پیر، 25 دسمبر، 2017

تقسیم کی دیوار


آج 25 دسمبر 2017 کے دن ہم پاکستان میں ہم کرسمس منا رہے ہیں اور قائداعظم کا یوم پیدائش بھی ، اسی ہفتے پاکستان میں قتل کے ایک مقدمے میں ملوث ایک امیر زادے کی رہائی پر پاکستان کے قانون عدل پر تبصرے موجود ہیں ، اسی ماہ ایک ایسی عورت کی عدالت میں بے گناہی ثابت ہوئی جو اپنی جوانی جیل کی نظر کر چکی ہے۔ اسی ماہ کوئٹہ کے ایک چرچ پر حملہ ہوا اور کرسمس کے منتظر پاکستانی افسردہ ہو کر رہ گئے۔دسمبر ہی میں امریکی صدر نے اسرائیل میں اپنا سفارت خانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس اعلان پر فلسطینیوں کے پر امن احتجاج پر اسرائیل کے ظلم کے ایسے مظاہر منظر عام پر آئے ہیں کہ انسانیت پر نم ہو گئی ہے۔آسٹریلیا کے ایک شہر میں ایک نوجوان نے تیز رفتار گاڑی راہ گیروں پر چڑہا دی اور اس کے اس عمل پر مختلف زاویوں سے بحث جاری ہے۔ اسی مہینے میں دنیا بھر کی اسلامی ریاستوں کا ترکی میں اجتماع ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک اسلامی ملک کے وزیر خارجہ نے عثمانی ترک خلیفہ پر چور ہونے کا الزام لگایا ۔اسی مہینے میں اسرائیل کے وزیر اعظم نے یورپی ممالک کا دورہ کیا مگر ان کی متوقع طور پر گرم جوشی سے مہمان نوازی نہ ہوئی۔ اور اسی ماہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف ایک قرار داد پر امریکہ بالکل تنہا نظر آیا مگر ااپنی ویٹو کی طاقت کے بل بوتے پر بچ نکلا۔ مگر اسی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار دادمنظور کی جس نے امریکہ اور اسرائیل کو باقی دنیا سے الگ تھلگ کر دیا۔یہ صرف دسمبر کے مہینے کے نمائندہ واقعات ہیں ۔ پورا سال انسانیت پر نم ہی رہی ، امن عنقاء ہی رہا ۔ ظلم کے ہاتھ لمبے رہے اور ظالم کی سنگ دلی میں اضافہ ہی ہوا ۔ یہ حقیقت ہے انسانیت تقسیم ہے ، ظالم کے ہاتھ میں وسائل کا ڈندا ہے اور مظلوم بے وسیلہ ہے۔ معاشی ، معاشرتی، قانونی اور اخلاقی پابندیوں میں جکڑا انسان دیوار کے باہر حیران و پریشان ہے تو دیوار کے دوسری طرف اندرخانے میں بسنے والا انسان سائنسی ترقی سے لیس اکیسویں صدی کی ایجادات سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ 
نفرت کی دیوار کے پار جو اندرون خانہ ہے اس میں رنگ و نسل کی تقسیم ہے نہ مذہب و فرقے کی، نہ معاشرتی پس منظر پر سوال اٹھتا ہے نہ اخلاق پر۔ صرف ایک قدرہے جو سب کو متحد کئے ہوئے ہے اوراس کا نام ہے ْ ظلم ْ 
آج کے دن ہمیں اللہ کے نبی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کی تعلیمات کا اس زاویہ سے مطالعہ کرنا چاہئے کہ کہیں ہم ان کی بتائی ہوئی راہ کے برعکس ظالم ٹولے کا حصہ تو نہیں ہیں۔


قائد اعظم کا حق ہے کہ اہل پاکستان ان کی انسان دوستی، رواداری ، قانون کی حکمرانی کی حمائت ، اور عدل اجتماعی بارے ان کی تعلیمات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیں اور فیصلہ کریں کہ کہیں ہم ظلم کی دیوار کے پار ظالموں کا آلہ کار تو نہیں ہیں

ہفتہ، 23 دسمبر، 2017

غلام ابن غلام


میرے یہاں آنے کا مقصد اس قبر پر فاتحہ پڑہنے اور روحانی فیض حاصل کرنے کا تھا جس میں بلال بن رباح نامی ایک صحابی محو استراحت ہیں۔   مگر یہاں پہنچ کر اس قبر کے پاوں کی جانب کھڑے ہو کرمیرے دعا گو ہاتھ توبلند ہو گئے اور سورۃ الفاتحہ کی قرات بھی کر لی مگر میری آنکھوں کے سامنے حجاز کے شہر مکہ کا وہ منظر گھوم رہا ہے جو صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت نے بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ

 میں زمانہ جاہلیت میں حج کے لیے گیا تو دیکھا کہ بلال کو اوباش لڑکوں نے ایک رسے کیساتھ باندہا ہوا ہے 
اور انھیں ادہر ادہر گھسیٹ رہے ہیں مگر بلال مسلسل یہ بات دہراتے جا رہے ہیں میں لات ، عزیٰ ، سہل ، نائلہ ، بوانہ اور اساف تمام بتوں کی تکذیب کرتا ہوں ْ

کتابوں میں درج ہے کہ یہ پچاس گز لمبا موٹا سا رسہ اونٹ کے بالوں سے بنایا گیا تھا اس رسے کی سختی بلال کا گلہ زخمی کیے ہوئے تھِی اور اس سے خون رس رہا تھا، مگر لڑکوں کے لیے کھیل اور بڑوں کے لیے عام معمول کہ جب ایک غلام اپنے آقا کی منشاء کے خلاف سوچے تو ایسے غلام کو سبق سکھانا معمول کی بات تھی ۔شام ڈھلے اس غلام کو بھوک و پیاس کی حالت میں اس کے آقا کے حوالے کر دیا گیا جس نے اسے ایک تاریک کوٹھڑی میں بند کر دیا اور سورج غروب ہونے کے بعد اس کو برہنہ کر کے اس پر چمڑے سے بنے کوڑے سے اتنا تشدد کیا گیا کہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں،تو اذیت دینے والوں کے ہاتھ رک گئے وہ جانتے تھے بنی جمہ کی ملکیت یہ غلام ان کے ہاتھوں جان بحق ہو گیا تو ان کی بھی خیر نہیں۔
یہ ایک دن یا ایک رات کا واقعہ نہیں تھا بلکہ امیہ کا یہ زرخرید غلام دن رات اس عذاب میں مبتلاء تھا
حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ خود حضرت بلالؓ نے ایک جنگ کے دوران امیہ کی طرف اشارہ کرکے بتا یا کہ 
ْ اس امیہ نے ایک روز گرمی کے دنوں میں باندھ کر ساری رات اسی حالت میں رکھا اور پھر دوپہر کے وقت مجھے ننگا کر کے سنگریزوں پر لٹا دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیے ۔ میں بے ہوش ہو گیا ، معلوم نہیں کس نے میرے سینے سے پتھر ہٹائے ، جب مجھے ہوش آیا شام کا وقت تھا، میں نے اللہ کا شکر ادا کیا ْ 
حضرت
بلال  کے باپ کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔ حمامہ اباسینا نامی ایک بستی کی رہائشی تھی جو موجودہ اتھوپیا میں ایک قصبہ ہے ۔ حمامہ کا تعلق ایک باعزت خاندان سے تھا مگر وہ اپنے گھر سے اغوا ہوئی اور عام الفیل والے سال میں بطور کنیز مختلف ہاتھوں میں فروخت ہوتی ہوئی مکہ پہنچی ، غلامی ہی کی حالت میں اس کی شادی رباح نامی ایک عرب غلام سے ہوئی ۔ان کے ہاں  بلال پیدا ہوئے ، یعنی پیدائشی غلام۔ جب بلال جوان ہوئے تو ان کو غلامی کی منڈی میں لایا گیا جہان امیہ بن خلف نے انھیں خرید لیا۔ بلال  انتہائی محنتی ، مالک کے ساتھ مخلص ، راست گو ، منکسر المزاج ، دوسروں کا احترام کرنے والے اور خش گلو تھے۔ ان کی محنت کا یہ عالم تھا کہ دن بھر مالک کی بکریا ں چراتے اور رات کو پوری بوری غلے کی پیس ڈالتے، ۔ مگر وہ انسانی تقسیم میں بٹے معاشرے میں اپنی ذاتی خوبیوں کے باوجود ابھر نہ سکے البتہ ان کی ایمانداری اور راست بازی کے سبب عربوں کے بت خانے کی چابیاں ان کے پاس ہوا کرتی تھیں اور ان کی سریلی اور حیرت انگیز آواز نے ان کو جاہلوں کے دلوں میں ممتاز ضرور کیا تھا۔اور امیہ بن خلف کے بارہ  غلاموں میں مالک کے سب سے زیادہ فرمانبرداراور قابل اعتماد تھے۔ 

مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کو ایسی درد بھری اذیتیں دی گئی کہ پڑھ کر انسان افسردہ اور انسانیت شرمندہ ہو جاتی ہے مگر مکہ کے اس دور جاہلیت میں مظلوم حضرت بلا ل کو گرمیوں کی کڑکتی دوپہر میں اذیت خانے سے نکالا جاتا، پیا سے ، زخمی، بے یار و مدد گار مظلوم کو گرم ریت پر نوکیلے سنگریزے بچھا کر برہنہ حالت میں منہ کے بل لٹا دیا جاتا اور ان کی پشت اتنی بھاری چٹان رکھی جاتی جس کو کئی لوگ مل کر اٹھاتے ۔ اور اس دن تو مکہ کی عورتوں نے اپنے مکانوں کی کھڑکیاں بندکر لیں جس دن بلا ل کو صحرا میں نصب اس کھمبے کے ساتھ باند ھ دیا گیا ۔جس کی تنصیب کا مقصد ہی غلاموں کو اس کے ساتھ باندھ کر ایسی سزا دینا مقصود تھا جس کو دیکھنا عورتوں کے لیے ممنوع تھا۔ 

رسول اللہ ﷺ حضرت بلال کی حالت زار پر بے چین تھے ایک بار انھوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے فرمایا 
ْ اگر میرے پاس رقم ہوتی تو میں بلال کو خرید لیتا ْ 
حضرت ابو بکرؓ نے امیہ کے پا س جا کر کہا کہ بے چارے غلام پر اس قدر ظلم نہ کرو اگر وہ اللہ واحد کی عبادت کرتا ہے تو اس میں تمھارا کیا نقصان ہے ۔ اگر تم اس پر مہربانی کرو تو قیامت والے دن تم پر مہربانی کی جائے گی۔ مگروہ قیامت ہی کو کب مانتا تھا۔کہا یہ میرا غلام ہے میں جیسا چاہوں اس کیساتھ سلوک کروں۔
حضرت ابو بکر نے کہا تم طاقت ور ہو جب کہ یہ بچارا بے بس غلام ہے ۔ اس پر ظلم تمھاری شان کے خلاف ہے ۔اور عربوں کی روایات کو داغدار کرنے کے مترادف ہے ۔
اس کے جواب میں امیہ نے کہا او ابو قحافہ کے بیٹے اگر تم اس غلام کے اتنے ہی ہمدرد ہو تو اسے خرید کیوں نہیں لیتے۔
حضرت ابوبکر سے پوچھا کیا قیمت لو گے 
امیہ نے کہا تمھارے پاس جو فسطاط نامی رومی غلام ہے وہ مجھے دے دو اور اس کو لے جاو۔ حضرت ابو بکر راضی ہو گئے تو امیہ کے اندر کا تاجر جاگ اٹھا اس نے کہا فسطاط کے ساتھ اس کی بیوی اور بیٹی بھی ہو اور چالیس اوقیہ چاندی بھی۔ ابو بکر نے سودا منظور کیا ۔ بلال کو اٹھایا اپنی چادر سے ان کا بدن صاف کیا۔ نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا۔
جب بلال رسول اللہ کے پاس لائے گئے ، انھیں دیکھ کر رسول اللہ کی انکھیں بھر آئیں، حضرت علیؓ جو اس وقت کم سن تھے بولے آپ انھیں دیکھ کر رو کیو رہے ہیں ، رسول اللہ نے فرمایا ْ علی یہ وہ شخص ہے جسے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوئی ہےْ 
رسول اللہ نے بلال کو گلے سے لگایا اور فرمایا ْ بلال جب تک دنیا قائم ہے یہ بات یاد رکھی جائے گی کہ اسلام کی راہ میں اذیت برداشت کرنے والے اول شخص تم ہوْ 
حضرت ابو بکر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول گواہ رہئے گا میں نے بلال کو آزاد کیا۔اللہ کے رسول نے صدیقؓ کے حق میں دعا فرمائی۔

ایک مغربی تاریخ دان نے لکھا ہے کہ محمد نے بلال کواپنا فنانس سیکرٹری مقر ر کر دیا تھا۔ لیکن حقیقت تو  یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے پاس فنانس نام کی کوئی شے موجود ہی نہ تھی ۔
نبی اکرم ﷺ کی ہدائت پر بلال نے ایک مفلوک الحال بھائی کو غلہ، کمبل اور کپڑے ادہار لے کر دئے اور اپنی ذات کو یہودی کے پاس رہن رکھ دیا ۔

 حضرت بلال رسول اللہ کا  نیزہ اٹھا کر رسول اللہ کے ساتھ چلا کرتے تھے۔ اور جب رسول اللہ نماز کے لیے قیام 
فرماتے تو بلال اپنا نیزہ سامنے گاڑ دیا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ قباء تشریف لے جاتے تو بلال کی اذان سے مسلمانوں کو رسول اللہ کی آمد کی خبر ہو جاتی۔ اذان بلالی گویا نبی اکرم ﷺ کے موجود ہونے کا نشان بن گئی تھی ، اور نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد جب بلال دمشق سے زیارت کے لئے مدینہ تشریف لائے تو صبح کے وقت اہل مدینہ نے وہ اذان سنی جو رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کی خبر دیا کرتی تھی تو اہل مدینہ آنسو بہاتے  
ہوئے گھروں سے مسجد کی طرف دوڑ پڑے تھے ۔ 
 حضرت بلال نے خلیفہ دوئم سیدنا عمر بن خطاب کے دور میں بیت المقدس میں بھی اذان دی تھی
حضرت بلال نے یمن میں ہندنامی عورت سے نکاح کا پیغام بھجوایا تو ھند کے گھر والوں نے رسول اللہ ﷺ سے تصدیق چاہی تو انھیں جواب ملا ْ تمھیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ تم ایک جنتی شخص کو اس کی حیثیت سےکم خیال کرو ْ 
حضرت بلال نے عدی بن کعب کے خاندان میں بھی شادی کی تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ہمشیرہ ان کے نکاح میں تھیں۔ بنو زہرہ میں بھی ان کی زوجہ تھی۔ حضرت ابو درداء کے خاندان کی ایک عورت ان کی زوجہ بنیں۔ اور حضرت ابو بکر کی صاحبزادی کے ساتھ بلال کا نکاح خود رسول اللہ ﷺ نے کرایا تھا۔ 

تاریخ انسانیت اور روسائے مکہ نے فتح مکہ والے دن اپنی آنکھون سے دیکھ لیا کہ  ایک غلام ابن غلام ، غربت میں پسا ہوا، رنگ دار بلال  " اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقوی والا ہے " کی عملی تفسیر بن کر مقام ابراہیم اور حجر اسود سے بلند تر ، مقدس ترین بیت اللہ ، کی چھت پر کھڑا ہے ۔ 
  اور اپنی   دلپذیر آواز میں بر ملا پکار پکار کر کہہ رہا  ہے
اللہ اکبر اللہ اکبر

عقائد کا اختلاف

عقائد کا اختلاف تو دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا۔ انسان اس بارے میں کلیتاََ آزاد ہے کہ اپنے دلی یقین کے مطابق جو عقیدہ چاہیے اپنائے اور اپنی نجات جن نظریات پر چاہیے تصور کرے مگر یہ حق کسی کو نہیں دیا جاسکتا کہ اپنے عقائد کو جبراََ کسی پر ٹھونسنے کی کوشش کر ے یا ایسے عقائد کے مطابق عمل پیرا ہو جو ظلم و تعدی کی تعلیم دیتے ہیں۔ اختلافات معقول حد تک دور کرنے یا سچائیوں کو پھیلانے کا صرف ایک طریق ہے کہ امن و سلامتی کے ماحول میں ہر تعصب سے پاک ہو کر ایک دوسرے کے خیالات اور نقطہء نظر کو دیانتداری سے سنا جائے اور جو بات ہمارے نزدیک درست نہ ہو بڑے احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کیا جائے۔ مضبوط دلائل سے اپنے مذہب کی حقانیت واضح کی جائے اور دوسرے کے کے نقطہ نظر یا عقیدہ کے نقائص کو ہمدردانہ انداز میں سامنے لایا جائے۔ بےجا الزامات سے گریز کرتے ہوئے ایسا انداز اختیار نہ کریں جس سے نفرت بڑھے۔ ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ ہمارے نظریات اور محترم شخصیات کو بُرا بھلا کہا جائے، ہمیں بھی دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنا چا ہیے۔

جمعرات، 21 دسمبر، 2017

خوف اور غصہ

1984
 کاذکر ہے ، حکومت کویت اپنے اداروں میں کمپیوٹر کو متعارف کرارہی تھی۔ اس کام کا ٹھیکہ امریکی نیوی کے ایک کنٹریکٹر کے پاس تھا ۔ اس ٹیم میں ہم دو پاکستانی اور چند بھارتی بھی بطور معاون ساتھ تھے 
ایکوپمنٹ اور ماہرین سب امریکی تھے ۔میرا زندگی میں امریکیوں کے ساتھ کام کرنے کا پہلا تجربہ تھا ۔مگر بچپن کی سنی یہ بات سچ لگی کہ بعض اقوام کی سوچ بعض اقوام سے دس سال اور بعض سے پچاس سال آگے کی ہوتی ہے۔ایک پسماندہ ملک کے نوجوان کا ترقی یافتہ ملک کے تجربہ کار فرد سے متاثر ہونااور وہ بھی اپنے باس سے ، معمول کی بات ہے ۔ مگر اس کی باتیں حقیقت کی ترجمان ہوتی تھیں، ایک باراس نے وزارت ک ایک انتظامی نوٹس پر کہا تھا ْ عرب وہ ریوڑ ہے جس نے اپنے جاہل غلہ بان سے امید لگا رکھی ہےْ 



زندگی میں ملنے والے لوگوں کو انسان بھول جاتا ہے مگر کچھ باتیں بھلائے نہیں بھولتیں مثال کے طور پر
1977
 میں عراق میں میرا ایک لولیگ دمشق کا یہودی تھا اور جب اس نے نصیحت بھرے لہجے میں بتایا کہ عرب اسرائیل کا مقابلہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ اسرائیلیوں کے اعمال ان کی سو سالہ سوچ بچار سے کشید ہوکر 
نکلتے ہیں

ٓآج آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں ایک گاڑی راہ چلتے لوگوں پر چڑھ دوڑی تو میرا پہلا رد عمل یہ ہوا کہ 
معلوم کروں ڈرائیور مسلمان تو نہیں ؟ 

بد قسمتی سے
32
 سالہ ڈرائیور گو آسٹریلین ہے مگر پتہ لگا لیا گیا ہے کہ وہ افغان الاصل ہے اور اس نے داڑہی بھی رکھی ہوئی ہے۔اس کا ساتھی جو اس واقعے کی فلم بنا رہا تھا بتایا گیا ہے کہ اس کی تلاشی کے دوران اس کے بیگ سے تین خنجر بر آمد ہوئے ہیں


میرے ذہن میں خوف تو لاکھوں لوگوں کے ذہن میں ( غلط ہی سہی) غصہ ہے ، اور خبر پڑہنے والوں کے فوری رد عمل میں سے ایک جملہ میرے ذہن میں اٹک کر رہ گیا ہے

 ْ مجرموں کو ڈرائیونگ کا کوئی حق نہیں ہے ْ

کیا پے در پے راہ گیروں کو کچلنے کا عمل ایک دن ْ مجرموں ْ سے گاڑی ڈرائیو کرنے کا حق چھین لے گا۔

بدھ، 20 دسمبر، 2017

ٹھنڈ




آج دفتر ْ ٹھنڈا ٹھارْ ہے ، گل خان نے دودھ والی چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سردی کی شدت پر تبصرہ 
کیا۔چائے میری طرح گل خان کی بھی کمزوری ہے ، وہ جتنی اچھی چائے بناتا ہے اس سے بھی اچھا قہوہ بناتا ہے ۔ راولپنڈی چھاونی کے علاقے میں میرے دفتر میں صبح سے ہی دوستوں کی رونق لگ جاتی ہے ، اس رونق کو گل خان کے ماہر ہاتھوں کا بنا قہوہ بہت تقویت پہنچاتا ہے ۔آج مگر دفتر میں رونق کی عدم موجودگی نے گل خان کو ہی نہیں مجھے بھی احساس دلایا کہ ْ ٹھنڈ ْ زیادہ ہے

میرے دفتر میں رونق لگانے والے ایک گروپ کو گل خان ْ نادیدہ قوت ْ کا نام دیتا ہے ۔ اس گروپ میں زیادہ لوگ 
پردیس پلٹ ہیں اور عام طور پر ْ زائد العمرْ کم لوگ عسکری اداروں کے پنشن یافتہ ، اس سے بھی کم علمائے دین جو اس عمر میں لکھنے لکھانے کی بجائے زبانی جہاد کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور بالکل کم تعداد ایسے تاجروں کی ہے جو تجارت میں خسارہ سہہ چکے مگر مشورہ دینے میں خود کو صف اول میں رکھتے ہیں۔

اس گروپ کے تمام ممبران میں کچھ باتیں مشترک ہیں مثلا ان پر کوئی گھریلو مالی ذمہ داری نہیں ہے ، زندگی جیسے بھی گذری مگر اس وقت ان کی پانچوں دیسی گھی میں اور سر ائر کنڈیشنڈ کمروں میں نرم تکئے پر ہے۔ان کے پسندیدہ موضوع مذہب اور سیاست ہے۔ مذہب پربات کے دوران ان ک منہ سے دلیل اور تاریخی حوالوں کی گردان نئے سامع کو ان کی علمی رفعت کا گرویدہ بنا دیتی ہے پرانے سامعین البتہ دوران گفتگو پہلو بدلتے رہتے ہیں۔فیض آباد دھرنے کے دوران ڈنڈے اٹھائے لفافے وصولتے نوجوان ان کے اصلی جانباز اور حرمت مقدسین کے محافظین ہیں۔اور کرسی کے نیچے سے کفن نکال کر سر پر باندھ لینا ایسا واقعہ ہے کہ کربلا کی یاد تازہ کرتا ہے۔

سیاسی میدان میں ، اسلام آباد میں دھرنہ نمبر ۱ کے دوران پارلیمنٹ کے احاطے میں قبریں کھودنا اور کفن بیچنا پسندیدہ عمل بتاتے ہیں ۔ اور موجود حکومت سے شہیدوں کے قصاص کی وصولی ایسا عمل بتاتے ہیں کو اسرائیل کوفتح کرنے جیسا ہے کہ موجودہ حکمرانوں اور اسرائیلیوں میں تفریق کرنا اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے وطن سے غداری جیسا عمل ہے۔
ان کی ذاتی کاوشوں میں افواہ سازی اور اس کو پھیلانا، بے بنیاد خبروں کی تراش ، لمبی خواہشات کی طلب ، اور ماہریں کی حکومت کی خواہش شامل ْ حالْ ہے


آرمی چیف کے سینٹ کے دورے کے بعد ْ نا دیدہ گروپ ْ کے ایک دوست کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ کل سے ان کا گلہ خراب ہے اور ٹھنڈ کی بھی شکائت ہے ۔دوسرے ، تیسرے حتیٰ پورے سات لوگوں سے فون پر رابطہ کیا ۔ سب پر ٹھنڈ ہی پڑی ہوئی ہے۔ آخری فون کر کے میں نے گل خان کو مخاطب کیا ْ ٹھنڈ ْ واقعی 
زیادہ ہے