیا کی نقشے میں تبدیلی کے لئیے کہیں گئی اور نئے جغرافیائی حقائق کو تسلیم کرنے پر توجہ دلائیں گئی،
اور کیا آپ جانتے ہیں اقوام متحدہ مجھے کیا بتائے گی میں نے جنرل مشرف کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے استفسار کیا ، کمرے کا ماحول سنجیدہ ہوگیا ، میں نے زور دے کر کہا سلامتی کونسل ہمارے خلاف مذمت کی قرارداد پاس کرے گی اور ہمیں سرینگر سے واپسی کا مطالبہ کرے گی ہمیں اپنی کوششوں کا کوئی صلہ نہیں ملے گا بلکہ بےچارگی اور تنہائی ہمارا مقدر ہوگی اسکے بعد میٹنگ کا اختتام کر دیا گیا ، ،

جمعرات، 28 دسمبر، 2017

ایک ہی رستہ




پاکستان خاص طور پر اور امت مسلمہ عام طور پر اس وقت عالمی ْ نفرت ْ کا شکار ہو چکی ہے ۔اور تلخ 
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کے خون کی ارزانی کا عالم یہ ہے کہ اس کی موت کا دکھ صرف اس کے خونی 
رشتے داروں تک محدود ہو گیا ہے۔



بوسینیا میں مسلمانوں کو بھیڑ بکریوں کی منتقلی میں استعمال ہونے والے لوہے کے ایسے پنجروں میں بند کیا جاتا تھا جس میں انسان پوری طرح بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا۔ تین دنوں سے قید اس پنجرے میں کچھ تو مر گئے اور جو زندہ تھے ان کی حالت یہ تھی کہ کئی منزلہ اس پنجرے کے اوپر والی منزل کا قیدی فطری حاجات پوری کرتا تو وہ نچلی منزلوں کے قیدیوں کے جسم اس سے آلودہ ہوتے ۔

بوسینیا کے بعد یہ ظلم کی داستان افغانستان سے بغداد تک دہرائی جاتی رہی، اور گوانتنامو بے ابھی تک وجود ہے اور اسرائیل کی جیلوں کے اندر فلسطینی مردوں ، عورتوں اور معصوم بچوں پر جو مظالم ڈہائے جا رہے ہیں ان کا تصور کر کے ہی انسان کی روح کانپ جاتی ہے ۔ مگر عالمی برادری سے زیادہ بے حسی مسلمان ممالک کے حکمرانوں پر طاری ہے۔ اور کڑوا سچ یہ ہے کہ اکثر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ہاتھ اپنی ہی رعایا کے خون سے آلودہ ہیں۔ذاتی لالچ اور اختیارات کی طمع نے ان کے سوچنے اور دیکھنے کی قوت سلب کر لی ہے اور بدیسی آقاوں کے خوف نے ان کی زبانوں کو گنگ کر دیا ہوا ہے۔ ہر قسم کی بد امنی اور خون ریزی کا الزام مسلمانوں ہی کے سر آتا ہے۔ ایسی جنگ ہے جو امن کے نام پر لڑی جا رہی ہے اس میں مرنے والے صرف مسلمان ہی ہیں اور جو زندہ ہیں وہ نان جویں کے حصول میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ 

سیاسی اور مذہبی تقسیم در تقسیم نے ہمیں بالکل ہی بے وقعت کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ یہ گتھی نہ سلجھا سکا کہ امن کے دروازے کو کہاں تلاش کیا جائے، ہمارے دینی رہنما ایسا وظیفہ ڈہونڈ نہ پائے جو اثر پذیر ہو تا۔حالت یہ ہے کہ ماہرین میں سے کوئی مشورہ دینے کی جرات کرے تو اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس پر تبرہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔

پاکستان ان انگلیوں پر گنے جانے والے ان مسلمان ممالک میں شامل ہے جس کے حواس قائم ہیں ۔ورنہ اکثر ممالک میں مایوسی امید پر غالب آ چکی ہے۔ ہم معاشرتی اور معاشی طور پر بے وقعت ہو جانے کے باوجود اپنے اخلاق اور رویوں کو بہتر کر کے کم از کم مہذب دنیا میں انسان کہلانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم بتدریج صرف اپنے اخلاق ہی کو بہتر کر لیں تو بہت جلد ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ اپنی بھنور میں ڈنواڈول ناو کو طوفان سے نکال سکتے ہیں۔ 

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو جس کوپاکستان کی ایک فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی ہوئی ہے ، حکومت پاکستان نے 25 دسمبر کو اس کی والدہ آوانتی اور اہلیہ چیتانکل سے ملاقات کرائی۔ جب کسی ملک کا کوئی جاسوس دوسرا ملک گرفتار کرتا ہے تو اس کے اعتراف جرم کے اس کو کسی قسم کی رعائت نہیں دی جاتی ۔ مگرپاکستان نے بھارت کے جتنے بھی جاسوس پکڑے اج تک کسی کو عملی طورپر سزائے موت نہیں دی گئی۔کلبھوشن جو3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار ہوا ۔ وہ حسین مبارک پٹیل کے فرضی نام پر غئر قانونی طریقے سے پاکستان میں داخل ہوا تھا۔ 10 اپریل2017 کو ایک فوجی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی تھی، بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں پاکستان فیصلے کے خلاف اپیل داخل کی جس پرعالمی عدالت نے اس مقدمے کے فیصلے تک پھانسی پر عمل درآمد روک دینے کی سفارش کی ہے۔ 

اس دوران پاکستان نے خالص انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جاسوس قیدی کی اس کے اہل خانہ سے ملاقات کا انتظام کیا۔ قیدی کی والدہ آوانتی اور اس کی اہلیہ چیتانکل نے 25 دسمبر کو 30 منٹ تک ملاقات کی جو در حقیقت 40 منٹ تک جاری رہی۔ اس ملاقات کے لیے آنے والی اس کی اہلیہ کے جوتوں میں ایک 
chip
چھپا کر لائی گئی جو دوران تلاشی بر آمد کر لی گئی۔جس پر بھارت کی سراغ رسان ایجنسی را کے حصے میں بدنامی ہی آئی کہ اس نے اپنے ہی ملک کے شہری کو جو مکمل طور پر بھارتی حکومت کے رحم و کرم پر تھی اور اپنے قید خاوند سے ملاقات کے لئے آئی تھی کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ را کی اس حرکت پر بھارت میں سنجیدہ حلقوں میں اس حرکت کو ایک اوچھی حرکت قرار دیا ہے۔ وزارت خارجہ نے خاتون کو متبادل جوتے فراہم کر کے چپ والے جوتے اپنی تحویل میں لے کر تحقیق کے لیے فورسونک لیبارٹری میں بجھوا دئے ہیں۔را کی اس حرکت کے باوجود پاکستان نے ملاقات کی اجازت دی جس پر قیدی کی ماں نے پاکستانی وزارت خارجی کا شکریہ ادا کیا۔

یہ ملاقات کر ا کر پاکستان نے اخلاقی فتح حاصل کی ہے ۔پاکستان کے معروف صحافی حامد میر نے تجویز پیش کی ہے کہ امت مسلمہ کے موجودہ بے چارگی کے حالات میں ہم اخلاقی طور پر انسانی ہمدردی کے طور پر فیصلے کر کے دنیا میں اپنے بدنام ہوتے چہرے کو بچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم حامد میر کی اس تجویز سے مکمل اتفاق کرتے اس کی تائید کرتے ہیں۔اور حکومت پاکستان کیطرف سے انسانی ہمدردی 
کے تحت دی گئی ملاقات کی سہولت پر حکومت پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس اخلاق کے علاوہ پیش کرنے کے لیے بچا ہی کیا ہے