جمعرات، 12 اکتوبر، 2017

اجتماعی گناہ


میں اس دن سے سکولوں میں استادوں کی اہلیت پر بہت پریشان تھا جس دن یوم پاکستان کی تقریب میں ایک استاد نے کہا تھا ْ لیاقت علی خان نے ملک امریکہ کے پاس گروی رکھ دیا تھا ْ 
کل رات ٹی وی پر ٹاک شو چل رہا تھا ،موضوع ملک میں کرپشن تھا ْ نواز شریف بھی ناظم الدین کی طرح ہے وہ بھی دونوں ہاتھوں سے کھاتا تھا ْ اپنے نوجوان بیٹے کے تبصرے پرمیں چونک پڑا ، آپ کو یہ معلومات کہاں سے ملی ہیں ْ پاکستان میں سترہ مسخرے ْ نامی ویب سائٹ سے
میری وہ جستجو ختم ہوئی کہ ْ اجتماعی گناہ ْ کیا ہوتا ہے

گدھے


ترقی عوام کا حق ہے
عوام جاہل اور گنوار ہی نہیں ذہنی غلام بھی ہے
ہماری بات گدہوں کی سمجھ میں نہیں آتی
ان جاہلوں کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہوا ہے
حساب مانگنا عوام کا حق ہے
جاپان نے تعلیم کے ذریعے ترقی کی ہے
برطانیہ میں وزیر اعظم چھوٹے گھر میں رہتا ہے
کینیڈا کا وزیر اعظم دو کمرے کے فلیٹ میں رہتا ہے
رشید نے اسے ٹوکا ْ تم نے کبھی چین کی مثال نہیں دی ْ 
چینی گدھا خور قوم ہے، ان کی سوچ بھی گدھوں والی ہیں 
رشید نے پھر ٹوکا ْ اور کام بھی گدھے کی طرح کرتے ہیں ْ 

بدھ، 11 اکتوبر، 2017

شکائت


ابراہیم کالج میں میرا دوست تھا۔عملی زندگی شروع ہوئی تو پردیس جا بسا، میں اپنے بکھیڑوں میں مگن ہو گیا۔وہ ریٹائر ہو کر واپس آیا تو ہماری مردہ دوستی میں پھر سے جان پڑ گئی۔شام کو آتا دیر تک باتیں ہوتیں،اس کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے ، سب صاحب اولاد ہیں ،
 میرا پوتا دھمکا ، اپنی ماں کی شکائت لگانے۔
اس کے درجن بھر پوتے اور نواسے ہیں، بچوں ہی کا ذکر ہو رہا تھا کہنے لگا
 ْ بیٹے میرا بہت احترام کرتے ہیں مگر ْ
 میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ، مسکرا دیا ،کہنے لگا 
ْ میرے پوتے مجھ سے اپنی ماں کی شکائت نہیں کرتے ْ 

صادق وامین


پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیا تو معاشرے میں صادق و امین پر طویل بحث شروع ہو گئی ہے۔صادق و امین کی تعریف ہر کوئی اپنی ذہنی بساط اور علم کے مطابق کر رہا ہے۔اس بحث کے دوران جماعت اسلامی کے امیرجناب سینیٹر سراج الحق کا نام عدالت میں بھی سنا گیا اور صادق و امین ہونے کے حوالے سے عدالت کے باہر بھی سے ان کے نام کا ڈنکا بجتا رہا۔عوام جماعت کو ووٹ تو نہیں دیتے مگر اس بات پر خوش ہے کہ پاکستان میں کوئی تو بطل جلیل ایسا ہے جس کی پوشاک پر کرپشن کادھبہ نہیں ہے۔لیکن کب تک ۔۔۔۔!
پاکستان میں سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا (اب الیکٹرونک میڈیا کو بھی شامل کر لیں) میں ایسے ایسے نابغہ روزگار بقراط صفت لوگ موجود ہیں جو سامنے کھڑے شیر کو گدھا ثابت کرنے کا ارادہ کر لیں تو اس پر ایسی ایسی دلیلیں لائیں گے کہ انسان ان کے علم کی داد دنہ بھی دے تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں تاویلات کا میدان وسیع ہے اور گھوڑے بے لگام ہیں۔حال ہی میں ایک اخبار کے تجزیہ نگار نے سینٹ میں منظور ہونے والی ایک قانونی ترمیم کو لے کرسراج الحق کی ذات کو موضوع بناتے ہوئے اپنے قلم کا زور دکھاتے ہوئے لکھا ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 ء میں ترمیم کا حکومتی بل اپوزیشن کی اکثریت کے باوجود ملی بھگت کر کے پا س کرایا ہے اس سے آنے والے دنوں میں جمہوری نظام کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور اس سارے عمل کی ذمہ داری جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق پر ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ امیر جناب قبلہ محترم سراج الحق پارٹی اجلاس کو اہم تصور کرتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد میں سینٹ کے اجلاس میں تشریف ہی نہیں لائے، ایک ایسے بل کی منظوری کے موقع پر جو آرٹیکل 62,63 کے تحت نااہل ہونے والے شخص کو دوبارہ اپنی پارٹی کا سربراہ بنا سکتا ہے۔ وہ عین موقع پر غائب ہو جاتے ہیں اس لیے اب سراج الحق بھی صادق و امین نہیں رہے۔
ہماری سوچیں اس قدر پست اور خیالات اس قدر منفی ہو چکے ہیں کہ ایک دن ایک سیاستدان کی تعریف کی جاتی ہے اور ابھی قلم کی سیاہی خشک بھی نہیں ہونے پاتی مگر پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی اسی حمام میں ہے جہاں سب ننگے ہیں، مقام حیرت ہے کہ 20,22 کروڑ کی آبادی میں ننگے صرف ساستدان ہی ہیں، ہر قسم کا منافقانہ کردار ، غدارانہ سوچ اور عوام دشمنی کا عمل سیاستدانوں ہی کے خمیر میں ہے، سیاستدانوں کے علاوہ اس ملک میں فراش سے لے کر اعلیٰ عہدے داروں تک سب نیک و پاک ہیں ۔ ہمارے اس رویے نے نتیجہ یہ دیکھایا ہے کہ ستر سالوں میں سترہ سیاستدان وزراء اعظم کو بے توقیر کر کے وزیر اعظم کی کرسی سے اتارا ہے اور اسی پر بس نہیں ہے بلکہ جو سیاستدان اس کرسی تک پہنچنے کا نیت و ارادہ کرتا ہے وہ بھی ناقدوں کی سخت و ترش تنقید کا شکار رہتا ہے۔تنقید وہ آسان عمل ہے جو ہر شخص فرض سمجھ کر پورا کرتا ہے، مگر ستر سالوں سے تنقید کے تبرے صرف سیاستدانوں ہی کے حصے میں آتے ہیں، باقی ہر قسم کے حکمران ، فوجی ہوں کہ درآمد شدہ گویا دودھ میں نہائے ہوئے اور صادق و امین ہیں حالانکہ انکی کرپشن کی سزا ملک و عوام ان کے چلے جانے کے بعد بھی عشروں تک بھگتتے رہے ہیں اور بگھت رہے ہیں۔
صحافی ، تجزیہ کار اور تعلیم یافتہ لوگ اپنی لیاقت و قابلیت کو استعمال کر کے معاشرے کی بہتری اور چھے مستقبل کی طرف رہنمائی کرنے والے ہوتے ہیں، مگر پاکستان میں یہ لیاقت سویلین دور میں سیاستدانوں کی ٹانگیں کھینچنے اور غیر سویلین ادوار میں حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور خوشامد کرنے میں استعمال ہوتی ہے ۔اور اپنے اس فن کو ہم نے خود ہی صحافت کا نام دے رکھا ہے ۔
صحافی اور تجزیہ نگار کا منصب یہ ہے کہ وہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر معاشرتی امراض سے آگاہ کرے اور عوام و حکمرانوں کے لیے ان راہوں کی نشان دہی کرئے جن راہوں پر چل کر وہ منزل کا قرب حا صل کر سکیں۔

تحریر:دلپذیر احمد

منگل، 10 اکتوبر، 2017

کردار

کردار
قدیم بیانیہ: دودن مرد لے لیے باعث مسرت ہوتے ہیں ایک شادی 
والا دن دوسرا بیوی کی موت کادن 
متوسط بیانیہ: تونے شادی کر لی تو عورت تجھ کو خدا سے دور کر دے گی
الیکٹرانک بیانیہ: میں ایک کلو میٹر سے خاتون کا کردار پہچان لیتا ہوں