جمعہ، 18 مئی، 2018

گرین لینڈ

رمضان المبارک 2018 کی خصوصیت یہ ہے کہ عام طور پر ساری دنیا میں اس سال رمضان المبارک ایک ہی دن یعنی 17 مئی کو شروع ہو رہا ہے البتہ سحر و افطار کے اوقات مقامی وقت کے لحاظ سے طے ہوتے ہیں ۔ دنیا بھر میں طویل ترین روزہ مملکت ڈنمارک کے ملک گرین لینڈ میں ہوتا ہے جہاں روزے کا دورانیہ 21 گھنٹے کا ہو گا۔ 
گرین لینڈ بحر شمالی اور بحر اوقیانوس کے درمیان، براعظم شمالی امریکہ میں واقع ہے۔ کینیڈا کی سرحد سے متصل گرین لینڈ 1814 سے ڈنمارکی بادشاہت کے زیر نگین علیحدہ ملک ہے جس کے دارلحکومت کا نام ْ نوک ْ ہے اس کا رقبہ 2166,000 مربع کلو میٹر اور آبادی 57,000 نفوس کے لگ بھگ ہے۔ ملک میں ڈنمارکی کراون بطور کرنسی استعمال ہوتا ہے ۔ گرین لینڈ کی اپنی زبان ہے جس کو ْ گرین لینڈی زبان ْ کہا جاتا ہے ۔گرین لینڈ کم ترین آبادی پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے۔ نوک کا ڈنمارک سے فاصلہ 3645 کلومیٹر ہے
مذہبی طور پر آبادی عیسائی اکثریت پر مشتمل ہے مگر آبادی کا 0.01% حصہ مسلمان بھی ہے ۔ ان مسلمانوں میں پاکستانی الاصل لوگ بھی ہیں۔جن کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔
اس ٹھنڈے اور یخ بستہ ملک میں روزے کے طویل ترین دورانئے کے علاوہ مزید دو عوامل ایسے ہیں جس ان کو باقی دنیا سے منفرد کرتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ اپنی زبان میں تحریر کے دوران پورے جملے کو بطور ایک لفظ لکھتے ہیں ۔ اس ملک کی دوسری انفرادیت وہاں نوجوانوں کو خود کشی کا ارتکاب کرنا ہے ۔ اس ملک میں نوجوانوں میں خود کشی کا رجحان دنیا بھر میں اب سب سے زیادہ ہے

جمعرات، 17 مئی، 2018

حجر اسود

حجر اسود


ذی الحجہ 317 ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال حج بیت اللہ نہ ہوسکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جاسکا۔ یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہوگیا، اسی ابوطاہر قرامطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا۔ پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابوطاہر کے ساتھ معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیئے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا۔ یہ واپسی 339 ھ کو ہوئی، گویا بائیس سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا۔ جب فیصلہ ہوا کہ حجراسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث عبداللہ کو حجراسود کی وصولی کے لئے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا۔ یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو اُن کے حوالہ کیا جائے گا۔ اب انہوں نے ایک پتھر جو خوشبودار تھا ، خوبصورت غلاف سے نکالا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں۔ محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا۔ اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا گیا تو سخت گرم ہوگیا یہاں تک کہ پھٹ گیا۔ محدث عبداللہ نے فرمایا یہ ہمارا حجر اسود نہیں ۔ پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ پانی میں ڈوب گیا اور آگ پر گرم ہوگیا، فرمایا کہ ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے۔ پھر اصل حجراسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا ، ’’یہی ہمارا حجراسود ہے اوریہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے‘‘۔ اس وقت ابوطاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں ؟تو محدث عبداللہ نے فرمایا: یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہوگا۔ ابوطاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے۔ جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچا یا، اس اونٹنی میں زبردست قوّت آگئی اس لئے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جارہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جارہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مرگئے۔‘‘
(تاریخ مکہ للطبری)

پیر، 7 مئی، 2018

تیرے میرے خواب


                                

کہا جاتا ہے ساون کے اندھے کو ہریالی ہی نظر آتی ہے ۔ اس ایک جملے میں زندگی کی بہت بڑی حقیقت کو بیان کر دیا گیا ہے۔خواب کا تعلق انسان کے طرز معاشرت اور اس کے علم سے جڑا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھنا یا سیدنا یوسف علیہ السلام کا گیارہ ستارون اور چاندو سورج کو سجدہ ریز دیکھنا۔
طرز معاشرت کی وضاحت ان دو غلاموں کے خواب سے ہوتی ہے جو سید نا یوسف علیہ السلام کے ساتھ قیدخانہ میں تھے ۔ ایک بادشاہ کا ساقی تھا اس نے خواب میں خود کو رس نچوڑ کر بادشاہ کو پیش کرتے دیکھا تو بادشاہ کے باورچی نے دیکھا کہ اس کے سر پر روٹیاں ہیں۔
انسان کا ذہن جن معاملات کے بارے مین فکر مند ہوتا ہے ، اس کو نیند میں خواب بھی ان ہی معاملات کے متعلق نظر
آتے ہیں مثال کے طور پر مصر کے ایک بادشاہ نے خواب میں سات دبلی اور سات موٹی گائیں دیکھی تھیں۔ موجودہ دور میں ایک شخصیت نے اپنے خوابوں کا سلسلہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ ان سے رہائش و طعام و سفر کے اخراجات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
درپیش مہمات بارے خواب دیکھنے کی مثال نبی اکرم ﷺ کا جنگ بدر سے قبل دشمنوں کی تعداد بارے خواب ہے یا ہجرت نبوی ﷺ کے پانچویں سال میں آپ ﷺ کا یہ خواب کہ وہ اپنے اصحاب کے ساتھ عمرہ ادا فرما رہے ہیں اور اطمینان سے حرم شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔جن دنوں نماز کی دعوت کے طریقوں پر غور ہو رہا تھا تو ایک صحابی رسول ﷺ نے اذان خواب میں دیکھی تھی۔
کتابوں مین مذکور ہے کہ الیاس ہاوی ، جس نے سلائی مشین بنائی تھی، دن رات اس کے ڈیزائن ذہن میں بنایا کرتا تھا تو ایک دن اس نے مکمل ڈیزائن خواب میں دیکھ لیا۔بابل کے نامور بادشاہ بنو کد نصر نے بھی آنے والے وقت میں حکمرانی کا عروج و زوال بھی خواب میں ہی دیکھا تھا۔ موجودہ دور میں ایک خواب کا چرچا رہا جس میں ایک روحانی عالمہ نے اپنے شوہر سے طلاق لے کر ایک سیاسی شخصیت سے شادی کر لی تھی ۔ اور وجہ عالم رویا میں نظر آنے والا خواب بیان کیا گیا تھا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ کو نارول میں ۶ مئی والے دن گولی مار کر زخمی کرنے والے عابد نامی ملزم نے بھی اس جرم کی ہدائت ایک خواب کے ذریعے پائی تھی۔
خوابوں دیکھنا ، خواب دکھانا اور خواب کو سچ کر دکھانا ، تین مختلف قسم کے اعمال ہیں ۔ خواب ہر بینا شخص دیکھتا ہے، خواب دکھانا رہنمائی کے دعویداروں کا شغل ہے مگر خوابوں کو سچا کر دکھانا اصحاب کمال کا کام ہوتا ہے ۔
مادر زاد اندھا خواب نہیں دیکھتا، سچے خواب رحمان کی طرف سے مگر جھوٹے خواب دکھانا شیطان کا شیوہ ہے ، باکمال لوگ اپنے خواب کو حقیقت میں ڈھالتے ہیں ۔
انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر باکمال پر سنگ باری لازمی ہوئی ہے

اتوار، 6 مئی، 2018

5th Generation War


ففتھ جنریشن وار پاکستان میں بہت پہلے شروع ہو چکی تھی ۔ ہم اس کو سیاست کا کھیل سمجھتے رہے، بلوچستان کی حکومت گرنے سے لے کر فاٹا سے اٹھے حقوق کا واویلا کرتے نوجوان ہی نہیں بلکہ مہینوں پہلے پاناما یا اقامہ پر فیصلہ آنے کے بعد بدلتے سیا سی حالات کی کھلتی گرہیں ، پھر نا اہلیوں اور چلتی گولیوں نے ففتھ جنریشن وار کی اصلیت کو کھول کر رکھ دیا۔ وہ عنوان جس کو ہم دور کا ڈھول گرداننتے تھے ۔ اپنے صحن مین بجتا دیکھ لیا۔ جب تصور حقیقت مجاز کا روپ دھار کر آنکھوں کے سامنے آ جائے تو پھر یقین نہ کرنا کفر ہی کہلاتا ہے اور اللہ جو کہ ستار العیوب بھی ہے کفر کے گناہ سے محفوظ رکھے ۔
ففتھ جنریشن وار کی تشریح کرتے ایک امریکی جرنیل شانون بیبی Shannon Beebi نے کہا تھا کہ یہ تلخی اور مایوسی کا پیدا کردہ ایسا پر تشدد بھنور ہو گا جو کسی کو کچھ سجھائی نہ دینے والی کیفیت پیدا کر دے گا۔ مگر مقتدر قوت کی گرفت میں رہے گا ۔ اس کو یون بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس پر تشدد بھنور کو جو گرفت میں لے پائے گا وہی مقتدر قوت ہو گی۔
اس کی ابتداء یون ہو گی کہ معاشرے اور انسانوں کی تمام تر محرومیاں آنکھوں کے سامنے یون سجا دی جائیں گی جیسے میز پر رکھے گلدان میں رنگین پھول سجائے جاتے ہیں، ہر پھول اور ہر رنگ آنکھوں کے ذریعے دماغ میں احساس محرومی پیدا کرتا رہے گا۔ اس کیفیت کے پیدا ہونے کے بعد فورتھ جنریشن وار کی تکنیک کے ذریعے اس جنگ کو جیتا جائے گا جس کا تجربہ 1979 میں افغانستان سے شروع ہو کر عراق اور لیبیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا ہے۔
میرین کارپ مییگزین Marine Corp Magazine میں سائع ہونے والے ایک مضمون میں Lt Col Stanton Coerr کے مطابق ملکوں اور معاشروں میں سیاسی تعطل اس جنگ کے حربوں میں ایک حربہ ہے۔کرنل نے لکھا ہے اس جنگ کو فوجی جنتا ہی جیتے گی جس کی ہم نصرت کر رہے ہوں گے، وہ کچھ بھی نہ کھو کر کامیاب ہوں گے تو ہم ناکام نہ ہو کر کامیاب ہو جائیں گے

عمر کا کوڑا


ہمارے ہاں اسلامی نظام کا ذکر آٗے توحضرت عمر بن خطاب ؓ کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے ۔ عمر ایسا با برکت نام ہے کہ جب بھی عمر نام کے کسی خلیفہ کی حکومت آئی امن و امان کے حوالے سے وہ دور منفرد ثابت ہوا ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں بھی امن و امان خوب رہا بلکہ معاشی درستگی کے حوالے سے ان کا دور اس لیے منفرد رہا کہ جب انھوں نے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لی تو کرپشن عام تھی، مگر ہم حیران ہوتے ہیں کہ تقریبا دوسال کے عرصے میں ملک سے کرپشن ہی کا خاتمہ نہ ہوا بلکہ اس دور میں رسول اللہ کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی کہ معاشی محتاجگی کا خاتمہ ہوا ۔
حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عمر بن عبدالعزیزکی شخصیات انتظامی لحاظ سے بالکل مختلف تھیں ، ایک عمر کے دوران کا شعار ان کا ْ کوڑا ْ تھا تو دوسرے عمر کے دوران میں ْ سزا ْ کا فقدان نظر آتا ہے ۔حکمرانوں کے بارے میں بعض باتیں مشہور ہو جاتی ہیں جو ہوتی تو حقیقت ہیں مگر ان میں غلو ہوتا ہے ، حضرت عمر بن خطاب کا کوڑا اتنا موٹا نہیں تھا مگر تاریخ کے غلو نے اس کو ضرورت سے زیادہ نمایا ں کر کے ایک فقیر منش، خوف خدا رکھنے والے حکمران کے ساتھ انصاف نہیں کیا ۔
کوڑا سختی کی علامت ہے ، اسلام میں سختی کی حوصلہ شکنی پائی جاتی ہے ۔ اللہ تعالی خود انسان کو موقع دیتا ہے کہ ْ مانو یا انکار کر دو ْ خود رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سختی سے بالکل ہی مبرا ہیں ۔ بلکہ تسخیر انسان کا جو رستہ بتایا گیا وہ تسخیر قلوب ہے۔ اور عام سی بات ہے کہ دل سختی سے نہیں بلکہ ْ پیار ْ سے مسخر ہوتے ہیں۔ پیار کل بھی تسخیر قلوب تھا اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا ۔ 
ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی سختیاں جو بہت سارے مصاحب کو جنم دے چکی ہیں ۔ ان کو پیار اور محبت کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کی ابتداء خود فرد کی ذات سے ہوتی ہوئی خاندان اور معاشرے میں پھیلتی ہے ۔ پیار اور محبت اگرْ منزل ْ مان لی جائے تو اس تک پہنچنے کی راہ کا نام ْ روا داری ْ ہے